سیرة النبی اور اُسوة الرسول کا تقابلی جائزہ
مولانا شبلی نعمانی ١ (١٩١٤ئ)نے “سیرة النبیۖ”نامی کتاب لکھنی شروع کی جس کی تکمیل اُنکے شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی (م١٩٥٣ئ)نے کی یہ مناظرے کا دور تھا ہر دو علما نے بہت سے حقائق احاطہ تحریر میں لانے سے احتراز کیا اوربہت سی نادرست باتوں کا اضافہ کیا اُنکے معاصر مشہور شیعہ دانش ور و عالم سید اولاد حیدر فوق بلگرامی ٢ (م١٩٤٢ئ)نے ان مجلدا ت پر ناقدانہ نظر ڈالی جو پانچ بڑے سائز کی جلدوں میں شائع ہو ئی زیر نظر مقالے میں اُن حقائق کو سامنے لانے کی کو شش کی گئی ہے جنھیں مصنف علام نے نہا یت ستھرے انداز میں پیش کیا ہے سیر ہ النبی ۖکی پہلی جلد مقدمہ (فن روایت ) مقدمہ٢(تاریخ عرب قبل از اسلام )اور سیرت کے ابتدائی حصے پر مشتمل ہے ۔
اسوة الر سول جلداول بڑے سائز کے ٨٢٢ صفحات پر مشتمل ہے جسے کاظم بک ڈپو دہلی نے دوسر ی مر تبہ١٩٣٥ء میں شائع کیا مقدمہ ٢٥٠صفحات پر مشتمل ہے جس کی تکمیل مصنف نے بروز عید الفطر ١٣٤٢ھ/١٩٢٤کو ،کی باقی صفحات سیر ت پر مشتمل ہیں۔مولانا نعمانی مرحوم نے مقدمہ کتاب میں یہ اطلاع دی ہے کہ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں :۔پہلے حصے میں عرب کے مختصر حالات ،کعبہ کی تاریخ ،آنحضرت ۖکی ولا دت و وفات ……..دوسرا حصہ منصب نبوت سے متعلق ہے ،نبوت کا فرض ،تعلیم عقائد ،اوامر و نواہی …….تیسرے حصے میں قرآن مجید کی تاریخ ،وجوہ اعجاز اور حقائق و اسرار سے بحث ہے ۔چوتھے حصے میں معجزات کی تفصیل ہے ۔پانچواں حصہ خاص یورپین تصنیفات سے متعلق ہے ،انکا سرمایہ معلومات کیا ہے ……
اسوة الرسول کی پا نچوں جلدیں بھی انہیں عناوین پر مشتمل ہیں ۔پہلے مقدمے میں مرحوم بلگرامی نے جن حقائق کا اظہا ر کیا ان کی طرف آتے ہیں ارقام فرما تے ہیں:١۔میری اس کتاب میں میرے مخاطب اصلی شمس العلماء مولوی شبلی صاحب نعمانی سیرة النبی ۖ کے دیباچے میں رقم طراز ہیں ۔(ص١٣)
٢۔یہ کتاب والیان ملک کی فیاّضانہ استمداد ٣ سے بڑی آب وتاب کے ساتھ شائع ہو ئی لو گوں نے بڑے اشتیاق سے خریدا مگر جب کتاب پڑھی تو معلوم ہوا، خود غلط بودآنچہ ماپنداشتیم (ص١٤)٣۔سیر ة النبی ۖ کے مجلدات دیکھ کر مفصلہ ذیل رائے قائم کی گئی ہے۔(i) حقوق بنی ہاشم کے استخفاف و استیصال کے علاوہ جو مدت سے آپ کا شعار تالیف قرار پا یا ہے جس کے لیے آپ سے کو ئی شکایت نہیںہو سکتی اس لیے کہ بنی اُمیہ کی جانب داری کے لیے آپ فطرتاً مجبور ہیں بہت سے واقعات قدیمہ اور مشاہدات عظیمہ،جوتاریخ عرب ،آثار اسلام اور اخبار جناب سید الا نام علیہ وآلہ السلام سے پور ا تعلق رکھتے تھے قطعاً مرفوع القلم اور کالعدم فرما دیئے ہیں(ص١٥)مصنف نے ایسے٣٦ مقامات کی نشاندہی کی ہے (ص١٥ تا ٣٠)
