نظروں سے اوجھل امام (عج) اور معاشرے میں ان کا کردار

248

نظروں سے اوجھل امام (عج) اور معاشرے میں ان کا کردارامام زمانہ عج کے نظروں سے اوجھل ہونے کا کیا فائدہ ہے؟ آیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ وہ بھی باقی اماموں کی طرح حاضر و ناظر ہوتے؟ امام مھدی عج کی غیبت ایک ایسا امر ہے جو خداوند متعال کے ارادے اور تدبیر سے انجام پایا ہے پس یقینا اس میں کوئی انتہائی اہم حکمت اور مصلحت پوشیدہ ہے۔
عبداللہ ابن فضل ہاشمی کہتا ہے:”میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ انہوں نے فرمایا: صاحب الامر کو غیبت میں جانا ہے جو یقینا ہو کر رہے گا اور اس کے نتیجے میں جھوٹے اور باطل کے حمایتی افراد شک کا شکار ہو جائیں گے۔ میں نے عرض کی: میری جان آپ پر فدا ہو، ایسا کیوں ہو گا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کی ایک ایسی وجہ ہے جسے بیان کرنے کی اجازت ہمیں نہیں دی گئی۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: اس غیبت کی حکمت اور اس کا فائدہ کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کی غیبت کی حکمت وہی ہے جو اس سے پہلے کئی اولیاء خدا کی غیبت کی حکمت رہی ہے۔ غیبت کی حکمت آپ عج کے ظہور تک کسی کو معلوم نہ ہو سکے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے حضرت خضر علیہ السلام کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات کی حکمت حضرت موسی علیہ السلام کو ان سے جدا ہونے تک سمجھ میں نہ آ سکی تھی۔ اے فضل کے بیٹے، یہ ایک الہی امر ہے اور اس کے اسرار اور مخفیانہ پہلو بھی الہی ہیں اور خدا سے مربوط ہیں۔ جب ہم جانتے ہیں کہ خداوند متعال کی ھستی حکیم ہے تو ہمیں مان لینا چاہئے کہ اس کے تمام کام عین حکمت اور درست ہیں اگرچہ ان کی وجہ ہمارے لئے واضح نہ ہو”۔ [شیخ حر عاملی، اثبات الھداہ، جلد ۳، صفحہ ۴۸۸۔]
اس حدیث شریف کی روشنی میں “غیبت امام عصر عج” کی حقیقی حکمت اور وجہ ہمیں معلوم نہیں اور آپ عج کے ظہور پرنور کے بعد ہی ہم پر واضح اور آشکار ہو سکے گی۔ لیکن بعض دوسری روایات اور احادیث میں حضرت ولی عصر عج کی غیبت کے بعض اسرار اور وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان احادیث کا جائزہ ہمیں کچھ حد تک غیبت کے اسرار کے بارے میں مطمئن کر سکتا ہے۔ یہ اسرار اور وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
الف)۔ خداوند متعال کا ارادہ اور مشیت:حضرت ولی عصر عج کی غیبت کے بارے میں موجود روایات اور احادیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ غیبت خداوند متعال کی جانب سے کسی خاص حکمت کے تحت اس کے ارادے اور مشیت سے انجام پائی ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو ہم دیکھیں گے کہ اس دوران ایسے کئی عجیب اور غیرمعمولی واقعات رونما ہوئے ہیں جن کا منشاء کائنات پر حکمفرما الہی قوانین اور اصول کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ امام مہدی عج کی غیبت اور ان کی طولانی عمر بھی اسی طرح ہے۔ خداوند متعال غیبت امام زمانہ عج کے ذریعے مندرجہ ذیل اہداف و مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے:
۱۔ انسانوں کی آزمائش اور انہیں امتحان میں ڈالنا:حجت الہی کو نظروں سے اوجھل کرنے میں ایک گہری الہی حکمت انسانوں خاص طور پر شیعیان اہلبیت علیھم السلام کا امتحان لینا اور انہیں آزمائش میں مبتلا کرنا ہے۔ اس امتحان اور آزمائش کا مقصد ان کے باطن کو آشکار کرنا ہے۔ ایسے افراد جو دل کی گہرائیوں سے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان کے نور نے ان کے وجود کے باطن کو نورانی کر رکھا ہے، غیبت امام عصر عج کے دوران پیش آنے والی مصیبتوں اور سخت حالات پر صبر اور ایمان بہ غیب کے ذریعے ان کی قدروقیمت سب پر عیاں ہو جائے گی اور وہ اپنے صبر کے نتیجے میں ثواب کے اعلی درجات پر فائز ہو جائیں گے۔
