عقیدۂ رجعت
عقیدۂ رجعت نقیب حیدر
رجعت لغوی :عربی لغت میں: رجعت کے معنی ہیں لوٹنا
رجعت اصطلاحی :اصطلاح میں موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کچھ انسانوں کے اس دنیا میں لوٹنے کو رجعت کہا جاتا ہے۔رجعت حضرت مہدی کے ظہور کے دور میں واقع ہوگی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ تو عقل کے خلاف ہے نہ ہی منطق وحی کے۔رجعت کا مسئلہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ذرا سا غور کرنے پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خداوند عالم کے نزدیک انسانوں کے ایک گروہ کو اس دنیا میں واپس بھیجنا ان کی پہلی خلقت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہے اور جب وہ علی کل شیئٍ قدیر ہے تو اس کے لئے کوئی مسئلہ، مسئلہ کیسے ہو سکتا ہے چاہے وہ رجعت کا مسئلہ ہو یا کوئی اورپھر خداوندعالم انسانوں کو پہلے مرحلہ میں آسانی سے خلق فرما سکتا ہے تو دوبارہ انہیں اس دنیا میں لوٹانے پر قادر کیوں نہیں ہو سکتا۔
رجعت قرآن کی روشنی میں:اگر وحی الٰہی کی بنیاد پر رجعت کو گذشتہ امتوں میں تلاش کیا جائے تو قرآن مجید میں اس کے مختلف نمونے مل سکتے ہیں جیساکہ سورہ بقرہ ،آیت( ٥٦،٥٥) میں ارشاد ہوتا ہے۔ ”وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسیٰ لَنْ نُؤمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَةً فَاَخَذَتْکُمْ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ، ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِنْ بِعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ” اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو آشکارا طور پر دیکھ نہ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے۔ پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کر دیاکہ شاید شکر گزار بن جاؤ۔جناب موسیٰ کی قوم نے جب ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو ظاہری آنکھ سے دیکھ نہ لیں۔ تو جناب موسیٰ فکر مند ہوئے کہ ان جاہل نادان اور ہٹ دھرم لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ خدا کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بہرحال موسیٰ سمجھاتے رہے لیکن وہ نہ مانے اور اپنی ضد پر اڑے رہے تو جناب موسیٰ نے ان کی درخواست بارگاہ احدیت میں پیش کر دی۔ خداوندعالم نے ان کی اس درخواست کو سنا تو سوچا کہ میں انہیں ایک ایسی مخلوق دکھاؤں جس کے دیکھنے کی تاب ان میں نہ ہو تاکہ یہ لوگ جان لیں کہ ان کی ظاہری آنکھیں تو اتنی کمزور و ناتواں ہیں کہ مخلوقات کے مشاہدہ کی بھی تاب نہیں لا سکتیں چہ جائیکہ میری عظیم ذات کو دیکھیں۔ چنانچہ اس نے چکا چوند کردینے والی چمک، رعب دار آواز، اور زلزلے کے ساتھ پہاڑ پر بجلی گرائی جس نے انہیں اس قدروحشت زدہ کر دیاکہ وہ بے جان ہو کر زمین پر گر پڑے۔ جیساکہ قرآن کے مذکورہ جملہ میں ارشاد ہوتا ہے۔” فَاَخَذَتْکُمْ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ”پھر اس حالت میں صاعقہ نے تمہیں پالیا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے۔ (1)حضرت موسیٰ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے کیونکہ بنی اسرائیل کے بہانے جو، لوگوں کے لئے تو ستر افراد کا ختم ہو جانا ایک بڑا بہانہ تھا جس کی بنیاد پر وہ حضرت موسٰی کی زندگی کو تیرہ و تار کر سکتے تھے لہٰذا آپ نے خدا سے ان لوگوں کے لئے دوبارہ زندگی کی درخواست کی جسے اس نے قبول کر لیا جیسا کہ قرآن مجید کی بعد والی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ” ثُمَّ بَعَثْنَکُمْ مِنْ بَعْدَ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ” پھر تمہاری موت کے بعد ہم نے تمہیں نئی زندگی بخشی کہ شاید تم خدا کی نعمت کا شکر ادا کرو۔ (2)یہ آیت ،رجعت اور اس دنیا میں دوبارہ زندگی گذارنے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ایک مقام پر اس کا واقع ہونا دوسرے مواقع پر بھی اس کے ممکن اور واقع ہونے کے لئے دلیل ہے۔ جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ قوم بنی اسرائیل کو دوبارہ زندگی عطا کرے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ظہور مہد ی کے دور میں بھی کچھ لوگوں کو دنیا میں واپس پلٹائے۔اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر حضرت عیسٰی کی زبان سے نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے۔” وَ أُحِیْی الْمَوتیٰ بِاِذْنِ اللّٰہِ” اور میں خدا کی اجازت سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔ (3)قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ رجعت کو ایک ممکن امر قرار دیا ہے بلکہ انسانوں کے ایک ایسے گروہ کی بھی تائید کی ہے جو اس دنیا سے جا چکا تھا اور پھر اس دنیا میں واپس آگیا۔بعض اہل سنت مفسرین جو یہ چاہتے ہیں کہ رجعت اور دوبارہ کی زندگی کو قبول نہ کریں تو انہوں نے مذکورہ آیات (وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسیٰ لَنْ نُؤمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَةً فَاَخَذَتْکُمْ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ) کی مختلف توجیہ بیان کی ہے۔مثلاً” آلوسی” نے ”روح المعانی ”میں نقل کیا ہے کہ موت سے مراد یہاں بے ہوشی ہے یعنی بنی اسرائیل صاعقہ عظیم دیکھنے سے بے ہوش ہو گئے تھے۔ پھر حکم خدا سے ہوش میں آگئے۔ (4)بعض مفسرین نے قدم کچھ اور آگے بڑھایا ہے اور ”موت” کے معنی ”جہالت” اور ”بعث” کے معنی ”تعلیم” بیان کئے ہیں۔لیکن آیات کی لفظوں پر غور کرنے سے خودبخود واضح ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی توجیہ قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی ایک حقیقت پسند مفسر کو زیب دیتی ہے۔ کیونکہ خداوندعالم تو فرمارہا ہے( ثُمَّ بَعَثْنَکُمْ مِنْ بَعْدَ مَوْتِکُمْ ) پھر تمہیں تمہاری موت کے بعد ہم نے اٹھایا جبکہ یہ تفسیریں آیت کے ظاہری مفہوم کے بالکل خلاف ہیں۔رجعت کی دلیل سورہ مومن کی آیت( ١١) میں بھی ملتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔” قَالُوْا رَبَّنَا اَمَتَنَا اثْنَتَیْنِ وَ اَحْیَیْتَنَا اِثْنَتَیْنِ فَاْعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِنْ سَبِیْلٍ” وہ لوگ (کفار) کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تو ہم کو دوبار موت دے چکا ہے اور دوبارہ زندہ کر چکا ،تو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں تو کیا یہاں (جہنم) سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے۔ اگرچہ مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کفار کا قیامت میں دوبار زندہ کرنے اور دو بار مارنے کی شکایت سے کیا مراد ہے۔جیسا کہ قتادہ، ضحاک اور ابن عباس کا خیال ہے کہ پہلی دفعہ زندہ کرنے سے مراد پیدا کرنا ہے اور دوسری دفعہ زندہ کرنے سے مراد قیامت میں زندہ کرنا ہے۔ اور پہلی دفعہ موت سے مراد نطفہ کی حالت ہے اور دوسری دفعہ موت سے مراد دنیاوی زندگی کے بعد کی موت ہے۔ (5)اور جبائی کا خیال ہے کہ پہلی زندگی دنیاوی زندگی ہے اور دوسری قبر کی زندگی ہے اور پہلی موت دنیاوی موت ہے اور دوسری قبر کی زندگی کے بعد کی موت ہے۔ (6)لیکن سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ ان میں کوئی حالت بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نہ نطفہ کی حالت کو کوئی مارنا کہہ سکتا ہے اور نہ پیدائش کو زندہ کرنا۔ اسی طرح قبر کی قلیل زندگی کو نہ کوئی زندگی کہہ سکتا ہے اور نہ اس مرنے کو مرنا جس طرح افاقة الموت کو نہ کوئی صحت کہہ سکتا ہے اور نہ سونے کے بعد جاگ اٹھنے اور ہوش میں آجانے کو زندہ ہونا بلکہ غور کیا جائے تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ پہلی موت سے مراد یہاں دنیاوی زندگی کے بعد کی موت ہے اور دوسری موت سے مراد رجعت کے بعد کی موت ہے۔ اور پہلی دفعہ زندہ کرنے سے مراد رجعت کا زندہ کرنا ہے اور دوسری دفعہ قیامت میں زندہ کرنا مراد ہے۔ اور ان دونوں حیاتوں اور موتوں کے زندہ اور مردہ کرنے کے مصداق واقعی ہونے میں کوئی شک نہیں کر سکتا۔اس سے آگے چل کر رجعت کی دلیل سورہ حجر کی چند آیات میں بھی ملتی ہے کہ جب شیطان بارگاہ الہٰی سے نکالا گیا اور اس سے خداوندعالم نے یہ کہا کہ تو بہشت سے نکل جا بیشک تو مردود ہے اور یقیناً تجھ پر روز جزا تک لعنت برسا کرے گی۔ تو اس نے پلٹ کر کہا”رَبِّ فَانْظُرْنیِ اِلیٰ یُوْمِ یُبْعَثُونَ”پروردگار تو مجھے اس دن تک کی مہلت دیدے جبکہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔(7)تو خدا نے فرمایا” فَاِنَّکَ مِنَ الْمِنْظِرِیْنَ” تو مہلت حاصل کرنے والوں میں سے ہے۔(7)” اِلیٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ”(لیکن روز قیامت تک نہیںبلکہ) معین دن اور وقت تک۔(9) اگرچہ بعض مفسرین نے وقت معلوم سے مراد روز قیامت لیا ہے ،لیکن اگر مندرجہ بالا آیت میں وقت معلوم سے مراد قیامت کا دن ہوتا اور شیطان کو قیامت تک کی مہلت دی گئی ہوتی تو خداوند عالم کا اس کی درخواست پر یہ کہہ دینا کافی ہوتا کہ اچھا منظور ہے لیکن اس نے شیطان کی درخواست پر یہ نہیں کہا کہ منظور ہے بلکہ یہ کہا مہلت ہے لیکن معین دن اور وقت تک کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دن قیامت کا دن نہیں ہے بلکہ کوئی اور دن ہے۔ جو قیامت کے علاوہ ہے ممکن ہے یہی دن رجعت کا دن ہو۔اور پھر وقت معلوم کو رجعت سے تعبیر کرنے میں حرج ہی کیا ہے جبکہ روایتوں اور احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جب امام زمانہ ظہور کریں گے تو ہر طرف اسلام ہی اسلام ہوگا۔ چاروں طرف حق ہی حق نظر آئے گا،باطل کا نام و نشان نہ رہے گا،اور شیطان کے بہکانے کی کارروائی ختم ہو جائے گی بلکہ شیطان اور شیطنت دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ان آیات کے علاوہ سورہ نمل کی آیت ٨٣ پر بھی غور کرنے سے رجعت کی واضح دلیل سامنے آجاتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ”وَ یَوْمَ نُحْشِرُ مِنْ کُلُّ اُمَّةٍ فَوْجاً مِمَنْ یَکْذِبُ بِاٰیتِنٰا فَھُمْ یُوزَعُوْنَ”اس دن کا سوچو! جب ہم ہر امت میں سے ایک گروہ کو محشور کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے اور انہیں روکے رکھیں گے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے آ ملیں گے۔اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دن ایسا آئیگا جب خداوندعالم ہر امت میں سے ایک گروہ کو محشور کرے گا اور انہیں ان کے کئے کی سزا دے گا لہٰذا واضح ہوا کہ یہ دن قیامت کا دن نہیں ہوگا بلکہ کوئی اور دن ہوگا کیونکہ قیامت کے دن کے لئے تو ارشاد ہوتا ہے” وَحَشَرْنٰھُمْ فَلَمْ نُغَادِرُ مِنْھُمْ اَحَداً”(10) ہم ان سب کو محشور کریں گے اور کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ جب ہر امت میں سے ایک گروہ محشور ہوگا تو وہ زمانہ رجعت کا زمانہ ہوگا اور جب سارے انسانوں کو محشور کیا جائے گا تو وہ روز قیامت کاروزہوگا۔اب ذرا سورہ بقرہ کی آیت (٢٥٩) ملاحظہ فرمائیں جس میں خداوندعالم ایک نبی کے دوبارہ زندہ کرنے کا حال بیان کر رہا ہے کہ جس سے رجعت کی بہت ٹھوس اورمستحکم دلیل سامنے آتی ہے” اَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَھِیَ خَاوِیَةً عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ اِنِّی یُحْیِ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا فَامَاتَہ اللّٰہُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ قَالْ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْماً اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلیٰ طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہُ وَانْظُرْ اِلیٰ حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلیٰ العِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھاَ ثُمَّ نَکَسُوْھاَ لَحْماً فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیْرٍ””(اے رسولۖ) تم نے (اس بندہ کے حال) پر نظر کی جس کا گزر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے عرش و فرش گر چکے تھے ،تو اس بندہ نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا تو خدا وند عالم نے اس بندہ کو سو سال کے لئے موت دے دی اور پھر زندہ کیا اور پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے تو اس نے کہا کہ ایک دن یا کچھ کم۔ فرمایا :نہیں سو سال ذرا اپنے کھانے اور پینے کو تو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ کرو کہ (سڑ، گل گیا ہے) اور ہم اسی طرح تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں پھر ان (گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، پھر جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی تو بیساختہ آواز دی کہ مجھے معلوم ہے کہ خدا ہر شئی پر قادر ہے۔”یہ واقعہ جناب عزیر کا ہے جنہیں خداوندعالم نے مرنے کے بعد اسی دنیا میں دوبارہ زندہ کیا جس سے رجعت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اصحاب کہف کی داستان بھی رجعت سے ملتی جلتی ہے، نیز حضرت ابراہیم کے ان چار پرندوں کا واقعہ بھی رجعت کے حوالے سے قابل غور ہے جنہیں ذبح کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا۔
رجعت احادیث و روایات کی روشنی میں :اہل بیت پیغمبر جو ہمیشہ قرآن کے ہمراہ ہیں اور کلام الٰہی کے حقیقی مفسر ہیں ،جن کے اقوال پر بھروسہ کرنا عین ایمان ہے، رجعت کے سلسلے میں بہت سی احادیث بیان فرماتے ہیں، نیز اس سلسلے میں بہت سی روایات بھی ملتی ہیں جنہیں معتبر راویوں نے ائمہ اہل بیت سے نقل کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
امام صادق بیان فرماتے ہیں :اَیاَّمُ اللّٰہِ ثَلَا ثَة :یَوْمُ الْقَائِمِ وَ یَوْمُ الْکُرْہِ وَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ”خدا کے تین دن ہیں: حضرت مہدی کا دن ،رجعت کا دن اور قیامت کا دن۔”ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوْمِنْ بِکَرَّتِنَا”جو شخص ہماری رجعت کو قبول نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔”دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:اِنّ الرَّجْعَةَ لَیْسَتْ بِعَامَةٍ وَھِیَ خَاصَة لَا یَرْجَعُ اِلاَّمَنْ مَحَضَ الْاِیْمَانِ مَحْضاًاَوْ مَحْضَ الشِّرْکِ مَحْضاً”رجعت عمومی نہیں بلکہ خصوصی ہے جس میں صرف اور صرف وہی لوگ واپس لوٹیں گے جو خالص مومن یا خالص مشرک ہوں گے” (11)جابر جعفی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے آیت ” وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَة مِنَ اللّٰہِ وَ رَحْمَة خَیْر مِمَّا یَجْمَعُوْنَ” (12)”(اب) اگر تم راہ خدا میں قتل ہو جاؤ یا مر جاؤ (تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا)کیونکہ خدا کی رحمت اور مغفرت ان تمام چیزوں سے جو انہوں نے (ساری زندگی میں) جمع کیا ہے بہتر ہے”کی تفسیر میں فرمایا : اے جابر ! کیا تم جانتے ہو کہ اس آیت میں راہ خدا سے کیا مراد ہے۔ کہا خدا کی قسم نہیں جانتا ہوں بلکہ آپ سے اس کا جواب سننا چاہتا ہوں، امام نے فرمایا :راہ خدا سے مراد علی اور اولاد علی کی راہ میں قتل ہونا ہے، جو ان کی محبت میں قتل ہو سمجھو وہ خدا کی راہ میں قتل ہوا ہے اور وہ لوگ اس آیت پر ایمان رکھتے ہوئے قتل ہوں گے کہ وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے پھر اس کے بعد موت واقع ہوگی۔علامہ مجلسی آیت ”وَلَئِنْ مُتُمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَا اِلیَ اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ” اگر تم مر جاؤ یا قتل ہو جاؤ تو خدا کی طرف پلٹ جاؤگے۔ (13) کی تفسیر میں امام جعفر صادق کا بیان نقل کرتے ہیں کہ اس آیت میں حشر سے مراد ”رجعت” ہے۔علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار میں معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:علی مسجد میں سوئے ہوئے تھے کہ پیغمبر خدا وہاں تشریف لائے ،اورعلی کو بیدار کرکے فرمایا :قم یا دابة اللہ، اے دابة اللہ اٹھورسول اللہ کے ساتھیوں میں سے کسی نے عرض کی ،یا رسول اللہ ۖ کیا ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ایک دوسرے کو اس نام سے پکاریں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا نہیں یہ علی کا خاص نام ہے اور یہ وہی ”دابة الارض” ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے” وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرِجْنَا لَھُمْ دَآبةً مِنْ الْاَرْضِ تُکَلِّمُھُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوقِنُوْنَ”اور جب ان پر عذاب کا حکم آ پہنچے گا (اور وہ قیامت کے کنارے پہنچ جائیں گے) تو ہم ایک چلنے والا زمین سے نکالیں گے کہ جو ان سے گفتگو کرے گا اور کہے گا کہ لوگ ہماری آیات پر ایمان نہیں لاتے۔ (14)پھر آپ نے فرمایا : علی ! آخری زمانے میں خداوندعالم تمہیں بہترین صورت میں زندہ کرے گا اور تمہارے ہاتھ میں ایک ایسی چیز عطا فرمائے گا جس سے تم دشمنوں پر نشان لگاؤگے (15)کتاب منتخب البصائر میں حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ سب سے پہلے جناب امام حسین کی رجعت ہوگی اور وہ شہداء کربلا کے ساتھ ہوں گے بلکہ بارہ ہزار مومنین بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور قاتلان امام حسین سب کے سب زندہ کئے جائیں گے اور امام زمانہ اپنے جد اور ان کے اعوان و انصار کے خون کا بدلہ لیں گے اور اپنے ہاتھ سے ان ظالموں کو قتل کریں گے ،اس کے بعد امیرالمومنین تشریف لائیں گے اور حضرت کی تمام اولاد جمع ہوگی اس کے بعد رسول خداۖ شہدا اور مہاجرین کے ساتھ ظہور فرمائیں گے اور وہ لوگ بھی حاضر ہوں گے جنہوں نے رسولۖ کو جھٹلایا اور احکام سے روگردانی کی۔منتخب البصائر میں چھٹے امام سے روایت ہے کہ جناب فاطمہ زہرا و ائمہ طاہرین کی رجعت ہوگی اور جن لوگوں نے حضرت پر ظلم کئے ہیں ان کو بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور یہ حضرات بارگاہ رسالت میں اپنی مصیبتوں کو بیان کریں گے۔ حضرت امیر المومنین اور حضرت فاطمہ، امام حسن کے ظلم اور مصیبت بیان کریں گے اس کے بعد امام حسین اپنی مصیبت بیان کریں گے جس پر رسولۖ خدا امام حسین کو گلے لگا کر اس طرح گریہ کریں گے کہ تمام اہل زمین و آسمان میں کہرام برپا ہو جائے گا اور جناب فاطمہ کا گریہ اتنا دردناک ہوگا کہ زمین لرزنے لگے گی۔
فلسفہ رجعت :عام طور سے اس عقیدے کے بارے میں جو اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیام قیامت سے پہلے رجعت کے وقوع پذیر ہونے کا کیا فلسفہ ہے؟اسلامی روایات کے پیش نظر رجعت سب کے لئے نہیں ہے بلکہ ایسے خاص نیک اور صالح مومنین کے لئے مخصوص ہے جو ایمان کے اعلی درجہ پر فائز ہیں اسی طرح ان کفار اور سرکش ظالموں کے لئے ہے کہ جو کفر و ظلم کے لحاظ سے نہایت ہی پستی کا شکار تھے۔رجعت کے اسباب و علل کے بارے میں غور کرنے سے دو اہم مقاصد سمجھ میں آتے ہیں :پہلا مقصد یہ ہے کہ رجعت کے ذریعہ اسلام کی حقیقی عزت و عظمت اور کفر کی ذلت کو آشکار کیا جائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ باایمان اور نیک انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا مل سکے اور کافروں اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے تاکہ باایمان اور نیک افراد کمال و ارتقاء کے اعلی ترین مرحلے کو پہنچ جائیں اور کفر و ظلم اختیار کرنے والے عذاب دنیاوی کا بھی مزہ چکھ لیں۔
