اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے(حصہ دوم)

188

ا حترام شخصیت کے طریقےاخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ‘یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) …اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔ (1)خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ‘اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً'(2) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔’ انسان کی حقیقت’ چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت…………………………………1۔لقد کرمنا بنی آدم…… و فضلناھم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔2 نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے: اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیرہ ولا یسلم من شرہ ولا تؤمن غوائلہ، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: … اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا …دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔ (٤)…………………………………١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں…احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے (١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔ (٢)احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں:احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔١۔ طبیعی تلافی: یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔…………………………………١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

٢۔ گریز اور ناامیدی:واقعیت سے فرار کرنے کے علاج یا نا کامی اور محرومیت کے ظاہر ہونے کے علاج کا ساز وسامان ایسے موارد میں استعمال ہوتاہے کہ جب طبیعی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے یا اس کے لئے راہ بند ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میںانسان اپنے آپ کوناتوانی اور شکست دوچار سمجھتاہے، اپنی نسبت شک کرتا ہے اور اس کے اندر قوت وجرأت کی کمی محسوس ہوتی ہے، اس وقت وہ متعدد اور پے درپے شکستوں اپنے آپ کو پاتا ہے اور ناکامی کی وادی میں پے در پے غوطہ لگاتا رہتاہے، اور یہی شکستیں اس کے پہلے احساسات کو تقویت بخشتی ہیں ایسے موارد میں زندگی کا نقشہ مسئولیت اور ذمہ داری سے گریز اور ہر قسم کی سعی و کوشش سے لاشعوری کے طور پردوری کری بنیاد کھنچے جاتا ہےیہ المناک تغیر تدریجاً اور ہر دفعہ زیادہ خلاق انسان کی فعالیت کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیتا ہے۔

٣۔ خیالی تلافی:کچھ موارد میں گریز اور یاس کے غالب ہونے کے بجائے، انسان یا تو خیالی تلافی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے یا ان صفات کو معمولی اور بے قیمت شمار کرتاہے جو دوسروںکے اندر پائی جاتی ہیں اور اس میں نہیں ہیں ۔ یا بلافاصلہ ایسی عیاشیوں میں لگ جاتا ہے کہ جو فکراور مشکلات کو وقتی طور پر اس کے ذہن سے دور کردیتی ہیں اور اسے ایسی لذتیں دیتی ہے کہ جو ایک منطبق وموافق عمل کے نتیجہ میں اس کو نصیب ہوتی ہیں ۔(١)جیسا کہ ملاحظہ ہوا، ایڈلر کے نظریہ کی بنیاد عملیاختلال کی وضاحت کے سلسلہ میں عز ت نفس کے فقدان اور خود اس کی تعبیر کے مطابق احساس کمتری کے اثرپر استوار ہے۔نفسیات میں من ازم کے نظرئیے بھی کلی طور پر انسان کے نفسیاتی وجذباتی ابعاد و جوانب اور اس کی نظر پر تا کید کرتے ہیں ان کے مشترک اصول درج ذیل ہیں:١۔ تمام انسان انقلاب و تحول کے بالاترین درجہ تک پہونچ سکتے ہیں،٢۔ انقلاب و تحول کے راستہ میں آزادی کا وجود ان بلندیوں تک پہونچنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے٣۔ عام طور پر موانع خارجی اور بیرونی ہیں۔…………………………………١۔ دکتر منصور، احساس کہتری، ص٦٠، ٦١۔’مزلو’اور ‘راجرز’ انسان کے اپنے شخصی اور تحقق کے لئے دوسروں سے زیادہ تاکید کرتے ہیں وہ طریقے اور فنون کہ شخصیت کی تعظیم کے حصول کے لئے جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
