اسلام میں تعلیم و تربیت

300

اس مو ضوع کے بارے میں جوآیات اور روایات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے جانشینوں سے ہم تک پہنچی ہیں ،وہ بے شمار ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علم حاصل کرنے کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ آپۖ نے فرمایا: ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے”(١)۔…………..١۔ ”طلب العلم فریضہ علی کل مسلم” (بحار الانوار ، ج ١، ١٧٢)۔
اسلامی تعلیمات کے دواہم شاہکارمختلف انسانی معاشروں میں موجود ہر روش میں کچھ اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں، اگر وہ اسرارعام لوگوں پر ظاہر ہوجائیں، تو معاشرے کو چلانے والے حکام اور ان کی شہوانی خواہشات متاثر ہوتی ہیں، اس لئے وہ ہمیشہ کچھ حقائق کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور اس مطلب کاسبب یہ ہے کہ بہت سے مطالب اور ضوابط ان کے دماغ کی اپج ہوتے ہیں، چونکہ انھیں اپنی عقل اورمعاشرے کی مصلحت کے خلاف پاتے ہیں، اس لئے ڈرتے ہیں کہ اگر یہ اسرار فاش ہوگئے تو ان پر اعتراضات کی بوچھار ہوجائے گی اور ان کے مفاد خطرہ میں پڑجائیں گے۔اسی وجہ سے عیسائیوں کے کلیسا اور دوسرے ادیان کے روحانی مراکز انسان کو آزادانہ غور و فکر کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، بلکہ دینی معارف او رمذہبی کتابوں کی توضیح و تفسیر کا حق صرف اپنے سے مخصوص کرتے ہیں اور لوگوں کوان کی ہر بات چون وچرا اور بحث ومباحثہ کے بغیر قبول کرناہوتی ہے۔ اسی روش نے بہت سی دینی روشوں کو نقصان پہنچایا ہے اور عیسائیوں کی موجودہ روش اس بیان کی سچائی کی گواہ ہے۔ لیکن اسلام اپنی حقانیت پر اطمینان و اعتماد رکھتاہے اور اپنی راہ میں کسی قسم کے مبہم اور تاریک گوشہ کو نہیں پاتا اس لئے دوسرے تمام مذہبی اور غیر مذہبی طریقوں کے برخلاف حسب ذیل دومسائل پرزیادہ توجہ دیتاہے:١۔ اسلام کسی بھی حقیقت کو پوشیدہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اپنے پیرؤں کو اس بات کی اجازت دیتاہے کہ کسی حقیقت کو چھپائیں، کیونکہ اس مقدس دین کے قوانین فطرت اور خلقت کے قانون کے مطابق مرتّب ہوئے ہیں اور حق و حقیقت کی روسے اس کی کوئی چیز قابل تردید نہیں ہے۔اسلام میں، حقائق کو چھپانا گناہان کبیرہ میں شمار ہوتاہے اور خدائے متعال نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٩ میں حق کو چھپانے والوں پر لعنت کی ہے۔٢۔ اسلام اپنے پیرؤں کو حکم دیتاہے کہ حقائق او رمعارف کے بارے میں آزادانہ طور پر غور و فکر کریں اور جہاں پر بھی معمولی سا ابہام نظر آئے ، و ہیں رک جائیں اور آگے نہ بڑھیں تا کہ ان کا روشن ایمان شک و شبہہ کی تاریکی سے ہمیشہ کے لئے محفوظ رہے اور اگر شک و شبہہ سے دوچار ہوجائیں تو نہایت انصاف اور حق پسندی سے اس کو رفع کرنے کی کوشش کریں اور آزادانہ طور پر ان کو حل کریں ۔ خدائے متعال فرماتاہے:”جس چیز کاتمھیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جاؤ۔( ١)”
آزادی فکر اور حق پوشیغور و خوض کے ذریعہ حقائق کو درک کرکے انھیں قبول کرنا انسان کے ذہن و دماغ کی گراں قیمت پیدا وار ہے اور انسان کو حیوان پر امتیاز ، فضیلت ، شرف او رفخر بخشنے کاواحد سبب ہے، اور انسان دوستی و حقیقت پسندی کی فطرت کردیا جائے، تقلیدی افکار کوتھوپ کرانسان کی آزادی فکر کو سلب کرلیا جائے یا حقائق کو چھپا کر اس کی عقل کو گمراہ کردیا جائے۔ مختصر یہ کہ اسبابات کی اجازت نہیں دیتی کہ خدا پسند افکار کو ناکارہ بنادیا جائے ۔ لیکن اس حقیقت سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے کہ جہاں پر انسان کسی حقیقت کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتا یا مد مقابل کی ہٹ دھرمی اور سخت رویہ کی وجہ سے ومنزلت کے لئے،١۔ (ولا تقف مالیس لک بہ علم…)(اسرائ/٣٦)۔انسان کے ذہن ودماغ کی گمراہی اور دوسرے مالی، جانی اور عزت کو پہنچنے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے حقائق کی پردہ پوشی کو جائز سمجھتی ہے۔ائمہ اطہار علیہم السلام نے اپنی بہت سی حدیثوں میں لوگوں کو بعض ایسے حقائق کے بارے میں غور و فکر کرنے سے منع کیا ہے جن کو سمجھنے کی انسان میںاستعداد نہیں ہوتی۔ خدائے متعال نے بھی اپنے کلام میں دوموقعوں پر تقیہ کے طور پر حق چھپانے کو جائز جاناہے۔(١)…………..١۔سورہ آل عمران، آیت ٢٨ اور سورہ نحل آیت١٠٦۔
نتیجہاسلام چند مواقع پر حق وحقیقت کے چھپانے کو بلامانع بلکہ ضروری سمجھتاہے:١۔ تقیہ کے موقع پر : یہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں حق کے آگے بڑھنے کی کوئی امید نہیں ہو، بلکہ اس کے اظہار سے مال، جان اور عزت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔٢۔ ایسے موقع پر جہاں حق کسی کے لئے قابل فہم نہ ہو بلکہ اس کا اظہار گمراہی کاسبب بنے یا خود حق کی بے حرمتی کا باعث ہو۔٣۔ ایسے مواقع پر جہاں آزاد فکر، استعداد کے فقدان کی وجہ سے، حق کو بر عکس دکھاتے اور گمراہی کاسبب بنے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.