رجعت اور تناسخ کے درمیان واضح فرقیہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیعہ حضرات جس رجعت پر عقیدہ رکھتے ہیں اس کا لازمہ تناسخ (یعنی روح کا ایک بدن سے نکل کر دوسرے میں داخل ہو جانا جسے آواگون کہتے ہیں) کا معتقد ہونا نہیں ہے کیونکہ نظریہ تناسخ کی بنیاد قیامت کے انکار پر ہے اور تناسخ والے اپنے اس نظریے کے مطابق دنیا کو دائمی طور پر گردش میں جانتے ہیں اور اس کا ہر دور اپنے پہلے والے دور کی تکرار ہے ۔اس نظریہ کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح دوبارہ اس دنیا میں پلٹتی ہے اور کسی دوسرے بدن میں منتقل ہو جاتی ہے اگر وہ روح گذشتہ زمانے میں کسی نیک آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اب اس زمانے میں کسی ایسے آدمی کے بدن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی خوشی و مسرت کے ساتھ بسر ہونے والی ہو لیکن اگر یہ روح گذشتہ زمانے میں کسی بدکار آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اس زمانے میں ایسے آدمی کے بدن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی سختیوں میں گزرنے والی ہو۔ اس نظریہ کے اعتبار سے روح کا اس طرح سے واپس لوٹنا ہی اس کی قیامت ہے۔جبکہ رجعت کے معتقد افراد شریعت اسلامی کو پیش نظر رکھ کر قیامت اور معاد پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ کسی روح کا ایک بدن سے کسی دوسرے بدن میں منتقل ہونا محال ہے۔اہل تشیع صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں میں ایک گروہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واپس آئے گا اور چند حکمتوں اور مصلحتوں کے پورا ہو جانے کے بعد پھر اس دنیا سے چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ گروہ بھی باقی انسانوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔ اس اعتبار سے روح ایک بدن سے جدا ہونے کے بعد ہرگز دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوگی۔
رجعت پر ہونے والے اعتراضات :اگرچہ شیعوں نے اپنا یہ عقیدہ کلام الٰہی اور مکتب اہلبیت سے حاصل کیا ہے لیکن پھر بھی بعض ناآگاہ افراد نے اس سلسلے میں مذہب شیعہ پر کھل کر حملے کئے ہیں اور رجعت کو ایک مہمل اور بے بنیاد عقیدہ قراردیا ہے بلکہ اسے باطل عقائد سے تعبیر کیا ہے جیساکہ احمد امین مصری اپنی کتاب ”فجرالاسلام” میں کہتا ہے :اَلْیَھُوْدِیَّةُ ظَھَرَتْ بِالتَّشَیُعِ بِالْقَوْلِ بِالرَّجْعَةِرجعت کے عقیدے کی وجہ سے مذہب شیعہ میں یہودیت نمایاں ہوئی ہے۔ (16)اب آپ ہی غور کیجئے کہ احمد امین مصری کی ان باتوں میں اور زمانہ جاہلیت کے عربوں کے جسمانی معاد کے انکار میں کیا فرق رہ جاتا ہے جبکہ رجعت کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں جنہیں بہت سارے ثقہ راویوں نے ائمہ اہلبیت سے نقل کیا ہے۔ان سب روایات کا یہاں اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ وہ اعداد و شمار درج کر دیں جو علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے جمع کیا ہے وہ فرماتے ہیں :”یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ کوئی شخص ائمہ اہلبیت کے اقوال کی صداقت پر تو ایمان رکھتا ہو لیکن رجعت کے بارے میں متواتر حدیث کو قبول نہ کرے اس بارے میں دو سو کے نزدیک صریح احادیث موجود ہیں جنہیں چالیس سے زیادہ ثقہ راویوں اور علمائے اسلام نے پچاس سے زیادہ کتابوں میں درج کیا ہے۔” (17)خدایا : ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم فرمامنتقم خون سید الشہداء کے ظہور میں تعجیل فرمااور ہمیں ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما*******١۔ سورۂ بقرہ، آیت٥٥2۔ بقرہ، ٥٦3۔ آل عمران ،٤٩4۔ تفسیر نمونہ جلد اول، ص ٢٠٨5 ۔ 6: تفسیر مولانا فرمان علی صاحب، ص ٥٦٠7۔ حجر آیت ٣٦8۔ حجر آیت ٣٧9۔ حجر آیت ،٣٨10۔ کہف، آیت ٤٧11۔ تفسیر نمونہ، جلد ٨، ص ٧٢٨ بحوالہ بحارالانوار، جلد ٥٣، ص ٣٩12۔ آل عمران ،١٥٧13۔ آل عمران، ١٥٨14۔ نمل ،٨٢15۔ بحار الانوار، جلد ٥٣، ص ٥٢16۔ عقائد الامامیہ از شیخ محمد رضا مظفر ص ٧١17۔ (بحارالانوار، جلد ٥٣، ص ١٢٢)