اسلام میں آزادی (2)

347

1-تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہیہ شبہ انسانی تاریخ، تمدن اور کلچر کے تحول و تبدل نیز اجتماعی نظام میں تغییر و تبدیلی کی بنا پر ھوتا ھے، اور یہ طے شدہ بات ھے کہ انسانی اجتماعی زندگی مختلف مرحلوں سے گذری ھے، اور ایک زمانہ میں “غلامی” کا مسئلہ رائج تھا، اور انسانی کی ترقی اسی میں سمجھی جاتی تھی کہ کمزور اور ناتوان لوگ دوسروں کی غلامی کریں، اور ان کی ھر ممکن خدمتگذاری کرتے رھیں، ظاھر سی بات ھے کہ اس زمانے میں انسان و خدا جیسا غلام اور آقاکے درمیان ھوتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں یہ رائج تھا کہ بعض طاقتور لوگ مولا اور آقا اور بعض کمزور لوگ ان کے بندے اور غلام بن کر رھیں، اور انسانوں کے درمیاں رابطہ بھی عبد اور آقا کے لحاظ سے سمجھا جاتا تھا، اس بنا پر جس طرح ضعیف اور کمزور لوگ عبد اور بندے اور ذلیل و پست سمجھے جاتے تھے، اس طرح لوگ خدا کے عبد اور بندے سمجھے جاتے تھے، اور خداوند ان کا مولا و آقا، آج جب بندگی اور غلامی کا دور ختم ھو چکا ھے، لھٰذا اس وقت کا قیاس اور معیار اس زمانے میں نھیں لانا چاھئیے-آج انسان کسی بھی زبردستی کو قبول نھیں کرتا، اور اپنے کو آقا سمجھتا ھے نہ کہ بندھ، لھٰذا ھمیں یہ نھیں کھنا چاھیے کہ ھم بندہ ھیں اور خدا مولا، آج ھم خود کو اللہ کا خلیفہ مانیں، اور جو خداکا جانشین ھو اس کو بندگی کا احساس کیسا، گویا خداوند عالم سے خدائی ختم ھو چکی ھے اور یہ حضرت اس کی مسند پر بیٹھے ھوئے ھیں، اور جو چاھیں کریں جس طرح کوئی حاکم کسی کو اپنا قائم مقام بنائے تو وہ اس کے تمام اختیارات کا مالک بن جاتا ھے، اور اس کے کام کے کام ھوتے ھیں اور ان کے درمیان حاکم و فرمانبردار کا رابطہ نھیں ھے، اور قائم مقام کے کاموں کی کوئی باز پرس نھیں ھونا چاھیے-اس زمانہ میں جبکہ ماڈرن اور جدید تمدن کا دور دورا ھے، اور ھماری زندگی ایک بلند مرتبہ پر پھونچ چکی ھے تو ھم بندگی اور غلامی کی زندگی کے احکام (اطاعت و فرمانبرداری) کو قبول نھیں کر سکتے، اور آقا و مولیٰ کے پیچھے پیچھے گھومتے رھیں، تکلیف اور اطاعت کا زمانہ پیچھے رہ گیا ھے، اور اگر قرآن میں تکالیف اور دوسرے فرمان موجود ھیں تو وہ غلامی کے زمانے کے ھیں، کیونکہ جس وقت رسول اکرم مبعوث ھو ئے، غلامی کا زمانہ تھا، اور اسلام کا پھلا دور، خدا ورسول اور لوگوں کے درمیان رابطہ کیلئے مناسب تھا-کبھی یہ کھا جاتا ھے کہ انسان تکلیف کا طالب نھیں ھے، لیکن حقوق کا طالب ھے اور اس کے ذھن میں کبھی یہ نھیں آتا کہ اس پر کوئی فریضہ اور ذمہ داری ھے، تاکہ ان کو انجام دے سکے، انسان کو چاھئیے کہ وہ خدااور دوسروں سے اپنے حقوق کو حاصل کرے-خلاصہ یہ کہ جو لوگ پیغمبر، آئمہ اور ان کے جانشینوں کی اطاعت کا دم بھرتے ھیں یہ چودہ صدی پھلے کسی اجتماعی زندگی کا تھا، جبکہ آج کی اجتماعی زندگی بالکل بدل چکی ھے، اور فرائض اور ذمہ داری کی کوئی بات نھیں کرتا بلکہ انسانی حقوق کی باتیں ھوتی ھیں، انسان کو یہ سمجھانا ضروری ھے کہ تجھے یہ حق ھے کہ جس طرح بھی چاھے زندگی کرے، تجھے اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پھننے کا حق ھے، اور جس طرح بھی چاھے اجتماعی زندگی کو بسر کرےْ-

