خواہشات کا علاج

101

ہوس کی تخریبی طاقتانسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کےنفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )(١)’غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ‘آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )(٢)’عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں’
خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیانیہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو…………..(١)غرر الحکم ج١ص٦٧ ۔(٢)غررالحکم ج١ص١٩٨۔یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :(زُیّن للناسِ حبُّ الشہواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذھبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ)(١)’لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ‘دوسری آیت میں ارشاد ہے :(ألمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا)(٢)’مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ‘ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :…………..(١)آل عمر ان آیت١٤۔(٢) سورئہ کہف آیت٤٦ ۔(کلوا من طیبات مارزقناکم)(١)’تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ‘یایہ ارشاد الٰہی ہے :(ولا تنس نصیبک من الدنیا) (٢)’اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو’اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :(قل من حرّم زینة اﷲ التی أخرج لعبادہِ والطیبات من الرزق)(٣)’پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے’خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :(لاتدع النفس وھواھا فن ھواھا رداھا )(٤)’اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور…………..(١)سورئہ طہ آیت٨١ ۔(٢)سورئہ قصص آیت٧٧ ۔(٣)سورئہ اعراف آیت ٣٢ ۔(٤)اصول کافی ج٢ص٣٣٦۔ذلت ہے ‘ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔
خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لئے ‘عقل ‘کا کردارخواہشات کو بغاوت اور سر کثی سے روکنے اور ہرلحاظ سے انکی تکمیل سے منع کرنے اور اسی طرح انکی تسلی کی معقول حدبندی کیلئے انسانی عقل میدان عمل میں ہمیشہ فعال رہتی ہے اور شاید اسی لئے عربی زبان میں عقل کو عقل کہا جاتا ہے کہ عقل کسی کو لگام لگانے یا پھند ے کو کہتے ہیںاور خدا نے عقل کو یہی ذمہ دار ی سونپی ہے کہ وہ خواہشات کو لگام لگا کر اپنے قابو میں رکھے جیسا کہ رسول اسلام ۖ نے ارشاد فرما یا ہے :(ن العقل عقال من الجھل،والنفس مثل أخبث الدواب)(١)’عقل جہالت سے بچانے والی لگام ہے اور نفس خبیث ترین چو پائے کی طرح ہے ‘روایات میں اسی مضمون کی طرف کثر ت سے اشارے موجود ہیں بطورنمونہ حضرت علی…………..(١)بحارالانوار ج١ص١١٧ ۔کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرما ئیں :٭(فکرک یھدیک لی الرشاد)(١)’تمہار ی فکر تمہیں رشدو ہدایت کی طرف رہنما ئی کرتی ہے ‘٭ (للنفوس خواطرللھویٰ،والعقول تزجر وتنھیٰ)(٢)’نفس کے اندر مختلف قسم کی خواہشات ابھرتی رہتی ہیں اور عقل ان سے منع کرتی رہتی ہے ‘٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجر منہا )(٣)’دلوں کے اندر برے خیالات پید ا ہو تے ہیں اور عقل ان سے بازر کھتی ہے ‘٭ (النفوس طلقة،لکن أیدی العقول تمسک اعنتھا)(٤)’نفس تو با لکل آزاد ہوتے ہیں لیکن عقلوں کے ہاتھ انکی لگام تھامے رہتے ہیں ‘٭ (ثمرةالعقل مقت الدنیا وقمع الھویٰ)(٥)’عقل کا پھل دنیا کی نا راضگی اور خو اہشات کی تا راجی ہے ‘مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں اسکی عقل کا کار نامہ یہ ہے کہ وہ خواہشات کواپنے محدود تقاضو ں کے تحت کنٹرول کر تی ہے اور اس کی ہوس کو سر کشی اور بغا وت سے رو کتی رہتی ہے اور انسان کو اس کی خو اہشات کی تکمیل میں بے لگام نہیں رہنے دیتی لہٰذا جس کی عقل جتنی کامل اور پختہ ہو تی ہے وہ اپنی خو اہشات پر اتنی ہی مہارت اور آسانی سے غلبہ حا صل کر لیتا ہے ۔