قرآن میں حضرت مھدی (عج) كی عدالت
جناب آیت اللہ محمد ھادی معرفت كا انٹرویواس بات كو ملحوظ خاطر ركھتے ھوئے كہ آپ ان چند علماء میں سے ھیں جنھوں نے حوزۂ علمیہ میں رائج فقہ و اصول كے دروس كے علاوہ اپنی با بركت عمر كو تفسیر و علوم قرآن میں صرف كی ھے ، لھٰذا آپ سے درخواست ھے كہ بیان فرمائیں، قرآن میں عدالت كے كیا معنی و مفھوم ھیں ؟ اس میں اور قسط میں كیا فرق ھے ؟ عدالت كے ابعاد كو بھی بیان فرمائیں ۔یقینی طور پر آپ لوگوں كی نظر میں عدالت اجتماعی كی تعبیر ھوگی، عدالت اجتماعی سے مراد، سماج و معاشرہ میں توازن كو ایجاد كرنا ھے ، توازن كا مقصد بھی وھی تناسب ھے ، تناسب كے معنی یہ ھیں كہ ھر چیز اپنی جگہ اور اپنی مناسب و موزوں حدوں میں رھے ، امیر المومنین ( ع ) نے فرمایا : ( علیكم بتقویٰ اللہ و نظم امركم ) اس كلامِ امام میں ( نظم ) كے یھی معنی ھیں ، یعنی ھر چیز كی اھمیت و قیمت كا اندازہ اس كے خاص معیاروں كے مطابق ھونا چاھئے ، اس مناسبت كی رعایت تمام امور میں ھونا چاھئے ، میں نے بارھا اس نكتہ كو بیان كیا ھے كہ زیبائی و خوبصورتی ھی حقیقت میں نظم ھے، بعض لوگوں نے كھا ھے : ( زیبائی كی تعریف نھیں كی جاسكتی ھے ) لیكن میری نظر میں زیبائی كی تعریف اس طرح ھے : ( وہ امور جو ایك دوسرے كے آس پاس ھیں، ان میں تناسب كا موجود ھونا ) ، وہ چھرہ اور صورت خوبصورت ھے كہ جس كی ابرو و آنكھ وغیرہ ایك دوسرے سے مناسبت و موزوں ركھتی ھو ، اگر كسی شخصی كی ناك كافی لمبی ھو تو اس كا چھرہ زیبا و خوبصورت نہ ھوگا ۔انبیاء اس لئے آئے تاكہ سماج و معاشرہ میں توازن قائم كریں ، توازن بھی اس معنی میں ھے كہ ھر شخص كو اس كا حق مل جائے ، امام زمانہ ( ع ) كا مقصد بھی وھی انبیاء ( ع ) ھی كا مقصد ھے ، ان كی سعی و كوشش ھوگی كہ ھر صاحب حق اپنے حق تك پھونچ جائے ۔آزادی كے ایك معنی یہ ھیں كہ جائز و مشروع حقوق سے بھرہ ور ھوں اور استفادہ كریں ، اگر كسی نے اپنے حقوق سے زیادہ ، دوسروں كے حقوق سے بھی استفادہ كیا تو اس نے آزادی كو پامال كردیا ، آزادی كے معنی یہ ھیں كہ قانون كے دائرے میں رھیں اور چلیں ، قانون بھی حد بندی كے معنی میں ھے ، یعنی یہ معین ھو جائے كہ ھر ایك كے كیا حقوق ھیں ، ان حقوق میں سے ایك حق تعلیم و تربیت كا ھے ، اگر كوئی كھے:( فلاں شخص چونكہ فلاں ذات و نسل سے ھے لھٰذا اسے حق نھیں ھے كہ تعلیم حاصل كرے ) تو اس نے اس كی آزادی كو چھین لیا ھے ، البتہ بعض لوگوں نے آزادی كے معنی ( ھر قید و بند سے رھائی ) كے كئے ھیں جو صحیح نھیں ھے ۔تاریخ طبری میں ذكر ھوا ھے :جس وقت مسلمانوں نے ایران پر لشكر كشی اور چڑھائی كی تو ایرانی فوج كے كمانڈر نے اسلامی فوج كے كمانڈر سے سوال كیا : ( كس لئے یھاں آئے ھو ؟ ) اس نے جواب دیا : ( ھم نے ایران پر اس لئے چڑھائی نھیں كی ھے كہ حملہ كر كے اپنی زمینوں میں اضافہ كریں، بلكہ ھم عدالت كو رائج كرنے اور پھیلانے كے لئے آئے ھیں ) اس سے پوچھتے ھیں : ( عدالت كو رائج كرنے كا كیا مطلب ھے ؟ ) اس نے جواب دیا : ( تمھارے بادشاھوں نے تم سے آزادی كو سلب كرلیا ھے اور تمھیں انتخاب كا حق نھیں ھے ، ھم اس لئے آئے ھیں تاكہ تمھیں آزاد كریں اور ایسا كام انجام دیں كہ اپنے حقوق كو بطور كامل پا سكو ) ۔ھم كھنا چاھتے ھیں كہ عدالت ، آزادی اور زیبائی وغیرہ اس طریقہ سے ایك ھی معنی و مفھوم میں ھیں ۔قسط اور عدل میں كیا رابطہ ھے ؟قسط ایك خاص قسم كی عدالت ھے ، ایسا نھیں ھے كہ وہ عدل كے مقابلہ میں ھو ، قسط بھی اسی معنی میں ھے كہ ھر شخص اپنے سھم و حصہ كو حاصل كرلے ۔اس صورت میں ایك عام، ذكرِ خاص كے بعد آتا ھے :ھاں ، یہ ایك خاص چیز نھیں ھے ، امام زمانہ ( ع ) بھی قسط و عدل كے قائم اور نافذ كرنے كے لئے آئیں گے ، ابن عربی كا ایك عمدہ بیان ھے وہ كھتا ھے كہ رسول خدا (ص ) كے اس فرمان سے ( یملأ بہ الارض عدلاً و قسطاً ) امام زمانہ ( ع ) كا معصوم ھونا ثابت ھوتا ھے اور ان كی معصومیت كی دلیل ھے ۔كیا صرف معصوم عدالت كو جاری و نافذ كرسكتا ھے ؟ان كا كھنا ھے كہ ھم اس كلام سے حضرت كی عصمت سمجھتے ھیں ، وہ كھتے ھیں كہ ھم پیغمبر ( ص ) كی عصمت كو عقل سے ثابت كرتے ھیں، لیكن امام زمانہ ( ع ) كی عصمت كو نقل كے ذریعہ ثابت كرتے ھیں ، ان كی دلیل یہ ھے كہ غیر معصوم اس طرح كی عدالت كو قائم و نافذ نھیں كرسكتا ھے ۔كیا اس عدالت كو جاری و نافذ كرنے والا معصوم ھونا چاھئے كیا اس سے یہ نھیں سمجھا جاسكتا كہ عدالت، نظم و توازن وغیرہ سے بلند و بالا مفھوم و معنی ركھتا ھو ؟ قرآن كریم میں آیا ھے : ( ان الشرك لظلم عظیم ) یقینا شرك بھت بڑا گناہ ھے ، اس آیت سے سمجھ میں آتا ھے كہ فقط توحید ھی عدالت ھے ۔میں نے شروع میں بیان كیا ھے كہ آپ كی مراد اصولی طور پر عدالت اجتماعی ھے ، لھٰذا میں نے عدالت كے معنی اس طرح بیان كئے ھیں ، میں نے یہ نھیں كھا كہ عدالت بطور مطلق یھی ھے ، امام جماعت كی عدالت ، قاضی كی عدالت وغیرہ وغیرہ میں فرق پایا جاتا ھے ، ھر ایك كے اپنے ایك معنی ھیں ، ولی فقیہ كے اندر عدالت كے معنی میں، ان دونوں كی عدالت سے بالاتر مفھوم پایا جاتا ھے ، عدالت كے بھت سے مراتب ھیں ۔