انسانى ارزش

339

انسان كى دو حيثيتيں اور دو وجود ہيں ايك وجود انسانى اور ايك وجود حيواني_ انسان كى قدر اور قيمت انسانى وجود سے ہے اور حيوانى وجود سے نہيں ہے_ حيوانى وجود تو اس كا طفيلى ہے اور در حقيقت وہ كچھ بھى نہيں ہے_ گر چہ انسان حيوان تو ہے ہى اور اسے حيوانى وجود كے لئے اس كے لوازم زندگى حاصل كرنے كو اہميت دينى بھى چاہئے_ ليكن انسان اس دنيا ميں اس لئے نہيں آيا كہ وہ حيوانى زندگى بسر كرے بلكہ انسان اس اس جہان ميں اسلئے آيا ہے كہ وہ اپنى حيوانى زندگى سے انسان زندگى كى تكميل كرے اور اس حيوانى زندگى سے انسان زندگى كا فائدہ حاصل كرے انسان دونوں انسانى حيوانى زندگى ميں كئي ايك چيزوں كا محتاج ہوتا ہے كہ جن كے تقاضے خود اس كے وجود ميں ركھ ديئے گئے ہيں_ اس لحاظ سے كہ وہ ايك حيوان ہے اور نامى ہے پانى غذا مكان لباس ہوا محتاج ہے تا كہ وہ زندہ رہے پانى اور غذا كا محتاج اور اس لحاظ سے كہ ان كو پورا كرے اسے تلاش اور كوشش كرنى ہوتى ہے_ بھوك پياس لذت پانى اور غذا كى طلب يہ اس كے وجود ميں ركھ دى گئي ہوئي ہيں اور اس لحاظ سے كہ نسل انسانى باقى رہے جنسى غريزہ اور بيوى كى طرف ميلان اس كے وجود ميں ركھ ديا گيا ہے_ انسان
25اپنے باقى رہنے كا علاقمند ہوتا ہے زندگى كے باقى ركھنے ميں حيوانى زندگى اور اس كے آثار كا پابند ہے جب غذا كو ديكھتا ہے اور بھوك كا احساس كرتا ہے تو غذا كھانے كى طرف ميلان پيدا كرتا ہے اور اپنے آثار سے كہتا ہے كہ مجھے غذا حاصل كرنى چاہئے اور اسے كھانا چاہئے اور اس كے حاصل كرنے ميں كوئي مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ كرتا ہے_ يقينا ايسا احساس پر انہيں ہے كيونكہ اپنى زندگى كے دوام كے لئے انسان كو كام كرنا چاہئے تا كہ كھائے اور پيئے_ اسلام ميں نہ صرف اس سے روكا نہيںگيا بلكہ اس كى سفارش بھى كى گئي ہے_ ليكن اس مطلب كو بھى جاننا چاہئے كہ حيوانى زندگى اخروى زندگى كا مقابلہ اور تمہيد ہے يہ خود انسان كى خلقت كى غرض نہيں ہے بلكہ يہ طفيلى ہے اصيل نہيں ہے_ اگر كسى نے حيوانى زندگى كو ہى اصل اور ہدف قرار دے ديا اور دن رات خواہشات و تمينات حيوانى زندگى ميں لگا رہا اور اس كى كوشش اور تلاش كرتا رہا اور اپنى زندگى كا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام كرنا اور شہوت رانى اور غرائز حيوانى كا پورا كرنا قرار دے ديا تو وہ ضلالت اور گمراہى ميں ہى جا پڑے گا_ كيونكہ اس نے ملكوتى روح اور عقل انسانى كو حاكميت سے دور كر كے فراموشى كے خانے ميں ڈال ديا ہے ايسے شخص كو انسان شمار نہيں كرنا چاہئے بلكہ وہ ايك حيوان ہے جو انسان كى شكل و صورت ميں ہے_ اس كے پاس عقل ہے ليكن وہ ايسى دور ہوئي ہے كہ جس سے انسانى كمالات اور فضائل كو نہيں پہچان رہا وہ كان اور آنكھ ركھتا ہے ليكن حقايق اور واقعات كو نہيں سنتا اور نہيں ديكھتا_ قرآن ايسے انسان كو حيوان بلكہ اس سے بھى گمراہ تر جانتا ہے كيونكہ حيوان تو عقل ہى نہيں ركھتا ليكن ايسا شخص عقل ركھتا ہے اور نہيں سمجھتا _قرآن مجيد ميں ہے كہ ‘ اے پيغمبر اگر تيرى دعوت كو قبول نہيں كرتے تو سمجھ لے كہ يہ لوگ اپنى خواہشات نفس كى پيروى كرتے ہيں اور كونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ كى ہدايت كو چھوڑ كر خواہشات نفس كى پيروى كرتا ہے اور اللہ تعالى ظالموں كو بھى ہدايت نہيں كر ے گا_(25) قرآن مجيد فرماتا ہے _ كہ ‘ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم كے لئے پيدا كئے ہيں كہ وہ اپنے سوء اختيار سے جہنم ميں جائيں گے_
26اس واسطے كہ ان كے پاس دل تو ہو ليكن اس سے سمجھتے نہيں_ آنكھيں ركھتے ہيں ليكن ان سے ديكھتے نہيں_ كان ركھتے ہيں ليكن ان سے سنتے نہيں يہ جانوروں كى طرح ہيں بلكہ ان سے بھى گمراہ ترين يہ غافل ہيں_(26)خداوند عالم فرماتا ہے كہ ‘ وہ شخص كہ جس نے خواہشات نفس كو اپنا خدا بنا ركھا ہے با وجوديكہ وہ عالم ہے ليكن خدا نے اسے گمراہ كر ركھا ہے اور اس كے كان اور دل پر مہرلگادى ہے اور اس كى آنكھوں پر پردے ڈال ديئے ہيں آپ نے ديكھا؟ كہ سوائے خدا كے اسے كون ہدايت كرے گا؟ وہ كيوں نصيحت حاصل نہيں كرتا_(27)كون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملكوتى نفس اور اپنى انسانى سعادت اور كمالات كو خواہشات نفس اور حيوانى زندگى پر قربان كر ديتا ہے؟ اور نفس انسانى كو حيوانى لذات كے مقابلے فروخت كر ديتا ہے؟امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘كہ خسارت ميں وہ شخص ہے جو دنيا ميں مشغول ہے اور اخروى زندگى كو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے_(28)آپ نے فرمايا ‘ اپنے نفس كو پست كاموں سے روكے ركھ گرچہ تجھے ان امور كى طرف رغبت ہى كيوں نہ ہو اس لئے كہ جتنا تو اپنے نفس كو اس ميں مشغول ركھتا ہے اس كا تجھے كوئي عوض حاصل نہ ہوگا_اپنے آپ كو دوسروں كا غلام نہ بنا جب كہ خدا نے تجھے آزاد خلق كيا ہے_ وہ خير جو شر كے وسيلے سے حاصل ہو وہ خير نہيں ہے اور گشايش حاصل نہيں ہوتى مگر سختى كے ذريعے سے_(29)_آپ نے فرمايا ‘ وہ برى تجارت ہے كہ جس ميں تو اپنے نفس كو اس كى قيمت قراردے اور جو تيرا ثواب اور اجر اللہ كے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت كا عوض قرار دے دے_(30)انسان فقط حيوانى وجود كا خلاصہ نہيں ہے بلكہ وہ ايك انسانى وجود بھى ركھتا ہے اسى حيثيت سے وہ جوہر مجرد اور ملكوتى موجود ہے جو عالم قدس سے آيا ہے اور حيواني
27خواہشات كے علاوہ بھى ارزش ركھتا ہے _ اگر انسان اپنى باطنى ذات اور ملكوتى روح ميں فكر كرے اور اپنے آپ كو خوب پہچانے اور مشاہدہ كرے كہ وہ عالم قدرت و كرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خير و عدالت خلاصہ عالم كمال سے آيا ہے اور اسى عالم سے سنخيت اور مناسب ركھتا ہے_ تو اس وقت انسان ايك اور ديد سے ايك اور عالم كو ديكھے گا اور كمال مطلق كو نگاہ كرے گا اور اسى عالم كى صفات سے علاقمند ہوگا اور اس گران بہار سرمايہ كيوجہ سے اپنے حيوانيت كے پست مرتبے سے حركت كرے گا تا كہ كمال كے مدارج كے راستے طے كرے اور مقام قرب الہى تك جاپہنچے يہ وہ صورت ہے كہ اس كے سامنے اخلاقى اقدر واضح ہوجائيں گى اگر اخلاق اقدار مثل علم احسان، خير خواہي، ايثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے كى حمايت سچائي امانتدارى كا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ كو عالم كمال سے ديكھے گا اور ايسے مراتب اور اقدار كو اپنے انسانى بلند مقام كے مناسب پائيگا اور اسے اسى وجہ سے دوست ركھے گا يہاں تك كہ حاضر ہو گا كہ وہ حيوانى وجود اور اس كى خواہشات كو اس بلند مقام تك پہنچنے كے لئے قربان كر دے_اخلاق اقدار اور مكارم روحانى اور معنوى جو ملكوتى روح انسان سے متناسب ہيں كہ ايك سلسلہ كا نام ہے اور انسان كمال تك پہنچنے كے لئے ان كى ضرورت كو محسوس كرتا ہے_اور اپنے آپ سے كہتا ہے كہ مجھے انہيں انجام دينا چاہئے اور اخلاقى انجام دى جانے والى اشياء كا سرچشمہ شرافت اور كرامت نفس ہوا كرتا ہے_ اور كمال روحانى اور بلندى مقام تك پہنچنے كے لئے بجا لايا جاتا ہے_ جب انسان يہ كہتا ہے كہ مجھے راہ حق ميں ايثار كرنا چاہئے يعنى ايثار تكامل ذات اور بلندى مرتبے كے لئے فائدہ مند ہے اور ضرورى ہے كہ ايسے مرتبہ تك پہنچنا چاہئے_ معنوى كمالات تك پہنچنے كا راستہ صرف ايك ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان كى ضد كى پہچان ميں مساوى خلق ہوئے ہيں_ اگر انسان اپنى محبوب اور پاك فطرت كى طرف رجوع كرے اور خواہشات اور ہوي
28نفس كو دور پھينك كر خوب غور و فكر كرے تو وہ اخلاقى فضائل اور اس كى قدر و قيمت اور اس كى ضد اسى طرح اخلاقى پستياں اور رذائل اور اس كى اضداد كو پہچان لے گا اور اس ميں تمام انسان تمام زمانوں ميں ايسے ہى ہوا كرتے ہيں اور اگر بعض انسان اس طرح كى مقدس سوچ سے محروم ہيں تو اس كى وجہ انكى حيوانى خواہشات اور ہوى نفس كى تاريكى نے اس كے نور عقل پر پردہ ڈال ركھا ہوتا ہے_ قرآن مجيد بھى فضائل اور رذائل كى پہچان اور شناخت كو انسان كا فطرى خاصہ قرار ديتا ہے جيسے فرماتا ہے كہ ‘ قسم نفس كى اور اس كى جس نے اسے نيك خلق كيا ہے اور انحراف اور تقوى كا اسے الہام ديا ہے جس نے اپنے نفس كى تربيت كى اسے پاك و پاكيزہ قرار ديا وہى كاميابى حاصل كرے گا اور جس نے اس كو گناہوں اور برے اخلاق سے آلودہ كيا وہ نقصان اٹھائے گا_(31)پيغمبر(ص) اسى غرض كے لئے مبعوث ہوئے ہيں تا كہ انسان كى فطرت كو بيدار كريں اور اس