الف۔اکرام واحترام:مزلو ضرورت احترام کو مستقل طو ر پر ذکر کرتاہے معاشرے کے نفسیاتیبیماروں کے علاوہ تمام افراد اپنے لئے احترام کے قائل ہیں، ان کی خواہش ہے کہ خود کو بااہمیت محسوس کریں اور اس اہمیت کی بنامحکم اور استوار پایہ پر رکھی گئی ہو۔۔۔توانائی، کامیابی، تجربہ، مہارت ، شایستگی، دنیا کا مقابلہ، استقلال ، آزادی، مرتبہ اور اعتبار کی ضرورت، (ایسی عزت واحترام کہ لوگ اس کے قائل ہوں) قدرومنزلت، افتخار، شہرت، نفوذاہمیت وبزرگی ان سب چیزوں کی طرف میلان اسی خواہش سے پیداہوتی ہیں۔۔۔جب اپنے احترام کی خواہش پوری ہوجائے توانسان اپنے خوداعتمادی، اہمیت، توانائی اور کفایت کا احساس کرتاہے اور اپنے وجود کو دنیا میں مفید اور لازم سمجھتا ہے۔ لیکن ان ضرورتوں اور خواہشوں کا پورا نہ ہونااحساس کمتری، کمزوری اورناامیدی کا باعث ہوتاہے۔۔۔سالم ترین اور ثابت ترین عزت نفس، احترام کے اُس پایہ پر استوار ہے جس کے ہم مستحق ہیں۔نہ یہ کہ ظاہری شہرت چاپلوسی اور خواہشات پر۔۔۔(١)کارل راجرز بھی مکمل طور پر اس کا قائل ہے اور اپنے علاج کا طریقۂ کاراُسی کی بنیادپر تلاش کرتا ہے۔ اس کی نظر میں دو اساسی چیزیں درج ذیل ہیں:١۔ہر انسان کی عظمت وبزرگی نیز اس کی اہمیت کا نظریہ رکھنا۔٢۔اس بات کا معتقد ہونا کہ لوگ اچھے اور قابل اعتماد ہیں۔راجرز کے علاج اور مشورت کا طریقہ مُراجع محوری کی بنیاد پر ہے؛یعنی تیکنیکی صرف اصالت و حقیقت ، غیر مشروط مثبت تعیین اور مخلصانہ درک کی نشاندہی کے لئے ہیں۔ احساسی اورجذباتی عناصر معالج اور مُراجع کے رابطہ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وتیکنیکیجو اس اکرام واحترام کے احساس کو ،جس کی تربیت کی جاتی ہے اس تک منتقل کرسکتی ہیں، یہ ہیں:موقع ومحل کی طرف توجہ اورحضور ذہن رکھنا، اُس پرکان دھرنا، احساسات یا اس کی باتوںکے محتوا اور مفہوم کا ضروری مواقع میں انعکاس ( اس لئے کہ تربیتپانے والاسمجھے کہ اس کی باتوں پر توجہ دے رہا ہے) گفتگو کے علاوہ دوسری نشانیاںیعنی چہرہ، رخ اور جسم کی حرکتیں اس بات کی عکاسی کررہی ہوں کہ گویا وہ اس کی باتوں کو اہمیت دے رہاہے۔…………………………………١۔ مزلو، روان شناسی شخصیت سالم، ص١٥٤،١٥٥۔’خلوص یا مخلصانہ درک’ متربی (یعنی جس کی تربیت کی جاتی ہے ) سے رابطہ ایجاد کرنے میںاساسی کردار ادا کرتا ہے۔ راجرز کے بقول ہمدلی وخلوص ایک ایسا طریقۂ کار ہے جودیگرافرادکے متغیراحساسات کی نسبت حساس ہو نے اوران کے درمیان عاطفی وجذباتی پیوند کامتضمن ہے۔ایک مدت تک دوسروں کی زندگی جینا اور ان کی احساساتی دنیامیں واردہونا اور ان کے احساسات کے بارے میں قضاوت سے اجتناب کرنا (ان کے احساسات کو سمجھنے کے لئے کوشش کرنا)۔ اسی طرح ہمدلی وخلوص مخاطب کے غیر کلامی علائم کے درک کا مستلزم ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمدلی کے لئے سب سے پہلے تربیت پانے والے کے عاطفی تجربہ کو دقیق انداز میں درک کریں پھراس کے بعد جوکچھ ہم نے سمجھاہے کلما ت اوراشاروں کے قالب میں اُس تک منتقل کریں۔ ہلکی مسکراہٹ، امیدبخش نظر، کبھی اس کے شانہ اور جسم پر ہاتھ رکھنا اور ظریف انداز میں ہنسی مذاق کرنا اس سلسلہ میں مؤثرہیں۔ہمدلی ، دوستی اوررابطہ برقرار کرنے کے لئے ایک مہارت ضروری ہے جن کا اکثر تربیتی طریقوں جیسے احترام واکرام میں مربی محتاج ہو تا ہے۔اور اس کوچاہئے کہ اُس تک پہنچنے کے لئے اپنے اندراس کی آمادگی پیدا کرے ‘خود تربیتی طریقہ’ میں اپنی شخصیت کے ساتھ اسی رابطے کا ایجاد کرنالازم وضروی ہے۔