عدالت

195

قرآن مجیداورائمہ دین کی روایتوں کے مطابق عدالت کی دوقسمیں ہیں:انفرادی عدالت اوراجتماعی عدالت ۔عدالت کی یہ دونوں قسمیں دین مبین اسلام کی نظر میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔
انفرادی عدالتانفرادی عدالت سے مرادوہ عدالت ہے کہ انسان جھوٹ ،غیبت اوردوسرے گناہان کبیرہ سے پرہیز کر ے اور دوسرے گناہوں کوباربار انجام نہ دے .جس میں یہ صفت ہو ،اسے عادل کہتے ہیں اوراسلام کے قوانین کے مطابق ایساشخص جج ،حاکم ،تقلید ،اوردیگر اجتماعی ذمہ داریوں کوسنبھال سکتا ہے ۔لیکن جس میں یہ دینی صفات موجودنہ ہوں وہ ان اختیارات سے بہرہ مندنہیں ہوسکتاہے۔
اجتماعی عدالت”اجتماعی عدالت”سے مرادوہ عدالت ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کے بارے میں افراط وتفریط نہ کرے اورسب کو قانون الہٰی کے مقابلہ میں مساوی قراردے اور اجتماعی عدالت کو نافذ کرنے میں دینی مقررات کے حق سے تجاوزنہ کرے،جذبات میں نہ آئے اورسیدھے راستہ سے منحرف نہ ہو ۔خدائے متعال فرماتاہے:(انّ اللّہ یامربالعدل…) (نحل٩٠)”بیشک اللہ عدل کاحکم یتا ہے …”بیشمارآیتوں اور روایتوں میں گفتاروکردارمیں عدالت کے بارے میں حکم ہواہے اورخدائے متعال نے اپنے کلام پاک میں چندمواقع پر ظالموں پر صراحتاً لعنت بھیجی ہے ۔علم اخلاق میں ”عدالت” سے مرادملکات وصفات نفسانی میں میانہ روی ہے اور یہ صفت اس میں پائی جاتی ہے جوانفرادی واجتماعی عدالت کی رعایت کرتا ہو۔
سچائیلوگوں کے درمیان آپس میں رابطہ،جوانسان کی اجتماعی بنیاد ہے، ”گفتگو”سے برقرارہوتی ہے ۔اس بنا پرسچ بات جو انسان کیلئے پو شیدہ حقیقت کو ظاہر کرتی ہے ،اجتماع کے ضروری ارکان میں سے ایک ہے ،اوراہم فائدے۔جن سے اجتماع ہرگز بے نیاز نہیںہے ۔سچ بات سے حاصل ہوتے ہیں ۔سچائی کے فوائد کومند رجہ ذیل چندجملوں میں بیان کیاجاسکتا ہے :١۔سچ بولنے والا،اپنے ہم جنسوں کے لئے قابل اعتمادہوتا ہے اور ان کواس کی ہربات کے بارے میںتحقیق کی ضرورت نہں ہوتی۔٢۔سچ بولنے والا،اپنے ضمیر کے مقا بلہ میں سربلنداورجھوٹ کے رنج سے آسودہ ہوتا ہے ۔٣۔سچ بولنے والا،اپنے عہدوپیمان کی وفاکرتا ہے اورجوامانت اسکے حوالہ کی جاتی ہے، اس میں خیانت نہیں کرتا ہے ،کیونکہ رفتار میں سچائی،گفتارکی سچائی سے جدانہیں ہے ۔٤۔سچ بولنے سے،اکثر اختلافات اورلڑائی جھگڑے ختم ہوجا تے ہیں،کیونکہ اکثر اختلافات اورجھگڑے اس لئے وجودمیں آتے ہیں کہ ایک طرف یا دونوں طرف کے لوگ حق و حقیقت سے منکرہوتے ہیں ۔٥۔سچ بولنے سے ،اخلاقی عیوب اور قانون کی خلاف ورزی کا ایک بڑاحصہ خودبخودختم ہوجا تا ہے ،کیونکہ اکثر لوگ اسی قسم کے کردارکو چھپانے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :حقیقی مسلمان وہ ہے جو سچ بولنے کو۔ خواہ اس کے نقصان میں ہو ۔جھوٹ بولنے پر ترجیح دیتا ہے چاہے وہ اس کے لئے مفید ہی کیوں نہ ہواوراس طر ح وہ اندرونی سکون حاصل کرتا ہے۔(١)