كے اخلاقى ناآگاہ شعور كو آگاہى ميں تبديل كريں وہ آئے ہيں تا كہ انسان كے فضائل اور كمالات كے طريقوں كو پہچاننے كى طرف متوجہ كريں اور اس پر عمل كر كے مقام قرب الہى كو پانے اور مدارج كمال كو طے كرنے كى مدد اور راہنمائي فرمائيں_ وہ آئے ہيں تا كہ انسان كو انسانيت كے بلند مقام اور انسانى اقدار كى ضرورت اور انكى حفاظت اور زندہ ركھنے اور قدر و قيمت كى طرف متوجہ كريں_ وہ آئے ہيں تا كہ انسان كو يہ نقطہ سمجھائيں كہ تو حيوان نہيں ہے بلكہ تو انسان ہے اور فرشتوں سے بالاتر ہے_ دنياوى امور اور حيوانى تظاہر تيرے ملكوتى بلند مقام كے شايان شان نہيں تو اپنے آپ كو اس كے عوض فروخت نہ كر_امام سجاد سے پوچھا گيا كہ سب سے معزز ترين او رشريف ترين اور با اہميت انسان كون ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ ‘ جو انسان دنيا كو اپنے لئے اہميت نہ دے اور اس كو اپنے لئے خطرہ قرار نہ دے_(32)اگر انسان اپنى انسان شخصيت كو پہچانے اور اپنى انسانى وجود كو قوى قرار دے اور
29فضائل اور كمالات كو اس ميں زندہ كرے اور رذائل اور پستيوں پر قابو پائے تو اس وقت انسان كو يہ مجال نہ ہوگى كہ وہ انسانى اقدار كو ترك كردے اور رذائل كے پيچھے دوڑے مثلا سچائي كو چھوڑ دے اور جھوٹ كے پيچھے جائے امانت دارى كو چھوڑ دے اور خيانت كى طرف جائے_ عزت نفس كو چھوڑ دے اور اپنے آپ كو ذلت وخوارى ميں ڈالے احسان كو چھوڑ دے اور لوگ كو آزار اور تكليف دينے كے پيچھے دوڑے_امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘جو شخص اپنے نفس كى عزت كرے اور اسے معزز قرار دے اس كى نگاہ ميں خواہشات نفسانى ہيچ اور پست ہوں گي_’پيغمبروں كى ہميشہ كوشش رہى ہے كہ انسان كى فطرت كو بيدار كريں تا كہ وہ اپنے اس گرانقدر وجود كے جوہر كو پہچانے اور اپنا تعلق اور ربط ذات خدا سے دريافت كر لے اور تمام چيزوں كو رضا اور قرب پروردگار كے حاصل كرنے ميں صرف كرے يہاں تك كہ كھانا پينا سونا جاگنا بولنا كام كرنا مرنا جينا سب كے سب پاك او راخلاقى ہوں_ جب انسان اللہ كا بندہ ہوجائے تو پھر اس كى رضا كے حاصل كرنے كے لئے كوئي اور اس كى غرض و غايت نہ ہوگى اس كے تمام كام عبادت اور اخلاق اور ذى قدر ہونگے_ قل ان صلواتى و نسكى و محياى و مماتى للہ رب العالمين لا شريك لہ و بذلك امرت و انا اول المسلمين_اسى لئے اپنے آپ كو پہچاننا اسلام ميں ايك خاص قدر و قيمت ركھتا ہے_(33)امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘نفس كا پہچاننا سب سے زيادہ منفعت دار فائد ہے_’ آپ نے فرمايا كہ ‘ جس شخص نے اپنے آپ كو پہچانا اس كا كام بلند ہوگا_’اپنے آپ كو پہچاننے سے مراد شناختى كارڈ نہيں بلكہ اس سے يہ مراد ہے كہ انسان اپنے واقعى مقام كو اس دنيا ميں پہچانے اور جان لے كہ وہ فقط خاكى حيوان نہيں ہے بلكہ وہ عالم ربوبى كا عكس اور پرتو ہے اللہ كا خليفہ اور اس كا امين ہے وہ ايك ملكوتى وجود ہے كہ جو دانا اور مختار اور آزاد خلق ہوا ہے تا كہ كمال غير متناہى كى طرف سير و سلوك كرے اور اپنى مخصوص خلقت كى وجہ سے اپنے آپ كو بنانے اور اس كي
30پرورش كرنے كا پابند ہے انسان اپنى اس شناخت كيوجہ سے شرافت اور كرامت كو محسوس كرتا ہے اور اپنے مقدس اور پرارزش وجود كو پہچانتا ہے اور كمالات اور فضائل اس كے لئے پر معنى اور قيمت پيدا كرليتے ہيں اس صورت ميں وہ نا اميدى اور بے فائدہ اور بيہودہ خلق ہونے سے نجات حاصل كر ليتا ہے پھر زندگى اس كے لئے پر بہا اور مقدس اور غرض دار اور خوشنما ہوجاتى ہے_
باطنى زندگيانسان اس دنيا ميں ايك ظاہرى زندگى ركھتا ہے كہ جو اس كے جسم اور تن سے مربوط ہے_ كھتا ہے ، پيتا ہے، سوتا ہے، چلتا ہے، اور كام كرتا ہے، ليكن اس كے باوجود وہ باطن ميں ايك نفسانى زندگى بھى ركھتا ہے، اس حالت ميں وہ دنيا ميں زندگى كرتا ہے_ باطن ميں وہ كمال اور سعادت اور نورانيت كى طرف بھى سير و سلوك كرتا ہے يا تو وہ بدبختى اور شقاوت اور تاريكى كى طرف جا رہا ہوتا ہے يا وہ انسانيت كے سيدھے راستے سے بھٹكا ہوا ہوتا ہے اور تاريك وادى اور حيوانيت كے پست درجہ ميں غلطاں ہوتا ہے يا وہ كمال كے مدارج طے كر كے نور اور سرور و كمال و جمال كے راستے طے كرتا ہے يا وہ عذاب اور تاريكى ميں گر رہا ہوتا ہے