امام مہدی (عج) كے عقیدہ پر مسلمانوں كا اجماع
عقیدہ مہدویت كے مسلم الثبوت ہونے پر صدر اسلام كے مسلمانوں میں اجماع واضح اور بلا شبہ ہے
اجماع مسلمین سے مرادصرف اجماع شیعہ نہیں ہے كیونكہ یہ واضحات میں سے ہے اورسب جانتے ہیں كہ عقیدہ وجو دوظہور امام مہدی (عج) اصول وضروریات مذہب شیعہ اثنا عشری میں سے ہے جس میں كوئی بحث كی گنجائش نہیں ۔ بلكہ اجماع مسلمین سے مراد اجماع شیعہ و اہل سنت ہے رسول اللہ كی وفات كے بعد صحابہ و تابعین كے درمیان عقیدہ مہدی (عج) مسلم تھا اورظہور حضرت امام مہدی (عج) كے بارے میں كوئی اختلاف نہیں تھا، اسی طرح قرن اول كے بعد سے لے كر چودہوں صدی ہجری تك آپ كے ظہور كے سلسلے میں بھی تمام مسلمانوں كے درمیان اتفاق تھا، اوراگر كوئی ان احایث كی صحت اوران كے رسول خدا سے صادر ہونے كے بارے میں شك یاتردد كرتے تو اس شخص كی ناواقفیت پر حمل كرتے تھے، یہی وجہ ہے آج تك تاریخ اسلام میں جھوٹے اور جعلی مہدیوں كی رد میں كسی نے یہ نہیں كہا كہ یہ عقیدہ ہی باطل ہے، بلكہ حضرت مہدی (عج) كے اوصاف اور علامتوں كے نہ ہونے كے ذریعے رد كیا ہے ۔
مثال كے طور پر ” ابو الفرج” لكھتے ہیں: ” ابوالعباس” نے نقل كیا ہے كہ میں نے مروان سے كہا” محمد [بن عبداللہ] ” خود كو مہدی كہتے ہیں، اس نے كہا: نہ وہ مہدی موعود (عج) ہے نہ ان كے باپ كی نسل سے ہوگا بلكہ وہ ایك كنیز كا بیٹا ہے ۔ 1
ابو الفرج ہی لكھتے ہیں: جعفر بن محمد [امام جعفر الصادق] علہ اسلام جب بھی محمدبن عبداللہ كو دیكھتے گریہ كرتے تھے اورفرماتے تھے ” ان پر [حضرت مہدی (عج)] میری جان فدا ہو، لوگ خیال كرتے ہیں كہ یہ شخص مہدی موعود ہے جب كہ یہ قتل كیا جائے گا اوركتاب علی علیہ السلام میں امت كے خلفاءكی لسٹ میں اس كا نام نہیں ہے ۔ 2
مختصریہ كہ ” عقیدہمہدویت ” صدر اسلام سے ہی مسلمانوں كے درمیان مشہور تھا اورلوگوں میں اتنا راسخ ہوگیا تھا كہ وہ صدر اسلام ہی سے ان كے انتظار میں تھے اورہر لمحہ صحیح مصداق كی تلاش میں رہتے تھے اوركبھی غلطی سے بعض افراد كو مہدی سمجھ بیٹھتے تھے، اور جیسا كہ عرض كیا مسئلہ مہدی (عج) پر مسلمانوں كا اجما ہے ۔چنانچہ :
1۔ ” سویدی ” ” سبائك الذہب” میں تحریر كرتے ہیں :
“الذین اتفق علیہ العلماءان المہدی ھو القائم فی آخر الوقت، انّہ یملاء الارض عدلاً والاحادیث فیہ وفی ظہورہ كثیرہ ۔”
وہ چیز جس پر علماءاسلام كا اتفاق ہے وہ یہ ہے مہدی قائم كی شخصیت جو آخری زمانے میں ظہور فرمائیں گے اورزمین كو عدل سے پر كردیں گے۔ اورحضرت مہدی (عج) كے وجود اورظہور كے بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں۔ 3
2۔ جناب ابن ابی الحدید معتزلی ” شرح نہج البلاغہ ” میں لكھتے ہیں :
“قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی انّ الدنیا والتكلیف لاینقض الّا علیہ۔” 4
