امامت اورمودّت

493

پروردگارعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ : قُل لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرَاً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی اے رسول ؐ کہہ دیجئے کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں یعنی اہلبیت ؑ کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ۔(سورہ شوری،آیت ۲۳) اس آیت کی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مفسرین نے اپنے مکتب اور عقائد کی رو سےاپنے مذہبی عقائد اور نظریات کو ثابت کرنے کے لئے متعدد تفسیریں کی ہیں۔حضرت ابن عباس اور حضرت سعید خدری وغیرہ کے مطابق اس آیت میں ذوی القربیٰ سے مراد پنجتن پاک ہیں۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ : لَمَّا نُزِلَتْ ھٰذِہِ الآیَۃُ ”قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرَاً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ‘‘قَالُوْا یَا رَسُولَ ﷲِ مَنْ قَرَابَتُکَ الَّذِیْنَ افْتَرَضَ اﷲُ عَلَیْنَا مَوَدَّتَہُمْ ؟ قَالَ ﷺ : عَلِیٌ وَ فَاطِمَۃُ وَوَلَدُہُمَا، ثَلَاثَ مَرَّاتٌ یَقُوْلَھَا حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جس وقت یہ آیت [ اے رسول ؐکہہ دیجئے کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں یعنی اہلبیت ؑ کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ]نازل ہوئی تو لوگوں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی قرابت دارکون ہیں جن کی محبت کو خدا نے ہم پر واجب کیاہے؟ تو آپ ؐ نے فرمایا میرے قرابت دار علی ؑ وفاطمہ ؑ اور ان کے دو بیٹے ہیں۔آپ ؐ نے اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا۔ (تفسیر فرات،[تفسیر سورہ حم عسق]ص۳۸۷)اسی حدیث سے ملتی جلتی روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے بھی نقل ہوئی ہے۔ قرآن کے ذریعے اس مطلب کو ثابت کرنا کافی وقت طلب کام ہے اس لئے اسی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ” ذوی القربیٰ‘‘ سے مراد پنجتن پاک یعنی پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم،حضرت علی المرتضیٰ،حضرت فاطمۃ الزہرا اور حضرت امام حسن وامام حسین علیہم السلام ہیں۔ ارشاد ہوتاہے کہ : میں اپنی کار رسالت کی اجرت اور مزدوری تم سے میری عترت اور آل کی محبت کے سوا کچھ نہیں مانگتا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر اکرم صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کا تبلیغ دین کے عوض میں اپنی امت سے اجرت طلب کرنا صحیح ہے؟ جبکہ آپ ؐ ہی کے لائے ہوئے دین ،اسلام کے احکامات کے مطابق واجبات کی انجام دہی کے لئے اجرت لینا جائز نہیں ہے۔مثال کے طورپر نماز پنجگانہ یا ماہ مبارک رمضان کے روزوں کے عوض اجرت یا مزوری لینا جائز نہیں ہے۔لھٰذا مومن کوخوشنودی معبود کے لئے عمل بجا لانا چاہئے اس لئے کہ تمام انبیاء ورسل اور اولیاء اﷲ کا ہر عمل خدا کے لئے ہوتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کی زبانی یہ جملہ بارہا ر قرآن مجید میں نقل ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرکے فرمایا : وَیٰقَوْمِ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالاًاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اﷲِ ا ور اے قوم ! میں اس نصیحت کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں ہوں ۔میراصلہ تو خدا کے ذمے ہے۔(سورہ ہود،آیت ۲۹) اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : یَاقَوْمِ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرَاًاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِی اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ میری قوم! میں اس وعظ و نصیحت کا تم سے کچھ صلہ نہیں مانگتا میرا صلہ تو اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیداکیا۔بھلا تم سمجھتے کیوں نہیں‘‘(سورہ ہود،آیت ۵۱)اور حضرت صالح علیہ السلام نے کہا : وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ منِ اَجْرٍاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ اور میں اس کا تم سے بدلہ نہیں مانگتا۔میرابدلہ خدائے رب العالمین کے ذمّے ہے۔ (سورہ شعراء ،آیت ۱۴۵) اسی حضرت لوط ،شعیب علیہما السلام نے بھی اپنی اپنی قوم سے یہی کہا کہ میرااجر اس خدا کے ذمّے ہے جو کائنات کا پالنے والاہے۔ جب ایک عام نبی کی سیرت یہ رہی ہو کہ وہ لوگوں سے کبھی اپنی تبلیغ کی اُجرت نہیں مانگتے تھے بلکہ صرف اپنے رب سے اس کے اجر کی امید رکھتے تھے تو خاتم النبیین صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے واجبات کی انجام دہی( یعنی تبلیغ دین )کے عوض لوگوں سے اُجرت اور مزدوری کا تقاضا کرنا کیوں کر صحیح ہوسکتاہے۔ اس کے جواب میں ارشادہوتا ہے کہ : مَا سَأَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرِیَ فَہُوَ لَکُمْ ” جس اجرت کا میں نے تم سے مطالبہ کیاہے وہ درحقیقت تمہارے ہی فائدے میں ہے۔‘‘ اجرت اسے کہاجاتاہے جس کا فائدہ عام طورپر اجیر(کام کرنے والے) کو ہوتاہے،یا واجب کاعوض لینا اس وقت حرام ہے کہ جس کا فائدہ کام کرنے والے (اجیر)کو ہوتاہے،اس کے برعکس اگر فائدہ اجرت دینے والے (موجر)کو ہو ،مثلاً؛ والد اپنے فرزند سے یا استاد شاگرد سے کہے کہ اتنے گھنٹے مطالعہ کرو گے تو اتنی رقم یا فلاں چیز تمہیں انعا م میں دوں گا۔