حقوق والدین

1,158

الف: مالی تعاون :والدین کے حقوق میں سے اہم ترین حق ان کی مالی امداد اور تعاون ہے لہٰذا شریعت اسلام میں واجب النفقہ افراد میں سے سب سے پہلے والدین کو ذکر کیا ہے اگرچہ یہ بات مسلم ہے کہ والدین کا احترام ہر جہات سے اولاد پر لازم ہے لیکن کچھ حقوق ہیں جن کے بارے میں روایات اور آیات میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:( یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ وَالْیَتَامیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل)(١)ترجمہ: آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ راہ خدا میں کیا خرچ کرے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ بقرہ آیت ٢١٥.
———————–
( ان کے جواب میں ) کہد و کہ تم اپنی نیک کمائی میں سے جو کچھ خرچ کریں تو وہ (تمھارے ) ماں باپ رشتہ دارں یتیموں حاجت مندوں اور مسا فروں کا حق ہے۔
تشریح :آیت شریفہ میں دستور دیا ہے کہ بہترین مصرف والدین یتیم اورمسافر ہےں اگر کوئی شخص ماں باپ کی مالی مجبوری کے وقت ان سے تعاون کریں تو گویا اس نے راہ خدا میں تعاون اور خرچ کیا ہے کیو نکہ جس طرح بیوی بچوں کے اخراجات واجب ہے اسی طرح والدین کے اخراجات اولاد پر واجب ہے نیز دو سری آیت میں مالی تعاون کے دستور کو یوں بیان فرمایا ہے 🙁 کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ .)(١)تم کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی پر موت آکھڑی ہو اور اگر وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کیلئے دینے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ بقرہ آیت١٨٠.
————————–
وصیت کرے (کیونکہ ) جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے ۔
تفسیر:اس آیت میںخدا نے ماں باپ اور رشتہ داروں کی مدد اور تعاون کرنے کا حکم دیا ہے لیکن پہلی آیت اور اس میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں ہر حالت میں والدین کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا حکم دیاہے لیکن اس آیت میں فرمایا کہ موت کے وقت بھی مالی تعاون سے دریغ نہ کریں لہٰذا دونوں آیات کو سامنے رکھیں تو یہ نتیجہ نکاتا ہے کہ اولاد پر والدین کی ذمہ داری بہت ہی سنگین ہے کیونکہ مرض الموت کے موقع پر بھی ان کو فراموش نہ کر نے کی تاکید کی گئی ہے ،اور تر کہ میں سے کچھ ان کو دینے کی وصیت کرنے کا حکم ہوا ہے نیزمتعدد روایات میں والدین کے مالی تعاون کرنے کا حکم یوں ذکر ہوا ہے :١۔ وان لاتکلفھما ان یسألاک شیأا مما یحتا جان الیہ۔(١)یعنی والدین کے حقوق میںسے ایک یہ ہے کہ کسی چیز کی ضرورت کے موقع پر ان کو ما نگنے کی تکلیف تک نہ دینا ۔٢۔ اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :”ووالدیک فاطعمھما وبرہما ”(٢)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)کافی،ج٢ص١٢٦.(٢)اصول کافی جلد ٢ .
—————————————-
جب پیغمبر سے کسی نے کچھ نصیحت کرنے کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا اپنے والدین کو کھانا کھلائیں اور ان سے نیکی کریں یعنی ان کے لباس اور اشیاء خورد ونوش کو اپنے احتیاجات پر مقدم کرنا اپنے کھانے کی مانند یا اس سے بہتر کھانا کھلانا ان کے سفر کے مخارج چاہے واجب ہویا مستحب فراہم کرنا اور ان کیلئے گھر وغیرہ کا بندوبست کرنا ،ان کی طرف سے فوت شدہ حج ونماز اور روزہ وغیرہ کو انجام دینا یا ان کاخرچہ دینا نیکی کے کا مل ترین مصادیق میں سے ہیں ۔لیکن ہمارے معاشرے پر غیر اسلامی تھذیب وتمدن حاکم ہونے کے نتیجہ میں اولاد اپنی ذمہ دار یوں کو انجام دینے میں کو تا ہی کرتے ہیں جب کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن سے عاری ایسے ہے کہ کر وڑوں درہم ودینار کے مالک ہونے کے باوجود والدین کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کی سعادت سے محروم ہیں کیو نکہ والدین اور اولاد کے مابین ہونے والا فطری رابطہ غیراسلامی تھذیب تمدن کا شکارہو چکا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے نزدیک والدین اور دوسروں کے درمیان کو ئی تفاوت نظر نہیں آتا حالانکہ والدین واجب الا طاعہ بھی ہیں اور واجب النفقہ بھی لہٰذا عبدالرحمن بن الحجاج امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں: ”قال خمسۃ لا زمون لہ لا یعطون فی الزکاۃ شئیاالاب و الام والولدوالمملوک والمرأۃ و ذالک انّہم عیالہ لازمون لہ”(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( وسائل ج ١٥ ،ص٢٢٧)
————————-
امام علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ میں سے کوئی چیز پانچ قسم کے افراد کو نہیں دی جاسکتی ہے ماں باپ فرزند غلام اور بیوی کیو نکہ یہ سب اس کے واجب النفقہ عیال میں سے ہیں نیز دوسری روایت جمیل بن دراج سے منقول ہے :”لا یجبر الرجل الاعلی نفقۃ الابوین والولد ”(١)امام نے فرمایا سوائے ماں باپ اور بچے کے کسی آدمی کو خرچہ دینے پر جبری نہیں کیا جاسکتا ہے اسی طرح تیسری روایت جناب محمد بن مسلم امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں :”قال قلت لہ من یلزم الرجل من قرابتہ ممن ینفق علیہ قال الوالدان والولد والزوجہ ”(٢)محمد بن مسلم نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا رشتہ داروں میں سے کن کو خرچہ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ماں باپ، بچے اور بیوں کیلئے خرچہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔مذکورہ روایات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین ہمارے بچے اور بیوی کی مانند واجب النفقہ ہیں اسی لئے کتب فقہی میں واجب النفقہ افراد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)وسائل ج١٥.(٢)وسائل ١٥.
—————-
میں سرفہرست والدین کا نام ہے پس والدین کے سا تھ مالی تعاون ہر صورت میں انسان پر واجب ہے جس سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں کو تا ہی کی صورت میں مقروض اور قیامت کے دن اس کا عقاب یقینا بہت سنگین ہوگا
ب۔ ماں باپ کے قرضے کو ادا کرناوالدین کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے قرضوں کو ادا کرے اگرچہ اسلام میں ہر مقروض کا قرض ادا کرنے کی تا کید ہوئی ہے اور اس عمل کیلئے بہتر ین پاداش اور جزا معین کیا ہے لیکن واجب نہیں ہے مگر والدین کے ذمہ قرض کو ادا کر نا لازم قرار دیا ہے پس اگر کو ئی دنیا اور آخرت کی خوش بختی چاہتا ہے تو والدین کی اقتصادی مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون کرے شاید ان کا کچھ حق بھی ادا ہو اس طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:” قلت لابی جعفر علیہ السلام ھل یجزی الولد والدہ فقال لیس لہ جزء الا فی خصلتین یکون الوالد مملوکا فیشتر یہ ابنہ فیعتقہ او یکون علیہ دین فیقضیہ عنہ”(١)(ترجمہ )سدیر نے کہا کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا ۔کیا فرزند باپ کے حق کو ادا کرسکتا ہے؟امام (ع)نے فرمایا دو صورتوں میں فرزند باپ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)کا فی ٢ ص ١٤٣.