٤۔بخاری کی مرویات میں استبعاد و اقرار مولف سیرة النبی ۖ(ص٤١)
٥۔نہ شبلی صاحب غایت رسالت کو سمجھ سکے اور نہ بخاری صاحب حقیقت نبوت کو سمجھا سکے اور کیونکہ سمجھ سکتے یا سمجھا سکتے(ص٤٧)
٦۔سیرة النبی ۖکی جلدوں میں ایک حدیث بھی ائمہ اہل بیت سے نہیں لی گئی جس سے صاف طور پر ظاہر ہو تا ہے کہ شبلی صاحب کے نزدیک یہ بزرگوار قطعی ساقط الا عتبار ہیں اس طریق میں آپ پور ے پورے اپنے شیخ الشیوخ امام بخاری کے مقلد ہیں (ص٥٠)
٧۔شبلی صاحب کی قرار دادہ معیار صحت حدیث :ہم ذیل میںشبلی صاحب کے قرار دادہ معیار صحت حدیث کو نقل کر کے اُن کے بعض مقامات پر بالا ختصار اپنی تنقیدی عبارت لکھ دیتے ہیں ۔چنانچہ آپ نے وہ دس اصول ٤ تحریر کیے ہیں جو مولانا شبلی نعمانی کے قائم کر دہ ہیں ،ص٩٤
٨۔واقدی کے حالا ت میں تو شبلی صاحب لکھ چکے ہیں کہ گویا وہ سلطنت کے ہاتھ بکا ہُوا تھا مگر تحقیق سے ثابت ہو تاہے کہ واقدی ہی پر موقوف نہیں با ستشنائے معدودے چند ،قریب قریب تمام حضرات سلطنت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔
٩۔تعجب ہے کہ شمس العلماء شبلی صاحب کے ایسے فاضل محقق اور کامل ادیب (ص١٤٩)اور آل فاطمہ کی ایسی غلط ترکیب خلاف قاعدہ و اصطلاح عرب قلم بند فرمائے شبلی صاحب کو کیا پڑی ہے کہ وہ توہین بنی فاطمہ کی کو ئی تفصیل کریں تفصیل وتصریح کیسی یہی غنیمت ہے کہ آپ نے توہین اقرار کر دیا وہ بھی ظاہر ہے کہ ان حضرات کے ساتھ خلوص و عقیدت کے تقاضے سے نہیں بلکہ اپنے علماء کی اظہار و دیانت کی ضرورت سے (ص١٤١)
١٠۔شبلی صاحب نے حضرت علی ـاور آل (نبی )فاطمہ کی توہین اور احادیث موضوعہ کی کثرت تدوین کے متعلق اپنی عبارت دیبا چہ میں جو ارشاد فرما یا تھا اور حقیقتاً ان اُمور کو چھپا یا تھا ہم نے اس کی تفصیل وتشریح کر دی ٥ (ص١٨٧)
١١۔سیرة النبی ۖ کے ابہامات ،ضعافات ،احذافات ،اسقاط اور استخفاف وواقعات کے کامل مکاشفات کر دئے جائیں اور شبلی صاحب کے اُن اصول اور موضوعات تالیف کی حقیقت واصلیت بتلا دی جائے جن کو سیرت نگاری اور تاریخ نویسی سے کوئی مناسبت نہیں (ص٢٤٥)
١٢۔تالیفات و تصنیفات کے ان اصول مسلمات کی تفصیل و تعمیل میں شبلی صاحب کی طرح خود غرضانہ اور جانب دارانہ فیصلہ جات اور اقتباسات و استخراجات کا غلط طریقہ نہیں اختیار کیا گیا ،اس مسلک اور اس طریقہ تالیف کے خلاف اُسوة الرسولۖ میں ہر مسئلہ ،ہر واقعہ کی اصل حقیقت کے انکشاف کر دئے جا نے کو فرض اول قرار دیا گیا ہے ۔
