تكامل اور قرب حاصل كرنيكی موانع (ركاوٹيں)

197

پہلى ركاوٹ
قرب الہى حاصل كرنے اور سر و سلوك الى اللہ كى سب سے بڑى ركاوٹ انسان كى قابليت كا نہ ہونا ہے_ جو روح اور دل گناہوں كے ارتكاب كرنے كى وجہ سے تاريك اور آلودہ ہوچكا ہو وہ انوار الہى كى تابش كا مركز قرار نہيں پا سكتا_ جب انسان كا دل گناہوں كى وجہ سے شيطن كى حكومت كا مركز پا چكا ہو وہاں كس طرح اللہ كے مقرب فرشتے داخل ہو سكے ہيں ؟ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ جب انسان كسى گناہ كا ارتكاب كرتا ہے تو اس كے دل ميں ايك سياہ نقطہ پيدا ہو جاتا ہے اگر تو اس نے توبہ كر لى تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے_ اور اگر وہ اسى طرح گناہ بجالاتا رہا
243تو و سياہ نقطہ تدريجاً بڑھتا جاتا ہے يہاں تك كہ اس كے ت مام دل كو گھير ليتا ہے اس حالت ميں وہ كبھى كاميابى اور چھٹكارا حاصل نہيں كر سكے گا_(404)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ ميرے والد فرمايا ہے كہ انسان كے دل اور روح كے لئے گناہ سے كوئي چيز بدتر نہيں ہوا كرتى كيونكہ گناہ انسان كى روح اور قلب سے جنگ كرنا شروع كر ديتا ہے يہاں تك كہ اس پر قابو اور غلبہ حاصل كر ليتا ہے اس صورت ميں اس كا دل الٹا اور سرنگوں ہو جاتا ہے_(405) گناہ گار انسان كى روح سرنگوں اورالہى ہوجاتى ہے اور وہ الٹے راستے چلتى ہے تو پھر وہ كس طرح قرب الہى كے رساتے كى طرف حركت كر سكى گى اور اللہ تعالى كے فيوضات اور اشراقات كو قبول كرے گي؟ لہذا كمال تك رسائي حاصل كرنے والے انسان كے لئے ضرورى اور واجب ہوجاتا ہے كہ وہ ابتداء ہى سے اپنے نفس اور روح كو گناہوں سے پاك اور صاف كرے اور پھر رياضت اور ذكر الہى ميں داخل ہو ور نہ اس كا ذكر اور عبادت ميں كوشش كرنا اس كو قرب الہى تك نہيں پہنچا سكے گا_
دوسرى ركاوٹكمال حاصل حاصل كرنے سے ايك بڑى ركاوٹ مادى اور دنياوى تعلقات ہيں جيسے مال اور دولت سے اہل و عيال سے يا مكان اور زندگى كے اسباب سے جاہ و جلال مقام اور منصب سے مال باپ سے بہن بھائي سے يہاں تك كہ علم اور دانش سے اور اس طرح كى دوسرى چيزوں سے علاقہ اور تعلق يہ وہ تعلقات ہيں كہ انسان كو اللہ تعالى كے قرب حاصل كرنے اور اس كے طرف حركت اور ہجرت كرنے سے روك ديتے ہيں_جس دل نے محسوسات سے محبت اور انس كر ركھا ہو اور اس كا فريفتہ اور عاشق ہو كس طرح وہ ان چيزوں كو چھوڑ كر عالم بالا كى طرف حركت كرے گا جو دل دنياوي
244امور كا مركز اور مكان بن چكا ہو وہ كب انوار الہى كى تابش كا مركز قرار پاسكتا ہے؟ بہت سى روايات كے مطابق دنيا كى محبت تمام گناہوں كى جڑ ہے_ گناہ گار انسان اللہ تعالى سے قرب كے مقام تك نہيں پہنچ سكتا_ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا كى محبت ہر ايك گناہ كى جڑ ہے_( 406)رسولخدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ سب سے پہلى چيز كہ جن سے اللہ تعالى كى نافرمانى كى گئي وہ چھ تھيں دنيا سے محبت حكومت اور مقام منصب سے محبت_ عورت سے محبت_ خوراك سے محبت نيند سے محبت اور آرام اور سكون سے محبت_ (407)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ انسان اللہ تعالى سے اس حكومت ميں زيادہ دور