موجودہ قرآن کی جمع آوری

438

سوال:جو قرآن همارے اختیار میں هے اس کی جمع آوری و تنظیم کس زمانه میں هوئی؟
یه بات مسلم هے که جب حضرت رسول اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) لوگوں کے لیئے قرآن کی آیتیں پڑھتے تھے تو جو افراد کاتب وحی تھے ان آیتوں کو ﻟﮐﮭ لیا کرتے تھے ،لیکن قرآنی آیات کی جمع آوری اور اس کی کلی تدوین کس زمانه میں هوئی ؟ اس وقت جو مجموعه قرآن کے نام سے همارے هاتھوں میں هے ، کس زمانه میں وجود میں آیا؟
جواب :جمع قرآن کے سلسله میں تین نظریه پائے جاتے هیں:
الف:قرآن کریم خود پیغمبر اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) کے زمانه میں اور آنحضرت (صل الله علیه و آله وسلم) کی الهی روشنی میں تدوین پایا، هر چند خود رسول خدا (صل الله علیه و آله وسلم) نے خود قرآن تحریرنهیں کیا اورخود آیتوں کی جمع آوری نهیں فرمائی۔[1]
ب: موجوده قرآن حضرت علی علیه السلام کے ذریعه ،آنحضرت (صل الله علیه و آله وسلم) کی رحلت کے بعد جمع هوا اور تدوین پایا ،اور یه کام اس زمانه میں انجام پایا جب آپ خانه نشین تھے۔[2]
ج: قرآن آنحضرت (صل الله علیه و آله وسلم) کی رحلت کے بعد بعض اصحاب کے هاتھوں جن میں حضرت علی علیه السلام نهیں تھے جمع و تدوین کے مرحله سے گذرا [3] ۔ بهت سےشیعه علماء خاص طور سے علمائے متاخرین اور علمائے معاصر ،معتقد هیں که قرآن پیغمبر اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) کے زمانه میں اور ان کی زیر نگرانی جمع کیا گیا۔ [4]
بعض شیعه دوسرے نظریه کو قبول کرتے هیں اور امیر المومنین علیه السلام کو قرآن کا جمع و تدوین کرنے والا سمجھتے هیں،[5] لیکن بهتت سے اهل سنت تیسرے نظریه کو قبول کرتے هیں اور مستشرقین نے بھی اسی نظریه کو مانا وه کهتے هیں که جو قرآن حضرت علی علیه السلام نے جمع کیا تھا اسے اصحاب نے قبول نهیں کیا۔
جیسا که ظاهر هے ، پهلے اور دوسرے نظریه که اعتبار سے قرآن کی جمع و تدوین کی اساس خداوند عالم کی ذات هے اور سوروں کا وجود اور ان کی ترتیب بھی وحی الهی کے پرتو میں انجام پائی هے ،کیونکه رسول اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) آیت کریم:”ما یَنطِقُ عَنِ الهویٰ الّا وَحیٌ یوحیٰ”[6] مطابق جو ﮐﭼﮭ فرماتے تھے وه وحی الهی کی رهنمائی کیں هوتا تھا ،اور ائمه معصومین علیهم السلام بھی اگر نبی نهیں تھے ،لیکن راه رسالت کو برقرار رکھنے والے ،عصمت جیسا الهی منصب اور علم لدنی رکھتے تھے۔
جن لوگوں نے تیسرے نظریه کو اختیار کیا هے وه ان دونوں یعنی سوروں کے وجود اور ان کی ترتیب کی الهی حیثیت کوثابت نهیں کر سکتے ،بلکه حقیقت میں اس کی نفی کرتے هیں اور اصحاب کی ذاتی ذوق و سلیقه کو اس میں دخیل جانتے هیں۔
یهاں چند نکتوں کا ذکر ضروری هے :
1- علامه طباطبائی آیه شریفه:” انّا نَحنُ نَزَّلنا الذِکرَ و انّا لهُ لحافظون”[7] کے ذیل میں فرماتے هیں : جو خصوصیتیں قرآن کے لیئے ذکر هوئی هیں مثلا فصاحت و بلاغت ،اختلاف کا نه هونا ،لوگوں کا اس کے مثل لانے سے عاجز هونا، یه سب هی قرآن میں موجود هے جو همارے هاتھوں میں هے ۔ اس سے انهوں نے یه نتیجه نکالا هے که یه قرآن وهی قرآن هے جو صدر اسلام میں خود رسول خدا(صل الله علیه و آله وسلم) کے زمانه میں پهنچانا جاتا تھا۔[8]
یه بات اگر چه تحریف قرآن کی نفی کرتی هے ،لیکن یه ثابت نهیں کیا جاسکتا که یه مجموعه اس شکل و صورت میں وحیانی حیثیت رکھتا هے ،کیونکه مذکوره خصوصیتیں ایسی نهیں هیں جن سے یه ثابت کیا جائے که آیات کے مجموعه کی ترتیب جن سے سوره وجود میں آیا هے اور سوروں کے مجموعه کی ترتیب جس نے قرآن تشکیل دیا هے ،اسی طرح سے هے جو آنحضرت(صل الله علیه و آله وسلم) کے زمانه میں رهی هے ۔
2- اگر کوئی سوروں اور ان کی ترتیب کے دائره میں ان کے مفردات اور قرآنی ترکیبوں سے بڑھکر قرآن کے عددی اعجاز کو ثابت کرے ؛ یعنی ایک سوره کی آیات اور خود سوروں کے درمیان ایسے مخصوص عددی روابط پائے جائیں جن کا پیدا کرنا انسان کے بس میں نه هو تو سوروں اور ان کی ترتیبوں کو بھی وحیانی ثابت کیا جاسکتا هے ،لیکن بهر حال پھر بھی تمام آیات کی ترتیب کی وحیانی حیثیت جو ایک سوره میں جمع هوئی هیں ثابت نهیں هوگی۔[9]
مزید مطالعه کے لیئے ملاحظه هو:
هادوی تهرانی ،مھدی،مبانی کلامی اجتهاد۔
——————————————————————————–
[1] نک:سید عبد الوھاب طالقانی ،علوم قرآن ،ص 83 ۔
[2] نک:سید محمد رضا جلالی نائینی ،تاریخ جمع قرآن کریم،ص87 ۔
[3] اس نظریه کو اهل سنت کی اکثریت قبول کرتی هے،حواله گذشته،ص 19-51 ۔
[4] نک: سید عبد الوھاب طالقانی،علوم قرآن ،ص83 ؛ سید علی میلانی،التحقیق فی نفی التحریف عن القرآن الشریف،ص41-42 وص46 ۔ محمد ھادی معرفت ،صیانۃ القرآن من التھریف،ص34 ۔
[5] نک: سید محمد رضا جلالی نائینی ،تاریخ جمع قرآن کریم ،ص 80 ۔
[6] اور وه اپنی خواهش سے نهیں بلتے مگر وهی کهتے هیں جو ان پر وحی هوتی هیں(نجم،2-3 )
[7] بلا شبه هم نه قرآن کو نازل کیا هے اور یقیقنا هم اس کی نگهبانی کرتے هے(حجر،9)
[8] نک: علامه طباطبائی ،المیزان ،ج12 ،ص104 و ص 106 وص 138 ۔
[9] ھادوی تهرانی ،مهدی،مبانی کلامی اجتھاد، ص 54-55 ،موسسه ی فرهنگی خانه خرد، قم ،چاپ اول،1377 ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.