———————-
حق کو ادا کر سکتا ہے۔١۔اگر کسی کا باپ کسی کا غلام ہو اور فرزند اس کو خرید کر آزاد کرے ۔٢۔ اگر کوئی فرزند باپ کے ذمہ قرضے کو ادا کرے تو ان کا حق ادا ہو سکتا ہے۔اسی طرح محمد بن مسلم سے وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:” قال ان العبد لیکون بارا بوالدیہ فی حیا تہما ثم یموتان فلا یقضی عنھما دیو نھماولا یستفغر لھما فیکتبہ اللّٰہ عاقا وانہ لیکون عاقا لھما فی حیا تھما غیر بار بھما فاذا ماتا فرض دینھما واستغفر لھما فیکتبہ اللّٰہ عزوجل بار”(١)(ترجمہ ) امام علیہ السلام نے فرمایا بیشک انسان والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہے لیکن جب وہ دونوں دنیا سے چل بسے تو ان کے ذمے موجود قرضوں کو ادا نہیں کرتا اور ان کے حق میں طلب مغفرت نہیں کرتا تو ایسا شخص اللہ کی نظر میں عاق والدین محسوب ہو گا لیکن اگر والدین دنیا سے چل بسے ہوں اور انکے حق میں دعا کرے اور ان کے قرضوں کو ادا کرتا ہے تو اس کو خدا، والدین کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠١٣٠ .
————————–
ساتھ نیکی کرنے والوں میں سے شمار کرتا ہے اگر چہ ان کی زندگی میں ان سے نیکی نہ کی ہو اور عاق ہوچکا ہو۔
تحلیل وتفسیر :ان دونوں رواتیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ما ںباپ کے قرضوں کو اپنا قرضہ سمجھ کر ادا کرنا لازم ہے کیونکہ اس کا تعلق حق الناس سے ہے نیز حق اللہ کو بھی ادا کرنا چائیے۔اگر چہ والدین کی فوت شدہ عبادات کو ادا کرنا اولاد پر واجب ہے یا سنت اس مسئلے میں علماء کے مابین دو نظریے پائے جاتے ہیں:١۔ماں باپ دونوں کی فوت شدہ عبادتوں کا انجام دینا اولاد پر واجب ہے یہ نظر یہ سید مرتضی علم الہدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو چوتھی صدی کے نامور شیعہ علما میں سے تھے۔٢۔ باپ کی قضا ء شدہ عبادتوں کا انجام دینا واجب ہے لیکن ماں کی قضا شدہ عبادتوں کا ادا کرنا مستحب ہے۔اکثر علما شیعہ کے درمیان مشہور یہی ہے۔لہٰذا پہلے نظر یے کی بناء پر ماں باپ کے ذمہ موجود ہر قسم کے حقوق اولاد کے ذمہ ہے، جن کی ادا ئیگی شریعت میں لازم قراردی گئی ہے ۔
ج۔ والدین کے حق میں دعامقدمہ کے طور پر بہتر ہے کہ دعا کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ ہو کیونکہ روایات اور آیات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کے حق میں دعا کرنا شریعت اسلام میں مستحب ہے لہٰذا قرآن کی متعدد آیا ت میں صریحا دعا کرنے کا حکم ہے اور خدا نے ساتھ ہی دعاوں کی استجابت کا وعدہ فرمایا ہے چنانچہ فرمایا :(وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِی إِذَا دَعَانِی فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ.)(١)(ترجمہ)اور اگر میرے بند ے میرے بارے میں تجھ سے پوچھے تو (کہدو) کہ میں ان کے پاس ہی ہوں او راگر کوئی مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی (دعاسن لیتا ہوں اور جو مناسب ہوں تو) قبول کرتا ہوں ، پس انھیں چاہئے کہ میرا کہنا ہی مانیں او رمجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ بقرہ آیت ١٨٦.
—————————
تفسیر آیت:قرآن مجید میں بہت اصرار کے ساتھ دعا کرنے کا حکم ہوا ہے انھیں میں سے ایک یہ آیہ شریفہ ہے اگر انسان غورکرے تو دعا کی حقیقت کا پس منظر سامنے آجاتا ہے کہ انسان فطری طور پر خدا کے محتاج ہونے کا اعتراف کرتا ہے لیکن بسا اوقات انسان جہالت اور خودپسندی کے نتیجہ میں خیال کرتا ہے کہ خالق ہم سے بہت دور ہے کیونکہ ہم دعا کرتے ہیں مگر مستجاب نہیں ہوتی اس تصور کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بندوں کے قریب ہی ہوںبشرطیکہ میرے کہنے پر چلیں، لہٰذا دوسری آیت میں فرمایا:(وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلَکِنْ لاَتُبْصِرُونَ )(١)اور ہم اس کے ساتھ تمہاری نسبت زیادہ نزدیک ہے لیکن تمھیں دکھائی نہیں دیتا۔ایک اور آیہئ شریفہ میں فرمایا:(نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْکُمْ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ)(١)ہم تم سے تمہارے (بدن کے) رگوں سے زیادہ قریب ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ واقعہ آیت ٨٥.
(٢) سورہ ق آیت ١٦.
———————-لہٰذا دوری اور بُعد کا تصور حقیقت میں ناانصافی ہونے کے علاوہ بلادلیل بھی ہے، بلکہ دعا مستجاب ہونے کے لئے کچھ شرائط درکار ہیں لہٰذا خدا نے فرمایا:(فَادْعُوا اﷲَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔)(١)(ترجمہ) پس تم لوگ خدا سے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کہ وہی عبادت کا مستحق ہے اگرچہ کفار بُرا مانےں۔اللہ تبارک تعالیٰ نے اس آیہئ شریفہ میں دعا مستجاب ہونے کے لئے اخلاص کو شرط قرار دیا ہے ، اور اس شرط کے ساتھ دعا کرنے کا حکم ہے ، اسی طرح ایک اور آیت میں خدا نے فرمایا:(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ۔)(٢)(ترجمہ)اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا بے شک وہ لوگ جو ہماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ غافر آیت ١٤.(٢)سورہ غافر /مومن آیت ٦٠.
———————–
عبادت کرنے سے گریز کرتے ہیں وہ عنقریب ہی ذلیل وخوار ہوکر جہنم میںداخل ہوں گے۔اس آیہ شریفہ میں اللہ نے دعا کے مستجاب ہونے کے لئے یہ شرط قرار دی ہے کہ تکبر نہ کرے، لہٰذا فرمایا کہ اکڑنے والے افراد کی دعائیں سُنی نہیں جائیں گی کیونکہ وہ قابل سماعت اور استجابت نہیں ہیں چونکہ تکبرّ شیطانی خصلت ہے۔اسی طرح ایک دوسری آیت میں اس طرح دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:(وَادْعُوْہُ خَوْفاً وَطمعاً اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ۔)(١)ترجمہ: اور خدا سے دعا مانگو عذاب کے خوف اور رحمت کی لالچ میں بے شک خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے یقینا قریب ہے۔اس آیہ شریفہ میں خدا نے تذکرّ دیا ہے کہ عام عادی حالت میں دعا نہیں سنی جاتی بلکہ خوف اور دل شکستگی اور رحمت الٰہی شامل حال ہونے کی امید اور لالچ کے ساتھ دعا کرے تو مستجاب ہے۔پس ان تمام آیات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرنے کی تاکید اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ اعراف آیت ٥٦.
