غیر ملکی تجارت اور ٹیکس
غیر مسلمان سے تجارت
سب سے پہلے ہم اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام کسی کے لئے حتٰی غیر مسلمان کے لئے فقرو غربت ،سختی اور تنگدستی نہیں چاہتا ہے” ان علیا علیہ السلام قد کتب الی قرظة بن کتب الانصاری :امابعدفان رجالا من اہل الذمة من عملک ذکروا نہرا فی ارضھم ،قد عفا و اذقن ،و فیہ لھم عمارة علی المسلمین ،فانظر انت و ھم ، ثم اعمر واصلح انھر،فلعمری ،لان یعمر وا احب الینا من ان یخر جوا ،وان یعجزوا او یقصروا فی واجب من صلاح البلاد و السلام ” (۱)(علی علیہ السلام)”حضرت علی علیہ السلام نے “قرضة بن کعب انصاری “کو لکھا ہے:تمھارے تحت فرمان علاقہ کے کچھ اہل ذمّہ افراد نے کہا ہے کہ ان کی زمینوں میں ایک نہر تھی جو پٹ گئی اور خشک ہوگئی ہے اور وہاں ان کی آبادی ہے پس تم اور وہ لو گ اس کام کا جائزہ لو اس نہر کی صفائی و ااصلاح کرو اور انھیں آباد کرو میری جان کی قسم اگر وہ آباد ہوں تو یہ ہمارے نزدیک ان کے کوچ کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔(کیونکہ آوارہ وطن ہونے کی صورت میں )وہ مجبور و ناتوان ہوں گے یا ان کاموں کے کرنے سے معذور ہوں گے جن میں حکومت کی خیر وصلاح ہے والسلام”یہ سیاست ذمی کافروں سے مخصوص نہیں رہی ہے بلکہ دوسروں کے شامل حال بھی رہی ہے :”فان رسول اللہﷺ قد ارسل بخمس ماة دینار الیٰ اہل مکة معونة لہم حینما تبلوا بالقحط (۲)کما انّہ قد ارسل الیہم بعد الفتح بمزید من الاموال ایضا ” (۳)”حضرت رسول خدا ﷺ نے اہل مکہ کو جب قحط میں مبتلا ہوگئے تھے ،پانچ سو دینار ان کی مدد کے لئے بھیجے جس طرح آپ نے فتح مکہ کے بعد بھی ان کے پاس مزید اموال بھیجے “اور یہ صرف اس لئے تھا کہ اسلام لوگوں کی فلاح و خوشبختی چاہتا ہے ، کہ لوگ جائز طریقوں سے ہاتھ آنے والی خیر برکت سے فائدہ اٹھائیں بشرطیکہ وہ ان فوائد کو اسلام اور انسانوں کے خلاف جنگ کے لئے بروئے کار نہ لائیں اور انھیں مخالفت و مخاصمت کی بنیاد نہ بنائیں”سیماالبلقاوی ” جو ایک عیسائی شخص تھا اور ایک تجارت کے سلسلہ میں مدینہ آیا اور دولت اسلام سے مشرف ہوا تھا ، بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے کہا :ہم “بلقاء” سے مدینہ گیہوں لے کر آئے اور وہاں فروخت کیا اور جب وہاں سے خرمے خریدنا چاہے تو لوگوں نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی ،ہم نے حضرت رسول خدا ﷺ کی خدمت میں آکر انھیں اس قضیہ کی اطلاع دی جو لوگ ہماری راہ میں رکاوٹ تھے آنحضرت (ص) نے ان سے فرمایا:”اما یکفیکم رخص ھٰذاالطعام بغلاء ھٰذا التمر الذی یحملونہ ؟ذرو ھم یحملوہ” (۴)کیا تمھارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ تم نے سستا گیہوں حاصل کیا اور خرما جو یہ لے جا رہے ہیں انھیں مہنگا فروخت کیا ہے ؟ چھوڑ دو لے جائیں”اس روایت سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں :ایک یہ کہ غیر مسلم تاجر اپنا مال لے کر مسلمان علاقوں میں آتے رہے ہیں ۔ حتٰی روایت ہے کہ غیر مسلمان تاجروں کو جنگ کے زمانہ میں بھی خصوصی تحفظ حاصل تھا۔چنانچہ جابر سے نقل ہے کہ ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں مشرک تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے (۵)دوسری یہ کہ یہ روایت اگر چہ صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ اہل مدینہ کا مال نہ فروخت کرنا پیغمبر اسلام ﷺ کے حکم کے تحت تھا جو آنحضرت (ص) نے پہلے صادر فرمایا ہو ،لیکن اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اہل مدینہ غیر مسلمانوں کے ہاتھ بنیادی و اساسی جنس فروخت نہیں کرتے تھے بلکہ ثمامہ کے قول ۔ جسے ہم آئندہ نقل کریں گے ۔ کے علاوہ اس روایت سے یہ استفادہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہکم ازکم غذائی اشیاء کو دوسرے ملکوں منجملہ مشرکین کے ملکوں میں صادر کرنے کے سلسلہ میں حضرت رسول خدا (ص)سے اجازت حاصل کریں ،کم از کم ثمامہ اسی کے معتقد تھےبخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ جب ثمامہ اسلام لائے اور اہل مکہ نے (شماتت آمیز لہجہ میں ) ان سے کہا : کیا تم اسلام کی طرف مائل ہو گئے ؟ تو انھوں نے مشرکین مکہ کو جواب دیتے ہوئے کہا اس خد ا کی قسم جس کے قبضہ میں ثمامہ کی جان ہے ،مکہ کے اطراف سے ایک دانہ بھی تم تک نہیں پہنچتا جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اجازت نہ دیں یہ کہہ کر وہ اپنے مسکن کی طرف چلے گئے اور مکہ میں مال و غلہ لے جانے سے گریز کیا یہاں تک کہ قریش سختی اور مشقت میں مبتلا ہو گئے اور حضرت رسول خدا کی خدمت میں ایک خط لکھا اور ان سے اپنی قربت کا اظہار کرتے ہوئے درخواست کی کہ ثمامہ کو لکھیں کہ وہ ہمارے لئے غلہ لے آئے چنانچہ رسول خدا نے ایسا ہی کیا (۶)اس روایت سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں ؛ایک یہ کہ مسلمانوں نے مشرکوں کا اقتصاد ی محاصرہ کر رکھا تھدوسرے یہ کہ مسلمان ،اہل مکہ کو غلہ فروخت کرنے کے لئے حضرت رسول اکرم کی اجازت ضروری سمجھتے تھےاور تیسری بات یہ کہ جنگی دشمنوں کو غلہ فروخت کرنا اور ان سے تجارتی رد وبدل کرنا جائز قرار دیا گیا ہے
مال وارد کرنے کی تشویقہم دیکھتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم ﷺجو اسلامی حکومت کے ولی و حاکم ہیں ایک دستور العمل صادر فرماتے ہیں جس کے مطابق ضروری اور بنیادی مال و اشیاء وارد کرنے والوں کو اہم امتیازات بخشتے ہیں اور ان کے حق میں حکومت کے اوپر بڑی ذمہ داریاں عائد کرتے ہیں۱۔حکومت تاجروں کے نقصانات کا جبران کرے اس میں ان تمام چیزوں کی ضمانت کو شامل سمجھنا چاہئے جو ان کے اختیارات سے باہر تلف ہو اور تباہ ہو جائے۲۔