پیغمبر اکرم ۖاور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت دوسروں کے حق میں ان کے احترام واکرام سے بھری پڑی ہے جیسے: سلام کرنا نیز سلام کرنے میں پہل کرنا حتیٰ بہ نسبت بھی، بچوںبچوں کے ساتھ کھیلنا ؛بچوںکے اچھے نام رکھنے کی تاکیدکرنا نیز انہیں اچھے القاب سے پکارنا، نو واردانسان کو جگہ دنیاجس کے بارے میں قرآن کریم کا صر یحی حکم ہے۔(١)نیک گفتاری اورخوش زبانی کی تاکید کرنا(قُلْ لِعِبَادِیْ یَقُولُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ…)(٢) دسیوںدیگراحکام اورتاکیدات کے جواسلامی معاشرہ میں مومنین کے احترام واکرام کی جانب تو جہ کی حکایت کرتے ہیں یہاںتک کہ مومن کی حرمت اوراُس کی رعایت حرمت کعبہ سے بالاترتصورکی گئی ہے۔(٣)…………………………………١۔ (یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ…)سورہ ٔمجادلہ، آیت ١١ .’ایمان والو! جب تم سے مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دیدو تاکہ خدا تمھیں (جنت میں) وسعت دے… ‘۔٢۔سورہ ٔاسراء آیت٥٣. ‘میرے بندوں سے کہدیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں’٣۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ‘المؤمن اعظم حرمة من الکعبة’ بحار، ٦٨، ص١٦۔مومن حرمت کے لحاظ سے کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔اس کے علاوہ جو چیز بھی مسلمان کی ہتک حرمت اور توہین کا باعث ہو، اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت علی ـ نے انبارشہرکے رہنے والوں سے جوان کے استقبال میں پیادہ اورغلامانہ انداز میں آئے تھے، فرمایا:یہ کون سا کام ہے جو تم انجام دیتے ہو؟انھوں نے جواب دیا کہ یہ ایک رسم ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے حکّا م اور فرمانرواؤں کا احترام کرتے ہیں۔حضرت نے فرمایا:خداکی قسم تمہارے فرمانروااور حکّام اس کام سے کوئی استفادہ نہیں کرتے اور تم لوگ بھی اپنے اس عمل سے دنیا میں زحمت ومشقت اٹھاتے ہو۔اور آخرت میں بھی تمہاری بدنجتی کا سبب ہے۔ (١)حتّٰی اُن مواردمیں بھی کہ ایک عمل ظاہری طورپراکرام ہے لیکن حقیقت میں دوسروں کے ذلیل وخوار ہونے کا باعث ہے۔اس پر تنبیہ فرماتے تھے۔حسین بن ابی العلأکچھ لوگوں کے ہمراہ مکہ کے سفرمیں ہم سفر ہوا۔ اورہر منزل پراپنے دوستوں کی مہمان نوازی میں ایک بھیڑذبح کرتا تھا۔اور جب سفرکے دوران حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں آیا تو حضرت نے اُس سے کہا: آیامو منین کوذلیل وخوارکرتے ہو؟ حسین بن ابی العلأنے امام کے سوال وجواب سے سمجھ گیا کہ اُس کے احباب تنگدستی کی وجہ سے اس کے مانند عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے لہٰذ اوہ اپنے آپ میں ذلت وخواری کا احساس کرتے تھے۔تربیت پانے والے یا فرزند سے مشورہ کرنا بھی اس کے احترام و اکرام کے مانند ہے وہ اس طریقۂ عمل سے خود کو عالی مرتبہ اور عظیم شخصیت خیال کرتا ہے، خداوند عالم حتیٰ پیغمبر اکرم ۖسے فرماتا ہے: ‘اپنی امت اور ماتحت افراد سے مشورہ کرو’۔(٢)فرزند کے لئے کسی گھر یا کمرہ کا مخصوص کرنا (جبکہ اس کا امکان ہو ) اور بطور کلی ہر قسم کی مالکیت اور تملک کا احساس بھی ان امورمیں سے ہے کہ جوانسان کے احترام و اکرام کے احساس کا باعث ہے۔…………………………………١۔نہج البلاغہ، حکمت ٣٧۔٢۔ (وَشَاوِرْہُم فِی الْاَمْرِ )سورہ ٔآل عمران، آیت١٥٩۔