2-ھمارا جوابھم مذکورہ اعتراض کا جواب “تکوینی” اور “تشریعی” لحاظ سے پیش کرتے ھیں، کیونکہ ھمارے سامنے دو مقام ھیں: تکوینی مقام، تشریعی مقام، بعبارت دیگر مقام واقعیت اور “ھست ھا”(ھے) اور دوسرے مقام تکلیف “بایدھا” (ھونا چاھیے) یعنی عالم واقعیات ، اور عالم ارزشھا (قیمت اور اھمیت) (اگرچہ مذکورہ الفاظ کے ایک ھی معنی ھیں، البتہ مختلف لوگوں کو سمجھانے کیلئے مختلف الفاظ ھیں) اب ھمیں یھاں دیکھنا ھے کہ تکوینی لحاظ سے ھماری خدا سے کیا نسبت ھے، کیونکہ اگر کوئی خدا کو مانتا ھی نہ ھو، تو اس کی نظر میں خدا سے کوئی نسبت بے فائدہ ھے-لیکن اگر کوئی شخص خدا پر اعتقاد رکھتا ھو یا کم سے کم یہ قبول کرتا ھو کہ اس کا پیدا کیا ھوا ھے، اور خدا کی خالقیت کو قبول کرتا ھے (خدا کو ماننے کا یہ سب سے کم درجہ ھے) اور اپنے کو خدا کی مخلوق جانتا ھو، البتہ خدا کی خالقیت پر اعتقاد رکھنے سے انسان موحد (خدا کو ایک مانے والا) نھیں بنتا، لھٰذا خدا کی تکوینی اور تشریعی ربوبیت کا قائل ھونا ضروری ھے، توحید در خالقیت کی بنا پر کسی کا یہ کھنا کہ وہ خدا کا بندہ اور اس کا مملوک نھیں ھے خود اس کے خداوند عالم کی خالقیت کے اعتقاد سے ٹکراتا ھے، توحید کا پھلا قدم اپنے کو خدا کی مخلوق تسلیم کرنا ھے، اور ھمارا وجود خدا کا عطا کردہ ھے، اور یہ وھی عبودیت ھے، عبد یعنی مملوک، دوسری کی ملکیت ھونا، لھٰذا اگر کوئی اپنے کو مسلمان اور خدا کا معتقد کھلاتا ھے ، لیکن اپنے کو خدا کی عبودیت اور مملوکیت نھیں مانتا، گویا اس کی گفتگو میں واضح تناقض ھے، کیونکہ خدا پر اعتقاد ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ ھم خود کو اس کی مخلوق، عبد اور مملوک سمجھیں، اس وجہ سے تمام مسلمان اپنی بھترین عبادت نماز میں کھتے ھیں “اشھد انّ محمدًا عبد ہ و رسولہ” اور یہ بات مسلّم ھے کہ انسان کیلئے سب بھترین عظمت اور مقام خدا کا بندہ ھونا ھے، اس وجہ سے خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:(سُبْحَانَ الَّذِی اٴسْریٰ بِعَبْدِہ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصا-)(1)”وہ خدا (ھر عیب سے) پاک وپاکیزہ ھے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام (خانہ کعبھ) سے مسجد اقصیٰ( آسمانی مسجد) تک کی سیر کرائی”جی ھاں! خدا کی بندگی اور اس کی عبودیت کی اھمیت کے پیش نظر قرآن میں اس خوبصورت لفظ “عبد” اور اس کے دوسرے مشتقات کو استعمال کیا گیا ھے، اور انسان کیلئے بھترین اور بلند درجہ کو “عبودیت” شمار کیا گیا ھے:( یَا اٴَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اِرْجِعِی اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی)(2))”اور کچھ لوگوں سے کھے گا) اے اطمنان پانی والی جان اپنے پر وردگار کی طرف پلٹ آتو اس سے خوش ھے وہ تجہ سے راضی ھے تو میرے (خاص بندوں میں شامل ھوجا”

