تكامل اور قرب حاصل كرنيكے اسباب
پہلا وسيلہ
ذكر خدا
ذكر كو نفس كى اندرونى اور باطنى قرب الہى كى طرف حركت كرنے كا نقطہ آغاز جانتا چاہئے_ قرب كى طرف حركت كرنے والا انسان ذكر كے ذريعے مادى دنيا سے بالاتر ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ عالم صفا اور نورانيت ميں قدم ركھتا ہے اور كامل سے كاملتر ہوتا جاتا ہے يہاں تك كہ اللہ تعالى كے قرب كا مقام حاصل كر ليتا ہے _ اللہ تعالى كى ياد اور ذكر عبادات كى روح اور احكام كے تشريع كرنے كى بزرگترين غرض اور غايت ہے_ اور ہر عبادت كى قدر و قيمت اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنے كيوجہ سے ہوا كرتى ہے_ آيات اور احاديث ميں اللہ كے ذكر اور ياد كى بہت زيادہ سفارش كى گئي ہے_ جيسے قرآن مجيد ميں ہے كہ ‘ جو لوگ ايمان لے آئے ہيں وہ اللہ كے ذكر كو بہت زيادہ كرتے ہيں_(345)نيز فرماتا ہے كہ ‘ عقلمند وہ انسان ہيں كہ جو قيام و قعود يعنى اٹھتے بيٹھتے ہوتے جاگتے خدا كو ياد كرتے ہيں اور زمين اور آسمان كى خلقت ميں فكر كرتے ہيں اور كہتے ہيں_ اے پروردگار اس عظيم خلقت كو تو نے بيہودہ اور بيكار پيدا نہيں كيا تو پاك اور پاكيزہ ہے ہميں دوزخ كے عذاب سے محفوظ ركھنا_(346)خداوند عالم فرماتا ہے كہ ‘ جس نے اپنے نفس كو پاك كيا اور اللہ تعالى كو ياد كيا اور نماز پڑھى وہى نجات پاگيا_(347) خدا فرماتا ہے _ اپنے پروردگار كا نام صبح اور شام ليا كرو_(348)نيز فرمايا هے که اپنے خالق کو زياده ياد کياگر اور اس کي صبح اور شام تسبيح کيالر _ (249)اور نيز فرمايا ہے كہ ‘ جب تم نے نماز پڑھ لى ہو تو خدا كو قيام او رقعود اور سونے كے وقت ياد كيا كر_(350)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص اللہ تعالى كا ذكر زيادہ كرے خدا اسے بہشت ميں اپنے لئے لطف و كرم كے سائے ميں قرار دے گا_ (351)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ ‘ جتنا ہو سكتا ہے خدا كو ياد كيا كرو_ دن اور رات كے ہر وقت ميں_ كيونكہ خداوند عالم نے تمہيں زيادہ ياد كرنے كا حكم ديا ہے_ خدا اس مومن كو ياد كرتا ہے جو اسے ياد كرے اور جان لو كہ كوئي مومن بندہ خدا كو ياد نہيں كرتا مگر خدا بھى اسے اچھائي ميں ياد كرتا ہے_(352)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ خداوند عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو فرمايا كہ دن اور رات ميں مجھے زيادہ يا د كيا اور ذكر كرتے وقت خشوع اورخضوع كرنے والا اور مصيبت كے وقت صبر كرنے والا اور مجھے ياد كرنے كے وقت آرام اور سكون ميں ہوا كر_ ميرى عبادت كر اور ميرا شريك قرار نہ دے تم تمام كى برگشت اور لوٹنا ميرى طرف ہى ہوگا_ اے موسى مجھے اپنا ذخيرہ بنا اور نيك اعمال كے خزانے ميرے سپرد كر_(352)ايك اور جگہ امام جعفر صادق نے فرمايا ہے كہ ہر چيز كى كوئي نہ كوئي حد اور انتہا ہوتى ہے مگر خدا كے ذكر كے لئے كوئي حد اور انتہا نہيں ہے_ خدا كى طرف سے جو واجبات ہيں _ ان كے بجالانے كى حد ہے_ رمضان المبارك كا روزہ محدود ہے_ حج بھى محدود ہے كہ جسے اس كے موسوم ميں بجالانے سے ختم ہوجاتا ہے_ مگر اللہ كے ذكر كے لئے كوئي حد نہيں ہے اور اللہ تعالى نے تھوڑے ذكر كرنے پر اكتفاء نہيں كى پھر آپ نے يہ آيت پڑھي_
يا ايہا الذين امنوا ذكروا اللہ ذكر كثيرا و سبحوہ بكرة و اصيلا_ ايمان والو اللہ تعالى كا بہت زيادہ ذكر كيا كرو اور اس كى صبح اور شام تسبيح كيا كرو_ اللہ تعالى نے اس آيت ميں ذكر كے لئے كوئي مقدار اور حد معين نہيں كى آپ نے اس كى بعد فرمايا كہ ميرے والد بہت زيادہ ذكر كيا كرتے تھے_ ميں آپ كے ساتھ راستے ميں جا رہا تھا_ تو آپ ذكر الہى ميں مشغول تھے اگر آپ كے ساتھ كھانا كھاتا تھا تو آپ ذكر الہى كيا كرتے تھے يہاں تك كہ آپ لوگوں كے ساتھ بات كر رہے ہوتے تھے تو اللہ تعالى كے ذكر سے غافل نہ ہوتے تھے اور ميں ديكھ رہا ہوتا تھا كہ آپ كى زبان مبارك آپ كے دھن مبارك كے اندر ہوتى تھى تو آپ لا الہ الا اللہ فرما رہے ہوتے تھے_ صبح كى نماز كے بعد ہميں اكٹھا بٹھا ديتے اور حكم ديتے كہ دن نكلتے تك ذكر الہى كرو_ اور پھر آپ نے فرمايا كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ كيا ميں تمہيں بہترين عمل كى خبر نہ دوں جوہر عمل سے پہلے تمہارے درجات كو بلند كر دے ؟ اور خدا كے نزديك تمام چيزوں سے زيادہ پاكيزہ اور پسنديدہ ہو؟ اور تمہارے لئے در ہم اور دينار سے بہتر ہو يہاں تك كہ خدا كى راہ ميں جہاد سے بھى افضال ہو؟ عرضكيا يا رسول اللہ _ ضرور فرمايئےآپ نے فرمايا كہ اللہ تعالى كا ذكر زيادہ كيا كرو پھر امام عليہ السلام نے فرمايا كہ ايك آدمى نے رسول خدا كى خدمت ميں عرض كى كہ مسجد والوں ميں سب سے زيادہ بہتر كون ہے؟ آپ نے فرمايا كہ جو دوسروں سے زيادہ اللہ تعالى كا ذكر كرے_ پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص ذكر كرنے والى زبان ركھتا ہو اس كو دنيا اور آخرت كى خير عطاء كى جا چكى ہے_(354)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ ‘ قرآن كى تلاوت كر اور اللہ تعالى كا ذكر بہت زيادہ كر تيرے لئے ذكر كا اجز آسمان ميں ہوگا اور زمين ميں تيرے لئے نور ہوگا_(355)امام حسن عليہ السلام نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے نقل كيا ہے كہ ‘ آپ نے فرمايا ہے كہ جنت كے باغات كى طرف سبقت اور جلدى كرو اصحاب نے عرض كيا كہ بہشت كے باغ كون ہيں؟ آپ نے فرمايا ذكر كے حلقے اور دائرے_(356)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو غافل لوگوں ميں اللہ تعالى كے فكر كرنے والا ہو تو گويا وہ جہاد سے بھاگنے والوں كے درميان مجاہد ہے اور اس طرح كے مجاہد كے لئے بہشت واجب ہے_(357)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمايا ہے كہ ‘ بہشت كہ باغوں سے استفادہ كرو_ عرض كيا گيا_ يا رسول اللہ _ بہشت كے باغ كيا ہيں؟ آپ(ص) نے فرمايا كہ ذكر كى مجالس_ صبح شام اللہ كا ذكر كرو_ جو شخص چاہتا ہے كہ خدا كے ہاں اپنى قدر اور منزل معلوم كرے تو ديكھے كہ خدا كى قدر اور منزلت اس كے نزديك كيا ہے كيونكہ خدا اپنے بندے كو اس مقام تك پہنچاتا ہے كہ جس مقام كو بندے نے خدا كے لئے اختيار كر ركھا ہے اور جان لو كہ تمہارے اعمال ميں سے بہترين عمل خدا كے نزديك اور اعمال ميں پاكيزہ ترين عمل جوہر ايك عمل سے بہتر ہو اور تمہارے درجات كو بلند كرے اور تمہارے لئے اس سے بہتر ہو كہ جس پر سورج چمكتا ہے وہ اللہ تعالى كا ذكر ہے_(358)يہ آيات اور روايات كہ جو بطور نمونہ ذكر ہوتى ہيں ان سے ذكر الہى كى قدر اور قيمت كو آپ نے معلوم كر ليا ہے_ اب يہ ديكھا جائے كہ ذكر خدا سے مراد كيا ہے؟
ذكر خدا كا مراديہ معلوم ہوچكا ہے كہ اللہ تعالى كا ذكر عبادت ميں سے ايك بڑى عبادت ہے اور نفس كے پاك و پاكيزہ اور اس كى تكميل اور سير و سلوك الى اللہ كا بہترين وسيلہ ہے اب ديكھيں كہ ذكر خدا سے جو آيات اور روايات ميں وارد ہوا ہے كيا مراد ہے_ كيا اس سے مراد يہى لفظى ذكر مثل سبحان و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ يا اس سے مراد كوئي اور چيز ہے؟ كيا يہ الفاظ بغير باطنى توجہ كے اتنا بڑا اثر ركھتے ہيں يا نہ؟
لغت ميں ذكر كے معنى لفظى ذكر كے بھى آئے ہيں كہ جو زبان سے كئے جاتے ہيں اور توجہ قلب اور حضور باطن كے معنى بھى آئے ہيں احاديث ميں بھى ذكر ان دو معنوں ميں استعمال ہوا ہے_ حديث ميں آيا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے مناجات كرتے وقت عرض كى كہ ‘ اے خالق_ اس كى جزاء اور ثواب كہ جس نے تجھے زبان اور دل ميں ياد كيا ہو كيا ہے؟ جواب آيا اے موسي(ع) ميں اسے قيامت ميں عرش كے سايہ اور اپنى پناہ ميں قرار دونگا_359) ‘ اس حديث كو ديكھيں تو معلوم ہوگا كہ اس ميں ذكر لفظى جو زبان پر ہوتا ہے اور قلبى ذكر دونوں ميں استعمال ہوا ہے اور دوسرى بہت سى روايات موجود ہيں كہ جن ميں ذكر ان دونوں ميں استعمال ہوا ہے ليكن غالبا اور اكثر ذكر كو توجہ قلبى اور حضور باطنى ميں استعمال كيا گيا ہے اور حقيقى اور كامل ذكر ابھى يہى ہوا كرتا ہے_ خدا كے ذكر سے مراد ايك ايسى حالت ہے كہ خدا كو روح كے لحاظ سے ديكھ رہا ہو اور باطن ميں جہاں كے خالق كى طرف اس طرح متوجہ ہو كہ خدا كو حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ كو خدا كے سامنے جانے جو شخص اس طرح كى حالت ميں خدا كو ياد كرتا ہو تو و ہ اللہ تعالى كے احكام پر عمل كرے گا اور واجبات كو بجالائيگا اور حرام چيزوں كو ترك كرے گا_ اس معنى كے لحاظ سے اللہ كا ذكر آسان ہے_ امام جعفر صادقعليہ السلام نے فرمايا ہے ‘ سب سے مشكل ترين عمل كہ جو ہر شخص سے نہيں ہو سكتا_ تين ہيں اپنے آپ سے لوگوں كو اس طرح انصاف دينا اور عدل كرنا كہ را ضى نہ ہو دوسروں كے لئے وہ چيز كہ جس كو وہ خود اپنے لئے پسند نہيں كرتا_2_ مومن بھائي كے ساتھ مال ميں مساوات اور غمگسارى كرنا_ 3_ ہر حالت ميں اللہ تعالى كا ذكر كرنا_ذكر سے فقط سبحا ن اللہ اور لا الہ اللہ مراد نہيں