پيدائيش کي مشکلات

246

بچہ نو ماہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے ، خاص طور پر ديگر اعضاء كى نسبت اس كا سر بڑ ا ہو چكا ہو تا ہے كہ اس اسے ناچار ايك نئے سخت مرحلے سے گزر ناہى ہوتا ہے _ اس تنگ مقام تولد سے باہر آنا انسان كى پورى زندگى ميں انجام پانے والے كسى بھى سفر سے خطر ناك تر ہے _ ممكن ہے بچہ پس جائے يا اس كى كوئي ہڈى ٹوٹ جائے _ ممكن ہے اس كى نازك اور ظريف ہڈياں كہ جو ابھى با ہم اچھى طرح ملى نہيں ہو تيں ، ان پر دباؤ پڑ جائے جس سے بچے كے اعصاب اور مغز كو نقصان پہنچے _ايك ماہر لكھتے ہيں :پيدائشے كا مرحلہ ممكن ہے كہ بچے ميں دائمى ليكن غير مرئي قسم كے نفسياتى نقائص پيدا ہونے كا سب بنے _ نفسياتى بيماريوں كے معالجين كے نزديك پيدائشے كے عمل كو انسان كى پورى زندگى كيماہيت كے ليے ايك مؤثر عامل شمار ہوتا ہے ان ماہرين
69كى نظر ميں پيدائشے ايك انقلابى تبديلى كا نام ہے كہ جو بچے كے ماحول اور زندگى مين پيدا ہوتى ہے اور اچانك وہ خاص قسم كى آسودگى اور آرام جو جنين كى زندگى ميں اسے حاصل ہوتا ہے و ہ ختم ہو جاتا ہے _ ان كى نظر ميں پيدائشے كے موقع پر خوف ارو اضطراب انسان كى نفسيات كاحصہ بن جاتا ہے اور انسان كى آئندہ زندگى ہميشہ نا معلوم يادوں كے آزار كے تحت گزرتى ہے _ زندگى كا ايك پر آرام دور جنين كا اور پھر مستقل زندگى كى طرف نہايت مشكل عالم ميں ورود ( 1)جب بچہ دنيا ميں آتا ہے تو عموما چند گھنٹے وہ ايك دباؤ كے تحت رہتا ہے اور سب سے زيادہ مشكل سے اس كا سر دو چار ہو تا ہے كہ جو اس كے بدن كے تمام تر اعضاء ميں سے سب سے بڑا ہوتا ہغ اگر پيدائشے غير معمولى طريقے سے ہو تو دنيا ميں آنے كے مرحلے اور بھى سخت تر ہو جاتے ہيں اور بچہ عام حالات كى مشكلات برداشت كرنے كے علاوہ ميكانياتى آلات كى مصيبت بھى برداشت كرتا ہے اور زيادہ تر بچوں كا ضائع ہو جا نا يا پيدائشے كے تھوڑى ہى مدت بعدت ان كا مرجا نا ايسى ہى مصيبتوں اور مشكلوں كے باعث ہو تا ہے فالج اور ديوانگى و غيرہ جيسے ہدنى اور دہنى نقائص جو بچوں ميں دكھائي ديتے ہيں عموما ايسى ہى مصيبتوں كا باعث ہوتے ہيں جو دنيا ميں آتے وقت آن پروارد ہوتى ہيں (2)بنا بريں پيدائشے كا مر حلہ ايك معمولى اور غير اہم مرحلہ نہيں بلكہ ايك دشوار اور قابل تو جہ عمل ہے كيونكہ ز چہ اور بچہ كى سلامتى اس سے البستہ ہوتى ہے _ ٹھوڑى سے غفات يا سہل انگارى ماں يا بچے كے ليے نا قابل تلافى نقصان كا باعث بن سكتى ہے _ يہاں تك كہ ممكن ہے اس مرحلے ميں ان كى جان چلى جائي ليكن آج كل كى حالت ميں جب مرا كز پيدائشے ، ڈاكٹر اور دواز يادہ تر لوگوں كى دسترس———-1_ بيو گرافى پيش از تولد ص 1602_ روانشناسى كودك ص 193