گرچہ اكثر لوگ اس باطنى زندگى سے غافل ہيں ليكن وہ حقيقت اور واقعيت ركھتى ہے_خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے كہ ‘ وہ ظاہرى دنياوى زندگى كا علم تو ركھتے ہيں ليكن اخروى زندگى جو باطنى ہے سے غافل ہيں_(34)كسى چيز كا جان لينا يا نہ جاننا واقعيت ميں موثر نہيں ہوتا_ قيامت كے دن جب انسان كى آنكھ سے ماديت كے سياہ پردے اٹھا ليئے جائيں گے تو اس وقت وہ اپنى واقعيت اور اپنے آپ كو پہچانے گا_ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے كہ ‘ قيامت كے دن انسان سے كہا جائيگا كہ تو دنيا ميں اس امر سے غافل تھا ليكن آج تيرى آنكھيں تيز بين
31ہوچكى ہيں_(35)اس آيت سے معلوم ہوتا ہے كہ اخروى امراسى دنيا ميں انسان كى ذات ميں موجود ہيں ليكن انسان ان سے غافل ہے ليكن آخرت ميں جب غفلت كے پردے ہٹا لے جائيں گے تو اس وقت ان تمام امور كا مشاہدہ كرے گا_آيات او رآيات سے يوں مستفاد ہوتا ہے كہ انسان كا نفس اس جہان ميں كئي ايك چيزوں كو بجالاتا ہے اور جن چيزوں كو وہ بجالاتا ہے وہ ہميشہ اس كے ساتھ رہتى ہيں جو آخرت ميں اس كى زندگى كا ماحصل اور نتيجہ آور ہوتى ہيں_خداوند ارشاد فرماتا ہے كہ ‘ ہر نفس اس عمل كے مقابلے ميں گروى ہے جو وہ بجا لاتا ہے_(36)ارشاد فرماتا ہے ‘ ہر نفس نے جو كچھ انجام ديا ہے اسے پورا كا پورا ملے گا_(37)خداوند فرماتا ہے كہ ‘ہم كس كو اس كى قدرت سے زيادہ حكم نہيں ديتے_ انسان نے جو اچھائيں انجام دى ہيں وہ اسى كے لئے ہوں گى اور تمام برائياں بھى اس كے اپنے نقصان كے لئے ہوں گي_(38)خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے كہ ‘ ہر نفس جو خوبياں انجام دى ہيں وہ اس كے سامنے حاضر ہوں گى اسى طرح جو برائي انجام دى ہے وہ آرزو كرے گا كہ كاش اس كے اور برے كام كے درميان فاصلہ ہوتا_( 39)خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے كہ ‘ جو شخص نيك عمل انجام ديتا ہے وہ اپنے لئے انجام ديتا ہے اور جوشخص برے كام انجام ديتا ہے وہ اس كے لئے زيان آور ہونگے پھر تم سب اللہ كى طرف لوٹ آوگے_(40)خداوند عالم فرماتا ہے ‘جو شخص ذرہ برابر اچھے كام انجام ديتا ہے وہ انہيں قيامت كے دن ديكھے گا اور جو شخص ذرہ برابر برے كام انجام ديتا ہے وہ ان كو بھى ديكھے گا_’
32خداوند فرماتا ہے ‘ انسان كے لئے نہيں ہوگا مگر وہ جسے تلاش اور حاصل كرتا ہے اور وہ اپنى كوشش اور تلاش كو عنقريب ديكھے گا_(41)خدا فرماتا ہے ‘ جو اچھائي تم نے آگے اپنے لئے بھيجى ہے اسے اللہ كے پاس تم پاؤ گے_(42)خدا فرماتا ہے كہ ‘ جس دن مال اور اولاد تمہيں كوئي فائدہ نہيں ديں گے مگر وہ جو سالم قلب كے ساتھ اللہ سے ملاقات كرے_(43)پيغمبر عليہ السلام نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا ‘اے قيس تو مجبور ہے كہ اپنے لئے كوئي ساتھى بنائے جو قبر تيرے ساتھ ہوگا وہ ساتھى زندہ ہوگا اور تو اس كے ساتھ دفن ہوگا اگر تو تيرا ساتھى اچھا اور عمدہ ہوا تو وہ تيرى عزت كرے گا اور اگر وہ پست اور برا ہوا تو وہ تجھے بھى پست اور ذليل كرے گا تو قيامت ميں اسى ساتھى كے ساتھ محشور ہوگا اور تجھے اس كے متعلق پوچھا جائے گا پس كوشش كر كہ تو اپنا نيك ساتھى اپنے لئے اختيار كرے كہ اگر وہ نيك اور صالح ہوا تو وہ تجھ سے انس و محبت كرے گا اور اگر ساتھى برا ہوا تو تجھے اس سے وحشت اور عذاب كے علاوہ كچھ نہ ملے گا اور وہ تيرا ساتھى تيرا عمل ہے_(44)انسان اس دنيا ميں اخروى زندگى كے لئے اپنے نفس كى تربيت كرنے ميں مشغول رہتا ہے اور عقائد اور افكار اور ملكات اور عادات محبت علاقمندى اور مانوس چيزوں كى طرف توجہات اوروہ كام جو روح انسانى پر اثر انداز ہوتے ہيں تدريجا ان سے ساختہ پرداختہ اور پرورش پاتا ہے انسان كس طرح بنے ان چيزوں سے مربوط ہوتا ہے_ معارف عقائد صحيح فضائل، مكارم اخلاق محبت اور خدا سے پيوند توجہہ اور اللہ سے انس خدا كى اطاعت اور اس كى رضايت كا حصول اور وہ نيك كام بجالانا كہ جس كا خدا نے حكم ديا ہے يہ انسان كى ملكوتى روح كو مدارج كمال تك پہنچاتے ہيں_ اور مقام قرب الہى تك لے جاتے ہيں_ انسان اسى جہان ميں ايمان اور اعمال صالح كے سبب ايك پاكيزہ اور جديد زندگى حاصل كرتا ہے جو آخرت كے جہاں ميں ظاہر اور آشكار ہوگي_خداوند قرآن ميں فرماتا ہے ‘ جو بھى مرد يا عورت نيك كام انجام دے جب كہ ايمان بھى ركھتا ہو تو ہم اسے پاك اور عمدہ زندگى ميں زندہ كريں گے_(45)