ہے بلكہ اللہ تعالى كا ذكر يہ ہے كہ جب كوئي واجب كام سامنے آئے تو اسے بجالائے اور جب حرام كام سامنے ائے تو اسے ترك كرے_( 360)رسولخدا نے فرمايا كہ ‘ تين چيزيں ايسى ہيں جو اس امت كے لئے بلند و بالا اور مشكل ہيں_ 1_ مومن بھائي كے ساتھ مال ميں مساوات اور برابرى اور غمگساري_ 2_ اپنے آپ سے لوگوں كو انصاف دينا_ 3_ تمام حالات ميں خدا كا ذكر_ يہاں ذكر سے مراد سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ نہيں ہے بلكہ ذكر سے مراد انسان كا خدا كو اس طرح ياد كرنا ہے كہ جب كوئي حرام كام سامنے آئے تو خدا سے ڈرے اور اسے ترك كردے_ (361)اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ خدا كا سہو اور غفلت ميں ذكر نہ كر اور اسے فراموش نہ كر_ اللہ تعالى كا كامل ذكر اس طرح كر كہ تيرا دل اور زبان ايك دوسرے كے ہمراہ ہوں تيرا باطن اور ظاہر ايكدوسرے كے مطابق ہو تو اللہ تعالى كا حقيقى ذكر سوائے اس حالت كے نہيں كرسكتا مگر تب جب كہ تو ذكر كى حالت ميں اپنے نفس كو فراموش كردے اور بالاخرہ تو اپنے آپ كو نہ پائے_ (362)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے جو شخص حقيقتاً اللہ تعالى كى ياد ميں ہو گاہ وہ اللہ كا مطيع اور فرمانبردار ہوگا جو شخص اللہ سے غافل ہوگا وہ اللہ كى معصيت اور نافرمانى كرے گا_ اللہ تعالى كى اطاعت ہدايت كى علامت ہے اور اللہ تعالى كى نافرمانى گمراہى كى نشانى ہے_ ذكر اور غفلت معصيت اور اطاعت كى بنياد ميں ہے_ ‘
لہذا اپنے دل كو قبلہ قرار دے اور زبان كو سوائے دل كے حكم اور عقل اوررضا الہى كى موافقت كے حركت نہ دے كيونكہ اللہ تيرے باطن ظاہر سے آگاہ ہے اس شخص كى طرح ہو كہ جس كى روح قبض ہو رہى يا اس شخص كى طرح جو اعمال كے حساب دينے ميں اللہ تعالى كے حضور كھڑا ہے_ اپنے نفس كو سوائے الہى احكام كے جو تيرے لئے بہت اہم ہيں_ يعنى اوامر اور نواہى الہى اور اس كے وعدے اور عہد كے علاوہ كسى ميں مشغول نہ كر حزن اور ملال كے پانى سے اپنے دل كو دھوئے اور پاك و پاكيزہ كرے_ جب كہ خدا تجھے ياد كرتا ہے تو تو بھى خدا كو ياد كر كيونكہ خدا نے تجھے اس حالت ميں ياد كيا كہ وہ تجھ سے بے نياز ہے اسى لئے خدا كا تجھے ياد كرنا زيادہ ارزش اور قيمت ركھتا ہے اور زيادہ لذيذ اور كاملتر ہے اور تيرے ياد كرنے سے بہت پہلے ہے_تيرى اللہ تعالى كى صفت اور اس كا ذكر تيرے لئے خضوع اور حياء اور اس كے سامنے تواضع كا موجب ہوگا اور اس كا نتيجہ اس كے فضل اور كرم كا مشاہدہ ہے اس حالت ميں اگر تيرى اطاعت زيادہ بھى ہوئي تو وہ اللہ تعالى كے عطاء كے مقابلے ميں كم ہوگى لہذا اپنے اعمال كو صرف خدا كے لئے بجالا_ اگر اپنے خدا كے ذكر كرنے كو بڑا سمجھے تو يہ ريا اور خودپسندى جہالت اور لوگوں سے بداخلاقى اپنى عبادت كو بڑا قرار دينے اور اللہ تعالى كے فضل و كرم سے غفلت كا موجب ہوگا_ اس طرح كا ذكر سوائے اللہ تعالى سے دور ہونے كے اور كوئي ثمر اور نتيجہ نہيں دے گا اور زمانے كے گذرجانے سے سوائے غم اور اندوہ كے كوئي اور اثر نہيں ركھے گا_ اللہ تعالى كا ذكر دو قسم پر تقسيم ہوجاتا ہے_ ايك خالص ذكر كہ جس ميں دل بھى ہمراہى كر رہا ہو_ دوسرا وہ ذكر جو غير خدا كى ياد كى نفس كرديتا ہو جيسے كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ ميں تيرى مدح نہيں كرسكتا تو اس طرح ہے كہ جس طرح تو نے اپنى صفت خود بيان كى ہے_
لہذا رسول خدا نے اپنے ذكر كى كوئي وقعت اور ارزش قرار نہيں دى كيونكہ اس مطلب كى طرف متوجہ تھے كہ بندے كا خدا كے ذ كر كرنے پر اللہ تعالى كا بندے كا ذكركرنا مقدم ہے لہذا وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے كمتر ہيں وہ اپنے اللہ كے ذكر كو ناچيز اور معمولى قرار دينے كے زيادہ سزاوار ہيں لہذا جو شخص اللہ تعالى كا ذكر كرنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے كہ جب تك اللہ اسے توفيق نہ دے اور خود بندے كو ياد نہ كرے وہ اللہ كے ذكر كرنے پر قدرت نہيں ركھے سكتا_ (363)جيسے كہ ملاحظہ كر رہے ہيں ان روايات ميں قلبى توجہ اور باطنى حضور كو ذكر كرنے كا مصداق بتلايا گيا ہے نہ صرف قلبى خطور اور بے اثر ذہنى تصور كو بلكہ باطنى حضور جو يہ اثر دكھلائے كہ جس كى علامتوں ميں سے اوامر اور نواہى الہى كى اطاعت كو علامت قرار ديا گيا ہے ليكن يہ اس امر كى دليل نہيں ہے كہ لفظى اور زبانى ذكر و اذكارش لا الہ الا اللہ سبحان اللہ الحمد و غيرہ كے اللہ كے حقيقى ذكر كا مصداق نہيں ہيں بلكہ خود يہ كلمات بھى اللہ تعالى كے ذكر كا ايك مرتبہ اور درجہ ہيں علاوہ اس كے كہ يہ اذكار بھى قلب اور دل سے پھوٹتے ہيں_جو شخص ان لفظى اذكار كو زبان پر جارى كرتا ہے وہ بھى دل ميں گرچہ كم ہى كيوں نہ ہو خدا كى طرف توجہ ركھتا ہے اس لئے كہ وہ خدا كى طرف توجہ ركھتا تھا تب ہى تو اس نے ان اذكار كو زبان پر جارى كيا ہے_ اسلام كى نگاہ ميں ان كلمات اور اذكار كا كہنا بھى مطلوب ہے اور ثواب ركھتا ہے ليكن شرط يہ ہے كہ قصد قربت سے ہوں جيسے كہ ظاہرى نماز انہيں الفاظ اور حركات كا نام ہے كہ جس كے بجالانے كا ہميں حكم ديا گيا ہے گرچہ نماز كى روح قلب كا حضور اور باطنى توجہ ہے_
ذكر كے مراتب
ذكر كے لئے كئي ايك مراتب اور درجات ہيں كہ سب سے كمتر مرتبہ اور درجہ لفظى اور ززبانى ذكر سے شروع ہوتا ہے يہاں تك كہ وہ انقطاع كامل اور شہود اور فتا تك جا پہنچتا ہے_پہلا درجہپہلے درجے ميں چونكہ ذكر كرنے والا خدا كى طرف توجہ كرتا ہے اور قصد قربت سے خاص اور مخصوص زبان پر بغير معانى سمجھے اور متوجہہ ہوئے جار ى كرديتا ہے_
دوسرا درجہ _قصد قربت سے ذكر كرتا ہے اور ذكر كرنے كى حالت ميں ان كے معانى كو بھى ذہن ميں خطور ديتا ہے_
تيسرا درجہزبان قلب كى پيروى كرتى ہے اور ذكر كہتى ہے اس معنى ميں كہ جب دل خدا كى طرف توجہہ كرتا ہے اور اپنے باطن ذات ميں ان اذكار كے معانى پر ايمان ركھتا ہے تو پھر وہ زبان كو حكم ديتا ہے كہ وہ خدا كا ذكر شروع كردے_
چوتھا درجہ
خدا كى طرف رجوع كرنے والا انسان خالق جہان كے بارے ميں حضور قلبى اور توجہ كامل ركھتا ہے اور اسے حاضر اور ناظر اور اپنے آپ كو اس ذات كے سامنے حاضر ديكھتا ہے_ خدا كى طرف رجوع كرنے والے انسان اس حالت ميں درجات ركھتے ہيں اور مختلف ہوتے ہيں بعض كاملتر ہيں جتنى مقدار غير خدا سے قطع قطع كرے گا اتنى ہى مقدار خدا سے مانوس اور اس سے علاقمند ہوگا يہاں تك كہ انقلاع كامل اور لقاء اور فتاء كى حد تك پہنچ جائيگا_ اس درجے ميں خدا كى طرف رجوع كرنے والا انسان اعلى ترين درجے پر ہوتا ہے_ اس كے سامنے دنيا كے حجاب اٹھ جاتے ہيں_ اور غير حقيقى اور مجازى علاقہ اور ربط اس نے ختم كرديئے ہوتے ہيں اور خيرات اور كمال كے مركز سے متصل ہوجاتا ہے لہذا اس كے سامنے تمام چيزيں يہاں تك كہ وہ اپنى ذات كو كبھيچھوڑ كر خدا كى طرف رجوع كرتا ہے_ غير خدا سے قطع روابط ركھتا ہے اور صرف ذات الہى سے اپنى محبت كو مختص كرديتا ہے_ سوائے خدا كے اور كوئي كمال نہيں ديكھتا تا كہ اس سے دل كو لگائے اور وابستہ كرے كسى كو مونس نہيں ديكھتا تا كہ اس سے انس اور محبت كرے_ اس طرح كے خاص بندوں نے عظمت اور جلال و كمال او رخير اور نور و ايمان كے سرچشمہ كو پاليا ہوتا ہے اور اپنى باطنى آنكھ سے جمال الہى كا مشاہدہ كر رہے ہوتے ہيں_ يہاں تك كہ ايك لحظہ بھى وہ دنيا كى مجازى چيزوں كى طرف متوجہ نہيں ہوتے اور انہيں ا پنا دل نہيں ديتے چونكہ وہ كمالات كے منبع تك پہنچ چكے ہيں لہذا ان كى نگاہ ميں مجازى اور عارضى كمالات كوئي حيثيت نہيں ركھتے وہ اللہ تعالى كے لقاء اور عشق اور محبت ميں جلتے رہتے ہيں اور خدا سے انس اور محبت كى لذت كو دنياوى چيزوں سے تبادلہ نہيں كرتے اور اگر جہاں كى ظاہرى چيزوں كو بھى ديكھتے ہيں تو اس ميں بھى نو رجمال الہى اور وجود كامل كى نشانى اور علامت كا عكس مشاہدہ كرتے ہيں_ (364)امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ‘ كس طرح تيرے وجود كے ثابت كرنے كے لئے اس چيز سے استدلال كيا جائے كہ جو وہ خود تيرى محتاج ہے؟ كيا تيرے غير كے لئے ظہور ہے جو تيرى ذلت كے لئے موجود نہيں ہے تا كہ تو اس كے ظہور كے ذريعے ظاہر كيا جائے؟ كب تو دور تھا تا كہ آثار اور علائم تيرے تك پہنچنے كے اسباب بن سكيں؟ وہ آنكھ اندھى ہے جو تجھے اپنا مراقب اور مشاہدہ كرنے والا نہيں ديكھتي؟ كتنا نقصان ميں ہے وہ بندہ كہ جسے تو نے اپنى محبت سے كچھ حصہ نہيں ديا؟_(365)
اميرالمومنين عليہ السلام شعبانيہ مناجات ميں فرماتے ہيں_ ‘ اے خدا پورى طرح اپنے ميں غرق اور كامل ہونے كو مجھے عطا كر اور ميرے دل كى آنكھوں كو اپنے جمال كے نور كے مشاہدہ كرنے كا نور عطا فرما تا كہ ميرے دل كى آنكھيں نور كے حجاب كو پار كر كے تيرى عظمت تك پہنچ جائيں اور ہمارى روحيں تيرے مقام قدس سے جا وصل ہوں_( 366)امام زين العابدين عليہ السلام اس طرح كے خاص بندوں كے حق ميں يوں ارشاد فرماتے ہيں:
