عاق والدین

453

الف۔ سب سے بڑا گنا ہ عاق والدینشریعت اسلام میں دو قسم کے گنا ہ کا ذکر کیا گیا ہے : ١۔ کبیرہ ۔٢۔ صغیرہ ۔گنا ہ کبیرہ ان گناہوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کو انجام دینے کی صورت میں خدا کی طرف سے عقاب مقرر کیا گیاہے لہٰذا اگر آپ گناہ کبیر ہ کی حقیقت اور تعداد سے باخبر ہو نا چا ہتے ہیں تو جناب مرحوم آیت ١للہ شہید محراب دستغیب کی ارزش مند کتاب گناہان کبیر ہ اور تفسیر کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں لیکن گناہ کبیر ہ میں کچھ ایسے گناہ ہے کہ جن کو اکبر الکبا ئر سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ جن میں سر فہر ست عاق والدین ہے یعنی عاق والدین تمام گنا ہان کبیر ہ میں سب سے بڑا گنا ہ ہے کہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم (ص) نے یوں اشارہ فرمایا ہے:” اکبر الکبائر الشرک بااللّٰہ وقتل النفس وعقوق الوالدین وشہا دۃ الزور”(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔ نہج الفصاحتہ، ص٨٢ .
———————
” گناہ کبیر ہ میں سے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ خدا کے ساتھ شریک ٹھرانا اور کسی کو قتل کرنا ،ما ں ،باپ کے ساتھ برے سلوک سے پیش آنا اور جھوٹی شہا دت دینا ہے ۔ ”نیز دوسری روایت میں آنحضرت نے یوں ارشاد فرمایا ہے:” قال رسول اللّٰہ (ص) : خمس من الکبا ئر: الشر ک بااللّٰہ وعقوق الوالدین والفرار من الز حف وقتل النفس بغیر حق والیمین الفاجرۃ تذعہ الدیار بلاقع”(١)پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا پانچ چیزیں گناہ کبیرہ میں سے ہیں :١ ۔خدا کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا ۔٢۔ ماں پاب کے ساتھ برا سلوک کرنا، عاق والدین۔٣۔ جہاد کے مو قع پر بھا گنا ۔٤۔ کسی کو نا حق قتل کرنا ۔٥۔ جھوٹی قسم کھا کر اپنے آپ کو نابود کرنا ۔نیز اور ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) جامع الا خبار، ص٨٤ ، نقل از ارزش پدر ومادر .
———————
”ان اکبر الکبا ئر عند اللّٰہ یوم القیا مۃ الشر ک با اللّٰہ وقتل نفس المؤمن بغیر الحق والفرار من سبیل اللّٰہ یوم الز حف وعقوق الوالدین”(١)بے شک روز ہ قیامت خدا کی نظر میں سب سے بڑا گناہ کبیرہ میں سے یہ ہے کہ خدا کے ساتھ شریک ٹھرانا اور کسی مؤ من کو مار ڈالنا جنگ کے مو قع پر راہ خدا سے بھاگنا اور ماں باپ کو ناراض کرنا اسی طرح اخباری کتابوں میں عاق والدین کاگناہ کبیر ہ میں سے یا تمام گنا ہوں سے بڑا گناہ ہو نے پر بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں۔چنا نچہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا:” الذ نوب التی تظلم الھواء عقوق الوالدین”( ٢)گناہوں میں سے جو فضاء کو تاریک اور آلودہ کرتا ہے وہ عاق والدین کا گناہ ہے ۔ان مذ کو رہ احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین کو ناراض کرنا سب سے بڑا گناہ ہے اس گنا ہ کے نتیجہ میں اولاد کی زندگی برباد ہو نے کے علاوہ رب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) میزان الحکمتہ باب العقوق .(٢) بحارالانوار، ج٨٤ ، نقل از کتاب ارزش پدر ومادر .
