دنيا كيا ہے؟

211

دنيا كيا ہے؟بہر حال اسلام دنيا كو قاتل مذمت قرا رديتا ہے اور اس سے زاہد رہنا طلب كرتا ہے لہذا ضرورى ہے كہ واضح كريں كہ دنيا كيا ہے اور كس طرح اس سے پرہيز كيا جائے؟
كيا دنيا ہر وہ چيز جو اس جہان ميں جيسے زمين سورج ستارے حيوانات ، نباتات، درخت، معاون اور انسان ہيں كا ناہم ہے؟ اس كے مقابلے ميں آخرت يعنى ايك دوسرا جہان ہے؟ اگر دنيا سے يہ مراد ہو تو پھر دنيا كى زندگى كام كرنے خورد و نوش آرام اور حركت و غيرہ جو دنيا كى زندگى سے مربوط ہيں كا نام ہوگا_ كيا اسلام ميں كسب معاش اور كام كرنے اور روزى حاصل كرنے اور اولاد پيدا كرنے اور نسل كو بڑھانے كى مذمت كى گئي ہے؟ كيا زمين اور آسمان حيوانات اور نباتات برى چيزيں ہيں_ اور انسان كو ان سے پرہيز كرنا چاہئے؟ كيا اسلام كام اور كوشش كرنے روزى كو حاصل كرنے اور توليد نسلكى مذمت كرتا ہے؟ يہ تو قطعا ايسا نہيں ہے يہ تمام چيزوں اللہ تعالى كى بنائي ہوئي ہيں اگر يہ چيزيں برى ہوتيں تو اللہ تعالى ا نہيں پيدا ہى نہ كرتا _ خداوند عالم ان تمام چيزوں كو اپنى بہت بڑى خوشمنا نعمتيں جو انسان كے مطيع قرار پائي ہيں جانتا ہے تا كہ انسان ان سے فائدے حاصل كرے_ تنہا مال اور دولت قابل مذمت نہيں ہے بلكہ اسے قرآن ميں خير اور اچھائي كے طور پر ظاہر كيا ہے_قرآن ميں آيا ہے _ ‘ ان ترك خيرا الوصيتہ للوالدين و الاقربين (204) _ حلال روزى كمانے اور كام اور كوشش كى مذمت ہى نہيں كى گئي بلكہ بہت سى روايات ميں اسے بہترين عبادت بھى شمار كيا گيا ہے جيسے پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ عبادت كى سترجزو ہيں ان ميں سب سے زيادہ افضل حلال روزى كا طلب كرنا ہے_(205)امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص دنيا ميں اپنى روزى حاصل كرے تا كہ لوگوں سے بے پرواہ ہوجائے اور اپنے اہل و عيال كى روزى كو وسيع كرے اور اپنے ہمسايوں كے ساتھ احسان كرے وہ قيامت كے دن خدا سے ملاقات كرے گا جبكہ اس كى صورت چودہويں كے چاند كى طرح چمك رہى ہوگي_ (206)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص اپنے اہل و عيال كى روزى كى تلاش كرے وہ اس شخص كى طرح ہے جو خدا كے راستے سے جہاد كرتے ہيں_ (7 20)روايات ميں كام اور كوشش زراعت اور تجارت كرنے يہاں تك كہ نكاح كرنے كى سفارش كى گئي ہے اور پيغمبر اور ائمہ اطہار عليہم السلام كى سيرت بھى يوں ہى تھى كہ وہ كام كرتے تھے_ على ابن ابيطالب جو تمام زاہدوں كے سردار ہيں كام كرتے تھے پس سوچنا چاہئے كہ جس دنيا كى مذمت كى گئي ہے وہ كونسى ہے؟ بعض علماء نے كہا كہ دنيا قاتل مذمت نہيں ہے بلكہ اس كے ساتھ دل بستگى قابل مذمت ہے_ بعض آيات اور روايات ميں دنيا سے وابستگى اور علاقمندى كى مذمت بھى وارد ہوئي ہے_
قرآن مجيد ميں آيا ہے ‘خواہشات نفسانى سے وابستگى اور علاقمندى جيسے اولاد اور عورتيں زر و جواہر كى ہميانوں اور اچھے گھوڑے چارپائوں اور زراعت نے لوگوں كےسامنے آرائشے اور خوشمنائي كر ركھى ہے يہ سب دنيا كا مال اور متاع ہے ليكن نيك كام خدا كے نزديك موجود ہيں_(208)اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے ‘ خبردار كہ دنيا كو دوست ركھو كيونكہ دنيا كى محبت ہر گناہ كر جڑ اور ہر مصيبت اور بلا كا سرچشمہ ہے_ (209)حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا سے دلبستگى اور علاقمندى ہر خطاء اور گناہ كا سرہے يعنى سب كچھ ہے_ (210)اس طرح كى آيات اور روايات سے يوں معلوم ہوتا ہے كہ دنيا كے امور سے دلبستگى اور علاقمندى قابل مذمت ہے نہ يہ كہ خود دنيا قاتل مذمت ہے_ يہاں پر پھر سوال پيدا ہوگا كہ كيا دنيا سے بطور اطلاق محبت اور دلبستگى اور علاقمندى قابل مذمت ہے اورانسان كو اپنى بيوى اور اولاد مال اور دولت مكان اور متاع خورد اور خوراك سے بالكل دلبستگى اور علاقمندى نہيں كرنى چاہئے؟ آيا اس طرح كا مطلب كہا جا سكتا ہے؟ جب كہ ان امور سے محبت اور دلبستگى انسان كى فطرى اور طبيعى چيز ہے خداوند عالم نے انسان كو اس فطرت پر خلق فرمايا ہے_ كيا انسان ايسا كر سكتا ہے كہ وہ اپنى بيوى اور اولاد سے محبت نہ ركھے؟ كيا انسان خوراك پوشاك اور اس دنيا كى زيبائي سے محبت نہ ركھے ايسا كر سكتا ہے؟ اگر ان چيزوں سے محبت كرنا برا ہوتا تو خداوند عالم انسان كو اس طرح پيدا نہ كرتا_ انسان زندہ رہنے كے لئے ان چيزوں كا محتاج ہے اور اس طرح پيدا كيا گيا ہے كہ وہ طبعا ان چيزوں كى طرف ميلان ركھے_ اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ لوگ دنيا كے فرزند ہيں اور كسى كو مال سے محبت ركھنے پر ملامت نہيں كى جاتي_ (211)
روايات ميں اولاد اور عيال سے محبت كرنے كى سفارش كى گئي ہے_ خود پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار اپنے اہل و عيال اور اولاد سے محبت كا اظہار كيا كرتے تھے_ بعض خوراك كو پسند فرماتے تھے اور ان سے بھى علاقہ كا اظہار كيا كرتے تھے لہذا زمين، آسمان، نباتات، درخت، معاون حيوانات اور دوسرى اللہ كى نعمتيں نہ قابل مذمت ہيں اور نہ برى اور نہ ہى اہل و اعيال اور اولاد اور مال و متاع برے ہيں اور نہ ہى ان سےمحبت اور لگائو اور دنياوى زندگى برى ہے بلكہ بعض روايات ميں تو دنيا كى تعريف بھى كى گئي ہے_ اميرالمومنين عليہ السلام اس كى جواب ميں جو دنيا كى مذمت كر رہا تھا فرمايا كہ دنيا سچائي اور صداقت كا گھر ہے اس كے لئے گھر ہے جو اس كى تصديق كرے اور امن و امان اور عافيت كا اس كے لئے گھر ہے جو اس كى حقيقت كو پہچان لے اور اس كے لئے بے نياز ہونے كا مكان ہے جو اس كے زادراہ حاصل كرے اور نصيحت لينے كا محل ہے اس كے لئے جو اس سے نصيحت حاصل كرے_ دنيا اللہ كے دوستوں كى مسجد اور اللہ كے فرشتوں كے لئے نماز كا مكان ہے_ دنيا اللہ تعالى كى وحى نازل ہونے كا مكان ہے اور خدا كے اولياء كے لئے تجارت كى جگہ ہے انہوں نے دنيا ميں اللہ كے فضل اور رحمت كو حاصل كيا ہے اور بہشت كو منفعت ميں حاصل كيا ہيں_(212)امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا آخرت كے لئے بہت بہترين مددگار ہے_ (213)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص حلال مال كو حاصل كرنا پسند نہيں كرتا تا كہ وہ اس كے ذريعے اپنى آبرو اور عزت كى حفاظت كرے اور قرض اداد كرے اور صلہ رحم بجالائے تو اس ميں كوئي اچھائي اور بھلائي موجود نہيں ہے_ (214)لہذا سوال پيدا ہوتا ہے كہ پھر كونسى دنيا قابل مذمت ہے اور دنيا سے محبت كرنے كو تمام گناہوں كا سرچشمہ قرار ديا گيا ہے وہ كونسى دنيا ہے؟
ميں نے ان تمام آيات اور روايات سے يوں استفادہ كيا ہے كہ دنيا دارى اور دنيا كا ہو جانا اور دل دنيا كو دے دينا قابل مذمت ہے نہ فقط دنياوى امور سے لگائو اور دنيا كے موجودات اور اس دنيا ميں زندگى كرنا قابل مذمت ہے_ اسلام لوگوں سے يہ چاہتا ہے كہ وہ دنيا كوويسے پہچانيں كے جيسے وہ ہے اور اتنى ہى مقدار اسے اہميت ديں اور اس سے زيادہ اسے اہميت نہ ديں_ جہاں كى خلقت كى غرض اور اپنى خلقت كى غرض كو پہچائيں اور صحيح راستے پر چليں اگر انسان اس طرح ہوجائيں تو وہ اہل آخرت ہونگے اور اگر ان كى رفتار اور كردار اس غرض كے خلاف ہو تو پھر وہ اہل دنيا كہلائيں گے اورہونگے_
دنيا كى حقيقت