جب تک وہ محل فروش سے باہر نہ جائیں حکومت ان کے تمام مخارج پرداشت کرےالبتہ ان امتیازات کے مقرر کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تاجر اس سے غلط فائدہ اٹھائیں اور احتکار کریں ،کہ روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:”من حمل الیناطعا ما فھو فی ضیافتنا حتٰی یخرج و من ضاء لہ شئی فانا لہ ضامن ولا ینبغی فی سوقنا محتکر” (۷)”جو شخص ہماری طرف غلہ لے کر آئے جب تک وہ (علاقہ سے) خارج نہ ہو ہمارا مہمان ہے اور اگر کسی کی کوئی چیز ضائع ہو جائے تو میں اس کی ضمانت لیتا ہوں اور سزا وار نہیں ہے کہ ہمارے بازار میں کوئی محتکر و ذخیرہ اندوز ہو”مذکورہ بالاامتیازات کے علاوہ مالک اشتر کے عہد نامہ جسے ہم پہلے مقالہ میں ذکر کر آئے ہیں ،تاجروں اور صنعت کاروں سے متعلق چار دوسرے فریضے بھی حکومت پر عائد ہوتے ہیں۱۔ان کی راہوں اور گزرگاہوں کو پر امن بنان۲۔ان کے حقوق ادا کرن۳۔ان کے امور کی دیکھ ریکھ چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک۴۔نیز حضرت امیر المومنین علیہ لسلام نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ ایک جگہ پر رہنے والے اور مستقل سفر کرنے والے تاجروں اور صنعت کار سے ان کی نصیحتیں اور نیک مشورے سنو اور انھیں نیکی اور بھلائی کی ہدایت کرو اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ:الف) وہ منافع کے سرچشمہ ہیںب) معاشرہ کے رفاہ و آسائش کا ذریعہ ہیںج)یہ لوگ منافع اور اسباب رفاہ ،دور درازکے علاقوں خطرناک جگہوں خشکی ، دریا ،جنگلوں اور پیاڑی علاقوں سے شہروں میں وارد کرتے ہیںدرحقیقت یہوہ اہم امتیازات ہیں جو اسلام تاجروں اور صنعت گروں کو دیتا ہے ان کے علاوہ اسلام نے انھیں زمانہ جاہلیت کے رواج یعنی ٹیکس (۸)جو اہل کتاب سے اپنائے گئے تھے اورانھیں تاجروں سے وصولا جاتا تھا ،معاف کر دیا ٹیکس کا وصولنا حرام اور وصولنے والوں کی سخت مذمت کی جیسا کہ ان روایات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جن کے بعض منابع کی طرف ہم آیندہ اشارہ کریں گے
تجارت پر ٹیکسحدیث اور تاریخ کے جاننے والوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ پہلا شخص جس نے تاجروں پر ٹیکس (مکس و عشر)مقرر کیا خلیفہ٘ دوم عمر بن خطاب تھے جھنوں نے مسلمانوں سے ایک چوتھائی عشر ،کفار ذمی سے آدھا عشر اور ان مشرکوں سے جوذمی نہیں تھے کامل عشر لیا۔ (۹) اس قسم کا ٹیکس شہر میں مقیم تاجروں اور باہر سے مال لانے والوں سے لیا جاتا تھابن السائب ابن یزید نے کہا :”میں خلیفہ عمر کے زمانہ میں مدینہ کے بازار پرمنصوب کیا گیا تھا اور ہم “نمط”سے۱۰/۱، وصول کرتے تھے (۱۰) اس بناپر “زیاد بن جدیر ” سے نقل شدہ روایت جس میں وہ کہتے ہیں کہ “ہم کسی مسلمان اور کسی معاہد کافر (ذمی )سے عشر نہیں لیتے تھے ،اور جب ان سے سوال کیا گیا :پس کن لوگوں سے عشر لیتے تھے ؟