ہوتا ہے جب اس كى غرص و غايت صرف پيٹ كا بھرنا اور شہوات حيوانى كا پورا كرنا ہو_جناب جابر فرماتے ہيں كہ ميں امام باقر عليہ السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا آپ نے مجھ سے فرمايا اے جابر_ ميں محزون اور مشغول دل والا ہوں_ ميں نے عرض كى كہ ميں آپ پر قربان جاؤں آپ كا محزون اور غمگين ہونا اور مشغول ہونا كس سبب اور وجہہ سے ہے_ آپ نے فرمايا كہ جس كے دل ميں خالص اور صاف دين داخل ہو چكا ہو اس كا دل غير خدا سے خالى ہوجاتا ہے_ اے جابر_ دنيا كيا ہے اور كيا قيمت ركھتى ہے؟ كيا وہ صرف لقمہ نہيں ہے كہ جسے تو كھاتا ہے اور لباس ہے كہ جسے تو پہنتا ہے يا عورت ہے كہ جس سے شادى كرتا ہے كيا اس كے علاوہ كچھ اور ہے؟ اے جابر_ مومنين دنيا اور زندگى پر بھروسہ نہيں كرتے اور آخرت كے جہاں ميں جانے سے اپنے آپ كو امان ميں نہيں ديكھتے_ اے جابر_ آخرت ہميشہ رہنے والى منزل اور مكان ہے اور دنيا مرنے اور چلے جانے كا محل اور مكان ہے_ ليكن دنيا والے اس مطلب سے غافل ہيں صرف مومنين جو فكر او رعبرت اور سمجھ ركھتے ہيں انہيں جوان كے كانوں پر پڑتا ہے اللہ تعالى كے ذكر سے نہيں روكتا_ زرو جواہرات كا ديكھنا انہيں اللہ تعالى كے
245ذكر سے غافل نہيں كرتا وہ آخرت كے ثواب كو پاليتے ہيں گويا كہ انہوں نے اس كے علم حاصل كرليا ہے_ (409)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ انسان ايمان كى شرينى كو نہيں چكھ سكتا مگر جب وہ جسے كھاتا ہے اس سے لاپرواہى نہ برتے_ (410)لہذا عارف انسان كے لئے ضرورى ہے كہ اس طرح كا علاقہ اور محبت اپنے دل سے نكال دے تا كہ اللہ تعالى كى قرب اور مقامات عاليہ كى طرف اس كا حركت اور ہجرت كرنا ممكن ہوسكے_ دنيا كے اور اور فكر كو اپنے دل سے باہر نكال دے تا كہ اللہ كى ياد اس كے دل ميں جگہ پاسكے_ يہ جاننا بھى ضرورى ہے كہ دنياورى امور سے علاقہ مندى اور دل دے دنيا صرف قابل خدمت ہے نہ كہ خود دنيا مذموم ہے كيونكہ عارف انسان دوسرے انسانوں كى طرح زندگى كو باقى ركھنے ميں غذا اور لباس اور مكان اور بيوى كا محتاج ہے اور ان كے حاصل كرنے كے لئے اسے ضرور كام كرنا ہوگا_ نسل كى بقاء كے لئے اسے شادى ضرور كرنى ہوگي_ اجتماعى زندگى بسر كرنے كے لئے اسے اجتماعى ذمہ دارياں قبول كرنى ہونگيں اسلامى شرعيت ميں ان ميں كسى كى مذمت نہيں كى گئي بلكہ ان كے بجالانے ميں اگر قصد قربت كرلے تو وہ عبادت بھى ہوجائيں گى اور اللہ سے تقرب كا موجب ہونگيں خود يہ چيزيں اللہ تعالى كے قرب حاصل كرنے كى مانع نہيں ہوا كرتيں وہ جو مانع ہے ان امور سے وابستگى اور محبت ہے_اگر يہى امور زندگى كى غرض اور غايت قرار پائيں اور اللہ تعالى كے ذكر اور فكر سے غافل بناديں تو اس كا لازمى نتيجہ يہ ہوگا كہ انسان خدا سے غافل ہوجائے اور پيسہ او رعورت مقام اور منصب اور علم پرست ہوجائے جو قابل مذمت ہے اور انسان كو اللہ تعالى كى طرف حركت كرنے سے روك ديتا ہے ورنہ خود پيسہ اور زن علم اور مقام منصب اور رياست قابل مذمت نہيں ہيں_ كيا پيغمبر اسلام امام سجاد اور اميرالمومنين عليہ السلام اور دوسرے ائمہ اطہار كام اور كوشش نہيں كيا كتے تھے اور اللہ تعالى كى نعمتوں سے استفادہ نہيں كيا كرتے تھے، اسلام كى سب سے بزرگ خصوصيت يہ ہے كہ
