امامت

193

حضرت رسول اکرم ۖ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے ،جب اِس شہر میں پہنچے تو اس شہر کے لوگوں اور وہاںبسنے والے مہاجر مسلمانوں نے بڑے زور و شور سے آپ کا استقبال کیا اسی وجہ سے اِنھیں انصار اور ہجرت کرنے والوں کو مہاجر کا نام دیا گیا، آپ نے وہاں ایک اسلامی سماج کی بنیاد ڈالی اور اس کی باگ ڈ ور اپنے ہاتھوں میں لی، مسجد النبی محل عبادت اور تبیلغ رسالت کے علاوہ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز ہونے کے ساتھ مہاجروں اور ناداروں کی پناہگاہ بھی تھی،وہا ں پر لوگوں کی اقتصادی و معاشرتی ضرور توں کو پورا کیا جاتا تھا ،اس طرح وہ جگہ محلِ قضاوت او رجھگڑوں کے حل و فصل اور جنگ کے لئے مشورہ، فوج کو میدان جنگ کی طرف حرکت دینے اور ان کی مدد کرنے کا مرکزتھی غرضکہ حکومت کے تمام مسائل اِسی مسجد میں حل وفصل ہوتے تھے بلکہ لوگوں کی دنیا اور ان کے دین کے تمام امور آنحضرت ۖ کے ہاتھ میں تھے اور خود مسلمان بھی آپ کی اطاعت میں کوشاںرہتے تھے اس لئے کہ خدا نے آنحضرت ۖ کی اطاعت کا مطلق حکم دیاتھا(١) بلکہ خدا……………………(١)سورۂ آل عمران۔ ١٣٢٣٢ نسائ۔ ٨٠٦٩١٤١٢. مائدہ۔ ٩٢، انفعال ۔٤٦٢١. توبہ۔ ٧١ نور۔ ٥٦٥٤٥١. احزاب۔٦٦:٧١ .حجرات۔ ١٤ فتح ۔١٧١٦. محمد۔ ٣٣. مجادلہ۔ ١٢ ممتحن۔ہ ١٢ تغابن۔ ١٢ جن ٢نے سیاسی،قضائی اور جنگی مسائل میں آنحضرت ۖکی اطاعت کے لئے نہایت تاکید کی تھی۔(١)ایک دوسری تعبیر کے مطابق آنحضرت ۖ منصب نبو ت و امامت نیز تعلیم و تربیت کے فرائض اور سماج کے امور کو حل و فصل کرنے پر بھی مامور تھے، اور جس طرح اسلام وظائف عبادی، سیاسی ،اخلاقی، اقتصادی، اور حقوقی وغیرہ سے سرفراز ہے، اسی طرح آنحضرت ۖ تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے وظائف کو بیان کرنے کے ذمہ دار ہونے کے علاوہ قوانین الٰہی کو جاری کرنے کے عہدہ دار اور حکومتی منصب کے مالک تھے۔اس لئے کہ یہ امر آشکارہے کہ وہ دین جو تاقیامت تمام انسانوں کی رہبری کا دعویدار ہے وہ اُن مسائل کے مقابل میں سہل انگار ی سے کام نہیں لے سکتا، اور وہ سماج جو اس دین کی بنیادوں پر قائم ہو وہ سیاسی اور حکومتی مناصب سے مبرا نہیں ہوسکتا وہ منصب جو عنوان امامت کے ضمن میں شمار کئے جاتے ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آنحضرت ۖ کے بعد کون اس مقام کا عہدہ دار و سزاوار ہے کون اُسے سنبھالے؟کیا جس طرح خدا نے یہ منصب اپنے رسول ۖ کو عطا کیا تھا اِسی طرح کسی اور کو عطا کیا ہے؟ کیا یہ منصب صرف اِسی صورت میں قابل قبول ہے کہ جب خدا اُسے عطا کرے؟یا پھر خدا کی جانب سے اس منصب کو عطا کرنا صرف رسول ۖ سے مخصوص تھا، اور آپ کے بعد اس منصب کی ذمہ دار ی کو خود عوام تعین کرے؟کیا عوام کو ایسا کوئی حق ہے یا نہیں؟۔