بہتان

628

سورة نور میں افک کی آیتیں
سورة نور میں افک کے موضوع پر اٹھارہ آیتیں یعنی آیت ۴ سے ۲۱ تک ملتی ہیں۔ اگرچہ ان آیتوں کی شانِ نزول خصوصیت کے ساتھ زنا کا بہتان ہے لیکن ان کے بیچ میں مطلق بہتان پر سخت تنبیہ کی گئی ہے جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے۔مفسرین نے افک کی آیات کی شانِ نزول کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیتیں کچھ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرم کی بیوی عائشہ پر تہمت لگائی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول خدا نے بنی المصطلق کے غزوے عائشہ کو خود روانہ کیا تھا اور انہیں ایک ہودج میں پردے میں سوار کر دیا تھا۔حضرت عائشہ  کہتی ہیں: “جب ہم واپسی میں مدینے کے قریب پہنچے تورات کے وقت ایک منزل پر اُتر پڑے۔ آدھی رات کو میں اور ایک عورت دونوں مل کر قضائے حاجت کے لیے لشکر کے پڑاؤ سے دُور چلے گئے۔ جب ہم پلٹے تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جو یمنی موتیوں کا گلوبند پہنے ہوئے تھی وہ غائب ہے۔ میں نے سوچا کہ جہاں میں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی وہیں کہیں گر پڑ ا ہے اس لیے اندھیری رات میں اکیلی اٹھ کر وہاں پہنچی۔ بہت کچھ تلاش کیا نہیں ملا۔ پیغمبر خدا کو میرے جانے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ آپ نے کوچ کا حکم دے دیا۔ لشکر روانہ ہو گیا۔ جو لوگ میرے ہودج پر تعینات تھے وہ آئے اور ہودج اونٹ پر رکھ کر اس خیال سے کہ میں ہودج میں بیٹھی ہوں روانہ ہو گئے۔جب پڑاؤ میں واپس آئی تو میں نے کسی کو نہ پایا۔ جہاں میرا اونٹ تھا وہاں میں نے ٹٹولا تو گلوبند مل گیا اور میں وہیں بیٹھ گئی۔ مجھے نیند آنے لگی تو میں لیٹ گئی۔ میرا خیال یہ تھا کہ اطلاع ملنے پر میرا کوئی عزیز مجھے لینے ضرور آئے گا۔ اچانک صفوان بن المعطل جو پچھلی منزل میں سوتا رہ گیا تھا اور لشکر سے بچھڑ گیا تھا ایک اونٹ پر سوار آ پہنچا۔ اس نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا اور کچھ کہے بغیر اونٹ بٹھا دیا میں اس پر سوار ہو گئی۔ اس نے اونٹ کی نکیل ہاتھ میں پکڑی اور چل دیا۔ ہم ٹھیک دوپہر کے وقت اس پڑاؤ پر پہنچے جہاں پیغمبر اکرم ٹھہرے ہوئے تھے اور پیغمبر کو میرے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔جیسے ہی میرا اونٹ دُور سے نظر آیا عبداللہ بن ابی سلول اور کچھ اور منافقوں نے طنزاً کہا “پیغمبر کی بیوی ایک غیر مرد کے ساتھ بیابان سے آ رہی ہے۔” اس کے بعد اس منافق شخص نے کہا: “خدا کی قسم ان دونوں کے درمیان نامناسب حرکت واقع ہوئی ہے۔” اور یہ بہتان دوسرے منافقوں نے بھی دہرایا اور پھر مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں جن میں سے بعض اس کی تردید اور نفی کرتے تھے اور کچھ خاموش ہو گئے۔”جب یہ قصہ پیغبر اکرم کے کان تک پہنچا تو آپ سخت پریشان اور رنجیدہ ہوئے اور عائشہ بھی بیمار ہو کر بستر سے لگ گئیں۔جب اس واقعے کو ایک مہینہ اور سات دن گذر گئے تو رسول خدا عائشہ کے حجرے میں پہنچے۔ انصار کی ایک عورت بھی حجرے میں تھی اور ایک روایت کے مطابق عائشہ کے ماں باپ بھی تھے۔ پھر رسول خدا نے عائشہ سے فرمایا: “اگر تم اس الزام سے بری ہو تو خدا تمہیں اس کا بدلہ دے (یعنی اس بہتان کے جواب میں جو تم پر باندھا گیا ہے) اور اگر تم نے خطا کی ہے تو توبہ کرو۔ خدا تمہاری توبہ قبول کرے گا۔”عائشہ نے کہا: “خدا جانتا ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں اور مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس سے میں خدا سے شرماؤں لیکن دشمنوں نے ایک بات بیچ میں ایسی کھڑی کر دی ہے کہ میں کچھ بھی کہوں وہ یقین نہیں کریں گے اس لیے اب میں اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گی جو یعقوب نے کہا تھا یعنی “فصبر جمیل” یہ کہا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر رونا شروع کر دیا۔رسول خدا وہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی آئی اور مذکورہ آیتیں نازل ہوئیں۔ جب آنحضرت وحی سے فارغ ہوئے تو آپ نے عائشہ سے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو۔ خدا تمہیں بری کرتے ہوئے فرماتا ہے: “لوگوں نے تم پر جو بہتان باندھا ہے اسے تم اپنے حق میں بُرا (بدتر) نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں اچھا (بہتر) ہے (کیونکہ ان پر تمہارا بدلے کا حق پیدا ہو گیا ہے اور جو تم اس پر صبر کرو گے تو تمہیں ثواب ملے گا) ان میں سے جس جس نے جو گناہ کمایا ہے وہ اس کے لیے ہے (یعنی اس گناہ کا وبال اور سزا صرف اسی کو ملے گی) اور جس نے یہ اتنا بڑا بہتان باندھا ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔” (سورة نور آیت ۱۱) اور وہ شخص عبداللہ بن ابی سلول تھا اور بعضوں نے کہا کہ حسان بن ثابت تھا۔پھر خدا فرماتا ہے: “جب مومن مردوں اور عورتوں نے یہ بات سُنی تھی تو انہوں نے ازخود اچھا خیال کیوں نہیں قائم کیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ ہے”۔ (سورة نو آیت ۱۲) یعنی مومنوں کو چاہیئے کہ جب کسی مومن کے متعلق کوئی بہتان سنیں تو خاموش نہ رہیں بلکہ ان پر واجب ہے کہ اس کی تردید کریں اور جھٹلائیں، مسلمانوں کے کام کو صحیح سمجھیں اور بدگمانی اور بُرے خیال سے بچیں۔پھر خدا فرماتا ہے: “انہوں نے اس بات پر چار عادل گواہ کیوں نہیں پیش کیے (جیسا کہ شرع مقدس میں ہے کہ جو کوئی الزام لگائے اسے چاہیئے کہ اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کے لیے چار عادل گواہ لائیں۔ چونکہ انہوں نے چار گواہ پیش نہیں کیے اس لیے خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہیں”۔ بے شک اگر دنیا میں (توبہ کی بدولت ) اور آخرت میں (معافی اور بخشش کی بدولت )تم پر خدا کا فضل وکرم اور مہربانی نہ ہوتی تو جس بات کا تم نے چرچا کیا تھا اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑا سخت عذاب آ پہنچتا جبکہ تم اپنی زبانوں سے وہ بات ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمہیں علم اور یقین نہیں تھا اور تم نے اسے چھوٹا اور حقیر سمجھا اور جبکہ وہ خدا کے نزدیک بہت بڑی با ت تھی۔” (سورة نور آیت ۱۳ تا ۱۵)ان آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے تین گناہ کیے ایک یہ کہ تم نے ایسا جھوٹ بولا اور ایک دوسرے سے کہہ کہہ کر اسے فاش کیا۔ دوسرے یہ کہ تم نے وہ بات کہی جس کا تمہیں علم نہیں تھا یعنی تم نے وہ کہا جس کی تحقیق نہیں کی تھی اور تمہیں جس کی اصلیت کا علم بھی نہیں تھا۔ تیسرے یہ کہ تم اسے آسان اور حقیر اور چھوٹا سمجھتے تھے ۔