ممدوح دنیا

135

١۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والیامام زین العابدین نے فرمایا :(الدنیا دنیاء ان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة)(١)’دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ‘دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو اﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :…………..(١)بحارالانوارج٧٣ص٢٠۔(لاتسألوافیھا فوق الکفاف،ولاتطلبوامنھا أکثرمن البلاغ)(١)’اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ‘اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الدنیاخلقت لغیرھا،ولم تخلق لنفسھا)(٢)’دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے’وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ‘بقدر ضرورت ‘کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ‘بقدر ‘ضرورت سے مراد وہ…………..(١)بحارالانوارج ٧٣ص٨١۔(٢)نہج البلاغہ حکمت ٤٥٥۔مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکےانسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:(یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیھایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیھایکفیک(١)’اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ‘دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:(ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منھا الا فیھا،ولاینجیٰ بشی ء کان لھا،ابتلی الناس بھا فتنة،فما أخذوہ منھا لھااُخرجوا منہ وحوسبوا علیہ،…………..(١)اصول کافی ج٢ص١٣٨۔وما أخذوہ منھالغیرھا قدمواعلیہ وأقاموا فیہ)(١)’آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ‘ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منھا اِلا فیھا)اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ اﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ‘واسطہ ووسیلہ’سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان…………..(١)نہج البلاغہ خطبہ ٦٢ ۔کلمات میں موجود ہے ۔اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ اﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ‘عمل صالح’شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ‘عاجل”نقد’کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت’آجل”ادھار’کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی’وماعنداﷲ خیر وأبقی’امیر المومنین کے اس فقرہ’وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ’ سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلھینی عجائب بھجتھا،وتفتننی زھرات زینتھا،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری ھمّہ)(١)’کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ‘دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میںاس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

٢۔دنیا مومن کی سواریپیغمبر اکرم ۖسے مروی ہے :(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیھا یبلغ الخیر وبھا ینجو من الشر)(٢)…………..(١)بحارالانوار ج١٠١ ص٢٠٨۔(٢)بحارالانوار ج٧٧ص١٧٨۔’دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ‘اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔
٣۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔
٤۔دنیا دار عافیت۔
٥۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔٦۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔٧۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔٨۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :(أیھاالذام للدنیاالمغترّبغرورھاالمنخدع بأباطیلھا!أتغتر بالدنیاثم تذمّھا،أنت المتجرّم علیھاأم ھی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استھوتک؟أم متیٰ غرّتک؟۔۔۔)(١)’اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا…………..(١)نہج البلاغہ حکمت ١٢٦۔جانے والے !تو اسی سے دھوکا بھی کھاتا ہے اور اسکی مذمت بھی کرتا ہے ؟یہ بتائو کہ تجھے اس پر الزام لگانے کا حق ہے یا اسے تجھ پر الزام لگانے کا حق ہے ؟آخر اس نے کیا تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟کیا تیرے آبا ء و اجداد کی کہنگی کی بناء پر گرنے سے دھوکا دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیر خاک خواب گاہ سے دھوکا دیا ہے ؟کتنے بیمار ہیںجن کی تم نے تیمار داری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے انکا علاج کیا ہے اور چاہاکہ وہ شفا یاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے ۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچارہا تھا۔نہ تمہاری ہمدردی کسی کوکوئی فائدہ پہنچاسکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہوسکا اور نہ تم موت کو دفع کرسکے۔اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمھیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا (لیکن تمھیں ہوش نہ آیا)یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر اور سمجھ دار کے لئے امن وعافیت کی منزل اور نصیحت حاصل کرنے والے کیلئے نصیحت کا مقام ہے ۔یہ دوستان خدا کے لئے سجود کی منزل اور ملائکہ ٔ آسمان کا مصلی ہے یہیں وحی الٰہی کانزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیںجس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں کسے حق ہے کہ اسکی مذمت کرے جبکہ اس نے اپنی جدائی کا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاسے ان کے ابتلا کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرور سے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے ۔اسکی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میںرغبت بھی پیدا ہو اور خوف بھی ۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے ۔کچھ لوگ ندامت کی صبح اسکی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اسکی تعریف کریں گے۔جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انھوںنے اسے قبول کرلیا اس نے حقائق بیان کئے تو اسکی تصدیق کردی اور موعظہ کیا تو اسکے موعظہ سے اثر لیا’

٩۔دنیا بازار ہےحضرت امام علی نقی نے فرمایا ہے :(الدنیا سوق ربح فیھا قوم وخسرآخرون)(١)’دنیا ایک بازار ہے جہاںایک قوم فائدہ میں ہے اوردوسری قوم خسارہ میں ‘

١٠۔دنیا آخرت کے لئے مددگار ہے ۔امام محمد باقر کا ارشاد ہے :(نعم العون الد نیا علیٰ الآخرة)(٢)’دنیا آخرت کے لئے بہترین مددگار ہے ‘

١١۔دنیا ذخیرہ (خزانہ )ہے ۔امیر المومنین کا ارشاد ہے :(الدنیا ذخر والعلم دلیل)(٣)’دنیا خزانہ ہے اور علم رہنما’

١٢۔دنیا دارالمتقین ہے ۔قول پروردگار ‘ولنعم دارالمتقین’کی تفسیر کے ذیل میںامام محمد باقر نے فرمایا کہ:’اس سے مراد ‘دنیا ‘ہے ۔…………..(١)بحارالانوار ج٧٨ص٣٦٦۔(٢)بحارالانوار ج٧٣ص١٢٧۔(٣)غررالحکم۔

١٣۔دنیاکا ماحصل آخرت ۔حضرت علی نے فرمایا ہے :(بالدنیا تحرز الآخرة)(١)’ دنیاکے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے’اس طرح اسلام کی نگاہ میں دنیا قابل مدح وستائش، اولیائے الٰہی کی محل تجارت ،محبان خدا کی مسجد ،آخرت تک رسائی کا ذریعہ اور مومنین کے لئے زاد آخرت حاصل کرنے کا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ جب دنیا سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے لیکن اگر دنیا کومنظورنظر بنا لیا جائے تو پھر یہی دنیا انسان کو اندھا بنا دیتی ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :منقول ہے کہ جب آپ نے یہ فرمایا :(أیھاالذام الدنیا أنت المتجرّم علیھا أم ھی المتجرّمہعلیک؟قال قائل: بل أناالمتجرّم علیھایاامیرالمؤمنین ۔فقال:’فلم ذممتھا؟ألیست دارصدق لمن صدقھا؟)(٢)’اے دنیا کی مذمت کرنے والے!تو نے اسکے اوپر تہمت لگائی ہے یا اس نے تیرے اوپر تہمت لگائی ہے ؟’تو اس شخص نے کہا :اے امیر المومنین میں نے اس پر تہمت لگائی ہے! تو آپ نے فرمایا :’تو پھرتم دنیا کی کیوں مذمت کرتے ہو؟کیا یہ دنیا تصدیق کرنے والوں کیلئے دار صدق نہیں ہے ‘…………..(١) بحارالانوارج ٦٧ص٦٧۔(٢)بحارالانوار ج٧٨ ص٧ ١۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.