عبرت سے دیکھئے انہیں جو عبرت نگاہ ہوں؟

291

ایسا ہی ایک واقعہ ایک بہت بڑے بزرگ (رح) کے ساتھ پیش آیا کہ شیطان ان کے پاس شکل بدل کر آیااور کہا کہ ” آج سے آپ عبادت چھوڑ دیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ سب معاف کر دیئے ہیں ” انہوں نے اسے پہچان لیا اور لاحول پڑھا ! تو اس نے چلتے چلتے پھر اپنا پتہ پھینکا کہ ” تجھے تیری علم نے بچا لیا ” تاکہ وہ علم پر مغرور ہو جائیں ؟ انہوں نے فرما یا بھاگ جا تیرے منھ میں خاک میرے خدا نے مجھے بچا یا ہے؟ حالانکہ فرعون کچھ اچھے بھی رہے ہونگے مگر ایک برے فرعون نے سب کو بد نام کر دیا۔ یہ لقب جو کبھی مصر کے بادشاہوں کا ہوا کرتا تھا۔ جس طرح “قیصر ” روم کے بادشاہوں کا ، ” کسریٰ “ایران کے با دشاہوں کا اور ” تبع ” یمن کے با دشاہوں کا ۔ لیکن اب اردو لغات میں داخل ہو نے کے بعد یہ صرف با دشاہ کا نام نہیں رہا ۔ بلکہ برے طرز حکمرانی کی وجہ سے قر آنی قصے کے طور پر بار بار وہاں استعمال ہوا ۔ حتیٰ کہ اردو زبان کی لغت میں اب یہ بطور ایک لفظ کے داخل ہوگیا اور رعونت اسی سے نکل کر اس کی صفت بن گئی۔ لیکن بندے اسے ابھی بھی برا ئی نہیں مانتے اور اتنی قرآنی مذمت کے با وجود مسلمان کہلاتے ہو ئے بھی ،رعونت نہیں چھوڑتے ۔ حالانکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیئے تھا۔اور کوئی چھوڑتا یا نہ چھوڑتا کم ازکم مسلمان تو چھوڑ دیتے ؟جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما کر خبردار کردیا کہ “تکبر میری چادر ہے اس کے قریب بھی نہ پھٹکو ورنہ ذلیل کر دیئے جا ؤگے “اور اس کے رسول (ص) نے فرمادیا ہے کہ “جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا” مگر ہم ہیں کہ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ جنت میں جا ئے گا۔ زیادہ سے زیادہ صرف تھوڑے دن جہنم میں رہ لے گا۔ جبکہ یہ ہی دعویٰ ایک دوسری قوم کابھی ہے کہ ہم نبیوں (ع) کی اولاد ہیں تھوڑے دن جہنم رہ کر جنت میں چلے جا ئیں گے ۔ لیکن ان سے اللہ سبحانہ تعالیٰ ثبوت مانگ رہا اپنی کتاب مقدس قرآن میں کہ اس کی سند تو لاؤ ! کیا پچھلی کسی کتاب میں یہ لکھا ہے؟ جبکہ ہم بھی اسی کشتی کے سوار ہیں کہ ہمارے قر آن میں بھی یہ کہیں نہیں لکھاہے۔ اس کے برعکس سورہ محمد (٤٧) کی آیات ١ تا ٩ میں ان کی مذمت لکھی ہے یہ فرماکر کہ ” جو روشنی پاکر اس سے پلٹ جا ئیں ان کے اعمال ضائع کر دیئے جا ئیں گے ” ان میں وہ بھی شامل ہیں جو قر آنی احکامات نافذ کر نے میں لیت و لعل کام لیں یا سد ِ راہ بنیں اور وہ بھی شامل ہیں جو کہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتے پھریں وہ بھی اللہ کے نام پر۔ تفسیرِ ابن ِ کثیر میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام (رض)اس سے پہلے اس خیال کے حامی تھے کے جس نے کلمہ پڑھ لیا اسکے گناہوں سے اللہ سبحانہ تعالیٰ در گزر فرما ئے گا۔ اس آیت کے نزول کے بعد انہیں بھی اپنی فکر دامن گیر ہو گئی۔وہ بھی دنیا سے ڈرتے ہو ئے گئے جبکہ ہم ان کی خاک ِ پاکے برابر بھی نہیں ہیں۔ اس قسم کے واقعات آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں ۔ جبکہ گناہوں کی سزا لوگ یہاں مجرموں کوپاتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر اس پر عبرت نہیں پکڑ تے؟ ہم سے پہلے جن قوموں پر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے عزاب بھیجے ان میں زیادہ تر یہ ہی تھے کہ کبھی ہوا چلا دی کبھی ایک چیخ سے پوری بستی تباہ کر دی اور انہیں نشان عبرت بنا دیا ۔ فرعون کے بارے میں بھی یہ ہے کہ ” اس کو ڈبو کر ہم نے اس کی لاش کو باعث عبرت بنا یا اور کل تک جو مظلوم تھے وہ اس کو اور اس کے لاؤ ،لشکر کو ڈوبتا ہوا دیکھ رہے ” لیکن امت محمدیہ (ص) کے لیے اس نے یہ طریقہ اپنایا کہ اس کی اپنے فرشتوں سے مدد کی اور” فرمایا ہما رے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کفار کو تباہ کرنے کے لیے فوج بھیجیں بلکہ ہم نے فلا ں قوم کو اس طرح تباہ کیا اور فلاں کو اس طرح تباہ کیا ؟مگر تمہا رے لیے ہم نے یہ لکھا ہے کہ تمہارے ہاتھوں مکہ کے کافروں کو سزا دلائیں! اس سے تمہا را امتحان بھی مقصود ہے کے تم کتنے ثابت قدم رہتے ہو ” تاکہ تمہیں مزید نوازا جا ئے۔ جبکہ مفسریں نے اس پر بہت تفصیلی بحث کی ہے کہ اس نے قر آں میں اپنی دو صفات بہت سی جگہ بیان فرما ئی ہیں ایک تو ” فا طر السما وات ” ہے تو دوسری ” بدیع السماوات” جبکہ وہ زیادہ تر اپنی پہلی والی صفت کو استعمال کر تا ہے۔ جو کہ اس کے فاطرت السماوات ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ کسی کام کو کر نا ہے تو ایک عرصہ لگتا ہے؟ ۔ جیسے کہ چھ دن میں پوری کا ئینات بنا نا جبکہ اس پر بھی وہ قادر ہے کہ وہ ً کن ًفرما کر بنا دیتا ۔ حضرت آدم (ع) کو اپنے ہاتھ سے بنا یا جبکہ جن کی نہ ماں تھیں نہ باپ تھے ۔ حضرت عیسیٰ (ع)کو بغیر باپ کے بنا یا؟ جن کے والد نہیں تھے ۔ صرف والدہ تھیں۔ اسی طرح یہ بھی اسکی مرضی ہے کہ جس ظالم کو چاہے یہاں سزا دے یا وہاں یا پھر دونوں جگہ سزا دے، یہاں بھی اور بھی؟مثالیں سامنے ہیں مگر بندہ سبق نہیں لیتا اور عبرت حاصل نہیں کرتا؟ آئے دن دیکھتا ہے کہ کل تک جو جیل میں ہو تا ہے پھر ملک بدر ہو تا ہے اور وہی حکمراں بن جا تا ہے اور اس کے سامنے وہ ملزم بنا کھڑا ہو تا ہےجو اس وقت اسے جیل میں ڈال کر حکمراں بنا تھا ۔ پھر اس نے جن ججوں کو کبھی برطرف کردیا تھا، انہیں ججوں کے سامنے انصاف کی بھیک آج بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ مگر رعونت پھر بھی نہیں چھوڑتا۔ اس لیے کہ کچھ چاپلوسوں کی چاپلوسی اسے حقیقت کا ادراک نہیں ہونے دے رہی ہے؟ دراصل وہ نہ خداکو مانتا ہے نہ اس کی کتاب کو مانتا ہے اور نہ ہی یوم آخرت کو مانتا ہے جو اس کے سابقہ بیانات اور اقدامات سے ظاہر ہے۔ تیسرا ثبوت یہ ہے کہ ماننے پر بندگی لازم آتی ہے اور بندہ آزاد نہیں ہو تا، وہ اپنے مالک کے حکم کا پابند ہو تاہے۔ وہاں اس کو یہ حق نہیں ہوتا کہ میں یہ نہیں مانوں گا ۔ایسے کسی ظالم کی حمایت کر نے اس کو پناہ دینے اور ان کی سکوریٹی پر بے دریغ بیت المال کو خر چ کرنے والوں کے پاس کیاجواز ہے جو وہ روز آخرت میں پیش کریں گے،جبکہ لوگ بھوکوں مررہے ہیں۔ یہ ان سب کے سامنے سوالیہ نشان ہے جنہیں اللہ اوریوم آخرت پر یقین ہے۔ جنہیں اللہ نے آج اقتدار دیا یا وہ، اور بھی جو زیرِ عذاب ہیں اور تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔جبکہ کچھ کے پاس جواز یہ ہے کہ وہ کسی خاص زبان بولنے کی وجہ سے نشانہ بنا یا جا رہا ہے؟ وہ بھول گئے کہ چند برس پہلے اس نے کیا ،کیا ، کیا ہے۔ ابھی زیادہ دن بھی تو نہیں ہوئے؟ ان میں سے بہت سے ان مظالم کے چشم ِ دید گواہ ہیں؟ جبکہ قر آن گواہی چھپانے کو منع کرتا ہے چاہیں وہ باپ، بیٹے، بھائی اور اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو ؟ ہم میں ہر ایک اپنے گریبان میں منہ ڈال کے دیکھے اور پھر غور سے قر آن کو پڑھے اگر نہیں پڑھا ہے کہ ہم پھر بھی مسلمان کہنلانے کے حقدار ہیں ؟ اللہ ہم سب قر آن سمجھنے اور عمل کر نے کی تو فیق عطا فرما ئے (آمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.