امامت کے بارے میں مکتب اہل بیت (ع) کے نظریات

187

 

امامت کے بارے میں مکتب اہل بیت (ع) کے نظریات

 

 

گزشتہ بحث میں ہم نے امامت کے بارے میں مکتب خلفاء کے نظریات اور ان کی دلیلوں کا ذکر کیا ہے۔ان کے برخلاف مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کا یہ نظریہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آنے والے امام کا معصوم عن الخطا اور گناہوں سے محفوظ ہونا ضروری ہے نیز اسے خدا وندعالم کی طرف سے منصوب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے منصوص ہونا چاہیے۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا تھا:
اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاصلے قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ صلے قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظَّالِمِیْنَ !1
میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔
امامت ایک منصب خداوندی ہے اور اللہ تعالیٰ کانبی اپنی امت کو یہ بتا دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ منصب کسے عطا کیاہے جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے ہوئے احکامات و فرامین سے لوگوں کو باخبر کرتاہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا کی طرف سے امامت کا منصب ظلم کرنے والوں کو حاصل نہیں ہوتا نیز یہ کہ جو شخص نہ اپنے اوپر ظلم کرتاہو نہ دوسروں پر وہ معصوم ہے۔
پس امامت خدائی فرمان اور اس کی طرف سے تعیین کانا م ہے اور رسول اس کا اعلان کر دیتا ہے نیز اس کے لیے عصمت شرط ہے۔ اور یہ دونوں شرطیں ائمہ اہل بیتمیں بدرجہٴ اتم پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ان دونوں نکات کا ذکر آئندہ صفحات میں ہو گا۔
 
 

اہل بیت علیہم السلام کی عصمت

 

 

          اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اہل بیت رسول(ص) جوعلی، فاطمہ، حسن، حسین صلوات اللہ علیہم سے عبارت ہیں کو گناہوں سے محفوظ اور معصوم قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
اِنَّمَا یُرِیْدُ الله ُُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکمْ ْتَطْھِیْرًا۔ 2 
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اے اہل بیت! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب3 روایت کرتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جب رحمت کو نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا :میرے پاس بلاؤ،میرے پاس بلاؤ۔ جناب صفیہ نے کہا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کوکسے بلائیں ؟فرمایا:میرے اہل بیت یعنی علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام )کو پس وہ بلا کر لائے گئے۔تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اوپر اپنی چادر ڈال دی پھر اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے فرمایا :خدایا!یہ لوگ میری آل ہیں۔ پس محمد(ص) اور آل محمد(ص) پر رحمت بھیج۔
تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
اِنَّمَا یُرِیْدُ الله ُُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکمْ ْتَطْھِیْرًا۔
حضرت عائشہسے مروی ایک روایت کی روسے یہ خز کی بنی ہوئی یا اونی چادر تھی۔ اس پر سیاہ بالوں سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت واثلہبن الا سقع کی روایت ہے کہ آپ(ص) نے علی(ع) اور فاطمہکو قریب بلایا اور ان کو اپنے سامنے بٹھایا اور حسن و حسین کو اپنی ران پر بٹھایا الخ4
ام المومنین ام سلمہ  سے مروی ہے :
اِنَّمَا یُرِیْدُ الله ُُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَالخ
والی آیت میرے گھر نازل ہوئی اس وقت گھر میں سات ہستیاں موجود تھیں، جبرائیل، میکائیل،  علی(ع)، فاطمہ،  حسن،  اور حسین میں گھر کے دروازے پر تھی۔ میں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ(ص) کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں؟
فرمایا:
تمہاری بازگشت نیکی پر ہے۔ تم نبی(ص) کی بیوی ہوا۔ 5
مذکورہ راویوں کے علاوہ آیہ تطہیر کے شان نزول کو درج ذیل راویوں نے بھی نقل کیا ہے: حضرت عبداللہبن عباس،  حضرت عمر بن ابی سلمہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوتیلا بیٹا)،
حضرت ابو سعید الخدری،  حضرت سعد بن ابی وقاص،  حضرت انس بن مالک۔
ان کے علاوہ امام حسن بن علی نے منبر پر اور علی ابن الحسین زین العابدین  نے شام کے بازار میں اس سے استدلال کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد کئی ماہ تک علی اور فاطمہ کے دروازے پر آتے، ان کو سلام کرتے اور آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے۔حضرت ابن عباسکہتے ہیں: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل نو مہینے تک روزانہ ہر نماز کے وقت علی(ع) ابن ابی طالب کے دروازے پر آتے اور یہ فرماتے دیکھا :
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ اھل البیت انما یرید الله لیذھب عنکم الرجسالصلاة رحمکم الله
حضرت ابو الحمراءسے مروی ہے کہ میں شہرمدینہ میں نو ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محافظ رہا۔اس دوران آپ جب بھی نماز صبح کے لیے نکلتے تو حضرت علی علیہ السلام، کے دروازے پر آتے، دروازے کے دونوں جانب دست مبارک رکھتے اور فرماتے:
الصلاة انما یرید اللہ الخ
حضرت ابوبرزہکابیان ہے کہ انہوں نے سات ماہ تک رسول اللہ(ص) کے ساتھ نماز پڑھی۔جب بھی آپ گھر سے نکلتے تو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے دروازے پر آتے اورالخ انسبن مالک نے چھ مہینوں کا ذکر کیا ہے۔6  ان کے علاوہ دوسرے راویان حدیث نے بھی اس آیت کے متعلق یہی نقل کیا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کے معصومین کا ذکر کیا ہے اورآپ نے ان کے اوپر چادر ڈال کر اور کئی ماہ تک ان کے گھر کے دروازے پر اپنے اصحاب کی ایک جماعت کی موجودگی میں آیہ تطہیر پڑھ کر ان ہستیوں کی نشاندہی کی ہے۔
یہ آیت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس آیت کی عملی و قولی تفسیر اہل بیت کی عصمت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ علمی نقطہ نظر سے تاریخ نے آئمہ اہل بیت کے بارے میں کوئی ایسی چیز درج نہیں کی جو ان کی عصمت کے منافی ہے حالانکہ اسلامی تاریخ کی کتابوں میں غالباً ایسی چیزیں لکھتے تھے جن کے ذریعے وہ ہر زمانے کے خلفاء کی خوشنودی حاصل کرتے تھے۔علاوہ ازیں خلفاء کی بھی ہر دور میں یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ائمہ اہل بیت کے نور کو بجھا دیں تاکہ مسلمانوں کا میلان ان کی طرف نہ ہونے پائے اور لوگ ان کی خلافت پر بیعت نہ کریں۔اسی لیے ان خلفاء نے ان میں سے بہت سوں کو قتل کرایا، بہت سوں کو قید کردیا اور کتنے ہی افراد کو گھر سے بے گھر بنا کر دیا خاص کر بنی امیہ نے جنہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں میں منبروں سے اعلانیہ طور پرخلیفہ راشد حضرت علی(ع) پر سب و شتم کا حکم دیا۔ شیعیان و محبان اہل بیت علیہم السلام اور ان کی امامت کے معتقدین ان حکام کی ایذا رسانیوں اور ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے لیکن اس کے باوجود ہم تاریخ کی کتابوں میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ائمہ اہل بیتکی طرف کسی گناہ صغیرہ یا کسی معمولی لغزش کی بھی نسبت نہیں دی گئی۔ یہ حقیقت اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کی برائی سے محفوظ و معصوم اور اس طرح پاک و پاکیزہ بنایا ہے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے۔
اہل بیت کی عصمت پر مکتب اہل بیت کی سب سے اہم دلیل یہی نصوص صریحہ ہیں۔ آیندہ سطور میں ہم ان کی امامت کے بارے میں بعض احادیث مبارکہ کا تذکرہ کریں گے کیونکہ اللہ نے اپنے رسول(ص)کے بارے میں فرمایاہے:
وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیطاِنْ ھُوَاِلّاَوَحْیٌ یُّوْحیٰ۔ 7
وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔
 
 
 

اپنے بعد اولی الامر کی تعیین کےلیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی تدابیر

 

 