جھو ٹ”جھوٹ”اسلام میں گناہ کبیرہ ہے،جس کے لئے خدائے متعال کے کلام میں یقینی عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔جھوٹ، صرف شرع میں ہی گناہ اور بر ا عمل نہیں ہے بلکہ عقل کی رو سے بھی اس کی برائی…………..١۔نہج البلاغہ صالح ، کلمات قصار نمبر ٤٥٨ دٹھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ۔واضح ہے ۔یہ ناپسندیدہ عمل ،معاشرے میں پھیلنے سے،تھوڑی ہی مدت میں لوگوں کے اجتماعی رابطہ یعنی اعتماد کو ختم کر دیتا ہے ،اوراس قسم کے رابطہ کے ختم ہونے سے ،لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہوتا لہذا ،انفرادی طورپرزندگی گزارتے ہیں ،اگر چہ بظاہر اجتماعی صورت دکھائی دیتی ہے ۔
جھوٹ کے نقصاناتسچ بولنے کے بارے میں مذکورہ بیان سے جھوٹ بولنے کے نقصانات بھی واضح ہو جاتے ہیں۔جھوٹ بولنے والا انسانی معاشرے کا نابکاردشمن ہوتا ہے اوراپنے جھوٹ سے،جو ایک بڑا جرم ہے ،معاشرے کوخراب کرڈالتا ہے ،کیونکہ جھوٹ،نشہ آورچیز کے مانند ہے جومعاشرے کی عقل وشعورکی طاقت کونابود کرکے حقائق پر پردہ پوشی کرتا ہے یاشراب کے مانندہے جولوگوں کو مست کرکے عقل کی طاقت کو برے اوربھلے میں تمیز کرنے سے بیکار بنادیتا ہے ۔اسی لئے اسلام نے جھوٹ کوگناہان کبیرہ میں شمار کیا ہے اور جھوٹ بولنے والے کے لئے کسی قسم کی دینی شخصیت کاقائل نہیں ہے۔پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”تین طائفے منافق ہیں ،اگرچہ وہ نمازبھی پڑھیں اورروزہ بھی رکھیں :جھوٹ بولنے والا،اپنے وعدہ پر وفانہ کر نے والااورامانت میں خیانت کرنے والا ہے”۔(١)…………..١۔میزان الحکمہ،ج١٠،ص١٥٤۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:”انسان جب ایمان کی لذت کوچکھ لیتا ہے ، تو جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اگر چہ مذاق میں بھی ہو۔”(١)
غیبت وتہمتدوسروں کی”بدگوئی”کرنا اوران کی سرزنش کرنا،اگرسچ ہوتو”غیبت”ہے اور اگرجھوٹ ہوتو”تہمت”ہے کبھی اسے”بہتان” بھی کہا جاتا ہے ۔البتہ پروردگار عالم نے انسان کو(پیغمبروںاورائمہ اطہار کے علاوہ)معصوم خلق نہیں کیاہے اورہرشخص خود میں موجود نقائص کی وجہ سے خطاو لغزش سے محفوظ نہیں ہے اور عام لوگ اس پردہ کے پیچھے زندگی کرتے ہیں جسے اللہ نے اپنی حکمت سے ان کے اعمال پر کھینچا ہے ۔چنانچہ اگر ایک لمحہ کے لئے اس الہیٰ پردے کوان کے نقائص اور عیوب سے ہٹا د یا جائے تو سب ایک دوسرے سے متنفرہو کربھاگ جائیں گے ،اور ان کے معاشرے کی عمارت زمین بوس ہوکرویران ہو جائیگی ۔اس لئے خدائے متعال نے غیبت کوحرام قراردیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے پیچھے امان میں رہیں ۔اور ان کی زندگی کاظاہری ماحول آراستہ ہوجائے تاکہ یہی ظاہری زیبائی تدریجا ًباطنی برائی کی اصلاح کرے۔…………..١۔اصول کافی ،ج٢،ص٣٤٠ ،ح١١۔