زرارہ ابن اعین کہتے ہیں:”میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا: قائم عج اپنے قیام سے قبل غیبت اختیار کرے گا۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: وہ خوفزدہ ہو گا، وہ منتظر ہے۔ لیکن خداوند متعال شیعیان اہلبیت علیھم السلام کو آزمانا چاہتا ہے۔ اس دوران باطل عقیدے کے حامل افراد شک میں مبتلا ہو جائیں گے”۔ [شیخ حر عاملی، اثبات الھداہ، جلد ۳، ص ۴۷۲۔]
۲۔ اتمام حجت:امام زمانہ عج کی طولانی غیبت کے دوران تمام گروہوں، افراد، مکاتب فکر اور سیاسی نظاموں کو عوام پر حکومت قائم کرنے اور انسانی معاشرے کی مدیریت کرنے کا موقع فراہم ہو جائے گا اور اس طرح عدالت و انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انسانی معاشرے کی کامیاب مدیریت کرنے میں ان کی ناکامی سب پر عیاں ہو جائے گی۔ لہذا سب اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ عوام پر حکومت اور ولایت کا حق صرف اور صرف اولیای الہی خاص طور پر امامان معصوم دوازدہ گانہ علیھم السلام کو حاصل ہے کیونکہ صرف وہ ہی ایسی ھستیاں ہیں جو صحیح معنوں میں معاشرتی انصاف اور عدالت کو لاگو کر سکتی ہیں۔ لہذا تمام انسانوں پر خدا کی جانب سے اتمام حجت ہو جائے گی اور انسان خدا سے معصومین علیھم السلام کی حکومت اور ولایت کو طلب کریں گے۔
۳۔ انبیای الہی کے ساتھ مشابہت و مماثلت:خداوند متعال بعض مصلحتوں کے تحت ماضی میں انبیای الہی کو کچھ مدت کیلئے لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر دیتا تھا لہذا خداوند متعال نے چاہا کہ امام مہدی عج کے بارے میں بھی ایسا عمل انجام دے تاکہ امام عصر عج غیبت میں جانے والے آخری شخص ہوں اور یہ الہی قانون کامل طور پر اجراء ہو جائے۔
۴۔ دائمی طور پر انسانوں کو ہدایت پہنچانا:امام معصوم درحقیقت فیض الہی میں واسطہ اور لوگوں کیلئے ہدایت و رہنمائی کا منبع ہوتا ہے۔ جب انسانوں نے ایک عرصے تک اس عظیم الہی نعمت کی قدردانی نہ کی اور کفران نعمت کا شکار ہوئے تو خداوند متعال نے ایک خاص مصلحت کے تحت امام معصوم کے وجود کو انسانوں کی نظر سے اوجھل کر دیا تاکہ ایک تو واسطہ فیض موجود رہے اور کائنات کا نظام چلتا رہے اور دوسرا اس کے ذریعے رحمت اور فیض خداوند بندگان الہی تک پہنچتا رہے اور ہدایت کے دروازے ہمیشہ کیلئے انسانوں کیلئے کھلے رہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کو درپیش عظیم مشکلات اور مصائب کے پیش نظر خدا کی جانب سے انسانوں کو ہدایت بخشی کا بہترین راستہ غیبت امام معصوم ہی ہے۔
۵۔ کافر اور منافق افراد کی نسل سے مومن افراد کی پیدائش:غیبت امام عصر عج کے طولانی ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر کسی کافر یا منافق شخص کی نسل میں کوئی مومن پیدا ہونا ہو تو اسے دنیا میں آنے کا موقع فراہم ہو جائے۔ جیسا کہ خود ائمہ معصومین علیھم السلام کی روش بھی ایسی ہی تھی کہ وہ جب دیکھتے تھے کہ کسی کافر یا دشمن اہلبیت کی نسل میں کوئی مومن شخص پیدا ہو سکتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔ تاریخ میں بھی ایسا ہوا ہے کہ ایک کافر یا منافق کی نسل میں محب اہلبیت افراد پیدا ہوئے ہیں۔