———————————
العزت کے فیض وکرم سے محروم ہو جاتا ہے لہٰذا حضرت امام علی علیہ السلام کے دور میںآپ ایک دفعہ رات کے آخری وقت اپنے فرزند بزرگوار امام حسن علیہ السلام کو لے کر کنار خانہ کعبہ خدا سے مناجات کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک مسکین خانہ کعبہ میں خدا سے راز ونیاز کرتے ہو ئے آنسو بہارہا ہے ۔امام علیہ السلام نے اس کی اس حالت کو دیکھ کر امام حسن علیہ السلام سے فرمایا اے بیٹا حسن ؑاس مسکین کو میرے پاس لے کر آنا اما م حسن ؑمسکین کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ مسکین بہت غمگین حالت میں پڑا ہے لہٰذا کہنے لگے اے خدا کے بند ے تجھے حضرت پیغمبر (ص) کے چچا زاد بھائی کی دعوت ہے لہٰذا اٹھ ۔جب مسکین نے امام علی ؑکی دعوت کو امام حسن ؑکی زبان سے سنا تودوڑتا ہوا امام علی ؑکی خدمت میں پہنچا تو امام نے اس سے پو چھا اے مسکین تیری کیا حاجت ہے ؟مسکین نے کہا: اے میرے مو لاحقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے باپ کو اذیت پہنچائی ہے کہ جس کی بنا ء پر میرے والد نے مجھے عاق کردیا ہے اس کے نتیجہ میںمیرے بدن کا نصف حصہ فالج کی بیماری میں مبتلا ہے۔مام (ع)نے فرمایا: یہ بتاؤ تم نے باپ کو کیا اذیت پہنچا ئی تھی؟وہ کہنے لگا کہ میں ایک جوان اور عیاش بندہ تھا کہ ہر قسم کے گناہ میں مرتکب ہو تا تھا باپ مجھے گناہ کرنے سے منع کرتے تھے لیکن میں ان کی نصیحت پر عمل نہ کرنے کے علاوہ دوسرے گنا ہوں کا زیادہ مرتکب ہوا کہ حتی ایک دن میں کسی گناہ کا مرتکب تھا اس وقت میرے باپ نے مجھے منع کیا تو میں نے اس کے جواب میں ایک لاٹھی لے کر باپ کو مارنے لگا تو باپ نے ایک لمبی سانس لی اور اسکے بعدمجھ سے کہنے لگے کہ آج ہی میں خانہ کعبہ جاکر تجھے عاق اور نفرت کروں گا ۔باپ نے مجھے عاق کیا جس کے نتیجہ میں میرے بدن کا نصف حصہ فالج کی بیماری سے دو چار ہوا ہے اس وقت اس مسکین نے بدن کے مفلوج حصے کو امام علی علیہ السلام کو دکھایا،لیکن جب میں پشیمان ہوا تو میں باپ کے پاس گیا اور معذرت خواہی کی اورباپ سے در خواست کی کہ میرے حق میں دعا کریں باپ راضی ہو گئے اور خانہ کعبہ کی جس جگہ سے مجھے عاق کیا تھا اس جگہ میرے حق میں دعا کرنے کے بعد شہر مکہ کی طر ف جانے کی خاطر اونٹ پر سوار ہوئے جب کسی صحر ا میں میںپہونچے تو ایک پر ندہ آسمان کی طرف سے آنے لگا اور عجیب سے کوئی پتھر باپ کے اونٹ کی طرف پھینکا کہ جس کے نتیجہ میں باپ اونٹ سے گر کر دنیا سے چل بسے اور میں نے وہیں پر ہی دفن کیا ۔لہٰذا ابھی انھیں کی یاد میں رات کے وقت تنہا ئی کے حالت میں خدا سے رازونیا ز کررہا ہوں لیکن میرے باپ نے اظہاررضایت کی مگر میرے بدن کا مفلوج حصہ ٹھیک نہیں ہوا ۔امام علیہ السلام نے فرمایا:اے مسکین اگر تیر ا باپ تم سے راضی ہوا ہے تو تیری سلامتی کے لئے میں دعا کرتا ہوں امام نے دعا فرمائی کہ اس کے نتیجے میں مفلوج حصہ ٹھیک ہوا پھر امام اپنے فرزند بزر گوار کے پاس آئے اور فرمایا:” علیکم ببرالوالدین ”(١) تم پر والدین کے ساتھ نیکی کرنا فرض ہے لہٰذا کوئی ایسا عمل انجام نہ دیں جس سے تمہارے والدین تمہارے ساتھ نفرت کرنے لگیں ۔
ب۔ عاق والدین کی مذ متتعلیمات اسلامی کی روشنی میں روشن ہے کہ والدین کی عظمت بہت ہی زیادہ ہے لہٰذا والدین کو ناراض کرانا ان کے مشکلات کے موقع پر کام نہ آنا اور ان کے حقوق کو ادا کرنے میں کو تاہی کرنا اور ان کی خدمت انجام دینے سے انکار کرنا موجب عاق والدین بن جاتا ہے کہ جس کی شریعت اسلام میں بہت ہی مذ مت کی گئی ہے۔جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:” لو علم اﷲ شیا ہو ادنی من اف نہی عنہ وہو من اد نی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)کتاب ارزش پدر ومادر ،ص٣٨٩.
