شوہر خاندان كا سرپرست

235

 گھر كى سرپرستى يا تو مرد كے سپرد ہو اور عورت اس كى اطاعت كرے يا پھر عورت سرپرست ہو اور مرد اس كى فرمانبردارى كرے ليكن چونكہ يہ كام مرد زيادہ بہتر طريقے سے انجام دے سكتے ہيں كيونكہ ان كے جذبات پر ان كى عقل غالب نہيں آتى _ اسے لئے خداوند حكيم و دانا نے يہ بڑى ذمہ دارى مرد كے كندھے پر ڈالى ہے _ قرآن مجيد ميں خداوند عالم كا ارشاد ہے :_
”مرد عورتوں كے سرپرست ہيں ، كيونكہ خدا نے بعض افراد(مرد) كو بعض افراد (عورت)پربرترى عطا كى ہے _ اور چونكہ (مردوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ كيا ہے ، پس نيك عورتيں اپنے شوہروں كى فرماں بردار ہوتى ہيں” (88)اس بناء پر خاندان كى فلاح و بہبودى اسى ميں ہے كہ مرد كو خاندان كا سرپرست اوربزرگ كا درجہ ديا جائے اور سب اس كى رائے و مشورہ كے مطابق كام كريں ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ عورت كے مقام و عزت ميں كمى آجائے گى _ بلكہ گھر كے نظم و ضبط اور ترتيب و انتظام كے لئے يہ چيز لازم و ملزوم ہے _ اگر خواتين اپنے بيجا تعصب اور خام خيالات سے قطع تعلق كركے غور كريں تو ان كا ضمير بھى اس بات كو قبول كرے گا _ايك خاتون كہتى ہے كہ ہمارے ايران ميں ايك بڑى اچھى رسم تھى جو افسوس كہ رفتہ رفتہ ختم ہوتى جارہى ہے _ رسم يہ تھى كہ ايرانى خاندان ميں مرد ہميشہ خاندان كا بزرگ و سرپرست مانا جاتا تھا _ ليكن اب گھر كى حالت متزلزل ہوتى جارہى ہے اور خاندان گھر كے سرپرست كے انتخاب ميں حيران و پريشان رہ گيا ہے _ ليكن بہتر ہے كہ آج كى عورت جس نے بہت سے سماجى مسائل ميں مرد كے برابر حق حاصل كرليا ہے ، گھر ميں مرد كو سرپرست كى حيثيت سے تسليم كرے _جب لڑكى كى شادى ہو تو اسے اس قديمى نصيحت كو ياددلانا چاہئے كہ ”عروسى كو جوڑا پہن كر شوہر كے گھر ميں داخل ہوئي ہو اب كفن پہن كرہى اس گھر سے نكلنا” (89)
البتہ مرد كے روزمرہ كے مشاغل اورزندگى كى فكريں عموماً اسے اجازت نہيں ديتيں كہ گھر كےتمام امور ميں دخل دے _ در حقيقت كہا جا سكتا ہے كہ كاموں كاايك حصہ عملى طور پر خاتون خانہ كے سپرد ہوتاہے اور زيادہ تر كام اسى كے ارادے اور مرضى كے مطابق انجام پاتے ہيں ليكن ہر حال ميں مرد كے حق حاكميت اور سرپرستى كا احترام كرنا چاہئے _ اگر كسى بات ميں وہ اپنى رائے ظاہر كرے اور دخل اندازى كرے خواہ خانہ دارى كے جزوں مسائل ہى كيوں نہ ہوں تو اس كى رائے اور تجويز كو رد نہيں كرنا چاہئے كيونكہ يہ چيز اس كے حق حاكميت سے انكار كے مترادف ہوگى اور چونكہ اس بات سے اس كى شخصيت مجروح ہوگى اس لئے اپنے آپ كو شكست خوردہ اور اپنى بيوى كو بے ادب ، حق ناشناس ، اور ضدى خيال كرے گا _ زندگى سے اس كى دلچسپى كم ہوجائے گى اور اپنى بيوى كى جانب سے اس كے دل ميں لا تعلقى پيدا ہوجائے گى _ چونكہ اس كى شخصيت مجروح ہوئي ہے ممكن ہے اس كى تلافى اور انتقام كى فكرميں رہے _ حتى كہ اپنى بيوى كے معقول اور مناسب مطالبات كے مقابلے ميں بھى سختى سے كام لے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشاد گرامى ہے :” اچھى عورت اپنے شوہر كى بات پر توجہ ديتى ہے _ اور اس كے كہنے كے مطابق عمل كرتى ہے ” _ (90) ايك عورت نے رسول خدا (ص) سے پوچھا كہ بيوى پر شوہر كے كيا فرائض عائد ہوتى ہيں _ فرمايا: اس كى اطاعت كرے اور اس كے حكم كى خلاف ورزى نہ كرے” _ (91)پيغمبر اسلام (ص) كا يہ بھى ارشاد گرامى ہے كہ ”بدترين عورتيں ، ضدى اور ہئيلى عورتيں ہيں” (92)رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :” بدترين عورتيں وہ ہيں جو بانجھ ، گندى ، ضدى اور نافرمان ہوں” (93)
خواہر گرامى اپنے شوہر كو خاندان كے بزرگ اور سرپرست كى حيثيت ديجئے _ ان كى رائے و مشورہ كے مطابق كا انجام ديجئے _ ان كے احكام كى خلاف ورزى نہ كيجئے اگر كسى كام ميں مداخلت كريں تو اس كے مقابلے ميں سختى نہ دكھايئے خواہ امور خانہ دارى ہى ميں كيوں نہ دخل دے _ حالانكہ اس معاملہ ميں آپ زيادہ بہتر جانتى ہيں _عملى طور پر اپنے شوہر كے اختيارات كو سلب نہ كيجئے اگر كبھى كاموں ميں دخل اندازى كرتا ہے اور اپنى بزرگى جتا كر خوش ہوتا ہے تو اسے خوش ہولينے ديجئے _ اپنے بچوں پر اپنے عمل كے ذريعہ واضح كيجئے كہ وہ خاندان كا سرپرست ہے _ اور انھيں بتاتى رہئے كہ كاموں ميں اپنے باپ سے اجازت ليں اور اس كے حكم كى خلاف ورزى نہ كريں _ بچپن سے ہى انھيں اس بات كى عادت ڈالوايئےا كہ فرمانبردار ، مہذب و باادب بنيں اور بات سننا سيكھيں اور آپكى اور آپ كے شوہر كى عزّت كريں _
———————-88_ سورہ نساء آيہ 34 الرجال قوامون على النساء بما فضّل89_ روزنامہ اطلاعات 8 اگست سنہ 197290_ بحار الانوار ج 103 ص 23591_ بحارالانوار ج 103 ص 248
92 _ مستدرك ج 2 ص 53293_ شافى ج 2 ص 129
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.