ايمان كامل اور مقام ذكر پہنچنے كے راستے

217

پہنچنے كے راستےايمان كے كامل كرنے اور مقام ذكر اور شہود تك پہنچنے كے لئے مندرجہ ذيل امور سے استفادہ كيا جا سكتا ہے_
1_ فكر اور دليل
وہ دلائل اور استدلالات جو توحيد اور وجود خدا كے ثابت كرنے كے لئے لائے جاتے ہيں وہ ايمان كو كامل كرنے كا سبب بن سكتے ہيں يا وہ دليليں جو فلسفہ اور علم كلام اور علم عرفان كى كتابوں ميں بيان كى گئي ہيں ان سے ثابت كيا جاتا ہے كہ تمام موجودات عالم ذات كے لحاظ سے محتاج اور فقير بلكہ عين احتياج اور فقر ہيں وہ اپنے وجود كو باقى ركھنے ميں اور تمام افعال اور حركات ميں ايك ايسى ذات كے محتاج ہيں جو بے نياز اور غنى ہو بلكہ اسى ذات سے ان كا ربط اور اتصال ہے_ تمام موجودات عالم محتاج اور محدود ہيں صرف ايك ذات ہے جو اپنے وجود ميں مستفنى بالذات ہے اور كمال غير متناہى ركھتى ہے اور وہ ذات واجب الوجود ہے كہ جس ميں كوئي نقص اور احتياج نہيں اور اسكے وجود ميں كوئي احتياج نہيں ہے_ وہ ذات تمام كمالات كى مالك ہے_ اس كے علم اور قدرت اور حيات اورتمام كمالات كى كوئي حد اور انتہا نہيں ہے ہر جگہ حاضر اور ناظر ہے اور كوئي چيز اس سے چھپى ہوئي نہيں ہے_ تمام موجودات سے نزديك ہے يہاں تك كہ وہ شاہ رگ سے خود انسان سے زيادہ نزديك ہے_ بہت سى آيات اور احاديث خدا كى انہى صفات كو بيان كرتى ہيں_خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ‘ مشرق اور مغرب خدا كى ملكيت ہے پس تم جس طرف توجہ كرو گے خدا وہاں موجود ہے_(383) نيز خدا فرماتا ہے كہ ‘ خدا تمہارے ساتھ ہے جہاں بھى تم ہو اور تمہارے كاموں كو جانتا ہے اور ان سے باخبر ہے_(384)نيز خدا فرماتا ہے كہ ‘ ہم انسان سے اس كى شاہ رگ سے زيادہ نزديك ہيں_(385)نيز خدا فرماتا ہے كہ ‘ خدا ہر چيز كو ديكھنے والا اور حاضر ہے_(386)خدا كے پہچاننے ميں غور اور فكر كرنا انسان كو كفر كى تاريكى سے نكال كر خدا پر ايمان لے آنے كى طرف لے جاتا ہے اور تكامل اور كمال تك پہنچنے كا راستہ كھول ديتا ہے اور عمل كى طرف جو ايمان كا لازمہ ہے دعوت ديتا ہے_
2_ آيات ا لہى ميں غور كرنا
خدا اس دنيا كى ہر ايك چيز كو خدا كى نشانى قرار ديتا ہے_ خدا متعدد آيات ميں تاكيد فرماتا ہے كہ خدا كى نشانيوں اور آيات ميں خوب غور اور فكر كرو تا كہ ان كى رعنائيوں اور حسن سے اور ان كے نظم اور حساب سے ہونے كيوجہ سے جو تمام عالم پر برقرار ہے ايك دانا اور قادر اور عليم اور حكيم خدا كو معلوم كرلوگے_ انسان سے اس كا مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ اپنى خلقت اور وہ اسرار اور رموز اور حيرت انگيز قدرت جو اس كے جسم اور روح ميں ركھ ديئے گئے ہيں اور اسى طرح مختلف زبانوں اور رنگوں اور شكلوں اور ہمسر كے وجود كو خوب غور سے سوچو اور فكر كرو_ اسى طرح انسان سے مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ سورج اور ستاروں كى خلقت اور ان كى منظم حركت اور حسن اور زيبائي ميں غور اور فكر كرے اسى طرح انسان سے مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ زمين اور پہاڑوں اور درخت نباتات اور مختلف سمندرى اور خشكى كے