خاتمیت

197

١۔ دین اسلام کے جاودانی ہونے کی وجہ سے شریعت اسلام کا کسی دوسرے نبی کی بعثت سے منسوخ ہونے کا احتمال ختم ہوجاتا ہے، لیکن یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ کوئی ایسا نبی مبعوث ہو جوخود دین اسلام کی ترویج کرے اور اس کا مبلغ ہو،جیسا کہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام میں سے بہت سے نبی ایسی ہی ذمہ داریوں کے پابند تھے یہ انبیاء علیہم السلام خواہ صاحب شریعت نبی کے زمانہ میں رہے ہوں جیسے جناب لوط علیہ السلام ، صاحب شریعت پیغمبر جناب ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں تھے اور اُن کی شریعت کے تابع تھے ،یا بنی اسرائیل کے درمیان مبعوث ہونے والے اکثر انبیاء علیہم السلام صاحب شریعت نبی کے بعد مبعوث ہوئے اور ان کی شریعت کے تابع تھے اِسی وجہ سے آنحضرت ۖ کی خاتمیت کے لئے ایک جداگانہ بحث کرنا ضروری ہے تا کہ ایسے تو ہمات ختم ہوجائیں۔
خاتمیت پر قرآنی د لائل۔اسلام کے ضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ آنحضرت ۖ پر تمام ہوگیا ہے یعنی (آنحضرت ۖ خاتم ہیں) اور آپ کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی نبی مبعوث ہونے والا ہے یہاں تک کہ غیر مسلموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ اسلام کے اعتقادات میں سے ہے اور اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اسی وجہ سے دوسری ضروریات کی طرح اِس کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس مطلب کو قرآن اور متواتر دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔جیسا کے قرآن کریم فرماتا ہے:(مَاکَانَ مُحَمَّد اٰبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَ خَاتَمَ النَّبیِیّنَ)١)محمد ۖ تم مردوں میںسے کسی کے باپ نہیں ہیں بلک اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔یہ آیت واضح انداز میں آپ کے خاتم ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن اسلام کے دشمنوں نے اس آیت پر دو اعتراض کئے ہیں۔(١) پہلا اعتراض یہ ہے کہ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اس (کلمہ خاتم) کے وہی معنی مرادہیں جو مشہورہیں نیز یہ آیت سلسلہ انبیاء علیہم السلام کے ختم ہونے کی خبر بھی دے رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔دوسرا ا عترض یہ ہے کہ ،بالفرض اگر ہم تسلیم کرلیں کہ مفاد آیت وہی ہے جو آپ نے بیان کیاہے،یعنی آنحضرت سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں ،لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت کے ساتھ ، رسا لت کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے ،پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ خاتم کے معنی ختم کرنے اور تمام کرنے والے کے ہیں اور خاتم کو اسی وجہ سے انگوٹھی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے لگنے کے بعد تحریر مکمل ہو جاتی ہےدوسرے اعترض کا جواب یہ ہے کہ جو بھی نمائندہ خدا مقام رسالت سے سرفراز ہو وہ مقام نبوت کابھی مالک ہے، لہٰذا انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کے ختم ہوتے ہی رسولوں کا سلسلہ بھی تمام…………………………(١)سورۂ احزاب۔ آیت ٤٠.ہوجاتا ہے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا کہ (١) اگر چہ مفہوم نبی رسول سے اعم نہیں ہے لیکن یہاںپر خود نبی رسول سے عام ہے۔
خاتمیت پر روائی دلائل۔آنحضرت ۖ کی خاتمیت کے سلسلہ میں سیکڑوں روا یات موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت اور تاکید کرتی ہیں جیسے کہ حدیث منزلت جو آنحضرت ۖ سے نقل ہوئی ہے اُسے شیعہ اور سنی علماء نے تواتر کے ساتھ نقل کی ہیں جس کی وجہ سے اُس کی صحت اور مضمون میں کسی بھی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا اور وہ روایت یہ ہے۔جب آنحضرت ۖ نے جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے خارج ہونا چاہا تو حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کی دیکھ بھال اور اُن کے امور کی انجام د ھی کے لئے اپنا نائب بناکر مدینہ چھوڑ گئے ،لیکن حضرت علی علیہ السلام اس فیض الٰہی سے محروم ہو نے کے سبب غمگین و رنجیدہ خاطر تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت رسول اکرا م ۖ نے آپ سے فرمایا ۔’اَمَا تَرضَیٰ اَن تَکُونَ مِنِّ بِمَنزِلَہِ ہَارُونَ مِن مُوسیٰ اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبَِّ بَعدِ(٢)کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام سے تھی؟ اور ا سی جملہ کے فوراً بعد فرمایا :(اِلَّا اَنَّہُ لَانَبَِّ بَعدِ)بس فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یہ جملہ آپ کی خاتمیت کے سلسلہ میں بھی ہر قسم کے شبہ کو دفع کردیتا ہے۔………………………(١)اس کتاب کے انتیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے۔(٢)بحارا الانوار۔ ج٣٧ص٢٨٩٢٥٤. صحیح بخاری ۔ج٣ ص٥٨. صحیح مسلم ۔ج٢ ص ٣٢٣. سنن ابن ماجہ ۔ج ١، ص٢٨. مستدرک حاکم۔ ج٣ ص١٠٩. مسند ابن حنبل۔ ج١ ص ٣٣١و ج٢ ص٣٦٩،٤٣٧.ایک دوسری روایت میں آپ ۖ سے نقل ہوا ہے کہ آپ فرماتے ہیں:(ایُّہا النَّاس اِنَّہُ لَا نَبَِّ بَعدِ وَلَا اُمَّةَ بَعدَکُم):(١)اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں آئے گی۔اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :(اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہُ لَا نَبَِّ بَعدِ وَلَا سُنَّةَ بَعدَ سُنَّتِی)(٢)اے لوگو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میری سنت کے بعد کوئی سنت نہیں ہوگی