33انسان اسى دنيا ميں علاوہ ان نعمتوں كے كہ جن سے اس كا جسم لذت حاصل كرتا ہے وہ اخروى نعمت سے بھى بابہرہ ہو سكتا ہے اور ان كے ذريعے روح اور نفس كى پرورش بھى كر سكتا ہے اور اپنى معنوى اور اخروى زندگى كو بھى بنا سكتا ہے كہ جس كا نتيجہ آخرت كے جہان ميں ظاہر ہوگا_امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘خدا اپنے بندوں سے فرماتا ہے اے ميرے دوست بندے دنيا ميں عبادت كى نعمت سے فائدہ حاص كرو تا كہ اسى سے آخرت كے جہان ميں فائدہ حاصل كر سكو_(46)حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘اللہ كا دائمى ذكر كرنا روح كى عذاب ہے_(47)نيز حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘اللہ كے ذكر كو فراموش نہ كرو كيونكہ وہ دل كا نور ہے_(48)انسان كے لئے بہشت اور بہشتى نعمتيں جہنم اور جہنم كے عذاب عقائد اخلاق اور اعمال كے ذريعے سے ہى اسى دنيا ميں بنتے ہيں گرچہ انسان اس سے غافل ہے ليكن آخرت كے جہان ميں يہ سب حقيقت واضح ہوجائيگى _ امام سجاد عليہ السلام نے ايك بحيث ميں ارشاد فرمايا ہے كہ ‘ متوجہہ رہو جو بھى اولياء خدا سے دشمنى كرے اور خدا كے دين كے علاوہ كسى دين كو اپنائے اور ولى خدا كے حكم كو پس پشت ڈالے اور اپنى راى اور فكر پر عمل كرے وہ شعلہ ور آگ ميں ہوگا كہ جو جسم كو كھا جائيگى وہ بدن كے جنہوں نے اروح كو اپنے سے خالى كيا ہوا ہے اور بدبختى نے ان پر غلبہ كيا ہوا ہے يہ وہ مردے ہيں جو آگ كى حرارت كو محسوس نہيں كرتے اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ درد اور آگ كى حرارت كومحسوس كرتے _ اے صحابان بصيرت عبرت حاصل كر اور اللہ كا شكريہ ادا كرو كہ خداوند عالم نے تمہيں ہدايت كى ہے_(49)خداوند عالم فرماتا ہے ‘ جو لوگ يتيموں كا مال ظلم اور ناحق سے كھاتے ہيں وہ اپنے پيٹوں ميں آگ بھرتے ہيں اور يہ آگ عنقريب شعلہ ور ہوگي_(50)انسان اس دينا ميں آخرت كے لئے نور و بصيرت فراہم كرتا ہے اور يا ظلمت
34اور تاريكى اگر اس دنيا ميں اندھا اور بے نور ہوا تو آخرت ميں بھى اندھا اور بے نور محشور ہوگا خدا فرماتے ہے جو شخص اس دنيا ميں اس كے دل كى آنكھ اندھى ہے وہ آخرت ميں بھى اندھا اور گمراہ محشور ہوگا_(51)علامہ طباطبائي رضوان اللہ عليہ فرمايا كرتے تھے كہ نجف اشرف ميں ايك شخص عابد زاہدانہ زندگى بسر كرتا تھا كہ جسے شيخ عبود كہا جاتا تھا كہا جاتا ہے كہ وہ ولى خدا اور اہل سير و سلوك تھے ہميشہ ذكر اور عبادت ميں مشغول رہتے تھے كبھى قبرستان وادى السلام جاتے اور كئي گھنٹوں تك گوشہ و كنار ميں بيٹھے رہتے تھے اور فكر كيا كرتے تھے اور كبھى ٹوٹى ہوئي قبروں ميں چلتے اور نئي قبر كو با دقت ملاحظہ كرتے تھے ايك دن جب قبرستان ميں سے واپس لوٹ رہے تھے كہ كئي ايك آدميوں سے ان كى ملاقات ہوگئي اور انہوں نے ان سے ان كى احوال پرسى كى اور پوچھا اے شيخ عبودى وادى السلام نے كيا خبر تھي؟ اس نے كہا كہ كوئي تازہ خبر نہ تھى _ جب انہوں نے اصرار كيا تو انہوں نے كہا كہ ميں نے ايك عجيب چيز ديكھى ہے كہ ميں نے جتنا پرانى قبروں كو ديكھا ہے ان ميں سانپ بچھو اور عذاب كى علامتيں نہيں ديكھيں_ ميں نے ان ميں سے ايك قبر والے سے سوال كيا (روايات ميں آيا ہے كہ ميت قبر ميں سانپ اور دوسرى موذى چيزوں سے عذاب ديا جاتا ہے ليكن ميں تو آپ كى قبروں ميں سانپ اور عقرب كو نہيں ديكھ رہا_ قبر والے نے جواب ديا ٹھيك ہے كہ سانپ اور بچھو ہمارى قبروں ميں نہيں ليكن تم خود ہو كہ دنيا سے سانپ اور بچھو اپنے ساتھ لے آتے ہو اور يہاں ان سے عذاب ديئے جاتے ہو_انسانى باطنى اور نفسانى زندگى ايك حقيقى اور واقعى زندگى ہوا كرتى ہے انسان اپنى باطنى ذات ميں ايك واقعى راستہ طے كرتا ہے يا وہ سعادت اور كمال تك پہنچاتا ہے او ر يا بدبختى اور ہلاكت لے جاتا ہے وہ واقعى ايك حركت اور سير كر رہا ہے اور عقائد اور اخلاق اور اعمال سے انسان مدد حاصل كرتا ہے_خداوند عالم فرماتا ہے كہ ‘ جو شخص بھى عزت چاہتا ہے _ تمام عزت خدا كے لئے اور اچھے كلمات اور(پاك نفوس) خدا كے لئے صعود كرتے ہيں اور عمل صالح كو خدا اوپر
