اسلام میں غلامی

317

اسلام میں غلامیشواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سے انسان پیداہوا ہے یہ فکر اس کے ہمراہ تھی کہ انسان کو بھی دوسری اشیاء کے ماننداپنی ملکیت قراردے سکتا ہے ۔
قدیم مصر،ھندوستان ،ایران ،عربستان ،روم ،یونان ،یورپ اور امریکہ کے تمام ممالک میں غلام بنانے کارواج تھا اوریہ رواج یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی عام تھا اسلام نے بھی اس میں کچھ تبدیلیاں لاکراسے جائز قراردیا ہے ۔
برطانیہ کی حکومت،پہلی حکومت تھی جس نے غلامی کی روش کی مخالفت کی اور١٨٣٣ئ میں سرکاری طورپر غلامی کے طرز عمل کو منسوخ کیا ۔اسکے بعدیکے بعددیگرے دوسرے ممالک نے بھی اس روش کی پیروی کی ۔یہاں تک کہ سنہ ١٨٩٠ء میں ‘بروکسل’میں منعقد ایک مٹینگ میں ایک عمومی قانون کی حیثیت سے غلامی ممنوع قراردی گئی اورا س طرح دنیاسے غلام کی خریدو فروخت ختم ہوگئی ۔
غلام بنانے کے طریقےایسا لگتا ہے کہ یہ قدیم رسم انسان میں من مانی اوربے حساب رائج نہیں تھی کہ جوبھی چاہتا کسی دوسرے کو اپنی ملکیت میںلے لیتا ،بلکہ غلامی مندرجہ ذیل راہوں میں سے کسی ایک راہ سے انجام پاتی تھی:١۔جنگ وفتح:قدیم الایام سے اگردوجانی دشمنوںمیں سے ایک،دوسرے پر فتح پاکر بعض افراد کو اسیر بناتا تھا ،تو وہ ان جنگی اسیروں کے لئے کسی انسانی احترام کا قائل نہیںہو تاتھابلکہ اپنے لئے ان کے ساتھ ہر طرح کابرتائو کرنے کاحق سمجھتا تھا۔یعنی قتل کرڈالے یا بخش دے یاآزاد کرے یاغلاموں کی حیثیت سے اپنے پاس رکھے اور ان سے استفادہ کرے ۔
٢۔تولید وتربیت :خاندان کے باپ ،خاندان کے سر پرست ہوتے تھے اور اپنی اولاد کو اجتماعی شخصیت کے مالک نہیں جانتے تھے بلکہ انھیں خاندان کے تابع اورمحض اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور خود کو ان کے بارے میں ہرقسم کا فیصلہ کرنے کامستحق سمجھتے تھے ۔اس لحاظ سے ضرورت کے وقت اپنی اولادکو بیچ دیتے تھے اوراسی اصل کی بنیاد پرکبھی عورتوں کو بھی بیچ دیتے تھے ۔٣۔طاقت ور لوگ جواپنے آپ کودوسروں سے بلند سمجھتے تھے :ایسے افراداپنے حکم کولوگوں کانظم ونسق چلانے میں نافذ العمل جانتے ہوئے انھیں اپنا غلام شمارکرتے تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے قدرتمند بادشاہ اپنے کو خدائی کے قابل جان کر لوگوں کواپنی پرستش کرنے پر مجبور کرتے تھے ،یہ افراد لوگوں کو اپنا غلام بنانے میں مطلق العنان تھے اوراپنے ماتحتوں میں سے جس کو بھی چاہتے،اسے اپنا غلام بناتے تھے۔
غلامی کے بارے میں اسلام کا نظریہاسلام نے اپنی اولاد اور عورتوں کو بیچنے کے ذریعہ اورزبردستی اورغنڈہ گردی کے ذریعہ غلا م بنانے سے منع کیا ہے ۔اسلام کی نظرمیں ہرانسان جوانسانیت کے راستہ پرگامزن ہے اورکم از کم انسانیت کے اصول کا دشمن نہ ہو،وہ آزاد ہے اور کوئی شخص اسے اپناغلام نہیں بنا سکتا ۔
لیکن جوانسانیت کا جانی دشمن ہے اور جان بوجھ کر انسانیت کے اصول کے سامنے تسلیم نہیں ہوتا ہے اوراپنی پوری طاقت سے اسے نابود کرنے پر تلا ہوا ہے ،وہ ہرگز انسانی احترام کامستحق نہیں ہے اوراسے اپنے ارادہ وعمل میں آزاد نہیں ہونا چاہئے اورغلامی اس کے سواکچھ نہیںہے کہ انسان کے عمل وارادہ کی آزادی اس سے سلب کی جائے اوردوسرے کا ارادہ اس پر حکومت کرے اسی عالمی اصول پرجو ہمیشہ دنیا والوں کی طرف سے مورد تائید قرار پایا ہے کفارحربی سے لئے گئے جنگی اسیروں کو غلامی ،یعنی انھیں ارادہ وعمل کی آزادی سلب کرنے کی سزا دیتا ہے کیونکہ وہ انسانیت کے حقیقی دشمن ہیں۔اسلام جو سلوک جنگی اسیروں کے ساتھ روا رکھتا تھا ، وہ وہی سلوک ہے جسے دوسرے بھی روا رکھتے ہیں ۔جب کوئی ملت جنگ کے بعدفاتح ملت کے سامنے کسی قید وشرط کے بغیرہتھیار ڈالتی ہے ،تو جب تک ان کے درمیان باقاعدہ صلح بر قرار نہ ہوتب تک اسے ارادہ وعمل کی آزادی سے محروم کرنے کی سزادی جاتی ہے ۔ان ملتوں کا اسلام کے ساتھ جوتنہا اختلاف ہے،وہ یہ ہے کہ اسلام اسے’غلامی’کے نام پر یاد کرتا ہے اور یہ قومیں اس لفظ کو استعمال کرنے سے پہلوتہی کرتی ہیں ۔البتہ جس روش کووہ زندہ اور معاشرے کے لئے راہنما جانتے ہیں اپنی تعلیمات کی بنیاد کو نام گزاری کی بنیادپر استوارنہیں کرنا چاہئے ۔