۶۔ انسانوں میں امام معصوم کی قدر پیدا ہونا:امام مہدی عج کی غیبت کا ایک اہم راز اور حکمت انسانوں کے دل میں ان کیلئے مزید قدردانی کا پیدا ہونا ہے۔ گیارہ معصوم اماموں کی نسبت انسانوں کی بے توجہی اور ان کی قدر کو نہ پہچاننے کے باعث خدا نے بارہویں امام کو پردہ غیبت میں بھیج دیا تاکہ لوگوں کو امام معصوم جیسے گرانقیمت گوہر کی قدر کا احساس ہو جائے اور جب آپ عج کا ظہور ہو تو لوگ پیاسے شخص کی مانند ان کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہیں۔
ب)۔ غیبت میں کارفرما عوامی رویے:امام مہدی عج کی غیب کا ایک اہم سبب عوام کی جانب سے آپ عج کا ساتھ نہ دینا اور آپ عج کی اطاعت نہ کرنا اور آپ عج کی مدد اور نصرت کرنے میں سستی اور کوتاہی کا ثبوت دینا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ گیارہ اماموں نے بھی اس ضمن میں بے شمار مصائب اور رنج برداشت کئے۔ لہذا عوام کی جانب سے اس معصیت اور نافرمانی کا نتیجہ تمام گذشتہ ائمہ معصومین علیھم السلام کے بے یارومددگار رہ جانے اور شہید ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ پس امام مہدی عج کی غیبت کی بڑی وجہ خود عوام بنے ہیں۔
معروف شیعہ عالم دین خواجہ نصیرالدین طوسی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں:”امام کا وجود خدا کی جانب سے لطف ہے، اور امام کی جانب سے اجتماعی امور میں مداخلت ایک مزید لطف ہے۔ امام کی غیبت کی اصلی وجہ ہم خود بنے ہیں”۔ [کشف المراد، صفحہ ۲۸۵۔]
یعنی امام معصوم علیہ السلام کے موجود نہ ہونے اور ان کا ہماری نظروں سے اوجھل ہونے کی بڑی وجہ وہ مشکلات اور رکاوٹیں ہیں جو ہماری پیدا کردہ ہیں۔ غیبت امام مہدی عج میں عوام کے کردار سے متعلق مندرجہ ذیل نکات قابل ذکر ہیں:
۱۔ عوام کو مودب کرنے کیلئے خدا کی جانب سے ان کی تنبیہ:جب لوگ امام معصوم اور الہی پیشوا سے متعلق اپنے شرعی وظائف کو بخوبی انجام نہیں دیں گے یعنی اس کی اطاعت نہیں کریں گے، اس کی نصرت اور مدد کرنے میں کوتاہی برتیں گے اور اس کی جان کی حفاظت نہیں کریں گے تو خدا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ امام معصوم کو ایک عرصے کیلئے انسانوں کی نظروں سے اوجھل کرتے ہوئے انہیں اس عظیم الہی نعمت سے محروم کر دے۔ یہ درحقیقت ایک تنبیہ ہے جو خدا نے انسانوں کو مودب کرنے کیلئے انجام دی ہے۔ اس صورت میں عوام امام معصوم کے ظاہری وجود کی اکثر برکات اور فوائد سے محروم ہو گئے ہیں جو خداوند متعال کی ناراضگی اور غضب کی علامت ہے۔
محمد بن فرج کہتے ہیں:”امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ایک خط میں لکھا: جب خداوند متعال لوگوں پر غضب ناک ہوتا ہے تو ہمیں ان سے دور کر دیتا ہے”۔ [مرحوم کلینی، اصول کافی، جلد ۱، صفحہ ۳۴۳]۔
۲۔ عوام کی نادانی اور ستم کاری:عوام کی جانب سے خود پر اور دوسروں پر روا رکھے جانے والا ظلم و ستم اور اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے حجت الہی سے کافی حد تک بہرہ مند نہ ہونا امام مہد عج کی غیبت کا باعث بنا ہے۔
مولای متقیان امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:”اے لوگو، جان لو کہ زمین ہر گز حجت الہی سے خالی نہیں رہ سکتی۔ لیکن بعض اوقات خداوند متعال اس ظلم و ستم کی وجہ سے جو لوگ انجام دیتے ہیں اور ان کی جانب سے اپنے ہی حق میں زیادتیوں کے سبب انہیں اپنے حجت [امام مہدی عج] کے دیدار سے محروم کر دیتا ہے”۔ [علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد ۵۱، صفحہ ۱۱۳، حدیث ۸۔]