70ميں ہے تو احتمالى خطرات سے بچا جا سكتا ہے _لہذا حاملہ خواتين كو نصيحت كى جاتى ہے كہ اگر وہ ڈاكٹر يا مركز پيدائشے تك دسترس ركھتى ہيں تو وقت سے پہلے ان كى طرف رجوع كريں اور بچے كى پيدائشے كے وقت كے بارے ميں معلومات حاصل كريں او رجب ضرورى ہو تو فورا مركز پيدائشے كى طرف رجوغ كريں چونكہ يہ مراكز گھر سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتے ہيں _ كيونكہ اورلا تو و ہاں ڈاكٹر ، دوا اور نرس موجود ہيں اور ضرورى موقع پر وہ و چہ كى فورى مار دكر سكتے ہيں اور اگر پيدائشے ميں كوئي غير معمولى مسئلہ پيش آجائے تو ہر لحاظ سے وسائل موجود ہوتے ہيں اور جلدى سے اس كى مد د كى جاسكتى ہے _ ليكن اگر وہ گھر ميں ہو اور پيدائشے ميں كوئي غير معمولى مسئلہ پيش آجائے تو اسے ڈاكٹر يا مركز پيدائشے تك لے جانے ميں ممكن ہے كہ زچہ اور بچہ كى جان خطر ے ميں پڑ جائے _دوسرا يہ كہ مركز پيدائشے كے كمر ے صحت و سلامتى كے نقطہ نظر سے گھر كے كمروں سے بہتر ہوتے ہيں اور عورت و ہاں زيادہ آرام كرسكتى ہے _تيسرا يہ كہ وہاں پر رشتے داروں اور ہمسايہ عورتوں كا پيدائشے عمل ميں دخل نہيں ہوتا اور نہ ہى ان كى مختلف قسم كى آراء ہوتى ہيں جب كہ 79ن كى وكالت عوما علم و آگہى كى بناء پر نہيں ہوتى لہذا ضرر ساں ہو سكتى ہے _مرد كى بھى اس ضمن ميں بھارى ذمہ دارى ہوتى ہے _ شرعاً كے كمرے صحت و سلامتى كے نقطہ نظر سے گھر كے كمروں سے بہتر ہوتے ہيں اور عورت وہاں زيادہ آرام كرسكتى ہے _تيسرا يہ كہ وہاں پر رشتے داروں اور ہمسايہ عورتوں كا پيدائشےى عمل ميں دخل نہيں ہوتا اور نہ ہى ان كى مختلف قسم كى آراء ہوتى ہيں جب كہ ان كى وكالت عموماً علم و آگہى كى بناء نہيں ہوتى لہذا ضرررساں ہوسكتى ہے _مرد كى بھى اص ضمن ميں بھارى ذمہ دارى ہوتى ہے _ شرعاً اور عقلاً اس كافريضہ ہے كہ ان حسّاس اور خطرناك لمحات ميں اپنى بيوى كى مدد كرے اور احتمالى خطرات سے اسے اور بچے كو بچانے كى كوشش كرے _ اگر اس كى غفلت يا سستى كى وجہ سے بيوى يا بچہ تلف ہوجائے يا پھر انہيں جسمانى يا روحانى لحاظ سے نقصان پہنچے تو ايسا بے انصاف شوہر شريعت اور ضمير كى عدالت ميں مجرم قرار پائے گا اور روز قيامت اس سے بازپرس كى جائے گى _ علاوہ ازيں اس جہاں ميں بھى وہ اپنے كام كا نتيجہ بھگتے گا اور اگر آج سہل انگارى يا كنجوسى يا كسى اور بہانے سے بيچارى بيوى كى مدد نہيں كرے گا تو بعد ميں مجبور ہوگا كہ اس كے مقابلے ميں سوگنا خرچ كرے ليكن پھر بھى زندگى كا پہلا سكون واپس نہيں لايا جا سكے البتہ اگر ڈاكٹر اور پيدائشے گا ہ تك رسائي نہ ہو تو پھر گھر ميں ہى يہ كام ان دائيوں كے ذريعے انجام پانا چاہيے كہ جو اس كام ميں مہارت ركھتى ہيں_
71اس ضمن ميں مندرجہ ذيل ہدايات كى طرف توجہ كرنى چاہيے _1_ پيدائشے كے كمرے كا درجہ حرارت معتدل اور طبيعى ہونا چاہيے اور سرد نہيں ہونا چاہيے كيونكہ زبردست دباؤ، درد اور كئي گھنٹوں كى زحمت كى وجہ سے عورت كى طبيعت عام حالات سے مختلف ہوجاتى ہے اسے پسينے آتے ہيں اور بچے كے ليے بھى ٹھنڈلگنے اور بيمارى كا خطرہ ہوتا ہے ، جب بچے كى پيدائشے كا دشوار گزار مرحلہ گزر جائے تو اگر كمرے كى ہوا كا درجہ حرارت سرد ہو تو احتمال