تہذيب نفس كے مراحل

491

حفاظت قبلي:
اخلاقى اصول صحت كا لحاظ اور گناہوں اور برے اخلاق سے اپنے آپ كو محفوظ ركھنا نفس كو پاك كرنے كا آسان ترين اور بہترين مرحلہ ہوا كرتا ہے جب تك نفس انسان گناہ ميں آلودہ نہيں ہوا اور اس كا ارتكاب نہيں كيا تب فطرى نورانيت اور صفا قطب ركھتا ہے_ اچھے كاموں كے بجالانے اور اچھے اخلاق سے متصف ہونے كى زيادہ قابليت ركھتا ہے_ابھى تك اس كا نفس تاريك اور سياہ نہيں ہوا اور شيطن نے وہاں راستہ نہيں پايا اور برائيوں كى عادت نہيں ڈالى اسى وجہ سے گناہ كے ترك كردينے پر زيادہ آمادگى ركھتا ہے_ جوان اور نوجوان اگر ارادہ كرليں كہ اپنے نفس كو پاك ركھيں گے اور گناہ كے ارتكاب اور برے اخلاق سے پرہيز كريں گے تو ان كے لئے ايسا كرنا كافى حد تك آسان ہوتا ہے_ كيونكہ ان كا يہ اقدام حفظ نفس ميں آتا ہے اور حفظ نفس عادت كے ترك كرنے كى نسبت بہت زيادہ آسان ہوتا ہے لہذا جوانى اور نوجوانى بلكہ بچپن كا زمانہ نفس كے پاك ركھنے كا بہترين زمانہ ہوا كرتا ہے انسان جب تك خاص گناہ كا ارتكاب نہيں كرتا وہ گناہ كے ترك پر زيادہ آمادگى ركھتا ہے لہذا جوانوں نوجوانوں اور وہ لوگ جنہوں نے ابھى تك كسى گناہ كا ارتكاب نہيں كيا انہيں ايسى حالت كى فرصت كو غنيمت شمار كرنا چاہئے اور كوشش كريں كہ بالكل گناہ كا ارتكاب نہ كريں اور اپنے نفس كو اسى پاكيزگى اور طہارت كى حالت ميں محفوظ ركھيں_ حفاظت كرنا گناہ كے ترك كرنے سے
94زيادہ آسان ہوا كرتا ہے اور ضرورى ہے كہ اس نقطے كى طرف متوجہہ رہيں كہ اگر گناہ كا ارتكاب كر ليا اور برے اخلاق كو اپنا ليا ور شيطن كو اپنے نفس كى طرف راستہ دے ديا تو پھر ان كے لئے گناہ كا ترك كرنا بہت مشكل ہوجائيگا_شيطن اور نفس امارہ كى كوشش ہوگى كہ ايك دفعہ اور دو گناہ كے انجام دينے كو اس كے لئے معمولى اور بے اہميت قرار دے تا كہ اس حيلہ سے اپنا اثر رسوخ اس ميں جمالے اور نفس كو گناہ كرنے كا عادى بنا دے لہذا جو انسان اپنى سعادت ا ور خوشبختى كى فكر ميں ہے اسے چاہئے كہ حتمى طور سے نفس كى خواہشات كے سامنے مقابلہ كرے اور گناہ كے بجالانے ميں گرچہ ايك ہى مرتبہ كيوں نہ ہو اپنے آپ كو روكے ركھے_امير المومنين نے فرمايا ہے كہ ‘ كسى برے كام يا كلام كو اپنے نفس كو بجالانے كى اجازت نہ دو_(162)آپ نے فرمايا كہ ‘ اپنے نفس كى خواہشات پر اس سے پہلے كہ وہ طاقتور ہوجائے غلبہ حاصل كرو كيونكہ اگر وہ طاقتور ہوگيا تو پھر وہ تجھے اپنا قيدى بنالے گا اور جس طرف چاہے گا تجھے لے جائيگا اس وقت تو اس كے سامنے مقابلہ نہيں كر سكے گا_(163)آپ نے فرمايا كہ ‘ عادت چھاجانے والا دشمن ہے_(164)آپ نے فرمايا كہ’ عادت انسان كى ثانوى طبيعت ہوجاتى ہے_ (165)آپ نے فرمايا كہ ‘ اپنى خواہشات پر اس طرح غلبہ حاصل كرو جس طرح ايك دشمن دوسرے دشمن پر غلبہ حاصل كرتا ہے اور اس كے ساتھ اس طرح جنگ كرو كہ جس طرح دشمن دشمن كے ساتھ جنگ كرتا ہے_ شايد كہ اس ذريعہ سے اپنے نفس كو رام اور مغلوب كر سكو_(166)آپ نے فرمايا كہ ‘ گناہ كا نہ كرنا توبہ كرنے سے زيادہ آسان ہے ہو سكتا ہے كہ ايك گھڑى كى شہوت رانى طولانى غم كا باعث ہوجائے_ موت انسان كے لئے دنيا كى پستى اور فضاحت كو واضح اور كشف كرنے كا سبب ہوتى ہے_ اور عقلمند انسان كے لئے
95كسى خوشى اور سرور كو نہيں چھوڑتى _(167)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ ‘ اپنے نفس كو ان چيزوں سے جو نفس كے لئے ضرر رساں ہيں روح كے نكلنے سے پہلے روكے ركھ اور اپنے نفس كے لئے آزادى اس طرح آزادى كى كوشش كر كہ جس طرح زندگى كے اسباب كے طلب كرنے ميں كوشش كرتا ہے_ تيرا نفس تيرے اعمال كے عوض گروى ركھا جا چكا ہے_(168)خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ ‘ جو شخص اللہ تعالى كے مقام و مرتبت سے خوف كھائے اور اپنے نفس كو اس كى خواہشات سے روكے ركھے اس كى جگہ اور مقام بہشت ميں ہے_(169)بہر حال حفاظت قبلى سب سے آسان راستہ ہے اور جتنا انسان اس راستے كى تلاش اور عمل كرنے ميں كوشش كرے گا يہ اس كے لئے پر ارزش اور قيمتى ہوگا_ اس جوان كو مبارك ہو جو زندگى كے آغاز سے ہى اپنے نفس امارہ پر قابو پائے ركھتا ہو اور اسے گناہ كرنے كى اجازت نہ دے اور آخرى عمر تك اسے پاك و پاكيزہ اور اللہ كے تقرب كے لئے سير و سلوك ميں ڈالے ركھے تا كہ قرب الہى كے مرتبے تك پہنچ جائے_
يكدم ترك كرنااگر قبلى حفاظت كے مرحلے سے روح نكل جائے اور گناہ سے آلودہ ہو جائے تو اس وقت روح اور نفس كے پاك كرنے كى نوبت آجائيگي_ روح كے پاك كرنے ميں كئي ايك طريق استعمال كئے جا سكتے ہيں ليكن سب سے بہتريں طريقہ اندرونى انقلاب اور ايك دفعہ اور بالكل ترك كر دينا ہوا كرتا ہے_ جو انسان گناہ اور برے اخلاق ميں آلودہ ہوچكا ہوا ہے اسے كيدم خدا كى طرف رجوع اور توبہ كرنى چاہئے اور اپنى روح كو گناہ كى كثافت اور آلودگى سے دھونا چاہئے اور اسے پاك و پاكيزہ كرے ايك حتمى اور يقينى ارادے سے شيطن كو روح سے دور كرے اور روح كے دروازوں كو شيطن كے
96لئے ہميشہ ہميشہ كے لئے بند كردے اور دل كے گھر كو اللہ تعالى كے مقرب فرشتوں كے نازل ہونے اور انوار الہى كے مركز قرار پانے كے لئے كھول دے اور ايك ہى حملہ ميں نفس امارہ اور شيطن كو مغلوب كردے اور نفس كى لگام كو مضبوط اور ہميشہ كے لئے اپنے ہاتھ ميں لئے ركھے كتنے لوگ ہيں كہ جنہوں نے اس طريقے سے اپنے نفس پر غلبہ حاصل كيا ہے اور اپنے نفس كو يكدم اور يك دفعى طريقہ سے پاك كرنے كى توفيق حاصل كر لى ہے اور پھر آخرى عمر تك اسى كے پابند رہے ہيں يہ اندرونى انقلاب كبھى واعظ او راخلاق كے پاك بنانے والے استاد كے ايك جملے يا اشارے سے پيدا ہوجاتا ہے يا ايك واقعہ غير عادى سے كہ كسى دعا ذكر اور كى مجلس ميں ايك آيت يا روايت يا چند دقيقہ فكر كرنے سے حاصل ہو جايا كرتا ہے_ كبھى ايك معمولى واقعہ مثل ايك چنگارى كے داخل ہونے سے دل كو بدل اور روشن كر ديتا ہے_ ايسے لوگ گذرے ہيں جنہيں اسى طرح سے اپنے نفس كو پاكيزہ بنانے كى توفيق حاصل ہوئي ہے اور وہ راہ خدا كے سالك قرار پائے ہيں جيسے بشر حافى كا واقعہ_ بشر حافى كے حالات ميں لكھا ہے كہ وہ ايك اشراف اور ثروتمند انسان كى اولاد ميں سے تھا اور دن رات عياشى اور فسق و فجور ميں زندگى بسر كر رہا تھا اس كا گھر فساد رقص اور سرور عيش و نوش ارو غنا كامركز تھا كہ غنا كى آواز اس كے گھر سے باہر بھى سنائي ديتى تھى ليكن اسى شخص نے بعد ميں توبہ كر لى اور زاہد اور عابد لوگوں ميں اس كا شمار ہونے لگا_ اس كے توبہ كرنے كا واقعہ يوں لكھا ہے كہ ايك دن اسى بشر كى لونڈى كوڑا كركٹ كا ٹوكراے كر دروازے كے باہر پھينكے كے لئے آئي اسى وقت امام موسى كاظم عليہ السلام اس كے دروازے كے سامنے سے گزر رہے تھے اور گھر سے ناچنے گانے كى آواز آپ كے كان ميں پڑى آپ نے اس لونڈى سے پوچھا كہ ‘ اس گھر كا مالك آزاد ہے يا غلام؟ اس نے جواب ديا كہ آزاد اور آقا زادہ ہے _ امام نے فرمايا تم نے سچ كہا ہے كيونكہ اگر يہ بندہ اور غلام ہوتا تو اپنے مالك اور مولى سے ڈرتا اور اس طرح اللہ تعالى كى معصيت ميں غرق اور گستاخ نہ ہوتا_ وہ لونڈى گھر ميں لوٹ گئي_ بشر جو شراب كے دسترخوان پر بيٹھا تھا اس نے لونڈي
97سے پوچھا كہ تم نے دير كيوں كي؟ لونڈى نے اس غير معروف آدمى كے سوال اور جواب كو اس كے سامنے نقل كيا_ بشر نے لونڈى سے پوچھا كہ آخرى بات اس آدمى نے كيا كہي؟ لونڈى نے كہا كہ اس كا آخرى جملہ يہ تھا كہ تم نے سچ كہا ہے كہ اگر وہ غلام ہوتا اور اپنے كو آزاد نہ سمجھتا يعنى اپنے آپ كو خدا كا بندہ اور غلام سمجھتا تو اپنے مولى اور آقا سے خوف كھاتا اور اللہ تعالى كى نافرمانى كرنے ميں اتنا گستاخ اور جرى نہ ہوتا_ امام عليہ السلام كا يہ مختصر جملہ تير كے طرح بشر كے دل پر لگا اور آگ كى چنگارى كى طرح اس كے دل كو نورانى اور دگرگون كر گيا _ شراب كے دسترخوان كو دور پھينكا اور ننگے پائوں باہر دڑا اور اپنے آپ كو اس غير معروف آدمى تك جا پہنچايا اور دوڑتے دوڑتے امام موسى كاظم عليہ السلام تك جا پہنچا اور عرض كى اے ميرے مولى ميں اللہ تعالى اور آپ سے معذرت كرتا ہوں_ جى ہاں ميں اللہ تعالى كا بندہ اور غلام تھا اور ہوں ليكن ميں نے اپنے اللہ تعالى كى غلامى اور بندگى كو فراموش كرديا اسى وجہ سے اس طرح كى گستاخياں كرنے لگا ليكن اب ميں نے اپنے آپ كو بندہ سمجھ ليا اور اپنے گذرے ہوئے كردار سے توبہ كرتا ہوں كيا ميرى توبہ قبول ہے؟ امام عليہ السلام نے فرمايا ہاں_ اللہ تعالى تيرى توبہ قبول كرلے گا اور تو اپنے گناہوں اور نافرمانيوں كو ہميشہ كے لئے ترك كردے_ بشر نے توبہ كي_ اور عبادت گذار اور زہاد اور اولياء خدا ميں داخل ہوگيا اور اس نعمت كے شكريہ كے طور پر اپنى سارى عمر ننگے پائوں چلتا رہا (جس كى وجہ سے اس كا نام بشر حافى يعنى ننگے پائوں والا ہوگيا_(170)ابو بصير كہتے ہيں كہ ايك آدمى جو ظالم بادشاہوں كا ملازم اور مددگار تھا ميرى ہمسايگى ميں رہتا تھا اس نے بہت كافى مال حرام طريقے سے جمع كيا ہوا تھا اور اس كا گھر فساد اور عياشى لہو و لعب رقص اور غنا كا مركز تھا ميں اس كى ہمسايگى ميں بہت ہى تكليف اور دكھ ميں تھا ليكن اس كے سوا كوئي راہ فرار بھى نہ تھى كئي دفعہ اسے نصيحت كى ليكن اس كا كوئي فائدہ نہ ہوا ليكن ايك دن ميں نے اس كے متعلق بہت زيادہ اصرار كيا_ اس نے كہا اے فلان _ ميں شيطن كا قيدى اور اس كے پھندے ميں آ چكار ہوں
98اور عياشى اور شراب خورى كا عادى ہوچكا ہوں اور اسے نہيں چھوڑ سكتا_ بيمار ہوں ليكن ميں اپنا علاج بھى نہيں كرتا چاہتا_ تو ميرا اچھا ہمسايہ ہے ليكن ميں تيرا برا ہمسايہ ہوں كيا كروں خواہشات نفس كا قيدى ہو گيا ہوں كوئي نجات كا راستہ نہيں ديكھ پاتا_ جب تو امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت ميں جائے تو آپ كے سامنے ميرى حالت بيان كرنا شايد ميرے لئے كوئي نجات كا راستہ نكال سكيں ابو بصير كہتا ہے كہ ميں اس كى اس گفتگو سے بہت زيادہ متاثر ہوا_ كئي دن كے بعد جب ميں كوفہ سے امام جعفر صادق عليہ السلام كى زيارت كے مقصد سے مدينہ منورہ گيا اور جب آپ كى خدمت ميں مشرف ہوا تو اپنے ہمسايہ كے حالات اور اس كى گفتگو كا تذكرہ آپ كى خدمت ميں بيان كيا_ آپ نے فرمايا كہ جب تو كوفہ واپس جائے وہ آدمى تيرے ملنے كے لئے آئے گا_ اس سے كہنا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ جس حالت ميں تو ہے يعنى گناہوں كو چھوڑ دے تو ميں تيرے لئے جنت كا ضامن ہوں_ابوبصير كہتے ہيں كہ ‘ جب ميں اپنے كا مدينہ ميں پورے كر چكا تو كوفہ واپس لوٹ آيا_ لوگ ميرے ملنے كے لئے آرہے تھے انہيں ميں ميرا وہ ہمسايہ بھى مجھے ملنے كے لئے آيا احوال پرسى كے بعد اس نے واپس جانا چاہا تو ميں نے اسے اشارے سے كہا كہ بيٹھا رہ مجھے آپ سے كام ہے_ جب ميرا گھر لوگوں كے چلے جانے سے خالى ہو گيا تو ميں نے اس سے كہا_ كہ ميں نے تيرى حالت امام جعفر صادق عليہ السلام سے بيان كى تھى _ آپ نے مجھے فرمايا تھا كہ جب تو كوفہ جائے تو ميرا سلام اسے پہنچا دينا اور اسے كہنا كہ اس حالت يعنى گناہوں كو ترك كردے ميں تيرى جنت كا ضامن ہوں_ اس تھورے سے امام كے پيغام نے اس شخص پر اتنا اثر كيا كہ وہ وہيں بيٹھ كر رونے لگ گيا اور اس كے بعد مجھ سے كہا كہ اے ابو بصير تجھے خدا كى قسم كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے ايسا فرمايا ہے؟ ميں نے اس كے سامنے قسم اٹھائي كہ يہ پيغام بعينہ وہى ہے جو امام عليہ السلام نے ديا ہے_ وہ كہنے لگا بس يہى پيغام ميرے لئے كافى ہے_ يہ كہا اور وہ ميرے گھر سے باہر چلا گيا_ كافى دن تك مجھے اس كى كوئي خبر نہ ملي_ ايك دن اس نے
99ميرے لئے پيغام بھيجا كہ ميرے پاس آ مجھے تم سے كام ہے_ ميں نے اس كى دعوت قبول كى اور اس كے گھر كے دروازے پر گيا_ دروازے كے پيچھے سے مجھے آواز دى اور كہا_ اے ابو بصير _ جتنا مال ميں نے حرام سے اكٹھا كيا ہوا تھا وہ سب كا سب ميں نے لوگوں ميں تقسيم كر ديا ہے_ يہاں تك كہ ميں نے اپنا لباس بھى دے ديا ہے_ اب ننگا اور بے لباس دروازے كے پيچھے كھڑا ہوں_ اے ابوبصير ميں نے امام جعفر صادق كے حكم پر عمل كيا ہے اور تمام گناہوں كو چھوڑ ديا ہے يعنى توبہ كر لى ہے_ ابوبصير كہتا ہے كہ ميں اس ہمسائے كے گناہوں كے چھوڑ دينے اور توبہ كر لينے سے بہت خوشحال ہوا اور امام عليہ السلام كى كلام كے اس ميں اثر كرنے سے حيرت زدہ ہوا_ گھر واپس لوٹ آيا تھورے سے كپڑے اور خوراك لى اور اس كے گھر لے گيا_ كئي دن كے بعد پھر مجھے بلايا_ ميں اس كے گھر گيا تو ديكھا كہ وہ بيمار اور عليل ہے اور وہ كافى دن تك بيمار رہا ميں اس كى برابر عيادت اور بيمار پرسى اور بيمار دارى كرتا رہا_ ليكن اس كے لئے كوئي علاج فائدہ مند واقع نہ ہوا_ ايك دن اس كى حالت بہت سخت ہوگئي اور جان كنى كے عالم ميں ہوگيا_ ميں اس كے سرہانے بيٹھا رہا جب كہ وہ جان سپرد كرنے كى حالت ميں تھا يكدفعہ ہوش ميں آيا اور كہا_ اے ابوبصير امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنا وعدہ پورا كرديا ہے يہ جملہ كہا اور اس جہان فانى سے كوچ كر گيا_ ميں كئي دنوں كے بعد حج كو گيا اور امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت ميں مشرف ہوا_ ميرا ايك پائوں دروازے كے اندر اور ايك پائوں دروازے سے باہر تھا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا_ اے ابوبصير ہم نے تيرے ہمسائے كہ بارے ميں جو وعدہ كيا تھا_ ہم نے وہ پورا كرديا ہے ہم نے جو اس كے لئے بہشت كى تھى اسے دلوادى ہے_(171) اس طرح كے لوگ تھے اور اب بھى ہيں كہ حتمى ارادے اور شجاعانہ اقدام سے اپنے نفس امارہ كو مغلوب كر ليتے ہيں اور اس كى مہار اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں_ ايك اندرونى اور باطنى انقلاب سے نفس كو پاك كرديتے ہيں اور تمام برائيوں كو چھوڑ كر اسے صاف اور شفاف بنا ديتے ہيں_ معلوم ہوا كہ اس طرح كا راستہ اختيار كر لينا