حيوانات ميں غور اور فكر كرے_ قرآن مجيد ميں اس طرح كے مطالبے كے بہت سے نمونوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے بہت ہى صحيح اور درست ہے كہ يہ جہان حسن اور تعجب ميں ڈالنے والى چيزوں سے ہے_ جس شى كو ديكھيں اس ميں سينكڑوں مصلحتيں تعجب آور موجود ہيں_ سورج ستارے كہكشاں بادل حيرت انگيز ايٹم زمين آسمان، پہاڑ، درخت، نباتات، مختلف دريائي اور خشكى كے حيوانات معدنيات، سمندر دريا، بڑے بڑے جنگل، چھوٹے بڑے، درختاور نباتات، بڑے حيوانات، ہاتھي، اونٹ يہاں تك كہ چيونٹيوں اور مچھر بلكہ حيوانات جو دور بين سے ديكھے جاتے ہيں جيسے ويرس اور جراثيم و غيرہ انسان ان كى زيبائي اور ظرافت كو جب مشاہدے كرے اور موجودات جہاں ميں جو رموز اور مصالح، ہيں اور اس جہاں كے نظم اور ضبط اور اس ميں ربط اور اتصال كو جو ان پر حاكم ہے ديكھے تو ان تمام چيزوں سے ايك ايسے خالق اور پيدا كرنے والے كا جو عظيم اور صاحب قدرت اور بے انتہا علم اور حكمت ركھنے والا ہے كا علم پيدا كريگا_ اور حيرت اور تعجب ميں غرق ہوجائيگا او ر تہ دل سے كہے گا اے ميرے رب تو نے ان چيزوں كو بيہودہ اور لغعو پيدا نہيں كيا_ ربنا ما خلقت ہدا باطلا_ آسمان كو جو ستاروں سے اوپر ہے اسے ديكھے اور ان ميں خوب غور اور فكر كرے جنگل كے پاس بيٹھ جائے اور اللہ تعالى كى عظمت اور قدت كا نظارہ كرے كہ كتنا عمدہ اور زيبا اور خوشمنا جہان ہے_
3_ عبادت
ايمان اور معرفت كے بعد انسان كو نيك اعمال اور اپنے فرائض كے بجالانے ميں سعى اور كوشش كرنى چاہئے اس واسطے كے عمل كے ذريعے ہى ايمان كامل سے كاملتر ہوتا ہے يہاں تك كہ اللہ تعالى كے قرب كے مقام تك پہنچتا ہے_ يہ صحيح ہے كہ ايمان اور معرفت اور توحيد بلندى كى طرف لے جاتى ہے ليكن نيك عمل اس ميں اس كى مدد كرتے ہيں_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ ‘ جو شخص عزت چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے كہ تمام عزت خدا كے ہاں ہوتى ہے توحيد كا نيك كلمہ خدا كيطرف جاتا ہے اور نيك عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_(387) نيك عمل كى نسبت ايمان اور معرفت كے لئے پٹرول كى ہے جو ہوائي جہاز ميں ڈالا جاتا ہے جب تك ہوائي جہاز ميں پٹرول ہو گا وہ بلندى كى طرف پرواز كرتا جائيگا اور جب بھى اس كا پٹرول ختم ہوجائيگا وہ تمام كا تمام گر جائيگا اسى طرح ايمان اور معرفت جب تك اس كے ساتھ نيك عمل انجام پاتا رہے گا وہ انسان كو اعلى مقامات كى طرف لے جاتا رہے گا ليكن جب اس كى نيك عمل مدد كرنا چھوڑ دے گا ايمان ختم ہوجائيگا_ خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ‘ اپنے پروردگار كى عبادت كرتا كہ تجھے يقيقن كا مقام حاصل ہوجائے_(388)نفس كى تكميل اور اس كى تربيت اور مقام يقين تك پہنچنے كا تنہا ايك راستہ ہے اور وہ ہے خدا كى عبادت اور بندگى اور اپنے فرائض كى بجا آوري_ اگر كوئي خيال كرے كہ عبادت كے علاوہ كسى اور راستے سے اعلى مقامات پر فائز ہو سكتا ہے تو وہ بہت ہى سخت اشتباہ كر رہا ہے_انشاء اللہ بعد ميں نيك عمل كے متعلق بھى بحث كريں گے_
