نفس كے ساتھ جہاد

462

پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ طاہرين سے الہام لے كر عقل كى مدد سے اس كے لائو لشكر سے جنگ كريں اور نفس كے تجاوزات اور زيادتيوں كو روكے ركھيں اور اس كى فوج كو گھيرا ڈال كر ختم كرديں تا كہ عقل جسم كى مملكت پر حكومت كر سكے اور شرعيت سے الہام لے كر كمال انسانى اور سير و سلوك تك پہنچ سكے _ نفس كے ساتھ صلح اور آشتى نہيں كى جا سكتى بلكہ اس سے جنگ كرنى چاہئے تا كہ اسے زير كيا جائے اور وہ اپني
85حد تك رہے اور شازش كرنے سے باز رہے سعادت تك پہنچنے كے لئے اس كے سوا اور كوئي راستہ موجود نہيں ہے _ اسى وجہ سے نفس كے ساتھ جنگ كرںے كو احادى ميں جہاد كہا گيا ہے_حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اپنے نفس پر پے در پے جہاد كرنے سے تسلط پيدا كرو_(146)آپ نے فرمايا ‘ نفس خواہشات اور ھوى اور ہوس پر غلبہ حاصل كرو اور ان سے جنگ كرو اگر يہ تمہيں جكڑ ليں اور اپنى قيد و بند ميں قرار دے ديں تو تمہيں بدترين درجہ ميں جاڈاليں گے_(147)آپ نے فرمايا كہ ‘ نفس كے ساتھ جہاد ايك ايسا سرمايہ ہے كہ جس كے ذريعے بہشت خريدى جا سكتى ہے_ پس جو آدمى اپنے نفس كے ساتھ جہاد كرے وہ اس پر مسلط ہوجائيگا_ اور بہشت اس كے لئے جو اس كى قدر پہچان لے بہترين جزا ہوگي_(148)آپ نے فرمايا ‘ جہاد كر كے نفس كو اللہ كى اطاعت پر آمادہ كرو_ اس كے ساتھ يہ جہاد ويسا ہو جيسے دشمن كے ساتھ كيا جاتا ہے اور اس پر ايسا غلبہ كرو جو ايك ضد دوسرى ضد پر غلبہ كرتى ہے لوگوں سے قوى ترين آدمى وہ ہے جو اپنے نفس پر فتح حاصل كرے_(149)آپ نے فرمايا كہ ‘ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے آپ كو نفس كے ساتھ جہاد ميں مشغول ركھے اور اس كى اصلاح كرے اور اسے ھوى اور ہوس اور خواہشات سے روكے ركھے اور اس طرح سے اس كو لگام دے اور اپنے كنتڑل ميں لے آئے_ عقلمند انسان اس طرح اپنے نفس كى اصلاح ميں مشغول رہتا ہے كہ وہ دنيا اور جو كچھ دنيا اور اہل دنيا ميں ہے اس ميں اتنا مشغول نہيں رہتا_(150)نفس كے ساتھ جہاد ايك بہت بڑى اہم جنگ اور نتيجہ خيز ہے ايسى جنگ كہ ہميں كس طرح دنيا اور آخرت كے لئے زندگى بسر كرنى اور ہميں كس طرح ہونا اور كيا كرنا ہے سے مربوط ہے اگر ہم جہاد كے ذريعے اپنے نفس كو كنتڑل كر كے نہ ركھيں
86اور اس كى لگام اپنے ہاتھ ميں نہ ركھين وہ ہم پر غلبہ كر لے گا اور جس طرف چاہئے گا لے جائيگا اگر ہم اسے قيد ميں نہ ركھيں وہ ہميں اسير اور اپنا غلام قرار دے ديگا اگر ہم اسے كردار اور اچھے اخلاق اپنا نے پر مجبور نہ كريں تو وہ ہميں برے اخلاق اور برے كردار كى طرف لے جائيگا_ لہذا كہا جا سكتا ہے كہ نفس كے ساتھ جہاد بہت اہم كام اور سخت ترين راستہ ہے جو اللہ كى طرف سير و سلوك كرنے والے كے ذمہ قرار ديا جا سكتا ہے _ جتنى اس راستے ميں طاقت خرچ كى جائے وہ قيمتى ہوگي_