100ہمارے لئے بھى ممكن ہے_حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ ‘ عادت كے ترك كرنے كے لئے اپنے نفس پر غلبہ حاصل كرو اور ہوى اور ہوس اور خواہشات كے ساتھ جہاد كرو شايد تم اپنے نفس كو اپنا قيدى بنا سكو_(172)نيز امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘سب سے بہتر عبادت اپنى عادات پر غلبہ حاصل كرنا ہوتا ہے_(173)امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے_ ‘ قيامت كے دن تمام آنكھيں سوائے تين آنكھوں كے رو رہى ہوں گي_1_آنكھ جو خدا كے راستے كے لئے بيدار رہى ہو_2_ وہ آنكھ جو خدا كے خوف سے روتى رہى ہو_3_ وہ آنكھ جس نے محرمات الہى سے چشم پوشى كى ہو_(174)جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ’ خداوند عالم نے جناب موسى عليہ السلام كو وحى كى كہ كوئي انسان ميرا قرب محرمات سے پرہيز كر كے كسى اور چيز سے حاصل نہيں كر سكتا يقينا ميں بہشت عدن كو اس كے لئے مباح كر دوں گا اور كسى دوسرے كو وہاں نہيں جانے دوں گا_(175)يہ بھى مانا جاتا ہے كہ نفس امارہ كو مطيع بنانا اور بطور كلى گناہ كا انجام نہ دينا اتنا آسان كام نہيں ہے ليكن اگر انسان ملتفت ہو اور فكر اور عاقبت انديشى ركھتا ہو اور ارادہ اور ہمت كر لے تو پھر اتنا يہ مشكل بھى نہيں ہے كيونكہ اس صورت ميں اللہ تعالى كى تائيد بھى اسے شامل حال ہوگى اور خدا فرماتا ہے كہ ‘ جو لوگ ہمارے راستے كے لئے جہاد كرتے ہيں ہم انہيں ہدايت كرديتے ہيں اور اللہ ہے ہى احسان كرنے والوں كے ساتھ ہے_ والذين جاہلوا فينا لنہدينہم سبلنا و ان اللہ مع المحسنين_(176)
101آہستہ آہستہ ترك كرنااگر ہم اتنى اپنے آپ ميں طاقت اور ہمت نہيں ركھتے كہ يكدم تمام گناہوں كو ترك كر ديں تو اتنا تو مصمم ارادہ كر ليں كہ گناہوں كو آہستہ آہستہ انجام دے ديں پہلى دفعہ امتحان كے طور پر ايك گناہ يا كئي ايك گناہ كو ترك كرنا شروع كرديں اور مصمم ارادہ كرليں_ اس كام كو دوام ديں كہ اس كے ترك پر اپنے نفس كو كامياب قرار دے ديں اور ان گناہوں كا بالكل ختم كرديں پھر يہى كام دوسرے چند ايك گناہوں كے بارے ميں انجم دينا شروع كرديں اور اس پر كاميابى حاصل كرليں اور اسى حالت ميں خوب ملتفت رہيں كہ كہيں اس ترك كئے ہوئے گناہ كو پھر سے انجام نہ دے ديں اور يہ واضح ہے كہ ہر گناہ يا چند گناہوں كے ترك كرنے پر نفس امارہ اور شيطن كمزور ہوتا جائيگا اور جتنا شيطن نفس سے باہر نكلے گا اس كى جگہ اللہ تعالى كا فرشتہ لے لے گا_ جس گناہ كا سياہ نقطہ نفس سے دور ہوگا اتنى مقدار وہاں نورانيت اور سفيدى زيادہ ہوجائے گي_ اسى طريقے سے گناہوں كے ترك كو برابر انجام ديتے جائيں تو پھر بطور كامل نفس پاك ہوجائيگا اور نفس كو