پھر خدا فرماتا ہے : “اور جب تم نے ایسی بات سُنی تھی تو تم نے لوگوں سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ ہم کو ایسی بات منہ سے نکالنا مناسب نہیں۔ تم نے اس بڑی اور بُری بات پر تعجب کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا کہ اے خدا ! تو پاک ہے۔ یہ بات جو لوگ کہہ رہے ہیں بڑا بھاری بہتان ہے (اور اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کے خلاف کہا گیا ہے کہ وہ جب سنے گا تو دنگ رہ جا ئے گا)۔ خدا تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو پھر کبھی ایسا گناہ نہ کرنا۔” (سورہ توبہ آیت ۱۶۔۱۷)ان آیتوں سے اور دوسرے آیتوں سے جن کا طول ہو جانے کے خیال سے ذکر نہیں کیا گیا بہتان کا نہ صرف کبیرہ ہونا بلکہ کچھ کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا ہونا اچھی طرح ظاہر ہو جاتا ہے۔
بہتان اور اہل بیت علیھم السلام کی روایاتپیغمبر اکرم فرماتے ہیں: “جو کوئی کسی مومن مرد یا عورت کو تہمت لگائے گا یا اسے اس بات سے منسوب کرے گا جو اس میں نہیں ہے تو خدا اسے قیامت کے دن آگ کے مقام پر اس وقت تک رکھے گا جب تک وہ کہے ہوئے کی سزا نہیں پا لے گا۔” (بحار جلد ۱۶ ص ۱۷۰)حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “جو کوئی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے گا اور ایسی بات اس سے منسوب کرے گا جو اس میں نہیں ہے خدا اسے قیامت کے دن طینہ خبال میں اس وقت تک بند رکھے گا جب تک وہ اپنے کہے ہوئے کی ذمہ داری پوری نہیں کر لیتا۔” راوی (ابن ابی یعفور) نے پوچھا: “طینہ خبال کیا چیز ہے؟” آپ نے فرمایا: “وہ پیپ ہے جو زنا کرنے والوں کی شرمگاہ سے جہنم میں بہے گی۔” (بحار جلد ۱۶)حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں: “جو کوئی اپنے مومن بھائی پر تہمت لگائے گا اس کے دل سے ایمان اس طرح رخصت ہو جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔” (کافی) خلاصہ یہ ہے کہ تہمت دل کے بگاڑ اور ایمان کے زوال کا سبب ہوتی ہے۔
بہتان کی قسمیںخدا پر بہتانخدا پر بہتان سب سے سخت بہتان ہے جیسا کہ خدا سورة صف میں فرماتا ہے “اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو خدا پر بہتان لگاتا ہے۔” (آیت ۷)مثلاً وہ لوگ جو خدا کی عدالت یا حکمت سے انکار کرتے ہیں۔ جس طرح پیغمبروں کی نبوت سے انکار کرنے والے درحقیقت خدا کی حکمت کے منکر ہیں اسی طرح قیامت کے منکر بھی ہیں اور وہ لوگ بھی جنہوں نے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے اور اس طرح خدا کے لیے طرح طرح کے بہت سے شرک کے قائل ہو چکے ہیں کیونکہ علم کے بغیر تمام باتیں محض افترا اور الزام ہیں جن کے لیے قرآن مجید کی آیتوں میں سخت تنبیہ کی گئی ہے اور جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ خدا پر بہتان کو کفر کے لوازم میں داخل کیا گیا ہے۔ سورة نحل میں کہا گیا ہے : “حقیقت میں وہ لوگ بہتان لگاتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہںٰ لائے ہیں اور یہی لوگ جھوٹ ہیں۔” (آیت ۱۰۵)
پیغمبر اکرم اور امام پر بہتانپیغمبر اکرم اور آئمہ علیھم السلام پر بہتان بھی خدا پر بہتان کے برابر ہے۔ مثلاً یہ کہ ان کو جادوگر، پاگل، شاعر، جھوٹا، خودپسند اور خود غرض کہیں۔ انبیاء اور آئمہ ہدیٰ صلوٰة اللہ علیہم کی بلند مرتبت نسل اور خاندان پر لگائے جانے والے بُرے انتہامات کی تفصیل کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں اس تفصیل کی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔
لوگوں پر بہتانباقی تمام لوگوں پر لگائے جانے والے اتہام کی دو قسمیں ہیں۔ کبھی بے تحقیق بات کہنا یعنی جو عیب ثابت نہ ہوا ہو اور جو یقینی نہ ہو بلکہ صرف بدگمانی کی بنیاد پر اسے دوسرے سے منسوب کر دیا جائے۔کبھی افتراء ہے یعنی جس عیب کے بارے میں یہ جانتا ہے کہ وہ اس شخص میں نہیں ہے یا جس کام کے بارے میں یقین رکھتا ہے کہ وہ اس شخص سے ظہور میں نہیں آیا ہے اس غریب کی دشمنی میں وہ اس سے منسوب کر دیتا ہے اور اس سے بھی بُرا یہ ہے کہ جو عیب خود تہمت لگانے والے میں موجود ہو اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسے دوسرے سے منسوب کر دیتا ہے اور اپنی گندگی اس پر چپکا دیتا ہے جو پاکدامن ہے۔خوب ظاہر ہے کہ یہ خدا کے بندوں پر لگایا جانے والا بدترین قسم کا بہتان ہے جیسا کہ خدا سورة نساء میں فرمایا ہے: “جو شخص غلطی سے چھوٹا سا گناہ کر بیٹھتا ہے یا جان بوجھ کر کوئی گناہ صغیرہ یا کبیرہ کرتا ہے اس کے بعد اسے کسی بے گناہ کے سرمنڈھ دیتا ہے تو اس نے گویا ایک بُرے افتراء کو (یعنی ایسے جھوٹ کو جس سے بے گناہ شخص دنگ رہ جاتا ہے) اور صریحی گناہ کو اپنے اوپر لاد لیا۔” (سورة نساء آیت ۱۱۲)
کافر پر بھی بہتان لگانا حرام ہےتفسیر منہج میں لکھا ہے کہ طعمہ بن ابیرق کے تین بیٹے تھے جن کے نام بشر، مبشر اور بشیر تھے۔ ان تینوں میں سے بشر منافق شخص تھا۔ وہ ایک رات کو قتادہ بن نعمان کے گھر میں نقب لگا کر داخل ہو گیا اور آٹے کا ایک چرمی تھیلا جس میں ایک زرہ چھپا کر رکھ دی گئی تھی چرا لایا۔ اتفاق کی بات ہے کہ تھیلے میں ایک سوراخ تھا جس سے آٹا گرتا جاتا تھا یہاں تک کہ بشر اپنے گھر پہنچا۔ پھر وہ تھیلا زید بن السیمن کے گھر لے گیا جو یہودی تھا اور اسے اس کے پاس بطور امانت رکھ دیا۔ صبح کو قتادہ آٹے کے نشان سے بشر کے گھر پہنچا اور اس سے اپنی زرہ مانگی تو اس نے انکار کر دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ اس نے ایسا نہیں کیا اور اسے اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ قتادہ اس طرف کھوج لگاتا ہوا چلا جدھر سے بشر زید یہودی کے گھر گیا تھا اور اس نے زید کو بے ایمانی میں پکڑ لیا۔ زید نے کہا کہ کل رات کو بشر تھیلے میں چھپی ہوئی زرہ میرے سپرد کر گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس بات کی گواہی بھی دی۔ قتادہ نے یہ صورت حال رسول خدا کی خدمت میں جا کر عرض کی۔ بشر کا قبیلہ بنی ظفر بدنامی کے ڈر سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ بشر پر تہمت لگے اور یہودی صاف چھوٹ جائے۔ لہٰذا بشر کے قبیلے والوں نے جھگرا شروع کر دیا اور بشر کی بے گناہی کی گواہی دے دی۔ اس پر خدا نے اس بارے میں سورة نساء کی آیت ۱۰۵ سے ۱۱۳ تک یعنی ۹ آیتیں نازل فرمائیں۔(ان آیتوں کا مطلب جاننے کے لیے تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔)ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں بہتان اور افتراء کو حرام بتایا گیا ہے چاہے وہ کافر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ان میں بہتان باندھنے والے کو کئی بار غدار اور بے وفا کہا گیا اور پیغمبر کو اس کی حمایت سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ ظاہر میں مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