————————
قبول کرنے کا وعدہ خدا نے ہی دیا ہے ساتھ ہی قبول ہونے کے شرائط کو بھی بیان فرمایا تاکہ انسان ان شرائط کو حاصل کرکے اپنی دعاؤں کو اس لائق بنادے کہ بارگاہ احدیت شرف قبولیت بخشے یہ سارے انسان کو دعا کرنے کا حکم ہے لیکن قرآن مجید میںکچھ افراد کے حق میں مخصوص دعا کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ ان افراد میں سے والدین متعدد آیات میں سرفہرست نظر آتے ہیں، چنانچہ اللہ نے حضرت ابراہیم (ع) کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا:( رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ۔)(١)ہمارے پالنے والے جس دن (اعمال کا) حساب ہونے لگے (تو اس وقت) مجھ کو میرے ماں باپ کو اور سارے ایمان والوں کو بخش دے۔
تفسیر آیت:اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین ہستیوں کے حق میں دعا فرمائی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ ابراہیم آیت ٤١.
————————
١۔ روز قیامت حساب وکتاب کے وقت مجھے معاف کرے۔٢۔میرے والدین کو بخش دے۔٣۔او رتمام ایمانداروں کے گناہوں کو معاف فرمائے۔یہ ساری انبیاء کی سیرت تھی۔لہٰذادنیا میں انسان جس منصب اور مقام پر فا ئز ہو دعا سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔حضرت ابراہیم (ع)جیسا پیغمبر جو مقام نبوّت مقام رسالت پھر مقام خلّت پھر مقام امامت پر فائز ہونے کے باوجود روز قیامت کے مشکلات سے اپنے حق میں اور والدین کے حق میں طلب مغفرت کرنااس بات کی دلیل ہے کہ روز قیامت بہت ہی سخت اور مشکل دن ہے اور ہم سب دعا سے بے نیاز نہیںہیں لہٰذا والدین کے حق میں دعا کرنا لازم ہے نیز ایک دوسری آیت شریفہ میں حضرت نوح کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ کہتے تھے:( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ . )(١)پالنے والے روز قیامت کے حساب وکتاب کی سختی اور مشکلات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ نوح آیت ٢٨.
——————————
سے مجھے اور میرے والدین اور ہر وہ شخص جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ داخل ہو ان کو معاف کر ۔اس جملے سے بھی بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ماں باپ کے حق میں دعا کرنا ہماری ذمہ داریوں میں سے اہم ترین ذمہ داری ہے لہٰذا حضرت امام سجاد علیہ السلام سے صحیفہ سجادیہ میں ایک مکمل دعا(١)والدین کے حق میں نقل کی گئی ہے اور انہی حضرت(ع) کے نورانی جملات میں سے ایک جملہ یہ ہے:” واخصص اللھم والدی بالکرامہ لدیک والصلوۃمنک یا ارحم الراحمین ”(١)اے میرے معبود میرے ماں باپ کو وہ کرامت اور خیرو بھلائی پنچادے جو تیری درگاہ میں ہے ائے مہربان بخش نے والا۔ دوسرا جملہ یو ں ذکر فرمایا:”اللھم لا تنسنی ذکر ہما فی ادبار صلواتی وفی أوان من آناء اللیل وفی کل ساعۃ من ساعات نہاری ”اے میرے معبود ! میری نماز وں کے وقت اور شب وروز کے کسی لمحے میں بھی والدین کی یا دسے مجھے غافل قرارنہ دینا ۔”اللھم واغفر لی بدعایی لھما واغفرلھما ببرّ ہما بی مغفرۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)صحیفہ سجادیہ دعا نمبر ٢٤.
——————————
حتما ارض عنھما بشفاعتی لھما رضی عزما بلغھما بالکر امۃ مواطن السلامتہ”اے میرے معبود محمد اور ان کے آل پر درود بیجھے اور ماں باپ کے حق میں میری دعا کے ذریعے مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو ان کے میرے ساتھ نیکی کے بدلے معاف فرما اور تو ان سے میری شفاعت کے واسطے مکمل راضی ہو اور اپنی بزر گی سے انہیں مقام امن میں جگہ عطا فرما :”اللھم وان سبقت مغفرتک لھما فشفعھما فِيَّ وان سبقت مغفرتک لی فشفعنی فیھما حتی نجمع برئافتک فی دار کرامتک ومحل مغفرتک ورحمتک انک ذوالفضل العظیم والمن القدیم وانت ارحم الراحمین ”اے میرے معبود اگرتو میرے ماں باپ کو مجھ سے پہلے معاف کرے تو ان دونوں کو میرا شفیع قراردے اور اگر میری مغفرت ان سے پہلے ہو تو مجھے ان کا شفیع قراردے یہاں تک کہ تیری رحمت کے وسیلے سے ہمیں کرامت وبخشش اور رحمت کے گھر میں جمع ہونے کی تو فیق دے بے شک تو ہی بڑافضل والا دائمی نعمت اور احسان کا مالک اور تو ہی مہربانوں میں سے مہربان ترہے ۔”اللھم اخفض لھما صوتی واطب لھما کلامی والن لھما عرکتی واعطف علیھما قلبی وصیرنی بھما رفیقاً وعلیھما شفیقاً۔”اے میرے معبود ان کے لئے میری آواز کو متکبرانہ آواز قرار نہ دے میری گفتگو ان کے ساتھ باعث خوشی قراردے اور میری طبیعت اور اخلاق ان کے ساتھ نیک قرار دے اور میرا دل والدین کے ساتھ نرم قراردے اور مجھے ان کے ساتھ ہم طبیعت اور ہم مزاج بنا دے اور مجھے ان پر مہربانی کرنے اور شفقت کی تو فیق دے ۔”اللھم اشکر لھما تربیتی واثبھما علی تکرمتی واحفظ لھما ما حفظاہ منّی فی صغری”میرے معبود میری تربیت کے عوض میں ان کو جزای خیر عطا کر اور میرے ساتھ کی ہوی نیکی پر ان کو ثواب دے اور میرے بچپن میں انہوں نے جس طرح میری حفاظت کی ہے اسی طرح انکی حفاظت فرما پس ان جملات اور آیات سے واضح ہو جاتاہے کہ والدین کے حق میں دعا کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے اس طرح معصومین (ع) کے فرامین سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے حق میں دعا کرنے کی بہت زیاد ہ تاکید کئی گئی ہے چنانچہ معمرّ بن خلادسے منقول ہے :”قلت لابی الحسن الرضا علیہ السلام ادعو لوالدی اذا کان لا یعرفان الحق قال ادع لھما ۔”معمرّ بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا میں اپنے والدین کے حق میں دعا کر سکتا ہوں جب کہ وہ حق کو نہیں پہچانتے ؟ اما م نے فرمایا تو ان کے حق میں دعا کر ےامام سجاد علیہ السلام کے جملات میں سے ایک یہ ہے کہ:” واستکثر بر ہمابی وان قل واستقل بری بھما وان کَثُرَ”(پالنے والے ) ماں باپ نے جو نیکی میرے ساتھ کی ہیں اس کو اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہو زیادہ سمجھتا ہوں اور میری نیکی جو والدین کے ساتھ ہوئی ہے جتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو اس کو کم قرار دےتا ہوں ۔قارئین محترم ! امام سجادعلیہ السلام کے جملوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ والدین کے حق میں دعا کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہو۔
د۔ماں باپ کے سامنے انکساریماں باپ کے حقوق میں سے جس کے اسلام میں زیادہ تاکید کی گئی ہے وہ ان کے سامنے انکساری ا ور تو اضع ہے کہ اس کی اھمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اس مسئلہ کے ثبوت و اثبات پرعقلی اورنقلی دلیل دونوں موجود ہیں۔
پہلی آیت:اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا 🙁 وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَۃِ )(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورہ اسرء آیت٢٤.
