کام کا واجب ہونا اور صنعت و حرفت کی اہمیت

347

اسلام چونکہ ایک فطری اور اجتماعی دین ہے، لہذا اس نے کارو کسب کوواجب قرارد یا ہے اور بیکار انسانوں کی اہمیت کا قائل نہیں ہے۔اسلام میں،ہرفرد کوا پنے سلیقہ اورشوق کے مطابق صنعت وحرفت جس کی طرف خدائے متعال نے انسانی فکر کی ہدایت کی ہے ان میں سے کسی ایک کوانتخاب کرنا چاہئے اوراس طریقہ سے اپنی روزی کمائے اورمعاشرے کی ذمہ داریوں میں سے کسی ایک کواپنے ذمہ لے لے اور لوگوں کی آسودگی کے بارے میں کوشش کرے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :(واَن لیس للانسان اِلّا ماسعی) (نجم٣٩)’اور یہ کہ انسان کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے ،مگر یہ کہ سعی وکوشش کرے۔’
بیکاری کے نقصاناتمذکورہ بیانات سے واضح ہوا کہ کاروکوشش ایک راستہ ہے جسے خالق کائنات نے انسان کے اختیارمیں قراردیا ہے تاکہ اسے طے کر کے اپنی زندگی کی سعادت کو پاسکے ،البتہ خلقت و فطرت کی راہ سے انحراف چاہے کم ہی کیوں نہ ہوانسان کے لئے نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔اس صورت میں جس چیز پرنظام زندگی استوار ہے ،اس سے انحراف کرنے میں دنیاوآخرت کی بد بختی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔اسی لئے ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں :’کام میں سستی اورتھکاوٹ کااظہارنہ کرناورنہ دنیاوآخرت تیرے ہاتھ سے چلی جائیگی۔'(١)…………..١۔تحف العقول ،ص٤٠٩۔
خود اعتمادیعقائد کے باب میں بار ہایاد دہانی کرائی گئی کہ اسلام کاعام پرو گرام یہ ہے کہ انسان خدائے یکتا کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرے اور خالق کائنات کے علاوہ کسی کے سامنے سرتعظیم خم نہ کرے ۔سب خدا کی مخلو ق اور اس کی پرورش یافتہ ہیں اوراس کا رزق کھاتے ہیں اورکسی کو کسی پر فضیلت کاحق نہیں ہے ،سوائے اس چیز کے جوخدا کی طرف پلٹے ۔ہر مسلمان کو اپنے نفس پر اعتماد کرنا چاہئے اورجوآزادی خدانے اسے دی ہے اس سے استفادہ کرے ،اورجو وسائل اسے فراہم کئے ہیں ان سے بھرپورا فائدہ اٹھائے اور زندگی کی راہ کوطے کرے ،نہ یہ کہ دوسروں پرامید باندھ کرہر روز خدا کے لئے ایک شریک ٹھہرائے اور ایک تازہ بت بنائے ۔نوکر کو جاننا چاہئے کہ وہ اپنی روٹی کھاتا ہے نہ مالک کی ۔مزدورکو جانناچاہئے کہ وہ اپنی کمائی کی اجرت حاصل کرتا ہے نہ صاحب کار کی مفت میں دی گئی بخشش .ہرملازم کو ایمان رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے کام کی مزدوری حاصل کرتا ہے نہ رئیس یا حکومت مربوطہ ادارہ یامعاشرے کاتحفہ۔آخر کار آزاد انسان کو خدا کے علاوہ کسی سے امید نہیں باندھنی چاہئے اور کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس کے باطن میں وہی پستی اورشر ک کی غلامی پیدا ہوجائے گی جس کے آشکارا طور پر بت پرست شکار ہیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، بیکاری کی عادت کر نے وا لوں اوراپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے والوں پرلعنت بھیجی ہے ۔دور حاضر میںاجتماعی اور نفسیاتی تحقیقات سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اجتماعی برائیوں کاایک بڑا حصہ بیکاری کی وجہ سے ہے ۔یہی بیکاری ہے جومعاشرے کے اقتصاد اورثقافت کے پہیے کو چلنے سے روکتی ہے اور ہرقسم کے اخلاقی زوال اورخرافات پرستی کو رواج بخشتی ہے ۔
کھیتی باڑی اور اس کے فائدےکھیتی باڑی جس کے ذریعہ معاشرے کے لئے اناج مہیا کئے جاتے ہیں اپنی اہمیت کے پیش نظر انسان کے پسندیدہ ترین مشغلوں میں شمار ہوتی ہے ،اسی لئے اسلام میں اس شغل کو اختیار کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔چھٹے امام،حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :’قیامت کے دن کا شت کاروں کا مقام ہرمقام سے بلندتر ہوگا ۔'(١)پانچویں امام حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں :’کوئی بھی کام کھیتی باڑ ی سے بہتراور اس کا فائدہ اس سے زیادہ عمومی نہںہے .کیونکہ نیک وبد،چرند وپرند سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورزبان حال سے کسان کے لئے دعا کرتے ہیں۔( ٢)…………..١۔میزان الحکمة،ج٤ص٢١٣۔٢۔میزان الحکمةج٤ص٢١٣۔
دوسروںکے سہارے زندگی گزارنے کے نقصانات’طفیلی زندگی’یعنی دوسروں کی امید اور پشت پناہی میں زندگی گزارنا۔حقیقت میں ایسی زندگی،انسانی فخر،شرافت اورآزادی کو کھودینے اور تمام اجتماعی برائیوں اور جرم وگناہ کا باعث ہے کہ جس کا سر چشمہ ذلت وخواری ہے ۔جودوسرو ں کے سہارے ہوتا ہے اس کی نگاہ لوگوں کی دست کرم پر ہوتی ہے ، وہ حقیقت میں اپنے ارادہ و ضمیر کو اس راہ میں بیچ دیتا ہے ،اسے کرم فرما کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے وہ اس سے جو کچھ چاہتا ہے خواہ ‘حق ہو یا باطل اچھا ہویابرُا’وہ اسے انجام دینے پر مجبورہوتا ہے۔اورہر ننگ وعار کو قبول کرنے ،اجنبی پرستی ،ہرظلم وبے انصافی پر راضی ہو جانے اورآخر کار،تمام انسانی قواعد وضوابط کو پامال کرنے پر بھی مجبور ہوتا ہے۔اسلام میں ضرورت کے بغیر سوال کرنا حرام ہے ،فقراء کی مالی امداد،جو اسلامی ضوابط میں ہے ،صرف ان فقیروں سے مربوط ہے کہ جن کی آمدنی ان کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہو یا کوئی کار وبارنہ ہو۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.