اور یہی مسئلہ سنی اور شیعہ حضرات کے درمیان نقطہ اختلاف ہے، اس لئے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ منصب الٰہی خود خدا کی جانب سے باصلاحیت لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے، لہذا آنحضرت ۖ نے خدا کی جانب سے اس امر کو انجام دیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بلا فصل خلیفہ بنادیا…………………………(١) سورۂ آل عمران۔ ١٥٢. نسائ۔ ٤٢ ٥٩ ٦٥ ١٠٥، مائدہ۔ ٤٨، حج۔ ٦٧، احزاب۔ ٦ ٣٦. مجادلہ۔ ٨ ٩،. حشر۔٧نیز اُن کے بعد ان کے گیارہ فرزندوں کو اِس منصب کی عہدہ داری کے لئے مقرر فرمادیا تھا ، لیکن اہل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ امامت بھی رسالت و نبوت کے منصب کی طرح آنحضرت ۖ کی رحلت کے ساتھ تمام ہوگیا ہے، اور اِس کے بعد سے امام کا انتخاب لوگوں کے اختیار میں دے دیا گیا ہے، یہاں تک کہ بعض اہل سنت کے بزرگ علماء کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اسلحہ کی بنیاد پر مسلط ہوجائے تو اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔(١) لہذا معلوم ہے کہ یہ نظریہ جباروں اور ظالموں کے لئے ایک موقع غنیمت ہے جواپنے زور و ظلم کی بنیاد پر جس حد تک چاہیں سوء استفاد کر سکتے ہیں، اور اس طرح مسلمانوں کے ضعف اور اُن کی بدبختی کا سبب بن سکتے ہیں۔در حقیقت اہل سنت نے امامت کو خدا کی جانب سے منصوب کئے بغیر قبول کر کے دین اور سیاست میں جدائی کی بنیاد ڈالی ہے، اور شیعوں کے عقیدہ کے مطابق یہی نقطہ اختلاف اسلام کی صحیح راہ اور خدا کی عبادت سے انحراف کا باعث بنا ہے، جس کی وجہ سے آج تک بلکہ آئندہ بھی ہزاروں ناگوار حوادث وجود میں آتے رہیں گے۔اسی وجہ سے ہر فرد مسلمان پر واجب ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میںتعصب اور تقلید سے پرہیز کرتے ہوئے تحقیق کرے(٢) اور مذہب حق کو پہچان کر اُس کی شدت سے حمایت کر ے اِس مسئلہ میں یہ امر آشکار ہے کہ جہان اسلام کی مصلحت کو پیش نظر رکھنا چاہیے، بلکہ دشمنان ا سلا م کے…………………………(١)ابویعلی کی کتاب ‘الاحکام السلطانیہ’ اور ابو القاسم سمرقندی کی کتاب کا ترجمہ السواء والاعظم’ ص ٤٠ ص٤٢ کی طرف رجوع کریں.(٢)خدا کا شکر ہے کہ بہت بڑے بڑے دانشمندوں نے اس راہ میں بڑی تحقیق کی ہے جسے مختلف زبانوں میں مختلف انداز میں مرتب کیا ہے اور حق کے طلبگاروں کے لئے راستہ بالکل ہموار کردیا ہے ،جس میں سے عبقات الانوار، الغدیر، دلائل الصدق غایہ المرام ا ور اثبات الھدا، کا نام لیا جاسکتا ہے، لیکن وہ لوگ کہ جن کے پاس فرصت نہیں ہے وہ لوگ کت ا ب المراجعات کا مطالعہ کریں جو سنی اور شیعہ عالموں کے درمیان مکاتبات پر مشتمل ہے، اور اسی طرح ‘اصل الشیعہ و اصولہا’ کا مطالعہ کریں، ان دونوں کتابوں کا فارسی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔لئے دو مذہبوںکے اختلافات اور تفرقہ سے فائدہ اٹھنے کا موقع نہیں دینا