جہاد اكبرنفس كے ساتھ جہاد اس قدر مہم ہے كہ اسے پيغمبر اكبر نے جہاد اكبر سے تعبير فرمايا ہے اتنا اہم جہاد ہے كہ جنگ والے جہاد سے بھى اسے بڑا قرار ديا ہے_حضرت على عليہ السلام نے نقل فرمايا ہے كہ’ رسول خدا(ص) نے ايك لشكر دشمن سے لڑنے كے لئے روانے كيا اور جب وہ جنگ سے واپس آيا آپ نے ان سے فرمايا مبارك ہو ان لوگوں كو كہ جو چھوٹے جہاد كو انجام دے آئے ہيں ليكن ابھى ايك بڑا جہاد ان پر واجب ہے آپ سے عرض كى گئي يا رسول اللہ(ص) بڑا جہاد كونسا ہے؟ آپ(ص) نے فرمايا اپنے نفس سے جہاد كرنا_(151)حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ بہترين جہاد اس شخص كا جہاد ہے كہ جو اپنے نفس سے جو اس كے دو پہلو ميں موجود ہے جہاد كرے_(152)پيغمبر اكرم(ص) نے اس وصيت ميں جو حضرت علي(ع) سے كى تھى فرمايا كہ ‘ جہاد ميں سے بہترين جہاد اس شخص كا ہے جب وہ صبح كرے تو اس كا مقصد يہ ہو كہ ميں كسى پر ظلم نہيں كرونگا_(153)ان احاديث ميں نفس كے ساتھ جہاد كرنے كو جہاد اكبر اور افضل جہاد كے نام
87سے پہنچوانا گيا ہے يہ ايسا جہاد ہے كہ جو اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد كرنے سے فضيلت اور برترى ركھتا ہے حالانكہ اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد بہت ہى پر ارزش اور بہترين عبادت شمار ہوتا ہے اس سے جہاد نفس كا پر ارزش اور بااہميت ہونا واضح ہوجاتا ہے نفس كے جہاد كا برتر ہونا تين طريقوں سے درست كيا جا سكتا ہے_1_ ہر ايك عبادت يہاں تك كہ اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد كرنا بھى نفس كے جہاد كرنے كا محتاج ہے_ ايك عبادت كو كامل اور تمام شرائط كے ساتھ بجالانا نفس كے ساتھ جہاد كرنے پر موقوف ہے كيا نماز كا حضور قلب كے ساٹھ جالانا اور پھر اسكے تمام شرائط كى رعايت كرنا جو معراج مومن قرار پاتى ہے اور فحشا اور منكر سے روكتى ہے بغير جہاد اور كوشش كرنے كے انجام پذير ہو سكتا ہے؟ آيا روزہ كا ركھنا جو جہنم كى آگ كے لئے ڈھال ہے بغير جہاد كے ميسر ہو سكتا ہے_ كيا نفس كے جہاد كے بغير كوئي جہاد كرنے والا انسان اپنى جان كو ہتھيلى پر ركھ كر جنگ كے ميدان ميں حاضر ہو سكتا ہے اور اسلام كے دشمنوں سے اچھى طرح جنگ كر سكتا ہے؟ اسى طرح باقى تمام عبادات بغير نفس كے ساتھ جہاد كرنے كے بجالائي جا سكتى ہيں؟2_ ہر ايك عبادت اس صورت ميں قبول كى جاتى ہے اور موجب قرب الہى واقع ہوتى ہے جب وہ صرف اللہ تعالى كى رضا كے لئے انجام دى جائے اور ہر قسم كے شرك اور رياء خودپسندى اور نفسانى اغراض سے پاك اور خالص ہو اس طرح كے كام بغير نفس كے ساتھ جہاد كئے واقع ہونا ممكن نہيں ہوسكتے يہاں تك كہ جنگ كرنے والا جہاد اور شہادت بھى اس صورت ميں قيمت ركھتى ہے اور تقرب اور تكامل كا سبب بنتى ہے جب خالص اور صرف اللہ كى رضاء اور كلمہ توحيد كى سربلندى كے لئے واقع ہو اگر يہ اتنى بڑى عبادت اور جہاد صرف نفس كى شہرت يا دشمن سے انتقام لينے يا نام كے باقى رہ جانے يا خودنمائي اور رياكارى يا مقام اور منصب كے حصول يا زندگى كى مصيبتوں سے فرار يا دوسرى نفسانى خواہشات كے لئے واقع ہو تو يہ كوئي معنوى ارزش اور قيمت نہيں ركھتى اور اللہ تعالى كے پاس تقرب كا موجب نہيں بن سكتى اسى وجہ سے نفس كے