—————————
العقوق ومن العقوق ان ینظر الرجل الی والد یہ فیحدّ النظر الیھما”(١)یعنی اگر خدا کی نظر میں کلمہ اف سے کمتر کو ئی اور کلمہ ہو تا تو ما ں باپ کے حق میں اس سے منع کرتا کیونکہ کلمہ اف والدین کو ناراض کرنے والے الفاظ میں سے مختصر تر ین کلمہ ہے ۔ لہٰذا اگر کو ئی ما ں ،باپ کی طر ف ناراضگی کی حالت میں دیکھیں تو وہ بھی عاق والدین میں سے ہے۔
توضیح:مذکورہ روایت میں اگر غور کیا جائے تو دو مطالب کی طرف اشارہ ملتا ہے:١۔ عاق والدین متعددمراتب پر مشتمل ہے کہ ان مراتب میں سے کمترین مرتبہ والدین سے اف کہنا کہ اس مطلب کی طرف خدا نے بھی اشارہ فرمایا:( فَلاَتَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ وَلاَتَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا)(٢)٢۔ عاق والدین شریعت اسلام میں ایک مذموم کام ہے لہٰذاعاق والدین کے بارے میں امام ہادی علیہ السلام نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) جامع السعا دا ت ج٢ نقل از کتاب ارزش پدر ومادر .(٢)سورہ اسراء آیت ٢٣.
————————–
” العقوق یعقب القلۃ ویؤدی الی الذلۃ ”(١)یعنی عاق والدین دولت او رعمر میں کمی او رانسان کو ذلت وخواری کی طرف لے جانے والے اسباب میں سے ایک ہے۔پس معلوم ہوا کہ عاق والدین انسان کی زندگی نابود ہونے کا ذریعہ ہے چاہے دنیوی زندگی ہو یا اخروی۔چنانچہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم (ص) نے اشارہ فرمایا:”قال رسول اللّٰہ (ص) خمسۃ من مصائب الآخرۃ فوت الصلاۃ وموت العالم ورد السائل ومخالفۃ الوالدین وفوت الزکاۃ۔”(٢) آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ پانچ چیزیں اخروی زندگی کے لئے باعث مصیبت ہوجاتی ہیں:١۔نماز کا نہ پڑھنا۔٢۔ عالم دین کامرنا۔٣۔سائل کو مایوس واپس کرنا۔٤۔ ماں باپ کی مخالفت کرنا۔٥۔ زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) مستدرک نقل از کتاب ارزش پدر وماد.(٢) نصائح، ص ٢٢٢ نقل از کتاب ارزش پدر ومادر.
—————————
لہٰذا ماں باپ کی مخالفت اور ان کے عاق سے پرہیز نہ کرنے کی صورت میں دنیا وآخرت دونوں میں انسان مشکلات سے دوچار ہوتا ہے چنانچہ جناب زمخشری ( مولف تفسیر کشاف )کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی حادثہ میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی جب وہ بغداد پہونچے تو کسی نے ان سے اس کی علت پوچھی تو انہوں نے یوں جواب دیا کہ میں بچہ تھا اس وقت میں نے ایک چڑیا پکڑکر دھاگے سے اس کو باندھ دیا لیکن وہ چڑیا میرے ہاتھ سے نکل کر کسی سوراخ میں جانے لگی تو مجھے بہت غصہ آیا اس کے نتیجہ میں میں نے اس کو سوراخ سے کھینچ کر نکالنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی جب اس بات کی خبر میری ماں تک پہنچی تو میری ماں مجھ سے نفرت کرنے لگی اور دعا کی:” خدا تیری ٹانگ کو بھی اسی طرح بدن سے الگ کردے”اس کے نتیجہ میں میری ٹانگ کی یہ حالت ہوئی ہے کہ جب میں بالغ ہوا تو گھوڑے پر سفر کررہا تھا کہ اس سے اترتے وقت میری ٹانگ ایسی ہوگئی اور میں نے سارے ڈاکٹروں اور حکیموں سے علاج کرایا لیکن صحیح علاج نہ ہوسکا لہٰذا مجھے اپنی ٹانگ کو کٹوانا پڑا ۔(١)اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے عاق والدین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) نقل از کتاب ارزش پدر ومادر.