١٣۔مولوی شبلی صاحب کی واقعا ت صحیح سے صریح چشم پوشی :افسوس ہے کہ مولوی شبلی صاحب نے اس واقعہ تاریخی کوجو سیرة بنی ہا شم کے لکھنے والے کو قلم بند کرنا از حد ضروری تھا بالکل مرفوع القلم فرما دیا ہے حالانکہ قریب قریب تمام عربی ماخذوں میں بالتفصیل مندرج ہے (ہاشم کے ساتھ اُمیہ کی مخاصمانہ مخالفت )اور ہم نے اُنہیں کے اصل ماخذ و مسندطبقات ابن سعد سے اوپر نقل کیا ہے اکثر حضرات بطور ظاہر اس فروگذاشت کو مولوی صاحب کی کمال عاقبت اندیشی اور غایت دور بینی تسلیم کریں گے شبلی صاحب نہ کو تاہ قلم ہیں اور نہ سہو ونسیان کے ملزم (ص ٧٦٧)اُسوة الرسول ۖ جلد دوم ٥٤٦ صفحات پر مشتمل ہے جسے بار دو م ١٣٥٨ھ/١٩٣٩ء کاظم بک ڈپو دہلی نے شائع کیا ۔
١٤۔اس جلد میںبھی ان اضافات و احذافات واقعات کی حقیقت کا اپنے اپنے مقامات خاص پر انکشاف کر دیا گیا ہے جس میں مولانا شبلی نعمانی نے اخفا ء سے کام لیاتھا ،بہت سے ایسے واقعات و حالات کی بھی نہا یت تحقیق سے کامل تحقیق و تنقید کر دی گئی ہے جن کی حقیقت اور اصلیت پر خواہ مخواہ تائید عقائد تقلید اسلاف اوروہم وقیاس کے رنگا رنگ طریقوں سے نقاب افگنی کی گئی ہے ۔(ص٨)
١٥۔مولوی شبلی نعمانی کا اکثر مقامات پر یہ لکھنا کہ ‘ ابھی تک شراب حرام نہیں ہو ئی تھی ‘ یہ بتلاتا ہے کہ (نعوذ باللہ ) اسلام میں کسی وقت شراب حلال بھی تھی اگر تنزیل حرمت کے اعتبار پر یہ قیاس فرما یا جاتا ہے تو اور بھی تعجب انگیز ہے ٦ (ص٣٣)
١٦۔مولوی شبلی صاحب سیرة النبیۖ میں اس مقام پر لکھتے ہیں کہ فرانس کے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ ابو طالب چونکہ محمد ۖکو ذلیل رکھتے تھے ،اس لیے اُن سے بکریاں چرانے کا کا م لیتے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ عرب میں بکریاں چرانا معیوب کا م نہ تھا بڑے بڑے شرفا اور امرا کے بچے بکریاں چرایا کر تے کر تے تھے ۔(ص٤٢)
١٧۔شبلی نعمانی نے ابو طالب کا خطبہ نکاح پڑھنا تو تحریر فرمایا ہے مگر اُس خطبے کی عبارت نقل نہیں فرمائی یہ آپ کی کوتاہ قلمی اور اختصار پسندی کا خاص مقام ہے (ص٩،٨)
١٨۔شبلی صاحب کا یہ فرمانا کہ ‘یہ قطعاً ثابت ہے کہ آپ بچین اور شباب میں بھی جب کہ منصب پیغمبری سے ممتاز بھی نہیں ہو ئے تھے مراسم شرک سے ہمیشہ مجتنب رہے ‘ حقیقت ہے کہ شبلی صاحب نبوت ورسالت کی اصلی شان و حقیقت ہی کو نہیں سمجھے ہیں ۔(ص٩٤ )
١٩۔عکاظ کے خطبے میں حضور ۖشریک تھے اس بارے میں فوق مرحوم لکھتے ہیں ‘ شبلی صاحب نہ اپنے کسی اقرار پر قائم رہتے ہیں اور نہ اپنے کسی مختار پر ذرا اپنے دیباچے میں نقل روایات کے متعلق اپنے مقرر کردہ حدود ونصاب یاد فرما ئے جائیں پھر اپنے ادب ومحاضرات کے حوالجات پر غور کیا جا ئے ۔ (ص١٠٦)
٢٠۔رسول اکرم ۖکے خاندان کا تغمائے شرافت اسی قدر تھا کہ اس صنم کدے (خانہ کعبہ ) کے متولی تھے اور کلید بردار بایں ہمہ آنحضرت ۖنے کبھی ان بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا دیگر رسوم جاہلیت میںبھی کبھی شرکت نہیں فرمائی ‘بالکل صحیح ہے جناب رسول خدا ۖنے کبھی جہالت وضلالت کے افعال ذمیمہ اور مراسم قبیحہ میں کبھی اپنی قوم اور اہل وطن کا ساتھ نہ دیا اور نہ اُن میں شرکت فرمائی لیکن مشکل تو یہ ہے کہ شبلی صاحب کی نظر توجہ ہمیشہ خاندان رسول ۖ پر مبذول رہتی ہے اور شروع سے لے کر کفار قریش او رمشرکین کعبہ کے افعال ذمیمہ کی تصدیق و شہادت میںخاندان رسول ۖ ہی کے ہی رویہ اور اطوار کی مثالیں پیش کی جا تی ہے (ص١٥٥)