تو مطالعہ یا پڑھائی کے عوض میں اُجرت دینا درحقیقت اس عمل(مطالعہ/پڑھائی)کا عوض نہیںہے اس لئے کہ مطالعہ اورانعام دونوں عمل بجالانے والے(موجر)کے فائدہ میں ہے،اسی طرح ذوی القربیٰ کی محبت اور رسالت دونوں کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچتاہے۔دوسرے لفظوں میں عوض اور معوض (یعنی مال اور اس کی قیمت)دونوں مسلمانوں کے مفاد میں ہیں۔اور جہاں مال اور قیمت دونوںکا فائدہ مشتری کو ہوتاہو یا کام اور اُجرت دونوں کا فائدہ اجیر کو ہوتاہو اسے اُجرت دینا نہیں بلکہ محض ظاہری اُجرت دینا کہاجاتاہے۔اہلبیت علیہم السلام کی محبت میںقربانیاں دینی پڑتی ہیں،مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں اسی لئے اسے بظاہر اُجرت دینا کہاجاتاہے جبکہ حقیقت میں ان قربانیوں اور مشکلات کو جھیلنے کا فائدہ خود مسلمانوں کو ہوتاہے۔ انبیاء علیہم السلام کے اس قول : لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالاًاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اﷲِ میں اس نصیحت کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں ،میراصلہ تو خدا کے ذمے ہے۔سے مراد لوگوں سے مال دنیا کی صورت میںاُجرت لینا ہے وگرنہ جنت کی صورت میں عوض کے وہ بھی طالب ہیں۔ خدانے اس آیت میں ”مودت ذوی القربیٰ ‘‘ کو اجر رسالت قرار دیا ہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس آیت میںاس بات کی جانب اشارہ نہیں ہواہے اور یہ شرط نہیں رکھی ہے کہ ذوی القربیٰ جب تک خداکے مطیع اور فرمانبردارہیں اس وقت ان کی محبت واجب ہے وگرنہ ان کی محبت واجب نہیں ،ایسی بات نہیں ہے۔بلکہ اسلام اور خود آئمہ علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق گناہگار اور معصیت کار کی نہ صرف اطاعت واجب نہیں اور اس سے محبت کرنا واجب نہیں بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنا واجب ہے۔امر بالمعروف و نہی از منکر کے سلسلہ میںپہلا حکم بھی یہی ہے کہ جب کسی کو گناہ کرتے دیکھے یاکسی واجب کو ترک کرتے دیکھے تودیکھنے والوں پرسب سے پہلے اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنا واجب ہے۔ چنانچہ گناہگاروں سے نفرت و بیزاری کا اظہارکرنا اور ان سے بغض رکھنا واجب ہے دوسری جانب رسول اکرم صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے فرمان کہ : میری تبلیغ کی اجرت میرے ذوی القربیٰ کی محبت ہے۔سے واضح ہوتاہے کہ جن ذوی القربیٰ کی محبت و مودت کو خدانے مسلمانوں پر واجب کیاہے وہ گناہ و معصیت کی نجاستوں اور کثافتوں سے پاک وطاہر ہیں یعنی وہ معصوم ہیں۔بغیر کسی شرط و قید کے ذوی القربیٰ کی محبت و مودت کو واجب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذوی القربیٰ معصوم ہے اور جن کی محبت واجب ہوتے ہیں وہی معصوم ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا نے آپ ؐکی تبلیغ کا معاوضہ ذوی القربیٰ کی محبت کو قرار دیاہے۔اوریہ بدیہی ہے کہ ہرقسم کے لین دین میں مال اور قیمت کے مابین ایک حد تک مناسبت ہوتی ہے چنانچہ لوگ جب خریدوفروخت کرتے ہیںتو مال اور قیمت کے مابین مناسبت کو مدنظررکھ کر لین دین کرتے ہیں۔چنانچہ مذکورہ آیت سے اہلبیت علیہم السلام کی محبت کی قدروقیمت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ گذشتہ تمام انبیاء کی تبلیغ اور اس راہ میں اٹھانے والی زحمتیں نبی آخرالزمان صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا مقدمہ ہے اور رسول گرامی اسلام صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ اور اس راہ میں اٹھانے والی تمام تکالیف اور زحمتوں کا عوض اوراجرت مودت و محبت اہلبیت علیہم السلام ہے۔کتنااہم اور قیمتی ہے یہ محبت!! جس محبت اور مودت کی قیمت اور اہمیت کا حال یہ ہو تو کیا اس سے مرادصرف دین سے محبت ہے؟ یا پھر اس محبت کے دوسرے تقاضے بھی ہیں؟ اس سوال کا جواب ذات پروردگار ایک اور آیت کے ذریعے دے رہا ہے کہ : قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہِ سَبِیْلًا اے حبیب ؐ !آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں اس تبلیغ رسالت کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار تک پہنچنے والی راہ مستقیم اختیار کرے۔(سورہ فرقان،آیت ۵۷)یعنی اے حبیب ! ان سے کہہ دیجئے کہ جس اجرت کا ہم نے تم سے مطالبہ کیا ہے وہ درحقیقت خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے۔چنانچہ محبت ومودت اہلبیت علیہم السلام کے ذریعے انسان خداتک پہنچ سکتاہے۔ حدیث ثقلین میں،جسے تمام شیعہ اور سنی راویوں نے تواتر کے ساتھ نقل کیاہے،ارشاد ہوتا ہے کہ : اِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تَضِّلُوْا، کِتَابَ اﷲِ وَ عِتْرَتِی اَہْلِ بَیْتِیْ وَ اِنَّھُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ میںتمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں ،کتاب خدااور میری عترت واہلبیت کو چھوڑکر جارہا ہوں ،تم اگر ان سے متمسک رہوگے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔یہ دونوں بھی ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر آکر کے مجھ سے نہ مل لیں۔(وسائل الشیعہ،جلد۲۷۔