حاجت پوری ہونے کی صورت میں بھی خوف لازم ہے

271

حاجت پوری ہونے کی صورت میں بھی خوف لازم ہے

اگر دعا قبول نہ ہوئی ہو تو ڈرنا چاہیئے کہ کہیں گناہوں کی وجہ سے دعا مستجاب نہیں ہوئی اور اگر شرف قبولیت سے نواز دی گئی ہو ، تب بھی ڈرنا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے وہ بارگاہِ الٰہی کا مردود ہو اور خدا نے اس کی آواز سننا ہی گوارا نہ کی ہو۔ اس لیے جلد از جلد اس کی حاجت پوری کر دی ہو۔

جدائی سخت ترین د رد ہے

اگر ابواب معرفت میں ایک دروازہ اس کے سامنے کھل جائے یا مقامات معنوی (علم و ادب وحکمت) میں سے کوئی ایک مقام حاصل ہو جائے تو اپنے فہم و فراست پر اکتفا کرنے اور حاصل شدہ چیزوں پر فخر کرنے سے ڈرنا چاہیئے۔

اگر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کو فراموش کر دیا اور شکر الٰہی بجا لانے میں کوتاہی اور سستی سے کام لیا تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محروم اور ابدی رسوائی میں مبتلا ہو گا۔ اس صورت میں وہ محبوب حقیقی سے جدا ہو جائے گا اور اہل معرفت کے نزدیک جدائی سخت ترین عذاب ہے۔ چنانچہ امیر المومنین (علیہ السلام) دعائے کمیل میں ارشاد فرماتے ہیں:

فَھَبْنِیْ یَا اِلٰھِیْ وَسَیَّدِیْ وَمَوْلَایَ وَرَبِّیْ صَبَرْتُ عَلٰی عَذَابِکَ فَکیْفَ اَصْبِرُ عَلٰی فِرَاقِکَ

"گویا اے میرے معبود اور میرے آقا اور اے میرے مولا اور اے میرے پروردگار! ہو سکتا ہے کہ میں تیرے عذاب پر تو صبر کر لوں مگر تیری رحمت کی جدائی پر کیونکر صبر کر سکوں گا۔"
آخر عمر تک کس حالت میں رہنا چاہیئے

یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی عمر کے خاتمے سے ڈرتا رہے کیونکہ خوش بختی اور بد بختی کا دارو مدار عاقبت خیر ہونے یا نہ ہونے پر مبنی ہے۔ چونکہ ہمارے مشاہدے گواہ ہیں کہ بہت سے لوگوں نے ساری عمر بظاہر خیر و سعادت میں گزار دی اور آخر عمر میں شقاوت کا بارِ گراں اس دنیا سے لے کر چل بسے۔

فَاعْتَبِرُوْایَا اُوْلِی الْاَلْبَابْ

"پس ان سے درس عبرت لو اے صاحبان عقل۔"
سب سے امتحان لیا جاتا ہے

اور یہ بات بھی نا قابل فراموش ہے کہ ہم کو اللہ کے سخت ترین امتحانات سے ڈرنا چاہیئے۔ چونکہ تمام اہل ایمان جن مراتب پر فائز ہیں بغیر استثناء ، ہمیشہ خطرے سے دوچار ہیں۔ چنانچہ قرآن متنبّہ کرتا ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَقُمْولُوْا آمنَّاوَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ (سورہ۳۶۔آیت۲)

"کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ (صرف) اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کا امتحان نہ لیا جائے گا۔"
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آگ

جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کو منجنیق میں باندھ کر دہکتی ہوئی آگ کی طرف پھینکنے لگے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا"حسبی اللہ" یعنی میرے لیے خدا کافی ہے۔ ہر حالت میں ہر چیز کے لیے خدا کے سوا اور کسی کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ خلیل اللہ (علیہ السلام) نے جب بڑی بات کا دعویٰ کیا تو پروردگار نے اُن کا امتحان لینا چاہا اور جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا ۔ اس نے عرض کیا: اے ابراہیم (علیہ السلام) اگر کسی قسم کی حاجت ہے تو بتاؤ تا کہ میں اس کو پورا کروں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میری حا جت ضرور ہے مگر تجھ سے نہیں۔

جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ درست ہے لیکن جس سے چاہیئے اس سے تو طلب کر لیں ۔ خلیل اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا: وہ میری حالت سے بے خبر نہیں ۔ اس لیے بولنے کی ضرورت نہیں۔
امتحان میں کام یاب

مرحبا ، اس بزرگ پر جس نے انتہائی ضرورت کی حالت میں بھی جبرائیل (علیہ السلام) جیسے امین وحی اور مقرب فرشتے کی ہمدردی کو در خور اعتنا نہیں سمجھا اور اپنا راز و نیاز ظاہر نہیں فرمایا اور آزمائش کی شدید لہروں سے نجات پائی۔ اسی لیے فرمایا:

وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰ (سورہ ۵۳)

"اور ابراہیم (علیہ السلام) وہی ہے جو اپنی بات پر پورا اترا۔"

بندہٴ مومن کو چاہیئے کہ کسی حالت میں امتحان سے غافل نہ رہے اور عذابِ الٰہی کے مواخزے کو فراموش نہ کرے۔ چنانچہ ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین بھی مطمئن نہیں تھے۔ خصوصاً فتنہ و فساد کے دوران اور شک و شبہ کی حالت میں غافل نہیں رہنا چاہیئے۔ بار بار حق تعالیٰ کو یاد کریں اور اس ڈریں۔ ہو سکتا ہے کہ خدا وند عالم کے مقررہ حدود سے باہر قدم رکھے اور بڑے خطرے میں پڑجائے۔چنانچہ حضرت سجاد (علیہ السلام) دعا ابو حمزہ ثمالی کے شروع میں فرماتے ہیں:

وَلَاتَمْکُرْ بِیْ فِیْ حِیْلَتِکَ

"اور میری بد اعمالی کے سزا میں اچانک تیرے قہر و عذاب سے مبتلا ہونے اور غفلت میں رہنے نہ دو۔"
نیکی کی توفیق اللّٰہ سے ہے

اس بات سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت کے بغیر کسی کو عمل خیر نصیب نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کوئی ایک مرتبہ عمل خیر بجا لائے ، مگر وہ شکر خدا نہ کرے تو مزید توفیق خدا سے محروم ہو جائے گا۔ بلکہ اس سے ایسا گناہ صادر ہو سکتا ہے جس کے سبب سے گذشتہ اعمال بھی ضائع ہو جائیں اور وہ دونوں جہاں میں رسوا ہو جائے۔
دانش مند لوگ خدا سے ڈرتے ہیں

جو لوگ حق تعالیٰ کی عزت و بزرگی اور بے نیازی زیادہ جانتے ہیں اور اپنی حقارت و ذلت اور نیاز مندی سے زیادہ آگاہ ہیں وہ پروردگار عالم سے بہت ڈرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے:

اِنَّمَا یَخْشَیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ (سورہ۳۵۔آیت۲۶)

"بندوں میں اہل علم ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔"

 حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

رَاسُ الْحِکْمَةِ مَخَافَةُ اللّٰہِ (وسائل الشیعہ باب۱۴)

"حکمت اور دانائی کا محور خوف خدا ہے۔"
حضرت ام سلمہ سے پیغمبر کی گفتگو

جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آدھی رات کو میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہیں اور دونوں ہاتھ بلند کر کے گریہ و فریاد کر رہے ہیں اور یہ دعائیں پڑھ رہے ہیں:

اَللّٰھُمَّ لَا تَنزَعْ مِنّیْ صَالِحَ مَا اعْطَیْتَنِیْ اَللّٰھُمَّ لَا تُشْمِتْ بِیْ عَدُوَاً وَلَا حَاسِداً اَبَداً۔ اَللّٰھُمَّ لَاتَرِدنِیْ فِیْ سُوْءٍ نِ اسْتَنْقَذْتَنِیْ مِنْہ اَبَداً اَللّٰھُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَداً (بحارالانوار جلد۶ باب مکارم اخلاق)

"خدایا جو نعمت تو نے مجھے عنایت فرمائی ہے وہ مجھ سے واپس نہ لے۔ خدایا مجھے دشمنی اور حسد کرنے والے کی ملامت کا کبھی بھی نشانہ بننے نہ دے۔ اے خدا ! جن برائیوں سے تو نے مجھے باہر نکالا ہے کبھی بھی ان کی طرف واپس نہ کرنا۔ اے خدا ! مجھے آنکھ جھپکنے کی مدت کے لیے بھی اپنی حالت پر ہر گز نہ چھوڑنا۔"

جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ مجھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حالت اور دعا کے جملے سن کر بے اختیار گریہ گلوگیر ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہ روؤں ، جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) انتہائی بلند مقام پر فائز ہیں اور قدر و منزلت کے حامل ہیں تو آپ کی دعائیں اور کیفیت یہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: میں کیوں نہ ڈروں جبکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمحے کے لیے اپنی حالت پر چھوڑ دیا تو وہی ہوا جو ہونا تھا(یعنی خدا تعالیٰ نے تادیب فرمائی اور وہ ایک مدت تک مچھلی کے پیٹ میں رہے)۔ (بحار الانوار)

انبیاء اور آئمہٴ ہدیٰ (علیہم السلام) سب سے زیادہ خائف رہتے تھے

قرآن میں انبیاء (علیہم السلام) کی تعریف یوں فرمائی ہے:

اِنَّھُمْ کَانُوا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْراتِ وَیَدْعُوْننا رَغَباً وَّرَھَباً وَّکَانُوا النَاخاَشِعِیْنَ

(سورہ۲۱ آیت۹۰)

"اس میں شک نہیں سارے انبیاء ( (علیہم السلام)) نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہم کو بڑی رغبت اور خوف کے ساتھ پکارا کرتے تھے۔"

اہل بیت ِ عصمت وطہارت (علیہم السلام) کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَیُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْماً کَانَ شَرُّہ مُسْتَطِیراً

"یہ وہ لوگ ہیں جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس (قیامت کے) دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی و شر ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔"(سورہ۷۶۔آیت۷)

پیغمبران خدا اور آئمہ ٴ اطہار (علیہم السلام) کے خوف خدا خصوصاً حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت یاد کر کے بے ہوش ہو جانا اور حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) کا بارگاہ خدا وندی میں گریہ و زاری اور راز و نیاز نیز صحیفہٴ سجادیہ کی دعاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس حد تک اللہ سے ڈرتے تھے۔ اس کی تفصیل اگر بیان کریں تو ہم اپنے موضوع ِ کلام سے خارج ہو جائیں گے اور عاقل کے لیے بس اشارہ کافی ہے۔
مومن خوف اور امید کے درمیان ہوتا ہے

متعدد روایتوں سے یہ مطلب واضح ہوتا ہے کہ مومن کو ہمیشہ خوف و رجأ کے درمیان رہنا چاہیئے۔ یعنی عذابِ الٰہی سے ڈرنے والا اور فضل و رحمت خدا کا امید وار ہونا چاہیئے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُوٴْمِنِیْنَ (سورہ ۳ آیت۱۷۵)

"پس تم اس سے ڈرو نہیں ، اگر سچے مومن ہو تو مجھ ہی سے ڈرو۔"

اس قسم کا ڈر ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ جس سے باعث وہ گناہوں کا ارتکاب تو درکنار ان کے نزدیک بھی نہ جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مخاطب ہر کر فرماتاہے:

قُلْ اِنِّیْ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبّیْ عَذابَ یَوْمٍ عَظِیْم۔

"(اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)) تم کہہ دو اگر میں گناہ کروں تو بے شک عظیم دن (روز قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔" (سورہ۶، آیہ ۱۵)
امید غرور کا باعث نہ بنے

بندہ کو چاہیئے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے لطف و کرم کا امیدوار رہے تاکہ مستقبل میں اسے عبادت و اطاعت کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ البتہ اس کی امید عذاب الٰہی سے بے خوفی کا باعث نہیں بننا چاہیئے۔ نہ اس قدر بے جا امید باندھنا چاہیئے جس سے وہ مغرور بن جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

وَلَایَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرِ (سورہ۳۵۔آیت۵/ سورہ۳۱۔آیت۳۳)

"اور ایسا نہ ہو (کہ شیطان) تمہیں خدا کے بارے میں دھوکہ دے ۔"

اور سورہٴ حدید میں مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

وَغَرَّکم باللّٰہِ الْغُرُوْرِ (سورہ۵۷۔آیت۱۲)