88ساتھ جہاد تمام عبادات اور امور خيريہ يہاں تك كہ اللہ تعالى كے راستے والے جہاد پر فضيلت اور برترى اور تقدم ركھتا ہے س واسطے كہ ان تمام كا صحيح ہونا اور باكمال ہونا نفس كے جہاد پر موقوف ہے يہى وجہ ہے كہ نفس كے جہاد كو جہاد اكبر كہا گيا ہے_3_ جنگ والا جہاد ايك خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتا ہے اور پھر وہ واجب عينى بھى نہيں ہے بلكہ واجب كفائي ہے اور بعض افراد سے ساقط ہے اور بعض زمانوں ميں تو وہ بالكل واجب ہى نہيں ہوتا اور پھر واجب ہونے كى صورت ميں بھى واجب كفائي ہوتا ہے يعنى بقدر ضرورت لوگ شريك ہوگئے تو دوسروں سے ساقط ہو جاتا ہے اور پھر بھى عورتوں اور بوڑھوں اور عاجز انسانوں اور بيمار لوگوں پر واجب نہيں ہوتا ليكن اس كى برعكس نفس كا جہاد كہ جو تم پر تمام زمانوں اور تمام حالات ميں اور شرائط ميں واجب عينى ہوا كرتا ہے اور زندگى كے آخر لمحہ تك واجب ہوتاہے اور سوائے معصومين عليہم السلام كے كوئي بھى شخص اس سے بے نياز نہيں ہوتا_4_ نفس سے جہاد كرنا تمام عبادات سے يہاں تك كہ جنگ والے جہاد سے كہ جس ميں انسان اپنى جان سے صرفنظر كرتى ہوئے اپنے آپ كو شہادت كے لئے حاضر كرديتا ہے_ مشكل تر ہے اور دشوار اور سخت تر ہے اس واسطے كہ محض اللہ كے لئے تسليم ہو جانا اور تمام عمر نفسانى خواہشات سے مقابلہ كرنا اور تكامل كے راستے طے كرنا اس سے زيادہ دشوار اور مشكل ہے كہ انسان جنگ ميں جہاد كرنے والا تھوڑے دن دشمن سے جنگ كے ميدان ميں جنگ كرے اور مقام شہادت پر فيض ياب ہوجائے_ نفس كے ساتھ مقابلہ كرنا اتنا سخت ہے كہ سواے پے در پے نفس كے ساتھ جہاد كرنے اور بہت زيادہ تكاليف كو برداشت كرنے كے حاصل نہيں ہو سكتا اور سوائے اللہ تعالى كى تائيد كے ايسا كرنا ممكن نہيں ہے_ اسى لئے نماز ميں ہميشہ اھدنا الصراط المستقيم بڑھنے ہيں_ صراط مستقيم پر چلنا اتنا دشوار اور سخت ہے كہ رسول گرامى اللہ تعالى سے كہتا ہے _الہى لا تكلنى الى نفسى طرفة عين ابدا_
89جہاد اور تائيد الہييہ ٹھيك ہے كہ نفس كے ساتھ جہاد بہت سخت اور مشكل ہے اور نفس كے ساتھ جہاد كرنا استقامت اور پائيدارى اور ہوشيارى اور حفاظت كا محتاج ہے ليكن پھر بھى ايك ممكن كام ہے اور انسان كو تكامل كے لئے يہ ضرورى ہے اگر انسان ارادہ كرلے اور نفس كے جہاد ميں شروع ہوجائے تو خداوند عالم بھى اس كى تائيد كرتا ہے_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ ‘ جو شخص اللہ تعالى كى راہ ميں جہاد كرتے ہيں ہم انہيں اپنے راستے كى ہدايت كرتے ہيں_(154)حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں كہ مبارك ہو اس انسان كے لئے جو اللہ تعالى كى رضا كى خاطر اپنے نفس اور خواہشات نفس كے ساتھ جہاد كرے _ جو شخص خواہشات نفس كے لئے لشكر پر غلبہ حاصل كر لے تو وہ اللہ تعالى كى رضايت حاصل كر ليگا_ جو شخص اللہ تعالى كے سامنے عاجزى اور فروتنى سے پيش آئے اور اپنى عقل كو نفس كا ہمسايہ قرار دے تو وہ ايك بہت بڑى سعادت حاصل كرليگا_انسان اور