ج)۔ ظالم حکمرانوں اور کینہ توز دشمنوں کا غیبت میں کردار:ائمہ معصومین علیھم السلام کی زندگی میں انہیں درپیش عظیم مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل ظالم حکمرانوں کی موجودگی اور کینہ توز اور جاہل اور منافق دشمنوں سے سامنا تھا۔ یہی وہ وجہ تھی جو غصب خلافت، ائمہ معصومین علیھم السلام کی شہادت، ان کا معاشرے میں گوشہ گیر ہو جانے، ان پر عظیم سیاسی اور مالی دباو آنے، عوام سے ان کا رابطہ کٹ جانے اور ان کو بے شمار محدودیتوں کا سامنا کرنے کا باعث بنی تھی۔ امام مہدی عج بھی اسی قسم کے خطرات سے روبرو تھے لہذا حکمت الہی کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا جاتا۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل اسباب کو غیبت امام مہدی عج کے زمرے میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ امام مہدی عج کی جان کی حفاظت:امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:”بنی امیہ اور بنی عباس نے ہمارے خلاف اپنی تلواریں تیز کر رکھی تھیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خلافت میں ان کا کوئی حق نہیں۔ وہ اس خوف میں مبتلا تھے کہ خلافت اپنے حقدار افراد کے پاس چلی جائے اور حقدار افراد مسند خلافت پر براجمان ہو جائیں۔ لہذا انہوں نے اہلبیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسوں کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا مقصد حضرت قائم عج کی پیدائش کو روکنا تھا یا پیدا ہونے کی صورت میں اسے شہید کر دینا تھا۔ لیکن خداوند متعال نے ارادہ کر لیا کہ اسے دشمنوں کی نظروں سے اوجھل کر دے اور اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے اگرچہ مشرکین ایسا نہیں چاہتے”۔ [صافی، منتخب الاثر، صفحہ ۲۹۱۔]
۲۔ بعض قریبی منافق افراد سے درپیش خطرات:امام مہدی عج کو نہ صرف بنی عباس کے ظالم حکمرانوں سے جان کا خوف تھا بلکہ بعض ایسے قریبی منافق افراد بھی تھے جو آپ عج کو قتل کرنے کی منحوس سازشیں کرتے رہتے تھے۔ اس کا ایک واضح نمودہ جعفر کذاب کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جعفر کذاب بنی عباس کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات رکھتا تھا اور ان کی مدد سے گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کے تمام اموال پر قبضہ کرنے کے ناپاک منصوبے بنا رہا تھا۔ لہذا اس مقصد کیلئے امام مہدی عج کو شہید کروانا چاہتا تھا۔
د)۔ امام زمانہ عج کا کردار:غیبت اور عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل ہونا خود امام زمانہ عج کی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی وہ اپنے بعض اہداف و مقاصد اور منصوبوں کی تکمیل اور برسراقتدار حکومتوں کے جور و ستم سے آزاد رہنے کیلئے خدا کے اذن سے عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس بارے میں مندرجہ ذیل نکات اہمیت کے حامل ہیں:
۱۔ حکمرانوں کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر مجبور نہ ہونا:امام زمانہ عج کی غیبت کے بارے میں بیان ہونے والی بعض احادیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ غیبت کی ایک وجہ یہ ہے کہ امام عصر عج ظالم حکمرانوں کی بیعت کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ جیسا کہ گذشتہ ائمہ معصومین علیھم السلام اور امام زمانہ عج کے اجداد اپنے زمانے کے جابر حکمرانوں کی بیعت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ لہذا امام زمانہ عج خدا کے حکم سے انسانوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب امام زمانہ عج ظہور فرمائیں گے تو کسی ظالم اور غاصب حکمران کی بیعت نہیں کریں گے اور حتی تقیہ کے عنوان سے کسی ظالم حکومت کی برتری کو قبول نہیں کریں گے۔ امام زمانہ عج قیام کریں گے اور تمام ظالم اور طاغوتی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