"اور بڈھے دغاباز شیطان نے خدا کے بارے میں تم کو فریب دیا۔"

اس آیت کی تفسیر میں منہج الصادقین میں کہا گیاہے کہ شیطان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پکی امید باندھنا کہ وہ حلیم و کریم ہے وہ کسی کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام)نے فرمایا:

لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ مُوٴْمِنٍ اِلاَّ وَفِی قَلْبِہِ نُوْرَانِ نُوْرُ خِیَفَةٍ وَنُور رَجَاءٍ لَوْوُزِنَ ھٰذَا لَمْ یَزِدْ عَلٰی ھٰذا (اصول کافی)

"کوئی مومن بندہ نہیں مگر اس کے دل میں دو نور ہوتے ہیں (ایک) خوف کا نور اور (دوسرا) امید کا نور۔ ایک کا وزن دوسرے سے زیادہ نہیں ہوگا بلکہ برابر ہوں گے۔
عمل خوف و امید کے مظہر ہے

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

لَایَکُوْنُ الْمُوٴمِنُ مُوٴْمِناً حَتیٰ یَکُوْنُ خَائِفاً رَّاجِیاً حَتّیٰ یَکُوْنَ عَامِلاً مِمَّا یَخافُ وَیَرْجُوْ (اصول کافی)

"مومن اہل ایمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کے دل میں خوف و رجأ دونوں موجود نہ ہوں اور نہ ہی اسے خائف اور امیدوار کہا جاسکتا ہے جب تک جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اور جس چیز سے امید رکھتا ہے اسے عمل و کردار سے ظاہر نہ کردے۔"

بلکہ مومن کا کمال اور شان یہ ہے کہ خوف و رجأ کی قوت اس کی ذات میں مکمل طور پر موجود ہو۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ:

خِفِ اللّٰہَ خِیْفَةً لَوْجِئْتَہ بِبِرّ الثِقْلّیْنْ لَّعَذَّبَکَ وَارْجِ اللّٰہَ رَجَاءً لَّوجِئْتَہ بِذُنُوْبِ الثَّقْلَیْنِ لَرَحِمَکَ (کتاب کافی)

"لقمان حکیم نے اپنی وصیت کے ضمن میں اپنے بیٹے سے کہا: بیٹا! تم خدا سے اس قدر ڈرو کہ اگر تمام جن و انس کی عبادت و اعمال کے برابر تمہاری نیکیاں موجود ہوں پھر بھی خیال کرو کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔

اللہ تعالیٰ سے اس حد تک امیدیں وابستہ رکھنا ہیں کہ اگر چہ تمام جن و انس کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ لے کر اس کی درگاہ میں حاضر ہوا پھر بھی وہ تم پر ضرور رحم کرے گا۔"
نصیحت

اب میں اپنے آپ کو اوراس کتاب کے معزز پڑھنے والوں کو دعوت ِفکر دیتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کہ آیا ہمارے دلوں میں سچا خوف اورحقیقی امیدموجود ہے یانہیں؟یاصرف دعویٰ ہے؟

اگرہم حقیقی معنوں میں عذابِ الہٰی سے خائف ہیں تو اپنے گناہوں سے کیوں نہیں ڈرتے؟

معصومین علیہم السّلام کے فرامین میں آہ ونالہ اوربے قراری کیوں؟اگرہم سچے دل سے رحمت خدا کے امیدوار ہیں تومغفرت کے اسباب وسائل پیداکرنے کی کوششیں کہاں؟اطاعت وعبادت کی طرف میل ورغبت کہاں؟

جی ہاں، ہم صدق دل سے خوف و امید دنیوی امور کے متعلق ضرور رکھتے ہیں مثلاً کوئی اتفاقی امر سامنے آئے جس سے طبیعت نا خوش ہو جائے اور خوف کا اندیشہ ہو تو کس قدر تشویش ہوتی ہے اور پائے ثبات میں لغزش آجاتی ہے ۔ اگر فقروناداری کا خوف ہو یا بیماری اور دشمن کا ڈر ہو تو اپنی تمام تر قدرت و طاقت اس کے دفاع میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک لمحہ بھی آرام اور سکون سے نہیں گزارتے جب تک اس کا خوف امن و سکون کی حالت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس اگر ایسے دنیوی امور کے طلب گار ہوں جن کا حصول مدت سے رہتے ہوں اور طبیعت جس کے انتظار میں بے تاب ہوں اور اس کے حاصل کرنے میں بے حد خوشی محسوس ہوتی ہو تو رات دن محنت سے کام کرتے رہتے ہیں ، تھکاوٹ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