اپنے بعد ولی امر کی تعیین کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کے مطالعے سے پہلے ہم یہاں اس بارے میں آپ کی بعض تدابیر کا تذکرہ کریں گے۔
رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امامت کا مسئلہ ان اہم مسائل میں سے ایک تھا جن پر آپ کے قریبی افراد کی توجہ تھی۔بلکہ وہ اس کے بارے میں شروع ہی سے سوچ رہے تھے چنانچہ ہم گذشتہ اوراق میں بنی عامر بن صعصعہ کے بحیرہ نامی شخص کا واقعہ پڑھ چکے ہیں جس نے مسلمان ہونے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے یہ شرط رکھی کہ آپ(ص)کے بعد امارت میں اس کا حصہ ہو۔ اسی طرح ہم نے ہوزہ حنفی کے واقعے کا بھی مطالعہ کیا جو آپ(ص) سے اقتدار میں حصہ مانگ رہا تھا۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے بعد امارت کے مسئلے پر دعوت اسلام کے پہلے روز اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے لی گئی بیعت کے ابتدائی دن سے ہی نظر رکھے ہوئے تھے اور اس سلسلے میں تدبیر فرمارہے تھے۔
اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے لی گئی بیعت کے ابتدائی دن آپ(ص) کی تدبیر کے بارے میں امام بخاری اور امام مسلم نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں،نسائی اور ابن ماجہ نے اپنی اپنی سنن کی کتابوں میں، مالک نے موطا میں، احمد نے مسند میں اور ان کے علاوہ دیگر مصنفین نے اپنی کتابوں میں ایک روایت نقل کی ہے جو بخاری کے الفاظ میں یہ ہے کہ حضرت عبادہبن صامت نے کہا :ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سختی و آسائش اور خوشی و پریشانی دونوں صورتوں میں آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے نیز امارت کے مسئلے میں آپ کے اہل سے نزاع نہیں کریں گے۔  8
یہ وہی حضرت عبادہہیں جو عقبہ کی آخری اور بڑی بیعت کے موقع پر انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے۔ 9 اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سترہ سے کچھ زیادہ انصاریوں سے جنہوں نے آپ(ص)کی بیعت کی تھی کہا تھا :
مجھے بارہ نقیب چن کر دو تاکہ وہ اپنی اپنی قوم کے تمام امور کی سرپرستی کریں۔
پس انہوں نے اپنے درمیان سے بارہ نمائندے چن کر دیے۔ آپ(ص)نے ان نقیبوں سے فرمایا:
تم لوگ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے حواریوں کی طرح تمام امور میں اپنی اپنی قوم کے ذمہ دار اور سرپرست ہو۔ 10
حضرت عبادہبن صامت ان بارہ نقیبوں میں سے تھے۔ انہوں نے بیعت رسول(ص) کی شرائط اور شقوں میں سے ایک شق یہ بتائی :
ان لا یناز عواالامر اھلہ۔
امارت کے معاملے میں اس کے اہل سے نزاع نہیں کریں گے۔
اس صحیح حدیث میں مذکور لفظ ”الامر“(جس کے اہل سے نزاع نہ کرنے کے لیے بہتر مردوں اور عورتوں سے بیعت لی گئی )سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد وہی ”الامر“ہے جس پر لوگوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں نزاع کیا اور” الامر“کے اہل وہی ہیں جن کا ذکر اس آیت میں اللہ نے کیا ہے :
اَطِیْعُوا اللهَ وَاطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الاْ َمْرِ مِنْکُمْ۔
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اگرچہ اس (بیعت عقبہ کے )موقع پر آپ(ص)نے اپنے بعد آنے والے اولی الامر کی تعیین نہیں فرمائی کیونکہ اس ولی الامر کی تعیین جس کا تعلق ان انصاریوں سے نہ ہو عقل و حکمت کے خلاف بات تھی اور شاید اس دن بعض بیعت کنندگان اس چیز کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے متحمل نہ ہوسکتے لیکن اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس بات کی بیعت لی کہ جب بعد میں آپ ولی امر کی تعیین فرمائیں تو اس کے ساتھ نزاع نہیں کریں گے۔
اس اجتماع کے مقابلے میں ایک نسبتاً چھوٹے اجتماع میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے ولی امر کی نشاندہی کر دی تھی اور اپنے وصی و خلیفہ کی تعیین فرمائی تھی یعنی اس دن جب آپ نے پہلی مرتبہ اپنے رشتے داروں کو اسلام کی دعوت دی جیسا کہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا گیاہے مثال کے طور پر طبری، ابن عساکر، ابن اثیر، صاحب کنز العمال وغیرہ میں۔ 1۱  طبری کہتے ہیں کہ علی(ع)ابن ابی طالب سے روایت ہے :جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ نازل ہوئی تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے مجھے بلایا اور فرمایا :
اے علی اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب الہٰی سے) ڈرانے کا حکم دیا ہے۔ میں پریشان ہوں۔ میں سوچتاہوں کہ جب میں اس امر کی ابتداء کروں گا تو مجھے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پس میں خاموش رہا یہاں تک کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا :اے محمد(ص) اگر حکم خدا کو انجام نہ دو گے تو تیرا رب تجھے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ پس اب ایک صاع (قریبا ًتین کلو)کا کھانا ہمارے لیے تیار کرو اور اس پر گوسفند کی ایک ران کا اضافہ کرو۔ پھر دودھ کا ایک برتن بھی بھر کر رکھ دو۔اس کے بعد نبی عبدالمطلب کو میری طرف سے بلاؤ تاکہ میں ان سے بات کروں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ان تک پہنچاؤں۔
پس میں نے آپ(ص)کے حکم پر عملدرآمد کیا اوران کی طرف سے نبی عبد المطلب کو دعوت دی۔ اس دن ان کی تعداد چالیس مردوں سے ایک کم یا ایک زیادہ تھی۔ ان میں حضرت ابو طالب، حمزہ، عباساور ابو لہب وغیرہ بھی شامل تھے۔
جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے مجھے وہ کھانا لانے کے لیے کہا جو میں نے ان کے لیے تیار کیا تھا۔ پس میں اسے لے آیا۔ میں نے کھانا رکھ دیا تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے گوشت کا ایک ٹکڑالیا،اسے کاٹا اور برتن کے کناروں پر رکھا۔ پھر فرمایا:
اللہ کے نام سے شروع کرو۔
حاضرین نے اس قدر کھایا کہ پھر کسی چیز کی حاجت نہ رہی لیکن مجھے ان کی انگلیوں کے نشانات کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ قسم ہے اس اللہ کی جس کے قبضہ قدرت میں علی(ع) کی جان ہے کہ ان میں سے ایک شخص اتنا کھا سکتا تھا جتنا کہ ان سب کے لیے لایا گیاتھا۔اس کے بعد فرمایا:
ان لوگوں کو پلاؤ۔
پس میں وہ برتن لے آیا۔ان سب نے اس برتن سے پیایہاں تک کہ سب سیرہوگئے۔ اللہ کی قسم ان میں سے ایک شخص بھی اسے پی کرختم کرسکتاتھا۔جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات کرنی چاہی تو ابو لہب نے پیش دستی کرتے ہوئے کہا:
تمہارے ساتھی نے خوب مسحور کیا ہے۔
پس وہ لوگ متفرق ہوگئے اور آپ(ص)ان سے بات نہ کرسکے۔ آپ(ص) نے فرمایا:
اے علی(ص) اس شخص نے مجھ سے پہلے وہ بات کی جو تم نے سنی اور میری گفتگو سے پہلے ہی وہ لوگ چلے گئے۔ پس کل اسی طرح کا کھانا تیار کرو پھر ان کو میرے پاس جمع کرو۔
حضرت علی(ع) کہتے ہیں :
پس میں نے ایسا ہی کیا اور ان کو جمع کیا۔
آپ(ص)نے مجھے کھانالانے کے لیے کہااور میں نے کھانا ان کے نزدیک رکھ دیا۔رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے دن والاعمل دہرایا۔حاضرین نے اتنا کھایاکہ رچ بس گئے۔پھر فرمایا ان کو پلاؤ۔میں وہی (لسی کا)برتن لے آیا۔انہوں نے اس قدر پیاکہ سب سیرہوگئے۔اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گفتگوکرتے ہوئے فرمایا:
اے عبدالمطلب کی اولاد !اللہ کی قسم میں عرب کے کسی ایسے جوان کو نہیں پہچانتا جو اپنی قوم کے پاس اس چیز سے بہتر کوئی چیز لے آیاہو جو میں لے آیا ہوں۔ میں تمہارے پاس دنیاو آخرت کی بھلائی لے کرآیاہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی دعوت دینے کے لیے کہاہے۔پس تم میں سے کون ہے جو اس امر میں میرا معاون مدد گار بنے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ قرار پائے؟
یہ سن کر سب نے چپ سادھ لی۔ تب میں نے کہا:(جب کہ میری عمر ان سب سے کم تھی )
اے اللہ کے رسول(ص)!میں اس امر میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا۔
یہ سن کرآپ(ص) نے فرمایا:
بے شک یہ ہے میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ۔ پس اس کی سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
وہ لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت ابو طالب  سے کہنے لگے :
لو اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تو اپنے بیٹے کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے۔
یہ دعوت بعثت کے تیسرے سال دی گئی۔ یہ پہلا موقع تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھل کر اسلام کی دعوت دے رہے تھے،  اپنے بعد والے امام کی نشاندہی کررہے تھے اور نزدیکی رشتہ داروں کو اس کا تعارف کرارہے تھے۔ آپ(ص) نے یہ اقدام یہاں تو کیا لیکن بعد کے دس سالوں میں ایسانہیں کیانیز اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے انصار سے بیعت لیتے وقت ایسا نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ امام کا تعلق اس انصاری قبائل سے نہ تھا جبکہ ان کے ہاں معاشرتی زندگی کی بنیاد قبائلی رسوم پر استوار تھی۔بنابریں یہ بات قرین حکمت نہ تھی کہ اپنے بعد کے لیے ان سے کسی ایسے ولی امر کی بیعت لیتے جس کا تعلق قبائل انصار سے نہ تھا۔ چنانچہ آپ(ص) نے وہاں اسی پر اکتفاء کرلیاکہ ان سے ولی امر کے ساتھ نزاع نہ کرنے کی بیعت لی جائے۔
یہاں (دعوت ذوالعشیرہ میں )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نزدیکی رشتہ داروں کو حضرت علیعلیہ السلام کی نشاندہی ایک ایسی گفتگو کے ساتھ کی جس سے ملتی جلتی گفتگو بعد میں جنگ بدر میں اپنے صحابہسے کی تھی۔ جنگ بدر میں آپ انجام کار سے واقف تھے جیساکہ آپ نے مشاورت کے بعدصحابہکو اس کی خبر دی اور ان کو مشرکین کی قتل گاہوں کی نشاندہی کی لیکن اس کے باوجود ابتدا میں آپ(ص) نے ان سے مشورہ لیا۔اسی طرح یہاں (دعوت ذوالعشیرہ میں )بھی ایساہی کیا۔آپ(ص)کو معلوم تھا کہ آخرکار آپ(ص) کا بوجھ اٹھانے کے لیے حضرت علیعلیہ السلام ہی آمادہ ہوں گے۔لیکن جب ان میں سے کسی نے یہ پیشکش قبول نہ کی اور صرف آپ(ص) کے ابن عم علی بن ابی طالب علیہما السلام نے بڑھ کر لبیک کہا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے کر مذکورہ بالا بات کی اور انہیں حضرت علی(ع) کی اطاعت کرنے کی تاکید فرمائی۔
گزشتہ سطور میں ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امر خلافت کے مسئلے پر آپ(ص) کی تدابیر کا مطالعہ کیااور دیکھاکہ گاہے آپ(ص) اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں اورکبھی اس کے ساتھ نزاع نہ کرنے کی بیعت لیتے ہیں اور کبھی انکار بیعت کا خواب دیکھنے والوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
اپنے بعد خلیفہ کی تعیین کے مسئلے پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ کو سمجھنے کے لیے ہم یہاں آپ کی اس عملی روش پر نظر کرتے ہیں۔ جس کے مطابق جب بھی آپ(ص) جنگ کی غرض سے چند دنوں کے لیے مدینہ سے باہر جاتے تو کسی نہ کسی کو اپنی غیرموجودگی میں اپنا جانشین بناکرجاتے تھے۔
 
