احادیث امام مہدی(عج) اور صحیحین

592

اس دعوے کا جائزہ لینے سے پہلے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔بخاری کی اپنی کتاب کے بارے ایک مشہور کلام یہ ہے کہ: «میں نے اس کتاب کو ایک لاکھ احادیث سے(اور ایک قول کے مطابق دو لاکھ صحیح احادیث سے) لکھا ہے اور جن صحیح احادیث کو میں نے چھوڑ دیا ہے ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے »۔لہذا جناب بخاری کی اس صراحت کے بعد یہ معلوم ہوگیا کہ جن احاديث کو انہوں نے نقل نہیں کیا وہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ وہ ضعیف حدیثیں تھیں بلکہ بہت سی ایسی حدیثیں تھی جنہیں وہ صحیح جانتے تھے لیکن کتاب میں نہیں لائے۔
۲۔اہل سنت کے علماء بھی اس چیز کے معتقد نہیں ہیں کہ وہ تمام روایات جو صحیحین میں نقل نہیں ہوئیں، وہ ضعیف ہیں؛ بلکہ وہ اس کے برعکس عقيدہ رکھتے تھے۔ ان کے نکتہ نظر کے مطابق بہت سي صحیح حدیثیں تھیں جو صحیحین میں ذکر نہیں ہیں، لہذا انہوں نے ان احادیث کو دوسری کتابوں میں ذکر کیا ہے تا کہ اس ذریعہ سے صحیحین میں موجود کمی کا ازالہ کر سکیں ۔
۳۔اھل سنت کے علماء رجال اور علماء حديث ميں سے کسي نے یہ نہیں کہا کہ، کسی حدیث کے صحیح ہونے کا صرف معیار یہ ہے کہ وہ صحیحین میں ذکر ہو؛ بلکہ بعض ایسی احادیث جن کا صحیح ہونا اہل سنت کے نزدیک قطعی ہے، وہ صحیحین میں نہیں آئی ہیں۔ ہماری اس بات پر بہترین گواہ حدیث« العشرﺓ المبشرﺓ بالجنّة» ہے کہ جسے صحیح بخاری اور مسلم دونوں میں سے کسی ایک نے بھی نقل نہیں کیا ہے؛لیکن اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث« متواتر احادیث»میں شمار ہوتی ہے۔
۴۔وہ لوگ جو صحیحین میں حضرت مہدی عليہ السلام کے بارے احادیث ذکر نہ ہونے کا بہانہ بنا کر آنحضرت(ع) کے ظہور کے منکر ہوتے ہیں، در حقیقت وہ ان حدیثوں کے مطالب سے دقیق اور کافی اطلاع بھی نہیں رکھتے۔
اعتراض کا جواب:
یہ بات واضح ہے کہ امام مہدی(عج) کے بارے میں آنے والی احادیث مختلف عناوین رکھتی ہیں ٬کچھ حدیثیں آپ کے نام مبارک، بعض آپ کے اوصاف کے متعلق، ظہور کی نشانیاں٬ حکومت کی کیفیت اور طریقہ کار کے بارے میں ہیں… اور یہ بھی واضح ہے کہ ان تمام احادیث میں لفظ« مہدی(عج) » کا آنا ضروری نہیں ہے؛کیونکہ احادیث کی مراد بالکل واضح ہے۔ مثال کے طور پر ممکن ہے کہ ایک صحیح حدیث کسي کتاب میں نقل کی گئی ہو اور اس میں حضرت مہدی موعود(عج) کی صفات میں سے ایک صفت لفظ «المہدی(عج) » کے ساتھ آئی ہو، لیکن یہی حدیث بخاری میں کلمہ«المہدی(عج) » کے بجائے لفظ«رجل» (مرد) کے ساتھ نقل ہوئی ہو ؛ تو اس صورت میں کون عاقل اور سمجھ دار شخص یہ شک کرسکتا ہے کہ یہ حدیث«حضرت مہدی(عج)» کے متعلق نہیں ہے؟ اگر روایات پر توجہ اور ان کا ایک دوسرے سے مقايسہ کو قبول نہ کریں، تو اس کے علاوہ دیگر بہت سي احادیث میں اجمال کو کیسے برطرف کریں گے اور کس طرح ان کے درست معانی کو واضح کر پائیں گے؟ کیا علماء کے پاس اس کے علاوہ بھی اور راہ و روش ہے، سوائے اس کے کہ وہ مجمل حديث کو مفصل حدیث کے ذریعہ ہی تفسیر کرتے ہیں؛ اگرچہ وہ دونوں ایک ہی کتاب میں کیوں نہ آئی ہوں یا کہ علیحدہ علیحدہ کتابوں ميں آئی ہوں؟