—————————
”ثلاثۃ من الذنوب تعجل عقوبتہا ولاتوأخر الی الآخرۃ عقوق الوالدین والبغی علی الناس وکفر الاحسان”(١)آپ نے فرمایاکہ تین گناہ ایسے ہیں جن کا عقاب قیامت آنے سے پہلے دنیا ہی میں دیا جاتا ہے:١۔ والدین کی مخالفت اور ناراضگی کا گنا ہ ۔٢۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنا ۔٣۔ نیکی کے بدلے میں بر ائی کرنے کا گناہ ۔اس طرح اسلامی کتابوں میں ماں باپ کی مخالفت اور عاق والدین کی مذمت کرتے ہوئے مختلف قسم کے نتائج قصہ وکہانی کی شکل میں ذکر کیا ہے کہ اس کا مقصد ہمارے لئے عبرت ہے ۔جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں مدینہ منورہ میں ایک شخص دولت مند اور جوان تھا اور اس کا ایک ضعیف باپ بھی تھا اس جوان نے اپنے باپ کا احترام کرنا چھوڑدیا نتیجہ خدا نے اس کی پوری دولت ختم کرکے فقر وتنگدستی اور بیماری میں مبتلا کردیا اس وقت پیغمبر اکرم (ص) اصحاب سے فرمانے لگے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) بحار الانوار ج ٧٣.
————————
”اے لوگو ! ماں باپ کی مخالفت اور ان کو آزار واذیت دینے سے پرہیز کرو کیونکہ ہمارے لئے اس دولت مند جوان کی حالت بہترین عبرت ہے کہ خدا نے اس کو والدین کی خدمت نہ کرنے کے نتیجے میں دولت وثروت کو فقر وفاقے میں تبدیل کردیا صحت وتندرستی کو چھین کر مرض میں مبتلا کردیا خدا نے اس کو والدین کی خدمت نہ کرنے کے نتیجہ میں دولت کے بدلے فقر ، صحت کے بدلے میں بیماری اور سعادت دنیوی سے محروم کردیا ہے،چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:”ایاکم ودعوۃ الوالد فانہ ترفع فوق السحاب یقول اللّٰہ عز وجل ارفعوہا الی استجیب لہ وایاکم ودعوۃ الوالدۃ فانہا احدّ من السیف” (١)تم لوگ باپ کی نفرت سے پرہیز کرو، کیونکہ جو شخص باپ کی نفرت سے پرہیز کرے گا وہ خدا کی نظر میں آسمانی ابر سے بلندتر ہے اور خدا ان کے حق میں فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو تاکہ میں تمہاری دعا کو قبول کروں، اس طرح ماں کی نفرت سے بھی پرہیز کرو کیونکہ ماں کی نفرت تلوار سے تیز ہے۔
تفسیر وتوضیح:مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں عاق والدین کے بارے میں روایات کو جمع کرنے کے بعد فرمایا کہ حقوق والدین کا ادا کرنا او ران کی نفرت سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) نقل از کتاب ارزش پدر ومادرص٣٨٨.
—————————-
بچنا بہت مشکل ہے لہٰذا بہترین ذمہ داری اطاعت الہٰی کے بعد ماں باپ کی اطاعت ہے پس ان کو اپنی جوانی اور خواہشات کی منافی قرار دینا ان کی نیک باتوں پر عمل نہ کرنا باعث عقاب ہے۔
ج۔عقوق والدین کا عقاب دنیامیںاگرچہ سارے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر گناہ کا حساب وکتاب اور ثواب وعقاب دنیا میں نہیں دیا جاتا بلکہ فلسفہ معاد ہی حساب وکتاب اور ثواب وعقاب ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جن کے ارتکاب کی صورت میں دنیا میں ہی عقاب کیا جاتا ہے کہ جن میں سے ایک عاق والدین ہے یعنی اگر کسی فرزند سے ماں باپ نے نفرت کی ہو تواس کا عقاب دنیا میں ہی دیاجاتا ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے:(اگرچہ اس روایت کو کسی مناسبت سے پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے)”ثلاثۃ من الذنوب تعجل عقوبتہا ولاتوأخر الی الآخرۃ عقوق الوالدین والبغی علی الناس وکفر الاحسان”(١)آپ نے فرمایاکہ تین گناہ ایسے ہیں جن کا عقاب قیامت آنے سے پہلے دنیا ہی میں دیا جاتا ہے :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) بحار الانوار ج ٧٣.