خدارا آپ بتائیے ، جتنی لگن اور رغبت ان امور میں ہمیں حاصل ہے کیا ان کا ایک فیصد بھی امور آخرت میں حاصل ہے؟ ہر گز نہیں۔

الغرض اگر ہم سے گناہ صادر ہو تو عذاب ِ الٰہی سے ڈرنا چاہیئے ۔ ہمیشہ گریہ و فریاد اوراستغفار کرنا چاہیئے ۔ آرام و آسائش کو خیر باد کہیں۔ یہاں تک کہ آخری دم لینے کے وقت رحمت خداوندی کی خوش خبری سننا نصیب ہو جائے۔

تَتَنَزَلُ عَلَیْھِمُ الْملَائِکَةُ اَلاَّ تَخَافُوْا ولَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (سورہ۴۱۔آیت۳۰)

"ان پر موت کے وقت رحمت کے فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ کچھ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور بشارت ہو بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔"

الغرض انسان کو آخر عمر تک مسلسل خوفِ خدا میں رہنا چاہیئے۔
دو خوف کے درمیان رہنا چاہیئے

حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

اِنَّ الْمُوٴْمِنَ بَیْنَ مَخَافَتَیْن ذَنْبٌ قَدْ مَضیٰ لَایَدْرِیْ مَا صَنَعَ اللّٰہُ وَعُمْرٌ بَقیٰ مَایَکْتَسِبُ فِیْہِ مِنْ الْمَھَالِکِ فَھُوَ لَا یُصْبِحُ اِلاَّ خَائِفاً وَّلَایُصْلِحُہُ اِلا الْخَوْفُ (کافی)

"مومن ہمیشہ دو خوف کے درمیان ہوتا ہے ۔ ایک تو گذشتہ گناہوں کا خوف ہوتا ہے (اس لیے ) وہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا۔ دوسرا وہ اپنی عمر کے خاتمے سے ڈرتا ہے اور یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون کون سے گناہ اس سے سرزد ہوں گے جس سے وہ ہلاکت میں پڑے گا۔ پس مومن (عمر بھر) صبح نہیں کرتا مگر وہ خوف کی حالت میں اور اس کے امور کی اصلاح بھی خوف کے بغیر نہیں ہو گی۔"
آخرت کے لیے سعی کرنا چاہیئے

قرآن مجید میں صراحت سے ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے انسان کی دنیوی زندگی کی بقا کے لیے رزق فراہم کرنے کی ضمانت لی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

وَمَامِنْ دَابَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (سورہ۱۱۔آیت۸)

"اور زمین پر چلنے والوں میں کوئی ایسا نہیں جس کی روزی خدا کے ذمہ نہ ہو۔"

مگر امور آخرت میں کامیابی بندگانِ خدا کی سعی و عمل سے مربوط رکھی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

وَاَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعیٰ وَاَنَّ سَعَیَہ سَوْفَ یُریٰ
(سورہ۵۳۔آیت۔۳۹۔۴۰)

"انسان کے لیے (آخرت میں) نہیں ہے مگر جو کچھ وہ سعی کرتا ہے۔ اور جلد ہی اپنی سعی (عمل ) کا نتیجہ (آخرت میں) دیکھے گا۔"
 
دعویٰ عمل سے ظاہر ہونا چاہیئے

حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

یَدَّعِیْ بِزَعْمِہِ اَنَّہ یَرْجُوا اللّٰہَ کَذِبَ وَالْعَظیْمِ مَالَہ لایَتَبَیَّنُ رَجائَہ فِیْ عَمَلِہِ۔

"جو اپنے گمان میں دعویٰ کرتا ہے اور زبان سے کہتا ہے کہ میں رحمت ِخدا کا امیدوار ہوں، وہ جھوٹا ہے۔ خدائے بزرگ کی قسم اگر سچ کہتا ہے تو اس کی امید کا اثر اس کے عمل میں کیوں پیدا نہیں ہوتا؟"