اس سے بڑھ کہ اگر ہم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے ایسی دسیوں مجمل حدیثیں حضرت امام مہدی(عج) کے بارے ميں نقل کي ہيں کہ ديگر علماء اہل سنت نے ان کو حضرت مہدي عليہ السلام سے ہی منسوب کیا ہے کیونکہ جو دوسری صحیح احادیث، ديگر صحیح مسند اور مستدرک کتابوں میں وارد ہوئی ہیں وہ ان احادیث سے ابہام کو دور کرتی ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ حدیث«المهدی حقّ وَ هُو مِن وُلدِ فاطمةَ» کو اہل سنت کے چار معتبر اور قابل اعتماد علماء نے اپنی کتابوں میں«صحیح مسلم» سے نقل کیا ہے٬ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے جب صحيح مسلم کے موجودہ ایڈیشن کا ملاحظہ کیا جاتا ہے تو اس میں يہ حديث سرے سے موجود ہي نہيں ہے اور وہ چار علماء یہ ہیں:
۱۔ابن حجر ھیثمی(م۹۷۴ ھ ق) اپنی کتاب الصواعق المحرقہ٬ گیارہویں باب، پہلی فصل، ص۱۶۳۔
۲۔متقی ھندی حنفی(م۹۷۵ ھ ق)کتاب کنز العمال٬ ج۱۴ ٬ص۲۶۴ ٬ح۳۸۶۶۲۔
۳۔شیخ محمد علی صبان(م۱۲۰۶ ھ ق) کتاب اسعاف الراغبین٬ ص۱۴۵۔
۴۔شیخ حسن عدوی حمزاوی مالکی(م۱۳۰۳ ھ ق) کتاب مشارق الانوار٬ ص۱۱۲۔
بہر حال صحیح مسلم اور بخاری میں نقل ہونے والی بعض احادیث کو سوائے حضرت مہدی(عج) کے تفسیر نہیں کيا جاسکتا اور ان دو کتابوں کی حدیثوں سے صرف ہماری يہ فہم و درک نہیں ہے بلکہ یہ وہ مطالب ہیں کہ جن پر صحیح بخاری کے پانچوں شارحین کا اتفاق ہے جس کی وضاحت اپنے مقام پر آئے گی۔
صحیح بخاری و مسلم کی حدیثیں جن کی تفسیر حضرت مہدی (عج) کے متعلق ہے:
۱۔”صحیحین” میں«خروج دجال» کی احادیث:
بخاری نے اپنی کتاب«صحیح» میں«خروج دجال» اور اس کے فتنہ پر مشتمل ایک ہی حدیث ذکر کی ہے۔ جبکہ «صحیح مسلم» میں دسیوں حدیثیں دجال کے خروج، اس کا طریقہ کار، اس کی صفات، اس کا فساد، لشکر کشی اور اس کے سرانجام پر نقل کرتے ہوئے«دجال» کو «حضرت مہدی(عج) » کے ظہور کی علامتوں میں قرار دیا گيا ہے۔
۲۔”صحیحین” میں نزول «عیسیٰ عليہ السلام» کی احادیث:
بخاری اور مسلم دونوں نے اپني اپني سندوں کے ساتھ ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ: رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: « تم کیا محسوس کروگے اگر مریم(ع) کا بیٹا تمہارے پاس اس حال میں نازل ہوکہ اس کا امام تم ہی میں سے ہو؟»[1]