246دنياوى اور اخروى امور كے لئے كسى خاص حد اور مرز كا قائل نہيں ہے_
تيسرى ركاوٹخواہشات نفس اور اس كى ہوى اور ہوس سے پيروى كرنا قرب الہى حاصل كرنے كا بہت بڑا مانع ہے_ نفسانى خواہشات دل كے گھر كو سياہ دھوئيں كى طرح سياہ كر ديتے ہيں اس طرح كا دل اللہ تعالى كے انوار كى تابش كى قابليت نہيں ركھتا_ نفسانى خواہشات انسان كے دل كو ادھر ادھر كھينچتے رہتے ہيں اور اسے مہلت نہيں ديتے كہ وہ خداوند عالم سے خلوت كرسكے اور اس ذات سے انس اور محبت كرسكے_ وہ دن رات نفسانى خواہشات كے پورا كرنے كى تلاش اور كوشش ميں لگا رہتا ہے_ وہ كب دنيا كو چھوڑسكتا ہے تا كہ بارگاہ الہى كى طرف پرواز كرسكے_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے_ ‘ ہوى او رہوس كى پيروى نہ كر كيونكہ وہ تجھے خدا كے راستے سے دور كئے ركھيں گے_ (411) اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ سب سے بہادر انسان وہ ہے جو خواہشات نفس پر غلبہ حاصل كرے _ (412)
چوتھى ركاوٹخدا كى يادسے ايك ركاوٹ او رمانع شكم پرستى ہے_ جو شخص دن رات كوشش كرتا رہتا ہے كہ اچھى اور لذيذ غذا مہيا كرے اور اپنے پيٹ كو مختلف قسم كى غذاؤں سے پر كرے وہ كس طرح اپنے خدا سے خلوت اور راز و نياز اور انس كرسكتا ہے_ غذا سے بھرا ہوا پيٹ كس طرح اللہ تعالى كى عبادت اور دعا كرنے كى حالت پيدا كرسكتا ہے_ غذا سے بھر ہوا پيٹ كس طرح اللہ تعالى كى عبادت اور دعا كرنے كى حالت پيدا كرسكتا ہے_ جو انسان كھانے اور پينے ميں لذت سمجھتا ہے وہ كس طرح اللہ تعالى سے مناجات كى لذت كو محسوس كرسكتا ہے؟ اسى لئے تو اسلام نے شكم پرستى كى مذمت كى ہے_امام جعفر صادق عليہ السلام نے ابوبصير سے فرمايا ہے كہ ‘ انسان كا پيٹ بھر جانے
247سے طغيان كرتا ہے اللہ تعالى سے زيادہ نزديك ہونے كى حالت انسان كے لئے اس وقت ہوتى ہے جب كہ اس كا پيٹ خالى ہو اور بدترين حالت اس وقت ہوتى ہے جب اس كا پيٹ بھرا ہوا ہو_( 413)امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ مومن كے دل كے لئے پرخورى سے اور كوئي چيز نقصان دہ نہيں ہے_ پرخورى قساوت قلب كا سبب ہوا كرتى ہے او رشہوت كو تحريك كرتى ہے_ بھوك مومن كا سالن اور روح كى غذا اور طعام ہے اور بدن كى صحت ہے (414) اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جب اللہ تعالى كسى بندے كى مصلحت ديكھتا ہے تو اسے كم غذا كم كلام اور كم خواب كا الہام كرتا ہے_ (415)اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ نفس پر كنٹرول كرنے اور عادت كے ختم كرنے كے لئے بھوك بہترين مددگار ہے (416) اميرالمومنين عليہ السلام نے روايت كى ہے كہ ‘ خداوند عالم نے معراج كى رات رسول خدا سے فرمايا_ اے احمد_ كاش تم بھوك اور ساكت رہنے اور تنہائي اور اس كے آثار كى شيرينى كو چكھتے_رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے عرض كى اے ميرے خدا_ بھوك كا كيا فائدہ ہے؟ اللہ تعالى نے فرمايا _ دا_نائي دل كى حفاظت ميرا تقرب ہميشگى حزن تھوڑا خرچ_ حق گوئي اور آسائشے اور تنگى ميں بے خوف _(417)درست ہے كہ عارف انسان بھى دوسرے انسانوں كى طرح زندہ رہنے اور عبادت كى طاقت كے لئے غذا كا محتاج ہے اسے اتنى مقدار جو بدن كى ضرورت كو پورا كرے كھانا كھانا چاہئے اور شكم پرى سے پرہيز كرنا چاہئے_ كيونكہ شكم پرى سستى بے ميلى اور عبادت كى طرف بے رغبتى قساوت قلب اور اللہ تعالى كى ياد سے غفلت كا سبب ہوا كرتى ہے اور اگر تھوڑا كھائے اور بھوكا رہے تو عبادت كے لئے آمادگى اور خداوند عالم كى ذات كى طرف توجہہ كرنے كا سبب ہوا كرتى ہے_ اس كا تجربہ كيا جا چكا ہے انسان بھوك كى حالت ميں با نورانيت روح با صفا اور ہلكا پھكا رہتا ہے ليكن پيٹ بھرى ہوئي حالت ميں ايسا نہيں ہوا كرتا لہذا ايك عارف انسان كے لئے ضرورى ہے كہ جتنى بدن
248كو غذا كى ضرورت ہے اتناہى كھائے بالخصوص جب عبادت اور دعا اور ذكر ميں مشغول ہو تو بھوكا ہى رہے_
پانچويں ركاوٹعارف اور سالك انسان كو اس كے قرب الہى كے مقصد اور حضور قلب اور خدا كى طرف توجہہ سے ايك ركاوٹ غير ضرورى اور بے فائدہ گفتگو كرنا ہوا كرتى ہے_ خداوند عالم نے انسان ضرورت كى مقدار تك گفتگو كرے تو اس نے اس بہت بڑى نعمت سے صحيح فائدہ حاصل كيا ہوگا اور اگر بيہودہ اور غير ضرورى گفتگو كرے تو اس نے اس بہت بڑى نعمت كو ضائع اور بردبار كر ديا ہوگا اس كے علاوہ زيادہ اور ادھر ادھر كى گفتگو اور باتيں كرنا انسان كى فكر كو پريشان كر ديتى ہيں اور پھر وہ پورى طرح سے اللہ تعالى كى طرف حضور قلب اور توجہہ پيدا نہيں كر سكتا_ اسى لئے احاديث ميں زيادہ اور بے فائدہ باتيں كرنے كى مذمت وارد ہوئي ہے_پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ سوائے اللہ تعالى كے ذكر كرنے كے زيادہ كلام كرنے سے پرہيز كرو كيونكہ اللہ تعالى كے ذكر كے علاوہ زيادہ باتيں كرنا قساوت قلب كا سبب ہوتا ہے اللہ تعالى سے سب سے زيادہ دور انسان وہ ہے كہ جس كا دل تاريك ہو_ (418)امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اپنى زبان كى حفاظت كر اور اپنى گفتگو كو شمار كرتا رہے تا كہ تيرى گفتگو امر خير كے علاوہ كمتر ہوجائے_(419)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ گفتگو تين قسم كى ہوا كرتى ہے _ مفيد _ سالم _ شاحب يعنى بيہودہ_ مفيد گفتگو ذكر خدا_ سالم گفتگو وہ ہے كہ جسے خدا دوست ركھے_ شاحب گفتگو وہ ہے جو لوگوں كے متعلق بيہودہ بات كى جائے_(420)
249پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ اپنى زبان كو قابو اور اس كى حفاظت كر يہ نفس كے لئے بہترين ہديہ ہے_ انسان صحيح اور حقيقى ايمان تك نہيں پہنچتا مگر يہ كہ وہ اپنى زبان كى نگاہ دارى اور حفاظت كرے_(421)امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ تين چيزيں فہم اور فقہ كى علامت ہيں تحمل اور بردبارى _ علم اور سكوت_ ساكت رہنا دانائي كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ ہے_ ساكت رہنا محبت كا سبب ہوتا ہے اور ہر نيكى كى دليل ہے_(422)امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے ‘ جب عقل كامل ہوتى ہے تو گفتگو ہو جاتى ہے_(423)امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے ‘كوئي بھى عبادت ساكت رہنے اور خانہ كعبہ كى طرف پيدل جانے سے افضل نہيں ہے_(424)رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمايا كہ ‘ ميں تجھے زيادہ ساكت