یہ درست ہے کہ خوف و رجأ باطنی کیفیت ہے۔ یہ عمل کے ذریعے خارج میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت صادق آل محمد (علیہ السلام) نے فرمایا:

دَلَیْلُ الْخَوْفِ الْھَرَبُ وَدَلِیْلُ الرَّجَاءِ الطَّلَبُ

"خوف کی علامت بھاگنا ہے اور امید کی علامت طلب اور نزدیک ہونا ہے۔"

پس جو کوئی گناہ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے خوف نہیں اور جو کوئی اسباب مغفرت کے حصول میں جدوجہد نہیں کرتا تو معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ رحمت الٰہی کا امیدوارنہیں اور بولنے والا یہ جملے کہتا ہے کہ آخرت کے معاملہ میں خدا کریم ہے۔ درحقیقت شیطان اُسے مغرور بناتا ہے اور یہ جملہ اس کی زبان سے جاری کراتا ہے۔ ورنہ یہ کیوں نہیں کہتا ہے امور دنیا میں خدا کریم ہے اور اسی پر قناعت کیوں نہیں کرتا۔
خدا سے اس طرح ڈرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو

قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْہِ السَّلامُ خِفِ اللّٰہَ کَانَکَ تَرَاہُ وَاِنْ کُنْتَ لَاتَرَاہُ فِاِنَّہ یَرَاکَ۔ وَاِن کُنْتَ تَریٰ اَنَّہ لَایَرَاکَ فَقَدْ کَفَرْتَ وَاِن کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّہ یَرَاکَ ثُمَّ بَرَزْتَ لَہُ بِالْمَعْصِیَةِ فَقَدْ جَعَلْتَہ مِنْ اَھْوَنِ النَّاظِرِیْنِ (اصول کافی)

"حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا سے اس طرح ڈرنا چاہیئے جیسے تم اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ کیونکہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ اگر تم گمان کرتے ہو کہ وہ تم کو نہیں دیکھتا پس تم کافر ہو گئے۔اگر تم جانتے ہو کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے پھر اس کے باوجود گناہ و معصیت کرتے رہے تو اُسے حقیر ترین ناظر قرار دینے کے مترادف ہے۔"

یہ مسلّم ہے کہ اگر کوئی تمہیں گناہ کرتے ہوئے دیکھے اور وہ تمہاری معصیت سے باخبر ہو جائے اس صورت میں لازم ہے کہ تم شرمندہ ہو گے اور ارتکاب ِ گناہ سے اپنے آپ کو روک لو گے۔ لیکن ہزار افسوس جبکہ خالق حقیقی اور عالمِ ما فی الضمیر تمہاری ہر حالت دیکھ رہا ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اس کے سامنے گناہ کرنے سے شرم محسوس نہیں کرتے۔
خوف و رجأ میں کامل شخصیت

حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کا طرز زندگی بندگان خدا کے اعمال کا میزان ہے۔ ہم ایک طرف جناب امیر (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ اور دوسری طرف اپنے اعمال و عبادات رکھ کر نہایت غور سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کس قدر تفاوت ہے۔ ہمارے اعمال کس قدر خراب ہیں۔ چنانچہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرمان ہے:

ضَرْبَةُ عَلِیٍّ یَوْمَ الخَنْدَقِ افْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثّقْلَینِ (بحارالانوار)

"جنگ خندق میں علی (علیہ السلام) کی ایک ضربت جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔"

اس کے باوجود کہ حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا عمل جن و انس کے عمل سے افضل ہے۔ آپ (علیہ السلام) جب بھی عظمت و جلالت ِ خداوندی کی طرف متوجہ ہوئے تو اپنی ذات اور اپنے اعمال کو ایک ذرہ کے برابر بھی خیال نہ کرتے تھے۔ مولائے کائنات اپنے ذاتی کمالات ، نیک اعمال اور لاثانی مراتب کو سر چشمہٴ رحمت الٰہی کا فیضان سمجھتے تھے۔ وہ اپنے نفس میں نقص و عاجزی اور عیب کے سوا کچھ اور نہیں پاتے تھے۔ اس لیے ہر وقت گریہ و فریاد کرتے تھے اور آخر میں غش کھا جاتے تھے۔