‘ خدايا تير ى ثناء اور تعريف جو تيرے لائق اور سزاوار ہے زبان سے بيان كرنے ميں وہ تيرے بندے عاجز ہيں تيرى ذات كے جمال حقيقت تك پہنچنے سے وہ عاجز ہيں_ تيرے جمال كے انوار كو ديكھنے كى آنكھيں قدرت نہيں ركھتى _ تو اپنے بندوں كے لئے تيرى معرفت كے مقام تك پہنچنے كے لئے سوائے عجز كے اظہار كے اور كچھ نہيں ركھا_ خدايا ہميں ان بندوں سے قرار دے كہ تيرے لقاء كے شوق كا پودا جن كے دلوں ميں بويا گيا ہے_ اور محبت كى آتش نے ان كى دلوں كو گھير ركھا ہے لہذا وہ عالى افكار كے آشيانہ ميں اترتے ہيں اور مقام قرب و شہود الہى كے باغات سے نعمتيں حاصل كرتے ہيں اور محبت كے چشمے سے لطف و كرم كے جام پيتے ہيں_ صفا اور محبت اور مودت كے چشمہ ميں وارد ہوتے ہيں_ ان كے دل كى آنكھوں سے پردہ اٹھ گيا ہے اور عقائد ميں شك و ترديد اور تاريكى ان كے دلوں سے دور ہوگئي ہے اور ان كے دلوں ميں شك كا گذر زائل ہوچكا ہے_ تحقيق كے ذريعے ان كے دلوں كى معرفت نے وسعت پيدا كرلى ہے_ اور زہد كى دوڑ لگانے ميں ان كى ہمت بلند ہوچكى ہے_ خدا كے ساتھ معاملہ كرنے ميں پسنديدہ خاطر ہوتے ہيں اور خدا كے ساتھ انس كى مجلس ميں پاكيزہ باطن ركھتے ہيں اور خوف كے مقامات ميں امن اور آرام كا راستہ موجود پاتے ہيں اور اپنے پروردگار كى طرف رجوع كرنے ميں مطمئن نفس ركھتے ہيں_ سعادت اور نجات كے راستے ميں يقين كے مرتبہ تك پہنچے ہوئے ہيں_ محبوب كے مشاہدہ كرنے ميں ان كى آنكھيں روشن ہيں اور اس كے پانے ميں كہ جس كى اميد كرتے باطنى آرام اور اطمينان ركھتے ہيں_ دنيا كے معاملات ميں آخرت كے لئے فائدہ حاصل كيا_ اے خدا_ تيرے ذكر كے الہام كے تصورات دلوں پر كتنے لذت آور ہوتے ہيں_ اور تيرى طرف غيب كے تفكر كے ذريعے آنے ميں كتنا مٹھاس اور شرينى ہے_ اور تيرى محبت كا طعام كتنا مزے دار ہے_اور تيرے قرب كا پانى كتنا لذيذ اور خوشگوار ہے_ ہميں دور كرنے او رنكال ديئےانے سے پناہ دے اور ہميں مخصوص تر عارف اور اپنے بندوں ميں صالح ترين بندہ اور اطاعت كرنے ميں صادق ترين اور عبادت كرنے والوں ميں خالص ترين عبادت كرنے والا قرار دے_ اے بزرگتر اور عظيم اور كريم اور احسان كرنے والا خدا_ تجھے تيرى عطا اور رحمت كى قسم_ اے ارحم الرحمين_’ (367)خلاصہ چوتھا مرتبہ اور مقام بہت ہى عالى اور بلند و بالا ہے اور پھر اس كے كئي ايك درجات اور مراتب ہيں جو ذات مقدس واجب الوجود اور كمال و جمال غير متناہى تك جاتے ہيں_ اہل اللہ اور عارفين كى اصطلاح ميں ان كے مختلف نام ہيں جيسے مقام ذكر مقام انس مقام انقطاع مقام محبت، مقام شوق، مقام رضا، مقام خوف، مقام شہود، مقام عين اليقين، مقام حق اليقين، اور آخرى مقام جسے مقام فنا نام ديتے ہيں يہ تعبيرات اكثر آيات اور احاديث سے لى گئي ہيں او رہر ايك نام كى كچھ نہ كچھ مناسبت بھى ہے_
جب عارف اور عبادت گذار واجب الوجود ذات الہى كے جمال اور عظمت غير متناہى كى طرف توجہ كرے اور اس كى محبت اور فيوضات كو سامنے ركھے اور اپنى تقصير اور ناتوانى اور مقام اعلى تك نہ پہنچنے كى مسافت سے دور ہونے كا احساس كرے تو پھر اس كے دل ميں شوق اور عشق سوز اور گداز پيدا ہوتا ہے تو اس كيفيت اور مقام كا نام شوق كا مقام ديا جاتا ہے_ جب كمالات كے درجات اور مقامات پر كوئي پہنچ جائے تو وہ انہيں درجات اور معلومات سے انس كرنے لگتا ہے اور خوش اور شاد ہوجاتا ہے تو اسى مناسبت سے اس درجے اور رتبے كو مقام انس سے تعبير كرتے ہيں اور جب عظمت اور كمال غير متناہى ذات الہى كى طرف توجہ كرے اور اس عظمت كے مقام كے پانے ميں اپنى كمزورى اور عجز اور قصور پر مطلع اور واقف ہو تو اس كا دل لرزتا او ردكھتا ہے اس كے تمام وجود پر خوف اور ڈر چھاجاتا ہے تو پھر وہ گريہ و زارى كرنے لگتا ہے تو اسى مناسبت سے اس حالت كا نام مقام خوف ركھ ديا جاتا ہے_ اسى طرح باقى تمام مقامات كسى نہ كسى انسان كى كيفيت اور حالت كى مناسبت سے ركھے جاتے ہيں_بہتر يہى ہے كہ يہ ناچيز بندہ جو يہ كتاب لكھ رہا ہے او رجو خواہشات نفس اور مادى تاريكيوں اور ظلمات كا قيدي_ مقامات معنوى كے حاصل كرنے سے محروم ہے اس بحر بيكراں ميں وارد نہ ہو اور ان مقامات عاليہ كى شرح اور توضح انہيں لوگوں كے لئے چھوڑ دے جو اس كى قابليت اور اہليت ركھتے ہيں كيونكہ جس نے محبت اور انس اور لقاء اللہ كا ذائقہ ہى نہ چكا ہو وہ ان مقامات عاليہ كى توضيح اور تشريح سے عاجز اور ناتوان ہوگا_ نيكوں كو دوست ركھتا ہوں اگر چہ انہيں سے نہيں ہوں_