اس مطلب كى وضاحت كے لئے پہلے دنيا كى اسلام كى رو سے حقيقت اور ماہيت كو بيان كرتے ہيں اس كے بعد جو اس سے نتيجہ ظاہر ہوگا اسے بيان كريں گے اسلام دو جہان كاعقيدہ ركھتا ہے ايك تو يہى مادى جہان كہ جس ميں ہم زندگى كر رہے ہيں اور جسے دنيا كہا اور نام ديا جاتا ہے_ دوسرا اس كے بعد آنے والا جہان كہ جہاں مرنے كے بعد جائيں گے اسے آخرت اور عقبى كا جہان كہا اور نام ديا جاتا ہے_ اسلام عقيدہ ركھتا ہے كہ انسان كى زندگى اس جہان ميں مرنے سے ختم نہيں ہوجاتى بلكہ مرنے كے بعد انسان آخرت كے جہاں كى طرف منتقل ہوجائيگا_ اسلام اس جہان كو گذر گاہ اور فانى مكان قرار ديتا ہے جو آخرت كے جہان جانے كے لئے ايك وقتى ٹھہرنے كى جگہ ہے_ اور آخرت كے جہان كو دائمى اور ابدى رہنے كى جگہ قرار ديتا ہے_ انسان اس دنيا ميں اس طرح نہيں آيا كہ كئي دن زندگى كرے اور اس كے بعد مرجائے اور ختم اور نابود ہوجائے بلكہ انسان اس جہان ميں اس لئے آيا ہے كہ يہاں علم او رعمل كے ذريعے اپنے نفس كى تربيت اور تكميل كرے اور آخرت كے جہاں ميں ہميشہ كے لئے خوش اور آرام سے زندگى بسر كرے لہذا دنيا كا جہان آخرت كے جہاں كے لئے كھيتى اور تجارت كرنے اور زاد راہ كے حاصل كرنے كى جگہ ہے گرچہ انسان اس جہان ميں زندہ رہنے اور زندگى كرنے كے لئے مجبور ہے كہ ان نعمتوں سے جون خدا نے اس جہان ميں خلق كى ہيں استفادہ كرے ليكن ان نعمتوں سے فائدہ حاصل كرنا انسان كى زندگى كى غرض اور ہدف نہيں ہے بلكہ يہ مقدمہ اور تمہيد ہے انسان اور اس جہاں كے خلق كرنے كى غرض اور ہدف يہ نہيں كہ انسان يہاں كى زندگى كو خوب مرتب اور مرفح الحال بنائے اور مختلف لذائز اور تحقيقات سے زيادہ سے زيادہ فائدہ حاصل كرے بلكہ انسان كے خلقكرنے كى غرض ايك بہت بلند اور عالى تر غرض ہے يعنى انسان اپنے انسانى شريف جوہر كى يہاں پر پرورش اور تربيت كرے اور اس كى نگاہ اللہ تعالى كى طرف سير و سلوك اور تقرب كو حاصل كرنا ہو_ جيسے اميرالمومنين على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا اس لئے خلق نہيں ہوئي كہ وہ تيرا ہميشہ كے لئے گھر ہو بلكہ دنيا گذر نے كى جگہ ہے تا كہ نيك عمل كے ذريعے تو اپنى ہميشہ رہنے والى جگہ كے لئے زاد راہ حاصل كرے لہذا تم دنيا سے چلے جانے كے لئے جلدى كرو اور يہاں سے جانے كے لئے اپنے لئے سوارى كو آمادہ اور مہيا كرو_ (215)نيز حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اے دنيا كے لوگو دنيا گذر جانے كى جگہ ہے اور آخرت باقى رہنے كا محل ہے لہذا گزرنے والى جگہ سے ہميشہ رہنے والے مكان كے لئے سامان اور زاد راہ حاصل كرو_ اور اپنے رازوں كے پردے كو اس كے سامنے جو تمہارے رازوں سے واقف ہے پارہ نہ كرو اپنے دلوں كو دنيا سے خالى كرو اس سے پہلے كہ تمہارے بدن اس دنيا سے خارج ہوجائيں_ تم اس دنيا ميں امتحان ميں واقع كئے جائو گے اور تم اس دنيا كے علاوہ كے لئے پيدا كئے گئے ہو جب انسان مرجاتا ہے لوگ كہتے ہيں كہ كيا چھوڑ كرگيا ہے اور فرشتوں كہتے ہيں كہ كيا لے كرايا ہے اور كيا اپنے لئے يہاں كے لئے بھيجا ہے؟ خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل كرے كہ تم اپنے مال سے كچھ آئندہ كے لئے روانہ كرو تا كہ خدا كے نزديك تمہارے لئے بطور قرض كے باقى ہو اور تمام مال دنيا ميں چھوڑ كرنہ رو كہ اس مال كے حقوق تمہارى گردن پر باقى رہ جائيں_ (216)