قوى ہے كہ زچہ كو ٹھنڈلگ جائے اور اس كى وجہ سے كئي بيمارياں پيدا ہوجائيں _ علاوہ ازيں ٹھنڈى ہوا نو مولود كے ليے بھى نہايت خطرناك ہے كيونكہ پچہ رحم مادر ميں طبيعى حرارت كے ماحول ميں رہا ہوتا ہے كہ جس كا درجہ حرارت تقريباً3765 سينٹى گريڈہوتا ہے _ ليكن جب وہ دنيا ميں آتا ہے تو كمرے كا درجہ حرارت عموماً اتنا نہيں ہوتا اس وجہ سے نومولود كو جو بہت ناتوان ہوتا ہے اوراس ميں يہ طاقت نہيں ہوتى كہ اپنے بدن كے ليے دركار حرارت اور توانائي مہيا كرسكے، اسے ٹھنڈ لگ جانے كا اور بيمارى ميں مبتلا ہوجانے كا خطرہ ہوتا ہے اور ان نومولود گان كامعالجہ بھى نہايت مشكل ہوتا ہے _ اس طرح بيمار ہونے والے زيادہ تر بچے مرجاتے ہيں _2_ محتاط رہنے كى ضرورت ہے كہ كمرے كى ہوا مٹى كے تيل يا كوئلے كے جلنے كى وجہ سے دھوئيں سے مسموم اور آلودہ نہ ہوجائے كيونكہ ايسى مسموم ہوا ميں سانس لينا زچہ اور بچہ ہر دو كے لئے ضرر رساں ہے _3_ بہتر ہے كہ پيدائشے كے كمرے ميں حتى المقدور خلوت ہو _ غير متعلق عورتوں كو كمرے سے باہر كرديں كيونكہ ايسى خواتين علاوہ اس كے كہ ان كى ضرورت نہيں ہوتى وہ زچہ كے ليے ناراضى اور شرمندگى كا باعث بنتى ہيں _ كمرے كى ہوا كو كثيف كرتى ہيں علاوہ ازيں پيدائشے كے وقت زچہ كى شرم گاہ كى طرف ديگر عورتوں كا ديكھنا حرام ہے اوروہ اس عالم ميں اپنى سترپوشى نہيں كرسكتى _
72امام سجاد عليہ السلام نے ايك موقع پر جب كہ ايك حاملہ عورت كاوضع حمل ہونے والا تھا تو فرمايا عورتوں كو باہر نكال ديں كہ كہيں زچہ كى شرم گاہ كى طرف نہ ديكھيں _(1)حاملہ عورت اگر اپنى ذمہ دارى پر عمل كرے تو اسے چاہيے كہ پورى احتياط كے ساتھ اپنے حمل كے زمانے كو اختتام تك پہنچائے اور ايك سالم اور بے عيب بچہ معاشرے كو سونپے اس نے ايك بہت ہى قيمتى كا م انجام ديا _ ايك صحيح اور بے نقص انسان كو وجود بخشا ہے كہ جو ہميشہ اپنى ماں كا مرہون حق رہے گا _ اس كے علاوہ اس نے انسانى معاشرے كى بھى خدمت انجام دى ہے كہ اسے ايك بے نقص اور قيمتى انسان عطا كيا ہے ممكن ہے اس كا وجود معاشرے كے ليے خيرات و بركات كا موجب قرار پانے اور يہ عظيم خدمت كے نزديك بھى بے اجر نہيں رہے گى _ ايك روز پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جہاد كى فضيلت كے بارے ميں گفتگو فرما رہے تھے _ ايك عورت نے عرض كى يا رسول اللہ كيا عورتيں جہاد كى فضيلت سے محروم ہيں _ پيغمبر (ص) نے فرمايا: نہيں عورت بھى جہاد كا ثواب حاصل كر سكتى ہے _ جس وقت عورت حاملہ ہوتى ہے اور اس كے بعد اس كا وضع حمل ہوتا ہے اور جب بچے كو دودھ ديتى ہے يہاں تك كہ بچہ دودھ پينا چھوڑ ديتا ہے تو اس سارى مدّت ميں عورت اس مرد كى طرح ہے جو ميدان كارزار ميں جہاد كررہا ہو _ اگر اس عرصے ميں عورت فوت ہوجائے تو بالكل ايك شہيد كے مقام پر ہے _(2)———-1_ وسائل الشيعہ _ جلد 10 ص 1192_ مكارم الاخلاق _ج 1 ، ص 268
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.