چاہئے، اور کسی بھی صورت میں کوئی بھی ایسا عمل انجام نہیں دینا چاہیے جو مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بنے، نیز کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کا اتحاد باقی رہ جائے، اس لئے کہ اس تفرقہ کا نقصان تمام مسلمانوں کو اٹھانا ہوگا اور مسلمانوں کے معاشرہ کے ضعیف ہونے کے علاوہ اُس سے کوئی اور نتیجہ ظاہر نہیں ہوسکتا، لیکن اس طرح مسلمانوں کے درمیان حفظ وحدت کی خاطر مذہب حق کی شناخت کا راستہ بند نہیں ہونا چاہئے تا کہ مسائلِ امامت کے سلسلہ میں طالبانِ حق تحقیق سے محروم نہ ہوسکیں، اس لئے کہ حق و حقیقت کو پالینا مسلمانوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کا باعث ہے۔
مفہوم امامت۔امامت لغت میں رہبری کے معنیٰ میں ہے چنانچہ جو بھی راہ حق میں یا راہ باطل میں کسی گروہ کی رہبری کرے اسے امام کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں کفار کے لئے کلمہ ‘أَ ئِمَّةَ الکُفرِ'(١) استعمال ہوا ہے اور نمازی جس شخص کی اقتدا کرتے ہیں اسے امام جماعت کہا جاتا ہے۔لیکن علم کلام میں امامت یعنی دینی اور دنیوی امور میں سماج ِاسلامی پر ریاست عام ،اِس تعریف میں دنیوی امور کا شامل کرنا دائرہ امامت کی وسعت کی بنا پر ہے وگرنہ سماج اسلامی کے دنیوی امور کی تدبیر دین اسلام کا ایک جزء ہے۔مذہب تشیع کے لحاظ سے ایسی حکمرانی اسی وقت صحیح ہوگی کہ جب خداوند عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہو اور اصالة،ً یا،نیابةً ایسے مقام کا مالک وہی ہو سکتا ہے جو احکامِ اسلامی کوبیان کرنے میں خطاؤں سے معصوم اور گناہوں سے دور ہو، بلکہ امام کے لئے نبوت و رسالت کے علاوہ تمام الٰہی منصبوں پر فائز ہونا ضروری ہے تا کہ ، قوانین احکام اور معارف اسلامی کے سلسلہ میں اس کے بیانات حجت ہوں اور حکومتی پیمانہ پر اُس کے قوانین واجب الاطاعة قرار پائیں۔………………………(١) سورۂ توبہ۔ آیت۔ ١٢اس بیان کے لحاظ سے شیعہ اور سنی حضرات کے درمیانِ موضوع امامت کے تحت اختلاف تین چیزوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔١۔ اول یہ کہ امام خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔٢۔ دوم یہ کہ علوم الٰہی کا مالک اور اس کا خطائوں سے محفوظ و مصؤن ہونا ضروری ہے ۔٣۔ سوم یہ کہ گناہوں سے معصوم ہونا بھی ضروری ہے۔البتہ معصوم ہونا امامت کے مساوی نہیں ہے، اس لئے کہ شیعوںکے اعتقاد کے مطابق حضرت زہرا بھی معصوم تھیں، اگر چہ مقام امامت کی مالک نہیں تھیں، جیسا کہ حضرت مریم بھی مقام عصمت پر فائز تھیں اور شاید او لیاء الٰہی کے درمیان اوربھی افراد موجود ہوں جو عصمت درجہ پر فائز ہوں کہ جن کی ہمیں کوئی اطلاع نہ ہو ، بلکہ بنیادی اعتبار سے معصوم شخص کا پہچاننا خدا کی جانب سے اطلاع کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.