خدائے متعال فرماتا ہے :(…ولایغتب بعضکم بعضًااٰیحبّ احدُکم ان یا کلَ لحم اخیہ میتاً…) (حجرات١٢)”…ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیاتم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گاکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟..””تہمت”کا گناہ اور اس کی برائی غیبت سے زیادہ شدید ہے اوراس کی برائی عقل کی رو سے واضح ہے ۔خدائے متعال نے اپنے کلام پاک میں اس کی برائی اورناجائز ہونے کو مسلم جاناہے اوربلا چون وچراذکر فرماتاہے:(انّمایفتری الکذب الَّذین لایؤمنون …) (نحل١٠٥)”بیشک جوایمان نہیںرکھتے ہیں وہ افتراکہتے ہیں …”
لوگوں کی عزت پر تجاوزاسلام میں عصمت دری ،گناہان کبیرہ میں سے ہے اورمواقع کے فرق کے مطابق اس جرم کے لئے سخت سزائیں ،جیسے کوڑے،سنگسار اورقتل وضع ہوئی ہیں۔اس برے عمل کی راہ کا کھلاہونا ،اگرچہ طرفین کی رضامندی سے ہی ہو نسلوں کو۔جسے اسلام نے زیادہ اہمیت دی ہے ،متزلزل کرکے رکھدیتا ہے اور وراثت وغیرہ کے احکام کومعطل کردیتاہے اورآخر کارماں باپ اور فرزند کے پیار کو بے اثر کرکے رکھدیتا ہے اورمعاشرے کے حقیقی ضامن زادو ولدکی فطری دلچسپی کونابود کردیتاہے۔
رشوتکسی ایسے حکم یا کام کے انجام دینے کے لئے پیسے یا کوئی تحفہ لینا ،جبکہ وہ کام پیسے یاتحفہ لینے والے کافریضہ ہو ، تو اس کو ”رشوت ”کہتے ہیں ۔اسلام میں” رشوت ”گناہ کبیرہ ہے اوراس کامرتکب ہونے والا،اجتماعی اوردینی فوائد(عدالت)سے محروم اورعذاب الہیٰ کامستحق ہوتاہے ۔کتاب وسنت اسکے گواہ ہیں ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے اوران کے درمیان واسطہ بننے والے، پر لعنت کی ہے ۔(١)چھٹے امام حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں :” کسی کی حاجت پورا کرکے رشوت لینا خداسے کفرکے برابر ہے ”(٢)البتہ یہ سب سرزنش اورمذمت اس رشوت کے بارے میں ہے جو حق بجانب حکم اور عادلانہ عمل کے بارے میں لی جائے اور جو رشوت غیر حق بجانب حکم اورظالمانہ عمل کے لئے لی جائے ،اس کاگناہ بہت بڑا اوراس کی سزاشدیدتر ہے۔
حسن معاشرتانسان جو سماج میں زندگی بسر کرتا ہے ، اس کے لئے لوگوںکے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔بیشک یہ مل جل کر رہنا اس لئے ہے تاکہ انسان اپنی…………..١۔سفینةالبحائج١،ص٥٢٣۔٢۔سفینةالبحائج١،ص٥٢٣۔انسان اپنی اجتماعی زندگی کاتحفظ کرسکے اور روزبروزاپنی مادی ومعنوی ترقی میں اضافہ کرے اورزندگی کی مشکلات کوبہتروآسان ترصورت میں حل کرے۔لہذا،لوگوںسے ایسا برتائو کرناچاہئے جومحبوبیت کاسبب بنے اور دن بدن انسان کے اجتماعی وزن کو بڑھاوادے اوراس کے دوستوں میں اضافہ ہو ،کیونکہ اگرلوگ کسی سے مل کر سنگینی یاتلخی کا احساس کریں گے توان کے دلوں میں نفرت اورتنگی پیدا ہوجائے گی اورآخر کارایک ایسادن آئے گا جب سب لوگ اس سے دوری اختیار کریں گے اورایسا شخص معاشرے میں منفورومبغوض ہو جائے گا اور اس کو سماج میں ہونے کے باوجود تنہائی کی حالت میں اوراپنے وطن میں ہوتے ہوئے بھی غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑے گی اوریہ حالت انسان کی بدبختی کا تلخ وتاریک ترین نمونہ ہے ۔