چنانچہ ابو درداء نے آپ (علیہ السلام) سے یہ جان سوز مناجات نقل کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے مولائے کائنات (علیہ السلام) سے نہایت دردناک آواز میں سنا:

اِلٰھِیْ لَاِنْ طَالَ فِیْ عِصْیَانَکَ عُمُرِیْ فَمَا اَنَا مُوٴَمِّلُ غَیْرَ غُفْرانَکَ۔ وَلَا اَنَابِرَاجٍ غَیْرَ رِضَّوَانَکَ ۔ اِلٰھِیْ اُفَکِرُ فِیْ عُفْوِکَ فَتُھَوَنُ عَلَیَّ خَطِْئَتِیْ۔ ثُمَّ اَذکُرُ الْعَظِیْمَ مِنْ اَخْذِکَ فَیُعْظِّمُ عَلَیَّ بَلیَّتِیْ۔

"اے معبود! اس میں شک نہیں کہ میں نے اپنی عمر کی ایک لمبی مدت تیری نافرمانی میں گزاری ۔ اس کے باوجود تیرے سوا کسی اور سے مغفرت کی امید نہیں رکھتا اور نہ تیرے سوا کسی اور کی خوشنودی کا خواہشمند ہوں۔ اے معبودِ حقیقی جب میں تیرے عفو کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے گناہوں کے بھاری بوجھ کو ہلکا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ اس کے بعد جب تیری قہاریت کو یاد کرتا ہوں تو پریشانی کے بوجھ تلے دب جاتا ہوں۔"

ابو درداء کہتے ہیں کہ ان مناجات کے بعد اچانک آواز خاموش ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ مولا بے ہوش ہو کر گر پڑے ہیں۔ میں نے بازو پکڑ کر حرکت دی تو دیکھا سوکھی لکڑی کی طرح بے جان ہیں۔ مجھے گمان ہو ا کہ شاید میرے مولا رحلت فرما گئے ہیں۔

اسی طرح زرار بن ضمرہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ایک اندھیری رات میں سحر کے نزدیک میں نے مولا کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنی ریش مبارک پکڑی ہوئی ہے اور مارگزیدہ انسان کی طرح تڑپ رہے ہیں اور فریاد و بُکا کر رہے ہیں ۔ وہ اپنی بُری حالت اور عمل کی قلّت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:

آہ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَبُعْدِ السَّفَرِ وَوَحْشَةِ الطَّریْقِ وعَظِیمِ الْمَوْرِدِ (نہج البلاغہ)

"آہ! افسوس زادِ راہ قلیل ہے اور فاصلہ طویل ہے، راستہ وحشت ناک اورمنزل خطرناک ہے۔"

دعائے کمیل میں ارشادفرماتے ہیں:

اِلٰھِیْ عَظُمَ بَلَائِیْ وَاَفْرَطَ بیْ سُوْءُ حَالِیْ وَقَصُرَتْ بِیْ اَعْمَالِی۔

"یا اللہ ! میری آزمائش بڑھ گئی اور میری بدحالی حد سے گزر گئی اور میرے نیک اعمال بہت ہی کم ہیں۔"

امیر المومنین (علیہ السلام) کی ذات ہمارے لیے نمونہ عمل ہے

خوف کی طرح آپ (علیہ السلام) کی امید بھی مشہور ہے۔ آغاز زندگی سے آخر عمر تک عبادات و طاعات میں مشغول رہے ۔ ایک لمحہ بھی فارغ نہیں رہے بلکہ بعض اوقات دن رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ تمام زندگی ماہِ شعبان کے روزے بلا ناغہ رکھے ۔ کبھی تہجد کی نماز نہیں چھٹی۔ یہاں تک کہ جنگ صفین میں لڑائی کی رات جو کہ لیلة الہریر (سخت سردی کی رات) کہی جاتی ہے ، نماز شب ترک نہیں کی۔روزے تین شب متواتر صرف پانی سے افطار کیے۔ اپنے حصے کی روٹی یتیم اور مسکین و اسیش کو دیتے رہے۔ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے باغ کو فروخت کر کے راہ خدا میں ہدیہ کر دیا۔بحار الانوار کے ایک مفصّل باب میں حضرت علی (علیہ السلام) کے صدقات و اوقاف کا ذکر اور ان کے متعلق آپ (علیہ السلام) کا وصیت نامہ تفصیل سے درج ہے۔ اس میں سے کچھ بیان تبرکاً نقل ہوتا ہے تاکہ خوف و رجأ کے زیر بحث موضوع کی زیادہ تائید ہو جائے۔
امیر المومنین کی وصیت کا کچھ حصہ

