طولانی عمرسائنس اورتاریخ کےمنظرمیں

254

سب سے پہلے ہم سائنسی اعتبار سے یہ دیکھیں گے کہ کیا انسان کی زندگی کی کوئی حد ہے؟ماضی میں کچھ دانشوروں کا خیال تھا کہ زندہ موجودات میں طبعی عمر کا ایک نظام موجود ہے۔مشہور سائنسدان پاولوف کے مطابق انسان کی طبعی عمر سو ١٠٠ سال۔روسی سائنسدان میچنکوف کے مطابق عمر انسان کا اوسط ڈیڑھ سو سال۔جرمن ڈاکٹر کو فلاند کے مطابق دو سو سال۔مشہور فزیولوجسٹ فلوگرمعتقد تھا کہ انسان کی طبعی عمر چھ سو سال۔انگریز فلسفی بیکن نے اس عدد کو بڑھا کر ہزار سال قرار دیا۔لیکن اس دور کے ماہرین علم الاعضاء نے ان عقائد کے محل کو مسمار کر دیا ہے۔اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسان کی عمر طبعی کی حدمعین کرنا غلط ہے۔اس سلسلے میں کیمیا یونیورسٹی کے استاد پروفیسر اسمبس کہتے ہیں۔جس طرح آخر کار صوتی(صوتی آواز کی) دیوار ٹوٹ گئی اور آواز کی سرعت سے بھی زیادہ تیز رفتار سواریاں اور حمل و نقل کے ذرائع ایجاد ہو گئے ہیں اس طرح ایک دن انسان کی عمر کی سرحدیں بھی ٹوٹ جائیں گی اور ہم نے اب تک جتنی عمر کا مشاہدہ کیا ہے وہ اس سے بھی آگے بڑھ جائے گی۔پروفیسر آتینگر نے اپنی ایک تقریر میں کہا: کہ جوان نسل ایک دن انسان کی جاویدانی اور ابدی حیات کو اسی طرح قبول کرے گی جیسا کہ آج لوگوں نے فضائی سفر کو تسلیم کیا ہے میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس تحقیق سے جو ہم نے شروع کر رکھی ہے کم از کم آئندہ صدی کا انسان ہزاروں سال کی زندگی بسر کرے گا۔ بحوالہ دانشمند شمارہ۔ان سائنسدانوں کی تائید وہ جرائد بھی کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان کی عمر بڑھتی جا رہی ہے مثلاً برطانیہ میں١٨٣٨ء سے ١٨٥٤ء تک مردوں کی عمر کا اوسط ٩١/٣٩ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ٨٥/٤١تھا لیکن ١٩٣٨ء میں مردوں کی عمر کا اوسط ١٨/٦٩ اور عورتوں کا اوسط ٤٠/٦٤ تھا۔١٩٥١ء میں امریکہ میں مردوں کی عمر کا اوسط ٢٣/٤٨ اور عورتوں کا اوسط٨٠/٥١ تھا جب کہ ١٩٤٤ میں مردوں کی عمر کا اوسط ٥٠/٦٣ اور عورتون کی عمر کا اوسط٩٥/٦٨ تک پہنچ چکا تھا یہ اضافہ بچوں کو شامل کرتے ہیں اور یہ طبعی حالت کی بہتری اور بیماریوں میں خصوصاً متعدی بیماریوں کے سدباب کا مرہون منت ہے۔اس عقیدے کا ثابت کرنے کے لیے جو زندہ دلیلیں پیش کر سکتے ہیں وہ بعض دانشوروں کے وہ تجربے جو انہوں نے مختلف حیوانوں اور نباتات پر کی ہیں۔وہ لوگ لیبارٹری کی ایک مخصوص فضا اور کفیت میں بعض اوقات ایک زندہ موجود کی عمر کو بارہ گنا بڑھانے میں کامیاب ہو سکے ہیں قابل اعتماد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حیوان کے بدن کے اعضائ رئیسہ میں سے ہر ایک میں لا محدود مدت تک رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگرانسان کے سامنے ایسے عوارض اور حادثات سامنے نہ آئیں جو کہ اس کی حیات کو منقطع کریں تو وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ان سائنسدانوں کا نظریہ کوئی خیال تخمینہ نہیں ہے بلکہ ان کے تجربوں کا نتیجہ ہے۔