35لے جاتا ہے _(52)’نفس كا فعلى ہونا كوشش اور كام كرنے كے نتيجہ ميں ہوا كرتا ہے_ عقائد اور اخلاق اور ملكات اور خصائل اور ہمارے اعمال سے وہ بنتا ہے جو آخرت كے جہان ميں اچھا يا برا نتيجہ جا كر ظاہر ہوتا ہے_
اپنے آپ كو كيسے بنائيں؟علوم ميں ثابت ہوچكا ہے كہ انسان كى روح جسمانى الحدوث اور روحانى البقا ہے يعنى اس كى ملكوتى روح كى وہى اس كى جسمانى صورت ہے كہ بالتدريج تكامل كرتے مرتبہ نازل روح انسانى تك آئي ہے اور اس كى حركت اور تكامل ختم نہيں ہوگا بلكہ تمام عمر تك اسى طرح جارى اور ہميشہ رہے گا_ابتداء ميں روح انسانى ايك مجرد اور ملكوتى موجود ہے جو عالم مادہ سے برتر ہے ليكن وہ مجرد تمام اور كامل نہيں ہے بلكہ ايسا مجرد كہ جس كا مرتبہ نازل جسم اور بدن سے تعلق ركھتا ہے يہ ايك دو مرتبے ركھنے والا موجود ہے اس كا ايك مرتبہ مادى ہے اور اس كا بدن سے تعلق ہے اور مادى كاموں كو انجام ديتا ہے اسى وجہ سے اس كے لئے استكمال اور حركت كرنا تصور كيا جاتا ہے_اس كا دوسرا مرتبہ مجرد ہے اور مادہ سے بالاتر ہے اسى وجہ سے وہ غير مادى كام ديتا ہے ايك طرف وہ حيوان ہے اور جسم دار اور دوسرى طرف انسان ہے اور ملكوتي_جب كہ وہ صرف ايك حقيقت ہے اور اس سے زيادہ نہيں ليكن وہ حيوانى غرائز اور صفات ركھتا ہے اور حيوانات والے كام انجام ديتا ہے اس كے باوجود وہ انسانى غرائز اور صفات انسانى بھى ركھتا ہے اور انسانى كام انجام ديتا ہے_ اس عجيب الخلقت موجود كے بارے ميں خداوند فرماتا ہے_ فتبارك اللہ احسن الخالقين_ ابتداء ميں ايك موجود خلق ہوا كہ جو كامل نہيں تھا بلكہ اپنے آپ كو بالتدريج بناتا ہے اور تربيت
36اور پرورش كرتا ہے_عقائد اور افكار ملكات اور عادات جو اعمال اور حركات سے پيدا ہوتے ہيں وہ انسان كى ذات اور وجود كو بناتے ہيں اور تدريجا كمال تك پہنچاتے ہيں_ ملكات ايسے امور نہيں جو انسان كے وجود پر عارض ہوں بلكہ وہى انسان كے وجود اور ہويت كو بناتے ہيں_ تعجب انگيز يہ چيز ہے كہ افكار اور عقائد اور ملكات فقط انسان كے وجود ميں موثر ہى نہيں ہوتے بلكہ اس كے ہونے ميں بھى موثر ہيں يعنى عمل صالح كى وجہ سے جو افكار اور عقائد صحيح اور مكارم اخلاق اور عادات اور ملكات وجود ميں آتے ہيں وہ انسان كو تدريجا مراتب كمال تك پہنچاتے اور لے جاتے ہيں اور ايك كامل انسان كے مرتبہ اور قرب الہى تك پہنچا ديتے ہيں اسى طرح جہالت اور عقائد باطل اور رذائل اخلاق اور ملكات اور قساوتيں جو برے كاموں كے انجام دينے سے موجود ہوتى ہيں وہ انسانى روح كو ضعف اور پستى كى طرف لے جاتے ہيں اور تدريجا اسے حيوانيت كے مرتبے تك لے جاتے ہيں اونتيجتًا حيوانيت كى تاريك وادى ميں ساقط كرديتے ہيں اور انسان ان ملكات اور صفات حيوانى اور جہالت كے انبار اور استحكام سے اپنى باطنى ذات ميں ايك حيوان كى صورت ميں تبديل ہوجاتا ہے_ جى ہاں وہ واقعا حيوان ہوجاتا ہے اور حيوانى شخصيت پيدا كرليتا ہے وہ پھر انسان نہيں ہوتا بلكہ حيوان ہوجاتا ہے بلكہ حيوانات س بھى بدتر كيونكہ يہ وہ حيوان ہے جو انسانى طريق سے حيوان ہوا ہے گرچہ ظاہرى صورت ميں وہ انسانى زندگى بسر كرتا ہے ليكن اندرونى طور سے وہ حيوان ہے اور پھر اسے خود بھى نہيں جانتا_ حيوانات كى حيوانيت ان كى شكل و صورت سے مخصوص نہيں ہوا كرتى بلكہ حيوانى نفس بغير قيد اور شرط اور تمايلات اور غرائز حيوانى كو بجالانے كا نام ہے_ بھيڑنا اپنى شكل و صورت كا نام نہيں ہے بلكہ درندگى اور بغير قيد اور شركے غريزہ درندگى كے بجالانے اور عدم تعقل كا نام ہے_ عقل كى آنكھ اور اس كے درك كو اندھا كرديا ہے_ ايسا انسان ايك واقعى بھيڑيا ميں تبديل ہوچكا ہے_ انسان ايك ايسا بھيڑيا ہے جو جنگل كے بھيڑوں سے بھى زياہ درندہ ہے كيونكہ انسان اپنى عقل