———————-
”اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کا پہلو جھکا ئے رکھو۔”اس جملے کی تفسیر میں معصوم (ع) سے ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ تم ماں باپ کی طرف تیز نظر سے آنکھ پھیر کرنہ دیکھو۔اور ان کی آواز پر اپنی آواز ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ بلند نہ کرواور ان کے آگے نہ چلو .ان کا نام لے کر نہ پکارو ان کے آگے نہ بیٹھو، اور ایسا کام بھی انجام نہ دو جس کی وجہ سے ان کو برا بھلا کہا جاتا ہے، لہٰذا اگر وہ مؤمن ہیں تو مغفرت مانگیں لیکن اگر مومن نہیں ہیں تو ان کی ہدایت اور ایمان کے بارے میں دعا کرے ۔(١)
دوسری آیت:قرآن کریم میں تو اضع اور انکساری کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا ہے :(وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ.)(٢)اور مومنین میں سے جو تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ یعنی تو اضع کرو۔اس آیت شریفہ میں پیغمبر اکرم (ص) کو تواضع سے پیش آنے کا حکم ہوا ہے جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)تفسیر حافظ فرمان علی ص ٣٩٢.(٢)شعراء آیت٢١٥.
———————
کہ پیغمبر اکرم (ص)(اولی ٰ باالمؤ منین من انفسھم) تھے لہٰذا تواضع کرنے کا حکم تعلیمات اسلامی تاکید کے ساتھ بیان کرتی ہے حضرت لقمان حکم نے اپنے فرزندسے کہا:” تو اضع للناس تکن اعقل الناس”(١)لوگوں کے ساتھ خاکساری اور فروتنی کے ساتھ پیش آنا عاقل ترین افراد میں سے محسوب ہو نگے ۔امام المسلمین حضرت علی علیہ السلام نے تو اضع اور فروتنی کے نتائج کو یوں ذکر فرمایا ہے :”التواضع سلم الشرف والتکبر راس التلف ”(٢)لوگوں کے ساتھ تواضع کرنا ترقی اور شرافت انسانی کی علامت ہے تکبر اور غرور نابودی اور ضائع ہونے کا سبب ہے ایک اور حدیث میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:”العاقل یضع نفسہ فیر فع الجاہل یر فع نفسہ فیو ضع ”(٣).یعنی عقلمند انسان فروتنی اختیار کرتا ہے کہ اس کا نتیجہ اس کی بزرگی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ١)بحارج ٧٥ص ٢٩٩.
—————–
(٢) اخلاق زن وشوہر .(٣)اخلاق زن وشوہر.
بلندمقام ہے جب کہ جاہل انسان اپنی بزرگی دکھاتا ہے کہ اس کا نتیجہ ذلت خواری اور نابودی ہے ۔
تحلیل وتفسیر :ان آیات اور روایات میںدقت کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تواضع اور انکساری کے ساتھ والدین اور دیگر لوگوں کے ہمراہ زندگی گزارنا عقل مندی ترقی اور انسانی شخصیت کی علامت ہے لہٰذا اگر کوئی شخص شرافت اور مقام کا خواہاں ہے تو ہمیشہ تکبر اور غرور کو خاکساری اور فروتنی میں تبدیل کرے۔مخصوصا والدین کے ساتھ انکساری اور فروتنی کے ساتھ پیش آنا مکتب اسلام کی خصوصیات میں سے ایک ہے لہٰذا والدین کے سامنے اولاد کا تکبر اور غرور کے ساتھ پیش آنا اور اپنی بزرگی دکھانا شرعا ممنوع ہے چاہے فرزند کسی بھی پوسٹ ومقام کا مالک ہو،چونکہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسکی بزرگی اسکا پوسٹ اور مقام والدین کی زحمت اورتربیت کی مرہون منت ہے تب ہی تو شیخ انصاری رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت تا ریخ تشیع میں عیاں ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ان کی عمر رسیدہ ماں وفات پائی تو آپ شدت کے ساتھ زانو زمین پر رکھ کر ان کے جنازے پر رونے لگے آپ کے شاگردوں میں سے کسی ایک نے جب یہ منظر دیکھا تو شیخ انصاری کو تسلی دینے کی خاطر قریب گئے اور کہا :آپ کی علمی منزلت اور مقام کے ساتھ ای طرح رونا شائستہ نہیں ہے جب یہ جملہ شیخ انصاری نے سنا تو فرمایا:ایسی باتیں کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اب تک ماں کی عظمت اور شرافت کو درک نہیں کیا ہے میں آج جس مقام اور منزلت پر پہنچاہوں،وہ ماں کی تربیت اور زحمت کا ہی نتیجہ ہے کہ شیخ انصاری علم فقہ اورعلم اصول کے باپ ہو نے کے با وجود ماں کی عظمت اور ان کے حقوق کو اس طرح عملی جامہ پہنا نا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے حقوق کی ادا ئیگی بہت سنگین ہے ،شہید مطہری کے فرزند ارجمند سے نقل کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ شہید مطہری کبھی اپنے والدین کے حق ادا کرنے میں کو تا ہی نہیں کر تے تھے ہمارے ایک بزرگ استادنے اپنے لکچر کے موقع پر بیان کیا ایک دن ایرانی گورمنٹ کاایک وزیر اپنے والد کو ساتھ لے کر امام خمینی ؒ کی خدمت میں انکے دیدار کو پہنچے امام خمینی ؒ وزیر کو جانتے تھے لیکن ان کے باپ کو نہیں جانتے تھے وزیر اپنے والد سے آگے بیٹھا ہوا تھا امام خمینی ؒ نے پو چھا کہ یہ عمر رسیدہ آدمی کون ہے وزیر نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، امام خمینیؒ نے فوراً فرمایا: ” اگر تیرا باپ ہے تو کیوں ان کے آگے بیٹھے ہو کیا تجھے ادب اور تواضع نہیں ہے۔”پس تمام علماء اور مجتہدین کی سیرت کا مطا لعہ کرنے سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ ماں باپ کے حقوق کا ادا ہونا بہت مشکل ہے ان کے حق ادا نہ کرنے کا نیتجہ انشاء اللہ عنقریب تفصیلی طور پر بیان کرین گے۔
ذ ۔ والدین کی طرف سے صدقہ دیناوالدین کے حقوق میں سے ایک ان کے نام پر صدقہ دینا ہے چاہے والدین زندہ ہوں یا مردہ ۔ دین اسلام میں صدقہ اور خیرات کے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں ، چنانچہ روایت ہے :”الصدقۃ تردالبلاء ”یعنی صدقہ دینے سے بلا و مصیبتیں دور ہو جاتی ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ صدقہ دینے سے انسان کی زندگی اور عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہاں ہمارا ہدف صدقہ کی اہمیت اور عظمت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ ماں باپ کے نام پر صدقہ دینا ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک ہے تا کہ والدین صدقہ کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔اگر ماں باپ فوت ہو چکے ہوں توزیادہ تاکید کی گئی ہے چنانچہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد عالم برزخ میں اولاد صالح کے ذریعہ اور اپنی زندگی میں انجام دیے ہوئے کا ر خیر کے وسیلے سے مستفیض ہو جاتا ہے، اور اسلام میں ماں باپ کو کسی وقت بھی فراموش نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے خصوصا جمعۃ المبارک کے دن کہ اس کو روایت میںسید الایام کہا گیا ہے اس دن ہمارے سارے اعمال امام زمانہ (ع) کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور سارے اموات اپنے خاندان کے پاس برزخ کی مشکلات لے کر صدقات لینے کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :”ان ارواح المؤمنین یا تون فی کل لیلۃ الجمعۃ فیقومون ببیو تھم ینادی کل واحد منھم بصوت حزین یا اھلی واولادی واقربائی اعطوا علینا با لصدقۃ واذکرونا وارحموا علینا ”(١)پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کہ مو منین کے ارواح ہر شب جمعہ اپنے گھروں میں لوٹ کر آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک حزین آواز کے ساتھ یوں پکارا کرتے ہیں اے میرے گھروالے اولاد اور میر ے احباب ہمارے نام پر کچھ صدقہ دو اور ہمیں یاد کر اور ہماری تنہائی اور بے کسی پر رحم کر۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شب جمعہ اموات کے ارواح اپنے خاندان کے پا س آکر ان کو صد قہ دینے کی رغبت دلاتے ہیں لہٰذا ان کے نام پر صدقہ دینا اسلام میں مستحب قرار دیا ہے چونکہ مرنے کے بعد انسان کی پوری توجہ اور نگاہ ان کی اولاد اور خاندان کی نیکیوں پر مر کوز ہوتی ہے اگر ان کے نا م پر صد قہ دے یا دعا کرے، یا ان کے نا م پر قرآن خوانی کرے یا کوئی اور کار خیر انجام دے تو ارواح ہمارے حق میں دعا کرتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں لیکن اگر ان کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)حقوق والدین ، ص ٧٤.