دغابازی کا انجامتفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ بشر کا انجام یہ ہوا کہ خدا نے اس کی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ مکے کے مشرکوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں اس نے چوری کی خاطر ایک گھر میں نقب لگائی تو خدا نے وہ گھر ہی اس کے سر پر ڈھا کر اسے مار ڈالا۔
اس کا علاج ایمان کا حاصل کرنا ہےواقعی اس قسم کے بہتان کا سبب بے ایمانی، سنگدلی، کمینگی، بے خوفی، فحاشی اور بے غیرتی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور اس کا علاج ایمان حاصل کرنے، اسے پختہ کرنے اور دنیا کی سختیوں کے نتائج اور آخرت کی سزاؤں پر غور کرنے سے ہو سکتا ہے۔
بد گمانیدوسرے قسم کے بہتان کا سبب جس میں علم وتحقیق کے بغیر کوئی بات کسی سے منسوب کر دی جاتی ہے غالباً بدگمانی ہے یعنی کسی کی دیکھی یا سنی ہوئی بات کو خراب سمجھے اور اپنی بدگمانی پر چلے اور اس کام کے متعلق صحیح خیال اور صحیح سبب کی طرف توجہ نہ دے۔لہٰذا قرآن مجید اور بہت سی روایتوں میں مسلمانوں کو دوسروں سے بدگمانی رکھنے کے خلاف منع کیا گیا اور حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے عمل کے متعلق اچھا خیال قائم کیا کرو۔ یہاں مزید معلومات کے لیے اس کے متعلق ملنے والی کچھ آیتیں اور روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔بعض خیالات گناہ ہوتے ہیںسورة حجرات میں بتایا گیا ہے: “اے وہ لوگو! جو خدا پر ایمان لائے ہو اپنے بہت سے خیالات دُور کر دو( کیونکہ وہ مومن بھائی کے بارے میں بدگمانیوں ہیں)۔ بلاشبہ بعض خیالات گناہ ہیں اور لوگوں کے ان عیبوں کی جستجو نہ کرو جو تم سے چھپے ہوتے ہیں۔” (آیت ۱۲)غرض یہ آیت اپنے مومن بھائی کے متعلق بدگمانی کرنے سے منع کرتی ہے۔سورة بنی اسرائیل میں خدا فرماتا ہے: “اس پر نہ چلو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔ بلاشبہ کان، آنکھ اور دل سب سے پوچھ گیچھ ہو گی۔” (آیت ۳۶)
اچھا گمان کرنا چاہیئےحضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “اپنے دینی بھائی کے کام کو اس وقت تک اچھا ہی سمجھو جب تک کہ کوئی ایسی دلیل تمہارے ہاتھ نہ آ جائے جو تمہیں مجبور کر دے اور تمہارے لیے اس کے درست ہونے (اور اسے صحیح سمجھنے) کا راستہ بند نہ کر دے اور اپنے بھائی کی کہی ہوئی کسی بات پر بدگمان نہ ہو جانا جب تک کہ تمہیں اس کی کوئی اچھی بنیاد یا درست وجہ مل سکتی ہو۔” (کشف الریبہ شہید ثانی)علّامہ مجلسی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: “یعنی اپنے دینی بھائی کے ہر فعل وعمل کو اچھائی پر محمول کرو چاہے وہ ظاہر میں اچھا نہ ہو اور اس کی اس وقت تک پڑتال نہ کرو جب تک کوئی ایسی دلیل جو اس کی تاویل کرنے سے روکتی ہو تمہارے ہاتھ نہ آ جائے کیونکہ بہت سے خیالات خطا پر مبنی ہوتے ہیں اور پوچھ گچھ کی بھی ممانعت ہے جیسا کہ خدا نے فرما دیا ہے: “ولاتجسسوا”جستجو نہ کرو۔حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)نے نہج البلاغہ میں حدیث کا یہ جملہ نقل کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مومن کے منہ سے ایسا لفظ نکلے جس کے دو معنی ہوں تو تجھے لازم ہے کہ اس کے اچھے ہی معنی نکال چاہے وہ معنی مجازی ہوں یا کنائے سے نکلتے ہوں اور کوئی قرینہ بھی نہ ہو خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ کہنے والا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے صحیح اور اچھے معنی ہی کا قصد کیا ہے۔