————————
١۔ والدین کی مخالفت اور ناراضگی کا گنا ہ ۔٢۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنے کا گناہ۔٣۔ نیکی کے بدلے میں بر ائی کرنے کا گناہ ۔نیز دوسری روایت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:”کل الذنوب یوخر اللّٰہ تعالیٰ ما شاء منہا الی القیامۃ الا عقوق الوالدین فان اللّٰہ یعجلہ لصاحبہ فی الحیاۃ الدنیا قبل الممات”(١) یعنی خداوندعالم ہر گناہ کے عقاب کو قیامت تک تاخیر کرتا ہے مگر عاق والدین، کیونکہ عاق والدین میں مرتکب افراد کو خدا دنیا ہی میں مرنے سے پہلے عقاب کرتا ہے۔
توضیح وتفسیر:گناہ کی دوقسمیں ہیں:١۔ وہ گناہ جس کا عقاب دنیا وآخرت دونوں میںہوتا ہے۔٢۔ وہ گناہ جس کا عقاب دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ضرور ہو گا۔عاق والدین ایسا گناہ ہے کہ اس کا عقاب دنیا وآخرت دونوں میں کیا جاتا ہے لہٰذا متعدد روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ عاق والدین سب سے بڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) نہج الفصاحہ ص ٤٥٨.
————————-
گناہ ہے،کہ شاید اسی بناء پر خدا عاق والدین کے گناہوں کو معاف نہیں کرتا ہے بلکہ دنیا ہی میں اس کو عقاب کیا جاتا ہے ۔حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”قال النبی یقال للعاق اعمل ما شئت فانی لااغفرک ویقال للبار اعمل ماشئت فانی ساغفر لک ”(ا)آپ نے فرمایا جو شخص عاق والدین ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ تو جو کچھ چاہے کرلے میں کبھی بھی تیرے گناہوں کو معاف نہیں کروں گا لیکن جو شخص ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ تو جو چاہے کر ے میں تیرے گناہوں کو عنقریب معاف کردوں گا ۔یعنی آنحضرت (ص)حقیقت میں مغفرت اور گناہوں سے نجات ملنے کی شرط کو بیان کرنا چاہتے ہیں:جو شخص ماں باپ کو ناراض کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ تو جو چاہے کرے لیکن میں کبھی بھی تیرے گناھوں کو معاف نہیں کروں گا لیکن جو شخص ماں، باپ کے ساتھ نیکی کرکے ان کو خوش کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ تو جو چاہے کر ے میں ضرور تیرے گناہوں کو عنقریب معاف کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ا)بحارالانوار، ج ٧٤.
————————-
توضیح و تحلیل :اس مذکورہ روایات کی مانند بہت زیادہ روایات نقل کی گئی ہیں کہ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص والدین کے احترام اور حقوق ادا کرنے سے محروم ہوجاتا ہے تو خدا اس کے کسی بھی کار خیر اور عبادت کو قبول نہیں کرتا اسی لئے کچھ روایات میں عاق والدین کے بارے میں اس طرح کی تعبیر وارد ہوئی ہے کہ”اعمل ماشئت من الطاعۃ ”پھر بھی میں تیری عبادت کو قبول نہیں کروں گا پس عاق والدین بہت مشکل کام ہے خدا ہمیں عاق والدین سے نجات دے اور ہماری جوانی خوبصورت بیوی اور کوٹھی ،والدین کے احترام کو پامال کرنے کا سبب نہ بنے کیونکہ جوانی، خوبصورت بیوی اور کوٹھی عاق والدین کاسبب ہے تب بھی تو قدیم زمانہ میں کسی عمر رسیدہ ضعیف باپ کا ایک نوجوان بیٹا تھاجس کی شادی ایک خوبصورت خاتون سے ہوئی تھی اور عمر رسیدہ ضعیف باپ کچھ عرصہ جوان بیٹے کے ساتھ ایک ہی گھر میں زندگی گزار رہے تھے پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جوان بیٹا اور خوبصورت دلہن جوانی کی مستی میں عمر رسیدہ باپ کو اپنے مزاج کے منافی سمجھنے لگے۔