ب۔بغیر شرط کے مثبت توجہ:محبت اور علاقہ انسان کی اساسی ضررتوں میں سے ہیںجن کا مختلف ماہرین نفسیات نے مختلف انداز میں کیا ہے، کارن ہورنائے ]Hornay,k[ان دونوں کو ‘محبت’ اور ‘تصویب اعتبار ومحبوبیت ‘ کے عنوان کے تحتذکر کرتا ہے، جان بالبی ]Bowlbyj[نے’محبت ودل بستگی’کے مفہوم کو اپنے نظریہ کی بنیاد قرار دی ہے اور بچے کی سیرت کے رشدوارتقاء کو دلبستگی کی ضرورت صحیح طور سے پوری کرنے میں خیال کیاہے۔ مزلو جسمانی اور امن وسلامتی کی ضرورتوں کی تأمین وتضمین کے بعد تعلق اور محبت کی ضرورت کوسب سے اہم ضرورت سمجھتاہے۔محبوب دوستوں کانہ ہونا ایک بیوی اورایک بچے کو شدت سے احساس ہوتاہے۔وہ دوسروںکے ساتھ عاطفی روابط کے محتاج ہیں بعبارت دیگروہ اپنے گروہ یاخاندان اور فیملی میںایک مرتبہ کامحتاج ہیں… نفسیاتی کے ماہرین اس بات پر متقق ہیں کہ عشق و محبت کی ضرورتوں سے بے بہرہ ہونا ناکامی اور ناساز گاری کی بنیادہے۔(١)راجرز کے نظریہ کے مطابق مثبت توجہ بغیر شرط کے انسان کے اندر عزت ونفس کا احساس پیدا کرتی ہے جو کہ دوسروں کی طرف سے خصوصاً اپنے سرپرستوں کی طرف سے گرم اور محبت آمیز، تعلقات روابط،قلبی لگائو، قبولیت اور مہربانی کو شامل ہے بے قید وشرطتوجہ مثبت اس معنی میں ہے کہ جوتاثیر وتاثرایک انسان سے دوسرے انسان کے روابط کی بنیاد پر اور اس احساس سے وجود میں آتی ہے کہ تربیت پانے والا ہرصورت میں ایک بااہمیت شخص ہے۔ اگر انسان احساس کرے کہ محبت(مثبت توجہ) اُس صورت میں حاصل کرے گاکہ جب دوست رکھنے کے قابل ہو تو اپنے اندر سے تنفر وبیزاری کے احساس کو دور کرکے دوست رکھنے والی تصویر باقی رکھنے کی کوشش کرتاہے، یہاں پر نہ یہ کہ احساس تنفر خود اس کے خیال میں ناموافق ہے بلکہ انسان کو مثبت توجہ کے کھو جانے پر بھی تہدید کرتا ہے ، ایسے موقع پر زبردستی اس پر فضیلت پیدا کرنے کے شرائط کو لادنا تجربیات کے انکار کا موجب ہوتاہے اور جسم اور اس کی شخصیت درمیان شگاف پیدا ہوجاتا ہے، لیکن اگر والدین (یا مربی) اپنے فرزند کی طرف بدون شرط اور مثبت توجہ رکھتے ہوں اور وہ احساس کرے کہ والدین اس کی اہمیت کے قائل ہیں، تو انکار تجربیات کی پھر کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔(٢)…………………………………١۔ روانشناسی شخصیت سالم، ص١٥٠تا١٥٤۔٢۔ روانشناسی شخصیت ، ص٢٢١۔بے شک توجہ مثبت بدون شرط تربیت حاصل کرنے والے کی شخصیت کے احترام وتکریم کا باعث ہوگی اور اس کے اندر عزت نفس کا احساس پیدا کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ تربیت پانے والا خود ہی یہ احساس کرے کہ وہ ایک منفرد اور مشخص انسان کے عنوان سے مربی کی توجہ اور عنایت کا مرکز ہے، اگر یہ احساس ثابت ہوجائے تو اس کی ہر ناپسند رفتار وکردار کی (صحیح طرز کے ساتھ) مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن اسی حال میں یہ احساس بھی رکھتا ہو کہ خود اُس کو لوگ دوست رکھتے ہیں اور مخالفت حقیقت میں اس کے ناپسندیدہ اعمال ورفتار سے ہے، جیسا کہ قرآن کریم حضرت لوط ـ کی زبانی ان کی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:( قَالَ اِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِنَ الْقَالین )(١)’ انھوں نے کہا: میں تمہارے کردار کا دشمن ہوں ‘۔حضرت علی ـ نے بھی حضرت رسول خدا ۖ کی حدیث نقل فرمائی ہے:’ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَیَبْغُضَ عَمَلَہُ….’۔(٢)’خداوند سبحان کبھی کبھی کسی بندے کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل کو دشمن رکھتا ہے ‘۔بچوں کے ساتھ برتائو کے سلسلہ میں بھی روایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ قلبی لگائو اور نرمی کے ساتھ برتائو کرو، انھیں بوسہ دو، ان کے مہرو محبت میں کمی نہ کرو تاکہ محبت کی احتیاج ان کے اندر نفسیاتی الجھنوں وبیماریوں میں تبدیل نہ ہوجائے، جو شخص دوسروں کی محبت سے بہرہ مند ہو!، وہ دوسروں کے ساتھ احسان ومحبت کر سکتا ہے۔ پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں:’ بچوں کو دوست رکھو اور انہیں اپنے رحم وکرم کے سایہ میں قرار دواور جب بھی اُن سے وعدہ کرو تو اُسے وفا کرو’۔ (٣)…………………………………١۔ سورہ ٔشعرائ، آیت ١٦٨۔٢۔ نہج البلاغہ، خ١٥٤۔٣۔ ‘أَحِبُّوا الصبیان وارحموہم وَاذا وعدتموہم شیئاً ففولہم’ کافی، ج٦، ص٥٢۔حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں:’خداوند سبحان ضرور بالضرور اپنے اُس بندے کو جو اپنی اولاد سے بہت محبت کرتا ہے مورد رحمت قرار دیتا ہے'(١)’اپنے فرزندوں کو زیادہ بوسہ دو، کیونکہ بہشت میں ہر بوسہ کے بدلہ ایک درجہ ہوگا'(٢)محبت اور مہربانی پیغمبر اکرم ۖ کی سنت اورسیرت ہے، نیز انسانوں کی اخلاقی تربیت ہدایت میں آپ کی کامیابی کا راز بھی یہی نکتہ ہے: ‘فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَو کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَولِکَ فَاعْفُ عَنہُم وَاسْتغفِر لَہُم'(٣)۔ پس اﷲ کی رحمت وبرکت سے آپ کے ساتھ نرم خو اور پُرمحبت ہیں، اور اگر تند خو اور سخت دل ہوتے تو یقیناً آپ کے آس پاس سے وہ لوگ پراگندہ ہوجاتے۔ لہٰذااُن سے درگذر کیجئے اور اُن کے لئے بخشش ومغفرت طلب کیجئے۔پیغمبر اکرم ۖ کی سنت اور سیرت کے لئے بھی جو اُن کو پتھرمارتے تھے، دعا کرتے تھے: ‘اَللّٰہُمَّ اہْد ِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُونَ’]خدایا! میری قوم کی ہدایت کر اس لئے کہ وہ نہیں جانتی ہے[ وہ انسانوں کے ساتھ بدون شرط مثبت توجہ کا بالاترین درجہ ہے کہ جو اﷲکی تمام مخلوقات سے گہرے لگائو اور عشق سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ توجہ مثبت بلاشرط کی توفیق، صرف تمام انسانوں کے ساتھ عشق کرنے کے نتیجہ میں ممکن ہے۔ اہم یہ ہے کہ نکتہ خالص اور بے ریا محبت دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور گہرے لگائو اور شخصیت کے احترام کا باعث ہوتی ہے، نہ کہ جو کچھ تکلف اور دکھاوے سے پیدا ہوتی ہے ۔اپنے عشق و محبت کو اپنے فرزندوں یاتربیت پانے والوں میں ظاہر کرنے کے لئے ہر فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے، جیسے اوقات ان کے ساتھ ہم گذاریں؛ مشترک رابطوں اور چاہتوں کو پروان چڑھائیں؛ باہم کھیلیں، ان سے کہیں کہ ہم تمھیں دوست رکھتے ہیں، اُن کے ساتھ اس طرح برتائو رکھیں کہ گویا وہ روئے زمین کی سب سے اہم انسان ہیں، ان کے پائداراور ناقابل فراموش آثار وواقعات وجود میں لائیں، ان کی تعریف کریں وغیرہ وغیرہ…۔(٤)…………………………………١۔ ‘انّ اللّٰہ لیرحم العبد لشدّة حُبّہ لولدہ’ کافی، ج٦، ص٥٢۔٢۔ ‘اکثرو من قبلة اولادکم فانّ لکم بکلّ قبلةٍ درجةً فی الجنّة۔’وسائل الشیعہ، ج١٥، ص٢٠٢۔٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت ١٥٩۔٤۔ استفان مارستون، معجزہ تشویق، ترجمہ تور اندخت تمدن، ص٨١۔محبت کا ظاہر کرنا اور اس کابیان کرناعاطفی روابط میں بہت اہم ہے۔ روائی کتابوں میں اس سلسلہ میں مستقل اور جداگانہ باب پایاجاتاہے: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ‘جب کوئی کسی انسان کو دوست رکھے تو اسے اطلاع دے کیونکہ یہ دوستی کے پائدار ہونے کا موجب ہوگا'(١) خداوند سبحان بھی حضرت موسٰی ـ کی نسبت اس طرح سے محبت کا اظہار کرتا ہے: ‘یقیناً دوبارہ بھی ہم نے تم پر احسان کیا جب ہم نے تمہاری ماں کو وحی کی … اور اپنی مہر و محبت کو تم پر ڈال دیا تاکہ میرے زیر نگرانی پرورش پائو۔’ (٢) اور اپنے حبیب محمد مصطفی ۖکی جان کی قسم کھاکر محبت اور لطف کا اعلان کرتا ہے: ‘آپ کی جان کی قسم وہ لوگ اپنی مستی میں سر گرادں ہیں ‘(٣)قرآن کی مختلف تعبیریں لوگوں بالخصوص مومنین کی نسبت خداوند عالم کے بے پایان لطف وکرم کو بیان انسانوں کے عظیم مربی کے عنوان سے بیان کرتی ہیں،قومی، عبادی، ‘انِّی اَخَافُ عَلَیْکُم، ہَلْ لَکَ۔۔۔ یَااَیُّہَا الَّّّذِیْنَ آمنوا۔۔۔’وغیرہ۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ محبت کے اظہار میںہمیں اعتدال اور میانہ روی کی رعایت کرنا چاہئے اور محبت میں افراط سے ہمیں اجتناب کرنا چاہئے؛ کیونکہ یہ چیز فرزندوں کو بے حوصلہ وبے اعتماد بنادیتی ہیں، اس وجہ سے مشکلات زندگی کے موقع پر حقارت (کمتری) اور ناتوانی کا احساس کرتے ہیں، کیونکہ سماج اور جس ماحول میں وہ ہیں اس میں اتنی محبت اور مہربانی انھیں نصیب نہیں ہوگی۔ محبت میں افراط تربیت پانے والے کی تربیت میں تاثیر کو زائل کردیتی ہے۔حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: ‘سب سے بُرے آباء وہ ہیں جو محبت اور نیکی میں افراط سے کام لیتے ہیں ‘(٤)…………………………………١۔ ‘اذا احببت رجلاً فاخبرہ بذلک فانّہ اثبت للمودة بینکما ‘ کافی، ج٢، ص٦١٥، باب اخبار الرجل اخاہ بحبہ (انسان کا اپنے برارد ایمانی ) اپنی محبت کی اطلاع دینا کو۔٢۔ (وَلَقَدْ مَنَّنَا عَلَیْکَ مَرَّةً اُخْریٰ۔۔۔ والقیت علیک محبّةً منی ولتضع علی عینی)(سورہ ٔطٰہٰ، آیت ٣٧تا ٣٨)٣۔ ( لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِی سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ)سورۂ حجر، آیت٧٢۔٤۔ ‘ شر الاٰباء من دعاہ البرالی الافراط ‘(تاریخ یعقوبی، ج٣، ص ٥٣)۔
ج۔ اغماض (چشم پوشی) :کمزوریوںاور خطائو ں کا اظہار عزت نفس کے برباد ہونے اور شخصیت کے پامال ہونے کا باعث ہوتاہے،لہٰذا ان سے اغماض اورچسم پوشی ان کے لئے تربیت پانے والے کی شخصیت کی تعظیم وتکریم ہوگی۔جب کسی سے کوئی خطا سرزد ہو یا خطا کا احتمال دیں۔ تو اس کی اخلاقی تربیت اور حفظ عزّت نفس کے لئے تین مرحلے نظر میں رکھے جاسکتے ہیں:
١۔ صحت پر حمل کرنا چاہئے یا اس کی اچھے طریقہ سے توجیہ کرنی چاہئے؛ خطا کے ثابت ہونے سے پہلے اگر خطا کی توجیہ کرنے کے قرائن اور احتمالات موجود ہوں تو صحت پر حمل کیا جا سکتا ہے جو کہ اسلامی فقہ میں ایک مسلم الثبوت اصل ہے۔ لہٰذا احتمال خطا کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہئے اور اپنے تجسس اور کھوج سے کشف فساد اور ایک مسلمان کی آبروریزی کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔حضرت علی ـ نے فرمایا:’ اپنے ]ایمانی[ بھائیوں کے کام کی اچھے سے اچھے عنوان سے توجیہ کرو یہاں تک کہ اس کے خلاف تم پر ثابت ہوجائے، نیز ان کی باتوں کی نسبت بھی جب تک کہ اچھی توجیہ کا امکان ہے بدگمانی نہ کرو’۔(١)
٢۔تغافل اور تجاہل:اگر تربیت پانے والے کی خطا ثابت ہوجائے لیکن وہ پہلی مرتبہ تھی اور حالات کے مطابق ہم تشخیص دیں کہ اس کو نظرانداز کرنا اور اس کی شخصیت کاتحفظ اصلاح کا باعث ہو گا تو تغافل اورتجاہل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؛یعنی یہ ظاہرکریں کہ یہ خطااس سے سرزدنہیں ہو ئی ہے اوراس کی توجیہ کو بھی قبول کریں، باوجودیکہ کہ اس کے صحیح نہ ہو نے سے با خبر ہیں۔حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:’دوسروں کے ساتھ معاشرت اور زندگی گزارنے کے حالات کی اصلاح ایک ایسے ظرف کے مانند ہے جس کا دوثلث ]دو تہائی[زیرکی اور ایک ثلث ]ایک تہائی[تغافل ہے’۔ (٢)’ جزئی امورسے تغافل کرکے خودکو بلند مرتبہ اور عالی قدر بناؤ’۔(٣)…………………………………١۔ ‘ضَع اَمر اَخِیکَ عَلیٰ اَحسنہ حتّیٰ یاتِیکَ مَایقلبک عنہ وَلَاتظنُّنَّ بکلمة خرجت من اخیک سوائً وانت تجد فی الخیرسبیلاً’ (کافی، ج٢، ص٣٦٢)۔٢۔ ‘صلاح حال التعایش والتعاشر ملاء مکیال ثلثاہ فطنة وثلثہ التغافل ‘۔(اخلاق فلسفی، ص٣٥٩)۔٣۔ ‘عظموا اقدارکم بالتغافل عن الدنی من الامور’ ۔( ایضاً، ص٢٢٤)۔حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘تجاہل وتغافل سے بہتر کوئی زندگی نہیں ہے۔'(١) تغافل تربیت حاصل کرنے والے کی تکریم وتعظیم کے علاوہ اسے اس بات کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مربی کے کرم وبخشش کی تلافی کرے اور یہی امر اس کی اصلاح اورخطاکے دوبارہ نہ کرنے کا سبب بنے گا۔٣۔عفوودرگذر:خطاکے مسلم اورآشکارہونے کے بعد، اب بھی چشم پوشی اورنظرانداز کرنے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اگرہم یہ احتمال دیں کہ دوسروں کی خطاکو معاف کرنا ان کی بیداری اوراصلاح کا باعث ہوگی (کہ عام طور پر ایساہی ہے) توعفوکرناہی بہترہے۔