…………..(١)غررالحکم ج٢ص٥٨۔(٢)تحف العقول ص٩٦۔(٣)غررالحکم ج٢ص١٢١۔(٤)غررالحکم ج١ص١٠٩۔(٥)غررالحکم ج٢ص٣٢٣۔حضرت علی :(العقل الکامل قاھرالطبع السوئ)(١)’عقل کا مل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے ‘اور یہی نہیں بلکہ خواہشات پر کنڑول ہی انسان کی عقل سلیم کی پہچان ہے ۔حضرت علی :(حفظ العقل بمخالفة الھویٰ والعزوف عن الدنیا ) (٢)’خواہشات کی مخالفت اور دنیاسے بے رغبتی کے ذریعہ عقل محفوظ رہتی ہے ‘امام محمد باقر :(لاعقل کمخالفة الھویٰ ) (٣)’خواہشات کی مخالفت سے بہتر کوئی عقل نہیں ہے’حضرت علی :(من جانب ھواہ صح عقلہ) (٤)’جس نے اپنی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کرلی اسکی عقل صحیح وسالم ہو جا ئے گی ‘ان احادیث سے بھی یہ روشن ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات دونوں ہی انسان کی زندگی کے دو اہم ستون ہیں ان میںسے خواہشات، انسانی حیات کے سفینہ کی نقل وحرکت اور اسکی تعمیرو ترتی میں پتوار کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور عقل اسکو بغاوت وسر کشی اور فتنہ وفساد کے خطرناک نشیب وفرازسے…………..(١)بحارالانوار ج٧٨ص٩۔(٢)غرر الحکم ج١ص٣٤٥۔(٣)بحارالانوار ج٧٨ص١٦٤۔(٤)بحارالانوار ج١ص١٦٠۔نکال کر ساحل تک پہنچا نے کی اہم ذمہ داری ادا کرتی ہے ۔۔۔لہٰذا ہر انسان کے لئے جس طرح جسم وروح ضردری ہیں اسی طرح اس کے لئے ان دونوں کاوجودبھی ضروری ہے ۔
عقل اور دینانسانی زندگی میں دین بھی وہی کردار ادا کرتا ہے جو عقل کا کر دار ہے یعنی جس طرح عقل ، خواہشات کو مختلف طریقوں سے اپنے قابو میں رکھتی ہے اسی طرح دین بھی انھیں بہکنے سے بچاتا رہتاہے یعنی عقل اور دین کے اندرہر طرح کی فکری اور عملی یکسانیت اور مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ دین ایک الٰہی فطرت ہے جیسا کہ آیۂ کر یمہ میں ارشاد ہے :(فطرةاﷲ التی فطرالناس علیھالاتبدیل لخلق اﷲذلک الدین القیم )(١)’دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سید ھا اور مستحکم دین ہے ‘وہ فطرت جو انسان کے اوپر حکمراں ہو تی ہے اور عقل بھی اسی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ ‘دینہے جسکے ذریعہ اﷲ تعالی نے حیات بشری کو دوام بخشا اور حیات بشری کے ذریعہ اسے قائم ودائم فرمایا لہٰذا دین بھی خواہشات کو کنڑول کر نے کے سلسلہ میں عقل کی امداد کرتاہے اور خود بھی اسی ذمہ داری کو ادا کرتاہے مختصر یہ کہ عقل اور دین ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔حضرت علی :(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج)(٢)’عقل بدن کی اندرونی شریعت اور شریعت بدن کے باہر موجود عقل کا نام ہے ‘…………..(١)سورئہ روم آیت ٣٠۔(٢)کتاب جوان :آقا ئے محمد تقی فلسفی ج١ص٢٦٥۔امام مو سیٰ کا ظم 🙁 ﷲ علی الناس حجتین :حجة ظاھرة وحجة باطنة، فاماالظاھرة فالرسل والانبیاء والائمة(ع)واماالباطنة فالعقول) (١)’لوگوں پر خدا وندعالم کی دوحجتیں (دلیلیں )ہیں ایک ظاہر ی حجت اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت و دلیل۔ ظاہر ی دلیل انبیاء اور ائمہ ہیں جبکہ باطنی حجت عقل ہے ‘امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :(حجة اﷲعلیٰ العبادالنبی،والحجة فیما بین العباد وبین اﷲ العقل)(٢)’بندوں کے اوپر خدا وندعالم کی حجت اسکے انبیاء ہیں اور خداوندعالم اور اسکے بندوں کے درمیان ،عقل حجت ہے ‘…………..(١)بحارالانوار ج١ص١٣٧۔(٢)اصول کافی ج١ص٢٥۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.