لہٰذا ایک ہی دستر خوان پر ساتھ کھانا کھانا صفائی اور پاکیزگی کے منافی قرار دینے لگے اور عمر رسیدہ باپ کو الگ دستر خوان پر کھانا کھلا نا شروع کیا زیادہ مدت نہ گزری تھی اتنے میں ضعیف باپ کے پوتہ نے اس حالت کو دیکھا تو پوتا اگرچہ چھوٹا تھا لیکن جوان باپ اور جوان ماں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا:جو سلوک آپ لوگوں نے مرے دادا کے ساتھ کیا ہے وہی سلوک ان کے پوتے آپ لوگوں کے ساتھ بھی کریں گے یہ سنکر جوان بیٹا اور جوان بیوی متاثر ہوے اور باپ کو دوبارہ اپنے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھلانا شروع کردیا اور ان کا احترام کرنا شروع کیا لہٰذا ہر جہات سے والدین کا احترام بہت مشکل ہے(ا)
د۔عاق والدین کے مراتبعاق والدین کے مراتب مختلف ہیں یعنی کچھ حالتوں میں عاق والدین کا عقاب دوسری حالت کی نسبت کم ہے جیسے کسی نے ماں ،باپ کی (نعوذ باللہ ) پٹائی کی ہو کسی نے ماں ،باپ کی باتوں پر عمل نہیں کیا ہو یہ دونوں عاق والدین ہیں لیکن باتوں پر عمل نہ کرنے کا عقاب مارنے پیٹنے کی نسبت کم ہے ،لہٰذا روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ادنی ترین عاق والدین کا مرتبہ ان سے اف کہناہے یاناراضگی کی حالت میں ان کی طرف دیکھنا ہے لہٰذا اولاد اور فرزندان یہ خیال نہ کریں کہ ہم والدین کو مارنے پیٹنے کا مرتکب نہیں ہیں پس ہم عاق والدین سے محفوظ ہیں کیونکہ عاق والدین کے مراتب میں سے ادنی ترین مرحلہ ان کو غم وغصہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ا)داستانھای شیرین شنیدنی .
—————–
حالت میں دیکھنا ان کو اف کہنا ہے تب بھی تو قرآن میں فرمایا :” ولا تقل لھما اف ”یعنی ماں،باپ کو اف تک نہ کہو کیوں کہ یہ عاق والدین کے مراحل میں سے پائین ترین مرحلہ ہے چنانچہ اس مطلب پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایاہے :” لو علم اﷲ شیا ادنی من اف نہی عنہ ہومن ادنی العقوق ومن العقوق ان ینظر الرجل الی والدیہ فیحد النظر الیہما (ا)اگر خدا کی نظر میں کلمہ اف سے کمتر کوئی اور کلمہ ہوتا تو اس سے بھی نہی کرتا کیونکہ وہ عقوق کے مراحل میں سے کمترین مرحلہ ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ماں،باپ کی طرف غم وغصہ کی حالت میں دیکھے تو اس سے بھی عاق والدین ہوجاتا ہے ۔توضیح و تحلیل :یعنی ہر وہ فعل وقول جو ماں ،باپ کے بے احترامی کا باعث بنتا ہے اور ان کی ناراضگی کا سبب ہوجاتا ہے وہ عاق والدین ہے چاہے کم ہو یا زیادہ، لہٰذا ایک روایت میں امام نے فرمایا اگر کسی نے ماں ،باپ کی طرف ناراضگی کی حالت میں دیکھا تو خدا اس کی عبادت قبول نہیں کرتا اگر چہ ماں، باپ نے اس پر ظلم ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ا) بحار الانوار، ج ٧١ ص ٦٤.