———————
حقوق ادا نہ کرے تو ہماری نابودی ھلاکت اور فقرو فاقہ میں مبتلا ہونے کی دعا کرتے ہیں کیونکہ جب ہماری طرف سے ان کے حقوق ادا کرنے میں کو تاہی یا سستی ہو تو ان کی طرف سے ہما ری نا کامی اور نابودی کی دعا کرنااس کا لازمہ ہے۔لہٰذا مرنے کے بعد خیال نہ کرے کہ اموات ہمارے صدقہ دعا اور دیگر کار خیر کی محتا ج نہیں ہیں کیونکہ عالم برزخ میں اگر چہ حیات مادی نہیں ہوتی لیکن مثالی زندگی یقینی ہے لہٰذا کچھ حضرات نے عالم برزخ کو عالم مثال سے تعبیر کیا ہے۔اربعین سلیمانی سے منقول ہے کہ والدین کے حقوق اولا د پر اسی (٨٠) کے قریب ہیں ان میں سے چالیس حقوق ان کی دنیوی زندگی سے اور چالیس اخروی زندگی سے مربوط ہیں دنیوی زندگی سے مربوط چالیس حقوق میں سے دس حقوق اولاد کے بدن پر دس حقوق ان کی زبان پر دس حقوق ان کے قلب پر دس حقوق ان کے مال پر ہیں جو حقوق انسان کے بدن سے مربوط ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔١۔ والدین کے سامنے انکساری اور ان کی خدمت کرنا اس مطلب کو قرآن میں صریحا ذکر کیا ہے:(وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَۃِ )(١)اورمحمد بن مکدر سے روایت کی گئی ہے کہ میرا ایک بھائی تھا جورات نماز اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)سورۃ اسراء آیت٢٤.
———————–
عبادت میں بسر کرتا تھا جبکہ میں اپنی والدہ کی خدمت کرتا تھا اور اس خدمت کا ثواب ان کی عبادت کے ثواب سے تبدیل کرنے میںراضی نہیں ہوتا تھا۔٢۔ حدسے زیادہ ان کا احترام کرنا چنا نچہ اس کی تفصیل گذرگئی ۔٣۔ والدین کے آگے اور ان کو پشت کرکے نہ بیٹھنا۔٤۔ ان کے فرمان اور دستورات پر عمل کرنا جب کہ وہ خلاف شرع نہ ہو۔٥۔اگر مستحب روزہ یا مستحب عبادت انجام دینا چاہیں تو ان کی اجازت سے انجام دینا ۔٦۔ ان کی رضایت کے بغیر مستحبی سفر نہ کرنا ۔٧۔والدین کے احترام کے لئے کھڑ ا ہوجانا اور جب تک وہ نہ بیٹھیں نہ بیٹھنا ۔٨۔راستہ چلتے وقت اگر کوئی ضرر یا عذر شرعی نہ ہو تو ان سے پہلے نہ چلنا ۔٩۔ہمیشہ ان کے ساتھ نیکی کرنے کی فکر کرنا ۔١٠ ہمیشہ ان کی خدمت کے لئے تیار رہنا ۔
اولاد کی زبان پر لازم حقوق :١۔ نرم لہجے سے گفتگو کر نا ۔٢۔ اپنی آواز کو ان کی آواز پر بلند نہ کرنا ۔٣۔ زبان کے ذریعہ ناشایستہ گستاخی نہ کرنا ۔٤۔ ان کو نام سے نہ پکارنا ۔٥۔ جب وہ گفتگو کررہے ہوں تو قطع کلامی نہ کرنا ۔٦۔ اگر ان کی بات خلاف شرع نہیں تو رد نہ کرنا ۔٧۔ا ن کو امرونہی کی شکل میں خطاب نہ کرنا ۔٨۔ بیجا اف تک نہ کہنا کہ جس سے ان کو اذیت ہوتی ہو ۔٩۔ان کے خلاف شکایت نہ کرنا ۔١٠۔ہمیشہ ان کے ساتھ ادب اور اخلاق حسنہ کے ساتھ گفتگو کرنے کی کوشش کرنا۔
اولاد کے قلب پر لازم حقوق :١۔ والدین کے لئے نرم دل ہو ۔٢۔ ہمیشہ ان کی محبت دل میں ہو یعنی ایسا خیال نہ کرے کہ والدین نے میرے ساتھ یہ کیا یا میری کامیابی اور ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔٣۔ ان کی خوشی میں شریک ہو ۔٤ ۔ ان کے دکھ اور غم میں شریک ہو ۔٥۔ ان کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھے یعنی ان کے دشمنوں سے دوستی نہ کرے۔٦۔ ان کی بد گوی اور دیگر اذیتوں پر مغموم نہ ہو ۔٧۔اگر والدین ظلم وستم یا مار پٹائی کرے تو ناراض نہ ہو بلکہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ کرے۔٨۔ جتنا ان کے حقوق ادا کر ے پھر بھی کم سمجھے ۔٩۔ ہمیشہ دل میں ان کی رضایت کو جلب کرنے کی کوشش ہو ۔١٠۔ ان کا وجود اگر باعث زحمت اور مشقت ہو پھر بھی ان کی طول عمر کے لئے دعا کرنا۔مذکورہ تمام حقوق کے بارے میں آئمہ معصومین (ع)سے منقول روایتیں بھی ہیں تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں تو بحار االانوار کی بحث حقوق والدین وسائل الشیعہ یا اصول کا فی وغیرہ کا مطالعہ کیجئے۔
والدین سے مربوط مالی حقوق:١۔ ان کو لباس اپنے لباس سے پہلے فراہم کرنا ۔٢۔ ان کے کھا نے کو اپنے کھانے کی مانند یااس سے بہتر مھیا کرنا ۔٣۔ان کے قرض کو ادا کرنا ۔٤۔ ان کے سفر کے مخارج (چاہے واجب ہوں یا مستحب )دینا ۔٥۔ ان کے فوت شدہ حج اور روزہ غیرہ انجادینا۔٦۔ ان کو مسکن اور مکان مہیا کرنا ۔٧۔ اپنی دولت اور ثروت ان کے حوالہ کرنا تا کہ وہ احتیا ج کے مو قع پر اپنی مرضی سے تصرف کرسکیں ۔٨۔ ان کی زندگی کے تمام لوازمات برداشت کرنا ۔٩۔ دولت اور ثروت کو ان کی عزت کا ذریعہ قرار دینا ۔١٠۔ اپنے مال کو ان کا مال سمجھنا ۔