تشریعی لحاظ سے دوسرا جوابدوسرا جواب تشریعی لحاظ سے یہ ھے کہ انسان کا آزاد ھونا اور قانون ذمہ داری قبول کرنا آپس میں سازگار نھیں ھے کہ جس کا نتیجہ وحشت ، ظلم و بربریت اور عسرد حرج ھے، اور یہ نتیجہ نکالنا کہ انسان آزاد ھے جس طرح چاھے عمل کر سکتا ھے، اگرچہ اس نے اس قانون کو ووٹ دیا ھو لیکن اس پر عمل کرنے سے انکار کرے،ایسا تو جنگل میں بھی نھیں ھوتا کیونکہ وھاں پر بھی حیوانوں کے عمل کرنے کے لئے خاص قوانین ھوتے ھیں -لھٰذا جب ھم تمدن اور مدنیت کا دم بھرتے ھیں تو ھمیں قبول کرنا پڑے گا کہ مدنیت کا سب سے پھلا رکن یہ ھے کہ انسان قوانین پر عمل کرنے کا ذمہ دار ھے، اور ذمہ داری اور مسئولیت کو قبول نہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ تمدن جدید کا ادعا نھیں کیا جا سکتا، بلکہ اپنے کو وحشی گری کی سب سے نیچی کھائی میں غلطاں پائیں گے-دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی فصل مقوم عقل ھے، اور عقل کا حکم یہ ھے کہ انسان ذمہ داری کو قبول کرے، اور خدا امور کو انجام دینے کا مکلف سمجھے اور بعض چیزوں سے پرھیز کرے، لھٰذا اگر کوئی محلہ اور سڑک پر اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پھنے یا لوگوں کے سامنے برھنہ آئے اور جو بھی منہ میں آئے وہ کھتا پھرے، تو اس صورت میں کیا کوئی اس کو عاقل تصور کر سکتا ھے؟ یا اس کو وحشی اور دیوانہ کھا جائے گا؟ اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ تم ایسے کام کیوںکرتے ھو؟ اب اگر اس کے جواب میں کھے کہ میں چونکہ آزاد ھوں اور آزادی مقوم انسان ھے،لھٰذا میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاھوں کروں، توکیا کوئی انسان اس کی ان باتوں کو قبول کر سکتا ھے؟لھٰذا چونکہ انسان کی فصل مقوم عقل ھے، اور اس کا عقلی لازمہ یہ ھے کہ انسانی ذمہ داری اور قانون کو قبول کرے، کیونکہ اگر قانون نہ ھو تو مدنیت نھیں ھو سکتی، اور اگر مسئولیت اور ذمہ داری نہ ھو تو انسانیت بھی نھیں آسکتی، انسان کے آزاد ھونے کا مطلب یہ ھے کہ انسان تکویناً انتخاب کی قدرت رکھتا ھے، نہ کہ تشریعاً قانون اور الزام آور اور امکانات کو قبول نہ کرے، اور اپنی اجتماعی زندگی میں کسی حد وحدود کا قائل نہ ھو، پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کو یہ نھیں سوچنا چاھیے کہ دین کی ولایت آزادی کے مخالف ھے کیونکہ انسان کی فصل مقوم آزادی ھے جس سے انسان کا خدا کا جانشین ھونا لازم آتا ھے-!