ایک بار حجاج لعین نے قبعثری کو دھمکی دی اور کہا: لاحملنک علی الادھم یعنی میں تجھے ادھم (بیڑی اور زنجیر) پر سوار کرا دوں گا (کھینچوں گا) قبعثری نے کہا: مثل الامیر یحمل علی الادھم والاشھب یعنی ایسا امیر ہونا چاہیئے جو اودہم (سیاہ رنگ کا گھوڑا جو بہترین قسم کا سمجھا جاتا ہے) پر سوار کرائے۔ حجاج نے کہا: اردت الحدید ادھم سے میرا مطلب لوہا تھا گھوڑا نہیں تھا۔ قبعثری بولا: لان یکون حدیداً خیر من ان یکون بلیدا ،تیز نگاہ اور چوکنا گھوڑا سست سے بہتر ہوتا ہے۔ (۱)اس حکایت میں جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ قبعثری نے حجاج کی ڈانٹ ڈپٹ کو اس کی عنایت اور مہربانی پر محمول کر کے کلمہ حدید کے جس کے بظاہر معنی بیڑی اور لوہے کے ہیں مجازی معنی نکالے جو گھوڑے وار چست وچالاک کے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام اقوال اور افعال کے معاملے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیئے اور جہاں تک ہو سکے انہیں خرابی اور بُرائی کے بجائے درستی اور اچھائی پر محمول کرنا چاہیئے۔(۱) چلیی مطول کے حاشیے میں لکھا ہے : قبعثری ایک شاعر اور ادیب تھا۔ ایک دن وہ اپنے ہم خیال ادیبوں کی جماعت کے ساتھ ایک باغ میں تھا اور وہ زمانہ کھجوریں توڑنے کا تھا۔ کسی نے حجاج خونخوار کا نام لیا تو قبعثری بولا: اللّٰھم سود وجہہ واقطع عنقہ واسقنی من دمہ “یعنی اے خدا! اس کا منہ کالا کر، اس کی گردن کاٹ ڈال اور مجھے اس کا خون پلا۔ قبعثری کی یہ ہجو حجاج کے کان تک بھی پہنچ گئی تو اس نے اسے بلوایا اور اس سے سخت بازپرس کی۔ قبعثری نے کہا :اردت بذلک الحصرم ،ان الفاظ سے میری مراد کھجوریں تھیں، میں نے کہا تھا کہ اے خدا ان کا رنگ کالا کر دے اور انہیں درخت سے الگ کر کے مجھے کھلا دے۔ حجاج نے یہ تشریح نہیں مانی اور اسے ڈراتے ہوئے کہنے لگا: لاحملنک علی الادھم میں تجھے بیڑیوں پر سوار کراؤں گا اور چونکہ لفظ ادھم عربی میں بیڑی کے علاوہ بھی معنی رکھتا ہے اور وہ ہیں مثلی گھوڑے کے، جس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ ادہم کو ان معنوں میں لیا اور بولا مثل الامیر یحمل علی الادھم والاشھب یعنی ایسا قوی اور سخی امیر ہونا چاہیئے جو خالص کالے یا خالص سفید گھوڑے پر سوار کرائے۔ حجاج نے کہا: اردت الحدید یعنی یعنی ادہم سے میری مراد لوہے کی بیڑی تھی گھوڑا مراد نہیں تھا۔ حدید کا لفظ لوہے کے علاوہ چونکہ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ ہیں تیز نگاہ اور چست وچالا۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ حدید سے دوسرے معنی نکالے اور کہا: لان یکون حدیداً خیر من ان یکون بلیداً یعنی بے شک چست وچالاک گھوڑا سست سے بہتر ہوتا ہے۔جب حجاج نے قبعثری کی معنی آفرینی کی قابلیت دیکھی تو اس نے غصہ تھوک دیا اور اسے معاف کر کے انعام واکرم دیا۔یہ قصہ بیان کرنے سے علامہ مجلسی کی غرض اچھے معنی مطلب نکالنے سے ہے کہ سننے میں جو بات بظاہر بے جا اور تکلیف دہ بھی ہو اس کے خوشگوار اور اچھے ہی معنی نکالنے چاہئیں۔ جس طرح قبعثری اچھی توجیہ وتشریح کر کے حجاج کے شر سے بچ گیا بلکہ اس کی عنایت کا مستحق بھی بن گیا۔ اسی طرح جو انسان دوسروں کے قول یا فعل کے اچھے معنی ومطلب نکالے گا وہ خرابیاں پیدا کرنے والی دنیا اور آخرت کی برائیوں سے بچ جائے گا اور اپنی اچھی توجیہ کی بدولت خیر وخوبی حاصل کر لے گا۔