توکہا :”کافر حربی تاجروں سے ،اسی طرح وصول کرتے تھے جیسے وہ ہم سے وصولاکرتے تھے جب ہم ان کے پاس جایاکرتے تھے ” (۱۱) ا س روایت کو خلیفہ عمرکے حکم ۔جس میں مسلمانوں ، کفارذمی اور کفار حربی سے عشر لینے کا دستور موجود ہے۔کے پہلے کی روایت پر محمول کرنا چاہئےالبتہ یہ اس صورت میں ہے کہ ہم یہ نہ کہیں کہ یہ روایت جعل شدہ ہے تاکہ پیغمبر کے حکم سے خلیفہ کی مخالفت کی توجیہ کریں کیوں کہ حضرت رسول خدا ﷺ نے پوری صراحت اور سختی کے ساتھ مسلمان اور کافر ذمی سے عشر لینے سے منع فرمایاہے (۱۲)جیسا کہ عشار (عشر اصول کرنے والے )اور ٹیکس لینے والے کے سلسلہ میں بھی بہت زیادہ مذمت نقل ہوئی ہے (۱۳) اور حضرت پیغمبر اکرم ﷺکے اس عمل سے روکنے اور اسے باطل قرار دینے کا سبب یہ تھا کہ “لا نہ کان من عمل الجاھلیة” (۱۴) وہ زمانہ جاہلیت کے اعمال میں سے تھا بلکہ جس طرح تحریف شدہ توریت اور انجیل جو اس وقت موجود ہیں بہت سے موارد میں اس کی صراحت کرتی ہیں اور مقریزی نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے (۱۵) کہ یہ عمل اہل کتاب سے اخذ کیا گیا ہےمحمد بن مسلم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے اس سوال کے جواب میں کہ :کیا جزیہ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی کافر ذمی کے اموال یا جانوروں میں سے لی جائے گی؟فرمایا: نہیں (۱۶) ،یوں ہی عشر لینے کی ممانعت کے سلسلہ میں بہت سے دلائل و شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں ہےاب جب کہ ہم نے جان لیا کہ پیغمبر اکرم ﷺنے عشری ،ٹیکس وصول کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے تو ہمارے لئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابن قدامہ سے نقل شدہ روایت صحیح نہیں ہے اس روایت میں آیا ہے کہ :خلیفہ عمر نے “انس ابن ملک ” کو کسی جگہ عشور کی وصولیابی کی نگرانی اور تصدیق کے لئے بھیجنا چاہا ،انس نے کہا :یا امیر !کیا مجھے ٹیکس و غیرہ کے سلسلہ میں منصوب فرما رہے ہیں ؟ عمر نے کہا :میں نے تمھارے ذمہ وہ کام کیا ہے جسے رسول خدا ﷺنے میرے ذمہ کیا تھ آنحضرت ﷺنے عشور کے معاملات میرے ذمہ کئے اور مجھ حکم دیا کہ مسلمانوں سے ایک چوتھائی عشر ، کافر ذمی سے ادھا عشر او ر حربی سے پورے عشر وصول کروں (۱۷)بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت اس بات کی توجیہ کی نیت سے جعل کی گئی ہے کہ اگر چہ حضرت رسول خدا ﷺنے عشری ٹیکس (عشر اور مکس ) وصول کرنے سے تاکید کے ساتھ مکرر طور پر منع کیا تھا اور اس ٹیکس کا وجودآنحضرت(ص) کے زمانہ میں اور خلافت ابوبکر کے عہد میں نیز ایک زمانہ تک عمر کی خلافت کے عہد میں بھی نہ تھا اس کے باوجود عمر نے ہی اسے وضع کیا اور اور مقرر کیا ہےکیا حضرت علی نے اپنی خلافت کے زمانہ میں عشر ی ٹیکس وصول کیا؟