كیا حضرت (ع) كی عدالت كو كسی ایك سلسلہ میں بطور نمایاں بیان كیا جاسكتا ھے؟ مثلا ھم كھیں كہ حضرت (ع) عدالتِ اعتقادی كو نشر كریں گے؟اس كی بنیاد و اساس بھی یھی ھے ، یہ تمام مظالم اس لئے ھو رھے ھیں كہ خدا كو فراموش كر دیا گیا ھے ، حضرت ( ع ) كے كام كی ابتدا ، اسی جگہ سے ھوگی ، رسول اللہ ( ص ) نے بھی كام كی ابتدا لوگوں كے اعتقاد ھی سے كی تھی ۔ ان سے كھا تھا: ( قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا ) اے لوگو ! لا الہ الا اللہ كھو تاكہ فلاح پا جاؤ ۔آپ نے عدالت كے معنی تناسب، زیبائی اور توازن وغیرہ كے بتائے ھیں۔ ان كلمات كی مختلف توضیحات و تفسیریں ھیں، میں تناسب سے كچھ سمجھتا ھوں اور دوسرا شخص كچھ اور سمجھتا ھے ۔ھم نے جو عدالت كے یہ معنی بیان كئے ھیں وہ اس طرح كے مسائل روكنا سے تھا ، عدالت كے جاری و نافذ كرنے كے لئے ایك عالمی قانون كی ضرورت ھے ، جن لوگوں نے حقوق بشر كا قانون بنایا اور لكھا ھے اسی نیاز كے بر طرف كرنے كے لئے لكھا تھا ، لھٰذا پھلے یہ بات معین ھونا چاھئے كہ كون سی چیزیں انسان كے فطری حقوق میں شامل ھیں ، جب اس كی تعیین ھو جائے تو كھا جاسكتا ھے كہ جو حكومت قائم ھے وہ عادل ھے یا نھیں ۔ اگر لوگ اپنے حقوق سے استفادہ كرنے میں كسی مشكل و ركاوٹ سے دوچار نہ ھوں اور ان كا حق ضائع نہ ھو تو وہ نظام ایك عادل نظام ھے ، لیكن اگر سماج و معاشرہ میں تبعیض پائی جاتی ھو تو معلوم ھوجائے گا كہ وہ حكومت عادل نھیں ھے ، كیونكہ ( كل شیٔ فی موضعہ ، ھر چیز اپنی جگہ پر ھونا چاھئے ) استوار و قائم نھیں ھوا ھے، ھم ( بعد ما ملئت ظلماً و جوراً ) كی عبارت سے یہ بات سمجھتے ھیں كہ حضرت ( ع ) كے ظھور سے پھلے كامل اور عالمی آزادی نھیں ھوگی ، عالمی اور مكمل توازن نھیں ھوگا ، عالمی و كامل زیبائی نھیں پائی جائے گی ۔كیا عدل علوی كے نظام میں ایسا ھوا ھے ؟حضرت (ع) نے اپنی سعی و كوشش انجام دی لیكن كامل طور پر اسے نافذ نہ كرسكے چونكہ ( دشمنوں نے ) نھیں چھوڑا كہ آپ یہ كام كریں ، اس زمانے كے لوگوں میں وافر مقدار میں رشد بھی نھیں پایا جاتا تھا كہ ایسی عدالت كو جاری و نافذ كیا جاسكے ۔كون سی ضمانت ھے كہ امام زمانہ (ع) ایسا كرسكیں ؟بنیادی و اساسی باتوں میں سے ایك بات جو میں حضرت ( ع ) كے بارے میں كھتا ھوں یہ ھے كہ حضرت (ع) اتنی زیادہ اپنے ظھور میں تاخیر كریں گے كہ لوگ ان كے ظھور كے لئے آمادہ ھوجائیں ، لوگوں كی فكری سطح بھی اس حد تك بلند ھوجائے گی، اگر فكری سطح بلند نہ ھوگی تو حضرت ( ع ) بھی ظھور نھیں فرمائیں گے ۔