3-گذشتہ اعتراض، ایک دوسرے لحاظ سےبعض لوگوں کا کھنا یہ ھے کہ چونکہ انسان کی زندگی میں مختلف طریقوں سے ترقی اور پیشرفت ھوتی ھے، اور جیسا کہ انسانی جدید تمدن میں نئے طریقہ کی نظریات اور تفکرات پیدا ھوئے ھیں،ایسی صورت میں دین کو انسانی حقوق بیان کرنے چاھییں، نہ یہ کہ دین تکالیف اور الزام آور احکامات بیان کرے،گذشتہ زمانے میں چونکہ غلامی ، بردگی اور ظلم و جور کا زمانہ تھا اور جو بھی ذمہ داری اور مسئولیت ان کو دی جاتی تھی وہ اس کو قبول کرتے تھے، لیکن آج وہ زمانہ نھیں ھے آج ھر انسان اپنے کوآقا سمجھتا ھے، آج انسان ذمہ داری کو قبول نھیں کرتا بلکہ اپنے حقوق لینا چاھتا ھے-در حقیقت آج کا ماڈرن زمانہ ھمارے اور گذشتہ (غلامی اور بردگی کو قبول کرنے والے) لوگوں میں ایک بھت بڑی دیوار ھے، جس کا تقاضا یہ ھے کہ آج ماڈرن انسان نے گذشتہ زمانے کی طرح ذمہ داری کو قبول کرنے کو بند کر دیا ھے، اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ھے، آج تکالیف اور ذمہ داری کو قبول کرنے کی باتیں کرنا ماضی کی طرف پلٹتا ھے، آج کے اس زمانے نے جس میںحقوق بشر کا نعرہ لگایا جاتا ھے، ڈیموکراسی کی برکت سے انسان کو استشار اور غلامی کی قید و بند سے آزاد کر دیا ھے، آج کا دور وہ دور ھے کہ جس میں جو ادایان تکالیف اور ذمہ داری کی باتیں کرتے ھیں ان کو بالائے طاق رکہ دیا جائے، اور حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے دین کو تلاش کیا جاتا ھے-اعتراض کرنے والے اپنے ھدف اور مقصد تک پھونچنے کیلئے نیز سماج بالخصوص جوانوں کو اپنے طرف جذب کرنے کیلئے ایسی باتیں کرتے ھیں اور مختلف طریقوں کا سھارا لیتے ھیں اور اپنی باتوں کو خوبصورت و دلنشیں انداز اور مختلف طریقوں سے جاشنی لگا کر پیش کرتے ھیں، لیکن ھم ان بے ڈھنگے سوالوں کا صحیح انداز میں جواب پیش کرتے ھیں-

4-ھمارا جوابمعترض کا مطلق طور پر یہ کھنا کہ آج کا انسان اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ھے، تکالیف و ذمہ داری کا مطالبہ نھیں کرتا، یہ بات بیھودہ اور باطل ھے جیسا کہ فلاسفۂ حقوق بھی کھتے ھین! انسان اس وقت کسی چیز کا مستحق نھیں ھوتا جب تک وہ دوسروں کیلئے کوئی کام انجام نہ دےے، مثال کے طورپر اگر شھری حضرات کو صاف و سالم ھوا میں رھنے کا حق ھے تو دوسرے لوگوں پر ذمہ داری ھے کہ وہ ھوا کو آلودہ اور خراب نہ کریں، پر دوشن نہ پھیلائیں، اس طرح اگر کسی کو اپنے مال میں تصرف کا حق ھے تو دوسروں پر ذمہ داری ھے کہ اس کے مال میں دست درازی نہ کریں، ورنہ اپنے مال سے کوئی بھی بھرہ مند نھیں ھوسکتا، لھٰذا اگر اس کےلئے کوئی حق ثابت ھوتا ھے تو وہ اس کے بدلہ کوئی کام انجام دے، اگر کسی کو یہ حق ھے کہ وہ سماج کی تیار کردہ چیزوں کو استعمال کرے تو اس کی ذمہ داری ھے کہ وہ بھی کسی طریقہ سے سماج کی خدمت کرے، اور مسئولیت و ذمہ داری کو قبول کرے، اور دوسروں پر بار نہ بنے،لھٰذا حق اور تکلیف ایک دوسرے کے لازم وملزوم ھیں، لھٰذا یہ کھنا کہ انسان صرف حقوق کا طالب ھو، اور تکالیف کو قبول نہ کرتا ھو،یہ بات قابل قبول نھیں ھے-توجہ رکھنا چاھیے کہ الٰھی اور غیر الٰھی تمام دانشمندان اور فلاسفۂ حقوق نے کلی طور پر ذمہ داری اور مسئولیت کی نفی نھیں کی ھے، بلکہ تکالیف اور ذمہ داری پر یقین رکھتے ھیں، جس سے پتہ چلتا ھے کہ معترض کی تکلیف سے مراد الٰھی تکلیف ھے، جس کا نچوڑ یہ ھے کہ خداوند عالم کو ھم پر تکلیف و ذمہ داری نھیں کرنا چاھیے، ورنہ تو ان کی نظر میں حق کے مقابلہ میں تکلیف ھونے سے گریز نا ممکن ھے کیونکہ تکالیف کو تمام عقلا ء اور دانشمندوں نے قبول کیا ھے ھماری بات کی تائید یہ ھے کہ خود انھوں نے صاف صاف کھا ھے کہ عبد اور مولیٰ کے درمیان رابطہ اور مولیٰ کی طرف سے حکم صادر ھونا اور اس کی اطاعت کا ضروری ھونا غلامی اور بردگی کلچر کے مناسب ھے-

5- خدا کی نافرمانی تاریخ کی نظر میںصرف آج کا ماڈرن انسان ھی خدا کی اطاعت اور تکالیف سے فرار اختیار نھیں کرتا بلکہ تاریخ میں بھت سے ایسے لوگ ھیں جنھوں نے شیطانی وسوسوں کی خاطر خدا کی نافرمانی اور قانون شکنی کی ھے، یہ کھنا کھ:انسان حقوق کا طالب ھے تکالیف کا نھیں، یہ کوئی نئی بات نھیں ھے بلکہ شروع ھی میں حضرت آدم (ء)کے فرزند قابیل نے خدا کی معصیت کی اور کھلے عام تکالیف اور الٰھی قوانین سے سرپیچی کی، اور قانون شکنی کرتے ھوئے اپنے بھائی ھابیل کو قتل کرڈالا-(وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٴَخَرِ قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ – – – – )(3)”(اے رسول) تم ان لوگوں سے آدم کے دو بیٹوں (ھابیل وقابیل) کا سچا واقعہ بیان کردوکہ جب ان ددنوں نے خدا کی بارگاہ میں نذر پیش کی تو ان میں سے ایک (ھابیل) کی (نذر تو) قبول ھوآئی اور دوسرے (قابیل) کی (نذر) نہ قبول ھوئی تو (مارے حسد کے ھابیل سے) کھنے لگا میں تجھے ضرورمار ڈالوں گا، اس نے جو اب دیا کہ (بھائی اس میں اپنا کیا بس ھے) خدا تو صرف پرھیزگاروں کی (نذر) قبول کرتا ھے “قرآن مجید میں پیغمبروں کے واقعات اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ اکثر لوگوں نے اپنے زمانے کے بنی کو جھٹلایا، اور نہ صرف یہ کہ ان کی بات پر لبیک نھیں کھا بلکہ ان پر تھمت و بھتان لگاتے تھے اور ان کا مسخرہ کرتے تھے، یھاں تک کہ ان کو قتل بھی کردیتے تھے، یا ان کو شھر بدر کر دیتے تھے اگر کوئی بنی ان کیلئے مفید باتیں بیان کرتا تھا، مثلاً قرآن کے مطابق لوگوں کو کم فروشی سے روکتا تھا،جیسے قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:(لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَھمْ – – ) (4)”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو” ان کے جواب میں کھتے تھے:(قَالُوا یَا شُعَیْبُ اٴَصَلَاتُکَ تَاٴْمُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ ءَ ابَائُنَا اَوْ اَنْ نَفْعَلَ فِیْ اٴَمْوَالِنَا مانَشَاءُ – – – -)(5)”وہ لوگ کھنے لگے اے شعیب کیا تمھاری نماز (جسے تم پڑھا کرتے ھو) تمھیں یہ سکھاتی ھے کہ جن (بتوں) کی پرستش ھمارے دادا کرتے آئے ھیں انھیں ھم چھوڑ بیٹھیں،یا ھم اپنے مالوں میں جو کچھ چاھیں کر بیٹھیں”ممکن ھے اس موقع پر کوئی کھے کہ تاریخ میں انبیاٴ و اولیا ٴ الھی کے مقابلے کی وجہ بت پرستی، شرک اور شیطان کی پیروی تھی اور ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ انسان کسی بھی معبود کی اطاعت کی طوق اپنی گردن سے نکال دے، اور بتوں اور شیطان کی پیروی بھی نہ کرے، لیکن یہ کھنا بھی اولیاٴ الٰھی کی نظر میں باطل اور مردود ھے،کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ھے کہ وحی الٰھی