اميرالمومنين (ع) کي بزرگي و عظمت

198

حضرت کے ہمرزم ہوئیے:
ميرے عزيزو! ايک نکتہ جسکا رابط ہم سب سے ہے ہم اسکي طرف توجہ کريں:آپکي پيروي اور اتباع تنہا زبان سے تو ہو نہيں سکتي ۔مثلاً آپ ميدان جنگ ميں اتر کر رٹ لگائيں کہ فلاں ہمارے سپہ سالار ہيں ميں ان سے محبت کرتا ہوں انہيں پسند کرتا ہوں اور وہي سپہ سالار آپکو فوجي ٹریننگ کے لئے بلائے اور آپ اپني جگہ سے نہ ہليں وہ آپکو دشمن پر حملہ کے لئے حکم دے مگر آپ اس سے رخ موڑ ليں.جبکہ انسان اپنے دشمن اور جسے وہ نا پسند کرتا ہے اس سے یہ رویہ اختیار کرتا ہے، اميرالمومنين عليہ السلام ہمارے مولا ہيں امام ہيں آقا و سردار ہيں ہم شيعوں کو انکي محبت پر ناز ہے اگر ہم لوگوں کے سامنے کوئي علي عليہ السلام کو انکي عظمت و بزرگي سے گھٹاتا ہے تو ہم اس سے بھي بغض و نفرت کرتے ہيں اسے ناپسند کرتے ہيں تو پھر انکي ولايت کا کچھ نہ کچھ اثر ہماري عملي زندگي ميں بھي نظر آنا چاہئيے۔
ميں آپ سے يہ نہيں کہتا کہ آپ اميرالمومنين عليہ السلام جيسے بنيئے خود حضرت امام سجادعليہ السلام بھي اس بات کے قائل ہيں کہ وہ اميرالمومنين عليہ السلام کي طرح عمل نہيں کرسکتے خود حضرت عليہ السلام نے عثمان بن حنيف سے فرمايا: ’’ الا و انکم لا تعدون علي ذالک‘‘تم ميري طرح نہيں ہو سکتے يہ تو بالکل واضح ہے ليکن تم سے يہ توقع ضرور ہے کہ ہمارے ہمرزم بنو ہمارے پائے رکاب ميں قدم رکھو اور ہمارے پيچھے پيچھے چلو اگر آپ اميرالمومنين عليہ السلام کي آواز سے آواز ملانا چاہتے ہيں تو ہميں انکے زمانہ حکومت کي دو٢خصوصيتوں کو اپنانا پڑیگا۔کہ جسکا تعلق ہمارے اور آپکے زمانے سے ہے اور ہم سے اور آپ سے اسکا ربط پايا جاتا ہے۔اور وہ ہے نمبر١۔اجتماعي عدالت و مساوات، نمبر٢۔دنيا کي نسبت بے توجہي اور اس سے دل نہ لگانا۔
اميرالمومنين عليہ السلام کي اجتماعي عدالت:
عزيزان گرامي: ان دونوں خصوصيتوں کو پرچم کي طرح اپنے ہاتھوں ميں ليکر معاشرے ميں عملي کرنے کي کوشش کريں عدالت اجتماعي کا مطلب يہ ہے کہ حکومت کا قانون يکساں طور پر معاشرے کے ايک ايک فرد کو زير نظر رکھے کسي کے ساتھ کوئي امتيازي سلوک نہ کرے، انسان ايک دوسرے سے مختلف قسم کا رابطہ رکھتا ہے جسکي بنائ پرآپس کے برتاؤ ميں بھي فرق آجاتا ہے اسلئے کہ کوئي کسي کا رشتہ دار ہے تو کوئي دوست ہے کسي سے جان پہچان ہے تو کسي سے نہيں ہے البتہ جو شخص بھي کسي بھي مقام يا منصب کا مالک ہے ، يہاں ميري مراد يہ ہے کہ قانون اسکے ہاتھ ميں ہے اس لئے کسي تفريق کے بغير، سب کو ايک نگاہ سے ديکھنا ضروري ہے۔ خصوصاً ايک اسلامي نظام حکومت ميں ہر ايک فرد کو يہ اطيمنان اور احساس ہونا چا ہیے کہ اسکے ساتھ قانون کي نگاہ نہيں بدلے گي، جو جسقدر زحمت ومشقت اٹھائے گا اسي لحاظ سے بہرہ مند بھي ہو گا، اگرچہ کچھ لوگ کاہل اور سست اور کام چور ہوتے ہيں جو کام چوري کرتے ہيں وہ اپنے نفس پر خود ظلم کرتے ہيں، کام کرنے ميں کوتاہي کرتے ہيں لہذا ان کا دوسرے لوگوں سے مسئلہ ہي يہاں جدا ہے يہاں عدالت اجتماعي کے معني يہ ہيں کہ بغير دليل کسي کو کسي پر ترجيح حاصل نہ ہو سب کے لئے ايک قانون ہو اور اميرالمومنين عليہ السلام نے يہ کام اپني حکومت ميں انجام ديا اور اسي کو عدالت اجتماعي کہتے ہيں۔