ایک جراح ڈاکٹر الکیس کارل جو کہ راکفلر کے علمی ادارے نیویارک کا ملازم تھا اس نے چوزے کے کٹے ہوئے جز پر تجریہ کیا اور وہ اس جز کو اس چوزے کی عام زندگی سے زیادہ دنوں تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کٹے ہوئے جز کی حیات کا دارومدار اس کے لیے فراہم کی جانے والی غذا پر منحصر ہے جب تک اسے کافی غذا ملتی رہے گی اس وقت تک وہ زندہ رہے گا۔موصوف اور دوسرے افراد نے یہی تجربہ انسان کے مصطوع اجزائ پر کیا جیسے عضلات قلب اور پھیپھڑے وغیرہ پر اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک ان اجزائ کو غذا اور مناسب فضا ملتی رہے اس وقت تک وہ انہی حیات کا رشد و نمو جاری رکھ سکتے ہیں۔جونس ہیکس یونیورسٹی کے پروفیسر ریمنڈیلوربرل کہتے ہیں۔انسان کے جسم کے اعضائ رئیسہ میں دائمی قابلیت و استعداد موجود ہے یہ بات تجربات سے ثابت ہو چکی ہے اور یہ نظریہ نہایت واضح ہے۔جاک لوب جو کہ خود بھی راکفلر میں ملازم تھا جس وقت وہ مینڈک کو تلقیع نہ شدہ تخم سے پیدا کرنے والے موضوع پر تحقیق میں مشغول تھا۔اس وقت اچانک اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ بعض انڈوں کو مدت دراز تک زندہ رکھا جا سکتا ہے اس کے بر عکس بہت سے کم عمر مر جاتے ہیں یہ قضیہ باعث ہوا کہ وہ مینڈک کے اجزائ پر تجربہ کریں چنانچہ اس تجربے میں انہیں مدت دراز تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ڈاکٹر ورن لویس نے اپنی زوجہ کے تعاون سے یہ ثابت کیا کہ پرندے کے جنین کے اجزائ کو نمکین پانی میں زندہ رکھا جا سکتا ہے اس طرح کہ جب بھی اس میں آبی مواد کا ضمیمہ کیا جائے گا اسی وقت ان کے رشد و نمو کی تجدید ہو گی ایسے تجربے مسلسل ہوتے رہے اور اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ حیوان کے زندہ خلیے ایسی سیال چیز میں اپنی حیات جاری رکھ سکتے ہیں جس میں ضروری غذائی مواد موجود ہے۔موت کے کارشناس و ماہر پروفیسر متالینکف لکھتے ہیں انسان کا بدن تیس ٹریلین خلیوں سے تشکیل پاتا ہے وہ سب یکبازگی نہیں ہو سکتے اس بنائ پر موت اس وقت مسلمہ ہو گی جب انسان کے مغز میں اسے کیمیائی تغیرات واقع ہو جائیں کہ جن کی مرمت ممکن نہ ہو۔٣٠ اگست ١٩٥٩ء کو ڈاکٹر ہانس یسلی کینیڈا کے شہر مونٹرال میں اخباری نمائندوں کو خلیے کی ساخت اور بافت دیکھائی اور بتایا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا اس نے مزید دعویٰ کیا کہ یہ خلیے ازلی ہے اور کہا: کہ انسان کے بافت خلیے کو بھی اسی شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا پروفیسر یسلی کا نظریہ ہے کہ موت تھیوری کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجی بیماری ہے موصوف ہی کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھاپے کی وجہ سے نہیں مرتا کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفی کی وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے اعضائ اور ان کے بدن کے مختلف خلیے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا بعض لوگوں کا انتقال اچانک اس لیے ہوتا ہے کہ اچانک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہو جاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضائ ایک مشین کے پرزوں کی طرح مربوط اور متصل ہیں اس لیے ایک کے بیکار ہونے سے سارے بیکار ہوتے ہیں پروفیسر میل نے اعلان کیا کہ علم طب اور میڈیکل ایک دن اتنی ترقی کرے گا کہ فرسودہ خلیے کی جگہ نیا خلیہ انجکشن کے ذریعے رکھ دیا جائے گا اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا بحوالہ دانشمند شمارہ۔