ختم نبوت کا راز۔جیسا کہ ہم نے اِس مطلب کی طرف گذشتہ صفحات پر بھی ا شار ہ کیا ہے کہ پے در پے نبیوں کے مبعوث ہو نے کی حکمت ایک طرف زمین کے مختلف گوشوں میں رہنے والوں تک پیغامات الٰہی کا پہچانا اس قدر آسان نہیں تھا اوردوسری طرف اجتماعی روابط کا پھیلنے کی وجہ سے حالات کا پیچیدہ ہوجانا کہ جس کے سبب نئے آیئن اور جدید قوانین کی ضرورت تھی، اس کے علاوہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ افراد یا جماعتو ںکے درمیان تبدیلی اور جاہلانہ دخالتوں کی وجہ سے، وجود میں آنے والی تحریفات کا تقاضا یہ تھا کہ کسی جدید نبی کی بعثت کے ذریعہ تعلیم الٰہی کو آگے بڑھایا جائے اورتحریفات کا خاتمہ ہو۔لہٰذا جب پوری کائنات کے لئے تبلیغ رسالت الھی کی ذمہ داری صرف ایک رسول اور اس کے حامیوں اور جانشینوں کی مدد سے ممکن ہو جا اور اس کی شریعت کے احکام و قوانین حال و آئندہ کی احتیاجات کے جواب دینے پرقادر ہوں نیز مسائل جدید کو حل کرنے کے لئے اس شریعت میں آنی صلاحیت ہو اور اس کے علاوہ تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت اُسے دی گئی، ہو تو پھر اس صورت میں کسی دوسرے پیغمبر کی بعثت کی کو ئی ضرورت نہیں ہے۔……………………(١) وسائل اشیعہ ۔ج١ ص ١٥. خصال ۔ج١ص ٣٢٢ خصال ج۔٢ ص ٤٨٧.(٢) وسائل الشیعہ، ج١٨ ص٥٥٥. من لا یحضرہ الفقی، ج٤ ص ١٦٣. بحار الانوار، ج٢٢ ص ٥٣١. کشف الغمہ ،ج١، ص٢١لیکن بشری علوم ایسے شرائط کی تشخیص سے ناتواں اور عاجز ہے ، فقط خدا ہے جو اپنے لامتناھی علم کی وجہ سے ایسے زمان و شرائط کے تحقق سے باخبر ہے جیسا کہ اُس نے آخری نبی اور اُس کی کتاب کے ساتھ انجام دیا۔لیکن سلسلہ نبوت کے ختم ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا او راُس کے بندو ںکے درمیان اب کوئی رابطہ نہیں رہتا، بلکہ اگر خدا چاہے تو کسی بھی وقت اپنے شائستہ بندوں کو علم غیب کے ذریعہ اضافہ کرسکتا ہے اگرچہ وحی کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو، جیسا کہ شیعوں کے عقیدہکے مطابق خدا نے ائمہ علیہم السلام کو ایسے علوم سے نوازا ہے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں امامت سے متعلق مباحث کے سلسلہ میں بیان کریں گے۔
چند شبہات کے جوابات۔گذشتہ بیان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ختمِ نبوت کا راز۔ایکً ،یہ ہے کہ آنحضرت ۖاپنے اصحاب کی مدد سے پیغامات ا لہی کو تمام انسانوں تک پہنچا سکتے تھےدوسرے یہ کہ،آپ ۖ کی کتاب (قرآن) کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت لے لی گئی ہے،تیسرے یہ کہ ۔ شریعت اسلام تا قیامت پیش آنے والی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔لیکن یہ ممکن ہے کہ ان مطالب کے پیش نظر کوئی یہ شبہ پیش کرے، جیسا کہ گذشتہ ادوار میں اجتماعی اور اقتصادی روابط کے پیچیدہ ہونے کی وجہ سے جدید احکامات یا اُن میں تغیرات کی ضرورت پڑھ جاتی تھی، یاپھر کسی دوسرے نبی کی بعثت کی ضرورت ہوتی تھی اسی طرح آنحضرت ۖ کے بعد بھی نمایاں تغیرات وجود میں آئے ہیں، اور اجتماعی روابط پیچیدہ ہوگئے ہیں،لہذا اس صورت میں ہمیں کہاں سے معلوم کہ آئندہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے کسی دوسرے نبی کی بعثت کی ضرورت نہ پڑے؟اس شبہ کے جواب میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ کس طرح کے تغیرات بنیادی قوانین کے بدل جانے کے موجب ہوتے ہیں، اس کی تشخیص بشر کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے کہ ہمیں احکام و قوانین کی حکمتیں اور علتوں پر تسلط نہیںہے بلکہ ہم نے تو اسلام کے جاودانی ہونے کے دلائل آنحضرت ۖ کی خاتمیت کے ذریعہ کشف کئے ہیں کہ اب اس کے بعد اسلام کے بنیادی قوانین کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ ہم بعض اجتماعی مسائل کی پیدائش کا انکا ر نہیں کرتے کہ جن کے لئے نئے قوانین کی ضرورت ہے، لیکن اسلام نے اپنے مسائل کے قوانین کو وضع کرنے کے لئے ایسے اصول و قواعد وضع کر دئے کہ جس کی مدد سے باصلاحیت افراد ضروری احکامات کو حاصل کر کے انھیں جاری کر سکتے ہیں،اور ان مطالب کی تفصیلی بحث کو فقہِ اسلام کی بحث حکومت اسلامی (امام معصوم اور ولی فقیہ) کے اختیارات کے حصہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.