لہذا امام زمانہ عج کی غیبت میں پوشیدہ ایک حکمت یہ ہے کہ وہ اپنے ظہور کا وقت آنے سے پہلے اپنے مظلوم اجداد کی مانند تقیہ اختیار کرتے ہوئے ظالم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر مجبور نہیں ہیں۔ جب آپ عج ظہور فرمائیں گے تو آپ عج کی گردن پر کسی قسم کی بیعت نہیں ہو گی اور آپ عج خدا کی حکومت اور قرآن کے قوانین کے علاوہ کسی اور حکومت اور قانون کو حتی تقیہ کے طور پر بھی قبول نہیں کریں گے۔
۲۔ دنیا اور رائے عامہ کا آمادہ ہونا:امام مہدی عج کی غیبت کی ایک اور اہم وجہ انسانی معاشرے کا اپنے حقیقی اور الہی ہدف تک پہنچنے کیلئے آمادہ ہونا ہے۔ اس آمادگی سے مراد یہ ہے کہ عوام کے شعور کی سطح اس حد تک بلند ہو جائے کہ وہ ایک عادل اور عالم پیشوا کی ضرورت کا احساس کرنے لگیں۔ دوسری طرف ایک عالمی حکومت کے قیام کیلئے مناسب زمینہ بھی فراہم ہو سکے یعنی عوام ظلم و ستم سے تنگ آ کر ایک ایسی عالمی اور عوامی حکومت کے خواہاں ہو چکے ہوں جو عالمی سطح پر عدل و انصاف، امن و امان اور روحانیت کو فروغ دے سکے۔ جب تک یہ زمینہ فراہم نہیں ہو جاتا امام زمانہ عج کی غیبت جاری رہے گی کیونکہ آپ عج کا مقصد تمام انبیای الہی اور اولیای الہی کی آرزووں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے شعور کی سطح اس قدر بلند ہو جائے کہ وہ ایک الہی پیشوا کی ضرورت کو محسوس کرنے لگیں۔
معروف عالم دین شیخ طوسی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”غیبت کی وجہ امام علیہ السلام کی طاقت کا فقدان ہے۔ عوام کو اس کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک عوام امام زمانہ عج کے اقتدار کا زمینہ فراہم نہیں کرتے وہ پردہ غیبت میں رہیں گے۔ کیونکہ خداوند متعال چاہتا ہے کہ امام مہدی عج عوام کے ذریعے برسراقتدار آئیں نہ کہ فرشتوں کے ذریعے”۔
۳۔ شیعیان اہلبیت علیھم السلام کی تربیت اور ان کی آمادہ سازی:امام زمانہ عج کی غیبت میں پوشیدہ ایک اور حکمت یہ ہے کہ شیعیان اہلبیت علیھم السلام جو انتہائی ضعیف اور کم ظرف ہو چکے ہیں کی تربیت ہو اور ان کی شعور کی سطح، صبر و تحمل اور آمادگی ترقی کی منازل طے کرے۔
علی ابن یقطین فرماتے ہیں:”امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: ہمارے شیعہ آرزووں کے ذریعے تربیت پائیں گے”۔
اسی طرح علی ابن یقطین فرماتے ہیں کہ میرے والد یقطین نے مجھ سے کہا: ہم سے جو کچھ بنی عباس کی حکومت کے بارے میں کہا گیا تھا وہ انجام پا گیا ہے لیکن آپ سے جو کچھ فرج اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں کہا گیا تھا وہ انجام نہیں پایا۔میں نے انہیں جواب دیا: جو کچھ آپ سے کہا گیا تھا اور جو کچھ ہم سے کہا گیا تھا اس کا منشاء ایک تھا۔ لیکن جو بات آپ کو بتائی گئی تھی وہ پوری ہو چکی ہے اور جو بات ہمیں بتائی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ چونکہ ہمیں اس کی امید دلا کر تربیت دی گئی تھی۔ اگر ہمیں شروع سے ہی بتا دیا جاتا کہ فرج اہلبیت علیھم السلام ۲۰۰ ہجری قمری یا ۳۰۰ ہجری قمری میں انجام پائے گا تو لوگ قسی القلب ہو جاتے اور ان کی اکثریت اسلام سے منہ پھیر لیتے۔ لہذا ہمیں ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ انشاءاللہ بہت جلد ظہور ہو گا تاکہ لوگوں کی امیدیں بندھی رہیں اور وہ یہ سمجھیں کہ فرج نزدیک ہی ہے”۔ [مرآہ العقول، جلد ۴، صفحہ ۱۷۶، حدیث ۶]۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.