————————–
کیوں نہ کیا ہو،اسی لئے عبادت کی قبولیت کی شرط احترام والدین ہے۔پس وہ لوگ جو دولت اور عمر میں ترقی کے خواہاں ہیں تو ہمشہ والدین کو خوش رکھیں، کیونکہ والدین کی خوشی ہمار ی آبادی اورسعادتمندی کا ذریعہ ہے اور ان کی ناراضگی ہماری نابودی اور ہر قسم کی خیرو برکت سے محروم ہونے کا سبب ہے ،لہٰذا ہر معاشرے میں ایسے افراد بطور شاہد ملیں گے جنہوں نے والدین کے حقوق کو ادا نہیں کیا جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں کامیابی اور عزت جیسی نعمت سے محروم اور توہین وذلت ،بیماری، فقر و فاقہ کے شکار نظر آتے ہیں۔اسی لئے آئمہ معصومین علیہم السلام کے فرامین اور ذرین اقوال کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ والدین کا احترام اور ان کے حقوق ادا کرنا حقیقت میں ہماری آیندہ زندگی کی آبادی کا ذریعہ ہے اور والدین کے ناراض ہونے کے مختلف مراحل و مراتب ہیں کچھ مراحل کا عقاب دنیا آخرت دونوں میں کیا جاتاہے کچھ مراحل اور مراتب کا عقاب صرف آخرت میں ہے کچھ مراتب کا عقاب عالم دنیا اور موت کے وقت کیا جاتا ہے کچھ مرتبوں کا عقاب عالم برزخ اور قبر کی تنہائی کے موقع پر کیا جاتاہے ۔
ز۔عاق والدین جنت سے محروم ہونے کا ذریعہدور حاضر کے اکثر انسان جنت اور جہنم کے منکر ہیں کیونکہ وہ لوگ مادی زندگی کے بعد معنوی اور ابدی زندگی کے نام کی کسی چیزکے قائل نہیں ہیں لہٰذا اس مادی زندگی کی آبادی کی خاطر خواہشات کے منافی ہر عامل سے مقابلہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور تعلیمات اسلامی پر سلب آزادی اور خواہشات کے منافی قرار دیتے ہوے طرح طرح کے اشکال کرتے ہوے نظر آتے ہیں اسی لئے خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر ہر قسم کے عجائب گھر اور خواہشات کی سازگار چیزوں کا تعارف کرارہے ہیں لیکن جو قرآن و سنت کے معترف ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ مادی زندگی معنوی زندگی کا مقدمہ ہے چنانچہ وہ لوگ تعلیمات اسلامی کے پابند ہوجاتے ہیں تاکہ روز قیامت جنت سے محروم نہ رہیں لہٰذا اگر کوئی شخص ماں ،باپ کے حقوق اور احترام کو پابندی سے انجام دے تو نتیجہ جنت ہے لیکن اگر مسئلہ بر عکس ہو یعنی ماں، باپ کا احترام نہ رکھیں اور عاق والدین کا مصداق بنے تو ایسا شخص روز قیامت جنت سے محروم ہوگا۔چنانچہ اس مطلب کو امام صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :”قال الصادق علیہ السلام اذا کان یوم القیامۃ کشف غطاء من اغطیۃ الجنۃ فوجد ریحھا من کانت لہ روح من مسیرۃ خمس ماۃ عام الا صنف واحد قلت ومن ہم قال العاق الولدین”(ا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ا) نہج الفصاحۃص ٦٧.
———————–
امام نے فرمایا کہ جب قیامت برپا ہوگی تو خدا وند جنت کے پردے کو ہٹادے گا تو سوائے ایک گروہ کے باقی سارے مؤمنین پانچ سو سال کے عرصے میں طے کرنے والی مسافت سے پہلے جنت کی خوشبو سونگھ لےں گے اس وقت راوی نے کہا کہ میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا وہ گروہ کون ہے جو جنت کی خوشبو سے محروم ہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا : وہ عاق والدین کا مصداق بننے والا ہے۔نیز دوسری روایت میں پیغمبر اکرم (ص) نے یوں ارشاد فرمایا :”ایاکم وعقوق الوالدین فان ریح الجنۃ توجد من مسیرۃ الف عام ولا یجد ہا عاق ولا قاطع رحم” (١)اے لوگو! تم والدین کی نفرت سے بچو کیونکہ ہر جنتی کو جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت پہلے احساس کرے گا لیکن جو عاق والدین کا مصداق ہے اور صلہ رحمی سے محروم ہے وہ جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔
توضیح وتحلیل :مذکورہ روایات سے یہ استفادہ ہوجاتا ہے کہ ہر جنتی جنت میں جانے سے پہلے نعمت اور خوشبو سے بہرہ مند ہوجاتا ہے لیکن جو شخص دنیا میں ماں ،باپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) کافی ج ٢ ص ٣٤٩ .
————————–
احترام اور ان کے حقوق ادا کرنے سے محروم رہا ہے اس کو قیامت کے دن جنت اور جنت کی خوشبو سے محروم رکھا جائے گا۔لہٰذا اگر جنت اور جنت کی خوشبو سونگھنے کی خواہش ہے تو ماں ،باپ کے احترام کو عملی جامہ پہنائیں ماں ،باپ کو عمر رسیدہ اور ہر قسم کی ناتوانی کی حالت میں مزاحم نہ سمجھیں کیونکہ خداوند عالم کی اطاعت کے بعد انبیاء اور آئمہ معصومین نے جن ہستیوں کی اطاعت ہم پر لازم قرار دیا ہے وہ ماں ،باپ ہیں لہٰذا ماں ،باپ کے حقوق کی رعایت فطرت اور عقل کی چاہت ہونے کے علاوہ کتاب و سنت میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔
ر۔والدین کے حق میں نمازپیغمبر اکرم حضرت محمد ؐنے فرمایا :”العبد المطیع لوالدیہ ولربہ فی اعلی علیین ”(١)”ہر وہ بندہ جس نے اپنے والدین اور اپنے رب کی اطاعت کی وہ آخرت میں سب سے عالی ترین مقام پر فائز ہوجائے گا ۔”نیز امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) نہج الفصاحہ.