رہنے كى سفارش كرتا ہوں اس واسطے كہ اس وسيلے سے شيطن تم سے دور ہوجائے گا_ دين كى حفاظت كے لئے ساكت رہنا بہتر مددگار ہے_(425)خلاصہ انسان سالك اور عارف پر ضرورى ہے كہ وہ اپنى زبان پر پورى طرح كنٹرول كرے اور سنجيدہ اور سوچ سمجھ كر بات كرے اور زيادہ اور بيہودہ باتيں كرنے سے پرہيز كرے دنياوى امور ميں ضرورت كے مطابق باتيں كرے جو اسے زندگى كرنے كے لئے ضرورى ہيں اور اس كے عوض اللہ تعالى كا ذكر اور ورد اور علمى مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع كے لئے مفيد گفتگو كرنے ميں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانى استاد علامہ طباطبائي فرمايا كرتے تھے كہ ميں نے ساكت رہنے كے گراں قدر آثار مشاہدہ كئے ہيں_ چاليس شب و روز ساكت رہنے كو اختيار كيجئے اور سوائے ضرورى كاموں كے باتيں نہ كريں اور فكر اور ذكر خدا ميں مشغول رہيں تا كہ تمہارے لئے نورانيت اور صفاء قلب حاصل ہو سكے_
250چھٹى ركاوٹاپنى ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام ركاوٹيں دور كر لى ہوں تو پھر اس كے سامنے ايك بڑى ركاوٹ سامنے آتى ہے اور وہ ہے اس كا جب ذات يعنى اپنى ذات سے محبت كرنا_ وہ متوجہ ہوگا كہ اس كے تمام كام اور حركات يہاں تك كہ اس كى عبادت و غيرہ كرنا سب كے سب اپنى ذات كى محبت كيوجہ سے انجام پارہے ہيں_ عبادت رياضت ذكر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا كہ اپنے نفس كو كامل كرے اور اسے ان كى اجزاء آخرت ميں دى جائے گرچہ اس طرح كى عبادت كرنا بھى انسان كو بہشت اور آخرت كے ثواب تك پہنچا ديتى ہے ليكن وہ ذكر اور شہود كے بلند و بالا مقام اور رتبہ تك نہيں پہنچاتى جب تك اس كا نفس حب ذات كو ترك نہ كرے اور وہ اللہ تعالى كے بے مثال جمال كا مشاہدہ نہيں كر سكے گا جب تك تمام حجاب اور موانع يہاں تك كہ حب ذات كا حجاب اور مانع بھى ترك نہ كرے اس صورت ميں وہ انوار الہى كا مركز بننے كى قابليت اور استعداد پيدا نہيں كر سكے گا_ لہذا عارف اور سالك انسان كے لئے ضرورى ہے كہ وہ رياضت اور مجاہدہ كر كے اپنے آپ كو حب ذات كى حدود سے باہر نكالے اپنى ذات كى محبت كو خدا كى محبت ميں تبديل كر دے اور تمام كاموں كو صرف اور صرف اللہ تعالى كى رضا كے لئے بجا لائے اگر غذا كھاتا ہے تو اس غرض سے كھائے كہ اس كے محبوب نے زندہ رہنے كے لئے اسے ضرورى قرار ديا ہے اور اگر عبادت كرتا ہے تو اسے اس نيت سے بجالائے كہ ذات الہى ہى عبادت اور پرستش كى سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح كا انسان نہ دينا كا طلب كرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت كا بلكہ وہ صرف خدا كا طلب كرنے والا ہوتا ہے_ يہاں تك كہ وہ كشف اور كرامت كا طلبكار بھى نہيں ہوتا اور سوائے حقيقى معبود كے اس كا كوئي اور مطلوب اورمنظور نظر نہيں ہوتا_ اگر كوئي اس مرحلے كو طے كر لے يہاں تك كہ اپنى شخصيت اور ذات كو اپنے آپ سے جدا كردے تو وہ مقام توحيد ميں
251قدم ركھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ كے بلند اور بالا مقام تك ترقى كر جائيگا اور بارگاہ مقعد صدق عند مليك مقتدر ميں نازل ہوجائيگا_