خداوندغفور سماج اور معاشرہ میں ایک جاری وساری سیرت کے عنوان سے عفوودرگذرکی تاکیدکرتاہے: (خُذِ الْعَفْو )۔(٢) ‘اے پیغمبر!عفوودرگذرکواپنا شعار بنالو’۔……’ان لوگوں سے درگذرکرو اور ان سے چشم پوشی کرو کہ خدانیکوکا روں کودوست رکھتاہے’۔(٣)عفوودرگذرکرنا چاہئے کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتمہیں معاف کردے اور خدابخشنے والااورمہربان ہے’۔(٤)روایات کی نظرسے بھی عفوودرگذشت مکارم اخلاق اورسماجی اور اجتماعی روابط میں نمایاں مرتبہ کا حامل ہے اور دوسروں میں اخلاقی فضائل کی راہ ہموارکرنے والاہے:پیغمبراکرم ۖنے فرمایا ہے: ‘ایک دوسرے کو معاف کروتاکہ تمہارے درمیان سے کینے اور کدورتیں ختم ہوجائیں۔'(٥)عفوودرگذرخداکے بندوں کی عزت میں اضافہ کرتاہے، لہٰذاعفوکرو تاکہ خداتمیں عزیز قرار دے۔ (٦)حضرت علی ـ سے منقول ہے: ‘عفوودرگذشت تمام مکارم اخلاق کا تاج ہے۔'(٧)…………………………………١۔ ‘لاعقل کالتجاہل ‘(غرر الحکم ودرر الکلم۔)٢۔ سورہ ٔاعراف، آیت١٩٩۔٣۔ (فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ)(سورہ ٔمائدہ، آیت ١٣)۔٤۔ (وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا، اَلَاتُحِبُّوْنَ اَن یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ۔)(سورہ ٔنور، آیت٢٢)۔٥۔ ‘تعافوا تقسط الضغائن بینکم'(کنز، ٧٠٠٤)۔٦۔ ‘العفو لایزید الّا عزاًفاعفوا یعزکم اللّٰہ’۔ (ایضاً، ١٢،٧٠)۔٧۔ ‘العفو تاج المکارم۔'(غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٥)۔قرآن بھی فرماتاہے: (فَاصْفَح الصَّفحَ الْجَمِیْل)(١) ‘آپ خوبصورتی کے ساتھ درگذر کردیں۔ ‘صفح’ ترشروئی اورعتاب کے بغیردرگذر کرنے کے معنی میں ہے۔قدرت رکھنے کے باوجودمعاف کردینے کے بارے میں روایات میں بہت زیادہ تاکید ہو ئی ہے۔ حضرت امام حسین ـ فرماتے ہیں: ‘لوگوںمیں سب سے زیادہ درگذر کرنے والا وہ ہے جو قادر ہو نے کے باوجود معاف کردے۔'(٢)حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ‘بہترین عفو درگذشت وہ عفوودرگذشت ہے کہ جوقادرہو نے کے باوجودمعاف کردی جائے۔'(٣) انھوںنے اپنے فرزند حضرت امام حسن ـ سے وصیت میں عفو و درگذر کو سزا سے زیادہ انسان کی صلاح کاباعث جاناہے: ‘جب تمہارے نزدیک کسی سے کوئی خطاسرزد ہوجائے، تو عادلانہ درگذر عقلمندکے لئے سزاسے زیادہ موثرہے۔'(٤)پیغمبر اکرم ۖبھی عفوکو موجب اصلاح جانتے ہیں:ایک انسان نے اپنے خدمت گزار وں کے رویہ کی رسول اکرم ۖکی خدمت میں شکایت کی۔تو حضرت نے فرمایا: انھیں معاف کردو تا کہ ان کے دل نیکیوں کی طرف مائل ہوں ‘۔عرض کیا: اے پیغمبر خدا !وہ لوگ کاموں میں سستی کرتے ہیں !فرمایا: انھیں معاف کردو’۔(٥)اغماض وچشم پوشی کے ذریعہ بغیر رفتار کے نفسیاتی نقطۂ نظر (اس کے تحریکی پہلو کے علاوہ) ‘خاموشی’ کے طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے: خاموشی اس طریقۂ کارکو کہا جاتا ہے کہ اُس میں رفتار کا واقع ہونا بغیرتقویت کے رہ جائے اور تکرار ایک رفتار کی تقویت کے بغیر اُس رفتار کے مکمل توقف کا باعث ہوتی ہے… مثال کے طور پر استاد نامطلوب رفتارسے بے اعتنائی کرے تو طالب علموں کے شور شرابہ کو خاموش کرسکتا ہے (٦) البتہ عفو و درگذر کے خاموشی سے بھی کہیں زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں، اگرچہ عام طور وہ پر خاموشی کا مستلزم ہے۔…………………………………١۔ سورہ ٔحجر، آیت٨٥۔٢۔ ‘ان اعفی الناس من عفی عنہ قدرتہ ‘(بحار، ج٧٤، ص٤٠١)۔٣۔ ‘احسن العفو کان عن قدرة'(غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٦)۔٤۔ ‘اذا استحق احد منک ذنبا فان العفو اشدّ من الضرب لمن کان لہ عقل'(بحار، ج٧٧، ص٣١٦)٥۔ مستدرک الوسائل، ج٢، ص٨٧۔٦۔ سیف، تغییر رفتار ورفتار درمانی، ص٣٨٢۔