ص ۳۴،حدیث ۳۳۱۴۴) چنانچہ حدیث ثقلین میں ارشاد ہوتاہے کہ : قرآن و عترت سے جب تک متمسک رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہونگے۔آیت بھی اسی مطلب پر دلالت کرتی ہے کہ محبت اہلبیت ؑ خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے، تو وہ راستہ کیسا ہے؟ اولاً ؛ اہلبیت علیہم السلام کی محبت فروع دین میں سے ہے جبکہ امامت کا تعلق اصول دین سے ہے۔لیکن محبت یعنی فروع دین کا یہ مسئلہ امامت کے عملی ہونے یعنی نافذالعمل ہونے اور امامت کو معاشرے میںعام کرنے کا ذریعہ ہے۔اس سے پہلے ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ علمی نقطہ نظر سے امام حجت ہے،علم کے لحاظ سے امام علیہ السلام کے فرامین حجت ہیں،پیغمبر اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعدامام علیہ السلام کا فرمان حجت شرعی کی حیثیت رکھتاہے،دین کا قوام امام سے ہے،حکومت کرنے کا حق امام کا ہے،اسوہ معصومہ امام ؑ ہے۔چنانچہ محبت ومودت کے ذریعے انسان امامت سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرسکتاہے،اسی محبت کے ذریعے امامت کا نظام ہمارے معاشروں میں نافذ ہوسکتاہے۔ انسان جس طرح اپنے چاہنے والوں کی ہر اداء کو پسند کرتاہے اور ان کی ہربات ہمہ تن گوش ہوکر سنتاہے اسی طرح انہی افرادسے دین اور علم بھی لیتاہے۔ اس کے برعکس جن سے نفرت کرتا ہے ان کی نصیحت وہدایت اورعقل ومنطق پر مبنی دین کی باتوں کی تو بات نہیںوہ ان کے لطیفوں کوبھی سنناپسند نہیں کرتا ہے۔چنانچہ انسان جن سے محبت کرتا ہے انہی کی باتوں کو غور سے سنتاہے اور انہی سے علم اور دین کے احکام لیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بنی اُمیہ نے آلِ محمد صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے تاکہ لوگ آلِ محمد صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے بجائے بنی اُمیّہ سے محبت کرنے لگیں،یہاں تک کہ بنو عباس کے پہلے خلیفہ سفّاح کے دور میں شام سے کچھ زعماء مدینہ آئے اور آلِ محمد صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے مقام و منزلت کو دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ : ہمیں تواس بات کی خبر ہی نہیں تھی کہ حضور اکرم صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے بنواُمیّہ کے علاوہ بھی کوئی رشتہ دار ہیں!۔ توانسان جس سے محبت کرتا ہے دین بھی اسی سے لیتاہے اور جس سے نفرت کرتا ہے اس سے دین بھی نہیں لیتاہے۔لھٰذا خدا ،اس کا رسول ؐ اور قرآن یہ چاہتا ہے کہ مسلمان دین یعنی دین مبین اسلام ،شریعت اسلام،قوانین اسلام اور معارف دین کو اہلبیت اطہار علیہم السلام سے اخذکریں اس لئے کہ شہر علم ِپیغمبر ؐ کا در علی ؑ اور آلِ علی ؑ ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کے دلوں میںعلی علیہ السلام اور آلِ علی علیہ السلام کی محبت ہواسی طرح امامت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے دل میں امام یا امامت کی محبت ہو،کیونکہ محبت ومودت کی وجہ سے لوگ ان (آئمہ ؑ)کے در پر جاتے ہیں اور ان سے دین و شریعت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ثانیاً ؛ ہرشخص کو اگر اپنا حاکم منتخب کرنے کی آزادی مل جائے تو وہ کسے اپنا حکمران منتخب کرے گا؟کس کی حکومت کو دل وجان سے قبول کرے گا؟اور کس کی تعلیمات اور فرامین پر عمل کرے گا؟ یقیناً اسی کو اپنا حکمران بنائے گا اور اسی کی تعلیمات و فرامین پر عمل کرے گا جس سے وہ محبت کرتاہے۔اس کے برعکس جسے وہ پسند نہیں کرتا وہ نہ صرف یہ کہ اس کی حکومت کو قبول نہیں کرتا بلکہ بیت المال کی چوری،قانون شکنی،بدامنی وغیرہ کے ذریعے اس کی حکومت کو کمزوراور غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتاہے۔چنانچہ حکومت یا حاکم سے اگراسے عشق و محبت ہو تو حاکم کی غیر موجودگی میں بھی اس کی مدد اور حمایت سے ہاتھ نہیں کھیچتا اور بلامعاوضہ اس حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے دن رات ایک کرکے جدوجہدکرتاہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے دورِخلافت میں چوری ثابت ہونے کے بعد جب ایک شخص کا ہاتھ قطع کیا تو ایک خارجی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شخص کو امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف اُکسانا چاہااورکہنا شروع کیا کہ : ” علی ؑ نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا ‘‘ تو اس نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ تو امیرالمومنین ،یعسوب الدین،امام المتقین ہیں، آپ ؑکی توصیف وتمدیح کی۔ فقہ حنبلی کے امام حضرت احمد بن حنبل سے جب پیغمبر اکرم صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث : قال رسول اﷲ صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم یا علی انک قسیم النار و الجنۃ وانک تقرع باب الجنۃ فتدخلھا بلا حساب (صحیفۃ الرضا،حدیث ۷۴)کے بارے میں پوچھاکہ یہ کیونکر ہوسکتاہے کہ علی لوگوں میں جنت وجہنم تقسیم کرے گا؟اوراسے ہم کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ تو احمد بن حنبل نے کہا کہ علی علیہ السلام نے تو دنیا ہی میں بلکہ ابھی بہشت اور دوزخ تقسیم کی ہے، اس لئے کہ پیغمبر اسلام صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کا فرمان مشہورہے کہ : ما یبغض علیاًاِلَّا شقی وفی قولٍ لا یبغض علیاً اِلَّاکافر ولا یتوالی علیاً اِلَّا تقی ولا یومن بہ اِلَّا مومن مخلص علی سے سوائے شقی افرادکے کوئی بغض نہیں رکھے گا ۔