ابھی یہ چیز حاصل نھیں ھوئی ھے، آپ ملاحظہ فرمائیں كہ ایك شخص آكر مجھ جیسے ملّا كو كچھ كھتا ھے ، تو بعض لوگ كھتے ھیں : ( وہ مشرك ھوگیا ھے و یجب ذبحہ من القفا، اس كو پس گردن سے ذبح كرنا واجب ھے ) اس سے پتہ چلتا ھے كہ ھم خود اپنے لئے كسی امتیاز كے قائل و معتقد ھیں ! جب تك ایسا ھے اس وقت تك حضرت (ع) كے ظھور كا موضوع بھی منتفی ھے ۔كیا انسان ایسا قانون بناسكتا ھے جو عالمی اور جامع ھو ؟نھیں ! انسان ایسا جامع اور عالمی قانون نھیں بنا سكتا ھے ، اس طرح كا عالمی قانون ایسے افراد تیار كریں جو تمام حزبی ، گروھی اور قومی و نسلی تعلقات وغیرہ سے آزاد ھوں اور انسان ایسا نھیں ھے اس كے تعلقات و رابطہ بھت زیادہ ھیں، لھٰذا شارع مقدس نے انسانوں كے لئے قانون بھیجا ھے، دین اس لئے آیا ھے تاكہ حقوق كی حدوں كو معین كرے، جس كے سایہ میں لوگ اطمینان و آسودگی كے ساتھ زندگی بسر كرسكیں ۔كیا حضرت (ع) عدالت كو تمام چیزوں میں رائج كریں گے یا صرف عدالتِ اجتماعی میں اسے رائج كریں گے ؟حضرت ( ع ) كا وظیفہ اور ان كی ذمہ داری ھے كہ عدالت كو دنیا میں رائج و قائم كریں ، یعنی تمام لوگ اپنے حقوق سے استفادہ كرسكتے ھوں ، حضرت ایسا موقع فراھم كریں گے كہ كوئی شخص كسی پر ظلم نہ كرے ، لیكن یہ كہ كسی جگہ پر كوئی ظلم نہ ھو ، معلوم نھیں ھے كہ حضرت كا وظیفہ ھو ، ھاں ، اگر كوئی شكایت كرے تو اس كا حق ظالم سے لے كر اس كے حوالہ كردیا جائے گا ۔ جو میں نے یہ كھا كہ حضرت شخصی مظالم كو نھیں روكیں گے ، یہ اس لئے ھے كہ وہ كسی كو مجبور نھیں كرسكتے كیونكہ انسان ایك مختار مخلوق ھے ،اگر اجبار كی بحث ھوتی تو اتنے پیغمبرں كے آنے سے بھی یہ كام ممكن ھوجاتا ۔روایت میں ھے : ( حضرت ( ع ) میران عدالت قائم كریں گے ، و لایظلم احدٌ احداً ، اور كوئی كسی پر ظلم نھیں كرے گا ) ۔اس روایت كے معنی یہ ھیں كہ حضرت ( ع ) ظلم كے اسباب و تقاضے كو ختم كردیں گے، جو گناہ روئے زمین پر ھوتے ھیں جیسے رشوت خواری ، فتنہ و فساد ، قتل و غارت اور چوری وغیرہ چونكہ ان كاموں كے اسباب اس زمانہ میں موجود ھیں، مزدوروں اور كاركنوں كی اجرت و تنخواھیں ان كی ضرورتوں كے مطابق نھیں ھیں ، لھٰذا رشوت خواری كے مواقع فراھم ھیں ، حضرت ( ع ) ایسا كام انجام دیں گے كہ مزدوروں اور كام كرنے والوں كی ضرورتیں پوری ھوجائیں جس كی بناپر رشوت خواری كا موضوع ختم ھوجائے گا لیكن اگر گناہ كے مواقع و اسباب كو ختم كردیا جائے تو یہ نھیں كھا جاسكتا كہ گناہ بالكل نھیں ھوگا !