مسلم نے جابر بن عبد اللہ کی سند سے نقل کیا ہےکہ: میں نے پیغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: « میری امت کا ایک گروہ قیامت آنے سے پہلے حق کے لئے قیام کرے گا ٬پھر عیسیٰ(ع) بن مریم نازل ہوں گے، تو اس گروہ کا سپہ سالار کہے گا کہ آؤ اور ہمارے لئے نماز پڑھاؤ، تو وہ کہیں گے، نہیں اس امت کی عظمت کی بناپر تم میں سے بعض دوسروں پر امیر ہیں»۔[2]
اگر اہل سنت کی دوسری کتب احادیث خواہ وہ صحیح یا مسند ہوں٬ ان کی طرف رجوع کیا جائے تو بہت سی ایسی روایات ملیں گی جن میں سے اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اس گروہ کا سپہ سالار جو قیامت سے پہلے حق کے لئے قیام کرے گا سوائے حضرت مہدی عليہ السلام کے کوئی دوسرا نہیں ہے۔ نمونہ کے طور پر چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں:
الف: ابن ابی شبیہ نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے: «مہدی (عج) اس امت سے ہيں اور يہ وہي ہيں جو عیسیٰ بن مریم عليہ السلام کی امامت کريں گے»۔[3]
ب: ابو نعیم نے ابن عمر ودانی سے اور اس نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ:رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «مہدي عليہ السلام نگاہ کريں گے تو اسی اثنا میں عیسی بن مریم عليہ السلام نازل ہوں گے ،گويا ان کے بالوں سے پانی گر رہا ہو٬ پھر حضرت مہدی کہیں گے: آگے آئيے اور لوگوں کے لئے نماز قائم کيجئے۔ تو عیسی عليہ السلام کہیں گے: نماز صرف آپ کے لئے منعقد کی گئی ہے پس عیسی عليہ السلام میرے بیٹوں میں سے ایک مرد کے پیچھے نماز ادا کریں گے»۔[4]
«کتاب فتح الباری فی شرح صحیح بخاری» میں احادیث«مہدویت» کے متواتر ہونے کی صراحت موجود ہے؛ گذشتہ احادیث کی تشریح میں صاحب کتاب نے کہا کہ: حضرت عیسی عليہ السلام کا اس امت کے ایک مرد کی اقتداء کرنا اس بات پر توجہ کرتے ہوئے کہ آخر الزمان قیامت کے نزدیک ہے، يہ اس بات کے صحیح ہونے اور ان اقوال کے درست ہونے کي نشاني ہے کہ بیشک زمین حجت خدا يا اللہ تعالي کے لئے قیام کرنے والے سے خالی نہ ہوگی۔[5]
قسطلانی نے«بخاری» کی شرح میں اس حدیث کی تفسیر حضرت مہدی(عج) سے کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ: حضرت عیسی نماز میں حضرت مہدی (عج) کی اقتداء کریں گے»۔[6]
یہی مطلب کتاب عمدۃ القاری فی شرح «صحیح البخاری» میں بھی موجود ہے۔
کتاب فیض الباری میں حدیث بخاری کي تفسير میں ان مطالب پر زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ایک حدیث ابن ماجہ قزوینی سے لائي گئ اور کہا گیا ہے کہ «الامام» کا مصداق اس حدیث میں صرف وہی«امام المہدی(عج)» ہیں۔[7]