٢١ ۔شبلی صاحب سادات فیما بین بنو ہاشم او ر بنی اُمیہ کا دعویٰ کرتے ہیں تو حق دار کون تھا اور نا حق کون اس کا بھی اظہار کر دیا جا ئے لیکن اب ایسا نہیں کر سکتے بنی اُمےّہ کی جانب داری جو آپ کا لازمہ فطرت ہے اور جس کا انتظام آپ نے شروع تالیف سے قائم کیا ہے صاف صاف کُھل جائے گی اور تعمیم سادات کا جو طلسم باندھا ہے برباد ہو جا ئے گا (ص ٢١ حاشیہ )
٢٢۔شبلی صاحب نے اپنے اس سوال کے جواب میں کہ انبیاء مرسلین سابقین کے مقابلے میں سرور عالم ۖ نے کیا کیا ؟ صرف حضرت نوح ـ اور جناب عیسیٰ ـکے استقلال کی مثال دکھلا ئی ہے حالانکہ مدعائے بحث سے اُن کے حالات کو مناسبت نہیںکیونکہ مدعاء سلسلہ بیان تو ایسی مثال چاہتا ہے کہ رنج وایذا ظلم و جفا کے مقابلے میں سوائے صبر و رضا کے شکوہ بد دعا نہ کی جائے حالا نکہ حضرت نوح نے اپنی اُمت کے مظالم سے تنگ آکر بد دعا کی (ص ٢٧٩)
٢٣۔شبلی صاحب کو کیا پڑی ہے کہ بنی ہا شم کے تفصیلی حالات پر توجہ دیں یہ تو آپ کے اصلی مقصود و موضوع کتاب کے خلاف ہے لیکن ہم بحیثیت واقعہ نگار تمام حالا ت و واقعات پر نگاہ ڈالنی ضرور ہے اور خصوصا واقعات جو واقعات کی حیثیت رکھتے ہیں (٤٠١)اُسوة الرسول جلد سوم صفحات : ٥٢٠
٢٤۔شبلی صاحب کی موقع شناسی اور دقت رسی البتہ قابل تعریف ہے اپنے مطلب کا ایک شوشہ ملنا چاہیے دم کے دم میں مسلسل مضمون تیار (ص ٥٦)
٢٥۔اب تو شبلی صاحب کو معلو م ہو گیا کہ انعقاد عَلَمْ کا رواج عرب میںایام جہالت سے لے کر اسلام کی اشاعت تک برابر جاری رہا تو پھر آپ کے یہ دونوں دعوے کہ اس وقت تک لڑائیوں میں علم کا رواج نہ تھا اور یہ (خیبر ) پہلامرتبہ ہے کہ آپ نے تین علم تیار کرائے کس قدر واقعیت اور حقیقت کے خلاف ہو کر لغو ثابت ہو تا ہے ،اب دیکھنا اور دکھلانا باقی رہ گیا ہے کہ شبلی صاحب کو ایسی لغو فرسائی کی کیا ضرورت واقع ہو ئی ضرورت تو وہی ثابت ہو تی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر آئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خیبر کے علم میںبمقابلہ دیگر علم ہائے معارک اسلامی کے ایک خاص شرف اعزاز اور شان امتیاز تھی(ص٥٨)