نيز حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ خبردار رہو كہ يہ دنيا كہ جس كى تم اميد ركھتے ہو اور اس سے محبت اور علاقہ مند ہو كبھى تمہيں غضب ميں لاتى ہے اور كبھى تمہيں خوش كرتى ہے يہ نہ تمہارا گھر ہے اور نہ ہى تمہارى ٹھہرنے كى جگہ ہے كہ جس كے لئے تم پيدا كئے گئے ہو اور نہ ہى يہ تمہارے لئے مكان ہے كہ جس كى طرف تم بلائے گئے ہو يہ جان لو كہ نہ ہى يہ دنيا تمہارے لئے ہميشہ رہے گى اور نہ تم اسميں ہميشہ كے لئے باقى رہو گے گرچہ دنيا تمہيں اپنى زينت اور خوبصورتى كى وجہ سے دھوكا ديتى ہے_ ليكن برائيوں اور شر كے ہونے سے بھى تمہيں ڈراتى ہے لہذا ان ڈرانے والى چيزوں كو جو يہ ركھتى ہے اس كے غرور اور دھوكے ميں نہ آئو اور اس سے دست بردار ہوجائو اس كى ڈرائي جانے والى چيزوں كى وجہ سے اس كے طمع دلانے سے دست بردار ہو جائو اور اس گھر كى طرف جلدى كرو كہ جس كى طرف تمہيں دعوت دى گئي ہے اور اپنے دلوں كو دنيا سے خالى اور منصرف كرو_ (217)آپ نے ديكھ ليا كہ اس حديث ميں دنيا كى حقيقت كس طرح بتلائي گئي ہے كہ يہ فناء ہونے والى اور سفر كى جگہ ہے يہ گذرنے اور سفر كر جانے كے لئے ٹھہرنے كا ايك مقام ہے_ يہ دھوكے اور غرور اور چالبازى كا گھر ہے_ انسان اس كے لئے خلق نہيں ہوا بلكہ آخرت كے جہان كے لئے خلق كيا گيا ہے انسان اس جہاں ميں آيا ہے تا كہ اپنے علم اور عمل اور انسانيت كى تربيت اور پرورش كرے اور آخرت كے جہان كے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل كرے_
اہل آخرت
اسلام لوگوں سے يہ چاہتا ہے كہ دنيا كو اس طرح پہچانيں كہ جيسے وہ ہے اور اپنے اعمال اور كردار كو اسى طرح بجالائيں جيسے كہ وہ دنيا ہے جن لوگوں نے دنيا كو جس طرح كہ وہ ہے پہچان ليا ہے تو پھر وہ اس دنيا كے عاشق اور ديوانے نہيں بنتے اور وہ زر و جواہر كے دھوكے ميں نہيں آتے جب كہ وہ اسى دنيا ميں زندگى كرتے ہيں اللہ تعالى كى شرعى لحاظ سے نعمتوں سے اور لذات سے استفادہ بھى كرتے ہيں_ ليكن وہ ان كے قيدى اور غلام نہيں بنتے وہ خدا اور آخرت كے جہان كو كبھى نہيں بھلاتے اور ہميشہ كوشش كرتے ہيں كہ وہ اپنے نيك كاموں كے بجالانے سے آخرت كے جہان كے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل كريں_ اس جہان ميں زندگى كرتے ہيں ليكن ان كے دل كى آنكھ برتر و بالا افق كو ديكھتى ہے_ ہر لمحہ اور ہر حالت اور ہر عمل ميں خدا اور آخرتكے جہان پر نظر ركھتے ہيں اور آخرت كے جہان كے لئے اس سے فائدہ حاصل كرتے ہيں_ دنيا كو آخرت كى كھيتى اور تجارت كا محل جانتے ہيں_ كوشش كرتے ہيں كہ آخرت كے جہان كے لئے زاد راہ حاصل كريں _ دنيا كى تمام چيزوں سے آخرت كے جہان كے لئے فائدہ حاصل كرتے ہيں يہاں تك كہ كام اور كالج اور كھانے پينے ازدواج اور دوسرے دنياوى كاموں سے بھى آخرت كے جہان كے لئے استفادہ حاصل كرتے ہيں اس طرح كے لوگ دنيا دار نہيں ہوتے بلكہ يہ اہل آخرت ہيں_ ابن ابى يعفور كہتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت عرض كيا كہ ہم دنيا كو دوست ركھتے ہيں_ آپ نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا كے مال سے كيا كرتے ہو؟ ميں نے عرض كى اس كے ذريعے سے ازدواج كرتا ہوں اور اللہ كے راستے ميں صدقہ ديتا ہوں_ آپ نے فرمايا كہ يہ تو دنيا نہيں ہے؟ بلكہ يہ تو آخرت ہے_ (218)حضرت عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اے خدا كے بندو متوجہ رہو كہ پرہيزگار دنيا ميں بھى فائدہ حاصل كرتے ہيں اور آخرت ميں بھى فائدہ حاصل كرتے ہيں _ وہ دنيا داروں كے ساتھ دنيا سے فائدہ حاصل كرنے ميں شريك ہيں ليكن دنيا دار ان كے ساتھ آخرت ميں شريك نہيں ہيں_ انہوں نے دنيا ميں عمدہ طريقے سے زندگى بسر كى ہے اور كھانے والى چيزوں سے عمدہ طريقے سے استفادہ كيا ہے انہوں نے دنيا سے وہى استفادہ كيا ہے جو عياش لوگ اس سے استفادہ كيا كرتے تھے اور وہى استفادہ كيا ہے جو ظالم اور متكبر لوگ كيا كرتے تھے اس كے باوجود يہ لوگ آخرت كا زاد راہ اوردنيا كے تجارت كے محل سے پورى طرح كما كر آخرت كى طرف منتقل ہوگئے ہيں_ دنيا سے زہد كى لذت كو بھى حاصل كيا ہے اور انہيں يقين تھا كہ آخرت ميں اللہ تعالى كے جوار رحمت ميں اس طرح زندگى كريں گے كہ ان كى كوئي بھى خواہش رد نہيں كى جائيگى اور لذت اور خوشى سے انكا حصہ كم اور ناقص نہيں ہوگا_ (219)