 

جن لوگوں کو جنگوں کے دوران رسول(ص)نے اپنا جانشین بنایا

 

 

          ہجرت کے دوسرے سال کے واقعات:
          ۱۔ صفر سنہ ۲ ہجری میں آپ(ص) کو جنگ کی اجازت ملی آپ مہاجرین کی بیعت میں قریش کے ایک تجارتی قافلے سے روبرو ہونے کے لیے مدینہ سے نکل کر ودان اور ابواء تک جاپہنچے۔ 12  چنانچہ آپ(ص)نے مدینہ میں اپنی غیرموجودگی کے دوران خزرج کے سردار سعد بن عبادہ انصاریکو پندرہ دنوں کے لیے اپنا جانشین بنایا۔
          ۲۔غزوہ بواط کے دوران قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ انصاریکو ماہ ربیع الاول میں اپنا جانشین بنایا۔
          ۳۔ اپنے غلام زیدبن حارثہ کو کرز جابر الفہری (جس نے مدینہ کی چراگاہ کے چوپائیوں پر ڈاکہ ڈالا تھا)کی گرفتاری کے لیے ہونے والے غزوہ کے دوران اپنا جانشین بنایا۔آپ سفوان تک گئے لیکن کرز ہاتھ آیا نہ حیوانات۔
          ۴۔ غزوہ ذوالعشیرہ میں ابو سلمہمخزومی کو جانشین بنایا۔ اس بار حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمادی الاول اور جمادی الثانی میں شام جانے والے قریش کے تجارتی قافلے سے رو برو ہونے کے لیے نکلے تھے لیکن وہ قافلہ ہاتھ سے نکل گیا۔شام سے قافلے کی واپسی پر جنگ بدر ہوئی۔
          ۵۔ جنگ بدر میں حضور(ص)نے ابن مکتوم  کو جو آنکھوں سے معذور تھے اپنا جانشین بنایا۔اس دفعہ آپ(ص) انیس دن مدینہ منورہ سے باہر رہے۔
          ۶۔ غزوہ بنی قینقاع کے دوران ابولبابہ انصاریاوسی کو اپنا جانشین بنایا۔
          ۷۔ غزوہ سویق کے وقت بھی ابولبابہ انصاریکو نائب بنایاجب آپ(ص) ابوسفیان کے پیچھے مدینہ سے نکلے تھے اور ابوسفیان دوسو سواروں کے ساتھ اپنی نذر پوری کرنے آیاتھا۔اس نے نذرکی تھی کہ وہ اس وقت تک خوشبو اور عورتوں سے پرہیز کرے گا جب تک مقتولین بدر کا بدلہ نہ لے۔ عریض تک آئے۔ وہاں انہیں رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوچ کی خبر ملی تو راستے میں بوجھ ہلکا کرنے کے لیے چمڑے کے تھیلے جن میں ستو تھے پھینکتے گئے۔ بنابریں اسے غزوہ سویق (ستو) کہا گیاہے۔
          ۸۔ غزوہ قرقرہ الکدرمیں ابن ام مکتومکو جانشین بنایا۔اس دفعہ آپ (ص) پندرہ محرم کو قیس عیلان کے دوقبیلوں، قبیلہ سلیم اور قبیلہ غطفان کے مقابلے پر گئے۔ دشمن بھاگ گئے۔ مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحیح وسالم واپس تشریف لے آئے۔
          ۹۔ آپ(ص) غزوہ فران میں ابن ام مکتومکو نائب بناگئے۔ اس دفعہ آپ(ص) جمادی الثانی کے دوران دس دن مدینہ سے باہر رہے۔ اس دفعہ بھی دشمن پراکندہ ہوگئے اور آپ(ص) بسلامت لوٹ گئے۔
          ۱۰۔ جنگ احد میں ابن ام مکتومکو اپنی جگہ چھوڑگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ احد کے دامن میں مشرکین سے جنگ کی۔ مقام احد جو مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر ہے اس جنگ کے دوران آپ ایک دن مدینہ سے باہر رہے۔