منقول ہے کہ :خلافت عثمان کے زمانہ میں فاحشہ اور بدکار عورتوں سے عشر وصول کیا جاتا تھوہ ٹیکس حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے پاس لایا گیا اور آپ نے اسے واپس کر دیا (۱۸)یہ بات اس سے زیادہ دلالت نہیں کرتی کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اس خاص مورد میں عشر واپس کیا ہے اور ایسی کسی نص یا روایت کا وارد نہ ہونا جو اس پر دلالت کرے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عشور کو رد کیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت اسے قبول کرنے پر مجبور تھے کیوں کہ اس کا رد کرنا ان کے ممکن نہ تھا اور آپ اسے منسوخ نہیں کر سکتے تھے جس طرح سے خمس (۱۹) (پر پابندی ) اور نماز تراویح (۲۰)کی ایجاد جس کی داغ بیل عمر نے ڈالی (۲۱) اور دوسرے مورد میں بھی حضرت علی علیہ السلام مخالفت نہیں کر سکتے تھےاگر حضرت علی علیہ السلام نے عشر لینا لغو و منسوخ کر دیا ہوتا تو یہ حکم ہم تک نقل ہوا ہوتا کیوں کہ یہ ایک اہم بات تھی جسے نقل کرنے کی بہت سی وجہیں ہو سکتی تھیں لیکن واضح ہے کہ حتٰی اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے مجبورا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کیا ہے جبکہ مذکورہ روایت اس سکوت پر بھی دلالت نہیں کرتی ۔اس کے باوجود اس عدم منسوخی سے یہ استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ عام حالات میں ٹیکس (عشرو مکس) جائز ہے۔(۲۲)ٹیکس، ضرورت کے تحتظاہر ہے کہ اگر ایسی ضرورت پیش آئے جس میں عشر یا اس سے کم یا زیادہ وصولنا لازم ہو جائے مثلا جب کوئی دشمن حرث و نسل کو تباہ و برباد کرنے لئے حملہ آور ہو ۔ جیسی کہ علامہ طباطبائی نے مثال دے ہے۔زبر دست اور تباہ کن قحط پڑجائے تو اسے فرض و مقرر کیا جاسکتا ہے البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ ضروری قوانین و مقررات زمان و مقدار کے اعتبار سے ضرورت کے زمانہ میں اس کی مقدار کے بقدر معین ہوتے ہیں اور ضرورت رفع ہوتے ہی انھیںاٹھالیا جانا چاہئے۔یہ مطلب حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جس میں حضرت علیہ السلام نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں انھیں خراج دینے والوں کے خراج میں تخفیف کرنے اور ان سے خوش اسلوبی سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ہے:”معتمد فضل قوبھم، بما ذخرت عندھم، من اجمامک لھم، والثقة منھم بنا عودتھم من عدلک علیھم، فی رفقک بھم، فربما حدث من الامور ما اذا عولت فیہ علیھم من بعد، احتملوہ، طیبة انفسھم بہ، فان العمران محتمل ما حمّلتہ”(۲۳)تمھارے حسن سلوک اور ہمیشہ کے عادلانہ طرز عمل سے ان کو تم پر جو اعتماد و اطمینان پیدا ہوگا اور جسے ان (رعایا) کے پاس تم نے ذخیرہ کررکھا ہے اس پر تکیہ کرو۔چہ بسا ایسے حادثات پیش آئیں جن کے مشکلات کو حل کرنے کے لئے اگر تم ان پر اعتماد کرو اور ان سے مدد طلب کور تو وہ خوشی خوشی اسے برداشت کرلے جائیں گے کیونکہ جس قدر تم ملک کو آباد کرو گے اسی قدر عوام پر بوجھ ڈال سکتے ہو ۔ ۔ ۔اورجو کچھ کتاب “دعائم الاسلام” میں آیا ہے اس عہد نامہ میں ارشاد ہوتا ہے:” ۔ ۔ ۔ رعایا کی زمینوں کو آباد کرنا،ان سے سہولت و نرمی کے ساتھ ٹیکس وصول کرنا، ان سے دوستی و محبت کا اظہاران کی تعریف اور ان کے در میان خیر و برکت کوفراوان کرنا ،آنکھوں کے نور میں اضافہ کا پسندیدہ اور سزاوار تر اور یہ روش ان سے زور و زبر دستی اور دباو٘کے ساتھ خراج و ٹیکس وصول کرنے سے زیادہ تمھارے لئے ممد و معاون ثابت ہوگی ۔کیو نکہ تمھارا کام ایسا ہے جس میں تمھیں عوام کے اعتماد کی ضرورت ہے اس روش کے ذریعہ ۔اپنے طرز عمل سے جو ان کا اعتماد تم نے حاصل کیا وہ تمھارے کام آئے گا “۔تم سے رعایا کی محبت و دوستی اور ان کی خوش بینی اور تمھارے عادلانہ و نرم بر تاؤکی وجہ سے ان کا تم پر اعتماد نیز ان کا تمھارے عذر اور تمھاری مشکلات سے باخبر ہونا ،پیش آنے والے حوادث میں انھیں اتنی طاقت و توان بخشتا ہے کہ جو بوجھ ان پر ڈالتے ہو وہ اسے جی جان سے برداشت کر لیتے ہیں کہ جس قدر تم ان کے ساتھ عدالت کا برتاؤ کروگے اسی قدر ان میں تحمل پیدا ہوگا ۔اس کے علاوہ بعض اہل تحقیق مندرجہ ذیل روایت کو ضرورت کے وقت ٹیکس (عشر کے بقدر یا اس سے کم یا زیادہ ) وصول کرنے کے جواز پر دلیل جانتے ہیں :”عن معاذ بن کثیر ،قال :سمعت ابا عبداللہ علیہ السلام یقول:موسع علیٰ شیعتنا :ان ینفقوا مما فی ایدیھم بالمعروف ،فاذا قام قائمنا حرم علیٰ کلّ ذی کنز کنزہ ، حتیٰ یاتیہ بہ ، فیستعین بہ علیٰ عدوّہ، و ھو قول اللہ عزوجل فی کتابہ :(و الذین یکنزون الذھب و الفضة ولا ینفقو نھا فی سبیل اللہ ،فبشرھم بعذاب الیم “(۲۴)”معاذ بن کثیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا “ہمارے شیعوں کے لئے آسان ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے جائز راہ میں انفاق کریں جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو ہر صاحب دولت و خزانہ پر اس کی دولت اور خزانہ حرام کردے گا یہاں تک کہ وہ دولت اس کے پاس لے جائیں ۔پس وہ اس دولت کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرے گا اور یہی خداوند عزوجل اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے :جو لوگ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں انفاق نہیں کرتے ہیں انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو “یہاں ہم ایک اشارہ یہ کرتے ہیں کہ اس روایت میں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ حضرت امام زمانہ معجزاتی ،غیر معمولی یا محیّر العقول طور سے دنیا پر غلبہ حاصل نہیں کریں گے بلکہ عام طریقہ اور معمولی طور پر دنیا کو زیر اقتدار لائیں گے ۔اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے ۔