ماں باپ پر اولاد کے حقوق

226

ماں باپ پر اولاد کے حقوقانسان کو جوکام انجام دیناچاہئے جس کے بارے میں انجام دیتا ہو او راس کو اس کانفع ملتا ہو تو اسے ”حق” کہتے ہیں اور جس کے لئے اسے انجام دینا چاہئے اسے ”فریضہ، حکم اور تکلیف” کہتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص کسی کے لئے اجرت پر کوئی کام انجام دیتا ہے،تو اجرت ادا کرنا صاحب کا رکا فرض ہے اور مزدور کا حق ہے۔ اگر صاحب کار نے اجرت ادا نہ کی تومزدور اس سے مطالبہ کر سکتا ہے اور اپنے حق کا دفاع کر سکتا ہے، کیونکہ انسان اس طرح خلق کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں اس کی زندگی ابدی نہیں ہے اور خواہ نخواہ کچھ مدت کے بعد، رخت سفر باندھتا ہے، خدائے تعالے نے انسان کی نسل کو نابودی سے بچانے کے لئے تناسل وتوالد کی روش کو قرار دیا ہے اور انسان کو تناسل کے وسائل مہیا کئے ہیں اور اس کے باطنی جذبات کو اس کام کی طرف متوجہ کیا ہے۔اسی مکمل آمادگی کا نتیجہ ہے کہ انسان فطری طور پر اپنی اولاد کو اپنے بدن کاٹکڑا سمجھتا ہے اور اس کی بقا کو اپنی بقا جانتا ہے او راس کی آسائش و کامیابی کی راہ میں ہر قسم کی تلاش و کوشش کرتا ہے اور گوناگوں رنج و الم برداشت کرتا ہے، کیونکہ وہ اس کی ذات یا شخصیت کی نابود ی کو اپنی ذات یا شخصیت کی نابودی جانتا ہے۔ حقیقت میں وہ خالق کائنات کے حکم کی تعمیل کر تاہے جو بشر کی بقا چاہتا ہے۔ لہذا ماں باپ کا فرض ہے کہ جس حکم میں ضمیر و شرع متفق ہیں اس کو اپنے فرزند کے بارے میں نافذ کریں اور اس کی اچھی پرورش کریں تا کہ وہ ایک شائستہ انسان بن جائے، اس کے لئے اسی چیز کا انتخاب کریں جس کو انسانیت کی نگاہ میں اپنے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ یہاں پر ہم ان میں سے بعض حقوق کو بیان کرتے ہیں:١۔ پہلے ہی دن سے جب بچہ بات یا اشارہ کو سمجھنے لگے، اس کے ضمیر میں پسندیدہ اخلاق او رشائستہ صفات کی بنیاد ڈال کر انھیں مستحکم کریں اور حتی الامکان اسے بیہودہ باتوںکے ذریعہ نہ ڈرائیں اور اسے بُرے اور عفت کے خلاف کاموں سے روکیں اور خود بھی اس کے سامنے جھوٹ بولنے ،گالیاں دینے اور برے الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کریں اور اس کے سامنے پسندیدہ کام انجام دیں تا کہ شریف او رعالی مزاج بن جائے اور اپنی طرف سے سنجیدگی،ہمت او رعدالت کامظاہرہ کریں تا کہ ان کی عدالت دوستی اورانسان پروری ”انتقال اخلاق” کے قانون کے تحت اس میںمنتقل ہوجائے اور زیادتی ، حوصلہ شکنی اور خود پرستی سے محفوظ رہے۔٢۔ جب تک ممےّزنہ ہوجائے کھانے پینے، سونے اور اس کی دوسری ضرورتوں میں اس کاخیال رکھیں اور اس کے جسمی حفظان صحت کی رعایت کریں تا کہ وہ ایک سالم بدن اور قوی دماغ اور اچھا مزاج والابن کر تعلیم و تربیت کے لئے آمادہ ہوجائے۔٣۔ جب بچہ میں تعلیم و تربیت کی استعداد پیدا ہو جائے( عام طو رپر یہ مرحلہ سات سال کی عمر میں آتا ہے) اسے معلم کے حوالہ کریں اور کوشش کریں کہ ایک شائستہ معلم کی تربیت میں رہے تاکہ جو کچھ اس سے سنے اس کا اس پر اچھا اثر پڑے اور وہ اس کے روح کی شرافت ، تزکیہ نفس او رتہذیب اخلاق کا سبب بنے۔٤۔ جب بچے کی عمر اتنی ہوجائے کہ وہ عام پروگراموں یا خاندانی نشست و برخاست میں شرکت کر سکتا ہو، تو اسے اجتماعی رسومات سے آشنا کرنے کے لئے اپنے ساتھ پروگراموں میں لے جاناچاہئے اور پسندیدہ معاشرتوں کے طرز عمل سے اسے آگاہ کرنا چاہئے۔
اولاد پر ماں باپ کے حقوقوہ آواز جو ضمیر او رشرع کے منادی کی طرف سے ماں باپ کے کانوں میں پہنچی ا ور انھیں اولاد کے بارے میں ذمہ دار بنادیا، اسی طرح ضمیر اور شرع کی آوازنے اولاد کو بھی متوجہ کیا اور اس پر فرض کردیا کہ اپنے ماں باپ کی نیکیوں کا ۔ ہاتھ، زبان یا ہر وسیلہ سے۔ شکریہ بجالائے۔ماں باپ وہ ہیں جو خدا کے ارادہ سے اپنے فرزند کو وجود میں لائے ہیں اور اپنے آرام و سکون اس کے معنوی اور جسمانی آرام و سکون پر قربان کرکے ایک عمر راتوں کو جاگ کر اور دن میں رنج و غم برداشت کرکے اسے ایک قوی انسان بناتے ہیں۔کتنی نامردی، پستی اور نمک حرامی ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو اذیت پہنچائے یا ان کے بوڑھاپے اور ناتوانی کے دنوں میں ان کی مدد نہ کرے!!خدا کی توحید ، جو انسان کا پہلا فریضہ ہے،کے بعددوسرا فریضہ جو اسلام نے انسان کے لئے معین کیا ہے، وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے:(وقضی ربُّک الاّ تعبد وا اَلّاا ایّاہ و بالوالدین احساناً…)( اسرائ/ ٢٣)”اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا…”اسلام میں مقرر شدہ فریضے کے مطابق، فرزند کو کسی صورت میں یہ حق نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کو ذلیل و خوار سمجھے اور ایک ایسا کام انجام دے جو ان کی رنجید گی کا سبب بنے ، اسے ہمیشہ اپنے ماں باپ کا احترام کرنا چاہئے اوران کی نسبت فروتنی اور انکساری او راحسان و نیکی کے ساتھ پیش آنا چاہئے، خاص کر ان کی ضرورت کے وقت ان کی مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ ماں باپ کی مرضی کی رعایت کرنا صرف مستحب اور مباح کاموں میں ہے، واجبات میں ان کی مرضی کے مطابق انجام دینا لازم نہیں ہے۔
بھائیوںاور بہنوں کے باہمی حقوققرآن مجید میں، رشتہ داروں کے با رے میں بارہا تا کید کی گئی ہے اور قطع رابطہ سے منع کیاگیاہے ۔ ماں باپ اور اولاد کے بعد انسان کے قریبی ترین رشتہ دار بھائی اور بہن ہیں اور ان کے درمیان اجتماعی رابطہ فطری ہے اور یہ رابطہ تمام رابطوں سے مستحکم اور بنیادی تر ہے۔ بھائی بہنوں کا فریضہ ہے،کہ ضرورت پر رشتہ کے ناطوں کونہ توڑیں اور آپس میں تعاون کرکے حتی الامکان ایک دوسرے کی مدد کریں اور ضرورت پر ایک دوسرے کی دستگیری کریں ۔ بڑے ، چھوٹوں کے ساتھ مہربانی اورہمدردی سے پیش آئیں او رچھوٹے بھی بڑوں کا احترام کریں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.