          ۱۱۔ غزوہ حمراء الاسد میں ابن ام مکتومکو نائب بنایا۔مقام حمراء الاسد جو مدینہ سے نومیل کے فاصلے پر ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب خبر ملی کہ ابو سفیان مدینہ پر پلٹ کر حملہ کرنا چاہتاہے تو آپ اس کی تلاش میں گئے لیکن ابوسفیان اور اس کے ساتھی نہیں ملے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین دن تک وہاں قیام کے بعد واپس مدینہ تشریف لے آئے۔
ہجرت کے چوتھے سال کے واقعات
          ۱۲۔ غزوہ بنی نضیر میں ابن ام مکتومکو جانشین بنایا۔بنی نضیر غرس کی طرف رہتے تھے۔  حضور(ص) نے دس دن تک ان کا محاصرہ کیا پھر ان کو وہاں سے نکال دیا۔13
          ۱۳۔ عبداللہ بن رواحہ انصاریکو بدر کے تیسرے حملے میں سولہ دن کے لیے نائب بنایا۔ آپ(ص) وہاں سولہ دن ابوسفیان کے انتظار میں رہے کیونکہ اس نے احد میں عہد کیاتھاکہ آنے والے سال میں بدر کے مقام پر مسلمانوں سے جنگ کرے گا۔ ابو سفیان مکہ سے نکل کر عسفان تک آیا پھر وہاں سے مکہ لوٹ گیا۔
ہجرت کے پانچویں سال کے واقعات
          ۱۴۔ ابن ام مکتومکو غزوہ دومہ میں اپنا قائم مقام بنایا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیدربن عبدالملک نصرانی کے مقابلے پرگئے تھے۔ وہ مدینہ کے مسافروں اور تجارتی قافلوں کا راستہ روکتاتھا۔اس غزوہ میں وہ بھاگ گیا اور اس کے ساتھی پراکندہ ہوگئے اور وہاں کوئی نہ ملا۔ آپ(ص) وہاں کئی دن ٹھہرے رہے۔یہ روم کی طرف آپ کا پہلا حملہ تھا۔ 14
          ۱۵۔ اپنے غلام زیدبن حارثہ کو غزوہ بنی المصطلق کے دوران اٹھارہ دنوں کے لیے جانشین بنایا۔اس حملے کے لیے آپ(ص) شعبان کی دوسری تاریخ کو نکلے۔ یہ حملہ چشمہ مریسیع کے مقام پر ہوا تھا۔
          ۱۶۔ غزوہ خندق کے دوران ابن ام مکتوم کو جانشین بنایا۔ اس جنگ میں رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہر مدینہ میں رہتے ہوئے خندق کے اس پار موجود احزاب سے جنگ کی۔ یہ واقعہ ماہ شوال یاذیقعدہ کاہے۔
          ۱۷۔ غزوہ بنی قریظہ میں ابو رہم غفاری کو جانشین بنایا۔بنی قرینطہ اور مدینہ کے درمیان کئی گھنٹوں کا راستہ ہے۔آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کم از کم پندرہ دن تک ان کو محاصرے میں لے رکھا۔ محاصرہ ۲۳ ذیقعد کو شروع ہوا۔
 
 

ہجرت کے چھٹے سال کے واقعات

 

 

          ۱۸۔ عسفان کے قریب قبیلہ ہذیل کے بنی لحیان کے ساتھ جنگ میں ابن ام مکتوم کو چودہ دنوں کے لیے جانشین بنایا۔اس غزوہ میں آپ صحیح و سالم واپس آئے۔
          ۱۹۔ غزوہ ذی قرد میں ابن ام مکتوم کو نائب بنایا۔ذی قرد اور مدینہ کے درمیان دو دنوں کے سفر کافاصلہ ہے۔
          ۲۰۔ غزوہ حدیبیہ میں ابن ام مکتومکو جانشین بنایا۔
 
 

ہجرت کے ساتویں سال کے واقعات

 

 