حضرت حجت وسیع پیمانہ پر جہاد و مبارزہ کا آغاز کریں گے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس جہاد میں عام انسانوں کے جمع کئے ہوئے مال و دولت کی بھی ضرورت ہوگی ۔یوں ہی خراج و ٹیکس کے جواز کے لئے اس روایت کو بھی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے کہ چوپایوں اور غلاموں کے مالکوں نے عمر سے درخواست کی کہ ہم اپنے مال کا کچھ حصہ ادا کرنا چاہتے ہیں عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا حضرت نے فرمایا :”اما طابت انفسھم فحسن،ان لم یکن جزیة یوٴخذبھا من بعدک ،اوما بمعنیٰ ذالک” (۲۵)”خود ان کی مرضی سے ہو تو بہتر ہے اگر جزیہ شمار نہ ہو اور تمھارے بعد وصولانہ جائے یا اسی مضمون سے ملتا جلتا ارشاد”یہ سب مسلمان اور کافر ذمی سے ٹیکس و خراج وصول کرنے سے متعلق ہے اب رہا کافر حربی اور معاہدہ شدہ کافروں کا مسئلہ تو ان کے ساتھ بالمثل برتاؤ اور کافر حربی کے خون و مال کی حرمت کا قائل نہ ہونا ہی ان سے ٹیکس و خراج وصول کرنے کے جواز کی دلیل بن سکتا ہے کہ یہاں اس سلسلہ میں بحث کی گنجائش نہیں ہے ۔—————۱)۔تاریخ یعقوبی ج/۲ ص/ ۲۰۳۲)۔المبسوط سرخسی ج/۱۰ص/ ۹۲ ۔آثار الحرب فی التشریع الاسلامی ، ص ۵۲۲ واز شرح السیر الکبیر ج/۱ص/۷۰۳)۔ طبقات ابن سعد ج/ ۴ ص/ ۲۹۶۴)۔اسد الغابہ ج/۲ص/۲۸۳،مجمع الزواید ج/۴ص/۹۹۔الاصابة،ج/۲ص/۱۰۴۔التراتیب الاداریة ج/۲ ص/۵۲و ۵۳۵)۔مجمع الزواید ج/۴ص/۷۴۔سنن بیہقی ج/۹ص/۹۱۔المجروحون ج/۱ص/۲۲۸نیز ملاحظہ ہو المحلی بن حزیم، ج/۷ ص/۲۹۰۶)۔ سنن بیہقی ،ج/۶ ص/۳۱۹وج/۹ص/۶۵و۶۶نقل از حفاری ومسلم ،صحیح مسلم ج/۵ ص/۱۵۸۔آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی ،زحیلی ،ص/۵۲۱۔ صحیح بخاری ج/۳ص/۵۱و۵۲۔ اسد الغابہ ج/۱ص/۲۴۷۔الاستیعاب (مطبوعہ در حاشیہ الاصابہ ج/۱ص/۳۴۷)علام السائلین ص/۴۷۔ الرسالات النبویة ص/۳۲۴۔نصب الرایة ج/۳ص/۳۹۱۷)۔ کنز العمال ج/۴ص/۵۵،حاکم کی تاریخ میان ابن عمرو سے نقل ۔۸)۔ زمانہ جاہلیت میں دو طرف کے ٹیکس رائج تھے ایک عشور (۱/۱۰) اور دوسرا مکس جس کی تعریف وسائل ج/۱۱ ص/۱۱۵ اور اس کے حاشیہ میں از فروع کافی ج/۱ص/ ۱۶۱ التہذیب ج/۱ص/ ۳۸۲ من لایحضر ہ الفقیہ ج/۱ ص/۱۶ میں بھی نقل ہے۹)۔ملاحظہ ہو الخراج ابو یوسف ص/۱۴۵و۱۴۶و۱۴۷۔الخراج قرشی ،ص/۱۲۸و۱۲۹۔واسط فی العصر الاموی ص/۲۳۳ بہت سے منابع سے جو اس کے حاشیہ میں ذکر ہیں النظم الما لیة فی الاسلام ص/۱۰۹ النظم المال فی الاسلام ص/۱۱۵۔الاموال ص/۷۰۷و۷۰۹و۷۱۱و۱۱۲و۱۱۳و۱۱۵تا آخری فصل ۔کنزالعمال ج/۴ص/۳۲۷و۵۱۳و۵۱۵۔ الخطط مقریزی ج/۲ص/۱۲۲و۱۲۳۔المصنف عبد الرزاق ج/۱۰ص/۳۳۵۔نصب الرایة ج/۲ص/۳۶۹۔ گزشتہ ماٴخذ اور اس کے حاشیہ میں شرح آثار طحاوی ص/۳۱۳،اور الاٴثار شبیانی ص/۴۸سے۱۰)۔الاموال ص/۱۱۷۔الخطط مقریزی ج/۲ص/۱۲۱۔کنزالعمال ج/۴ص/۳۲۸نقل از شافعی و ابی عبید در الاموال۱۱)۔ الخراج قرشی ص/۱۶۹،الاموال ،ص/۷۰۶و۷۰۸و۷۱۲و۷۱۳۔الخطط مقریزی ج/۲ص/۱۲۱،کنزالعمال ج/۴ص/۳۲۷۱۲)۔