وصیت نامے کی عبارت کچھ اس طرح ہے:

ھٰذامَا وْصیٰ بِہ وَقَضیٰ بِہِ فِیْ مَالِہِ عَبْدُ اللّٰہِ عَلِّیٌ اِبْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ لِیُوْ لِجَنِیْ بِہِ الجنّة وَیَصْرِفُ النَّارَ عنِّیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَرَّ وُجُوْہٌ۔

"یہ (تحریر) وہ چیز ہے جس میں اپنے مال کے بارے میں وصیت اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ:اللہ کا بندہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اس امید سے کہ خداوند عالم اس کار خیر کے سبب مجھے بہشت میں داخل کرے گا اور آتش جہنم اس دن مجھ سے دور کردے گاجس دن بعض لوگوں کے چہرے سفید اور کچھ روسیاہ محشور ہوں گے۔ بے شک اپنی ملکیت و جائیداد کو جو کہ یَنْبُعْ اور اس کے مضافات میں واقع ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر صدقہ (وقف) قرار دیتا ہوں۔"

اس قدر نیک اعمال و عبادات کے باوجود جب جنگ سے واپس آئے تو روتے ہوئے فرما رہے تھے کہ راہِ خدا میں شہادت سے بڑھ کر کوئی اور عمل سعادت کا باعث نہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس فیض سے محروم نہ ہو جاؤں۔ آخر کار حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ (علیہ السلام) کو تسلی اور خوش خبری دی کہ اے علی (علیہ السلام) تیری عاقبت شہادت پر خاتمہ پائے گی۔

ہم علی(علیہ السلام) کی پیروی کریں گے!

ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کی معرفت اور یقین کا بلند مقام کہاں اور ہم جیسے گناہ گار کہاں۔ ہم ان کی مانند بزرگی اور عذاب الٰہی کا خوف نیز اس کی رحمت کے امیدوار کیسے ہو سکتے ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بات آپ کی درست ہے مگر کیا وہ بچہ جو ابھی زہریلی ناگن کو پہچانتا نہیں ، یہ ممکن ہے کہ ظاہری چمک دمک اور نرمی دیکھ کر دھوکے میں ہاتھ بڑھائے اور سانپ اسے ڈس مارے اور بچہ موت سے ہمکنار ہو جائے۔

فرض کیجئے بچہ کے ساتھ اس کا باپ موجود ہو تو لازمی ہے کہ باپ اس خطرے کو محسوس کر کے شوروغل کر ے گا اور آگے بڑھے گا ۔ اس صورت میں سانپ بچے کو چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔

اے بے خبر! کیا حضرت علی (علیہ السلام) تمہارے روحانی پدر اور مقتدائے حقیقی نہیں؟ اور کیا تم محبت و ولایت علی (علیہ السلام) کے دعوے دار نہیں؟

ْْاگر جواب ْْْاثبات میں ہے تو اپنے آقا و مولا کی تاسّی و اطاعت کرنا جس قدر ممکن ہو لازم ہے۔

قیامت اور اس کے سخت ترین عذاب سے انسانی حالت مضطرب اور خوف زدہ ہو جاتی ہے، اور تم ہو کہ مطمئن ہو۔ سفر آخرت کے اسباب فراہم کرنے سے غافل اگر علی (علیہ السلام) کے شیعہ ہو تو وہ تمہارے لیے نمونہٴ عمل ہیں۔

مولا (علیہ السلام) نے فرمایا: تم ہو بہو ہمارا عمل انجام نہیں دے سکتے مگر ہماری نقل اور پیروی تو کر سکتے ہو۔ شِیْعَتُنَا مَنْ شَیَّعَنٰا ہمارا شیعہ صرف وہی ہے جو ہماری پیروی کرے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.