          ۲۱۔ سباع بن عرفطہ کو غزوہ خیبر میں اپناجانشین بنایا۔خیبر مدینہ سے آٹھ برد(برید کی جمع۔ہربرید ۱۲میل کے برابر ہوتاہے)کے فاصلے پرواقع ہے۔خیبر کے قلعوں کو بزور شمشیر فتح اور صلح کرنے کے بعد وادی القری پر چڑھائی کی اور کئی دن تک دشمنوں کومحاصرے میں رکھا۔پھر بزور شمشیر فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد شام سے آٹھ دن کی مسافت پر واقع اہل تیماء کے ساتھ صلح کامعاہدہ ہوا۔وادی القری تیمااور مدینہ کے درمیان واقع تھا۔
۲۲۔     عمرةالقضاء کے سفر میں سباع  بن عرفطہ کو جانشین بنایا۔
 
 

ہجرت کے آٹھویں سال کے واقعات

 

 

          ۲۳۔ غزوہ مکہ کے دوران ابو رھم غفاری  کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا۔
          ۲۴۔ غزوہ مکہ کے بعد حضور(ص) غزوہ حنین کے لیے ہوازن کی طرف بڑھے۔ حنین ذی المجاز کی طرف ایک وادی کانام ہے۔مکہ سے یہاں تک کا سفر تین راتوں میں طے ہوتاتھا۔اس غزوہ میں بھی ابو رہم غفاری آپ(ص) کی جگہ مدینہ کے والی رہے۔
          ۲۵۔ غزوہ تبوک میں آپ(ص) حضرت علی ابن ابی طالب(ع)کو مدینہ میں اپنا جانشین بناگئے۔تبوک مدینہ سے نوے فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔ تبوک غزوات رسول(ص) کا آخری غزوہ تھا۔غزوات رسول کی تعداد ۲۸ہے بشرطیکہ ہم جنگ خیبر اور غزوہ وادی القری کو الگ الگ شمار کریں ورنہ غزوات کی تعداد ۲۷بنتی ہے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی غیر موجودگی کے دوران مدینہ میں جن لوگوں کو اپنا جانشین بنایا ان کے ناموں کے سلسلے میں ہم نے مشہور مورخ مسعودی کی کتاب التنبیہ والا شراف کے اس حصے سے استفادہ کیا ہے جس میں انہوں نے سنہ۲ ہجری تک کے حالات رقم کئے ہیں۔جن لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں اپنانائب بنایا ان کے ناموں میں قدرے اختلاف بھی نظر آتاہے لیکن غزوہ تبوک میں حضرت علی(ع)کو مدینہ میں جانشین بنانے کے بارے میں مسعودی نے جو کچھ کہاہے اسے امام احمد نے بھی اپنی مسند میں سعد بن ابی وقاصکی زبان سے نقل کیاہے۔ سعدنے کہا:جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا۔اس وقت حضرت علی(ع)نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول(ص) میں یہ نہیں چاہتاتھا کہ آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نکل جائیں۔
فرمایا:
اما ترضی ان تکون منی بمنزلةھارون من موسی الاّ انہ لا نبی بعدی۔
کیا آپ کو یہ منظور نہیں ہے کہ آپ کی مجھ سے وہی نسبت ہو جو نسبت ہارون کو موسیٰ  سے حاصل تھی؟”البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔  15
اس بات کی تائید صحیح بخاری کی کتاب بدء الخلق باب غزوہ تبوک میں سعدبن ابی وقاص سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبوک کی طرف روانہ ہوئے اورحضرت علی(ع) کو اپنا جانشین بناگئے۔ حضرت علی(ع) نے عرض کیا:
کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑکر جارہے ہیں؟
فرمایا:
الا ترضی ان تکون منی بمنزلة ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی۔
کیاتجھے یہ پسند نہیں کہ مجھ سے تیری نسبت وہی ہو جو ہارون کوموسی سے تھی؟اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ 16
          نیز صحیح مسلم میں بھی سعد بن ابی وقاص کی روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سعد کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کو (مدینہ میں) اپنا جانشین بنایا اور علی(ع)نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول(ص) آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کرجارہے ہیں؟
تو میں نے رسول(ص) کو یہ کہتے سنا:
کیاتو راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی  سے تھی، اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا؟ 17