مرنے کے بعد اولاد پر لازم حقوق:روایات میں بیان شدہ ایسے چالیس حقوق ہیں جو والدین کے مرنے کے بعد اولاد پر لازم ہوتے ہیں :١۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی تجہیز وتکفین کو سرعت سے انجام دینا۔٢۔ ان کی تجہیز وتکفین وغیرہ میں ہو نے والے اخراجات پر ناراض نہ ہونا ۔٣۔مرنے کے بعد ان کے نا م پر مو ازین شرع کے مطابق مراسم انجام دینا۔٤۔ ان کی وصیت پر عمل کرنا ۔٥۔ دفن کی رات ان کے نا م پر نماز وحشت پڑھنا اور دوسروں سے پڑھوانا۔٦۔ جو مراسم شرعی ان کے نام پر انجام دیتے ہیں جیسے قرآن خوانی اور مجالس عزا وغیرہ ان کو قصد قربت کے ساتھ انجام دینا ،نہ این کہ ریا کاری اور اپنی بزرگی دکھانے کی نیت ہو ۔٧۔ اگر تا جر یا کا روباری انسان ہے تو فورا حساب کتاب کرکے ان کے ذمہ کو ہر قسم کی دین اور قرض سے بر ی کرنا ۔٨۔اگر ثلث مال کی وصیت کی ہے تو فورا اس کو جدا کرکے بقیہ ترکہ کو وارثین کے مابین تقسیم کرنا ۔٩۔ ہمیشہ ان کے نام قرآن کی تلاوت کرنا ۔١٠۔ ہر نماز کے بعد ان کے حق میں دعا کر نا خصوصا نماز شب کے موقع پر ا ن کو فراموش نہ کرنا ۔١١۔ ہر روز ان کے نام پر صدقہ دینا ۔١٢۔ اگر کوئی عذریا مشکل نہیں ہے تو ہر روز نماز والدین انجام دینا ۔١٣.۔ان کے مصائب پر صبر و استقامت سے کام لینا ۔١٤۔ ان کی عبادت واجبہ کی قضا انجام دینا یا کسی کو اجیر بنانا ۔١٥۔ ایام روزہ اور ماہ رمضان المبا رک میں ان کو شریک ثواب قرار دینا ۔١٦۔ والدین کی قبر پر ان کی زیارت کے لئے جانا ۔١٧۔ ان کے قبر پر آیت الکر سی اور قرآن کی تلاوت اور صلوات بھیجنا۔١٨ جب کسی معصوم کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہو تو ان کی نیابت میں زیارت کرنا ۔١٩ ۔ان کی نیابت میں عمرہ اور حج انجام دینا۔٢٠۔اگر اپنا واجبی حج انجام دینے کے لئے مکہ مکرمہ جائے تو والدین کو فراموش نہ کرنا۔٢١۔اگر کو ئی شخص ان پر ناراض ہو تو اس کو کسی صورت میں راضی کرانا ۔٢٢۔ان کی طرف سے رد مظالم کرنا اور اگر کسی کے حقوق ان کے ذمہ ہوں تو اسے ادا کرنا ۔٢٣۔ ان کے نام ہر ہفتے میں یا ہر مہینے میں مجلس امام حسین علیہ السلام بر پا کرنا ۔٢٤۔ ان کے نام پر قربانی کرنا ۔٢٥۔ اگر ان سے کسی کار خیر کا انجام دینا باقی رہا ہے تو اس کو انجام دینا۔٢٦ ۔ا گر کسی کے مال کو غصب کیا ہے تو ادا کرنا ۔٢٧۔ خمس وزکا ۃ اگر ادا نہیں کیاہے تو ادا کرنا ۔٢٨ ۔کسی کے باپ اور ماں کو بد گوی نہ کرنا تاکہ وہ تمہارے ماں باپ کو گالی گلوچ نہ کر یں۔٢٩۔ لوگوں سے نیکی کرنا تاکہ وہ تمہارے والدین کے حق میں دعا کرے ۔٣٠۔ ماں باپ کے دوستوں کا احترام کرنا ۔٣١۔ معاشرہ میں کو ئی ایسا کام انجام نہ دےنا جس سے تمہارے والدین کو برا بھلا کہا جائے ۔٣٢ ۔ ہمیشہ ان کی نجات کیلئے کو شش کرنا ۔٣٣۔ ان کے آ ثارکی حفاظت کرنا ۔٣٤ ۔ ماں باپ کی دیدار میسرنہ ہو تو ان کے بجائے چچا اور ماموں کی زیارت کرنا۔٣٥۔اگر ان کی زندگی میں ان کے حقوق ادا ء نہ کیئے ہوں تو مرنے کے بعد ان کی رضائیت جلب کرنے کی کوشش کرنا ۔٣٦۔ ان کے خواب میں نظر آنے کی دعا کرنا ۔٣٧ ۔ ان کے قبور اور اسامی کا احترام رکھنا ۔٣٨۔ اگر والدین مومن ہیں تو ان سے ملنے کی تمنا کرنا ۔٣٩۔ ہمیشہ ان کے نام پر کار خیر انجام دینا ۔٤٠۔ ان کے قبور خراب ہونے سے بچانا ۔(١)یہ تمام حقوق آیات اور روایات اہل بیت علیہم السلام کی روشنی میں ثابت ہیں ۔
ر ۔ماں باپ کا احترام جہاد سے افضلہر با شعور آدمی پر واضح ہے کہ اسلام نے والدین کے لئے جو مقام ومنز لت عطا کیا ہے کو ئی اور نظام یا معاشر ہ اتنی عظمت اور احترام کا قائل نہیں ہے اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں تمام کاموں سے افضل اور سنگین جہا د فی سبیل اللہ کو قرار دیا ہے ۔چنانچہ اس مطلب کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے 🙁 وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اﷲِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ . )(٢)اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)ارزش پدرومادر ص ٧٣ .(٢)آل عمران آیت ١٦٩.
————————-
ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پارہے ہیں۔شہادت کی عظمت بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب در کار ہے لیکن یہاں مختصر اشارہ کرنا مقصود ہے روایات معصومین علیہم السلام کا مطا لعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہا د فی سبیل اللہ سے والدین کا احترام ا فضل ہے ان مطالب کو ثابت کرنے کیلئے پیغمبر (ص)کا یہ قول کافی ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے امام (ع) نے یوں فرمایا :”اتی رجل الی رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم،فقال یا رسول اﷲ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم)انی راغب فی الجہاد نشیط، فقال لہ البنی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تجاہدفی سبیل اللّٰہ فانک ان تقتل تکن حیّاً عندا للہ ترزقون وان تمت فقد وقع اجرک علی اللّٰہ وان رجعت رجعت من الذ نوب کما ولدت قال یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ان لی والدین کبیر ین یزعمان انھما یأ نسان بی ویکر ہان خروجی فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فقر مع والدیک فوالذی نفسی بیدہ لا نسھما بک یوما ولیلۃ خیر من جھاد سنۃ”(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)کافی ج٢ ص١٢٨.