4_ اذكار اور دعائيں_اسلام دعاؤں كے ہميشہ پڑھنے رہنے كو بہت اہميت ديتا ہے_ اذكار اور دعائيں پيغمبر اور ائمہ عليہم السلام سے نقل ہوئي ہيں اور ان كے پڑھنے پر ثواب بھى بتلائے گئے ہيں_ ذكر اذكار در حقيقت عبادت كى ايك قسم ہے جو نفس كى تكميل اور قرب الہى كا سبب ہوتے ہے جيسے پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ پانچ چيزيں ہيں جو انسان كے ميزان عمل كو بھارى كر ديتى ہيں_ سبحان اللہ _ الحمد اللہ اور لا الہ الا اللہ و اللہ اكبر اور نيك بيٹے كى موت پر صبر كرنا_(389)آپ(ص) نے فرمايا كہ ‘ جب مجھے معراج پر لے جايا گيا اور ميں بہشت ميں داخل ہوا تو ميں نے ملائكہ كو ديكھا كہ وہ سونے چاندى كا محل بنانے ميں مشغول تھے ليكن كبھى كام كرنا چھوڑ ديتے تھے اور كبھى كام كرنا شروع كر ديتے تھے_ ميں نے ان سے كہا كہ كيوں كام كرنے لگ جاتے ہو اور كام كرنا چھوڑ ديتے ہو؟ انہوں نے كہا جب محل تعمير كرنے كا ميٹريل آجاتا ہے تو كام كرتے ہيں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو كام كرنا چھوڑ ديتے ہيں_ ميں نے پوچھا كہ تمہارے كام كرنے ميٹريل كونسا ہوتا ہے؟ انہوں نے كہا كہ سبحان اللہ و الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ و اللہ اكبر ہے_جب مومن دنيا ميں يہ ذكر كرتا رہتا ہے ہميں ميٹريل ملتا رہتا ہے اور ہم بھى كام كرتے رہتے ہيں اور جب وہ اس ذكر سے غافل ہوجاتا ہے اور اسے پڑھنا چھوڑ ديتا ہے تو ہم بھى كام كرنا چھوڑ ديتے ہيں_(390)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص سبحان اللہ كہے تو اس كے لئے بہشت ميں ايك درخت لگا ديا جاتا ہے اور جو شخص الحمد اللہ كہے تو خدااس كے لئے بہشت ميں درخت لگا ديتا ہے اور جو شخص لا الہ الا اللہ كہے اس كے لئے خدا بہشت ميں درخت لگا ديتا ہے_ اس وقت قريشى مرد نے عرض كى _ يا رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم پھر تو ہمارے لئے بہشت ميں بہت ہى درخت ہونگے؟ آپ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ ہاں اسى طرح ہى ہوگا ليكن خيال ركھنا كہ كوئي آگ نہ بھيجنا كہ جو ان درختوں كو جلا دے كيونكہ خداوند قرآن ميں فرماتا ہے كہ اے وہ لوگو جو ايمان لے آئے ہو تم خدا اور اس كے رسول كى اطاعت كرو اور اپنے اعمال كو باطل نہ كرو_(391)جو كلام بھى انسان كو خدا كى ياد دلائے اور اس ميں اللہ تعالى كى تعريف اور تسبيح اور تمجيد ہو تو وہ كلام ذكر كہلائيگا ليكن احاديث ميں خاص خاص دعاؤں اور اذكار كا ذكر ہوا ہے اور ان كے پڑھنے كے اثرات اور ثواب بھى بتلايا گيا ہے كہ جن ميں سے زيادہ اہم لا الہ الا اللہ سبحان اللہ _ الحمد اللہ _ اللہ اكبر_ لا حول و لا قوة الا باللہ_ حسبنا اللہ و نعم الوكيل _ لا الہ الا اللہ سبحانك انى كنت من الظالمين_ يا حى يا قيوم يا من لا الہ الا انت افوض امرى الى اللہ ان اللہ بصير بالعباد_ لا حول و لا قوة الا باللہ العلى العظيم _ يا اللہ_ يا رب_ يا رحمن_ يا ارحم الراحمين_ يا ذالجلال و الاكرام_ يا غنى يا مغنى اسى طرح اور دوسرے اسماء حسنى كے جو دعاوں اور احاديث ميں نقل ہوئے ہيں_ يہ تمام كے تمام ذكر ہيں اور انسان كو خدا كى ياد دلاتے ہيں اور