لہذا كام اور كام ميں مشغول ہونا اور صنعت اور تجارت اور زراعت اور اسيطرح مقام اور منصب اور اجتماعى ذمہ دارى كا قبول كرنا زہد اور اہل آخرت ہونے كے منافى اور ناساز نہيں ہوا كرتا يہ تمام امور اللہ كى رضايت حاصل كرنے اور آخرت كے راستے ميں گامزن ہونے ميں سموئے جا سكتے ہيں_ امرالمومنين جو اپنى تمام كوشش كام اور كاج ميں استعمال كرتے تھے رات كو محراب عبادت ميں گريہ و زارى كيا كرتے تھے اور فرماتے تھے’ اے دنيا_ اے دنيا مجھ سے دور ہٹ جا_ كيا مجھے دھوكہ دينے كے لئے مير ے سامنے آئي ہے اور مجھ سے محبت كا اظہار كرتى ہے؟ يہ تيرا وقت نہيں ہے جا كسى دوسرے كو دھوكہ دے مجھے تيرى كوئي ضرورت نہيں ہے_ ميں نے تجھے تين طلاقيں دے دى ہيں كہ جن ميں رجوع بھى نہيں كيا جا سكتا_ تيرى زندگى كوتاہ سے اور تيرى قيمت معمولى ہے_ اہ زاد راہ تھوڑا ہے اور راستہ اور سفر طويل ہے اور آگے كى منازل عظيم ہيں_ (220)آپ ايك اور جگہ فرماتے ہيں ‘اے دنيا مجھ سے دور ہوجا كہ ميں نے تيرى مہار تيرى گرد پر ڈال دى ہے اور تجھے آزاد كرديا ہے_ ميں تيرے چنگل سے نكل چكا ہوں اور تيرے جال سے بھاگ گيا ہوں اور تيرى لغزش گاہ سے دور ہو چكا ہوں_ (221)حضرت على عليہ السلام نے اس حالت ميں جب كہ ايك لشكر جرار كے ساتھ جنگ كرنے جا رہے تھے اپنى پھٹى پرانى جوتى ابن عباس كو دكھلائي اور فرمايا كہ ‘ خدا كى قسم يہ پھٹى پرانى جوتى ميرے نزديك حكومت اور امير ہونے سے زيادہ محبوب ہے مگر يہ كہ ميں حق كو برقرار كروں اور باطل كو رد كروں_ (222)
اللہ تعالى كے خاص بندے ايسے ہى تھے اور ہيں_ اس دنيا ميں زندگى كرتے ہيں ليكن وہ عالم بالا كو ديكھتے ہيں اور اہل آخرت ہيں_ عام لوگوں كى طرح كام اور كاج كرتے ہيں_ بلكہ حكومت اور فرماندھى اور زمام دارى اور زندگى كے امور كو بھى چلاتے ہيں_ اور ان تمام كاموں كو اللہ تعالى كى رضا اور اپنا عملى وظيفہ قرار ديتے ہيں اور شرعى حدود ميں رہ كر اللہ تعالى كى نعمتوں سے بھى استفادہ كرتے ہيں اس كے باوجود دنيا كو تين طلاقيں دے ركھى ہيں اور اس كى محبت كو دل سے نكالا ہوا ہے_ حكومت لينے كے لئےجنگ كرتے ہيں ليكن صرف حق كے دفاع اور عدالت كو برپا كرنے كے لئے نہ يہ كہ حكومت اور رياست كريں_
اہل دنيااگر كسى انسان نے دنيا كو جيسے ہے اس طرح نہ پہچانا ہو دنيا ميں ايسے زندگى كرنے ميں مشغول ہوگيا ہو كہ گويا اس كے خلق ہونے كى غرض اور غايت يہى دنيا تھى اور آخرت ميں كوئي حساب اور كتاب نہيں اور نہ ہى اس دنيا كے علاوہ كوئي اور دنيا ہے كہ جس كى طرف اس نے جانا ہے اور وہ مال اور دولت زن اور فرزند جاہ و جلال اور مقام و منصب كا قيدى اور فريفتہ ہوچكا ہو اور اسى دنيا كى زندگى كو خوب مضبوط پكڑ ركھا ہو اور اسى كے ساتھ ولى لگائو ركھا ہو اور آخرت كى زندگى اور خدا كو فراموش كرديا ہو اور معنوى بلنديوں سے چشم پوشى كر لى ہو اور صرف حيوانى خواہشات كے پورے كرنے اور لذائز دنيوى سے زيادہ سے زيادہ لطف اندوز ہونے ميں كمر ہمت باندھ ركھى ہو_ اس طرح كا انسان اور افراد دنيا اور اہل دنيا شمار قسم ہوتے ہيں گرچہ وہ فقير اور نادار اور گوشہ نشين ہى كيوں نہ ہوں اور ہر قسم كى اجتماعى زمہ دارى كے قبول كرنے سے پرہيز ہى كيوں نہ كرتے ہوں_خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے ‘ وہ صرف دنيا كے ظاہر كو ديكھتے ہيں ليكن آخرت سے غافل ہيں_(223)نيز اللہ تعالى فرماتا ہے’ دنيا كى زندگى كو آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں خريداہے_(224)نيز ارشاد ہوا ہے كہ ‘كيا تم نے دنيا كى زندگى پر رضايت دے دى ہے؟ جب كہ يہ معمولى ثروت سے زيادہ نہيں ہے_ (225)