ڈاکٹر کارل نے اپنے پے در پے تجربوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ اجزائ ضعیف نہیں ہوتے جن پر تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر جوانی کی مدت بھی طویل ہوتی ہے اس نے جنوری ١٩١٣ئ میں اپنے کام کا آغاز کیا اس سلسلے میں مشکلات بھی پیش آئے لیکن اس اور اس کے عملے نے کامیابی حاصل کی اور درج ذیل موضوعات کا انکشاف کیا۔جب تک تجربہ کیے جانے والے زندہ خلیوں پر کوئی ایسا عارضہ نہ ہو جوان کی موت کا باعث ہو جیسے جراثیم کا داخل ہونا یا غذائی مواد کا کم ہونا تو وہ زندہ رہیں گے اور رشد پاتے ہیں۔مذکورہ اجزائ صرف حیات ہی نہیں رکھتے بلکہ ان میں رشد و نمو بھی پائی جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے یہ اس وقت رشد و نمو اختیار کرتے جب حیوان کے بدن کا جز ہوتے۔ان کے نمو و تکاثر کا ان کے لیے فراہم کی جانے والی غذا سے موازنہ کیا جا سکتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ان پر مرورزمان کا اثر نہیں ہوتا ضعیف اور بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ضعیفی کا معمولی بھی اثر مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا وہ ہر سال ٹھیک گزشتہ سال کا نمو پاتے ہیں۔مندرجہ بالا موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑھاپا علت نہیں بلکہ معلول ہے پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان مرتا کیوں ہے؟وہ کونسے عوامل ہے جس سے عمر کو بڑھایا جا سکتا ہے؟اور وہ کونسے عوامل ہے جو عمر کو کم کر دیتے ہیں؟ہم باالترتیب ان سوالوں کا جواب دیں گے۔(انشائ اللہ)
انسان مرتا کیوں ہے؟جہاں تک انسان کے مرنے کا اور اس کی زندگی کے محدود ہونے کا سبب ہے وہ یہ کہ حیوان کے جسم کے اعضائ زیادہ اور مختلف ہیں اور ان کے درمیان کمال ارتباط و اتصال موجود ہے ان میں سے بعض کی حیات دوسرے بعض کی زندگی پر موقوف ہے اگر ان میں سے کوئی کسی وجہ سے ناتواں ہو جائے اور مرجائے تو اس کی موت کی وجہ سے دوسرے اعضائ کی بھی موت آجاتی ہے اس کے ثبوت کے لیے وہ موت کافی ہے جو کہ جراثیم کے حملے سے اچانک واقع ہو جاتی ہے یہی چیز اس بات کا سبب ہوئی کہ عمر کا اوسط ستر اسی سال سے بھی کم قرار پائی۔
طول عمر کے عواملعمر کو بڑھانے والے کچھ عوامل ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
موروثی عامل:طول عمر میں موروثی عامل کی اہمیت و اثر واضح ہے ایسے خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ جس کے افراد کی اوسط عمر کا اوسط عام طور پر زیادہ ہیں مگر یہ کہ کوئی ان میں سے حادثاتی طور پر مر جائے۔اس سلسلے میں جو دلچسپ اور تحقیقی مطالعات ہوئے ہیں ان میں سے ایک ریمونڈپیرل کا مطالعہ ہے اس نے اپنی بیٹی کے تعاون سے ایک کتاب تالیف کی اور اس میں ایک خاندان کی طویل العمری کے بارے میں لکھا جس میں ایک فرد کی سات پشتوں، دادا، پردادا، نواسہ، نواسے کی اولاد اور موخراند کر کی اولاد کی اولاد کی مجموعی عمر ٦٩٩ سال ہوتی ہے جب کہ اس خاندان کے دو افراد حادثے سے مرجاتے ہیں۔بیمہ کمپنیوں کی تحقیق سے جو نئی شرح لوٹی دو بلین اور ہر برٹ مارکس نے پیش کی ہے اس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اسلاف کی درازی عمر اخلاف واولاد کی عمر پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ماحول:جس ماحول کی ہوا معتدل، صاف، جراثیم اور زہر سے پاک، سورو ہنگامے سے خالی، سکون سے مالا مال اور سورج کی شعاعوں کا مرکز ہو گی اس کے باشندوں کی عمر دراز ہو گی۔