خدايا ہميں اپنے ذكر كى حلاوت عنايت فرما اور ہميں حالات چكھنے والے افراد سے قرار دے يہاں بہتر ہوگا كہ جو اس كے اہل تھے ان كى بات اور گفتگو كو نقل كيا جائے_ عارف ربانى فيلسوف عالى ملاصدرا شيرازى لكھتے ہيں_ اگر كسى بندے پر اللہ تعالى كى رحمت كے سائے پڑ جائيں تو وہ خواب غفلت اور جہالت سے بيدار ہوجاتا ہے اور جان ليتا ہے كہ اس محسوس جہان كے علاوہ بھى كوئي دوسرا جہان ہے_ حيوانى لذت سے اعلى اور بھى لذات ہيں تو اس حالت ميں وہ باطل اور بے ارزش امور سے روگردانى كرليتا ہے اور گناہوں كے ارتكاب سے اللہ تعالى سے توبہ كرتا ہے پھر اللہ تعالى كى آيات اور نشانيوں ميں فكر اور غور شروع كرديتا ہے اور مواعظ الہى كو سنتا ہے اور پيغمبر اكرم كى احاديث ميں غور كرتا ہے اور شرعيت كے مطابق عمل كرتا ہے اور آخرت كے كمالات حاصل كرنے كے لئے دنيا كے لغويات اور فضوليات جيسے جاہ و جلال مقام و منصب مال اور متاع سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اگر اس سے زيادہ اللہ كى رحمت اس كے شامل حال ہوجائے تو حتمى ارادہ كرليتا ہے كہ غير خدا سے چشم پوشى كرے اور اللہ تعالى كى جانب حركت كرے اور خواہش نفس كے مقام كو چھوڑ كر اللہ تعالى كى طرف حركت كرے اس حالت ميں اس پر اللہ تعالى كے انوار ملكوتى ظاہر ہو جاتے ہيں او رعالم غيب كا دروازہ اس كے لئے كھل جاتا ہے اور عالم قدس كے صفحات آہستہ آہستہ اس كے لئے آشكار ہوجاتے ہيں اور غيبى امور كى مثالى صورت ميں مشاہدہ كرتا ہے جب وہ امور غيبى كے مشاہدے كى لذت كو چكھ لے تو پھر خلوت او ر دائمى ذكركرنے سے علاقمند ہوجاتا ہے اس كا دل حسى مشاغل سے خالى ہوجاتا ہے اور تمام وجود كے ساتھ اللہ تعالى كى طرف توجہ پيدا كرليتا ہے_ اس حالت ميں اس پر علوم لدنى آہستہ آہستہ اترنے لگتے ہيں اور معنوى انوار كبھى كبھى اس كے لئے ظاہر ہونے لگتے ہيں يہاں تك كہ كامل تمكن اور تحقق حاصل كرليتا ہے_ تلون مزاجى اور تغير دور ہو جاتى ہے اور آرام اور سكون اس پر نازل ہوجاتا ہے اس حالت ميں وہ عالم جبروت ميں وارد ہوجاتا ہے اور عقول مفارقہ كا مشاہدہ كرتا ہے او ران كے انوار سے نورانى ہوجاتا ہے اور اس كے لئے قدرت اور سلطان الہى اور عظمت اور كبرياء كا نور آشكار ہوجاتا ہے اور اس كى انانيت اور وجود كو متلاشى اور ھباء منشوارا كرديتا ہے اور ذات احديت كى عظمت اور قدرت كے سامنے ساقط ہوجاتا ہے اس حالت اور مقام كو مقام احديت كہا جاتا ہے اور اغيار سالك كى نگاہ ميں مستہلك ہوجاتے ہيں اور لمن الملك اليوم الواحد القہار كى آواز كوسنتا ہے_ (368)
عارف ربانى ملا فيض كاشانى لكھتے ہيں كہ خدائي محبت اور اس كى تقويت اور رويت خدا اور اس كے لقاء كے لئے اسباب مہيا كرنے كا طريقہ معرفت اور اس كو تقويت دينا ہوا كرتا ہے_ معرفت حاصل كرنے كا طريقہ قلب كو دنياوى علائق اور مشاغل اور كامل طور پر انقطاع الى اللہ كا وسيلہ اور ذريعہ صرف ذكر اور فكر اور غير خدا كى محبت كو دل سے نكالنا ہے_ كيونكہ دل ايك برتن كى مانند ہے_ اگر برتن پانى سے بھرا ہوا ہو تو پھر اس ميں سركہ ڈالنے كى گنجائشے نہيں ہوتى پانى كو برتن سے خالى كيا جائے تا كہ اس ميں سركہ ڈالا جاسكے_ خداوند كريم نے كسى كے لئے دو دل پيدا نہيں كئے كامل محبت يوں ہوگى كہ سارے دل ميں خدا كو دوست ركھے جب غير خدا كى طرف توجہ ركھے گا تو دل كا كچھ حصہ غير خدا ميں مشغول ہوگا پس انسان جتنا غير خدا كے ساتھ مشغول رہے گا اتنى مقدار خدا كى محبت ميں كمى واقع ہوگى مگر غير خدا كى طرف توجہ اس نيت سے ہو كہ وہ بھى خدا كى مخلوق اور خدا كا فعل ہے اور ہ اللہ تعالى كے اسماء اور صفات كا مظہر ہے_ خدا نے قرآن مجيد ميں اسى مطلب كى طرف اشارہ كيا ہےقل اللہ ثم ذرہم يہ حالت شوق كے غلبہ سے حاصل ہوتى ہے بايں معنى كہ انسان كو شش كرے كہ جو كچھ اس كے لئے آشكار ہوا ہے اس سے زيادہ آشكار ہو اور اس كى طرف جو اسے ابھى تك حاصل نہيں ہوا ہے شوق پيدا كرے كيونكہ شوق اس چيز سے متعلق ہوتا ہے كہ كوئي چيز كچھ آشكار ہو اور كچھ آشكا رنہ ہو ہميشہ ان دو ميں رہے گا كہ جس كى كوئي انتہا نہيں ہے اس واسطے كہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہيں ان كى كوئي انتہا نہيں ہے اس واسطے كہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہيں ان كى كوئي انتہا نہيں ہے اسى طرح خدا كے كمال اور جمال جو باقى ہيں ان كى زيادتى كا كوئي كنارہ نہيں_ بلكہ وصال كے حاصل ہوجانے سے وہ لذت بخش شوق كا احساس كرتا ہے كہ جس ميں كوئي الم اور درد نہيں ہوا كرتا پس شوق كبھى بھى ختم نہيں ہوتا بالخصوص جب بہت سے بالا درجا كو مشاہدہ كرتا ہے_ يسعى نورہم بين ايديہم و بايمانہم يقولون ربنا اتمم لنا نورنا_ (369)