انگلینڈ میں كسی كار كن و نوكر كو نوكری ملنے كے فوراً بعد اسے گھر دیا جاتا ھے، اس كی قیمت مختصر قسط كے طور پر تنخواہ سے لیتے رھتے ھیں، حضرت امیر( ع ) مالك اشتر سے فرماتے ھیں : اپنے كاركنوں كی پنھاں و مخفی طور پر تحقیق كرتے رھو تاكہ ( مشكل میں) گرفتار نہ ھوں ۔مثلا زیادہ طلبی بھی ظلم كا سبب ھے ؟ھاں ،روایتوں میں ملتا ھے كہ انسانوں كی عقلیں كامل ھوجائیں گی، یہ اعجاز كی قسم ھے یا نھیں ؟یہ اعجاز نھیں ھے، اگر اعجاز ھوتا تو روز اول سے ھی یہ كام ھو جاتا ،كیا حضرت ( ع ) مقدمہ سازی كے لئے كوئی كام انجام دے رھے ھیں ؟ھاں، حضرت ( ع ) كے كاموں میں سے ایك دعا كرنا ھے، آپ ( ع ) بھی ظھور كے لئے دعا كرتے ھیں، میری نظر میں اس وقت كم و بیش ظھور كا موقع فراھم ھو رھا ھے ، ھم دیكھتے ھیں كہ اسلام كے خلاف كس قدر پروپیگنڈہ كیا جارھا ھے اس كے باوجود یورپ میں اسلام كو قانونی اعتبار سے دوسرا دین مانا جاتا رھا ھے !اسلام كے رشد اور پھیلنے كا سبب، اسلامی انقلاب ھے، امام خمینی رضوان اللہ علیہ ۔ نے بزرگترین كام جو انجام دیا ھے وہ یہ كہ حقیقی اسلام كو دنیا والوں كے سامنے پیش كیا اور پھچنوایا ھے ، اسلام كا حقیقی چھرہ دوسرے مذاھب و ادیان سے خستہ و درماندہ لوگوں كو اپنی طرف جذب كرتا ھے ۔بعض روایتوں میں ملتا ھے كہ جب حضرت ( ع ) تشریف لائیں گے تو خون كی نھر جاری كریں گے ۔یہ ان لوگوں كا خیال ھے جنھوں نے ایسی چیزیں لكھی ھیں، یہ سب صحیح نھیں ھیں، حضرت( ع ) اس وقت آئیں گے جب ظھور كا موقع فراھم ھوگا ۔ جس وقت ایسا موقع فراھم ھوگا تو اس طرح كی خونریزیوں كی كوئی حاجت نہ ھوگی ۔انقلاب اسلامی كیوں كامیاب ھوا ؟ كیا اس كی كامیابی كے لئے اس طرح كی خونریزی ھوئی ؟ انقلاب كی كامیابی كے لئے جتنی تعداد میں لوگ شھید ھوئے ھیں انھیں دوسرے انقلابوں كے مقتولین سے موازنہ كرو !لوگ اس سفّاك حكومت كے مظالم سے تنگ آگئے تھے، ان لوگوں نے ملاحظہ كیا كہ امام خمینی(رح) ان لوگوں كے دل كی بات كہہ رھے ھیں اور لوگوں كی نجات كے دعوے و قول میں سچے ھیں، لھٰذا لوگوں نے ان كی پیروی كی اور بھت ھی كم جانی و مالی نقصانات اٹھاتے ھوئے كامیاب ھوگئے، اُس زمانے كے لوگ بھی جب اس طرح كی اتباع و پیروی كی حد پھونچ جائیں گے تو مختصر تریں نقصانات كے ساتھ كامیابی كی منزلوں تك حاصل كرلیں گے ۔ھمیں حضرت (ع) كو ( رحمت الٰھی ) كے عنوان پیش كرنا چاھئے اس لئے كہ آپ (ع) پیغمبر اكرم ( ص ) كی طرح ( اور ان كے جانشین ) ھیں، آنحضرت (ص) رحمۃ للعالمین تھے ، آپ ( ع ) بھی اسی طرح رحمت الٰھی ھیں ۔