حج کے (سیاسی پہلو کے) بارے میں

192

 حج کے (سیاسی پہلو کے) بارے میں دو علماء کا مناظرہ

اسلامی انقلاب (ایران)کی کامیابی کے بعد پید اہوئے اہم مسائل کے بانی حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ نے اپنے بیانیہ میں یہ اعلان کیا:

”حج کی دو قسمیں ہیں:حج ابراہیمی اور حج بو جہلی! حج صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ ایک مکتب اور بہترین جامع یونیور سٹی ہے۔

لہٰذا ایرانیوں اور حضرت امام خمینی ۻ کے مقلدین کے نظر میں حج کی اہمیت مزید واضح ہو گئی اور ”مشرکین سے برائت“ کا مسئلہ پیش آیا ،جس کے بہت سے مثبت آثار پائے جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے حجاز کے درباری ملاوٴ ں اور بعض پرانے نام نہاد علماء نے اشکال و اعتراض کرنا شروع کر دیا ، چنانچہ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ حج میں کسی طرح کی سیاست اور شور شرابہ نہیں ہونا چاہئے ،اور گذشتہ کی طرح صرف خشک عبادت کے طور پر حج کے اعمال بجالانا چاہئے جب کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

” جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ“۔[۱]

”اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اس کو لوگوں کے قیام اور صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے“۔

”مومنین کے قیام “کے وسیع معنی کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ خانہٴ کعبہ کے زیر سایہ اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو دور کریں ،اور اپنی زندگی کے معنوی ومادی مختلف پہلووٴں کو بہتر بنا نے کے لئے کوشش کرتے ہوئے سعادت کی منزلوں کو طے کریں۔

اس بنیاد پر دو عالموں (نام نہاد عالم اور دانشور عالم )کے درمیان ایک مناظرہ ہوا:

عالم نما: یہ کیا شور شرابہ اور بدعتیں ہیں جو حج میں داخل کر دی گئی ہیں ،حج کے دوران کسی بھی طرح کی سیاست اور جنگ وجدال نہیں ہونا چاہئے اور بالکل چین وسکون کے ساتھ حج کے اعمال انجام دینا چاہئے ،حج خود سازی اور رو ح کی پاکیزگی کے لئے ایک بہترین عبادت ہے ،اس میں کسی طرح کے نعرے زندہ باد یا مردہ باد نہیں ہونا چاہئے ،حج ابراہیمی اور حج بوجہلی ،واقعا ً ایک نئی چیز ہے اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں سنا!

عقلمندعالم: ہمارے عقیدہ کے مطابق جس طرح ہم علوی اسلام اور لعنتی معاویہ کا اسلام رکھتے ہیں، اسی طرح حج کی بھی دو قسمیں ہیں ابراہیمی ومحمدی حج ،اور بوجہلی ویزیدی حج۔

عالم نما: حج؛ نماز و روزہ کسی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا اس میں سیاست اور غیر خدائی کاموں سے پر ہیز کرنا چاہئے۔

عقلمندعالم: سیاست صحیح معنی میں عین دین ہے، یہ دین سے ہرگز جدا نہیں ہے بعض عبادتیں باوجود اس کے کہ عبادت ہیں اور گناہوں کے دور ہونے اور صفائے نفس کے لئے پاکیزہ ترین اور خالص ترین سبب ہیں۔

لیکن یہی عبادتیں سیاسی مقاصد تک پہنچنے کا سب سے بہترین وسیلہ بھی ہیں کیونکہ روح عبادت خدا کی طرف توجہ دینا ہے اور سیاست کی روح مخلوق خداپر توجہ کرنے کا نام ہے ،اور یہ دونوں حج کے مسائل میں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا جائے تو پھر حج،حج نہیں رہے گا۔