غذا کی کیفیت:غذا بھی مقدار اور نوعیت کے اعتبار سے درازی عمر پر گہرا اثر چھوڑتی ہے جن لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ تھی ان میں سے اکثر کم خوراک تھے اس لیے ایک سائنسدان نے کہا کہ تم اپنے دانتوں سے خود اپنی قبر کھودتے ہیں یعنی زیادہ کھا کر غذائی امور کے ماہرین معتقد ہیں کہ طول عمر تغزیہ کے طریقے اور اقلیمی شرائط سے بہت قریبی تعلق رکھتی ہے وہ لوگ شہد کی مکھیوں کی ملکہ پر جو دوسری مکھیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ عمر رکھتی ہے تحقیقی مطالعہ کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملکہ کی طول عمر کا راز یہ ہے کہ وہ اس مخصوص غذا کو استعمال کرتی ہے جس کو مزدور شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ کے لیے فراہم کرتی ہیں یہ غذا عام شہد سے بہت فرق رکھتی ہے اس سے پتہ چلا کہ مناسب غذا اور بہترین غذا استعمال کر کے زندگی کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔
ہایبرنیشنجن طریقوں سے انسان کی عمر کو بڑھا سکتے ہیں اور اسے نیم جاں کر کے قابل مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک ہایبرنیشن (سردی کی نیند) پر نیند بعض حیوانات پر سردی کے موسم میں طاری ہوتی ہے اور گرمی کے موسم میں بھی ہو سکتی ہے جب حیوان پر یہ نیند طاری ہوتی ہے تو اس وقت اس کی غذا کی احتیاج ختم ہوجاتی ہے اور بدن کے مایحتاج چیزوں میں ٣٠ سے ١٠٠ تک کمی واقع ہوتی ہے اس کی حرارت کو منظم رکھنے والی مشینری وقتی طور پر بند ہو جاتی ہے اور فضا کی حرارت کم ہونے سے کھال اور باٹھٹھڑ کر سخت نہیں ہوتے اس کے بدن پر لرزہ طاری نہیں ہوتا بلکہ اسکے بدن کی حرارت فضا اور ماحول کی مانند ہو جاتی ہے کہ ممکن ہے درجہ اول نقطہ انجماد سے ٣٩۔٤١F سے بھی اوپر پہنچ جائے کہ جس سے سانس کی رفتار کم اور نا منظم ہو جاتی ہے اور حرکت قلب کبھی کبھی ہوتی ہے اعصاب کے مختلف رفلکس رک جاتے ہیں اور ٥٢ سے ٦٦ فارن ہائیٹ درجہ حرارت سے نیچے مغز کی برقی امواج کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جس کی زندہ مثال وہ مچھلی ہے جو کچھ عرصہ پہلے قلبی برف کے تودوں کے درمیان منجمد حالت میں ہاتھ آئی۔اس پر جمی ہوئی برف کی تہہ بتا رہی تھی کہ اس مچھلی کی عمر پانچ ہزار سال تک ہے پہلے یہ خیال ہوا کہ یہ مچھلی مر چکی ہے لیکن جب اس کو معتدل پانی میں رکھا گیا تو سب نے تعجب سے دیکھا کہ وہ مچھلی تیرنے لگی معلوم ہوا کہ یہ مچھلی اتنے ہزاروں ساال زندہ رہی۔