٢٦۔شبلی صاحب کی نقل و ترجمہ میں کھلی تحریف :اصل ماخذ کی عبارت میں تحریف صاحبان تالیف کے لیے بڑی توہین و تضحیک کی باعث ہو تی ہے خصوصا شبلی کے ایسے ذیمقدار اور ذوی اعتبار بزرگ سے ایسی لغزش تو سخت تعجب انگیز ہے آپ نے ابو سفیان کے آخر دقت تک کفر وضلالت کے ثبوت پر خواہ مخواہ پردہ ڈالنے کے لیے مکالمہ مذکورہ کو اصل عبارت میں ناتمام چھوڑ کر فورا لکھدیا۔۔۔۔۔طبری میں اس مکالمے کی وہ عبارت جس میں یہ واقعہ درج ہے اور جس کو آپ اس دلیری سے نقل و ترجمہ میں چھو ڑ گئے ہیں (ص ٨،١٥٧)شبلی صاحب اور ان کے معتقدین نظر انصاف سے ملا حظہ فرما ئیں کہ اُن کی حق پوشی سے کیا فائدہ ہوا جب کہ اُن کی اس تحریفانہ کو شش کے انکشاف کرنے والے دنیا میں کثرت سے موجود ہیں (ص،١٥٩)
٢٧۔شبلی صاحب کی دلی کو شش تو یہ ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ ـکی کو ئی خصوصیت بے داغ نہ چھوٹے اپنی اس کو شش میں کیسے ہی مجہول ،غیرمعروف موضوع اور مصنوع کسی قسم کا کو ئی واقعہ آپ کو ملنا چاہیے وہ فوراً درج کتاب ہے اب نہ اس وقت آپ کو اصول روایت کی تحقیق کی ضرورت ہے اور نہ خود اپنے سیاق عبارت درست کرنے کی احتیاج دیکھئے قبیلہ ہمدان کے اسلام لا نے کا واقعہ جو مشہور متواتر اورمتفقہ جمہور ہے ۔(ص٣٤٨)
٢٨۔شبلی صاحب نے اپنی قدیم عادت ومجبوری کی وجہ سے اس واقعہ کو (یمن میں حضرت علی ـ کی تبلیغی خدمات ) احذافات استخضافات اور اختصارات کے خاص انداز سے تحریر فرمایا ہے عادت و مجبوری بھی وہی ، فضائل علی ـکا خوف دامن گیر ہے ۔(ص٣٥٢)
٢٩۔شبلی صاحب کی کتاب چھپتے ہی اس جھوٹی اور فتنہ انگیز روایت کی (حضرت علی ـکی معاذ اللہ شراب خوری ) ملک و قوم میں اتنی دھجیاں اُڑ چکی ہیں کہ اس کی موضوعیت و مصنوعیت کا بال تک باقی نہیںچھوڑا گیا ‘فتنہ شبلی ‘ کی دو تیار جلدیں ملک و قوم کے ہا تھوں ہا تھ پہنچ چکیں ۔(ص٣٦٠)٣٠۔شبلی صاحب کی غرض و خاص تو بنی ہاشم اور اہل بیت کے خصائص کا استخفاف ہے جو آپ کی تمام تالیفات کا موضوع خاص ہے اس لیے آپ ایسے موقعوں پر اپنے اُن ذخائز موضوعات سے کا م لیتے ہیں ۔(ص٤٩٣)اسوة الر سول جلد :٥صفحات : ٣٦٨،١٣٤٨ھ
٣١۔مولوی شبلی صاحب نعمانی کی سیرة النبی ۖ میں قبل رسالت سے لے کر خاتمہ رسالت تک جناب رسالت ماب ۖ کے تمام حالات و واقعات تعمیم ومعمول کے اصول پر اس طرز خاص سے بیان کیے گئے تھے جو سراپا شان رسالت کے منافی اور بالکل منصب نبوت کے مخالف تھے ۔(ص،یکم )
٣٢۔سیرة النبی ۖکی جلد سوم جیسے ہی شائع ہو ئی اخبار ‘مشرق ‘گور کھپور میں ایک عرصے تک تنقید وتعریض کے سلسلے کے مضامین نکلتے رہے اور پھر ڈاکٹر محمد عمر صاحب (احمدی )نے ان کو جمع کر کے ایک رسالے کی صورت میں مرتب کر کے مطبع مشرق گور کھپور سے شائع کر دیا ڈاکٹر صاحب نے شبلی صاحب کے موجود ضعف استدلال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی لیکن حقیقت میں اُن کی یہ کو شش ایک بے کار کو شش تھی کیونکہ شبلی صاحب کے ضعف استدلال میں بھی حقیقت حال موجود تھی اور ڈاکٹر صاحب کے تنقیدی نسخہ میں بالکل معدوم ومفقود ڈاکٹر محمد عمر صاحب کے تنقیدی