کے مطابق انسان ایسے راستہ پر پھونچ جاتا ھے کہ یا خدا کی اطاعت کرے یا طاغوت (شیطان) کی اطاعت کرے، اور وہ کسی کی بھی اطاعت نہ کرے اس کے لئے محال، اور اگرکوئی یہ نعرہ لگائے کہ میں کسی کا بندہ اور غلام نھیں ھوں، در حقیقت ایسا شخص طاغوت اور اپنی ھوائے نفس کا غلام ھوتاھے اس وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:(اَللَّہ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا اٴَوْلِیَاوٴُھُمُ الطَّاغُوتَیُخْرِجُونَھُمْ مِنَ النُّورِ اِلٰی الظُّلُمَاتِ-)(6)”خدا ان لوگوں کا سرپرست ھے جو ایمان لاچکے کہ انھیں (گمراھی کی) تاریکیوں سے نکال کر (ھدایت کی) روشنی میں لاتا ھے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیطان ھیں کہ ان کو (ایمان کی) روشنی سے نکال کر (کفر کی) تارکیوں میں ڈال دیتے ھیں”دوسری جگہ خداوند عالم ارشاد فرماتاھے:(اٴَلَمْ اٴَعْھدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ اَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ ، وَاَنِ اعْبُدُونِی ھٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ–)- (7)”اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نھیں بھیجا کتھا کہ (خبردار)شیطان کی پرستش نہ کرنا وہ یقینی طور پر تمھارا کھلم کھلا دشمن ھے اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یھی (نجات کی) سیدھی راہ ھے “اس آیت کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اگر شیطان کی عبادت چھوڑ ی جائے تو پھر کسی دوسرے کی عبادت اور اطاعت کی ضرورت نھیں ھے بلکہ اس کو چاھیے کہ خدا کی عبادت کرے، جس طرح کہ کلمہ میں “لاالٰہ” کے بعد “الااللہ” ھے-اس بنا پر جن لوگوں نے وحی پر توجہ کی اور خواب غفلت سے بیدار ھوئے وہ اس نتیجہ پر پھونچے کہ اس خدا کی عبادت کریں جو ان کا خالق اور حقیقی مالک ھے، اور جس کے ھاتہ میں ان کی زندگی، موت، جوانی، پیری،اور صحت و سلامتی ھے،اس کی بندگی باعث افتخار ھے، اس کی تکالیف حکمت و رحمت کے سرچشمہ سے صادر ھوتی ھےں،اور ان پر عمل کرنا انسان کیلئے کمال اور سعادت کا باعث ھے-نتیجہ یہ نکلا کہ تکالیف اور مسئولیت کو قبول نہ کرنا حیوانی درندگی صفت اور شیطانی پیروری کی وجہ سے ھے، کہ جو ھمیشہ تاریخ میں موجود ھے اور آج کے ماڈرن زمانے سے ھی مخصوص نھیں ھے، درحقیقت یہ ماڈرن انسان ھے کہ جس نے مدنیت سے کنارہ کشی اختیارکر لی ھے، اور جاھلیت و وحشیگری کے زمانے کی طرف پلٹ گیا ھے، اور گزشتہ زمانہ کی طرف پلٹ رھا ھے، وگرنہ انبیاء کی تربیت شدہ افراد نے حیوانیت اور وحشیگری سے کنارہ کشی کر لی ھے اور لا قانونیت سے نکل کر قانون، تکالیف اور مسئولیت کو قبول کر کے صحیح معنوں میں مدنیت کو قبول کرچکاھے-لھٰذا بعض لوگ کس طرح یہ کھہ سکتے ھیں کہ ماڈرن زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ انسان کسی بھی ذمہ داری کو قبول نہ کرے! یہ تمدن ھے یا وحشیگری؟ تمدن و محدویت، قانون اور مسئولیت قبول کرنے میں ھے ورنہ وحشیگری سے کوئی فرق نہ ھوگا-لھٰذا جو لوگ قانون، تکالیف اور مسئولیت کا انکار کرتے ھیں وہ لوگ مدیریت اور وحشیگری کے قدیم زمانے کی طرف پلٹنا چاھتے ھیں اور یہ طے ھے کہ کوئی شخص اس نظریہ کے تحت، مقدس اور خلیفہ اللہ نھیں ھوسکتا، جس سے وہ ھمارے لئے نمونہ عمل قرار پاسکے، (اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ مدنیت اور قانون کی طرف مائل ھونا جیسا کہ ھمارے سماج میں رواج پیدا کر چکا ھے، اس کا مطلب مدنیت اور قانون مندی کے کمال پر پھونچتاھے تاکہ کسی بھی جگہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے،اور نہ ھی یہ کوئی نیا حادثہ ھوا ھے اورنہ ھی ھمارا سماج انقلاب کے بعد 19 سال تک وحشیگری کا شکار تھا اور آج مدنیت کی طرف مائل ھواھے، بلکہ ھمارا یہ انقلاب مدنیت اور اسلامی تمدن پر استوار ھے، اور انقلاب کے اصل اھداف میں سے ھے کہ تمام مقامات پر الٰھی قوانین کی رعایت کی جائے-)

6-خدا کی اطاعت اور آزادیانبیاء علیھم السلام لوگوں کو خداپرستی کی دعوت دیتے تھے اور طاغوت کی پیروی سے روکتے تھے اس سلسلے میں خداوند عالم فرماتا ھے:(وَلَقَدْ بَعَثْنَافِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولًا اٴَنِ اعْبُدُوا اللَّہ وَاجْتَنِبُو الطَّاغُوتَ)( 8)”اور ھم نے تو ھر امت میں ایک (نہ ایک) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرواور بتوں (کی عبادت) سے بچے رھو”اس چیز کے پیش نظر یہ بات قبول نھیں کی ھے کہ اسلام نے انسان کو اپنے علاوہ یھاں تک کہ خدا کی اطاعت سے بھی منع کردیاھے، اور یہ طے ھے کہ جو مذھب ھم کو خدا کی اطاعت کی دعوت نہ دے وہ باطل ھے اور جیسا کہ ھم نے اشارہ کیا کہ انبیاٴ علیھم السلام کا مقصد خدا کی مطلق طورپر اطاعت کرنے کی دعوت دیتا ھے، ھماری موت و حیات اسی سے وابستہ ھے(اِنَّا لِلَّہ وَ اِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ-)(ٌٌ9)”ھم تو خدا ھی کے ھیں او رھم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ھیں”ھم خدا کی طرف سے ھیں اور خدا کی طرف پلٹ کر جانا ھے- اب جبکہ ھم نے خداوند عالم کو اپنا مالک حقیقی مان لیاتو پھر کس طرح یہ بات قبول کی جا سکتی ھے کہ خدا کو ھمیں حکم دینے اور فرمان صادر کرنے کا کوئی حق نھیں ھے، کیا مالکیت اس کے علاوہ ھے کہ مالک جس طرح بھی چاھے اپنی چیز میں تعریف کرے؟ لھٰذا یہ بات قابل قبول نھیں ھے کہ کوئی یہ کھے کہ ھم نے اسلام تو قبول کر لیا ھے لیکن ھم خدا کی بندگی کے قید و بند سے آزاد ھیں، کیونکہ اس طرح کی مطلق آزادی نہ صرف یہ کہ اسلام قبول نھیں کرتا، بلکہ اس کو تو عقل بھی قبول نھیں کرتی-اسلام آزادی کا نعرہ لگاتا ھے لیکن غیر خدا اور طاغوت کی عبادت و اطاعت سے آزادی و رھائی کا نعرہ لگاتا ھے، خداوند عالم کی اطاعت سے آزادی کا نعرہ نھیں لگاتا، اگرچہ انسان آزاد و مختار پیدا کیا گیا ھے، لیکن تشریعاً و قانوناً خدا کی اطاعت پر مکلف ھے یعنی ھم اپنے ارادہ و اختیار سے خدا کی اطاعت کریں، اور یہ طے ھے کہ خلقت کے اعتبار سے میں ھر مخلوق پر بندگی اور عبودیت کی مھر لگی ھوئی ھے، تکوینی طور پر کوئی بھی مخلوق خدا کی بندگی کے لیبل سے خالی نھیں ھے اور ھر موجود کی پستی اس کی عین بندگی ھے:(تُسَبِّحُ لَہ السَّمَاوَاتِ السَّبْعُ وَالْاٴَرْضُ وَ مَنْ فِیْھِنَّ وَاِنْ مِنْ شَیْ ءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ وَلٰ-کِنْ لَا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ)(10)”ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں (سب ) اس کی تسبیح کرتے ھیں اور (سارے جھان) میں کوئی چیز ایسی نھیں جو