بڑھاپے کے عواملبڑھاپے کے عوامل عام طور پر کسی بھی شخص میں معین وقت پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن یہ مسلمہ نہیں ہے کہ بڑھاپے کی اصل وجہ عمر کی یہی مقدار ہے کہ بدن کے اعضائ پر اتنی مدت گزر جائے تو بڑھاپا آجاتاہے بلکہ ضعیفی کی بنیادی وجہ اختلال کی پیدائش کو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ اختلال عام طور پر اسی عمر میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہ اختلال کبھی بدن کے زیادہ محنت و مشقت کرنے سے ضعیف ہوتے ہیں کبھی غیر معمولی حوادث اور پریشانیوں کی وجہ سے تو کبھی بیماریوں اوربری عادتوں کی وجہ سے اختلال جو کہ اس عمر میں بدن میں پیدا ہوتا ہے اور بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت میں کمی واقع ہوتی ہے اورتشریح الاعضائ کے نقطہ نظر سے ان کی مختلف صنعیں سکڑ جاتی ہیں ان کی رگوں کی تعداد کم ہوتی ہے نظام ہاضمہ بیکار اور ضروری غذائیں فراہم کرنے سے عاجز ہوجاتاہے اور نتیجے میں پورے بدن پر ضعف طاری ہوتا ہے طاقت تناسل کم اور مغز کی حرکت مدہم پڑھ جاتی ہے بعض افراد کاحافظہ خصوصاً اسمائ کے سلسلے میں بیکار پڑھ جاتاہے نیز قوت ارادی متاثر ہوتی ہے مذکورہ حوادث و توانیاں بدن میں واقع ہونے والے اختلال کی پیدا وار ہے پس ضعیفی علت نہیں ہے بلکہ معلول ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے کہ جس کے اعضائ بدن میں طویل عمر کے باوجود طبیعی حالات کے تحت اختلال پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ سالم اور شاداب بدن کے ساتھ عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتا ہے۔قارئین کرام!یہاں تک ہم نے ثابت کیا کہ طول عمر سائنس کی دنیا میں کوئی نئی بات نہیں اور نہ کوئی تعجب خیز مسئلہ ہے اب ہم تاریخ کی طرف رخ کریں گے۔ (انشائ اللہ)
تاریخی حوالےکیا دنیا میں ایسے افراد جو کہ طویل العمر ہوں اور حیرت میں ڈال دیاہو موجود ہیں؟ جی ہاں ایسے جاندار جنہوں نے انسانوں کو حیران کر دیا ہے وہ نہ صرف انسانوں میں ہیں بلکہ نباتات اور حیوانوں میں بھی موجود ہیں اگر آپ کو شک ہے تو درج ذیل افراد کی طرف نظر کرے انشائ اللہ شک دور ہو گا۔
نباتات کے طویل عمر افرادجن لوگوں نے اسکاٹ لینڈ کی سیر کی ہے وہ ایسے عجیب و غیر درخت کا پتہ بتاتے ہیں جس کے تنے کا قطر٩٠ فٹ اور اس کی عمر کا اندازہ پانچ ہزار سال ہے۔کیلیفورنیا میں ایک ایسا درخت دیکھا گیا ہے جس کی لمبائی سو میٹر نیز نچلے حصے میں اس کا قطر دس میٹر ہے اور اس کی عمر کا اندازہ چھ ہزار سال ہے۔جزائر کا ناری میں پائے جانے والے خوبصورت درختوں کے بیج میں دم الاخوین قسم کے درخت نے دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اس درخت کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کے رشد و نمو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عمر بہت طولانی ہے حالانکہ اس عرصے میں زمانے کے گزرنے کے اثرات کے اوپر ظاہر نہیں ہوئے لہذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ درخت خلقت آدمٴ سے بھی پہلے موجود تھا۔قدیم مصر میں کھدائی ہوئی تو مصر کے جوان مرگ فرعون کے مقبرے مں گیہوں نکلے اور اخباروں میں بتایا گیا کہ بعض علاقوں میں انہیں بویا گیا تو وہ کامل طورپر سر سبز و شاداب ہوئے اس سے ثابت ہوا کہ گندم کا حیاتی نقطہ نظر تقریباً تین چار ہزار سال تک زندہ رہنا ہے۔