اللہ تعالى فرماتا ہے’جو لوگ ہمارى ملاقات اور بقا كى اميد نہيں ركھتے اور دنيا كى زندگى سے دل لگا ركھا ہے اور خوش ہيں اور وہ جو ہمارى آيات سے غافل ہيں يہى وہلوگ ہيں كہ جن كا ٹھكانہ جہنم كى اگ ميں ہے يہ اس وجہ سے ہوگا كہ جو كچھ انہوں نے دنيا ميں كسب كيا ہے_(226)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ انسان كى خدا سے دور ترين حالت اس وقت ہوتى ہے جب وہ سوائے شكم پرى اور عورت كے اور كسى چيز كو ہدف اور غرض قرار نہيں ديتا_ (227)حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو دل دنيا كا فريفتہ اور عاشق ہوگا اس ميں تقوى اور پرہيزگارى كا داخل ہونا حرام ہوا كرتا ہے_(228)نيز آنحضرت(ص) نے فرمايا ہے كہ ‘ وہ بہت ہى برا معاملہ اور تجارت ہے كہ جس كى قيمت اور عوض اپنے نفس كو قرار دے ديا جائے اور دنيا كو اس كے عوض جو خدا كے نزديك ہے عوض بنا ليا جائے_ (229)اگر دنيا كى مذمت كى گئي ہے تو اس كى وجہ يہ ہے كہ دنيا غرور اور دھوكا دينے والى اور مشغول ركھ دينے كا مال اور متاع ہے_ دنيا اپنے آپ كو خوبصورت اور شيرين ظاہر كرتى ہے اور انسان كو اسى ميں لگائے ركھتى ہے اور انسان كو خدا كى ياد آور آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كرنے سے روكتى ہے_اسى لئے دنيا كى مذمت وارد ہوئي ہے اور اسے بيان كيا گيا ہے تا كہ انسان ہوشيار رہيں اور اس كى چالوں كا دھوكانہ كھائيں اور اپنے آپ كو دنيا كے قيدى اور غلام نہ بنائيں اور اس پر فريفتہ نہ ہوجائيں_قابل مذمت دنيا سے لگائو اور عشق ہے اور اپنے خلق ہونے كى غرض كو بھول جانا ہے اور آخرت كى ہميشگى زندگى اور اللہ كى نعمتوں سے غافل ہو جانا ہے_
اہل دنيا اور اہل آخرت
جو دنيا ميں رہ كر آخرت كے لئے كام كرے وہ اہل آخرت ہے اور جو صرف دنيا ميں رہ كر دينا كے لئے كام كرے وہ اہل دنيا اور دنيا دار ہے_اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا ميں لوگ دو قسم پر عمل كرتے ہيں ايك وہ ہے جو دنيا ميں رہ كر دنيا كے لئے كام كرتا ہے دنيا نے اسے مشغول كر ركھا ہے اور آخرت سے غفل بنا ديا ہے_ ڈرتا ہے كہ اس كى اولاد اس كے مرنے كے بعد فقير وجائے ليكن آخرت كے جہان ميں خالى ہاتھ جانے سے اپنے آپ كو محفوظ سمجھتا ہے اپنى عمر كو دوسروں كے منافع كے لئے خرچ كرتا ہے_ دوسرا وہ ہے جو دنيا ميں رہ كر آخرت كے لئے كام كرتا ہے_ اس كى روزى بعى بغير كسى مشقت كے پہنچتى رہتى ہے يعنى دنيا اور آخرت كا حصہ اور نصيب اسے ملتا رہتا ہے اور يہ يہ دونوں جہانوں كا مالك ہو جاتا ہے يہ خدا كے نزديك آبرومند اور محترم ہوگا اور جو كچھ خدا سے طلب كرے گا خدا سے قبول كريگا_(230)نيز اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ دنيا عبور كرجانے كى جگہ ہے يہ ٹھہر جانے كا گھر نہيں ہے لوگ دو قسم كے ہيں ايك وہ ہے جو اپنے نفس كو دنيا كى بے قيمت اشياء كے عوض فروخت كرديتا ہے اور اپنے نفس كو ذلت اور خوارى ميں ڈالتا ہے دوسرا وہ ہے جو اپنے انسانى نفس كو خريد ليتا ہے اور آزاد كر ليتا ہے_ (231)اہل دنيا اور اہل آخرت ميں فرق اس ميں نہيں ہوتا كہ دولتمند ہے يا فقير دنيا كے كاموں ميں مشغول ہے ہے يا بيكار ہے_ اجتماعى زمہ داريوں كو قبول كيا ہوا ہے يا نہ لوگوں كے درميان زندگى كر رہا ہے يا گوشہ نشين ہے كسب و كار تجارت ميں مشغول ہے يا تحصيل علم درس تدريس تاليف كتاب وعظ اور نصيحت كرنے ميں مشغول ہے_ دنيا كے نعمتوں سے استفادہ كر رہا ہے يا نہ دنيا منصب اور عہدہ پر فائز ہے يا نہ بلكہ ان دو ميں اصلى تفاوت اور فرق اس ميں ہے كہ دنياوى امور سے وابستگى اور عشق ركھتا ہے يا امور آخرت كا فريفتہ ہے_ دنيا سے دل لگا ركھا ہے يا آخرت كى زندگى سے _ دنيا كى طرف متوجہہ ہے يا خدا كى طرف_ اپنى زندگى كى غرض اور ہدف حيوانى خواہشات كو قرار دے ركھا ہے يا مكارم اخلاق اور فضائل انسانى كا حصول اور تربيت كرنا_