345_يا ايہا الذين آمنوا ذكروا اللہ ذكراً كثيراً_ احزاب/ 41_346_الذين يذكرون اللہ قياماً و قعوداً و على جنوبہم و يتفكفرون فى خلق السموات و الارض ربنا ما خلقت ہذا باطلاً آمنوا اذكرو اللہ ذكراً كثيراً_ احزاب/ 41_347_قد افلح من تزكّى و ذكر اسم ربّہ فصلّي_ اعلي1 15_348_و اذكر اسم ربّك بكرة واصيلاً_ انسان/ 25_349_و اذكر ربّك كثيراً و سبّح بالعشى و الابكار_ آل عمران/ 41_350_فاذا قضيتم الصلوة فاذكرو اللہ قياماً و قعوداً و على جنوبكم_ نسائ/ 103_351_عن ابى عبداللہ (ع) قال: من اكثر ذكر اللہ عزّوجل اظلّہ اللہ فى جنتہ_ وسائل/ ج 4 ص 1182_352_عن ابى عبداللہ عليہ السلام فى رسالتہ الى اصحابہ قال: و اكثرو اذكر اللہ ما استطعتم فى كل ساعة من ساعات الليل و النہار، فان اللہ امر بكثرة الذكر، واللہ ذاكر لمن ذكرہ من المؤمنين_ و اعلموا انّ اللہ لم يذكرہ احد من عبادہ المؤمنين الّا ذكرہ بخير_ وسائل/ ج 4 ص 1183_353_عن ابيعبداللہ عليہ السلام: قال اللہ لموسى : اكثر ذكرى بالليل و النہار و كن عند ذكرى خاشعاً و عند بلائي صابراً و اطمئن عند ذكرى و اعبدنى و لا تشرك بى شيئاً اليّ المصير_ يا موسي اجعلنى ذخرك وضع عندى كنزك من الباقيات الصالحات_ وسائل/ ج 4 ص 1182_بحنكہ يقول: لا الہ الا اللہ، و كان يجمعنا فيامرنا بالذكر حتى تطلع الشمس_ (الى ان قال) و قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: لاا خبركم بخير اعمالكم و ارفعہا فى درجاتكم و ازكاہا عند مليككم و خير لكم من الدينار و الدّرہم و خير لكم من ان تلقوا عدّوكم فتقتلوہم و يقتلوكم؟ فقالوا بلي_ فقال ذكر اللہ كثيرا ثم قال: جاء رجل الى النبى فقال: من خير اہل المسجد؟ فقال: اكثرہم اللہ ذكرا_ و قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: من اعطى لسانا ذاكراً فقد اعطى خيرالدنيا و الآخرة وسائل/ ج 4 ص 1181_355_فى وصية ابى ذرّ قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: عليك بتلاوة القرآن و ذكر اللہ كثيراً فانّہ ذكر لك فى السماء و نور لك فى الارض_بحار/ ج 93 ص 154_356_عن الحسن بن على عليہ السلام قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:با دروا الى رياض الجنة، فقالوا: ما رياض الجنّة؟ قال: حلق الذكر_ بحار/ ج 93 ص 156_357_عن الصادق عليہ السلام قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:ذاكر اللہ فى الغافلين كالمقاتل فى الفارّين لہ الجنة_ بحار/ ج 93 ص 163_358_انّ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ خرج على اصحابہ فقال: ارتعوا فى رياض الجنة_ قالوا يا رسول اللہ و ما رياض الجنة؟ قال: مجالس الذكر، اغدوا و روّحوا و اذكروا_ و من كان يحب ان يعلم منزلتہ عنداللہ فلينظر كيف منزلة اللہ تعالى عندہ، ينزل العبد حيث انزل العبد اللہ من نفسہ و اعملوا انّ خير اعمالكم عند مليككم و ازكاہا و ارفعہا فى درجاتكم و خير ما طلعت عليہ الشمس ذكر اللہ فانہ تعالى اخبر عن نفسہ فقال: انا جليس من ذكرني_ بحار/ ج 93 ص 163_359_فيما ناجى بہ موسى عليہ السلام ربّہ: الہى ما جزاء من ذكرك بلسانہ و قلبہ؟ قال: يا موسى اظلّہ يوم القيامة بظلّ عرشى و اجعلہ فى كنفي_ بحار/ ج 93 ص 156_360_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: اشدّ الاعمال ثلاثة: انصاف الناس من نفسك حتى لاترضى لہا منہم بشيء الّا رضيت لہم منہا بمثلہ_ و مواساتك الاخ فى المال و ذكر اللہ على كل حال، ليس سبحان اللہ، و الحمداللہ، و الا الہ الّا اللہ، و اللہ اكبر فقط، و لكن اذا ورد عليك شيء امراللہ بہ اخذت بہ و اذا ورد عليك شيء نہى عنہ تركتہ_ بحار/ ج 93 ص 155_361_فيما اوصى بہ رسول اللہ (ص) علياً: يا علي ثلاث لا تطيقہا ہذہ الامة: المواسات للاخ فى مالہ_ و انصاف الناس من نفسہ_ و ذكر اللہ على كل حال_ و ليس ہو سبحان اللہ و الحمداللہ و لا الہ الّا اللہ و اللہ اكبر، و لكن اذا ورد على ما يحرم عليہ خاف اللہ عندہ وتركہ_ بحار/ ج 93 ص 151_362_قال على عليہ السلام: لا تذكروا اللہ سبحانہ ساہيا و لا تنسہ لاہياً و اذكرہ ذكراً كاملاً يوافق فيہ قلبك لسانك و يطابق اضمارك اعلانك و لن تذكرہ حقيقة الذكر حتى تنسى نفسك فى ذكرك و تفقدہا فى امرك_ غرر الحكم/ ص 817_354_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: ما من شيء الّا ولہ حدّ ينتہى اليہ الّا الذكر فليس