حیوانوں میں طویل العمر افرادعلم حیات کے ماہرین نے کچھ ایسی مچھلیوں کا انکشاف کیا ہے جن کی عمر کا تخمینہ تیس لاکھ سال لگایا گیا ہے۔حیوانات کے طویل العمر افراد میں سے ایک وہ زندہ کچھوا ہے جو کہ گارگوش جزیرے میں موجود ہے اس کی عمر ایک سو ستر سال(١٧٠) وزن تقریباً ٢٥٠ پونڈ ہے اور طول چار فٹ۔ بحوالہ دائرۃ المعارف۔انہیں افراد میں سے ایک متعدی بیماری کے جراثیم کو قدیم ترین زندہ موجود قراردیاجاتا ہے یہ ایسے زندہ موجودات ہیں کہ ممکن ہے جو زندگی کا مطالعہ حیات کے راز کو منکشف کر دے ان ہی سے بعض نباتی، حیوانی اور انسانی بیماریاں جیسے زکام انفلوانزا، خسرہ، چیچک جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔اثار قدیمہ کے ماہروں نے ان جراثیم کا وجود ما قبل تاریخ بتایا ہے یعنی یہ موجودات ایک لاکھ سال کے بعد بھی زندہ ہیں اور ان کی زندگی کے آثار ختم نہیں ہوئے ہیں۔اگرچہ اس دوران انہوں نے ففتہ اور نہفتہ زندگی بسر کی ہے بحوالہ دائرۃ المعارف۔سنکھوں کے درمیان ایسے سنکھے بھی نظرآتے ہیں جن کی عمریں کئی ہزارسال ہیں۔
تاریخ انسانیت کے طویل افراداصحاب کہف:اصحاب کہف کے بارے میں قرآن میں صریحاً موجود ہے کہ وہ لوگ تین سو نو سال تک اس غار میں رہے جیسا کہ ارشاد الہیٰ ہے: وکھفہم ثلث مآۃ سنین و اذدادوتسعا اصحاب کہف کے اس واقعے سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس پورے عرصے میں ایک ہی لباس پہنے رکھا تین سوسال تک سوتے رہے اور پھر بیدار ہوئے پھر دوبارہ سو گئے یہاں تک کہ ہمارے آخری پیغمبر۰ کا زمانہ آیا اور آنحضرت نے علی ٴ کو حکم دیا کہ آپ اندر جائیں علی ٴ اندر تشریف لے گئے اور انہیں سلام کرنے کے بعد ان کی احوال پرسی کی انہوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر تیسری بار سو گئے اب وہ امام زمانہٴ کے ظہور پر نور تک سوتے رہیں گے پھر بیدار ہوں گے امامٴ کے اصحاب میں شامل ہوں گے اصحاب کہف کے اب تک زندہ رہنے سے پتہ چلا کہ جو ذات امامٴ کے اصحاب کو اتنے عرصے زندہ رکھیں وہ ذات اگر ان کے امام و آقا کو آج تک زندہ رکھیں تو تعجب کی کونسی بات ہے۔
حضرت عزیز کا واقعہانہیں واقعات میں سے ایک حضرت عزیز کا واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا کہ خدا نے ایک سو سال تک انگور کے خوشے کو ترو تازہ رکھا اور اس عرصے میں حضرت عزیز کے بدن مبارک کو محفوظ رکھا۔البتہ اس عرصے میں ان کا گدھا اپنے طبعی تقاضوں کے مطابق ہو گیا اور اس کا جسم بھی بوسیدہ ہو گیا اور عزیز کے سامنے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کو زندہ کیا اس واقعے سے صاف پتہ چلتا ہے وہ ذات جوانگور کے ایک خوشے کو ایک سو سال تروتازہ رکھ سکتی ہے وہ امام عصرٴ کو کچھ صدیاں زندہ رکھیں تو کیا بعید۔
حضرت نوحٴ:تاریخ میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحٴ کو تمام نبیوں سے زیادہ زندگی دی تھی اس لیے انہیں شیخ الانبیائ(نبیوں میں سب سے بوڑھے) کہا جاتا ہے قرآن کے صریح اور واضح بیان سے پتہ چلتاہے کہ حضرت نوحٴ کی نبوت کازمانہ طوفان نوح سے پہلے ساڑھے نو سو سال(٩٥٠) کا تھا فلبث فیھم الف سنۃ الاخمین عاما۔ اب مجموعی عمر ڈیڑھ ہزار سال یا دو ہزار لکھی گئی ہے۔