جو چيز انسان كو اپنے ميں مشغول ركھے اور خدا كى ياد آور آخرت كے جہاں كےلئے سعادت اور كوشش سے روكے ركھے وہ دنيا شمار ہوگى گرچہ انسان تحصيل علم اور تدريس اور تاليف كتاب اور وعظ اور نصيحت امامت جماعت يہاں تك كہ گوشہ نشينى اور دنيا سے زہد اور عبادت بجالا رہا ہو اگر يہ تمام كے تمام غير خدا كے لئے ہوں تو يہ بھى دنيا شمار ہوگى پس واضح ہوگيا كہ تمام دنيا كے لوگ ايك مرتبے اور قطار ميں نہيں ہوتے اسى طرح تمام اہل آخرت بھى ايك رتبے ميں نہيں ہوا كرتے بلكہ ايك گروہ اہل دنيا كا سوفيصدى اور بطور كامل دنيا سے لگاؤ ركھتا اور بطور كلى خدا اور آخرت كے جہان سے غافل ہوتا ہيں اس طرح كے ان لوگوں كو دنيا دار اور دنياپرست كا نام ديا جانا ہوتا ہے_ ان كے مقابلے ميں ايك گروہ لوگوں كا ہے جو اللہ تعالى كے خالص بندے ہيں كہ ان كى سارى توجہہ خدا اور آخرت كے جہان كے لئے ہوتى ہے اور سوائے اللہ كى رضا كے انكا كوئي اور ہدف نہيں ہوتا_ پھر ان دونوں گروہوں ميں بہت زيادہ درجات اور مراتب ہوتے ہيں جو جتنا دنيا سے لگاؤ اور محبت ركھے گا وہ اسى مقدار كا دنيا دار ہوگا اور اللہ تعالى كے قرب سے دور ہوگا اس كے برعكس جو جتنا زيادہ خدا كى ياد ميں آخرت كے جہاں كى فكر ميں ہوگا وہ ا تنا تارك دنيا شمار ہوگا خلاصہ دنيادار ہونا اور اہل آخرت ہونا يہ دونوں امر اصطلاحى لحاظ سے اضافى اور نسبى ہوا كرتے ہيں_
204_بقرہ/ 18_205_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:العبادة سبعون جزاً افضلہا طلب الحلال_ كافي/ ج 5 ص 78_206_عن ابى جعفر (ع) قال: من طلب الرزق فى الدنيا استعفافاً عن الناس و توسيعاً على اہلہ و تعطفاً على جارہ لقى اللہ عزوجل يوم القيامة و وجہہ مثل القمر ليلة البدر_ كافي/ ج 5 ص 88_207_عن ابى عبداللہ عليہ السلام قال: الكادّ على عيالہ كالمجاہد فى سبيل اللہ_ كافي/ ج 5 ص 88_208_زيّن للناس حبّ الشہوات من النساء و البنين و القناطير المنقنطرة من الذہب و الفضة و الخيل المسوّمة و الانعام و الحرث ذالك متاع الحياة الدنيا و اللہ عندہ حسن المآب_ آل عمران/ 14_
209_ قال على عليہ السلام: ايّاك و حبّ الدنيا فانہا اصل كل خطيئة و معدن كل بليّہ_ غرر الحكم/ ص 150_210_عن ابى عبداللہ عليہ السلام قال: راس كل خطيئة حبّ الدنيا_ بحارالانوار/ ج 3 ص 7_211_ قال على عليہ السلام: الناس ابناء الدنيا و لا يلام الرجل على حبّ امہ_ نہج البلاغہ/ قصار 33_212_ان الدنيا دار صدق لمن صدقہا و دار عاقبة لمن فہم عنہا_ و دار غنى لمن تزوّد منہا و دار موعظة لمن اتّعظ بہا_ مسجد احبّاء اللہ و مصلّى ملائكة اللہ و محبط وحى اللہ و متجر اولياء اللہ، اكتسبوا فيہا الرحمة و ربحوا فيہا الجنة_ نہج البلاغہ/ كلمات قصار 130_213_عن ابى جعفر عليہ انہ كان يقول: نعم العون على الاخرة_ بحار/ ج 73 ص 127_214_قال ابو عبداللہ عليہ السلام: لا خير فى من لا يحبّ جمع المال من حلال، يكفّ بہ وجہہ و يقضى بہ دينہ و يحصل بہ رحمہ_ كافي/ ج5 ص 72_215_فان الدنيا لم تخلق لكم دار مقام_ بل خلقت لكم مجازاً لتزوّدوا منہا الاعمال الى دار القرار فكونوا منہا على اوفار و قرّبوا الظہور للزيال_ نہج البلاغہ/ خطبہ 1323_216_ايّہا الناس انّما الدنيا دار مجاز و الاخرة قرار فخدوا من ممرّكم لمقرّكم و لا تہتكوا استاركم عند من يعلم اسراركم، و اخرجوا من الدنيا قلوبكم من قبل ان تخرج منہا ابدانكم، ففيہا اختبرتم و لغيرہا خلقتم_ ان المرء اذا ہلك قال الناس: ما ترك؟ و قالت الملائكة: ما قدّم ؟ اللہ آبائكم فقدّموا بعضا يكن لكم قرضاً، و لا تخلفوا كلاً فيكون فرضاً عليكم_ نہج البلاغہ/ 203_217_ الا و ان ہذہ الدنيا التى اصبحتم تتمنّونہا و ترغبون فيہا و اصبحت تغضبكم و ترضيكم ليست بداركم و لا منزلكم الذين خلقتم لہ و لا الذى دعيتم اليہ_ الا و انہا ليست بباقية لكم و لا تبقون عليہا و ہى و ان غرتكم منہا فقد حذرتكم شرّہا_ فدعوا غرورہا لتحذيرہا و اطماعہا لتخويفہا و سابقوا فيہا الى الدار التى دعيتم اليہا و انصرفوا قلوبكم عنہا_ نہج البلاغہ/ خ 173_218_ ابن ابى يعفور قال قلت لا بيعبد اللہ عليہ السلام: انا لنحب الدنيا فقال لي: تصنع بہا ماذا؟ قلت اتزوج منہا و احج و انفق على عيالى و انيل اخوانى و اتصدق_ قال: ليس ہذا من الدنيا، ہذا من الاخرة_ بحارالانوار/ ج 73 ص 106_219_ و اعلموا عباداللہ انّ المتقين ذہبوا بعاجل الدنيا و آجل الاخرة فشاركوا اہل الدنيا فى دنياہم و لم يشاركہم اہل الدنيا فى آخرتہم_ سكنوا الدنيا بافضل ماسكنت و اكلوہا بافضل ما اكلت فحظوا من الدنيا بما حظى بہ المترفون، و اخذوا منہا ما اخذہ الجبابرة المتكبرون، ثم انقلبوا عنا بالزاد المبّلغ و المتجر الرابح_ اصابوا لذة زہد الدنيا فى دنياہم و تيقّنوا انہم جيران اللہ غداً فى آخرتہم_ لا ترد لہم دعوة و لا ينقص لہم نصيب من لذة_ نہج البلاغہ/ كتاب 27_
220_ يا دنيا يا دنيا اليك عنّي، ابى تعرّضت؟ ام اليّ تشوّقت؟ لا حان حينك؟ ہيہات غرّى غيري، لا حاجة لى فيك، قد طلّقتك ثلاثاً لا رجعة فيہا فعيشك قصير و خطرك يسير و ملك حقير_ آہ من قلّة الزاد و طول الطريق و بعد السفر و عظيم المورد_ نہج البلاغہ/ كلمات قصار 77_221_ اليك عنفى يا دنيا فحبلك على غاربك،قد انسللت من مخالبك و افلّت من حبائلك و اجتنبت الذہاب فى مداحضك_ نہج البلاغہ/ نامہ 54_222_ نہج البلاغہ/ خطبہ 33_223_ يعلمون ظاہراً من الحياة الدنيا و ہم عن الاخرة ہم غافلون_ روم/ 7_224_ اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة_ بقرہ/ 86_225_ ارضيتم بالحياة الدنيا من الاخرة فما متاع الحياة الدنيا فى الاخرة الا قليل_ توبہ/ 38_226_ ان الذين لا يرجون لقائنا و ضوا بالحياة الدنيا و اطمانوا بہا و الذين ہم عن آياتنا غافلون_ اولئك ماواہم النار بما كانوا يكسبون_ يونس/ 8_227_ عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: ابعد ما يكون العبد من اللہ اذا لم يہمّہ الاّ بطنہ و فرجہ_ بحار/ ج 73 ص 18_228_ قال علي(ع): حرام على كل قلب متولّہ بالدنيا ان يسكنہ التقوي_ غرر الحكم/ ص 383_229_ قال على عليہ السلام: و لبئس المتجر ان ترى الدنيا لنفسك ثمناً و ممالك عنداللہ عوضا_ نہج البلاغہ/ خطبہ 32_230_ قال على عليہ السلام:الناس فى الدنيا عاملان: عامل عمل فى الدنيا للدنيا، قد شغلتہ دنياہ عن آخرتہ_ يخشى على من يخلفہ الفقر و يامنہ على نفسہ فيفنى عمرہ فى منفعة غيرہ_ و عامل عمل فى الدنيا لما بعدہا فجائہ الذى لہ من الدنيا بغير عمل_ فاحرز الحظين معا و ملك الدارين جميعا_ فاصبح وجيہاً عندا للہ لا يسال اللہ حاجة فيمنعہ_ نہج البلاغہ/ كلمات قصار 269_231_ قال على عليہ السلام:الدنيا دار ممر لا دار مقرّ، فيہا رجلان: رجل باغ فيہا نفسہ فاوبقہا و رجل ابتاع نفسہ فاعتقہا_ نہج البلاغہ/ كلمات قصار 133_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.