مسند احمد ج/۴ص/۲۱۸و۳۲۲نیز ج/۳ص/۴۷۴۔التراتیب الاداریہ ج/۱ص/۳۹۲۔سنن ابی داؤد ج/۳ص/۱۲۹و۱۷۰،الجامع الصحیح ترمذی ج/۳ص/۲۸۔نہایة ابن اثیر ج/۱ص/۱۰۲۔الاموال ص/۷۰۳و۷۰۷، کنزالعمال ج/۴ص/۲۲۶و۲۲۷، از احمد ابو داؤد ،ابن قانع ،بغوی ، بیہقی ،ابن سعد ، مکاتیب الرسول ج/۱ص/۳۱۰وج/۲ص/۳۴۳و۳۴۸و۳۵۵و۳۵۶و۳۹۲،اور محقق توانا احمد ی نے اپنی ایک تصنیف میں اسے المصنف بن ابی ثیبة ج/۱۰ص/۸۷سے نقل کیا ہے۱۳)۔کنز العمال ج/۳ص/۲۵۰،سنن دارمی ج/۱ص/۳۹۳وج/۲ص/۱۸۰سنن ابی داؤد ج/۳ص/۱۳۳وج/۴ ص/۱۵۲،سنن ابن ماجہ ج/۲ص/۱۲۲۵،صحیح مسلم ج/۵،ص/۱۲۰،مسند احمد ج/۴ ،ص/۲۲ و۳۴۱ و۱۵۰ و۱۰۹ وج/۵، ص/۳۴۸،بحار الانوار ج/۸۲ص/۳۴۲و۳۴۸،از الخصال و امالی صدوق ،وسائل ج/۱۲ص/۲۳۵۱۴) ۔الاموال ،ص/۷۰۷و۷۱۳،نیز الخطط مقریزی ج/۲ص/۱۲۱۱۵) ۔الخطط ج/۲ص/۱۲۳نیز ملاحظہ ہو انجیل ،سفر غیر انیسین ، اصحاح ، توریت آخری سفر لاوتیین و قاموس الکتاب المقدس مادہ “عشر”اور اس کے مشتقات۱۶) ۔وسائل ج/۱۱ص/۱۱۵ ،اور اس کے حاشیہ میں از فروع کافی ج/۱ص/۱۶۱،التہذیب ج/۱ص/۳۸۲ ،من لایحضر الفقیہ ج/۱ص/۱۶ میں بھی نقل ہے۱۷)۔آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی ص/۵۲۴و۵۲۵اور اس کے حاشیہ میں مفتی بن قدامہ ج/۸ص/۵۱۸ سے ،مجمع الزوائد ج/۳ص/۷۰ ،نصب الرایہ ج/۲ص/۳۷۹۱۸)۔اس روایت کو محقق عالی قدر شیخ علی احمدی نے مصنف ابن ابی شیبہ ج/۱۱ص/۱۱۴سے نقل کیا ہے۱۹)۔الاموال،ابی عبیدص/۴۶۳۲۰)۔تردیحتہ کی جمع بمعنی “نشست”جلسہ ،ماہ رمضان کی راتوں میں چار رکعت نماز پڑھنے نیز چار رکعت نماز شب پڑھتے یا دورکعتی مستحبی نماز وں کے بعد جو رمضان المبارک کی راتوں میں نماز عشاء کے بعد پڑھتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے بیٹھنا اور چونکہ ہر چند رکعت کے بعد تھوڑی دیر کے لئے استراحت کرتے ہیں لہذا اسے اس نام سے یاد کیا گیا ہے۔۲۱)۔ملاحظہ فرمائیں:کافی ج/۸،ص/۵۹و۶۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج/۱، ص/۲۶۹و ج/۲،ص/۲۸۳۔ الصراط المستقیم، ج/۳،ص/۲۶۔ تخلیص الشافعی،ج/۴، ص/۵۸۔ بحار الانوار طبع قدیم،ص/۲۸۴۔۲۲) ۔المیزان ،ج/۹،ص/۴۰۸۔۲۳) ۔نہج البلاغہ ،شرح عبدہ،ص/۱۰۷و۱۰۸،السعادة،ج/۹،ص/۹۴۔تحف العقول ص/۱۳۸،بحار الانوار طبع قدیم ج/۸،ص/۶۱۰۔۲۴) ۔سورہ توبہ ،آیت ۳۴ ۔تفسیر نور الثقلین ،ج/۲ ص/۲۱۳ ۔کافی ،طبع ،آخوندی ،ج/۴ ص/۶۱ ۔بحارالانوار ،ج/۷۰ ص/ ۱۴۳۲۵)۔سنن دار قطنی ج/۲ص/۱۲۶و۱۳۷،الاموال ص/۶۳۰،مستدرک حاکم ،ج/۱ص/۴۰۰و۴۰۱،تلخیص مستدرک ذہبی سنن بیہقی ج/۴ص/۱۱۸و۱۱۹،مجمع الزوائد ج/۳ص/۶۹،از احمد و طبرانی در الکبیر ،مسند احمد ج/۱ص/۱۴،المصنف عبد الرزاق ج/۴ ص/۳۵ نصب الرایة ج/۲ص/۳۵۸،اور کے حاشیہ بعض گزشتہ ماخذ اور طہاوی ص/۳۱۰سے نقل کنزالعمال ج/۶ ص/۳۰۰و ۳۰۱بعض مذکورہ بالا ماخذ سے اور ابن خزیمہ سعید بن منصور ابی یعلی (بظاہر )ابن جریروابن جوزی سے جامع المسانید میں