آزادی نسواں
اقبال اگرچہ عورتوں کے لئے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی ۔ اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی۔ ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے لئے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے۔
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا!مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیںقصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میںگواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویںفساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور!کہ مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں
اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔ اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لئے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے لئے بہتر کیا ہے۔اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قندکیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوبپہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزنداس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاشمجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مندکیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہآزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!