کتاب البدر الساری الی فیض البخاری کے حاشیہ پر حدیث مذکور کی تفصیلی شرح بیان ہوئی ہے اور وضاحت دی گئی ہے کہ حدیث کی شرح کرنے والے کو چاہئے کہ وہ صحابہ کی دوسری حدیثوں کی طرف بھی رجوع کرے، لہذا ان حدیثوں کو آپس میں جمع کرنے سے حدیث بخاری کي تشريح ہوجاتي ہے اور اسے مجبور کرتي ہيں کیا کہ وہ صراحت سے کہے کہ«امام» سے مراد وہی«امام مہدی(عج)» ہیں، پھر وہ اس پر اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ اس مراد کو حدیث ابن ماجہ نے تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے اور اس کا استناد بھی بہت قوی ہے۔[8]
۳۔صحیح مسلم کی احادیث« اس شخص کے بارے میں کہ جو اموال کی بخشش کرتا ہے»:
مسلم نے اپنے اسناد کے ساتھ جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «آخری زمانے میں میرے امت سے ایک خلیفہ آئے گا جو مال کی بہت زيادہ بخشش کرے گا اور اسے شمار نہيں کرے گا»[9]
اس نے حدیث کو ایک دوسري سند کے ساتھ بھی جابر اور ابو سعید خدری کے ذریعہ رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ: «مال کو لٹانا»، یہ صفت مال کی کثرت کا مبالغہ ہے اور اہل سنت کی کتابوں اور حدیثوں میں اس کا موصوف سوائے «امام مہدی عليہ السلام» کے علاوہ کوئی دوسرا ذکر نہیں کیا گیا۔
ترمذی نے ابو سعید خدری کی سند سے رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ:« بے شک مہدی میری امت میں سے ہے یہاں تک کہ فرمایا:پس اس کے پاس ایک شخص آئے گا اور عرض کرے گا اے «مہدی(عج)»کچھ مال مجھے عطا کرو پس وہ اس قدر اس کے دامن میں رقم ڈالے گا کہ وہ اسے اٹھا سکے»۔[10]
یہ حدیث ابو ھریرہ٬ ابو سعید خدری اور دسیوں دوسری سندوں سے بھی نقل ہوئی ہے۔
۴۔صحیح مسلم میں احادیث«خسف بیداء»:
مسلم نے اپنی کتاب صحیح میں اپني اسناد کے ساتھ عبید اللہ بن قبطیہ سے نقل کیا ہے کہ میں اور حارث بن ربيعہ بن صفوان٬ ام المومنین ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اس لشکر کے بارے میں پوچھا کہ جو زمین کے اندر دھنس جائے گا (یہ واقعہ عبد اللہ بن زبیر کے دور کا ہے) ام سلمہ کہتي ہيں کہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا: « ایک شخص خانہ خدا میں پناہ لے گا٬ پھر اس کے پیچھے ایک گروہ کو بھیجا جائے گا کہ جب وہ بیداء کے مقام پر پہنچے گا تو زمین ان کو نگل لے گی»۔[11]
[1] )صحیح بخاری، ج۴، ص۲۰۵، کتاب الانبیاء (ع) و صحیح مسلم، ج۱، ح۲۴۴ ٬ص۱۳۶۔
[2] )صحیح مسلم، ج۱،ح۲۴۷، ص۱۳۷۔
[3] )المصنف،ج۱۵،ح۱۹۴۹۵۔
[4] )الحاوی للفتاوی،ج۲،ص۸۱۔
[5] )فتح الباری فی الشرح صحیح البخاری،ج6 ٬ص383 -385
[6] )ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری، ج۵، ص۴۱۹۔
[7] )فيض الباری، ج۴،ص۴۷۔ ۴۴۔
[8] )حاشیۃ البدر الساری الی فیض البخاری، ج۴، ص۴۴۔
[9] )صحیح مسلم(ہمراہ شرح نووی)، ج۱۸ ٬ص۳۸۔
[10] )سنن ترمذی،ج۴،ح۲۲۳۴۔
[11] )صحیح مسلم( ہمراہ شرح نووی)،ج۱۸، ص۴ ۔ ۷۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.