واضح الفاظ میں یوں سمجھئے کہ حج کے لئے ایک جھلکا ہے اور ایک مغز ،جو لوگ صرف حج کے ظاہری عبادتی پہلو پر توجہ کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے حج کو حقیقت سے خالی کر لیا ہے اور مغز کو دور پھینک دیا ہے اور صرف ظاہری جھلکے کو لے لیا ہے ،مکہ معظمہ کا ایک نام ”ام القریٰ“یعنی دیہات اور شہروں کی ماں ہے۔ [۲]جس طرح ماں اپنے بچوں کو کھانا دیتی ہے ،اور ان کوپرورش اور تربیت کرتی ہے اسی طرح مکہ معظمہ پر لازم ہے کہ وہ فکری ،سیاسی اور معنوی لحاظ سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو غذا فراہم کرے ،اور ان کی اسلامی رشد و نموکے لحاظ سے تربیت کرے۔

عالم نما: ہم مسلمان ہیں ،قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں کیا قرآن کریم کا ارشا د نہیں ہے؟:

”ولا جدال فی الحج“[۳]

”حج میں کوئی جنگ وجدال نہیں ہونا چاہئے “؟

لہٰذا حج کے اعمال میں ایک حاجی کو جنگ وجدال اور تو تومیں میں نہیں کرنا چاہئے ،جس حج میں مظاہرہ ،نعرہ بازی اور شور شرابہ ہو تو ایسا حج جدا ل ہے جس سے قرآن نے روکا ہے۔

عقلمندعالم: مذکورہ آیت میں جس جدل سے روکا گیا ہے اس سے مراد مومنین کے درمیان تو تو میں میں ہے ،کہ قسم بخدا ایسا نہیں ہے یا قسم بخدا ایسا ہے۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام منقول احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”جدال کے معنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔یا جو کام گناہ سے متعلق ہو، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا م فرماتے ہیں:

”جس مجادلہ میں قسم کھائی جائے ،لیکن اس سے مراد کسی مومن کا احترام ہو ،تو ایسے جد ل سے آیت میں ممانعت نہیں کی گئی ہے:بلکہ آیت میں نہی شدہ جدال سے مراد وہ جدال ہے جس میں گناہ کا تصور پایاجائے اور انسان اپنے ایمانی برادر پر غلبہ کرنا چاہئے [۴]لیکن اگر دین کے استحکام اور اس کے دفاع کے لئے ہو تو نہ صرف گناہ نہیں ہے بلکہ بہترین عبادت اور عظیم اطاعت ہے۔

علامہ فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت (سورہٴ بقرہ آیت ۱۹۷)کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ”تمام علمائے علم کلام اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ دینی امور میں جدال کرنا عظیم اطاعت ہے“۔اس کے بعد اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کی آیات سے استدلال کرتے ہیں،منجملہ سورہٴ نحل کی ۱۲۵ویں آیت جس میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

” اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحْسَنُ“۔

”آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے“۔

اسی طرح سورہٴ ہود کی آیت نمبر ۳۲ میں پڑھتے ہیں جہاں کفار کی باتوں کو بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے:

” یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَاٴَکْثَرْتَ جِدَالَنَا“۔

”(اور ان لوگوں نے کہا:) اے نوح ! آپ نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑا کیا“۔

اس آیہ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے جدال کرتے تھے، اور یہ بات واضح ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کا جدال صرف دعوت الٰہی ،یکتا پرستی اور دینی استحکام کے لئے ہوتا تھا۔

لہٰذا جس جدال سے حج میں نہی کی گئی ہے ،اس سے باطل اور بے ہودہ کاموں میں جدال ہے، نہ کہ وہ جدال جو حق وحقیقت کو ثابت کرنے کے لئے ہو۔

عالم نما:قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جدال کی مذمت کی گئی ہے اور اس کوغیر مومن کا کام قرار دیا گیا ،مثلاً سورہٴ غافر کی آیت نمبر ۴ میں ارشاد ہوتا ہے:

”مَا یُجَادِلُ فِی آیَاتِ اللهِ إِلاَّ الَّذِینَ کَفَرُوا“۔

”اللہ کی نشانیوں میں صرف وہ جھگڑا کرتے ہیں جو کافر ہوگئے ہیں۔۔۔“۔

سورہٴ حج آیت نمبر ۶۸ میں ارشاد ہوتا ہے:

” وَإِنْ جَادَلُوکَ فَقُلْ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ“

”اور اگر یہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے“۔

اسی طرح سورہٴ انعام آیت ۱۲۱میں ارشاد ہوتا ہے:

”وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ“

”اور دیکھو جس پر نام خدا نہ لیا گیا ہو ا سے نہ کھانا کہ یہ فسق ہے اور بے شک شیاطین تو اپنے والوں کی طرف خفیہ اشارہ کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کرلی تو تمہارا شمار بھی مشرکین میں ہوجائے گا“۔

عقلمندعالم: قرآن مجید میں لفظ”جدال“کے مختلف استعمال سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدال کے وسیع معنی ہیں،جس کی مجموعی طور پر دوقسم ہیں:

۱)پسندیدہ۔

۲)نا پسند۔

جس وقت بحث و گفتگو اور دوسروں کی بات پر اعتراض حق وحقیقت روشن ہونے اور صحیح راستہ کی ہدایت کے لئے ہو تو یہ ایک مناسب اور پسندیدہ عمل ہے اور بہت سے مقامات پر یہ جدال واجب ہے ،نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے، لیکن اگر باطل کو ثابت کرنے اور ناحق بات کو ثابت کرنے کے لئے ہو تو واقعا ً ایسا جدال مذموم اور ناپسند ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ حج کے دوران ہر جدال کو ناپسند قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عالم نما:میری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت کو سیاست سے نہیں ملانا چاہئے ،حج جیسی مقدس عبادت اور بلند مقام ،سیاست ،نعرہ بازی اور مظاہرہ کرنے کے لئے نہیں ہے ،یہ مقام مخصوص عبادت یعنی حج کے لئے ہے ،کسی دوسری جگہ پر سیاست کی باتیں کریں۔

عقلمندعالم: اسلامی عبادت میں عبادی پہلو کے علاوہ دیگر پہلو بھی پائے جاتے ہیں ، چنانچہ حج میں عبادی پہلو کے ساتھ ساتھ اجتماعی، سیاسی، اخلاقی، اقتصادی اور ثقافتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں کامل اور حقیقی حج وہی ہے جس میں تمام پہلووٴں سے فیض حاصل کیاجائے،اوراگر حج میں سیاسی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو ا یسا حج ناقص ہوگا۔

ہم یہاں پر اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے حضرت امام خمینی کے بہترین کلام کو نقل کرتے ہیں:

”حج اکبر فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اس کا ایک سیاسی پہلو ہے جس کو ختم کرنے کے لئے ہر طرف سے ظالم کوشش کر رہے ہیں ،اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے پروپیگنڈہ کا اثر مسلمانوں پر بھی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کا سفر حج صرف خشک عبادت بنتا جا رہا ہے جس میں مسلمانوں کی مصلحتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ،جس وقت سے فریضہ حج قرار دیا گیا ہے اسی وقت سے اس کا سیاسی پہلو عبادی پہلو سے کم نہیں رہا ہے ،سیاسی پہلو اپنی سیاست کے علاوہ خود بھی عبادت ہے“۔[۵]

موصوف ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”لبیک لبیک “کے ذریعہ تمام بتوں کی نفی کریں اور ”لا“کے نعروں کے ذریعہ تمام سرکش و طاغوت نمالوگوں کے خلاف آواز بلند کریں،خانہ کعبہ کے طواف میں(کہ جو عشق الٰہی کی نشانی ہے)دل کو دوسروں سے خالی کریں،اور دل میںغیر حق کے خوف کو نکال پھینکیںاور خدا کے عشق کے برابر چھوٹے بڑے بتوں اور سرکشوں نیز طاغوت سے وابستہ لوگوں سے برائت کریں،کیونکہ خداوند عالم اور اولیائے الٰہی ان سے بیزار ہیں“۔[۶]