تمام شیعہ وسنی مسلمانوں كا اس بات پر اتفاق ہے كہ یہ دنیا اور تكلیف ختم نہیں ہوگی مگر یہ كہ حضرت مہدی پر، یعنی حضرت مہدی كے ظہور كے بعد۔
3۔ شیخ علی نامف “غایة المامول” میں لكھتے ہیں:
“اتّضح مماسبق ان المہدی المنتظر من ہذہ الامة وعلی ہذا سلفاً وخلفاً۔ 5
” مہدی منتظر اسی امت میں سے ہیں اوراہل سنت میں سے جو لوگ گزر گئے اور جو آنے والے ہیں سب كا یہی عقیدہ تھا اور ہے ۔”
4۔ علامہ شیخ محمد سفاری حنبلی ؛ ” لوایع الانوار البہیّة” میں لكھتے ہیں:
“فاالایمان بخروج المہدی واجب كما ہو مقرر عنداہل العلم ومدوّن فی عقاید اہل السنہ والجماعة”
امام مہدی كے خروج اور ظہور پر ایمان ركھنا واجب ہے جیسا كہ یہ بات اہل علم كے نزدیك مشخص اور عقائد ہ اہل سنت والجماعت میں لكھی ہوئی ہے ۔ 6
5۔ جناب ابن خلدون ” المقدمہ میں لكھتے ہیں :
“اعلم انّ المشہور بین الكافہ من اہل الاسلام علی ممرالاعصار انّہ لابدّ من آخر الزمان من ظہور رجل من اہل البیت یوید الدّین ویظہر العدل ویتبعہ المسلمون ویستولی علی الممالك الاسلامیہ ویُسمی باالمہدی ”
” جان لیں ! تمام اہل اسلام [اعم از شیعہ وسنی ] میں یہ بات مشہور تھی اورہے كہ آخر ی زمانے میں اہل بیت پیغمبر میں سے ایك شخص ظہور فرمائے گا وہ دین كی مدد كرے گا اور عدل كا قیام كرے گا اورتمام مسلمان اس كی پیروی كریں گے، وہ اسلامی ممالك كی سرپرستی كرے گا اوراس كا نام مہدی ہوگا۔ 7
6۔ علامہ محمد جواد مغنیہ مصری ” الشیعہ والتشیع ” كے ص، ۶۳۲ پر لكھتے ہیں “وجود مہدی (عج) كو عقل كے سامنے پیش كیا تو انكار نہیں كیا، قرآن كی طرف رجوع كیا تو اس موضوع كے مشابہ بہت پایا، حدیث نبوی كی طرف مراجعہ كیا، حدیثیں بہت زیادہ تھیں، اہل سنت والجماعت كی كتابوں میں تلاش وجستجو كی تو سب كو اپنا ہم عقیدہ پایا، پس كس طرح یہ مسئلہ [مہدی (عج)] مسائل خرافی میں سے ہے ؟ فاضل مصنف حضرت مہدی (عج) كے بارے میں علماءاہل سنت كے اقوال كو بیان كرنے كے بعد لكھتے ہیں” پس یہ مہدی (ع) جسے ترمذی، ابن ماجہ، ابی داوود، ابن حجر، ابن صباغ مالكی وصفدی وغیرہ كہتے ہیں وہی مہدی موعود ہیں جن كے وجود كے شیعہ قائل ہیں :اگر حضرت مہدی (عج) كا وجود مسائل خرافی میں سے ہے تو اس كے ،ذمہ دار خود پیغمبراكرم (ص) ہیں، اور وہ لوگ جو وجود مہدی (ع) كا مذاق اڑاتے ہیں حقیقت میں یہ لوگ اسلام اور رسول اكرم (ص)كا مذاق اڑاتے ہیں، كیوں كہ پیغمبراكرم (ص) نے فرمایا: ” من انكر المہدی فقد كفر بما انزل علیٰ محمد ” جس نے مہدی كا انكار كیا وہ كافر ہوگیا ۔ 8
7۔ قاضی بھلول آفندی المحاكمہ فی تاریخ آل محمد ” میں لكھتے ہیں :”انّ ظہورہ امراتفق علیہ المسلمون فلا حاجة الیٰ ذكر الدلیل۔”حضرت مہدی (عج) كا ظہور ایك ایسا امر ہے جس پر تمام مسلمانوں كا اتفاق ہے، لہذا كسی دلیل كے ذكر كرنے كی ضرورت نہیں ہے ۔یہ تھے چند بزرگ سنی علماءكے اقوال جن میں وجود اور ظہور حضرت امام مہدی (عج) پر اجماع كا دعوی كیا گیا ہے ۔