ایک اور حدیث میں آپ ؐنے فرمایا: علی سے سوائے فاسق کے کوئی دشمنی نہیں رکھے گااور سوائے متقی افراد کے علی کی پیروی کوئی نہیں کرے گااورسوائے مومن کے کوئی علی سے محبت نہیں کرے گا۔(بحارالانوار،جلد۳۷،ص ۱۳۱،باب ۵۴) چنانچہ انسان جن سے محبت کرتا ہے اس کی تعلیمات پر عمل کرتاہے،اس کی حکومت کو قبول کرتاہے اس کی رعیت میں اگرمشکلات اور سختیاں برداشت کرنی پڑے تو خندہ پیشانی کے ساتھ اسے برداشت کرلیتاہے اوراس کی راہ میںخطرات جھیلنے اور قربانیاں دینے کے لئے آمادہ و تیاررہتا ہے۔اسی طرح اپنی عوام اوررعایا سے محبت کرنے والا حاکم دن رات ایک کرکے ان کی خدمت کرتاہے ذاتی مفادات پر قوم وملّت کے مفادات کو ترجیح دیتاہے اس لئے کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی اورترقی کے لئے دوطرفہ محبت اور خلوص اشد ضروری ہے۔ چنانچہ اسلامی حکومت کا قیام اگر امام علیہ السلام کی ذمّہ داریوں میں سے ایک ہے تو اس کے عملی (ممکن)ہونے کے لئے امام ؑ سے محبت لازمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خدانے ان کی محبت لوگوں پر واجب کیا تاکہ امام کے لئے حکومت کرنا اور لوگوں کے لئے ان کے فرامین و احکامات پر عمل کرناآسان ہوسکے۔ ثالثاً ؛ انسان جس سے محبت کرتاہے اس محبت کی وجہ سے اس کی راہ میں قربانی دینا اس کے لئے آسان ہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم آئمہ علیہم السلام کوبندگی معبود میں یہ کہتے ہوئے پاتے ہیں کہ : الہی ما عبدتک خوفاً من عقابک ولاطمعاً فی ثوابک ولکن وجدتک اہلاًللعبادۃ فعبدتک پروردگار ا! تیرے عقاب کے خوف اور اجروثواب کی لالچ کی وجہ سے میں نے تیری عبادت نہیں کی بلکہ میں نے تجھے لائق عبادت پایا اس وجہ سے تیری عبادت کی ہے۔ (بحارالانوار جلد۴۱،حدیث ۱۴،باب ۱۰۱) پیغمبراکرم صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کومحراب عبادت میںاپنے معبود کے ساتھ رازونیازکرتے اور گریہ کرتے دیکھ کر امّ المومنین حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲصلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم آپ اس قدر کیوں گریہ فرماتے ہیں جبکہ خدانے آپ سے پہلے ہی جنت کا وعدہ کرلیا ہے؟تو آپ ؐ نے فرمایا : یاعائشۃ الا اکون عبداً شکوراً اے عائشہ کیا مجھے خداکا شکرگزار بندہ نہیں ہونا چاہئے؟(اصول کافی جلد۲،حدیث ۹۵،باب الشکر) چنانچہ محبت عمل ،فداکاری اورایثاروقربانی کا باعث بنتی ہے ۔جس کا عملی مظاہرہ ہم میدان کربلا میں دیکھتے ہیں کہ شہزادی زینب سلام اﷲعلیہاعصر عاشوراپنے بھائی کی شہادت کے بعدقتل گاہ کی طرف جاتی ہیں اور بھائی کے لاشہ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھاکر یہ دعافرماتی ہیں کہ: ”خدایا اس قربانی کو اپنے درگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما‘‘ یہ محبت ہی ہے جو حسین علیہ السلام جیسے عظیم بھائی کی قربانی پر زینب سلام اﷲعلیہا یہ دعا فرماتی ہیں کہ خدایا اسے قبول فرما! چنانچہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی خوشنودی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتاہے۔وہ جب اپنے بچوں کی خوشی کے لئے زحمتیں اٹھاتا ہے،لوگوں سے قرض لے کر ان کی خواہشات اور فرمائشات کو پوری کرنے کی کوشش کرتاہے۔ان کی خوشی میں وہ خوش ہوتاہےاور ان کو بیماری وغیرہ کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف سے اسے تکلیف پہنچتا ہے۔تو جس ہستی سے انسان محبت کرتاہے اس کی پسند یدہ چیز یا عمل اس کا پسندیدہ عمل بن جاتاہے اوراس کی نا پسندیدہ چیزوں سے وہ متنفر ہوکر اس سے نفرت کرتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ محبت اہلبیت کے تقاضے کیاہیں؟ خدانے اہلبیت علیہم السلام کی محبت اس لئے واجب کیا تاکہ انسان اس محبت کے ذریعے ان سے دین (اسلام)لیں،اسی محبت کے ذریعے ان کی حکومت کو دل وجان سے قبول کرے ،اسی محبت کے ذریعے اہلبیت ؑ کواپنے لئے اسوہ حسنہ قرار دے اور اسی محبت کے ذریعے ان کی تعلیمات اور ہرعمل وکردار کو اپنائے۔ اپنے کام اور مشغلہ سے محبت کرنے والوں کو اگرچہ اس کام اور شغل کی نسبت معاوضہ کم ملتاہے مگرمستقبل میںاس میدان (Field)میں اس کی ترقی کے (Chances)مواقع زیادہ ہوتے ہیں اس کے برعکس بغیر عشق و محبت کے کسی شغل میں مشغول افرادکو اگرچہ وقتی طورپر زیادہ معاوضہ ملتے ہیں مگر وہ نہ تو اس شغل سے مطمئن ہوتے ہیں اور نہ مستقبل میں وہ اس میدان میں ترقی و پیشرفت کرتے ہیں۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ جس شغل یا پیشہ سے اسے محبت ہے ہمیشہ اسی کو اپنانا چاہئے اس لئے کہ جس خط یا لائن میںذاتی ذوق و شوق کارفرماہوتا ہے وہ اس میدان میں مزید تحقیق و جستجو کرتے ہوئے ترقی کرتا ہے ۔اس کے برعکس جس شغل یا پیشہ کو اگرکوئی مجبوری کے تحت اختیار کرتاہے وہ اس میدان میںترقی اور پیشرفت نہیں کرتاہے۔لھٰذا محبوب جو کرتا ہے حبیب بھی وہی کرتاہے اور جسے محبوب ترک کرے حبیب بھی اسے ترک کرتاہے۔ اسی طرح آئمہ اطہار علیہم السلام سے ہم جب محبت کرنے لگیں گے توجو انہیں محبوب ہوگا وہی ہمارا بھی محبوب ہوگااور جو کام اور عمل ہمارے محبوب (آئمہ علیہم السلام) انجام دیتے تھے اسے ہم بھی بجا لائیں گے اور جن چیزوں سے وہ نفرت کرتے تھے ان سے ہم بھی نفرت وعداوت کرنے لگیں گے۔