رجعت کیا ہے اور کیا اس کا امکان پایا جاتا ہے؟

167

”رجعت“ ؛ شیعوں کا معروف عقیدہ ہے اور ایک مختصر جملہ میں اس کے معنی یہ ہیں: ”امام زمانہ (ع) کے ظہور کے بعد اور روز قیامت سے پہلے ”خالص مومنین“ کا ایک گروہ اور ”کفار اور بہت سرکش و شریر لوگوں کا ایک گروہ“ اس دنیا میں لوٹایا جائے گا، پہلا گروہ (یعنی مومنین) کمال کی منزلوں کو طے کرے گا اور دوسرا گروہ بہت سخت سزا پائے گا“۔
جلیل القدر شیعہ عالم دین ”سید مرتضی“ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”امام مہدی (ع) کے ظہور کے بعد خداوندعالم بہت سے لوگوں کو مر نے کے بعد پھر اس دینا میں پلٹائے گا، تاکہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی مدد کا افتخار اور ثواب حاصل کریں ، عالمی حکومت حق (و عدالت) میں شریک ہوں، اور اسی طرح سخت ترین دشمنوں کو بھی اس دنیا میں لوٹا ئے گا تاکہ ان سے انتقام لیا جاسکے۔
اس کے بعد موصوف مزید بیان کرتے ہیں: اس عقیدہ کے صحیح ہونے پر دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی عاقل اس کام پر خدا کی قدرت سے انکار نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ مسئلہ کوئی محال کام نہیں ہے، حالانکہ ہمارے بعض مخالفین اس موضوع کا اس طرح انکار کرتے ہیں کہ گویا یہ کام محال اور غیر ممکن ہے۔
اس کے بعدسید بزر گوار فرماتے ہیں: اس عقیدہ کی دلیل” فرقہ امامیہ کا اجماع“ ہے، کیونکہ اس عقیدہ میں کسی نے بھی مخالفت نہیں کی ہے۔(1)
اگرچہ بعض قدیم شیعہ علمااور اسی طرح مرحوم طبرسی صاحب مجمع البیان کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بہت ہی کم شیعہ علمانے اس عقیدہ کی مخالفت کی ہے، اور ”رجعت“ کے معنی ”حکومت اہل بیت علیہم السلام کی بازگشت “کئے ہیں، نہ لوگوں کی بازگشت اور مردوں کا زندہ ہونا، لیکن ان افراد کی مخالفت کچھ اس طرح ہے جس سے اجماع پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہاں پر بہت سی بحثیں ہیں لیکن ہم ان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
۱۔ بے شک اس دنیا میں مردوں کا زندہ ہونا کوئی محال کام نہیں ہے، جیسا کہ قیامت میں تمام انسانوں کا زندہ ہونا مکمل طور پر ممکن ہے، اور اس (رجعت) پر تعجب کرنا گویا زمانہٴ جاہلیت میں قیامت کے مسئلہ پر تعجب کی طرح ہے ، اس کا مذاق اڑانا، مشرکین کا قیامت کے مذاق اڑانے کی طرح ہے ،کیونکہ عقل اس طرح کے کام کو محال نہیں مانتی، اور خدا کی وسیع قدرت کے سامنے یہ کام بہت آسان ہے۔
۲۔ قرآن مجید میں اجمالی طور پر گزشتہ امتوں کے پانچ مواقع پر ”رجعت“ کا واقعہ پیش آیا ہے۔
الف۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ایک بنی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: یا اس بندہ (نبی) کی مثال جس کا گزر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے ستون اور چھتیں گرچکی تھیں تو اس بندہ نے کہا کہ خداان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟ تو خدا نے اس بندہ کو سو سال کے لئے موت دیدی اور پھر زندہ کیا او ر پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے؟ تو اس نے کہا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم، فرمایا: نہیں، سو سال، ذرا اپنے کھانے اور پینے کو تو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ کرو (کہ سڑ گل گیا ہے) اور ہم اسی طرح تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں(سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۹)
اس نبی کا نام عزیر تھا یا کچھ اور ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ وہ موت کے بعد اسی دنیا میں دوبارہ زندہ ہوئے۔ <فَاٴَمَاتَہُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ >
ب۔ قرآن کریم کے سورہ بقرہ میں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے: ”جو ہزاروں کی تعداد میں موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل پڑے (اور بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ لوگ طاعون کی بیماری کا بہانہ بنا کر میدان جہاد میں جانا نہیں چا ہتے تھے )اور خدا نے انھیں موت کا حکم دیدیا اور پھر زندہ کردیا: < فَقَالَ لَہُمْ اللهُ مُوتُوا ثُمَّ اٴَحْیَاہُمْ>(2)