—————————–
ایک شخص پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا اے رسول خدا (ع)میں جنگ میں جاکر جام شہادت نوش کرکے خو شی حاصل کرنے کا خواہاںاور اس کام کے لئے بے تاب ہوں تو پیغمبر اکرم (ص)نے ان سے فرمایا:” (اگر ایسا ہے ) تو راہ خدا میں جہاد کے لئے چلے جاؤ اگر راہ خدا میں شہید ہو گیا توحیات جاودانی ہے اور پروردگار کے یہاں رزق پاؤگے اور اگر طبیعی موت سے مر جائے تو تجھے خدا شہادت کا درجہ عطا کرے گا اور اگر تو زندہ واپس آئے تو تمام گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر واپس آئے ہو جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی نکل کر آئے ہو، اس وقت سائل نے کہا کہ اے خدا کے رسول (ص) میرے عمر رسیدہ ماں باپ زندہ ہیں اور مجھ سے مانوس ہیں میرا (گھر سے ) خارج ہو نا وہ پسند نہیں کرتے اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا اگر ایسا ہے تو اپنے والدین کے ساتھ رہیں، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تمہارا ان سے ایک رات اور ایک دن انس اور پیار کرنا ایک سال کی جنگ ( جہاد ) سے بہتر ہے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے پیغمبر اکرم (ص) سے اذن جہاد مانگی تو پیغمبر اکرم (ع) نے فرمایا :”الک والدۃ قال نعم قال الز مھا فان الجنۃ تحت اقدامھا”(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)السعادات ج٢ ص٢٦٧.
—————————-
کیا تمہاری ماں زندہ ہے تو اس نے کہا جی ہاں اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا تو ان کے پاس رہ کر ان کی خدمت انجام دے کیو نکہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہےمذکر رہ دو روایتوں سے والدین کی عظمت اور مقام کا انداز ہ لگا یا جاسکتا ہے کہ خدا کی نظر میں والدین کتنے عزیز ہیں ایک اور روایت صاحب وسائل نے یو ں نقل کی ہے:” ا تی ر سول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم رجل انی رجل شاب نشیط واحب الجھاد ولی والدۃ تکرہ ذالک فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ارجع مع والد تک فوالذ ی بعثنی بالحق لا نسھا بک لیلۃ خیر من جھاد فی سبیل اللّٰہ ” (١)کسی شخص کو پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آنے کا شرف حاصل ہوا، (کہا : یا رسول اللہ ) میں ایک طاقتور جوان ہوں اور جہاد میں جانا چاہتا ہوں لیکن میری ماں زندہ ہے وہ اس کو پسند نہیں کرتی (اس وقت ) پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا تو اپنی والدہ کے پاس پلٹ جاؤ چونکہ اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھے مبعوث کیا کہ ماں کا تم سے ایک رات مانوس ہونا جہاد سے افضل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)وسائل الشیعہ ج١٥ ص٢٠ .
———————
نیز پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:”رقودک علی السریر الی جنب والدیک فی برّہما افضل من جہادک بالسیف فی سبیل اللّٰہ ۔”(١)ماں باپ کے ساتھ ان کے تخت خواب کے ساتھ سونا اور ان سے نیکی کرنا تلوار کے ساتھ راہ خدا میں جنگ کرنے سے افضل ہے۔
س۔ماں باپ کافر بھی ہوں تو قابل احترام ہیںاسلام وہ واحد نظام ہے جو انسان کی سعادت او راس کو کمال تک پہنچانے کی خاطر ہر مثبت اور منفی نکات کی طرف اشارہ کرتا ہے اسلامی تعلیمات میں سے ایک نکتہ جس کی طرف متعدد آیات میں اشارہ ہواہے یہ ہے :مشرکوں اور کا فروں سے دوستی رکھنا حرام ہے لیکن اس قانون سے والدین کو مستثنیٰ کیا ہے ۔یعنی اگر والدین یا ان میں سے ایک غیر مؤمن یا فاسق یا کافر ہو پھر بھی قابل احترام ہیں ان سے روابطہ حسنہ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے زکریا ابن ابراہیم سے منقول ہے:” قال ذکر یا ابن ابراھم لابی عبدالہ انی کنت نصرانیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)ارزش پدر ومادر ص ١٨٧.
————————–
فاسلمت وان ابی وامی علی النصرانیۃ واہل بیتی وامی مکفو فۃ البصر فأ کون معھم واکل فی اٰنتیھم ،قال: یا کلون لحم الخنز یر؟ فقلت لا ولا یمسو نہ، فقال علیہ السلام: لا با س فانظر امک فبرہا، فاذا ما تت فلا تکلھا الی غیرک ”(١)زکر یا ابن ابراہیم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پو چھا کہ میں مسیحی تھا اب مسلمان ہو چکا ہوں لیکن میرے والدین اور خاندان اس وقت بھی مسیحی ہیں اور میری ماں نا بینا ہے میں ان کے ساتھ زندگی کر رہا ہوں اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں کیا یہ میرے لئے جائز ہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں، میں نے کہا نہیں وہ سور کا گوشت نہیں کھا تے اور اس کو ہاتھ تک نہیں لگا تے ۔تب امام (ع)نے فرمایا کہ ان کے ساتھ رہنے اور کھا نے میں کوئی حرج نہیں ہے ان کے ساتھ رفت وآمد رکھنے کے ساتھ ماں کا خیال رکھیں اور ان سے نیکی کریں اگر وہ مر جائے تو اس کا جنازہ دوسروں کے حوالہ نہ کرے .ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے یوں ارشادفرمایا ہے :”قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بعلی علیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)اصول کا فی ج ٢ ص ٩١٦١.
—————————-
السلام یا علی اکرم الجار ولو کان کا فرا واکرم الضیف ولو کان کا فرا واطع الوالدین ولو کا نا کا فرین ولا ترد السا ئل وان کان کا فرا قال صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یا علی رأیت علی باب الجنۃ مکتو با انت محرمّۃ علی کل بخیل ومراء وعاق ونمام”(١)حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا اے علی علیہ السلام ہمسایہ سے نیکی کرو اگر چہ وہ کا فر ہو نیز مہمانوں کا احترام رکھو اگر چہ وہ کا فر ہی کیوں نہ ہو، والدین کی اطاعت کرو اگر چہ وہ کافر ہوں اور مانگنے والے کو خالی واپس نہ لو ٹا ؤ اگر چہ وہ کا فر ہی کیوں نہ ہو پھر آپ نے فرمایا اے علی علیہ السلام میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ہے کہ اے جنت تم ہر کنجوس ریا کار عاق والدین اور سخن چین افراد پر حرام ہے ۔
تحلیل وتفسیر حدیث :اگر چہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین فاسق ہوں یا کا فرمشرک ہوں یا مومن تمام حالات میں ان کا احترام رکھنا اخلاقی طور سے اولاد پر لازم ہے لیکن فقہ میں جو احکام کا فروں کے بارے میں آئے ہیں وہ اپنی جگہ پر محفوظ ہیں ان کی نجاست طہارت، ارث وغیرہ کا حکم احترام والدین سے ایک الگ مسئلہ ہے جن کے بارے میں روایات مذکورہ ساکت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)جامع الا خبا ر ، ص ٨٣.