8۔ ایك اورقول ملاحظہ فرمائیں ” حضرت مہدی (ع) كے ظہور اورآمد كے بارے میں دنیا كے كسی مسلمان كا اختلاف نہیں، اہل سنت كے چاروں امام اور عہد حاضر میں مسلمانوں كے تمام مكاتب فكر حضرت امام مہدی (عج) كے ظہور اورآمد پر متفق ہیں البتہ اہل سنت اور شیعہ! دونوں كے عقاید كے مطابق
امام مہدی (عج) كا ایك ہونا كسی بھی چھوٹی سی روایت اورآنحضرت كی بیان كردہ كسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔
“ہم نہیں جان سكے كہ شیعہ نے ظہور مہدی كے بارے میں جو عقیدہ اپنا یا ہے اس كا مآخذ كیا ہے، صرف آنحضرت ہی نہیں بلكہ شیعہ كے مذكورہ عقیدے كی تائید میں حضرت علی رض حضرت حسن ؛اورحضرت حسین رض كی طرف سے بھی كوئی سند نہیں ملتی۔”
“آنحضرت كی بیان كردہ احادیث كے مطابق ” بعثت مہدی” كا عقیدہ تو تیار ہوگیا، لیكن وہ آنحضرت كی بیان كردہ ساٹھ ۶۰ سے زیادہ علامات كو اپنے مزعوم ” امام مہدی ع ” پر منطبق نہ كرسكے۔ انہیں یہ مشكل ہر دور میں پیش آئی ہے 9یہ تھے جناب فاروقی صاحب كے الفاظ كہ انہوں نے بھی تسلیم كیا ہے كہ ظہور حضرت مہدی (عج) كے بارے میں مسلمانوں كے تمام مكاتب اتفاق نظر ركھتے ہیں ان كے اور دوسرے علماءاہل سنت كے اقوال كا نتیجہ یہ ہے كہ ” عقیدہ وجود وظہور حضرت مہدی (ع)” ؛مسلمانوں كے متفق علیہ عقاید میں سے ایك ہے اوراس عقیدے كے واضع خود پیغمبر اكرم (ص) ہیں ۔
لیكن جناب فاروقی كا یہ كہنا كہ “شیعہ اوراہل سنت كے عقاید كے مطابق امام مہدی (عج) كا ایك ہونا كسی بھی چھوٹی سی روایت سے ثابت نہیں ہوتا”
ایك غلط دعویٰ ہے، كیونكہ حضرت مہدی (ع) كے بارے میں جوروایتیں وارد ہوئی ہیں اسے شیعوں نے بھی نقل كیا ہے اورسنی محدثین نے بھی،
رہا شیعوں كی روایات كے مآخذ، ! تو اسے جناب فاروقی صاحب بھی جانتے تھے كہ شیعہ روایات كاماخذ ومنبع وحی الہیٰ ہے جو خاندان وحی (یعنی آل رسول) كے توسط سے ان تك پہنچی ہے، لہذا كبھی بھی مقام تطبیق میں مشكل سے دچار نہیں ہوئے ۔
كاش فاروقی صاحب (عدم تطبیق) كی تہمت لگانے سے پہلے شیعہ علماء اور محققین كی كتابیں پڑھنے كی زحمت گوارا كرتے تو جس طرح وجود وظہور حضرت مہدی (عج) كا انكار نہ كرسكے اسی طرح واضح ہوتا كہ شیعوں كے نزدیك حتی وجود وذات والامقام حضرت مہدی (ع) بھی كبھی مبہم نہیں رہا اور وہ ابھی تك اس مسئلے میں دوسروں كے برخلاف مطمئن رہے ہیں اس لئے كہ جس كے ظہور كے وہ منتظر ہیں ابھی ان كا ظہور ہوا ہی نہیں ورنہ روایات شیعہ جن اوصاف كا ذكر كرتیں ہیں وہ سب ان كے امام پر كاملاً منطبق ہیں ۔
لیكن افسوس اہل سنت كے كچھ افراطی وتفریطی گروہ پر جو مدارك سند تاریخ اوراسلامی افكار كے گہرے مطالعہ كی محرومی یاكتب اہل سنت میں موجود متضاد احادیث كی وجہ سے مشكلات كا شكار ہوئے ہیں یاہورہے ہیں، لیكن جن بزرگ سنی علماءنے اسلامی افكار اوراحادیث كا گہرا اور دقیق مطالعہ كیا ہے انہوں نے پہلے گروہ كے خلاف امام مہدی (عج) كے شیعی تصور (جسے پیغمبر اكرم (ص) اوران كے اہل بیت (ع) نے پیش كیا تھا) كو قبول كیا