د۔ ذمہ داری دینا:جب انسان خود کو قوی اور توانا محسوس کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اُس سے کوئی کام ہوسکتا ہے تو وہ افتخار وعزت کا احساس کرتا ہے، تربیت پانے والے انسان کی تکریم کے لئے اُس کے اندر عزت کا احساس پیدا کرنا چاہئے، تاکہ اُس سے ذلت اور کمتری کا احساس جاتا رہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کی توانائیوں کے ظاہر ہونے کا امکان پیدا کریں تاکہ اسے یقین ہو کہ اس سے بھی کام ہوسکتا ہے اور وہ بھی کسی کام کا آدمی ہے تربیت پانے والوں اور فرزندوں کے درمیان ذمہ داری دینا اور کاموں کوتقسیم کرنا اُن کی شخصیت کی تعظیم و تکریم کا باعث ہوتا ہے اس کے دوسرے موارد اخراجات کی تنظیم کا امکان ،انتخاب اور کسی بات کے طے کرنے کے لئے مہلت دینا، بعض ذمہ داریوں کو سپرد کرنا وغیرہ ہے، اور ذمہ داری کی سپردگی اگر عاقلانہ اور ظریف نگرانی کے ساتھ ہو تو اخلاقی تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے، مندرجہ ذیل داستان نے ‘پیاژہ’ نامی معاصر نفسیات کو حیرت میں ڈال دیا ہے، توجہ فرمائیے:١٩٣٠۔ اور ١٩٣٥۔ کے درمیان میں نے ایک مؤسسہ وادارہ کا دیدار کیا تو وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوا، یہ مؤسسہ مجرم بچوں سے مخصوص تھا اور یورپ کے مشرقی علاقے میں واقع تھا، یہ ایک ماہر اور مدبر مدیرکے زیر ادارت تھا ، وہ چاہتاتھا کہ جن بچوں اور نوجوانوں کی اُس نے ذمہ داری لے رکھی ہے، ان پر اعتماد کرے، یہاں تک کہ مؤسسہ کے نظم وضبط کو ان کے حوالے کردے اور اہم ترین ذمہ داری اُن میں سے شریرترین کے حوالے کردے ، اس تجربہ کے دو پہلو نے ہمیں مخصوص انداز میں اپنی طرف مائل کیا، ایک نووارد اور تجربہ کار افراد کی ‘تربیت’ دیگر نوجوانوں کے اجتماعی گروہ کے ذریعہ اور دوسرے موسسہ کی داخلی نظم وضبط اور اشارے عدالتی امور بھی ان شاگردوں کے سپرد تھے جو روز شب پر محیط تھے، ذرا تصور کریں ان پر اس قدر اعتمادکہ مدرسہ کے قواعد اور دستورات کو شاگردوں کی جماعت معین کرتی ہے نہ بزرگ افراد ، نو واردافراد میں کیا اثر رکھتی ہے۔ جہاں پر جو بچے اور نو جوان کسی جرم کے مرتکب ہوئے تھے اور بچوں کے عدالتی محکمہ نے انھیں مجرم قرار دیاتھا اور وہ لوگ طولانی تادیب اور سزا کے منتظر تھے، یکبارگی خود کو اُن نوجوانوں کے درمیان دیکھتے تھے کہ جو جرم کے تمام مراحل گذارنے کے بعد اپنا علاج کرکے ئنی زندگی چاہ رہے تھے ، ایک منظم گروہ رکھتے تھے اوربلافاصلہ نووارد افراد کو اپنے جرگہ میں قبول کرکے تمام امور، فرائض اور ذمہ داریاں ان کے حوالے کردیتے تھے ، کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ایسے افراد زندان کے داروغہ سے روبرو ہونے کے بجائے اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرتے تھے تو یکبارگی بدل جاتے تھے اور پھر اس کے بعد ان میں کج رفتاری کی تکرار نہیں ہوتی تھی اس مؤسسہ کے ادارہ کرنے والے عظیم مربی کی خوبصورت ترین ایجاد یہی بات تھی اگر اس ادارہ کے شاگردوں سے کوئی خطا سرزد ہوتی تھی تو وہ عدالت اُس خطا کی تحقیق کرتی کہ جو ان ہی شاگردوں سے تشکیل پائی تھی اس حیرت انگیز عدالت کی نظریہ اور اس کے احکام وہاں کے اخبار میں شائع ہوئے تھے…۔(١)قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم ۖکی سیرت دوسروں کو (خصوصاً نوجوانوں کو)ذمہ داریاں سونپنے کے بارے میں اُن کی استعداد کو بڑھانے اور ان کی شخصیت کاا حترام کرنے کے لئے بہت سے واقعات کی نشاندہی کرتی ہیں مثلاً طالوت جیسے جوان کا انتخاب بنی اسرائیل کی قیادت کی ذمہ داری کے لئے ، اسامہ کی کمانڈری اور مصعب بن عمیر نامی جوان کا مدینہ کے لئے سب سے پہلے مبلغ کے عنوان سے تعارف کرانا وغیرہ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.