چنانچہ جو شخص نماز کو مشکل اور بوجھ سمجھ کر پڑھتاہے اگر امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے اگر اسے محبت ہو توجس طرح سے وہ نماز سے عشق کرتے تھے اور دوران نماز پاوں سے تیر نکالنے تک کو محسوس نہیں کرتے تھے ۔اسی انداز سے وہ بھی نماز سے عشق کرنے لگے لگا۔یوں یہ نماز اس کی ترقی اور تزکیہ نفس کا باعث بنے گی۔ قرآن مجید میں انسانوں کے عیوب بیان کرتے ہوئے خداوند عالم ارشاد فرماتاہے کہ : اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّجَزُوْعًا وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَآئِمُوْنَ کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیداہواہے ۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرااٹھتاہے۔اور جب آسائش حاصل ہوتی ہے بخیل بن جاتا ہے۔مگر نماز گزار جو نماز کا التزام رکھتے اوربلا ناغہ پڑھتے ہیں۔(سورہ المعارج، آیات ۱۹-۲۳) یعنی صرف نمازی پاکیزہ ہوتے ہیں اوراپنے ساتھی انسانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔چنانچہ یہ نماز ہے جو انسان کی وجود میں انقلاب پیداکرتی ہے اور حسد و بغض و کینہ اور اس جیسی بہت سی دیگر خطرناک بیماریوںسے اسے محفوظ رکھتی ہے۔قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ : اِنَّ الصَّلَوٰۃتَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ کچھ شک نہیں کہ نما ز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔(سورہ عنکبوت،آیت ۴۵)وہ کونسی نماز ہے جو انسان کو تمام برائیوں سے روکتی ہے؟ وہ نماز ہے جسے مسلمان سکون قلب کے ساتھ پڑھتاہے اور جس سے مسلمان محبت کرتاہے۔مسلمان جب امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب اورامام حسین علیہما السلام سے محبت کرنے لگیں گے اور ان کی سیرت کو ملاحظہ کرتے ہوئےاُنہی کی طرح نماز پڑھنے لگیں گے۔ کربلا میں جب جنگ سروں پر منڈھلا رہی تھی اور موت کا پروانہ راہ خدا کے مجاہدوں کے گرد چکر کاٹ رہا تھا ایسے میں وقت نماز یاد دلانے والے کے لئے حضرت امام حسیں علیہ السلام نے عجیب دعا فرمائی ،وہ اگرچہ آپ کے رکاب میں شہید ہوگیااس کے باوجودآپ نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا تجھے راہ خدامیں شہید ہونے والوں میں سے قرار دے ! بلکہ فرمایا کہ : خدا تجھے روز قیامت نمازیوں میں سے قرار دے۔تعجب کی بات تویہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اس صحابی کیلئے دعا کی کہ خدا تجھے مصلّین میں سے قراردے! بعض لوگ مومنین کو نماز سے دور کرنے کے لئے یہ مذموم پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ دیکھو نماز کی اتنی اہمیت نہیں ہے ۔میدان کربلا میں عاشور کے دن ابو ثمامہ سیداوی امام کو وقت نماز یاددلائی اور خود امام علیہ السلام کو بچاتے ہوئے نماز پڑھے بغیر شہیدہوگئے ۔چنانچہ نماز کی اگر اتنی اہمیت ہوتی تو وہ پہلے نماز پڑھتے پھر درجہ شہادت پر فائز ہوتے جبکہ وہ نماز پڑھے بغیر شہید ہوگئے ،لھٰذا نماز کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ بعض افراد دوسرے انداز میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور نماز کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز زیادہ اہم ہے یا عزاداری؟نماز مقدم ہے یا عزاداری؟ اس کے بعد کہتے ہیں کہ نماز فروع دین میں سے ہے جبکہ عزاداری اصول دین میں سے ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ کبھی اپنی نوکری اور مفادات کوعزاداری کے ساتھ مقائسہ نہیں کرتے اور یہ نہیں کہتے ہیں کہ نوکری زیادہ اہم ہے یاعزاداری؟ اور اپنے مفادات زیاادہ اہمیت رکھتی ہے یا عزاداری؟ اس کے برعکس وہ نماز اور دوسرے واجبات دین کو عزاداری سید شہداء علیہ السلام کے ساتھ موازنہ اور مقائسہ کرتے ہیں۔یہ افراد دراصل عزاداری کے نام سے اور عزاداری کی حمایت کے ذریعے لوگوں کو نماز سے روکنا چاہتے ہیں۔باطل کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہاہے کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے انہوں نے ہمیشہ اچھے نعروں سے مدد لیا ہے کیونکہ باطل اور غلط شعاراور نعروں کے ذریعے لوگوں کوگمراہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہپیغمبر اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلّم کی رحلت کے بعد احادیث کی تدوین اور جمع آوری سے لوگوں کومنع کرتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ ہم اس طرح سے(احادیث کی تدوین سے منع کرتے ہوئے) قرآن بچانا چاہتے ہیں۔یوں اس نعرے کے ذریعے جو بظاہرایک خوبصورت نعرہ تھا احادیث کی تدوین اور جمع آوری سے روکنے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ جنگ صفین میں قرآن کو نیزوںپراٹھاکر قرآن ناطق یعنی امام معصوم ؑکی اطاعت سے لوگوں کو روکا گیا ۔اسی طرح جنگ حنین میں آیہ شریفہ : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ اورجو شخص ظلم سے قتل کیاجائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے کہ قاتل سے بدلہ لے تو اس کو چاہئے کہ قتل کے قصاص میں زیادتی نہ کرے۔ (سورہ بنی اسرائیل ،آیت ۳۳)کے ذریعے لوگوں کو امام وقت کے خلاف جنگ کی دعوت دی گئی۔ آج بھی دنیا کی بڑی قوتیں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی بیان کے موثر اور خوبصورت نعروں کے ذریعے اپنے مذموم عزائم کو تکمیل کرنے کے لئے کوششیں کرتی ہیں۔ چنانچہ امام علیہ السلام کی ذمّہ داریوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آئمہ علیہم السلام کی محبت ضروری ہے،محبت کے بغیر یہ ذمّہ داریاں انجام نہیں پاسکتیں۔پیغمبر اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے جسے صاحب کتاب کشاف نے نقل کیا ہے کہ : نُقِلَ عَنِ النَّبِیِّ (ص)اَنَّہُ قَالَ : مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مَُحَمَّد مَاتَ شَہِیْداً أَلَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد مَاتَ مَغْفُوْراًلہ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد مَاتَ تَائِبًا، أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد مَاتَ مَوْمِنًا مُسْتَکْمِلُ الْاِیْمَانِ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد بَشِّرْہُ مَلَکُ الْمَوْتِ بِالْجَنَّۃِ ثُمَّ مُنْکَرٌ وَنَکِیْرٌ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد یَزِفُ اِلٰی الْجَنَّۃِ کَمَا تَزِفُ الْعَرُوْسِ اِلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد (ص)فُتِحَ لَہُ فِیْ قَبْرِہِ بَابَانِ اِلٰی الْجَنَّۃِ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد جَعَلَ اﷲُ قَبْرَہُ مَزَارَ مَلَائِکَۃِ الرَّحْمَۃِ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّد مَاتَ عَلٰی السُّنَّۃَ وَالْجَمَاعَۃِ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّد جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ آئِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اﷲِ أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدمَاتَ کَافِرَاً أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدلَمْ یَشُمَّ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ نبی اکرم صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : جو بھی آلِ محمد صلّی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی محبت میں مرتا ہے وہ شہیدمرتاہے اور جوآلِ محمد ؐ کی محبت میں مرتاہے وہ مغفور یعنی معاف ہوکر مرتاہے۔اور جوآلِ محمد کی محبت میں مرتاہے وہ توبہ کے ساتھ مرتاہے، جوآلِ محمد کی محبت میں مرتاہے وہ کامل الایمان اور مومن کی موت مرتاہے۔اور جو آلِ محمد کی محبت میں مرتاہے اسے ملک الموت پھر نکیر ومنکر جنت کی بشارت دیتاہے اورجو آلِ محمد کی محبت میں مرتا ہے اسے جنت میں اس انداز سے لیجایاجاتاہے جس طرح تم دلہن کو دولہاکے گھر (عزت واکرام کے ساتھ )لیجاتے ہو۔اور جو آلِ محمد کی محبت میں مرتاہے اس کی قبر سے جنت کی جانب دو دروازے کھلتے ہیں جوآلِ محمد کی محبت میں مرتاہے کدا اس کی قبر کو اپنے فرشتوں کے لئے زیارت گاہ قرار دیتاہے۔اور جو آلِ محمد کی محبت میں مرتا ہے وہ سنت اور جماعت کے ساتھ مرتا ہے۔اور جو آلِ محمد کی دشمنی میں مرتا ہے روز قیامت ماتھے پر خداکی رحمت سے مایوس لکھا ہوا محشور ہوتاہے۔اور جو آلِ محمد کی دشمنی میں مرتاہے وہ کافر مرتاہے۔اور جو آلِ محمد کی دشمنی میں مرتاہے وہ کبھی جنت خوشبو نہیں سونگھ سکتا۔بعض روایات میں آیاہے کہ آلِ محمد صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی رکھنے والے جنت سے پانچ سو میل دور ہونگے) (بحارالانوارجلد۲۳،صفحہ ۲۳۳،باب ۱۳ انَّ مودتہم اجرالرسالۃ )یہ حدیث اہل سنت کی کتابوں تفسیر کشاف وغیرہ اور شیعوں کی متعدد کتابوں میں موجود ہے۔ یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ذات پروردگار نے اہلبیت علیہم السلام کی محبت کا اتنا بڑا صلہ اور اتنی بڑی قیمت کیوں رکھی ہے؟ آخر مال اور قیمت اور عمل اور جزا کے مابین مناسبت ہونی چاہئے ۔اگر گناہ بڑاہے تو سزابھی بڑی ہونی چاہئے اسی طرح گناہ اگر چھوٹاہے تو سزابھی کم ہونی چاہئے اور اگر کارنامہ عظیم ہے یا عمل گرانقدر ہے تو اس کا پاداش بھی عظیم اور گرانقدر ہونا چاہئے۔محبت کا اتنا بڑا انعام اورجزارکھنے اور اہلبیت علیہم السلام کی دشمنی کا اتنی بڑی سزا رکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ محبت کا مقام کتنا عظیم اور ان سے دشمنی کی پستی کتنی گھناونی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام سے محبت کرنے والا آپؑ کو فرزند ابوطالب ،اہل عرب ،اہل مکّہ یا پیغمبر اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ علی علیہ السلام بندگی کا مظہر ،شجاعت کا پیکر،عشق الہٰی کا کامل نمونہ اور تمام کمالات و فضائل میں سرآمد روزگار (بے مثل)ہونے کی وجہ سے آپ سے محبت کرتاہے۔ہم علی علیہ السلام سے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ آپ فضائل و کمالات کے امام ہیں۔علی علیہ السلام سے محبت کرنے والا علم ،بندگی خدا،انسانیت،شرافت،اخلاق حسنہ اورفضائل وکمالات سے محبت کرتاہے اس لئے علی ؑ سے محبت کرتا ہے۔ کیونکہ علی ؑ مظہر صفات خداہے۔اسی طرح علی علیہ السلام سے دشمنی اور بغض رکھنے والا علم ،بندگی،فضائل وکمالات اور اخلاق حسنہ سے نفرت کرتاہے اس لئے علی ؑ سے دشمنی کرتاہے۔ آیت اﷲ شہید مطہری کا خوبصورت جملہ ہے کہ : ” لوگوں کو علی علیہ السلام کی معرفت نہیں ہوئی ہے ۔