لہ حدّ ينتہى اليہ فرض اللہ عزّوجلّ الفرائض فمن ادّاہنّ فہو حدّہن، و شہر رمضان فمن صامہ فہو حدّہ_ و الحجّ فمن حجّ فہو حدّہ_ الّا الذكر فانّ اللہ عزّوجل لم يرض منہ بالقليل و لم يجعل لہ حدّاً ينتہى اليہ ثم تلا: يا ايہا الذين آمنوا اذكرو اللہ ذكراً كثيراً و سبحوہ بكرة واصيلاً_ فقال: لم يجعل اللہ لہ حداً ينتہى اليہ قال: و كان ابى كثير الذكر لقد كنت امشى معہ و انّہ ليذكر اللہ و آكل معہ الطعام و انّہ ليذكر اللہ و لقد كان يحدّث القوم و ما يشغلہ ذالك عن ذكر اللہ و كنت ارى لسانہ لازقاً363_قال الصادق عليہ السلام: من كان ذاكراً على الحقيقة فہو مطيع و من كانہ غافلاً عنہ فہو عاص و الطاعة علامة الہدايہ و المعصية علامة الضلالة و اصلہما من الذكر و الغفلة فاجعل قلبك قبلة و لسانك لا تحرّكہ الّا باشارة القلب و موافقة العقل و رضى الايمان، فان اللہ عالم يسرّك و جہرك، و كن كالنارع، وحہ او كا لواقف فى العرض الاكبر غير شاغل نفسك عما عناك ممّا كلّفك بہ ربّك فى امرہ و نہيہ و وعدہ و وعيدہ و لا تشغلہا بدون ما كلّفك و اغسل قلبك بماء الحزن و اجعل ذكر اللہ من اجل ذكرہ لك فانّہ ذكرك و ہو غنى عنك فذكرہ لك اجلّ و اشہى و اتّم من ذكرك لہ و اسبق، و معرفتك بذكرہ لك يورثك الخضوع و الاستحياء و الانكسار و يتولد من ذلك رؤيہ كرمہ و فضلہ السابق و يصغر عند ذلك طاعاتك و ان كثرت فى جنب مننہ_ فتخلّص بوجہہ و رؤيتك ذكرك لہ تورثك الريا و العجب و السفہ و الغلظة فى خلقہ و استكثار الطاعة و نسيان فضلہ و كرمہ_ و ما تزداد بذلك من اللہ الّا بعداً و لا تستجلب بہ على مضيّ الايام الّا وحشة_ و الذكر ذكران: ذكر خالص يوافقہ القلب، و ذكر صارف ينفى ذكر غيرہ كما قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:انّى لا احصى ثناء عليك، انت كما اثنبت على نفسك فرسول اللہ لم يجعل لذكرہ للہ عزّوجل مقداراً عند علمہ بحقيقة سابقة ذكر اللہ لہ من قبل ذكرہ لہ_ فمن دونہ اولي_ فمن اراد ان يذكر اللہ تعالى فليعلم انہ ما لم يذكر اللہ العبد بالتوفيق لذكرہ لا يقدر العبد على ذكرہ_ بحار/ ج 93 ص 158_364_سئل اميرالمؤمنين عليہ السلام: ہل رايت ربك حين عبدتہ؟ فقال: ويلك ما كنت اعبد رباً لم ارہ_ قيل: و كيف رايتہ؟ قال: ويلك لا تدركہ العيون فى مشاہدة الابصار ولكن راتہ القلوب بحقائق الايمان_ حقائق فيض/ ص 179_365_قال حسين بن على عليہ السلام: كيف يستدل عليك بما ہو فى وجودہ مفتقر اليك؟ ايكون لغيرك من الظہور ما ليس لك؟ حتى يكون ہو المظہر لك_ متى غبت حتى تحتاج الى دليل يدل عليك؟ و متى بعدت حتى تكون الآثار ہى التى توصل اليك؟ عميت عين لا تراك عليہا رقيباً و خسرت صفقة عبد لم تجعل لہ من حبك نصيباً_ اقبال الاعمال/ دعاء عرفہ_366_الہى ہب لى كمال الانقطاع اليك و انر ابصار قلوبنا بضياء نظرہا اليك حتى تخرق ابصار القلوب حجب النور فتصل الى معدن العظمة و تصير ارواحنا معلّقة بعزّ قدسك_ اقبال الاعمال/ مناجات شعبانيہ_367_قال على بن الحسين عليہ السلام: بسم اللہ الرحمان الرحيم_ الہى قصرت الان عن بلوغ ثنائك كما يليق بجلالك و عجزت العقول عن ادراك كنہ جمالك و انحسرت الابصار دون النظر الى سبحات وجہك و لم تجعل للخلق طريقا الى معرفتك الّا بالعجز عن معرفتك_ الہى فاجعلنا من الذين ترسّخت اشجار الشوق اليك فى حدائق صدورہم و اخذت لوعة محبتك بمجامع قلوبہم فہم الى اوكار الافكار ياوون و فى رياض القرب و المكاشفة يرتعون و من حياض المحبة بكاس الملاطفة يكرعون و شرايع المصافات يردون_ قد كشف الغطاء عن ابصارہم وانجلت ظلمة الريب عن عقائدہم و ضمائرہم و انتفت مخالجة الشك عن قلوبہم و سرائرہم و انشرحت بتحقيق المعرفة صدورہم وعلت لسبق السعادة فى الزہاة ہممہم و عذب فى معين المعاملة شريہم و طاب فى مجلس الانس سرہم و امن فى موطن المخافة سربہم و اطمانت بالرجوع الى ربّ الارباب انفسہم و تيقنت بالفوز و الفلاح ارواحہم و قرّت بالنظر الى محبوبہم اعينہم و اسقرّ بادراك السؤل و نيل المامول قرار ہم و ربحت فى بيع الدنيا بالاخرة تجارتہم_ الہى ما الذّخواطر الالہام بذكرك على القلوب و ما احلى المسير اليك بالاوہام فى مسالك الغيوب و ما اطيب طعم حبّك و ما اعذب شرب قربك فاعذنا من طردك و ابعادك و اجعلنا من اخص عارفيك و اصلح عبادك و اصدق طائعيك و اخص عبّادك يا عظيم يا جليل يا كريم يا منيل برحمتك و منك يا ارحم الراحمين_ بحار/ ج 94ص 150، مناجات العارفين_368_مفاتيح الغيب/ ص 54_369_حقائق/ ص 181_