اگرچہ اس غیر معمولی واقعہ کو ہضم نہ کرنے والے مفسرین نے اس کو صرف ایک مثال شمار کیا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے الفاظ؛ ظہور بلکہ آیت کی صراحت کے مقابل ، قابل قبول نہیں ہیں۔
ج۔ سورہ بقرہ کی آیات میں ”بنی اسرائیل“ کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ دیدار خدا کے تقاضا کے بعد ان لوگوں پر ہلاک کرنے والی بجلی گری اور وہ لوگ مرگئے، اس کے بعد خدا نے ان کو زندہ کیا تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں: < ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ>(3) ” پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کردیا کہ شاید اب شکر گزار بن جاؤ“۔
د۔ سورہ مائدہ ، آیت نمبر ۱۱۰ میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو شمار کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے: <وَإذَا تَخْرجُ المَوتٰی بِاذنِي> ”تم مردوں کو میرے حکم سے زندہ کرتے تھے“۔
یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے اس معجزہ (یعنی مردوں کو زندہ کرنے) سے فائدہ اٹھاتے تھے، بلکہ آیت میں ”تخرج“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو تکرار پر دلیل ہے اور یہ خود رجعت کی ایک قسم شمار ہوتی ہے۔
ھ۔ اور آخر ی موقع سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۷۳ میں بنی اسرائیل کے مقتول کے بارے میں بیان ہوا کہ جب بنی اسرائیل میں اس کے قاتل کی پہچان کےسلسلہ میں اختلاف ہوا، چنا نچہ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے: <فَقُلْنَا اضْرِبُوہُ بِبَعْضِہَا کَذَلِکَ یُحْیِ اللهُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ>”تو ہم نے کہا کہ مقتول کو گائے کے ٹکڑے سے مس کردو ،خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے“۔
ان پانچ موارد کے علاوہ قرآن مجید میں اور دیگر واقعات ملتے ہیں جیسا کہ اصحاب کہف کا واقعہ جو تقریباً ”رجعت“ سے مشابہ ہے، اسی طرح جناب ابراہیم علیہ السلام کا چار پرندوں کو ذبح کرنا اور ان کا دوبارہ زندہ ہونا، تاکہ انسانوں کے لئے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کا تصور مجسم ہوجائے، یہ واقعہ بھی رجعت کے سلسلہ میں قابل توجہ ہے۔
اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی قرآن مجید پر ایک آسمانی کتاب کے عنوان سے عقیدہ رکھتا ہو،لیکن ان تمام آیات کے پیش نظر رجعت کے امکان کا منکر ہوجائے؟ کیا رجعت کے معنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے علاوہ کچھ اور ہیں؟
کیا اسی دنیا میں قیامت کا ایک نمونہ رجعت نہیں ہے؟
جو شخص قیامت کو اس کی تفصیل کے ساتھ مانتا ہے تو پھر ایسے شخص کے لئے رجعت کا انکار کرنا یا اس کا مذاق اڑانا یا احمد امین مصری کی طرح کتاب ”فجر الاسلام“ میں کہنا کہ ”الیَھُودِ یَّةُ ظَھرَتْ بِالتَّشیُّعْ بِالقُولِ بِالرَّجْعَةِ“(4) ”یہودیت کا ایک دوسرا رخ شیعوں کے لباس میں ”رجعت“ کے عقیدہ کے ساتھ ظاہر ہوا ہے“واقعا ً جائے تعجب ہے ۔
احمد امین کے اس قول اور دور جاہلیت کے مشرکین کے جسمانی معاد کے انکار میں کیا فرق ہے ؟!
۳۔ یہاں تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے ”رجعت“ کا ممکن ہونا ثابت ہوجاتا ہے، اور رجعت کے واقع ہونے کی تائید کر نے والی بہت سی روایات ہیں جن کو ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت سے موثق راویوں نے نقل کیا ہے، اور چونکہ ہم یہاں پر ان تمام کو نقل نہیں کرسکتے ، لیکن صرف ان کے اعدادو شمار کو نقل کرتے ہیں جیسا کہ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں:
”کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اہل بیت علیہم السلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہو لیکن رجعت کے بارے میں متواتر احادیث کو قبول نہ کرے؟ بہت ہی واضح احادیث جن کی تعداد تقریباً دو سو ہے اور تقریباً چالیس موثق راویوں اور علمانے نقل کی ہیں ،اور پچاس سے زیادہ کتابوں میںوارد ہوئی ہیں اگر یہ حدیث متواتر نہیں ہے تو پھر کون سی حدیث متواتر ہو سکتی ہے؟!

منبع :  ۱۱۰   سوال اور جواب ؛ مؤلّف : آٰیۃ اللہ مکارم شیرزای 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.