اسلام اور دوسرے نظریات کی تحقیقگزشتہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کو منسوخ کرنے والی عام قراردادنے بجائے اس کے کہ اسلام کے کام میں کوئی گرہ لگا ئے ،ایک گرہ کو کھول دیاہے ۔حقیقت میں یہ قرار داد دین اسلام کے قوانین کی ایک دفعہ کا نفاذہے کیونکہ اس طرح عورتوں اوربچوں کو بیچنے کا موضوع ختم ہوا ہے ،اوریہ وہی چیز ہے جسے چودہ سو سال پہلے اسلام نے منسوخ کیا تھا۔اسلام نے جنگی اسیروں کی غلامی کا جو راستہ کھلا رکھا ہے ،وہ اس لئے ہے کہ انسان کو ہمیشہ اس حکم کی ضرورت ہے ،اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا .تنہا چیز جسے اسلام نے ‘غلامی’کا نام دیا ہے وہ یہی جنگی اسراء ہیں ۔لیکن دوسرے لوگ ‘غلامی ‘ کے نام کو زبان پر لائے بغیر عملاً’غلامی’کی رسم کو مستحکم کررہے ہیں ،اور جواستفادہ صدراسلام میں مسلمان (جنگی اسیروں )غلاموںسے کرتے تھے وہی استفادہ آج کی حکومتیں جنگی قیدیوں اور جنگ میں شکست کھائی ملتوں سے کرتے ہیں ۔
غلاموں کے ساتھ اسلام کاسلوکاسلامی قوانین کے تحت،اسیر کئے گئے کفار حربی ،ممکن ہے مسلمانوں کے سرپرست اورحاکم کے حکم سے آزاد کئے جائیں یابطور غلام رکھے جائیں ۔جنگ ہوازن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی ہزار عورتوں اور بچوں کو ایک ساتھ آزاد کیا ۔جنگ بنی المصطلق میں مسلمانوں نے کئی ہزاراسیروں کو آزاد کیا ۔اسلام میں ،غلام ،گھر کے اعضاء کے مانند ہیں ،گھر کے دوسرے اعضاء کے ساتھ جیسا سلوک کیا جاتا ہے ویساہی برتائوان کے ساتھ بھی کیا جانا چاہئے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلاموں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام دو کرُتے خریدتے تھے،ان میں سے بہتراپنے غلام کودیتے تھے اورمعمولی کرُتے کو خودپہنتے تھے ۔حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے غلاموں اورکنیزوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے ۔اسلام حکم دیتا ہے کہ غلاموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں ،ان کے ساتھ سختی نہ کریں ، گالیاں نہ دیں اور جسمانی اذیتیں نہ پہنچائیں اورضرورت کے وقت ان کے ازدواج کے وسائل فراہم کریں یاخود ان کے ساتھ ازدواج کریں ۔خدائے متعال اس سلسلہ میں فرماتا ہے :(…بعضکم من بعض…) (نساء ٢٥)’سب ایک پیکر کے اعضاء ہیں’اسلام میں،غلام،اپنے مالک کی اجازت سے یادوسرے راستہ سے،مالک بن سکتے ہیں اور جس مال کے وہ مالک بن جائیں ،آزادی کے بعدان کے لئے کسی قسم کا ننگ و عار نہیں ہے ،جیسے کہ غلامی کے زمانہ میں بھی نہیں تھا .کیونکہ اسلام میں بزرگی اورفضیلت کا معیارصرف تقویٰ ہے لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص کو سب سے بہتر جانتا ہے۔اسلام کی نظرمیں ایک باتقوی غلام ہزاربے تقوی آزاد لوگوں سے بہتر ہے ۔اسلام کی بعض عظیم شخصیتیں جیسے سلمان فارسی اوربلال حبشی آزاد کئے گئے غلام تھے .اسلام نے غلام کو آزاد کرنے کے مسئلہ کو ہمیشہ مد نظر رکھاہے اور اس کام کے لئے مختلف راستے کھولے ہیں منجملہ جرمانہ اور بعض گناہوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی کے لئے قراردیا ہے ،اس کے علاوہ غلاموں کو آزاد کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اسے اہم مستحبات میں قراردیا ہے تاکہ اس طرح ہرسال بہت سے غلام آزادہو کرآزاد معاشرے کے عضوبن سکیں ۔نتیجہ یہ تھا کہ اسلام حتی الامکان غیراسلامی معاشروں (کفار حربی) سے ایک گروہ کو جنگی اسیروں کی صورت میں پکڑتاتھا اور انھیں حق وعدالت کے معاشرے میں داخل کرتاتھا ،ان کی تعلیم وتربیت کرتا تھا ،پھر مختلف راستوں سے آزاد کرکے اسلامی معاشرے کا حصہ بناتا تھا ۔اس لحاظ سے جوشخص بھی جنگی اسیرہوتاتھا ،آزاد ہونے تک غلام رہتا تھا۔اگر وہ مسلمان ہونے کے فوراًبعدآزاد ہوتا ،تواس صورت میں ممکن تھا ہراسیر ہونے والا کافر، ظاہراً مسلمان ہوجاتا، اوراس طرح اپنے آپ کونجات دلاتا اورتھوڑی ہی دیر کے بعدپھرسے اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ جاتا۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.