علي عليہ السلام سے دشمني کي بنياد يہي تھي، وہ نجاشي شاعر، جس نے اميرالمومنين عليہ السلام کے لئے اشعار کہے تھے، آپکے دشمنوں سے ٹکر لي تھي آپ کا محب تھا، دشمنوں کے مقابلے پر بھي علي عليہ السلام کا دامن نہيں چھوڑا ، ليکن جب وہي حرمت الہيٰ کو توڑتا ہے، ماہ مبارک رمضان ميں شراب پيتا ہے تو لوگوں کے اصرار کے باوجود،آپ فرماتے ہيں سب کچھ اپني جگہ درست، اسکي محبت قابل قدر اسکي دوستي اپنے مقام پر ليکن چونکہ اس نے حرمت الہيٰ کو توڑا ہے اسلئے اس پر حد خدا جاري ہوگي وہ بھي ناراض ہو کر آپ کو چھوڑ کر معاويہ کي طرف چلا گيا يعني اميرالمومنين عليہ السلام حدود خداوندي کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہيں کہ گویااُنکي نگاہ ميں اہمیت صرف اور صرف قوانینِ الہيٰ ہے اور خدا سے ہٹ کر کوئي شئي ارزش و اہميت نہيں رکھتي۔
يہي اميرالمومنين عليہ السلام ہيں کہ جب ايک شخص چوري کرتاہے اور وہ آپکے سامنے پيش کيا جاتا ہے تو فرماتے ہيں تم کو قرآن کتنا ياد ہے اس نے سنا ديا تو فرمايا! ’’قد وھميت يدک لسورۃ البقرۃ،، تمہارے عمل کي بنياد پر تو تمہارا ہاتھ کاٹ دينا چاہئے تھا مگر اس سورہ مبارکہ بقرہ کي وجہ سے تيرے ہاتھ کو بخش ديا جاو پھر ايسي حرکت نہ کرنا۔
يہ کوئي بيجا امتياز نہيں ہے بلکہ قرآن کي وجہ سے آپ نے اسکے ساتھ يہ برتاو کيا۔اميرالمومنين عليہ السلام اقتدار اسلامي اور اصول وقوانین ِديني کے سامنے کسي کا کوئي لحاظ نہيں کرتے تھے وہاں محب ہونے کے باوجود اسکے فسق و فجور کي بنياد پر حدجاري کرتے ہيں اور يہاں قرآن کي بنياد پر اس چور کو معاف کر ديتے ہيں يہ ہیں اميرالمومنين عليہ السلام جو صد در صد الہيٰ معيار کي بنياد پر عمل کرتے ہيں يہ ہے آپکي عدالت، جس کسي نے بھي يہ کہا ہو مجھے يقيني طور پر معلوم نہيں يہ کس کا قول ہے ’’ قتل في محراب عبادتہ لشدّۃ عدلہ‘‘علي عليہ السلام محراب عبادت ميں اپني انصاف پسندي کي شدّت کي وجہ سے قتل کر دئے گئے ۔
مگر کہنے والے نے درست کہا ہے يعني عدالت اميرالمومنين عليہ السلام اثر ورسوخ رکھنے والوںاور صاحبان نفوذ کے لئے ناقابل برداشت تھي يہاں تک کہ اسي وجہ سے وہ لوگ انکے قتل کے درپے ہوگئے۔
اب ذرا ملاحظہ کريں آج کچھ لوگ کہتے ہيں کہ جناب آپ کس طرح اس اسلامي معاشرے ميں اسي عدالت کو برقرار کر سکتے ہيں جسکي وجہ سے علي آخر تک حکومت نہيں کر سکے! ميں کہتا ہوں جس قدر اسے عملي کرنا ممکن ہے ہمارا فرض ہے کہ اس اندازہ کے مطابق معاشرہ ميں اسے عملي کريں ہم کب کہتے ہيں اور يہ دعويٰ کرتے ہيں کہ با لکل عدل اميرالمومنين عليہ السلام کي طرح ہم عدل جاري کرنا چاہتے ہيں۔ہمارا تو يہ کہنا ہے کہ جس قدر بھي ايک مومن اس پر عمل کر سکتا ہے ، انجام دے کم از کم جتنا ہو سکتا ہے اسے تو ہاتھ سے نہ جانے ديا جائے۔