اللہ تعالى كے ہاں تقرب كا وسيلہ بنتے ہيں_ اللہ كى طرف رجوع كرنے والا انسان ان ميں سے كسى ايك كو انتخاب كر كے اسے ہميشہ پڑھتا رہے ليكن بعض اہل معرفت ان ميں سے بعض كو ترجيح ديتے ہيں_ بعض لا الہ الا اللہ كے پڑھنے كى سفارش كرتے ہيں اور دوسرے بعض نے سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اكبر كو انتخاب كيا ہے اور بعض نے دوسرے بعض كلمات كو ترجيح دى ہے ليكن بعض احاديث سے معلوم ہوتا ہے كہ ان سب پر لا الہ الا اللہ ترجيح ركھتا ہے_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ بہترين عبادت لا الہ الا اللہ كہا ہے_(392)
آپ(ص) نے فرمايا كہ ‘ لا الہ الا اللہ اذكار كا سردار اور ان سے بڑا ہے_(393)پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جبرائيل(ع) سے نقل كيا ہے كہ ‘ خداوند عالم فرماتا ہے كہ لا الہ الا اللہ كا كلمہ ميرى پناہ گاہ اور قلعہ ہے جو اس ميں داخل ہوجائے وہ عذاب ديئے جانے سے امان ميں ہوگا_(394)ليكن ذكر كرنے كى غرض اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنا ہوتا ہے لہذا كہا جا سكتا ہے كہ جو كلام بھى اللہ تعالى كى طرف زيادہ توجہہ دلائے اس كا ذكر كرنا زيادہ مناسب ہوگا_ حالات اور افراد اور مقامات مختلف ہوتے ہيں_ لہذا ہو سكتا ہے كہ يا اللہ كا كلمہ بعض افراد كے لئے يا بعض حالات ميں زيادہ مناسب افراد كے لئے لا الہ الا اللہ كا كلمہ اور دوسرے بعض افراد كے لئے يا غفار يا ستار مناسب ہو اسى طرح دوسرے اذكار_ اسلئے اگر كوئي انسان كسى استاد يا كامل مربى تك رسائل ركھتا ہو تو اس كے لئے بہتر ہے كہ و اس سے مدد طلب كرے اور اگر اسے كسى تك رسائي نہ ہو تو وہ دعاؤں اور احاديث كى كتابوں اور پيغمبر اكرم اور ائمہ عليہم السلام كے فرامين سے استفادہ كرے تمام اذكار اور عبادات اچھى ہيں جب كہ ان كو صحيح بجا لايا جائے تو وہ ان كے ذريعے اللہ كا تقرب حاصل كر سكتا ہے اور مقامات عاليہ تك رسائل حاصل كر لے گا_ انسان ان تمام سے يا ان ميں سے بعض سے استفادہ كر سكتا ہے ليكن مشائخ اور ماہرين استادوں نے مقام ذكر اور شہود تك پہنچے كے لئے بعض مخصوص اذكار كا انتخاب كيا ہوا ہے كہ جنہيں خاص كيفيت اور خاص عدد كے ساتھ ہميشہ پڑھنے رہنے كى سفارش كى ہے تا كہ وہ اس مقصد كو حاصل كر سكے_
ليكن اس نقطہ كى طرف بہت زيادہ توجہہ دينے كى ضرورت ہے كہ جو دعائيں اور اذكار شرعيت ميں وارد ہوئي ہيں گرچہ سب عبادت ہيں اور اجمالا تقرب كا موجب بھى ہوتى ہيں ليكن ان كى اصلى غرض غير خدا سے بالكل اور كامل طور سے قطع قطع كرنا اور حضور قلب سے ذات الہى كى طرف توجہ كرنا ہے_ لہذا ہميں صرف اذكار كے الفاظ كے تكرار پر ہى اكتفاء كرنى چاہيئے اور نہ ہى اصلى ا على غرض و غايت اور معنى كى طرف توجہہ كرنے سے غافل ہو جائيں كيونكہ الفاظ كا تكرار بلكہ انہيں ہميشہ پڑھتے رہنا اتنا مشكل نہيں ہے اس واسطے كہ الفاظ كے ذكر كرتے وقت كئي قسم كے افكار اور مختلفطرح كے خيالات انسان پر ہجوم كرتے رہتے ہيں اور اسے خدا كى ياد سے غافل كر ديتے ہيں اور جب تك خيالات اور افكار كو دور نہيں كيا جاتا اس وقت تك نفس افاضات اور اشراقات الہى