رسول خدا (ص)اورائمہ اہل بیت (ع) سے ایسی سیكڑوں احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے حضرت مہدی (ع) كا تعیین ہوتا ہے، نیز ان احادیث كی دلالت اس بات پر ہے كہ حضرت امام مہدی (عج)، اہل بیت (ع) میں سے ہون گے ،اولاد فاطمہ (س) میں سے ہوں گے، حضرت امام حسین (ع) كی ذریت میں سے ہوں گے وہ امام حسین (ع) كی نویں پشت میں ہیں ۔
امام یاخلیفہ وامیر بارہ ہوں گے، ان میں پہلے علی (ع)اورآخری مہدی (ع) ہوں گے یعنی مہدی (عج) بارہ اماموں میںسے ایك ہیں ۔یہ روایات اس عام تصور كو ائمہ اہل بیت (ع) كے بارہویں امام (حضرت مہدی بن حسن عسكری (ع)) میں محدود كردیتی ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے كہ ان روایات كو نقل كرنے والے جناب بخاری ومسلم وابی داوود واحمد، امام محمد تقی وامام علی النقی اورامام حسن العسكری كے ہمعصر تھے اس سے یہ بات واضح سمجھ میں آتی ہے كہ اس احادیث كو رسول اللہ سے اس وقت نقل كیاگیا جب كہ خارج میں اس كا مصداق نہیں تھا اور ائمہ كی تعداد مكمل نہیں ہوئی تھی۔ لہذا یہ شك نہیں كیا جاسكتا كہ یہ احادیث، شیعہ ائمہ (ع)كی واقعی تعداد كے مطابق نقل كردی گئی ہے تاكہ ان كے بارہ امام كے عقیدے كی تقویت ہو جائے اورجب تك ہمارے پاس یہ دلیل ہے كہ مذكورہ احادیث ائمہ اثناعشر (جن كے شیعہ قائل ہیں) كی واقعی تعداد مكمل ہونے سے پہلے ہی كتابوں میں نقل كی گئی ہے تو ہم اعتماد سے كہ سكتے ہیں كہ یہ حدیث كسی طے شدہ منصوبے كے تحت جعل نہیں ہوئی ہے بلكہ یہ ایك الہیٰ حقیقت ہے جسے اس نے بیان كیا ہے جو اپنی طرف سے اوراپنی خواہش سے كچھ نہیں كہتا ہے [وماینطق عن الہویٰ ان ہو الاّ وحی یوحیٰ] اور خلیفہ یاامام، یاامیر، بارہ ہوں گے آپ كی یہ پیشین گوئی اس وقت پوری ہوئی جب یہ تعداد امام المتقین امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) سے شروع ہوك امام مہدی (ع) تك بارہ ہوگئی اس طرح حدیث نبوی كاایك مصداق خارج مین متحقق ہوگیا ،” فماذا بعد الحقّ الاّ الضلال فانّیٰ تصرفون۔” 10
اور حق كی روشن راہ كے بعد بجز گمراہی كچھ نہیں تو تم كہا بہكے جارہے ہو؟
1. مقاتل الطالبین ،ص۲۴۱ ؛ آفتاب عدالت، ص ۸۵۔
2. مقاتل الطالبین ،ص۶۶۱ ؛ آفتاب عدالت، ص ۱۶۔
3. سویدی، سبائك الذہب، ص ۸۷۔
4. شرح نہج البلاغہ، ج۳،ص ۵۳۵۔
5. غایة المامول شرح تاج جامع الاصول، ج۵، ص۹۹۲۔
6. لوایع الانوار البہیہ وسواطع الاسرار الاثر یہ، ج۲، ص ۷۳۔
7. مقدمہ ابن خلدون ج۲، ص ۱۸۷، باب فی امر الفاطمی ومایذہب الیہ الناس۔
8. الشیعہ والتشیع، ص ۶۳۲۔
9. حضرت امام مہدی، ضیاءالرحمن فاروقی، ص۱۷،۱۸،۲۰
10. سورہ یونس، آیت ۲۳۔