ساتويں ركاوٹكمال اور عرفان كے راستے ميں سب سے بڑى ركاوٹ اور شايد يہ سابقہ تمام ركاوٹوں سے بھى زيادہ ہو وہ ہے ارادہ كا ضعيف ہونا_ اور حتمى فيصلے كرنے كى قدرت نہ ركھنا _ يہ ركاوٹ اور مانع انسان كو عمل شروع كرنے سے روك ديتى ہے_ شيطن اور نفس كرتا ہے كہ انسان كو ظاہر ى ذمہ دارى اور وظائف شرعى كى بجالانے كو كافى قرار دے گرچہ اس ميں حضور قلب اور توجہہ نہ بھى ہو_ شيطن انسان كو كہتا ہے كہ تو صرف انہيں عبادت كے بجالانے كے سوا اور كوئي شرعى وظيفہ نہيں ركھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذكر سے كيا كام ہے؟ اور اگر كبھى انسان اس كى فكر كرنے بھى لگے تو اسے سينكٹروں حيلے اور بہانوں سے روك ديتا ہے اور كبھى اس مطلب كو اس كرے لئے اتنا سخت نماياں كرتا ہے كہ انسان اس سے مايوس اور ناميد ہوجاتا ہے ليكن اس انسان كے لئے جو كمال حاصل كرنے كا ارادہ كرتا ہے ضرورى ہے كہ وہ شيطن اور نفس امارہ كے ايسے وسوسوں كے سامنے ركاوٹ بنے اور احاديث اور آيات اور اخلاق كى كتابوں كے مطالعے كرنے سے معلوك كرے كہ سير اور سلوك كے لئے حضور قلب اور ذكر و شہود كى كتنى ضرورت اور اہميت ہے اور جب اس نے اس كى اہميت كو معلوم كر ليا اور اپنى ابدى سعادت كو اس ميں ديكھ ليا تو پھر حتمى طور سے اس پر عمل كرے گا اور مايوسى اور نااميدى كو اپنے سے دور كردے گا اور اپنے آپ سے كہے گا كہ يہ كام گرچہ مشكل ہے اور چونكہ اخروى سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل كرنا چاہئے_ اللہ تعالى فرماتا ہے جو ہمارے راستے
252ميں كوشش اور جہاد كرتے ہيں ہم اس كو اپنے راستوں كى راہنمائي كر ديتے ہي_’ و الذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا_(426)ہمارى يہ سارى بحث اور كلام تكامل اور تقرب الہى كے پہلے وسيلے اور ذريعے ميں تھى يعنى اللہ تعالى كے ذكر ميں تھى _ بحث كى طوالت پر ہم معذرت خواہ ہيں_
————————404_عن ابى بصير قال سمعت ابا عبداللہ عليہ السلام يقول: اذا اذنب الرجل فى قلبہ نكتة سوداء فان تاب انمحت و ان زاد زادت حتى تغلب على قلبہ فلا يفلح بعدہا ابدا_ بحار/ ج73 ص327_405_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال كان ابى يقول: ما من شيء افسد للقلب من خطيئتہ ان القلب ليواقع الخطيئة فلا تزال بہ حتى تغلب عليہ فيصير اعلاہ سفلہ_ بحار/ ج73ص 312_406_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: حبّ الدنيا راس كل خطئية_بحار/ ج73 ص90_407_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: اول ما عصى اللہ تابرك و تعالى بستّ خصال: حبّ الدنيا و حبّ الرياسہ و حب الطعام و حبّ الراحة_ بحار/ ج 73ص94_408_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: ابعد ما يكون العبد من اللہ عزوجل اذ الم يہمّہ الّا بطنہ و فرجہ بحار/ ج73 ص18_409_عن جابر قال: دخلت على ابن جعفر عليہ السلام فقال: يا جابر و اللہ انى لمحزون و انى لمشغول القلب، قلت: جعلت فداك، و ما شغلك و ما حزن قلبك؟ فقال يا جابر انّہ من دخل قلبہ صافى خالص دين اللہ شغل قلبہ عمّا سوائ_ يا جابر ماالدنيا و ما عسى ان تكون الدنيا؟ ہل ہى الّا طعام اكلتہ اوثوب لبستہ او امراة اصبتہا؟ يا جابر انّ المؤمنين لم يطمئنّوا الى الدنيا