37اور فہم كو درندگى كى صفت ميں استعمال كرتا ہے_ بعض انسان ايسے جرائم كا ارتكاب كرتے ہيں كہ جنہيں جنگل كے بھيڑيئےھى ا نجام نہيں ديتے كيا وہ بھيڑيئےہيں ہيں؟ نہ بلكہ وہ واقعى بھيڑيئےيں ليكن خود نہيں سمجھتے اور دوسرے بھى اسے انسان سمجھتے ہيں قيامت كے دن جب آنكھوں سے پردے ہٹاديئے جائيں گے ان كا باطن ظاہر ہو جائيگا اور يہ بھى معلوم ہے كہ جنت بھيڑيوں كى جگہ نہيں ہے بھيڑيا كبھى اولياء خدا اور اللہ كے نيك بندوں كے ساتھ بہشت ميں نہيں رہ سكتا_ ايسا بھيڑيا جو انسان كے راستے سے بھيڑيا ہوا ہے ضرورى ہے كہ جہنم كے تاريك اور دردناك عذاب ميںڈ الا جائے اور زندہ رہے_ انسان اس دنيا ميں ايك انسان غير متعين ہے جو اپنى شخصيت خود بناتا ہے يا وہ انسان ہوجائيگا جو اللہ كے مقرب فرشتوں سے بھى بالاتر ہوجائيگا يا باطنى صورت ميں مختلف حيوانات ميں تبديل ہوجائيگا يہ ايك ايسا مطلب ہے جو علوم عالى ميں بھى ثابت ہوچكا ہے اور اسے اولياء خدا بھى كشف اورمشاہدے كا ادعا كرتے ہيں اور نيز اسے پيغمبر اكرم اورائمہ عليہم السلام نے بھى فرمايا يعنى جو حقيقى انسان كو پہچانتے ہيں انہوں نے اس كى خبردى ہے_رسول خدا نے فرمايا ہے كہ ‘لوگ قيامت كے دن ايسى شكلوں ميں محشور ہونگے كہ بندر اور خنزير كى شكليں ان سے بہتر ہوں گي_ (53)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘مستكبر انسان چيونٹى كى شكل ميں تبديل ہوجائيگا جو محشر كے لوگوں كے پاؤں كے نيچے كچلا جائيگا يہاں تك كہ لوگوں كا حساب و كتاب ختم ہوجائے_ (55)خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ‘قيامت كے دن وحشى حيوانات محشور ہونگے_ (56)
38بعض مفسرين نے اس آيت كى يوں تفسير كى ہے كہ وحشى حيوانات سے مراد وہ انسان ہيں جو حيوانات كى شكلوں ميں محشور ہونگے ورنہ حيوانات تو مكلف نہيں ہوتے كہ جنہيں محشور كيا جائے_خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ ‘ جن دن تمہارى جدائي اور عليحدگى كا دن ہوگا كہ جس وقت صور ميں پھونكا جائيگا اور تم گروہ گروہ ہوجاؤگے(57) _ بعض مفسرين نے اس آيت كى يوں تفسير كى ہے كہ قيامت كے دن انسان ايك دوسرے سے جدا ہوجائيں گے اور ہر ايك انسان اپنى باطنى صورت كے ساتھ اپنے دوسرے ہم شكلوں كے ساتھ محشور ہوگا_ اس آيت كى تفسير ميں ايك عمدہ حديث پيغمبر عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے_معاذ بن جبل كہتے ہيں كہ اس آيت يوم ينفخ فى الصور فتاتون افواجا كے متعلق ميں نے رسول خدا(ص) سے سوال كيا_آپ نے فرمايا كہ اے معاذ تم نے ايك بہت اہم موضوع سے سوال كيا ہے آپ كے اس حالت ميں آنسو جارى ہو گئے اور فرمايا كہ ميرى امت كے دس دستے مختلف شكلوں ميں محشور ہوں گے جو ايك دوسرے سے مختلف ہونگے_ بعض بندروں كى شكل ميں دوسرے بعض خنزير كى شكل ميں محشور ہونگے_ بعض كے سرزمين كى طرف اور پاؤں اوپر كى طرف ہونگے اور حركت كريں گے_ بعض اندھے اور سرگرداں ہونگے_ بعض گونگے اور بہرے ہوں گے كہ كچھ نہيں سمجھتے ہونگے_بعض اپنى زبانوں كو چباتے ہوں گے اور پيپ اور گندگى اورخون ان كے منہ سے نكل رہا ہوگا كہ جس سے محشر كے لوگ تنفر كريں گے_بعض كے ہاتھ پاؤں كٹے ہوئے ہونگے _ اور بعض اس حالت ميں محشور ہونگے كہ آگ كے ستون سے لٹكے ہوئے ہونگے _ بعض مردار سے بدبوتر ہونگے _ بعض مس كے لباس پہنے ہوئے ہونگے جو ان كے جسم سے چپكا ہوا ہوگا_ آپ نے اس وقت فرمايا كہ جو لوگ بندروں كى شكل ميں محشور ہونگے وہ وہ ہونگے جو چغلخور اور سخن چين تھے اور جو خنزير كى شكل
39ميں محشور ہونگے وہ رشوت خور اور حرام تھے اور جو الٹے لٹكے حركت كر رہے ہونگے وہ سود خور تھے اور جو اندھے محشور ہونگے وہ ہونگے جو قضاوت اور حكومت ميں ظلم و جور كرتے تھے اور جو اندھے اور بہرے محشور ہونگے وہ اپنے كردار ميں خودپسند تھے اور جو اپنى زبان كو چبا رہے ہونگے وہ وہ علماء اور قاضى ہونگے كہ جن كا كردار ان كے اقوال كے مطابق نہ تھا اور جو ہاتھ پاؤں كٹے محشور ہونگے وہ ہمسايوں كوآزار اور اذيت ديتے تھے اور جو آگ كے ستوں سے لٹكے ہوئے ہونگے وہ بادشاہوں كے سامنے لوگوں كى شكايت لگاتے تھے اور جن كى بدبو مردار سے بدتر ہوگى وہ دنيا ميں خواہشات اور لذت نفس كى پيروى كرتے تھے اور اللہ تعالى كا جو ان كے احوال ميں حق تھا ادا نہيں كرتے تھے اور جن لوگوں نے مس كا لباس پہنا ہوا ہوگا وہ مستكبر اور فخر كيا كرتے تھے_ (58)لہذا اخلاقى امور كو معمولى اور غير مہم شمار نہيں كرنا چاہئے بلكہ يہ بہت اہم امور ہيں جو انسان كى انسانى اور باطنى زندگى كو بناتے ہيں يہاں تك كہ وہ كيسا ہونا چاہئے ميں اثر انداز ہوتے ہيں_ علم اخلاق نہ صرف ايسا علم ہے كہ جو كس طرح زندہ رہنے كو بتلاتا ہے بلكہ يہ وہ علم ہے جو انسان كو كيسا ہونا چاہئے بھى بتلاتا ہے_ 25_ فان لم يستجيبوا لك فاعلم انّما يتّبعون اہوائہم من اضلّ ممن اتّبع ہواہ بغير ہدى من اللہ انّ اللہ لايہدى القوم الضالمين_ قصص/ 50_26_ و لقد ذرانا لجہنم كثيراً من الجن و الانس لہم قلوب لا يفقہون بہا و لہم اعين لايبصرون بہا و لہم اذان لايسمعون بہا اولئك كالانعام بل ہم اضلّ اولئك ہم الغافلون_ اعراف/ 179_