پروردگار كے درميان نفس امارہ اور اس كى خواہشات كے تاريك اور وحشت ناك پردے ہوا كرتے ان پردوں كے ختم كرنے كيلئے خدا كى طرف احتياج خضوع اور خشوع بھوك اور روزہ ركھنا اور شب بيدارى سے بہتر كوئي اسلحہ نہيں ہوا كرتا اس طرح كرنے والا انسان اگر مرجائے تو دنيا سے شہيد ہو كر جاتا ہے اور اگر زندہ رہ جائے تو اللہ تعالى كے رضوان اكبر كو جا پہنچتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے جو لوگ ہمارے راستے ميں جہاد كرتے ہيں ہم ان كو اپنے راستوں كى راہنمائي كرديتے ہيں_ اور خدا نيك كام كرنے والوں كے ساتھ ہے_ اگر كسى كو تو اپنے نفس كو ملامت اور سرزنش اور اسے اپنے نفس كى حفاظت كرنے ميں زيادہ شوق دلا_ اللہ تعالى كے اوامر او رنواہى كو
90اس كے لئے لگام بنا كر اسے نيكيوں كى طرف لے جا جس طرح كہ كوئي اپنے ناپختہ غلام كى تربيت كرتا ہے اور اس كے كان پكڑ كر اسے ٹھيك كرتا ہے_رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اتنى نماز پڑھتے كہ آپ(ص) كے پائوں مبارك ورم كر جاتے تھے اور لوگوں كے اعتراض كرنے پر انہيں يوں جواب ديتے تھے كہ كيا ميں شكر ادا كرنے والا بندہ نہ بنوں؟ پيغمبر اكرم عبادت كركے اپنى امت كو درس دے رہے تھے_ اے انسان تو بھى كبھى عبادت اور اس كى بركات كے مٹھاس كو محسوس كر ليا اور اپنے نفس كو اللہ تعالى كے انوار سے نورانى كر ليا تو پھر تو ايسا ہوجائيگا كہ ايك گھڑى بھى عبادت سے نہيں رك سكے گا گرچہ تجھے تكڑے ٹكڑے ہى كيوں نہ كرديا جائے_عبادت سے روگردانى اور اعراض كى وجہ سے انسان عبادت كے فوائد اور گناہ اور معصيت سے محفوظ رہنے اور توفيقات الہى سے محروم ہوجاتا ہے_(155)نفس كى ساتھ جہاد بالكل جنگ والے جہاد كى طرح ہوتا ہے جو وار دشمن پر كريگا اور جو مورچہ دشمنوں سے فتح كرے گا اسى مقدار اس كا دشمن كمزور اور ضعيف ہوتا جائيگا اور فتح كرنے والى فوج طاقت ور ہوتى جائيگي_اور دوبارہ حملہ كرنے اور فتح حاصل كرنے كے لئے آمادہ ہوجائيگي_ اللہ تعالى كا طريق كار اور سنت يوں ہى ہے اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ان تنصر و اللہ ينصركم و يثبت اقدامكم_نفس كے ساتھ جہاد كرنا بھى اسى طرح ہوتا ہے_ جتنا وار نفس آمادہ پر وارد ہوگا اور اس كى غير شرعى خواہشات اور ھوى و ہوس كى مخالفت كى جائيگى اتنى ہى مقدار نفس كمزور ہوجائيگا اور تم قوى ہوجائو گے اور دوسرى فتح حاصل كرنے كے لئے آمادہ ہوجائو گے برعكس جتنى سستى كرو گے اور نفس كے مطيع اور تسليم ہوتے جائوگے تم ضعيف ہوتے جائو گے اور نفس قوى ہوتا جاے گا اور تمہيں فتح كرنے كے لئے نفس آمادہ تر ہوتا جائيگا اگر ہم نفس كے پاك كرنے ميں اقدام كريں تو خداوند عالم كى طرف سے تائيد
91كئے جائيں گے اور ہر روز زيادہ اور بہتر نفس امارہ پر مسلط ہوتے جائيں گے ليكن اگر خواہشات نفس اور اس كى فوج كے لئے ميدان خالى كرديں تو وہ قوى ہوتا جائيگا اور ہم پر زيادہ مسلط ہوجائيگا_
