وحی کی حقیقت اور اہمیت

731

وحی کا اصطلاحی مفہوم:
          لغت میں لفظ ” وحی” مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء” ہے۔ 
۱        دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔ 
۲        دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیااس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔
          لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔
          چوتھی صدی ہجری کے اسلامی متکلم شیخ مفید نے بیان کیا ہے:
          “واذا اُضیفَ (الوحی) الی اللہ تعالیٰ کان فیما یخص بہ الرسل خاصةً دون من سواہم علی عُرْفِ الاِسْلٰام و شریعة البنی”(۳)
جب وحی کا لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آئے تو اس سے مراد شریعت نبی اور اسلام کے عرف میں انبیاء کے ساتھ مخصوص وحی ہے دیگر معانی ہرگز مراد نہیں ہیں۔
          تفسیر المنار کے موٴلف نے مذکورہ مطلب کو یوں بیان کیا:
          للوحی معنی عام یطلق علی عدة صور من الاعلام الخفی الخاص الموافق لوضع اللغة ولہ معنی خاص ہو احد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی وغیرھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعدمن کلام اللہ تعالیٰ التشریعی(۴)
وحی کا عام معنی کا اطلاق مخفی طور پر آگاہ کرنے کی مختلف صورتوں پر ہوتا ہے اوراس کا ایک خاص معنی ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے تشریعی کلام کے سوا کسی اور معنی پر نہیں ہوتا۔
          عصر حاضر کے مفسر علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:
          وقد قرر الادب الدینی فی الاسلام ان لایطلق الوحی غیر ماعند الانبیاء والرسل من التکلیم الالہی(۵)
          اسلام میں ادب دینی کا تقاضاہے کہ خدا اور انبیاء کے درمیان گفتگو کے علاوہ کسی اور چیز پر وحی کا اطلاق نہ کیا جائے۔
          ڈاکٹر حسن ضیاء الدین عتر، وحی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:
          “اقول ومن ھنا نلحظ ان معنی الوحی فی الشرع اخص منہ فی اللغة من جھة مصدرہ وھو اللہ تعالیٰ و من جھة الموحی الیہ و ھم الرسل”(۶)
ہم کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وحی کا شرعی معنی اپنے مصدر یعنی اللہ تعالیٰ اور جن کی طرف یہ وحی کی جاتی ہے یعنی رسولوں کے لحاظ سے اپنے لغوی معنی سے اخص ہے۔
          مولانا تقی عثمانی کہتے ہیں:
          لفظ’ ‘وحی” اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے(۷)
رائج لطفی نے بیان کیاہے:
          کذلک یذکر اللغویون لکلمة الوحی معانی کثیرة ثم غلب استعمال الوحی علی مایلقی الی الانبیاء من عنداللہ(۸)
اس طرح اہل لغت نے لفظ وحی کے بہت سے معنی ذکر کیے ہیں پھراس کااستعمال “اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر القاء کیے جانے والے کلام کے لیے غالب ہو گیا۔ 
          معاصر محقق محمد باقر سعید ی وحی کے خاص معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:
          درنتیجہ واژہ وحی درحوزہ اصطلاح علم کلام و بلکہ فلسفہ دین در قلمر و ادیان توحیدی’اخص از مفہوم لغوی آن است(۹)
نتیجے کے طور پر علم کلام بلکہ ادیان توحیدی کے افق پر فلسفہ دین میں وحی کا مفہوم اس کے لغوی معنی سے اخص ہے۔   اسی مطلب کو اردو دائرة المعارف اور سعید اکبر آبادی نے ذکرکیا ہے :
          وحی کا استعمال اس معنی خاص میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ منقول شرعی بن گیا ہے۔   (۱۰)
یہ لفظ اس معنی خاص میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ یہ ایک شرعی نوعیت اختیار کر گیاہے۔  (۱۱)
اسلامی مفکرین کے علاوہ مستشرقین نے بھی وحی کے خصوصی معنی کو بیان کیا ہے:
رچرڈبل مقدمہ قرآن میں لکھتے ہیں:
                   The verb “awha”and the noun “wahy” have become the technical terms in moslem theology-(12)
          یعنی فعل ” اوحی” اور مصدر “وحی ” اسلام کے اندر اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے-
          منٹگمری واٹ کہتے ہیں:
          The verb here translated “reveal”is”awha”which in much of the Quran is a technical expression for this experience of Mohammad-(31)
اس کے مطابق فعل ” اوحی ” اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا ہے بالخصوص قرآن میں یہ لفظ “وحی محمدی “کے لیے زیادہ آیا ہے  وحی کا یہ خاص او ر اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ اس بارے میں علوم اسلامی کے ماہرین نے جو تعاریف کی ہیں ان کی رو سے وحی کے مفہوم کے لیے تین تعبیریں بیان کی گئی ہیں۔
۱ کلام الہی:
          صحیح بخاری کے شارحین بدر الدین عینی اور کرمانی نے بیان کیا ہے:
واما بحسب اصلطاح المتشرعة: فھو کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ(۱۴)
شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہی کلام ہے جو اس کے انبیاء میں سے کسی پر نازل ہوا ہو۔
          راغب اصفہانی کا قول ہے:
ویقال للکلمة الالھیة التی تلقی الی انبیائہ (۱۵)
وحی کے معنوں میں سے ایک وہ کلام الہی ہے جو اس کے انبیاء کی طرف القاء کیا گیا ہے۔ 
          تفسیر المنار کے موٴلف نے وحی کے خاص معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
ولہ (الوحی) معنی خاص ھواحد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی
وغیر ھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعد من کلام اللہ تعالیٰ التشریحی(۱۶)
اس میں انہوں نے وحی کا خاص معنی کلام الہی بیان کیا ہے البتہ تشریعی ہونے کی قید لگائی ہے۔
ڈاکٹر حسن ضیاء نے بھی اصطلاحی مفہوم کی اسی تعبیر کاذکر کیا ہے:
وزبدة القول ان الوحی شرعاً القاء اللہ کلام اوالمعنی فی نفس الرسول بخفاء وسرعة (۱۷)
اس میں انہوں نے اصطلاحی معنی میں تھوڑی سی وسعت پیدا کرتے ہوئے کلام الہی کے علاوہ القاء مفہوم اور معنی کو بھی وحی کا شرعی معنی بتایا ہے:
عصر حاضر کے علماء میں تقی عثمانی اور ذوقی نے اصطلاحی مفہوم کو بالترتیب یوں بیان کیا ہے:
 “کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ ”
“اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے کسی نبی پر نازل ہو”(۱۸)
          ” وحی کلام الہی ہے جو عالم غیب سے عالم شہادت کی جانب بذریعہ ایک مقرب فرشتہ کے جنہیں جبرئیل کہتے ہیں رسولوں کے پاس پہنچایا جاتا ہے۔  “(۱۹)
۲ علم و آگاہی اور اس کی تعلیم:
          مصر کے معروف مفکر محمد عبدہ وحی کے اصطلاحی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 “وقدعرَ فوہ شرعاَ’ انہ اعلام اللہ تعالیٰ لنبی من انبیائہ بحکم شرعی و نحوہ(۲۰)
          شرعی لحاظ سے وحی کی تعریف یوں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء میں سے کسی کو حکم شرعی اور اس طرح کے دیگر احکام سے آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے۔
          علوم قرآن کے ماہر محمد عظیم زرقانی نے وحی کی نہایت جامع تعریف کی ہے۔
          علم و ہدایت بلکہ ہر قسم کی آگاہی جو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دینا چاہے شریعت میں اسے وحی کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خارق العادت اور مخفی ذریعے سے ہوتا ہے۔  (۲۱)
          المنار کے موئف بھی وحی کو ” انبیاء سے مخصوص علم” سے تعبیر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔
          انبیاء کی جانب وحی الہی انبیاء سے مخصوص علم ہے جو تلاش و کو شش اور کسی غیر کی تعلیم کے بغیر انبیاء کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس علم میں انبیاء کے تفکر اور سوچ و بچار کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔  (۲۲)
          ایک اور مصری دانشور رائج لطفی اپنے رائے بیان کرتے ہیں:
          علی الاصطلاح الشرعی اعلام اللہ تعالیٰ انبیائہ اما بکتاب اوبر سالةِ ملکٍ فی منام او الہام”(۲۳)
          ” اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کو آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے اس کے مختلف ذرائع ہیں مکتوب شکل میں’فرشتے کے ذریعے خواب میں یا دل میں بات ڈالنے سے”
          برصغیر کے عالم اسلم جیراجپوری بھی وحی کو علوم الہیہ کا نام دیتے ہیں:
          اصطلاح شرع میں وحی ان علوم الہیہ کا نام ہے جو ملاء اعلیٰ سے نبی کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں(۲۴)
غلام احمد پرویز کے بقول وحی کااصطلاحی مفہوم علم الہی ہے:وہ لکھتے ہیں:
          ” وحی کے اصطلاحی معنی ہیں وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا ہے قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی ہیں” خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم”(۲۵)
          انہوں نے اصطلاحی معنی کو بہت ہی محدود کر دیاہے ان کی نظر میں فقط وہی علم وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست دیا جائے اس سے فرشتے کے ذریعے سے ملنے والی آگاہی وحی کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے کہ باقی آراء کے خلاف بات ہےکیونکہ اکثر محققین نے وحی کے تینوں ذرائع جو سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں بیان ہوئے ہیں’ کو اصطلاحی معنی میں وحی کا نام دیاہے۔
          برصغیر کے ایک اور دانشور نے وحی کو علم الہی کا نام دیا ہے وہ کہتے ہیں:
          ” شریعت اسلام کی اصطلاح میں وحی خاص اس ذریعہ غیبی کا نام ہے جس کے ذریعہ غوروفکر کسب و نظر اور تجربہ و استدلال کے بغیر خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل و لطف خاص سے کسی نبی کو کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔  “(۲۶)
          ایران کے معاصر محقق ڈاکٹر صالحی کرمانی لکھتے ہیں:
          تعلیمی کہ خدا ونداز راھہای کہ بربشر پنہاں است و بطور سریع یعنی برکنار از مقدمات و روش آگاہی ھای بشری بہ پیا مبرمی دھد” (۲۷)
ان کے بقول وحی وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ مخفی ذریعے سے تیزی کے ساتھ اپنے پیغمبر کو دیتا ہے یہ تعلیم دیگر انسانی ذرائع تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔
          ایران کے ایک اور محقق سعیدی روشن بیان کرتے ہیں:
“بنا بر این معنای اصطلاحی وحی در علم کلام عبارت است:
          از تفہیم یک سلسلہ حقائق و معارف از طرف خدا وندبہ انسا نہای بر گذیدہ پیا مبران برای ہدایت مردم’ از راہ ھای دیگری غیراز راھہای عمومی و شناخة شدہ معرفت ہمچون حس و تجربہ وعقل و حدس و شہود عرفانی ‘ تااینکہ آنہاپس از دریافت ‘آن معارف ربہ مردم ابلاغ کنند”(۲۸)
ان کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے حقائق اور علوم کی تفہیم کا نام ہے یہ تفہیم اور تعلیم جانے پہچانے انسانی ذرائع علم (جیسے حواس خمسہ، تجربہ، عقل، گمان، عرفانی مشاہدات،) سے ماوراء ذریعے سے ہوتی ہے اور ان حقائق اور معارف کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہے۔ 
          پاکستان کے محقق شمس الحق افغانی وحی کا اصطلاحی مفہوم یہ ذکر کرتے ہیں:
          ” وحی کا شرعی معنی الاعلام بالشرع ‘یعنی صرف شرعی احکام بتلانے کا نام وحی ہے”(۲۹)یہ وحی انبیاء علیہم الاسلام سے مختص ہے”(۳۰)
          برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:
          Most commentators and translators treat most of instances of the words in the Quran as technical(31. ہت سے مفسرین اور مترجمین نے قرآن میں اس لفظ کے استعمالات سے اصطلاحی مفہوم مراد لیاہے۔