لہٰذا حج،عبادت اور سیاست دونوں کامجموعہ ہے ،اور چونکہ اسلامی سیاست بھی عین عبادت ہے ،لہٰذا ہم اسلامی سیاست کو حج سے کیسے دور کرسکتے ہیں،مثال کے طور پر اگر کسی سیب سے ا س کے پانی کو نکالیں تو کیا باقی بچے گا ؟ کیا کوڑے کو سیب کہا جا سکتا ہے؟

عالم نما: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام نیز ان کے ممتاز شاگرد ہمارے لئے نمونہ عمل اور حجت ہیں،یہ حضرات حج کے دوران صرف اعمال حج انجام دیتے تھے،ان کو سیاست سے کوئی مطلب نہ تھا۔

عقلمندعالم: یہ بات بغیر دلیل کے ہے ،اتفاقا ً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے شاگرد مناسب موقع پر خانہ کعبہ کے نزدیک سیاسی ،اجتماعی اور ثقافتی مسائل بیان کر تے تھے اور ان مختلف پہلووٴں پر اہمیت دیتے تھے ،ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔پیغمبر اکرم اور آپ کے ساتھیوں کا طواف کرتے وقت تو حیدی مظاہرہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کے ساتویں سال (یعنی فتح مکہ سے ایک سال قبل)”صلح حدیبیہ “ کے تحت اس بات کا حق رکھتے تھے کہ عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جائیں اور تین دن مکہ میں ہیں،چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ،احرام باندھ کر بہت ہی شان و شوکت کے ساتھ میںمکہ داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے ،پیغمبر اکرم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھنے کئے لئے کفار قریش کے مرد وعورت چھوٹے بڑے سبھی آئے تھے، آنحضرت اور آپ کے اصحاب کی ہیبت ان کی آنکھوں کو خیرہ کئے ہوئے تھی ،اس سیاسی اہم اور حساس موقع پر آنحضرت نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

”اپنے شانوں کو کھول دو اور شکوہ مند طور پر طواف کرو،تاکہ مشرکین تمہاری ضخیم کھال اور طاقتور بازوٴں کو دیکھ لیں“

آپ کے اصحاب نے آپ کے فرمان کی پیروی کی اور مشرکین خانہ کعبہ کے چاروں طرف صف لگائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کے عظم الشان طواف کو دیکھ رہے تھے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس وقت ”لبیک اللھم لبیک“کے نعروں کی آواز بلند ہوتی تھی ”عبد اللہ بن رواحہ“(اسلامی لشکر کے سرداروں میں سے ایک شخص)جنھوں نے اپنی تلوار کو حمائل کیا ہوا تھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلند آوازمیں بجلی کی کڑک کی طرح اس طرح ”رجز“پڑھتے تھے اور یہ نعرہ لگاتے تھے:

خلو بنی الکفار عن سبیلہ

خلو فکل الخیر فی قبولہ

یا رب انی موٴمن لقیلہ

انی رایت الحق فی قبولہ

”اے کافر زادو!پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ سے ہٹ جاوٴ،راستہ چھوڑ دو اور جان لو کہ تمام خیرو سعادت رسول اللہ کی رسالت کو قبول کرنے میں ہیں“۔

پالنے والے! میں آنحضرت کے قول پر ایمان رکھتا ہوں ،اور حق کو آپ کے فرمان کو قبول کرنے پاتا ہوں“۔[26]

اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کے لئے طواف کعبہ، شان وشوکت اوراظہار قدرت کا مظہر بن گیا جس کا تماشہ مشرکین کر رہے تھے ،حالانکہ عبادت تھی لیکن مشرکین کو مغلوب کرنے کے لئے سیاست اور اسلامی شان وشوکت کا ایک نمونہ تھا۔

حوالہ جات

(1)سورہٴ مائدہ ، آیت ۹۷
۔

(2) ”لِتُنذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا “(سورہٴ انعام آیت ۹۲ سورہٴ شوریٰ آیت۷۔)

(3)سورہٴ بقرہ آیت ۱۹۷۔

(4) مجمع البیان ،ج۲ ،ص۲۹۴۔

(5) صحیفہٴ نور ،ج۱۸ ،ص۶۶،۶۷۔

(6)صحیفہٴ نور ،ج۲، ص۱۸۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.