مومن سے بدگمانی حرام ہےشہید ثانی علیہ الرحمہ کشف الریبہ میں فرماتے ہیں: “جس طرح مومن کی برائی کرنا اور مومن کی برائیاں بیان کرنے میں زبان چلانا حرام ہے اسی طرح اس کی طرف سے بدگمانی بھی حرام ہے۔”حرام بدگمانی کا مطلب یہ ہے کہ اسے کسی پختہ دلیل کے بغیر محض اپنے دل سے بُرا سمجھو البتہ دل میں صرف خیال کا پیدا ہونا چونکہ اختیاری بات نہیں ہے اس لیے وہ حرام نہیں ہے اور قابلِ معافی ہے۔ (حدیث نبوی کے مطابق جسے حدیث رفع کہتے ہیں) خدا نے فرمایا: “بہت سے خیالات سے بچو درحقیقت کچھ خیالات گناہ بھی ہوتے ہیں۔”جب تک دوسرے کی بُرائی تمہارے سامنے ظاہر نہ ہو جائے اور اس کے اچھے معنی بھی نہ نکالے جا سکیں اس وقت تک دوسرے کے متعلق بُرا خیال قائم نہ کرو۔جو بات تم پر کھلی نہ ہو اور تمہارے دل میں ٹھہر جائے تو سمجھو کہ وہ بدگمانی شیطان نے تمہارے دل میں ڈال دی ہے تمہیں چاہیئے کہ تم اسے جھٹلاؤ کیونکہ وہ سب سے سخت اور خراب قسم کا گناہ ہے۔اسی لیے شرع میں ہے کہ جب تمہیں کسی کے منہ سے شراب کی بُو آئے تو یہ نہ کہو کہ فلاں شخص نے شراب پی ہے اور نہ اس پر حد جاری کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے کلی کر کے ہی منہ سے نکال دی ہو یا دوسرے نے اس کے منہ میں زبردستی انڈیل دی ہو یا وہ اسے پانی کے دھوکے میں پی گیا ہو اس طرح کے اور بھی احکامات ہو سکتے ہیں اس لیے مسلمان سے بدگمانی جائز نہیں ہے۔پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: “مسلمان کا خون بہانا، اس کا مال لوٹنا اور اس سے بدگمانی کرنا حرام ہے۔” (کشف الریبہ شہیدثانی )
یہاں تک کہ آپ فرماتے ہیں: مسلمان کے خلاف جو بدگمانی دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر تم یہ نہیں جانتے کہ دل میں صرف خیال کا بے اختیار گذرنا قابلِ معافی ہوتا ہے یا یہ کہ بُرے خیال کا دل میں بیٹھ جانا اختیار اور قابلِ سزا ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ جیسے ہی اس مسلمان کی نسبت تمہاری حالت بدلی، تم اس سے بد دل ہوئے، تمہیں وہ کھلنے لگا اور تم نے اس کے احترام میں کمی اور سستی کی اور اس خیال سے پہلے کی طرح تم اس کی پریشانی سے غمگین نہیں ہوتے تو یہ حرام بدگمانی اور اس کی طرف سے دل میں کانٹے پڑ جانے کی نشانی ہوتی ہے۔”پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے: “جب کسی مومن کو کسی مسلمان سے بدگمانی پیدا ہو جائے تو اس کے لیے اس سے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اس بدگمانی کو دل میں نہ بیٹھنے دے اور اس پر عمل نہ کرے۔” (کشف الریبہ شہیدثانی )یعنی اپنے کردار اور گفتار میں اس کے خلاف پیدا ہو جانے والی بدگمانی کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ شیطان پر غالب آنے کے لیے یہ مناسب ہے کہ اس شیطانی خیال کے بعد اس مسلمان سے اچھا اور بہتر سلوک کرنے لگے اور اس کا زیادہ احترام اور اس کے حقوق کا زیادہ لحاظ کر کے شیطان کو اندھا بنا دے۔ (کشف الریبہ شہید ثانی  )
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.