نسخہ میںبالکل معدوم ومفقود ڈاکٹر محمد عمر صاحب نے قریب قریب تمام بشارتہائے رسالت کو توڑ مروڑ کر غلام احمد صاحب قادیانی کی مسیحیت ومہدویت یا نبوت بالمتابعت ثابت کرنی چاہی ہے جو کسی اسلامی اور غیر اسلامی ادبیات تاریخی کے مشاہدات ومقالا ت سے ثابت نہیں (ص٣)یہ پانچویں جلد آنحضرت ۖ کی روحانیات ،قرآن مجید کے متعلق مخالفین کے متو ہمانہ اعتراضات اور اُنکے جوابات ، صفات عدلیہ ،نبوت ،امامت،معاد،فروعات مذہب ،اسلام اور حقوق نسواں ،اسلام اور مسئلہ طلاق ،طلاق ،قرآن مجید اور سیاسیات ،اسلام اور تمدن و ارتقا کی تعلیم ،قرآن مجید اور عقلیات ،قرآن مجید کی تعلیم اور اسلام کی قومی اور ملکی تنظیم جیسے اہم عنوانات پر مشتمل ہے سیرة النبی ۖ جلد اول کی تلخیص سید عطائے مہدی نے کی جو پاک کتب خانہ اردو بازار ،رالپنڈی سے شائع ہو ئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات١۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب ‘سیرة النبی ۖ ‘کے علاوہ الفاروق بھی معروف ہے الفاروق کے شیعوں کی طرف سے اُنکی زندگی میںمندرجہ ذیل جوابات لکھے گئے :(١)الغرق (حصہ اول ): مرزا عابد علی بیگ قزلباش ،مراد آباد :برلا س پر یس ،١٩٠٥ئ،٢٩٦ص(٢)الغرق (حصہ دوم ): مرزا عابد علی بیگ قزلباش ،مراد آباد :برلا س پر یس ،١٩٠٥ئ،٤٧٢ص(٣)الذکرالا فلح فیما افسد عمرو اصلح :قاضی فقیر علی عاقل انصاری٢۔ سید اولاد حیدر فوق بلگرامی کی اسوة الر سول کے علاوہ ترجمہ قرآن شریف ذبح عظیم اور دُرّ مقصود معروف ہیں ۔٣۔ نواب صاحب بھوپال نے کافی مدد کی مکاتیب شبلی جلد اول ص ٢٦١لیکن نواب صاحب حیدر آباد (دکن )کی طرف سے اس کتاب کے سلسلے میںچودہ سال تک مدد ملتی رہی دیکھئے۔(١)مشیر احمد علوی ناظر کاکوروی : علی گڑھ تحریک اور ادب اردو،پٹنہ :خدا بخش لابئریری ١٩٩٩ءبیرونی مشاہیر ادب اور حیدر آباد (اندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائوز کے ریکارڈ سے )حیدر آبا د (دکن )روزنامہ سیاست ،١٩٩٠ئیہ دونوں مضامین اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں گے :(١)شبلی نعمانی کی قدر دانی (ص ٢٩تا ٤٠ )(٢)سیرة النبی کی تکمیل میںریاست حیدر آباد کا حصہ ،ص(٧٨تا٩٥)٤۔ یہ دس اُصول دیکھے: سیرة النبیۖ (جلد یکم )لاہور : ناشران قرآن (س۔ن)٥۔ حوالہ سابق ،ص٤٩٦۔ (١)فتنہ شبلی :سید اختر حسین کھجوا (بہار )ص١١٢(٢)تحریم الخمر فی الاسلام :مولانا سید احمد علامہ ہندی (م ١٩٤٦ء )جبل پور : مطبع نادری ،٣٧ص(٣)ڈاکٹر اسرار احمد (م٢٠١٠)نے Qٹی وی پر ١٢ جون ٢٠٠٨ء کو دوران تقریر یہی روایت بیان کر دیجس سے حضر ت علی ـکی توہین مقصود تھی ۔مولانا علامہ آفتاب جوادی نے اسکا رد بعنوان ‘شان علی مرتضی ـ میں گستاخی کا مدلل جواب راولپنڈی :مرکز مطالعات اسلامی 35Aسٹلائٹ ٹائون ،٢٠١٠ء