كے قبول كرنے كى لياقت پيدا نہيں كر سكتا_صرف يہى كام انسان كو اصلى غرض تك نہيں پہنچا سكتا وہ جو مفيد اور فائدہ مند ہے وہ ذات الہى كى طرف حضور قلب اور خيالات كا دور كرنا اور فكر كا ايك مركز پر برقرار ركھنا ہوتا ہے اور يہ كام بہت زيادہ مشكل ہے اس واسطے كہ ذكر كرتے وقت كئي طرح كے فكر اور مختلف خيالات انسان پر ہجوم اور ہوتے ہيں اور اس كو خدا كى ياد سے غافل كر ديتے ہيں اور جب تك دل سے خيالات كو دور نہ كرے اس وقت تك انسانى نفس اللہ تعالى كے فيض اور اشراق كى لياقت پيدا نہيں كرتا وہ دل اللہ تعالى كے انوار كا محل بنتا ہے كہ جو اغيار سے خالى ہو_ خيالات كا دور كرنا اور فكر كو ايك جگہ جمع كرنا ايك حتمى ارادے اور جہاد اور محافظ اور پائيدارى كا محتاج ہوتا ہے اور اس طرح نہيں ہوتا كہ ايك دفعہ بغير كسى ممارست اور دوام كے ايسا ممكن ہو جائے نفس كے ساتھ نرمى بر تنى چاہئے اور آہستہ آہستہ اسے اس كى عادت دى جانى چاہئے_
383_ و للہ المشرق و المغرب فاينما تولّوا فثمّ وجہ اللہ_ بقرہ/ 115_384_و ہو معكم اينما كنتم و اللہ بما تعملون بصير_ حديد/ 4_385_و نحن اقرب اليہ من حبل الوريد_ ق/ 16_386_ان اللہ على كلّ شيء شہيد_ حج/ 17_387_من كان يريد العزة فللّہ العزة جميعاً اليہ يصعد الكلم الطيّب و العمل الصالح يرفعہ_ فاطر/ 10_388_و اعبد ربك حتى ياتيك اليقين_ حجر/ 99_389_عن ابى سلام قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ يقول: خمس ما اثقلن فى الميزان: سبحان اللہ، و الحمداللہ، و لا الہ الا اللہ، و اللہ اكبر و الولد الصالح يتوفى لمسلم فيصبر و يحستب_ بحار/ ج 93 ص 169_390_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ: لما اسرى بى الى السماء دخلت فرايت ملائكة يبنون لبنة من ذہب و لبنة من فضة و ربما امسكوا فقلت لہم: مالكم ربما بنيتم و ربما امسكتم؟ فقالوا حتى تجيئنا النفقة فقلت لہم: وما نفقتكم: فقالوا: قول المؤمن من فى الدنيا: سبحان اللہ، و الحمداللہ، و لا الہ الّا للہ، و اللہ اكبر: فاذا قال_ بنينا و اذا امسك امسكنا_ بحار/ ج 93 ص 169_391_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: من قال سبحان اللہ غرس اللہ بہا شجرة فى الجنة و من قال الحمدللہ غرس اللہ بہا شجرة فى الجنة و من قال: لا الہ الا اللہ غرس اللہ لہ بہا شجرة فى الجنة و من قال: اللہ اكبر غرس اللہ بہا شجرة فى الجنة: فقال رجل من قريش; يا رسول اللہ انّ شجرنا فى الجنة لكثير، قال: نعم_ و لكن ايّاكم ان ترسلوا عليہا نيراناً فتحرقوہا_ و ذالك انّ اللہ عزّوجلّ يقول: يا ايہا الذين آمنوا اطيعوا للہ و اطيعوا الرسول و لا تبطلوا اعمالكم_ بحار/ ج 93 ص 195_
392_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: خير العبادة قول لا الہ اللہ_ بحار/ ج93 ص195_393_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:سيّد القول لا الہ اللہ_ بحار/ ج 9 ص204_394_عن النبى صلى اللہ عليہ و آلہ عن جبرئيل قال اللہ عزوجل: كلمة لا الہ الا اللہ حصنى فمن دخل حصنى امن من عذابي_ بحار/ ج 93 ص 192_
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.