30827_ افرا يت من اتخذ الہہ ہواہ و اضلّہ اللہ على علم و ختم على سمعہ و قلبہ و جعل على بصرہ غشاوة فمن يہديہ من بعد اللہ افلا تذكرون_ جاثيہ/ 23_28_ قال على عليہ السلام: المغبون من شغل بالدنيا و فاتہ حظہ من الاخرة_ غرر الحكم/ ج 1 ص 88_29_ قال على عليہ السلام: اكم نفسك من كل دنيّہ و ان ساقتك الى الرغائب، فانك لن تعتاض بما تبذل من نفسك عوضا و لا تكن عبد غيرك و قد جعلك اللہ حرّاً و ما خير خيرا لا ينال الا بشّر و يسر لا ينال الّا بعسر_ نہج البلاغہ صبحى صالح/ ص 401 كتاب 31_30_ قال ااميرالمؤمنين عليہ السلام: لبئس المتجر ان ترى الدنيا لنفسك ثمناً و ممالك عند اللہ عوضا_ نہج البلاغہ / خطبہ 33_ 75_31_ و نفس و ما سوّيہا فا لہمہا فجورہا و تقوى ہا، قد افلح من زكّيہا و قد خاب من دسى ہا_ شمس/ 7 تا 10_32_ قيل لعلى بن الحسين عليہ السلام: من اعظم الناس خطراً؟ قال: من لم ير الدنيا خطراً لنفسہ_ تحف العقول/ ص 285_33_ قال على عليہ السلام: من كرمت عليہ نفسہ ہانت عليہ شہواتہ_ نہج البلاغہ/ قصار 449_34_ يعلمون ظاہراً من الحياة الدنيا و ہم عن الاخرة غافلون_ روم/ 7_35_ لقد كمنت فى غفلة من ہذا فبصرك اليوم حديد_ ق/ 22_36_ كل نفس بما كسبت رہينة_ مدثر/ 38_37_ ثم توفى كل نفس ما كسبت و ہم لا يظلمون_ آل عمران/ 161__ لا يؤاخذكم اللہ باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم و اللہ غفور حليم_ بقرہ/ 225_38_ لا يكلّف اللہ نفساً الّا وسعہا لہا ما كسبت و عليہ ما اكتسبت_ بقرہ/ 286_39_ يوم تجد كل نفس ما عملت من خير محضراً و ما عملت من سوئ: تودّ لو انّ بينہا و بينہ امداً بعيداً_ آل عمران/ 30_40_ من عمل صالحاً فلنفسہ و من اساء فعليہا ثم الى ربكم ترجعون_ جائيہ/ 15_41_ فمن يعمل مثقال ذرّہ خيراً يرہ و من يعمل مثقال ذرّة شرّاً يرہ_ زلزال/ 7_42_ و ما تقدّموا لا نفسكم من خير تجدوہ عنداللہ_ بقرہ/ 11_43_ يوم لا ينفع مال و لا بنون الّا من اتى اللہ بقلب سليم_ شعرائ/ 85_
30944_ قال النبى صلى اللہ عليہ و آلہ: يا قيس لا بّد لك من قرين يدفن معك و ہو حيّ و تدفن معہ و انت ميت فان كان كريماً اكرمك و ان كا ن لئيماً لا ملك ثمّ لا يحشر الّا معك و لا تحشر الّا معہ و لا تسا ل الّا عنہ فلا تجعلہ الّا صالحاً فان ان صلح آنست بہ و ان فسد لاتستوحش الّا منہ و ہو فعلك_ جامع السعادات/ ج 1 ص 17_45_ من عمل صالحاً من ذكر او انثى و ہو مؤمن فلنحيينہ حياة طيّبة_ نحل/ 97_46_ قال ابو عبداللہ عليہ السلام: قال اللہ تبارك و تعالي: يا عبادى الصديقين تنعّمو بعبادتى فى الدنيا فانكم تنعمون بہا فى الاخرة_ بحارالانوار/ ج70 ص 253_47_ قال على عليہ السلام: مداومة الذكر قوت الارواح_ غرر الحكم/ ص 764_48_ قال على عليہ السلام: عليك بذكر اللہ فانہ نور القلوب_ غرر الحكم/ ص 479_49_ قرة العيون_ تا ليف مرحوم فيض/ ص 466_50_ الذين ياكلوم اموال اليتامى ظلما انّما ياكلوم فى بطونہم ناراً و سيصلون سعيراً_ نسائ/ 100_51_ من كان فى ہذہ اعمى فہو فى الاخرة اعمى و اضلف سبيلاً_ اسرائ/ 72_52_ من كان يريد العزّہ فللّہ العزّة جميعاً اليہ يصعد الكلم الطيّب و العمل الصالح يرفعہ_ فاطر/ 10_53_ و فى الحديث النبوى يحشر بعض الناس على صور يحسن عندہا القردة و الخازير_ قرة العيون/ ص 479_54_ قال على عليہ السلام: فالصورة صورة انسان و القلب حيوان، لايعرف باب الہدى فيتّبعہ و لا باب العمى فيصدّ عنہ و ذالك ميّت الاحيائ_ نہج البلاغہ خطبہ/ 87_55_ قال ا بو عبداللہ عليہ السلام: ان المتكبرين يجعلون فى صور الذرّ، يتوطؤہم الناس حتى يفرق اللہ من الحساب_ بحارالانوار/ ج 7 ص 201_56_ تكوير/ 5_57_ نبا / 18_58_ تفسير مجمع البيان/ ج 10 ص 423، روح البيان/ ج 10 ص 299، نورالثقلين/ ج 5 ص 493_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.