—————————-
ایک روایت یہ ہے کہ( بر الوالدین وان کا نا فاجرین).والدین کے ساتھ نیکی کرو اگر چہ وہ فاجر اور ستم گر ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا:”ثلاث لم یجعل اللّٰہ عزوجل لا حد رخصۃ ادا ء الامانۃ الی البروالفا جر الوفاء بالعہد الی البر و الفا جر وبرالو الدین برین کانا او فاجرین ”(١)امام نے فرمایا کہ خدا نے تین چیزوں کو چھوڑ نے کی اجازت نہیں دی ہے :١ ۔ امانت کو ادا کرنا چاہے رکھنے والا نیک آدمی ہو یا برا ۔٢۔ وفاء بہ عہد کرنا چاہے نیک ہو یا برا ۔٣۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہے وہ نیک ہوں یا برے۔نیز امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا:” برالوالدین واجب وان کا نا مشرکین، ولا طاعۃ لھما فی معصیۃ الخالق”(٢)ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا لازم ہے اگر چہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)بحار ج٧٤.(٢) بحارالانوارج ٧٤.
—————————
لیکن جب وہ نافرمانی خدا کرنے کا حکم دیں تو اطاعت لازم نہیں ہے۔اسی طرح ایک روایت جناب جابر سے یوں نقل کی گئی ہے:”قال سمعت رجلا یقول لابی عبد اللّٰہ ان لی ابوین مخا لفین فقال برھما کما تبر المسلمین ممن یتولانا ”(١)جابر نے کہا میں نے سنا کہ ایک شخص نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے عرض کیا میرے والدین آپ کے مخالف ہیں ( کیا وہ قابل احترام ہیں ) آپ نے فرمایا ان سے نیکی کرو جس طرح میرے ما ننے والے مسلمانوں سے نیکی کی جاتی ہے ۔
ش۔ ماں ، باپ سے محبت کا حکمدوستی اور محبت ،والدین اور اورلاد کے ما بین ایک امر طبیعی ہے لیکن جب انسا ن غلط سوسائٹی اور مغر ب زدہ معا شرہ میں تعلیم وتربیت حاصل کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ والدین کے ساتھ اولاد کی محبت اور دوستی کم ہو جا تی ہے ۔کیو نکہ والدین ان کے مزاج اور طبیعت کے منافی ہیں لہٰذا جب والدین نیک مشورے یا نیک نصیحتوں سے ان کو سمجھا نا چاہتے ہیں تو وہ ان کی نصیحت اور باتوں پر عمل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)بحار ج١٧٤.
———————
کرتے جس کے نتیجہ میں والدین کے ساتھ ہونے والی قدرتی محبت ختم ہو جاتی ہے لہٰذا والدین کے ساتھ عام عادی انسان کی طرح سلوک کرنے لگتے ہیں جب کہ یہ اسلام میں بہت ہی مذ مو م طریقہ ہے۔ کیونکہ والدین کے ساتھ محبت اور دوستی کرنے کو پیغمبر اکرم (ص)نے یوں ارشاد فرمایا ہے:” قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم احفظ ودّ ابیک لا تفطئہ فیطفئی اللّٰہ نورک ”(١)آپ نے فرمایا تم کو چایئے کہ اپنے باپ کے ساتھ دوستی اور محبت کو ہمیشہ بر قرار رکھیںاور ان سے قطع محبت نہ کرو کیونکہ اگر ان سے محبت اور دوستی کو قطع کروگے، تو خدا تمہارے نور کو قطع کر یگا۔لہٰذا بہت ساری روایات میں اس طرح کا جملہ پایا جاتا ہے کہ خدا کی رضایت اور اسکی اطاعت ماں باپ کی رضایت اور اطاعت میں پو شیدہ ہے کہ اس جملے کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ماںباپ کو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور علت کی بناء پر کبھی بھی برانہ مانیں بلکہ ہمیشہ ان سے دوستی اور محبت سے پیش آئیں۔کیونکہ یہی ماں باپ انسان کی نجا ت اور آبا د ہو نے کا ذریعہ ہیں پس اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) نقل از ارزش پدر ومادر.
————————
ہم والدین کی شناخت کر یں اور ان کو ہمیشہ خوش رکھیں یاان کی اطاعت کرتے رہیں تو در حقیقت خدا کی شنا خت اور اس کی رضایت اور اسکی اطاعت حاصل کئے ہو ئے ہیں لہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :” بر الو الدین من حسن معر فت العبد با اللّٰہ ”(١)١۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا انسان کا خدا کی بہتر ین شنا خت ہونے کی دلیل ہے ۔ نیز اگر انسان ائمہ معصومین (ص)سے محبت اور دوستی کرنے کا خواہاں ہو تو ائمہ معصو مین علیہم السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :”قال الصادق علیہ السلام من وجد برد حبنا علی قلبہ فلیشکر الدعا لامہ فانھا لم تخن اباہ ”(٢)آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص ہم اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کو اپنے دل میں احساس کرے تو وہ اپنی ما ں کے حق میںبہت زیادہ دعا کرے،کیونکہ اس نے اس کے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے، لہٰذا ماں باپ سے دوستی اور نیکی کرنا حقیقت میں خدا اور ائمہ سے دوستی اور محبت کرنے کی علامت ہے جب ہم والدین سے محبت کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ان کے ہم کلام اور ہم صحبت ہو جاتے ہیں کہ والدین سے ہم کلام ہونا شریعت اسلام میں بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) مستد رک ج ١٥ ص ١٩٨ .(٢) من لایحضر الفقیہ ج ٣ ص ٣٢٥.
————————-
ہی اہم مسئلہ اور قابل ارزش کام ہے .لہٰذا پیغمبر اکرم نے اس مسئلہ کو یوں ارشا د فرمایا ہے : ”قال رجل یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم من احق بحسن صحا بتی ؟قا ل امک قال ثم من ؟قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم امک قال ثم من ؟ قال ابوک ”(١)ایک شخص نے پیغمبر اکرم سے پو چھا اے خدا کے رسول ہم کلام اور ہم صحبت ہونے کے لئے کون سزا وار ہے ؟ آپ نے دوبار فرمایا تمہاری ماں بہتر ہے ۔ تیسری دفعہ پو چھا پھر کون سزاوار ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہا را باپ سزاوار ہے۔پس محترم قارئین! اگر ان مختصر جملات پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے :١۔ والدین سے محبت کرنا خدا اور آئمہ علیہم السلام سے محبت کرنے کی علامت ہے۔٢۔ ان سے نیکی کرنا خدا کی بہتر ین شناخت ہو نے کی علامت ہے۔٣۔ زندگی میں بہتر ین ہم کلام اور ہم صحبت ماں باپ ہیں ۔لہٰذا قرآن مجید میں حضرت یعقوب اور حضرت یو سف کا قصہ نجوبی اس مطلب کو بیان کرتا ہے کہ ماں باپ اور فرزندان کے مابین دوستی اور محبت ہو نی چائیے صرف ان کے اخراجات فراہم کرنا کافی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) مستد رک ١٠ / وسائل ج١٥ .
——————————–
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.