اس كے نفسانى خواہشات پر قابو پانے اور فتح حاصل كرنے كى پورى طرح كاميابى حاصل ہوجائيگى اور ممكن ہے كہ اسى دوران ايك ايسے مرتبے تك پہنچ جائيں كہ تمام گناہوں كو يكدم ترك كرنے كى طاقت اور قدرت پيدا كرليں ايسى صورت ميں ايسى قيمتى اور پر ارزش فرصت سے استفادہ كرنا چاہئے اور يكدم تمام گناہوں كو ترك كر دينا چاہئے اور شيطن اور نفس امارہ كو باہر پھينك ڈالنے پر قابو پالينا چاہئے اور نفس كے گھر كو خدا اور اس كے فرشتوں كے لئے مخصوص كر لينا چاہئے اگر اس كے لئے كوشش اور جہاد كريں تو يقينا اس پر كامياب ہوجائيں گے_ نفس كے ساتھ جہاد بعينہ دشمن كے ساتھ جہاد كرنے جيسا ہوتا ہے _ دشمن سے جہاد كرنے والا ہر وقت دشمن پر نگاہ ركھے اپنى طاقت كو دشمن كى طاقت سے موازنہ كرے اور اپنى طاقت كو
102قوى كرنے ميں لگا رہے اور فرصت ملتے ہى ممكن طريقے سے دشمن پر حملہ كردے اور اس كى فوج كو ہلاك كردے يا اپنے ملك سے باہر نكال دے_
 ش162_ قال على عليہ السلام: لا ترخص لنفسك فى شيء من سيّيء الاقوال و الافعال_ غرر الحكم/ ج 2 ص 801_163_ قال على عليہ السلام: غالب الشہوة قوة ضراوتہا فان ان قويت ملكتك و استقادتك و لم تقدر على مقاومتہا_ غرر الحكم/ 511_164_ قال على عليہ السلام: العادة عدوّ متملك_ غرر الحكم/ص 33_165_ قال على عليہ السلام: العادة طبع ثان_ غرر الحكم/ ص 26_166_ قال على عليہ السلام: غالب الہوى مغالبة الخصم خصمہ و حاربہ محاربة العدوّ عدوہ لعلك تملكہ_ غرر الحكم/ ص 509167_ قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: ترك الخطئية ايسر من طلب التوبہ و كم من شہوة ساعة اورثت حزنا طويلاً و الموت فضح الدنيا فلم يترك لذى لب فرحاً_ كافي/ ج 2 ص 451_168_قال ابو عبداللہ عليہ السلام: اقصر نفسك عما يضّرہا من قبل ان تفارقك واسع فى فكاكہا كما تسعى فى طلب معيشتك فان نفسك رہينة بعملك_ كافي/ ج 2 ص 455_169_و اما من خاف مقام ربّہ و نہى النفس عن الہوى فانّ الجنة ہى الماوي_ نازعات/ 40_

317170_منتہى الامال/ ج 2 ص 126_171_منتہى الامال/ ج 2 ص 86_172_ قال على عليہ السلام: غالبوا نفسكم على ترك العادات و جاہدوا اہوائكم تملكوہا_ غرر الحكم/ ص 508_173_ قال على عليہ السلام: افضل العبادة ترك العادة_ غرر الحكم/ ص 176_174_عن ابى جعفر عليہ السلام قال: كل عين باكية يوم القيامة غير ثلاث: عين سہوت فى سبيل اللہ و عين فاضت من خشية اللہ و عين غضت عن محارم اللہ_ كافي/ ج 2 ص 80_175_عن ابى عبداللہ (ع) قال: فيما ناجى اللہ عزوجل موسى (ع): يا موسى ما تقرب اليّ المتقربون بمثل الورع عن محارمي_ فانى ابيحہم جنات عدن لا اشرك معہم احداً_ كافي/ ج 2 ص 80_176_عنكبوت/ 69_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.