یوں جب بھی آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے کسی جنگ کی غرض سے معدودے چند دنوں کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین ضرور بنایاہے۔تاکہ لوگ
آپ(ص) کی موجودگی میں اس جانشین کی طرف رجوع کریں بلکہ آپ ایک دن کے لیے یاچند گھنٹوں کے لیے بھی کسی کو اپنا جانشین بنائے بغیر باہر نہیں گئے۔ تاکہ لوگ میری عدم موجودگی میں اس کی طرف رجوع کریں جیسا کہ جنگ احد میں ہوا۔ کوہ احد مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر ہے لیکن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے باوجود مدینہ والوں پر اپنی غیر حاضری کے دوران کسی شخص کو جانشین بناکر گئے۔اس سے بڑھ کر غزوہ خندق کا واقعہ ہے کہ جب آپ نے جنگی مصروفیات کے پیش نظر اہل مدینہ پر توجہ نہ دے سکنے کی بناء پر ان کے لیے کسی کو اپنا جانشین بنایاہے حالانکہ آپ شہر مدینہ کے اندر رہ کر ہی جنگ کررہے تھے اور خندق کے اندر کی طرف موجود تھے۔
جب مدینہ سے صرف چند گھنٹو ں کی غیر حاضری کے دوران نیز مدینہ کے اندر رہتے ہوئے جنگی مصروفیات کے پیش نظر رسول(ص) کی یہ روش تھی تو پھر امت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کردنیا سے تشریف لے جاتے وقت حضور(ص) نے اپنے بعد امت کے لیے کیا سوچاہوگا اور کیا کہاہوگا ؟کیا رسول(ص) نے اپنے بعد ان کے لیے کوئی مرجع معین نہیں کیا اور آپ ان کو شتر بے مہار کی طرح بے لگام چھوڑ گئے؟
اس سوال کا جائزہ ہم اسی کتاب میں انشاء اللہ تعالیٰ لیں گے۔
 حوالہ جات
۱ سورة البقرہ آیت۱۲۴
2سورہ احزاب آیت۳۳         
3 مستدرک امام حاکم ج۳ صفحہ ۱۴۷ طبع دکن
4 السنن الکبریٰ بیہقی ج۶ صفحہ ۱۵۲، مسند امام احمد صفحہ ۱۰۷، مستدرک حاکم ج۲ صفحہ ۲۱۶، ج۳ صفحہ ۱۴۷، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۶۷، اسد الغابہ ج۲ صفحہ ۲۰ طبع مصر۔
5 سنن ترمذی ج۱۳ صفحہ ۲۴۸، مسند احمد ج۶ صفحہ ۳۰۶، تفسیر در منثور سیوطی ج۵ صفحہ ۱۹۸، تاریخ بغداد ج۹ صفحہ ۱۲۶ طبع سعودیہ۔
6 مسند امام احمد ج۳ صفحہ ۲۵۲، مسند طیالسی ج۷ صفحہ ۲۷۴ حدیث نمبر ۲۷۰۹، اسد الغابہ ج۵ صفحہ ۵۶۱، تفسیر طبری، تفسیر در منثور وغیرہ کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔
7 سورہ نجم آیت۳،۴
8 صحیح بخاری باب کیف یبائع الامام الناس ج۴ صفحہ ۱۶۳، صحیح مسلم باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصیة حدیث نمبر ۴۱،۴۲۔ سنن نسائی با البیعة علی ان لا تنازع الامراحلة سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد باب البیعة حدیث ۲۸۶۶
9 الاستیعاب ج۲ صفحہ ۴۱۲، اسد الغابہ ج۳ صفحہ ۱۰۶ طبع مصر           
10 تاریخ طبری ج۱ صفحہ ۱۲۲۱ طبع یورپ۔
1۱ تاریخ طبری ج۲ صفحہ ۱۱۷۱ طبع یورپ، تاریخ دمشق ج۴۲ صفحہ ۸۵ طبع بیروت، تاریخ کامل ابن اثیر ج۲ صفحہ ۲۲۲ طبع مصر، کنز العمال ج۱۵ صفحہ ۱۰۰، ۱۱۵ طبع بیروت، سیرت حلبیہ ج۱ صفحہ ۲۸۵ طبع جدید بیروت۔
12 ابواء مدینہ منورہ سے تقریباً ۲۳ میل کے فاصلے پر واقع ہے یہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی قبر مبارک ہے۔ ودان جو جحفہ سے ایک دن کی مسافت پر واقع ہے اس کے اور ابواء کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے۔
13 بنی نضیر کے یہودیوں کے مقامات قبا میں بئر غرس کے مقام پر اور اس کے آس پاس موجود تھے قبا جو مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
14 دومہ الجندل ایک قلعے کا نام ہے دمشق سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔
15 مسند احمد ج۱ صفحہ ۱۷۷ طبع میمنیہ مصر۔
16 صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب غزوة تبوک ج۳ صفحہ ۵۸۔
17 صحیح مسلم باب فضل علی بن ابی طالب حدیث نمبر ۳۲، مسند ابو داؤد طیالسی ج۱ صفحہ ۲۹، حلیة الاولیاء لابی نعیم ج۷ صفحہ ۱۹۵، مسند احمد ج۱ صفحہ ۱۷۲، ۱۸۲،۳۳۰، ج۴ صفحہ ۱۵۳، تاریخ بغداد ج۱۱ صفحہ ۴۳۲، خصائص نسائی صفحہ ۸، ۱۶،  طبقات ابن سعد ج۳ صفحہ ۱۵
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.