334ببقائہم فيہاو لم يامنوا قدومہم الآخرة يا جابر الآخرة دار قرار و الدنيا دار فناء و زوال، و لكن اہل الدنيا اہل غفلة، و كانّ المؤمنين ہم الفقہائ، اہل فكرة و عبرة لم يصمّہم عن ذكر اللہ ما سمعوا بآذانہم و لم يعمہم عن ذكر اللہ ما رؤا من الزينة ففازوا بثواب الآخرة كما فازوا بذلك العلم_ بحار/ ج 73 ص36_410_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: لا يجد المؤمن حلاوة الايمان فى قلبہ حتى لا يبالى من اكل الدنيا_ بحار/ ج73 ص49_411_و لا تتّبع الہوى افيضلك عن سبيل اللہ _ ص/ 26_412_قال الميرالمؤمنين عليہ السلام: اشجع الناس من غلب ہواہ_ بحار/ ج70 ص76_413_ابوبصير عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: قال لي: يا ابا محمد ان البطن ليطغى من اكلہ، و اقرب ما يكون العبد من اللہ اذا خفّ بطنہ و ابغض ما يكون العبد الى اللہ اذا امتلا بطنہ_ وسائل ج 16 ص 405_414_قال الصادق عليہ السلام: ليس شيء اضرّ لقلب المؤمن و من كثرة الاكل و ہى مورثة شيشين: قسوة القلب و ہيجان الشہوة، والجوع ادام للمؤمنين و غذاء للروح و طعام للقلب و صحة للبدن_ مستدرك/ ج 3 ص 80_415_قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: اذا اراد اللہ صلاح عبدہ الہمم قلّة الكلام و قلّة الطعام و قلّة المنام_ مستدرك/ ج 3 ص 81_416_قال على عليہ السلام: نعم العون على اسر النفس و كسر عادتہا التجوع_ مستدرك/ 3 ص 81_417_قال على عليہ السلام: قال اللہ تبارك و تعالى ليلة المعراج: يا احمد لو ذقت حلاوة الجوع و الصمت و الخلوة و ما ورثوا منہا_ قال يا ربّ ما ميراث الجوع؟ قال: الحمكة و حفظ القلب و التقرب اليّ و الحزن الدائم و خفّة بين الناس و قول الحق، و لا يبالى عاش بيسر اور بعسر_ مستدرك/ ج 3 ص 82_418_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: لاتكثروا الكلام بغير ذكر اللہ فانّ كثرة الكلام بغير ذكر اللہ تقسوا لقلب_ انّ ابعد الناس من اللہ القلب القاسي_ بحار/ 71 ص 281_419_قال على عليہ السلام:اخزن لسانك و عدّ كلامك يقلّ كلامك الّا بخير_ بحار/ ج ص 281_420_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: الكلام ثلاثة: فرابح و سالم و شاحب_ فاما الرابح فالّذى يذكر اللہ، و اما السالم فالذى يقول ما احبّ اللہ، و اما الشاحب فالّذى يخوض فى الناس_ بحار/ ج 71 ص 289_421_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:امسك لسانك فانّہا صدقہ تصدّق بہا على نفسك، ثم قال: و لا يعرف حقيقہ الايمان حتى يحزن من لسانہ_ بحار/ ج 71 ص 298_
335422_قال ابوالحسن الرضا عليہ السلام: من علامات الفقہ: الحلم و العلم و الصمت_ انّ الصمت باب من ابواب الحكمة انّ الصمت يكسب المحبة، انہ دليل على كل خير_ بحار/ ج71 ص 294_423_قال على عليہ السلام: اذا تمّ العقل نقص الكلام_ بحار/ ج 71 ص 290_424_عن ابى عبداللہ عليہ السلام قال: ما عبداللہ بشيء افضل من الصمت و المشى الى بيتہ_ بحار/ ج 71 ص 278_425_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:عليك بطول الصمت فانہ مطردة للشيطان و عون لك على امر دينك بحار الانوار/ ج71 ص 279_426_عنكبوت/ 69_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.