          اصلاحی مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
          The verb here translated “reveal” is “awha” which in mhich of the Quran in a technical expressin for this experience of Muhammad(32)
یعنی وحی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجربے (نبوت)کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے  قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کے لیے فقط نہیں آیا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی کے لیے استعمال ہوتا ہے(۳۳)
۳ پیغام الہی:
          ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:
          ” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی” کہتے ہیں”(۳۴)
          انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔
          اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔  (۳۵)یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔
          بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(۳۶)
          یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔
          انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔  (۳۷)
          جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔  (۳۸)
          اور یہ تفاوت بھی وحی کے اسمی اور مصدری معنی کی وجہ سے ہے اور چونکہ اہل لغت نے وحی کے دونوں معنی بیان کیے ہیں۔  (۳۹)
          اس لیے جن علماء کے پیش نظر وحی کا اسمی معنی تھا انہوں نے اس کا اصطلاحی مفہوم “کلام الہی” اور”علم و معارف” بیان کیا اور جن کے سامنے اس کا مصدری معنی تھا انہوں نے اس کا مفہوم “کلام کرنا”اور “تعلیم دینا”بتایا ہے پس اصطلاحی مفہوم میں دونوں جہتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
          تعبیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے کلام یاکلام کرنے کی تعبیر استعمال کی ہے انہوں نے خود قرآن کے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو وحی کے لیے سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱میں استعمال ہوئے ہیں۔  (۴۰)جبکہ دوسروں نے واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علم،حقائق اور تعلیم کے الفاظ استعمال کیے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے برگذیدہ بندوں سے کلام کرنا انہیں تعلیم دینا ہی ہے انہیں کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ کرنا ہے انہیں آداب زندگی سکھانا ہی ہے  اس لیے میری رائے میں تعابیر کا اختلاف مفہوم میں کسی جوہری اور اصلی اختلاف کا باعث نہیں بنتا دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتاہےالبتہ علم اور تعلیم دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔
          اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اصطلاح میں:
          “وحی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہ مخصوص ،غیر معمولی اور مافوق العادت رابطہ ہے جو بشر کے لیے تمام ذرائع علم(تجربہ،حواس،عقل) سے ماوراء ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت اور ارتقاء کے علوم و معارف اور احکام و قوانین کی تعلیم دینا ہے۔  ”
          اس مقالے میں وحی کا یہی اصطلاحی مفہوم اور وحی کا مصدری معنی ہی موضوع تحقیق ہے۔ 
حوالہ جات:
۱        اس تحریر کی گذشتہ قسط کی بحث کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔
۲        العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:
” فاوحت الینا و الانا مل رسلھار و شدھا بالراسیات الثبت
العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:
حتی نحاھم جدنا و الناحی
لقدر کان وحاہ الواحی
(دیوان عجاج،ص۴۳۹)
لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:
وفمدا فع الریان عری رسمھا
خلقا کما ضمن الوحی سلا مھا
۳        مفیدمحمد بن نعمان الشیخ المفید(۵)تصحیح الاعتقاد،المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید،۱۴۱۳ھص۱۲۰
۴        رشید رضا:تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹
۵        طباطبائی محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن:ج۱۲ص۳۱۲
۶        ضیاالدین عترحسن ڈاکٹر:وحی اللہ،دعوة الحق مکہ مکرمہ رجب۱۴۰۴ہجریص۵۲
۷        عثمانی محمدتقی:علوم القرآن،مکتبہ دارالعلوم کراچی۱۴۰۸ھ،ص۲۹
۸        جمعہ رائج لطفی:القرآن والمستشرقون،قاہرہ۱۳۹۳ھ
۹        سعیدی روشن محمدباقر:تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت”،موٴسسہ فرہنگی اندیشہ ۱۳۷۵ھ شص۱۷
۱۰      اکبر آبادی سعید احمد:وحی الہی،مکتبہ عالیہ لاہورص۲۵
۱۱      اردو دائرةالمعارف الاسلامیہ:دانشگاہ پنجابلاہورج۱۶ص۳۲۱
۱۲Bell,Richard: Introduction to the Quran;p-32Edinburg 1953-
۱۳Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World; p-13 Edinburg 1969-
۱۴      عینی بدرالدین ابی محمد محمود بن احمد(م۸۵۵) عمدةالقاری لشرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۸کرمانی صحیح البخاری بشرح الکرمانی ،موسسہ المطبوعات الاسلامیہ قاہرہ،الجزالاول :ص۱۴
۱۵      راغب اصفہانی:” معجم المفردات الفاظ القرآن”ص۵۱۵
۱۶      تفسیر المنارج،ج۱۱،۱۷۹
۱۷      وحی اللہ،ص۵۲
۱۸      علوم القرآن،ص۲۹
۱۹      شاہ ذوقی مولانا:القاء الہام اور وحی،اقبال اکیڈیمیلاہورص۱۳
۲۰      عبدہ محمد: رسالة التوحید،مصر۱۳۸۵،ص۱۱۱
۲۱      زرقانی محمد عظیم:مناھل العرفان فی العلوم القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ص۵۶
۲۲      تفسیر المنار، ج۱ص۲۳۰
۲۳      القرآن والمستشر قون، ص قاہرہ۱۳۹۳ھ
۲۴      جیرا جپوری اسلم:تاریخ القرآن ،آواز اشاعت گھر،لاہور ص۱۲
۲۵      پرویز غلام احمد:ختم نبوت اور تحریک احمدیت طلوع اسلام ٹرسٹلاہور۱۹۹۶ءص۲۴
۲۶      وحی الہی ،ص۲۵
۲۷      صالحی کرمانی،محمد رضا ڈاکٹر:درآمدی برعلوم قرآنی،انتشارات جہاد دانشگاہی دانشگاہ تہران،۱۳۶۹ھ،شص۲۵۲
۲۸      تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۷۱۸
۲۹۳۰  افغانی شمس الحق ،علوم القرآن مکتبہ الحسن لاہور،ص۹۶،ص۹۸
۳۱۳۲  Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World-p13&14-Edinburg1969
۳۳      مندرجہ ذیل آیات میں یہ لفظ دیگر انبیاء کی وحی کے لیے آیاہے نساء۱۶۳:اعراف۱۱۷،۱۶۰یونس۲،۸۷:طہٰ۷۷،مومنون۲۷:شعراء۵۲،۶۳:یوسف۱۰۹:نحل۴۳انبیاء۷،۲۵ شوریٰ۳،۵۱:ھود۳۷،۳۶زمر۶۵
 ۳۴     ۔  حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ء،ص۱۹۱
۳۵      عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج۱،ص۱۸راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص۵۱۵وحی اللہ ص۵۲علوم القرآن ص۲۹القاء الہام اور وحی ص۱۳
۳۶      تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹
۳۷      تفسیر المنار،ج۱ص۱۲تاریخ القرآن،ص۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص۲۴ وحی الہی ص۲۵
۳۸      رسالة التوحید،ص۱۱۱، مناھل العرفان فی العلوم القرآن،ص۵۶، القرآن والمستشرقون، درآمدی برعلوم قرآنی،ص۲۵۲، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۷،۱۸۔
۳۹      الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة،تحقیق احمد عبدالغفور عطارج۶،ص۲۵۱۹،داراعلم للملابین،بیروت معجم مقائیس اللغة ج۶۹۳لسان العرب ج۱۵،ص۳۷۹
۴۰      وَمٰا کٰانَ لِبَشَرٍ ان یُکَلَّمَہُ اللّٰہ اِلّٰا وَحْیاً اَوَمِنْ وَرٰاء حِجٰابٍ اَوْیُرْسِلْ رَسُولًا فَیُوحی بِاِذْنِہِ مٰایَشاٰءُ اَنَّہ عَلیٰ حَکِیمٍ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.