اپنا طبيب خود انسانيہ كسى حد تك ٹھيك ہے كہ پيغمبر اور ائمہ اطہار انسانى نفوس كے طبيب اور معالج ہيں ليكن علاج كرانے اور نفس كے پاك بنانے اور اس كى اصلاح كرنے كى ذمہ دار ى خود انسان پر ہے_ پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار انسان كو علاج كرنے كا درس ديتے ہيں اور نفس كى بيماريوں اور ان كى علامتيں اور برے نتائيج اور علاج كرنے كا طريقہ اور دواء سے آگاہى پيدا كرے اور اپنے نفس كى اصلاح كى ذمہ دارى سنبھال لے كيونكہ خود انسان سے كوئي بھى بيمارى كى تشخيص بہتر طريقے سے نہيں كر سكتا اور اس كے علاج كرنے كے درپے نہيں ہو سكتا_ انسان نفسانى بيماريوں اور اس كے علاج كو واعظين سے سنتا يا كتابوں ميں پڑھتا ہے ليكن بالاخر جو اپنى بيمارى كو آخرى پہچاننے والا ہوگا اور اس كا علاج كرے گا وہ خود انسان ہى ہوگا_ انسان دوسروں كى نسبت درد كا بہتر احساس كرتا ہے اور اپنى مخفى صفات سے آگاہ اور عالم ہے اگر انسان اپنے نفس كى خود حفاظت نہ كرے تو دوسروں كے وعظ اور نصيحت اس ميں كس طرح اثر انداز اور مفيد واقع ہو سكتے ہيں؟ اسلام كا يہ نظريہ ہے كہ اصلاح نفس انسان داخلى حالت سے شروع كرے اور اپنے نفس كو پاك كرنے اور بيماريوں سے محفوظ ركھنے كے رعايت كرتے ہوئے اسے اس كے لئے آمادہ كرے اور اسلام نے انسان كو حكم ديا ہے كہ وہ اپنے آپ كى خود حفاظت كرئے اور يہى بہت بڑا تربيتى قاعدہ اور ضابطہ ہے_ خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ہر انسان اپنى نيكى اور برائي سے خود آگاہ اور عالم ہے گرچہ وہ عذر گھڑتا
92رہتا ہے_(156)حضرت صادق عليہ السلام نے ايك آدمى سے فرمايا كہ ‘تمہيں اپنے نفس كا طبيب اور معالج قرار ديا گيا ہے تجھے درد بتلايا جا چكا ہے اور صحت و سلامتى كى علامت بھى بتلائي گئي ہے اور تجھے دواء بھى بيان كردى گئي ہے پس خوب فكر كر كہ تو اپنے نفس كا كس طرح علاج كرتا ہے_(157)امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ شخص كو وعظ كرنے والا خود اس كا اپنا نفس نہ ہو تو دوسروں كى نصيحت اور وعظ اس كے لئے كوئي فائدہ نہيں دے گا_(158)امام سجاد عليہ السلام نے فرمايا ‘ اے آدم كے بيٹے تو ہميشہ خوبى اور اچھائي پر ہوگا جب تك تو اپنے نفس كو اپنا واعظ اور نصيحت كرنے والا بنائے ركھے گا_(159)امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ كمزور ترين وہ انسان ہے جو اپنے نفس كى اصلاح كرنے سے عاجز اور ناتواں ہو_(160)نيز اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ انسان كے لئے لائق يہ ہے كہ وہ اپنے نفس كى سرپرستى كو اپنے ذمہ قرار دے _ ہميشہ اپنى روح كى اور زبان كى حفاظت كرتا رہے_(161)
146_ قال على عليہ السلام: املكوا انفسكم بدوام جاہدہا_ غرر ا لحكم/ ج1 ص 131_147_ قال على عليہ السلام: اغلبوا اہوائكم و حاربوہا فانہا ان تقيّدكم توردكم من الہلكة ابعد غاية غرر ا لحكم/ ج1 ص 138_148_ قال على عليہ السلام: الا و ان الجہاد ث4من الجنة فمن جاہد نفسہ ملكہا و ہى اكرم ثواب اللہ لمن عرفہا_ غرر ا لحكم/ ج1 ص 165149_ قال على عليہ السلام: جاہد نفسك على طاعة اللہ مجاہدة العدوّ عدوّہ، و غالبہا