نہ تو دشمنوں نے علی ؑ کو پہچاناہے اور نہ بعض چاہنے والوں نے،دنیا والوں کے سامنے اگر علی علیہ السلام کی صحیح تصویر پیش کیا جائے تو ہوسکتاہے کہ بعض چاہنے والے بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دے۔‘‘ اس لئے کہ بعض لوگ علی ؑسے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ علی ؑ ان کے گناہ بخشوائیں گے ۔یہ لوگ علی علیہ السلام کو دنیوی سیاستدانوں کے مانند سمجھتے ہیں کہ میںجو دل میں آئے کروں گا کیونکہ میرا تعلق علی علیہ السلام کی جماعت (پارٹی)سے ہے اور میرا شمار علی ؑ کے چاہنے والوں میں ہوتاہے اس لئے وہ میری تمام غلطیوں اور گناہوں پر پردہ ڈالدیں گے،اور روز قیامت میری شفاعت کریں گے۔اس طرح کے نظریہ رکھنے والوں کو جیسے ہی یہ معلوم ہوجائے کہ علی علیہ السلام تو اپنے مشہور شاعرنجاشی کو بھی ،جس نے ماہ مبارک رمضان میں شراب نوشی کی تھی ،سزادینے سے دریغ نہیں کرتا ،تو وہ آپ ؑ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب مولا ؑ کو نجاشی کی حرکت کا علم ہوا تو آپ ؑ نے اسے گرفتارکرکے ایک سو بیس (۱۲۰) کوڑے لگوائے تو اس نے عرض کیا کہ : مولا ! اسّی کوڑے تو شراب نوشی کی حدّ تھی باقی تیس کوڑے کس خوشی میں آپ نے مارے؟ تو آپ نے فرمایا : تیس کوڑے ماہ مبارک کی حرمت کو پامال کرنے کی سزا ہے۔جیسے ہی نجاشی نے آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ سنا تو یہ کہتے ہوئے کہ : علی ؑکودوست اور دشمن کی تمییز نہیں ۔آپ کو چھوڑ کر امیر شام (معاویہ بن ابو سفیان) کے پاس چلا گیا۔ اسی طرح وہ لوگ جو اس پروپیگنڈہ اور غلط فہمی کی وجہ سے کہ علی ؑ نماز نہیں پڑھتے تھے آپ ؑ سے بغض رکھتے ہیں انہیں جیسے ہی علی علیہ السلام کے بارے میں علم ہوجائے کہ آپ کی ولادت اور شہادت دونوں خانہ خدا (ولادت کعبہ میں اور شہادت مسجد کوفہ)میں ہوئی تھی ،آپ جب بھی نماز میں مشغول ہوتے دنیا وما فیہا سے غافل ہوجاتے تھے،چنانچہ آپ کے بارے میںراوی نقل کرتا ہے کہ : مدینہ میں ایک دفعہ رات کی تاریکی میں دور سے کسی کی رونے کی آواز سنائی دی تو میں اس جانب بڑھا ،نزدیک پہنچ کر دیکھا تووہ شدت گریہ کی وجہ سے گرگیا چنانچہ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مرگیا ہے۔جب نزدیک جاکر دیکھا تو وہ علی علیہ السلام تھے ۔میں دوڑتاہوا سیّدہ سلام اﷲ علیہا کے بیت الشرف گیا اور عرض کیا کہ علی ؑ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔سیّدہ ؑ نے جب تفصیلات پوچھی تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا اس پر آپ ؑ فرمانے لگیں کہ یہ علی ؑکے روز کا معمول ہے۔علی ؑ جب بھی سجدہ میں جاتے ہیں یاد خدا میں ان کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔تو ان لوگوں کو جیسے ہی علی علیہ السلام کی ان عالی صفات کا علم ہوگا تووہ خودبخود علی ؑ سے محبت کرنے لگیں گے۔ محبت اہلبیت علیہم السلام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کرنے والے نہایت شوق سے دین کے احکامات پر عمل پیراہوتے ہیں۔جس کا عملی مظاہرہ ہم واقعہ کربلا میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ حسین علیہ السلام سے محبت کرنے والوں نے شہادت کو عشق اورمحبت کے ساتھ گلے سے لگائے ۔وہب قلبی کولیجئے کہ واقعہ کربلا سے صرف سترہ دن پہلے مسلمان ہوے تھےساتھ شادی کئے بھی چند روز سے زیادہ نہیں گزرے تھے۔اس کے باوجود شہادت کو عشق و محبت کے ساتھ گلے سے لگایا اورجب اشقیا نے ان کا سر مبارک کاٹ کر امام علیہ السلام کی جانب پھینکا تو اس کی بوڑھی ماں نے یہ کہتے ہوئے کہ : جسے راہ خدا میں دی ہے اسے دوبارہ واپس نہیں لوں گی،اس کے سر مبارک کودوبارہ میدان کی طرف پھینکا۔ اسی طرح عابس نے جب میدان جنگ میں قدم رکھا تو کوئی بھی ان سے مقابلہ کے لئے نہیں آیا۔جب اس نے دیکھا کہ کوئی بھی اس سے لڑنے کے لئے نہیں آرہا ہے تو اس نے اپنا ذرہ اتارکر پھینک دیا ،اس کے بعد ایک ایک کرکے لبا س حرب (جنگی لباس)کو اتار کر پھینکااور نہتے دشمن پر حملہ آور ہوا تو کسی نے سوال کیا کہ عابس کیا دیوانہ ہوگئے ہو ؟ تو کہنے لگےہاں! عشق حسینی ؑنے مجھے دیوانہ بنادیا ہے۔تو یہ محبت ہی ہے جس نے شہادت جیسی سخت ترین چیز کو شیرین بنادی ۔ اسی طرح شہزادہ قاسم علیہ السلام نے فرمایا کہ: میرے لئے شہادت شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔لیکن حسین علیہ السلام نے یہ کام عشق الہٰی میں انجام دیا۔آپ ؑ سے منسوب مشہور شعر ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: خداو ندا ! میں سب کچھ چھوڑ کر تیری بارگاہ میں آیا ہوں۔اپنے بچوں کو تیری زیارت کی خاطر یتیم کرکے آیا ہوںتو اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردے پھر بھی میرادل کسی اور کی جانب نہیں مڑے گا۔ یہ خداہی کا عشق ہے جس نے حسین ابن علی علیہما السلام کو اس عظیم قربانی کے لئے آمادہ کیا۔ سوال : کسی سے محبت کرنا یا بغض رکھنا انسان کے اختیار میں تو نہیں! اگر کسی کے دل میں کسی خاص فرد یا شخصیت کی محبت نہیں تو ہزار کوشش کے باوجود بھی اس کی محبت دل میں پیدا نہیں کرسکتے اسی طرح کسی فردیا شخصیت کی محبت اگر دل میں ہے تو ہزارکوشش کے باوجود اسے دل سے نکال نہیں سکتے۔