————————-
”وانظر وا ہل تری احدا من البشر اکثرنعمۃ علیک من ابیک وامک”(١)غور کریں کیا کوئی ایسا انسان پائیں گے جس نے ماں ،باپ سے بڑھ کر تمہارے لئے نعمت دی ہو ۔ماں ب،باپ کی اتنی عظمت کی وجہ سے ان کے نام دو رکعت نماز ان کی طلب مغفرت کی خاطر مستحب قرار دیا گیا ،جو ہماری فقہی اوردعاؤں کی کتابوں میں معروف ہے اس نماز کو انجام دینے کی بہت تاکید کی گئی ہے تاکہ والدین اگر اولاد پر ناراض ہیں تو اس نماز کی برکت سے خدا ان کے درجات میں اضافہ کرنے کی وجہ سے والدین اولاد پر خوش ہوجاتے ہیں جس کو انجام دینے کی کیفیت درج ذیل ہے :
نیت:میں ماں، باپ کی دو رکعت نماز انجام دیتا ہوں قربۃ الی اللہ کہہ کر تکبیرۃ الاحرام پڑھے پھر پہلی رکعت میں حمد کے بعد دس مرتبہ یہ آیت پڑھیں :”رب اغفرلی ولوالدییّ وللمومنین یوم یقوم الحساب ”پھر رکوع وسجود انجام دینے کے بعد دوبارہ کھڑے ہوجاے اور دوسری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) کشکول ج٢.
———————
رکعت میں حمد کے بعد یہ دعادس مرتبہ پڑھیں :”رب اغفرلی ولوالدیّ ولمن ادخل بیتی مومنا والمومنین والمومنات ”پھر قنوت انجام دے پھر رکوع و سجود انجام دینے کے بعد سلام و تشہد پڑھیں، پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد تعقیبات میں دس مرتبہ یہ دعا پڑہیں :”رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا”(١)پالنے والے میرے ماں ،باپ پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے۔شریعت اسلام میں والدین کے نام نماز مستحب قرار دینا ، اس بات کی دلیل ہے کہ والدین کا مقام اللہ تعالی اور شریعت اسلام کی نگاہ میں بہت عظیم ہے کیونکہ شریعت میں معصومین علیہم السلام کے بعد سوائے والدین کے اور کسی عام انسان کے نام کوئی نماز مستحب نہیں ہے ۔یہ حقیقت میں والدین کی عظمت پر ایک ایسا اشارہ ہے جس سے انسان حیران رہ جاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)مفاتیح الجنان، ص ٣٩٤.
—————————–
خاتمہ”لایکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا ”خدا وند نے کسی بھی انسان کو اسکی قدرت سے بالا تر کوئی تکلیف نہیں دی ہے لہٰذا دور جدید میں خیالات اور تفکرات کو زمانہ کے تقاضوں کے مطابق جمع بندی کرنا اخلاقی فرائض میں سے ایک ہے لیکن بہت ہی مصروفیات اور قلت وقت کی وجہ سے گذشتہ قضا یا کی توضیحات صرف آیات اور روایات کی حد تک رہی ہے اگرچہ حقوق والدین کی بحث اور اس کا موضوع بہت اہم ہونے اور روایات میں وسیع پیمانہ پربیان ہونے کی وجہ سے پورا سیر بحث مکمل کرنا بہت ہی دشوار ہے کیونکہ احترام والدین آیات وروایات میں مفصل بیان کرنے کے علاوہ فطری اور عقلی بھی ہے لہٰذا اس کو عقل اور فطرت کی روشنی میں توضیح دینا آج کل کے ہر محقق کا پسندیدہ نظریہ ہے لیکن بہت سے افراد قضایائے عقلی اور فطری کو مشکل سمجھتے ہیں لہٰذا بہت ہی احتیاط کے ساتھ احترام والدین سے مربوط عناوین کو سادہ سے سادہ الفاظ میں توضیح دیے ہیں تاکہ خوش نصیب افراد کے لئے احترام والدین اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا باعث بنے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.