حضرت خضرٴ:حضرت خضرٴ کے روئے زمین میں موجود ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا حضرت ذوالقرنینٴ کو معلوم ہوا تھا کہ جو شخص چشمہ آب حیات کا پانی پی لے اس کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک صور نہ پھونکا جائے یا خود خواہش نہ کرے حضرت ذوالقرنین تلاش میں نکلے بارہ برس کا سفر کیا ظلمات میں گشت کرتے رہے مگر چشمہ ان کو نہ ملا لیکن ان کے وزیر حضرت خضرٴ کو مل گیا انہوں نے اس چشمے سے پانی پیا اور غسل بھی کیا اور اب تک زندہ ہیں پس جب قدرت نے آب حیات میں اتنا اثر رکھا ہے تو حضرت حجت ٴ کی طولانی عمر پر کیسے شک کر سکتے ہیں جو کہ خدا کی طرف سے سارے عالم کی حیات اور آب حیات کے وجود کا باعث ہیں۔
افراد دیگر:حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت ادریسٴ، حضرت الیاسٴ ابھی تک زندہ ہیں جن کو خزانہ غیب سے روزی ملتی ہے ان کے علاوہ تاریخ میں لا تعداد طویل العمر افراد ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں حضرت آدمٴ کی عمر ٩٣٦ برس حضرت شیث ٩١٢ سال۔حضرت سام ابن نوحٴ چھ سو برس لقمان حکیم کی ایک ہزار برس لقمان ابن عاد تین ہزار برس عوج ابن عناق دشمن خدا کی تین ہزار چھ سو شداد کی نو سو برس۔اس کے علاوہ اتنے افراد ہیں جن کا ذکرکرنا باعث خستگی ہو سکتا ہے لہذا اکتفا کرتا ہوں۔
دعوت فکر:پس جب ہم نے سائنس کے اعتبار سے ثابت کیا کہ اگر حوادث دنیا نہ ہوتے تو انسان عرصہ دراز تک عمر پا سکتا ہے نیز تاریخ اعتبار سے بھی ثابت کیا کہ ایسے طویل عمر افراد نہ صرف انسانوں میں ہیں بلکہ نباتات اور حیوانوں میں بھی موجود ہیں اور خصوصاً حضرت خضرٴ اور حضرت الیاسٴ جو ہزاروں برس پہلے سے موجود ہیں ان کا یہ بقائ اور درازی عمرکا مقصد ان کی پیغمبری نہیں ہو سکتی جو کہ آئندہ وہ اظہار فرمائیں گے اور نہ ان پر کوئی آسمانی کتاب نازل ہونے والی ہے نہ ان کے پیش نظر کسی تازہ شریعت کی ترویج ہے جس کی اطاعت فرض ہو۔بلکہ ان کی حیات کا فلسفہ یہ ہے کہ مخلوق خدا ان کے طول عمر کو دیکھتے ہوئے آخری حجت الہیہٰ کی عمر طویل ہونے سے متعجب نہ ہوں اور حضرت کی وجود سے انکار نہ کریں اوراس حیثیت سے بھی بندوں پر حجت خدا قائم ہو جائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رکھنے کا فلسفہ یہ ہے کہ ان کی تصدیق سے پیغمبر اکرم۰ کی رسالت پر اہل کتاب ایمان لائیں اور ان کی زندگی سے حضرت حجت خدا۰ کی زندگی کا ثبوت ہو جائے اور کتنا افسوس ہے اس انسان کے اوپر جسے خدا نے اشرف المخلوقات کا تاج پہنا کر دنیا میں بھیجا تا کہ وہ عقل استعمال کرے اچھے برے کی تمیز کرے مگر انسان کو دیکھیں کہ شیطان جو کہ عدو مبین ہے اس کی زندگی کو آدمٴ سے لے کے اب تک ماننا ہے لیکن امام مبین، بقیۃ اللہ، امام زمانہٴ کی کچھ صدیوں پر مشتمل زندگی پر شک کرتا ہے اولئک کالانعام بل ھم اضل کے مصداق ہیں لوگ ہیں اگر یہ لوگ اپنے تعصب کے چشموں کواتار کر اور قلب سلیم کے ساتھ صحیح راہ کی تلاش میں نکلیں تو بہت جلد ہدایت پائیں گے کیونکہ ذات خداوندی کا یہ وعدہ ہے کہ جو ہماری راہ میں ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کریں ہم ان کی راہنمائی ضرور کرتے ہیں ہم بھی اس دعا کے ساتھ پروردگار ہمیں بھی ہدایت کے راستے پر ثابت قدم رکھ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئی اور ہمارے امامٴ کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے اعوان و انصار میں شامل ہونے کے قابل بنا دے۔(آمین)دنیا کو ہے اس مہدیٴ برحق کی ضرورتہو جس کی نگاہ زلزلہ عالم افکار
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.