اس لئے دین مقدس اسلام نے اپنے پیروئوں کے لئے حسن معاشرت کی نصیحت وتاکید کی ہے اور اس کے بارے میں بہترین آداب ورسوم بیان فرمائے ہیں۔منجملہ حکم دیاہے کہ مسلمانوں کوملاقات کے وقت ایک دوسرے کوسلام کرناچاہئے اور فضیلت اس کے لئے ہے جو سلام کرنے میں سبقت حاصل کرے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،سلام کرنے میںپہل کرتے تھے حتی عورتوںاور بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔اگرکوئی شخص آپۖ کوسلام کرتاتوآپۖاسکا بہترین جواب دیتے تھے۔خدائے متعال فرماتا ہے:(واذاحیّیِتم بتحیة فحّیواباحسن منہااوردُّوہا…)(نسائ٨٦)”جب تم لوگوں کوسلام کیاجائے،تو تم اس سے بہتر یاویساہی جواب دو”مزید حکم دیاہے کہ انسان لوگوں سے ملتے وقت تواضع اورانکساری سے پیش آئے اور ہرایک کا اسکی اجتماعی حیثیت کے مطا بق احترام کرے۔خدائے متعال فرماتا ہے :(وعباد الرَّحمن الّذین یمشون علی الارض ہوناً…)(فرقان٦٣)”اور اللہ کے بندے وہی ہیں جوزمین پرآہستہ فروتنی اورانکساری سے چلتے ہیں ۔”قابل ذکرنکتہ یہ ہے کہ تواضع اورانکساری کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان خود کو لوگوں کے سامنے ذلیل وخوار کرے اوراپنی انسانیت کو نقصان پہنچائے ،بلکہ مقصدیہ ہے کہ اپنی قدرومنز لت اورفخرومباہات کو لوگوں کے سامنے ظاہرنہ کرے اوردوسرے عظیم فخرومباہات کو خود سے مخصوص نہ کرے اورلوگوں کو حقیروناچیز نہ سمجھے ۔اسی طرح لوگوں کے احترام کا معنی یہ ہیں کہ لوگوں کا اس حدتک احترام کرے کہ چاپلوسی نہ ہو بلکہ ہرایک کا اس کی دینی واجتماعی قدرومنزلت کی حد میں احترام کرے،بزرگوں کاان کی بزرگی کے مطابق احترام کرے اوردوسروں کا بھی ان کی انسانیت کے مطابق احترام کرے ۔نیز احترام واکرام کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگرکسی سے کوئی ناشائستہ کام سرزدہوتے دیکھے توآنکھیں بند کرکے گزرجائے یاایک ایسی محفل میں جہاں پراہل محفل انسانی شرافت کے خلاف کام انجام دیتے ہوں یاکوئی خلاف شرع عمل انجام دیتے ہوں تو رسوائی سے ڈرکران کے ساتھ ہم رنگ و جماعت ہوجائے ۔لوگوں کا احترام حقیقت میںانسانی شرافت اوران کی دینی قدروں کا احترام ہے نہ کہ ان کے جسم اوراعضاء کا احترام ۔اگر کوئی شخص اپنی انسانی شرافت اوردینی ترجیحات کونابودکردے تو کوئی دلیل نہیں بنتی کہ اس کااحترام کیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :دوسروں کی اطاعت کے ذریعہ خدا کی معصیت انجام نہیں دیناچاہئے ۔(١)…………..١۔وسائل الشیعہ ،ج١١،ص٤٢٢۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.