اگر يہي عدالت فرھنگ و تمدن (کلچر)کي صورت اختيار کرے اور عوام اُس کو سمجھ جائيں تولوگ خود بخود اسکو برداشت کريں گے۔ عدالت اميرالمومنين عليہ السلام سے عوام الناس خوشحال تھے محض صاحبان نفوذ کو برُا لگتا تھا وہ اس سے ناراض تھے اور اميرالمومنين عليہ السلام کو ان لوگوں نے يہ خود شکست دي اور معرکہ صفين پيش آيا ۔کہ جس میں حضرت عليہ السلام کو خون ِدل پينا پڑا اور اسکے بعد آپکو شہيد کر ديا گيا ان سب کي وجہ يہ تھي کہ عام لوگ اسوقت مسائل کو صحيح طور پر سمجھنے سے عاجز تھے اور اسکا صحيح تجزئيہ انکے بس سے باہر تھا۔
صاحبان نفوذ ومطلب پرست عام لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ رکھتے تھے انہيں سوچنے کا موقع ہي نہيں ديتے تھے اسلئے ،درک و فھم پيدا کرنا چاہئيے لوگوں کي سياسي بصيرت ميں اضافہ کرنا چاہيے تاکہ ايک دن عدالت اجتماعي کو پورے معاشرے ميں جاري کيا جاسکے ۔
پارسائي و زہد اميرالمومنين عليہ السلام:
ايک دوسرا مسئلہ اميرالمومنين عليہ السلام کا زھد ہے جو نہج البلاغہ کا ايک نماياں پہلو ہے ، جس وقت اميرالمومنين عليہ السلام نے اس زھد و پارسائي کو لوگوں کے سامنے بيان کيا تھا اسے اسلامي معاشرے کي بنياد ي بیماري کے علاج کے طور پر پيش فرمايا تھا اور ميں نے بارھا يہ بات کہي ہے کہ آج ہميں انہيں مسائل پر توجہ کرنے کي ضرورت ہے، اميرالمومنين عليہ السلام جب يہ فرمارہے تھے کہ دنيا کي لذتوں اور اسکے زرق برق ميں مبتلا نہ ہوں توکچھ لوگ ايسے بھي تھے جنکے ہاتھ وہاں تک پہنچے ہوئے تھے آپکا خطاب ان سے تھا ’’ان لوگوں سے نہيں جو فقير تھے کہ جنکي اسوقت اکثريت تھي‘‘امير المومنين عليہ السلام ان سے خطاب کر رہے تھے جو فتوحات اسلامي کي وجہ سے دولت و ثروت کي بہتات اور مملکت اسلامي کے پھیلنے کے نتيجہ ميں دنيا اور اسکي لذات ميں غرق ہوتے جا رہے تھے۔آج جب ہم بھي اس صفت کے بارے ميں دو٢ باتیں کہنا چاہتے ہيں تو کچھ لوگ کہتے ہيں کہ جناب آپ کيسي باتيں کرتے ہيں لوگوں کي اکثريت ايسي ہے جنکے پاس وہ مادي اسباب ووسائل نہيں ہيں، جي ہاں ہمارا خطاب بھي ان سے نہيں ہے بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان اسباب و وسائل کے مالک ہيں ان لوگوں کے لئے ہے جو صاحب ثروت و دولت ہيں۔
جو لوگ حرام طريقوں سے دنيا کي لذتوں کو حاصل کر سکتے ہيں ہمارا خطاب بھي ان سے ہے البتہ ان لوگوں کے علاوہ وہ حضرات بھي توجہ رکھيں جو حلال راستوں سے دنيا کي شيرينياں اکٹھا کر سکتے ہيں ان سے بھي ہماري يہي گذارش ہے کہ وہ زہد اختيار کريں اور لذائذ دنيا ميں غوطہ زن نہ ہو جائيں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.