چنانچہ امیرالمومنیں علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ : لَوْ ضَرَبْتُ خَیْشُوْمَ الْمُوْمِنِ بِسَیْفِی ھٰذَا عَلٰی اَنْ یُبْغِضَنِیْ مَا اَبْغَضَنِیْ، وَلَوْ صَبَبْتُ الدُّنْیَا بِجَمَّاتِھَا عَلٰی الْمُنَافِقِ عَلٰی اَنْ یُحِبَّنِیْ مَا اَحَبَّنِیْ ،وَذَالِکَ أَنَّہُ تُضِیَ نَانْقَضَی عَلٰی لِسَانِِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ ،أَنَّہُ قَالَ :یَا عَلِیُّ ؛لَا یُبْغِضُکَ مُوْمِنٌ ،وَلَا یُحِبُّکَ مُنَافِقٌ ۔ اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاوں کہ وہ مجھ سے دشمنی کرے تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا۔اور اگر تمام متاع دنیا کافر کے آگے ڈھیر کردوں کہ وہ مجھے دوست رکھے ،توبھی وہ مجھ سے دوست نہ رکھے گا۔اس لئے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر امّی صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلّم کی زبان سے ہوگیا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا : اے علی ؑ ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا ،اورکوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا‘‘(نہج البلاغہ،کلمات قصار،۴۴) اس لئے کہ کسی سے محبت یا عداوت کرنا انسان کی اختیار میں نہیں ہے ۔پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ خدانے مسلمانوں پر اہلبیت محمد صلّی اﷲ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت کیوں واجب فرمایا ؟ (ہمیں تو بعض مسلمانوں پر حیرت ہوتی ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کی محبت کے واجب ہونے کو تو مانتے ہیں اس کے باوجود انہیں اس فریضے پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھتے ہیں وہ اس فریضے پر آخر کب عمل کریں گے ؟ ( پس محبت کرنا اگر انسان کے بس میں نہیں ہے تو خدا نے اسے کیوں واجب قرار دیا ؟ جواب : یہ حقیقت ہے کہ کسی کی محبت اپنے دل میں جاگزین کرنا ہمارے اختیار اور بس میں نہیں ہے مگر محبت کے مقدمات اور لوازم فراہم کرنا ہمارے بس اور اختیار میں ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص کسی کو قتل کرنے کے لئے جب گولی چلاتاہے ۔تو اس کے گولی چلانے سے پہلے اگرچاہتا تو اپنے آپ کو گولی چلانے سے باز رکھ سکتاتھامگر اس نے اپنے آپ کو نہیںروکا اور گولی چلادی پھر اپنے کئے پر پچھتاتاہے ۔اب گولی چاہے اسے لگے یا نہ لگے دونوں صورتوں میں وہ قاتل شمار ہوتاہے۔چنانچہ گولی چلانے کے بعد اس کے پچھتانے سے کیا فائدہ؟ وجہ یہ ہے کہ قتل کا مقدمہ (یعنی گولی کا چلانا یا نہ چلانادونوں)کا اختیاراس کے ہاتھ میں تھا۔اس نے گولی چلائی اور وہ مرگیا۔ چنانچہ جس چیز کا مقدمہ انسان کےاختیار میں ہوتاہے وہ چیز بھی انسان کے ہاتھ میں ہوتاہے۔جس طرح گولی چلانے کے بعدمقتول کو قتل سے بچانااس کے اختیار میں نہیںجبکہ قتل کا مقدمہ یعنی گولی چلانا یا نہ چلانا تو اس کے اختیار میں تھا۔اسی طرح محبت بھی اگرچہ انسان کے اختیار میں نہیں مگر محبت کے مقدمات انسان کے اختیار میں ضرور ہے۔مثال کے طور پر انسان کمال اور حُسن سے چاہے وہ ظاہری ہو یاباطنی ،محبت کرتا ہے۔حاتم طائی کو ہم میں سے کسی نے نہیں دیکھا ہے اس کے باوجود ہم اس سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ انتہائی سخی انسان تھے۔اسی طرح ارسطو کو کسی نے نہیں دیکھا ہے اس کے باوجود لوگ ارسطو سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ انتہائی پایہ کے علمی شخصیت تھے۔ علم ،شجاعت، سخاوت، فصاحت،بلاغت وغیرہ سب معنوی حسن ہیں چنانچہ جس کے ہاں یہ حُسن پائے جاتے ہیںلوگ چاہے نہ چاہے اس سے محبت کرتے ہیں۔خوب صورت شکل وصورت، خوب صورت اور کشادہ عمارت،خوب صورت سواری اور خوب صورت انسان وغیرہ ظاہری حُسن ہے جسے دیکھ کر انسان لذت اٹھاتا ہے ۔چنانچہ انسان ظاہری حُسن اور معنوی حُسن دونوں سے محبت کرتاہے اسی طرح انسان اپنے محسن اور ہر اس شخص سے جس سے اسے فائدہ پہنچتاہے محبت کرتاہے۔ آئمہ اطہار علیہم السلام میںسے ہم امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات کو لے لیتے ہیں کہ اگر کوئی علم یا عالم سے محبت کرتاہے تو علی ؑاس میدان کا شاہکارہے،اگر کوئی بہادروں سے محبت کرتا ہے تو علی ؑتاریخ انسانیت کےسب سے بڑے بہادر ہیں،اگر کوئی سخاوت وفیاضی سے محبت کرتاتو علی ؑ سب سے بڑے سخی ،مخلص ،اور متقی ہیں۔ اسی طرح علی علیہ السلام دنیا میں بندگان خداکی ہدایت اور رہنمائی کرتےہیں تو آخرت میںخدا کے گناہگار بندوں کی شفاعت بھی کرتے ہیں۔ آئمہ ہمارے لئے واسطہ فیض ہیں خداکی نعمتیں اور رحمتیں چاہے وہ باطنی ہوں جیسے علم ،ہدایت،معرفت وغیرہ یا ظاہری، انہی کے توسط سے ہم تک پہنچتے ہیں۔چنانچہ امام اگر نہ ہوتے تو انسان رحمت خدا کا مستحق قرار نہ پاتے۔ لھٰذا علی کی معرفت حاصل کرنا ہی اس کی محب کے لئے کفایت کرتاہے۔امام حسین علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا آپ سے محبت کرنا ہے۔زوہیر اگرچہ عثمانی العقیدہ تھے مگر جیسے ہی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچااس کے پورے وجود میں انقلاب آیااور حسینی بن کر دینا سے رخصت ہوا۔چنانچہ یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ لوگوں کو آئمہ طاہرین علیہم السلام کی معرفت کرائیں اس لئے کہ لوگ جب آئمہ کے فضائل وکمالات اور حقیقت سے آگاہ ہوںگے تو وہ خود بخود اہلبیت ؑ ان کے عاشق بن جائیں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.