مغالبة الضد صدہ فان اقوى الناس من قوى على نفسہ_ غرر ا لحكم/ ج1 ص 371_150_ قال على عليہ السلام: ان الحازم من شغل نفسہ بجہاد نفسہ فاصلحہا و حبسہا عن اہويتہا و لذاتہا فملكہا و ان للعاقل بنفسہ عن الدنيا و ما فيہا و اہلہا شغلاً_ غرر ا لحكم/ ج1 ص 237_151_عن اميرالمؤمنين عليہ السلام:ان رسول اللہ صلى عليہ و آلہ بعث سرية فلمّا رجعوا قال: مرحباً بقوم قضوا الجہاد الاصغر و بقى عليہم الجہاد الاكبر: قيل: يا رسول اللہ و ما الجہاد الاكبر؟ فقال: جہاد النفس_ وسائل الشيعہ/ ج 11 ص 124_152_ قال على عليہ السلام: ان افضل الجہاد من جاہد نفسہ التى بين جنبيہ_ وسائل الشيعہ/ ج 11 ص 124_153_فى وصية النبى لعلى عليہم السلام قال: يا علي افضل الجہاد من اصبح لا يہمّ بظلم احد_ وسائل/ ج 11 ص 123154_والذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا_ عنكبوت/ 69_155_قال الصادق عليہ السلام:طوبى لعبد جاہد اللہ نفسہ و ہواہ و من ہزم جند ہواہ ظفر برضاللہ و من جاور عقلہ نفس الامّارة بالسوء با الجہد و الاستكانة و الخضوع على بساط خدمة اللہ تعالى فقد فاز فوزاً عظيماً، و لا حجاب اظلم و اواحش بين العبد و بين الرب من النفس و الہوى و ليس لقتلہا فى قطعہما سلاح و آلة مثل الافتقار الى اللہ و الخشوع و الجوع و الظماء بالنہار و السہر باللّيل_ فان مات صاحبہ مات شہيداً، ان عاش و استقام ادّاہ عاقبتہ الى الرضوان الاكبر_ قال اللہ تعالي: ‘ و الذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا و ا ن اللہ لمع المحسنين ‘ و اذا رايت مجتہداً ابلغ منك فى الاجتہاد فوبّخ نفسك و لمّہا و عيّرہا و حثّہا على الازدباد عليہ_ و اجعل لہا زماماً من الامر و عناناً من النہى و سقہا كاالرائض للفارہ الذى لا يذہب عليہ خطوة الّا و قد صححّ اولہا و

316آخرہا_ و كان رسول اللہ يصلّى حتى يتورّقد ماہ و يقول: افلا اكون عبدا شكوراً؟ اراد ان يعتبر بہ امتہ_ فلا تغفلوا عن الاجتہاد و التعبد و الرياضة بحال_ الا و انك لو وجدت حلاوة عبادة اللہ و رايت بركاتہا و استضات بنورہا لم تصبر عنہا ساعة واحدة، و لو قطعت ارباً ارباً، فما اعرض من اعرض عنہا الّا بحرمان فوائد السبق من العصمة و التوفيق_ بحار/ ج 70 ص 96_156_بل الانسان على نفسہ بصيرة و لو القى معاذيرہ_ قيامة / 15_157_قال ابو عبداللہ عليہ السلام لرجل: انك قد جعلت طبيب نفسك و بيّن لك الداء و عرّفت آية الصحة و دلّلت على الدواء فانظر كيف قيامك على نفسك_ كافي/ ج 2 ص 454_158_قال ابوعبداللہ عليہ السلام:من لم يجعل لہ نفسہ واعظاً فان مواعظ الناس لن تغنى عنہ شيئاً_ بحار/ ج 70 ص 70_159_قال ابوعبداللہ عليہ السلام يقول:ابن آدم لاتزال بخير ما كان لك واعظ من نفسك_ بحار الانوار/ ج 70 ص 64_160_ قال على عليہ السلام: اعجز الناس من عجز عن اصلاح نفسہ_ غرر الحكم/ ج 1 ص 169_161_ قال على عليہ السلام: ينبغى ان يكون الرجل مہيمنا على نفسہ مراقباً قلبہ حافظاً لسانہ_ غرر الحكم/ ج 2 ص 862_

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.