اس کے (حمد وثنا) کی تسبیح نہ کرتی ھو مگر تم لوگ ان کی تسبیح نھیں سمجھتے”اس طرح خداوند عالم دوسرے موجودات کی عبادت اور بندگی کے بارے میں فرماتاھے:(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللَّہ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہ وَ تَسْبِیْحَہ–)(11)-“(اے شخص ) کیا تو نے اتنابھی نھیں دیکھا کہ جتنی مخلوقات سارے آسمان اور زمین میں ھیں اور پرندے پر پھیلائے (غرض سب ) اسی کی طرح تسبیح کیا کرتے ھیں، سب کے سب اپنی نماز اور اپنی تسبیح کا طریقہ خوب جانتے ھیں”لیکن چونکہ انسان صاحبِ عقل و خرد ھے، مختار و آزاد خلق کیا گیا ھے، اگرچہ خداوند عالم نے ھدایت و گمراھی کے راستے دکھا دئیے ھیں لیکن اپنے لئے راستہ کے انتخاب میں آزاد ھے جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:(اِنَّا ھَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِراً وَ اِمَّا کَفُوراً–)- (12)”خواہ شکر گذار ھو خواہ ناشکر ا “لھٰذا انسان کو اپنے ھدفِ خلقت کو مدنظر رکہ کر اور اس کو سوچ سمجہ کر خدا کی اطاعت و بندگی میں مشغول رھنا چاھئے، اور خداوند عالم کا تشریعی قانون بھی اس بات کی اجازت نھیں دیتا کہ شیطان اور غیر خدا کی اطاعت میں قدم بڑھائے، بلکہ انسان کو خدا کی اطاعت اور الٰھی تکالیف کو انجام دےنا چاھئے ، کیونکہ خداوند عالم نے اسی مقصد کے تحت اس کو پیدا کیا ھے:(وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ–)(13)”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ھے کہ وہ میری عبادت کریں”اور چونکہ خداوند عالم کی عبادت نظام خلقت و ھستی کے ھمنوا ھے اور خداوند عالم کی تکالیف کو انجام دینا اور الٰھی وظیفہ و مسئولیت پر عمل کرنا نیز اس خالق کا شکر ادا کرنا خود ایک مھربانی ھے کہ جو ھم کو حیات و زندگی عطا کرتا ھے اور اس کی عنایت اور لطف و کرم سے ھم کو صحت و سلامتی اور دوسری بھت سی نعمتیں عطا کی گئی ھیں جیسا کہ خداوند عالم حضرت ابراھیم علیھم السلام کی زبانی فرماتا ھے:(اَلَّذِی خَلَقَنِی فَھُوَ یَھْدِیْنِ، وَالَّذِی ھُوَ یُطْعِمُنِی وَیُسْقِیْن، وَاِذَا مَرَضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ، وَالَّذِی یُمِیْتُنِی ثُمَّ یُحْیِیْنِ-)- (14)”جس نے مجھے پیدا کیا (وھی میرا دوست ھے) پھر وھی میری ھدایت کرتا اور وہ شخص جو مجھے (کھانا) کھلاتا ھے او رمجھے (پانی) پلاتا ھے اور جب بیمار پڑتا ھوں تو وھی مجھے شفا عنایت فرماتا ھے اور وہ شخص جو مجھے ما ڈالے گا اس کے بعد(پھر) مجھے زندہ کرے گا”کس طرح خدا کی اطاعت سے انکار کیا جا سکتا ھے، اور کیا واقعاً یہ حق وانصاف سے بعید نھیں ھے کہ ھم یہ کھیں کہ اب ماڈرن انسان تکالیف و اطاعت کا تابع نھیں ھے، اور اپنے حقوق کا طالب ھے؟کیا اسلام اس فلسفہ کو قبول کر سکتا ھے؟ واقعا ً ایسے نظریہ کااسلامی ھونا تو دور کی بات،یہ تو عقل اور انسانیت سے بھی خالی ھے-
حوالہ(1)سورہ اسراء آیت1(2)سورہ فجر آیت27،29(3)سورہ مائدہ آیت 27(4)سورہ ھود آیت 85(5)سورہ ھودآیت87(6)سورہ بقرہ آیت2257(7)سورہ یٰس آیت6۰،61(8)سورہ نحل آیت36(9)سورہ بقرہ آیت156(10)سورہ اسراء آیت44(11)سورہ نورآیت41(12)سورہ انسان آیت3(13)سورہ ذاریات آیت56(14)سورہ شعراء آیت78-81

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.