محاسبہ نفس کا طریقہ

698

نفس پر كنٹرول كرنا سادہ اور آسان كام نہيں ہوتا بلكہ سوچ اور فكر اور سياست بردبارى اور حتمى ارادے كا محتاج ہوتا ہے_ كيا نفس امارہ اتنى آسانى سے رام اور مطيع ہوسكتا ہے؟ كيا اتنى سادگى سے فيصلے اور حساب كے لئے حاضر ہوجاتا ہے؟ كيا اتنى آسانى سے حساب دے ديتا ہے؟ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ‘ جس نے اپنے نفس كو اپنى تدبير اور سياست كے كنٹرول ميں نہ ديا تو اس نے اسے ضائع كرديا ہے_ (294)حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ كہ جس شخص نے اپنے نفس كا فريب اور دھوكہ دينا مول لے ليا تو وہ اس كو ہلاك ميں ڈال دے گا_ (295)آنحضرت نے فرمايا ہے كہ ‘جس شخص كے نفس ميں بيدارى اورآگاہى ہو تو خداوند عالم كى طرف سے اس كے لئے نگاہ بان معين كيا جائيگا_(296)
نيز آنحضرت(ص) نے فرمايا ہے كہ ‘پے در پے جہاد سے اپنے نفس كے مالك بنو اور اپنے كنٹرول ميں ركھو_( 297) نفس كے حساب كو تين مرحلوں ميں انجام ديا جائے تا كہ تدريجاً وہ اس كى عادت كرے اور مطيع ہوجائے_
1_ مشارطہ اور عہد لينانفس كے حساب كو اس طرح شروع كريں دن كى پہلى گھڑى ميں ہر روز كے كاموں كے انجام دينے سے پہلے ايك وقت مشارطہ كے لئے معين كرليں مثال كے طور پر صبح كى نماز كے بعد ايك گوشہ ميں بيٹھ جائيں اور اپنے آپ سے گفتگو كريں اور يوں كہيں_ ابھى ميںزندہ ہوں ليكن يہ معلوم نہيں كہ كب تك زندہ رہوں گا_ شايد ايك گھنٹہ يا اس كم اور زيادہ زندہ رہونگا_ عمر كا گذرا ہوا وقت ضائع ہوگيا ہے ليكن عمر كا باقى وقت ابھى ميرے پاس موجود ہے اور يہى ميرا سرمايہ بن سكتا ہے بقيہ عمر كے ہر وقت ميں آخرت كے لئے زاد راہ مہيا كرسكتا ہوں اور اگر ابھى ميرى موت آگئي اور حضرت عزرائيل عليہ السلام ميرى جان قبض كرنے كے لئے آگئے تو ان سے كتنى خواہش اور تمنا كرتا كہ ايك دن ياايك گھڑى اور ميرى عمر ميں زيادہ كيا جائے؟اے بيچارے نفس اگر تو اسى حالت ميں ہو اور تيرى يہ تمنا اور خواہش پورى كر دى جائے اور دوبارہ مجھے دنيا ميں لٹا ديا گيا تو سوچ كہ تو كيا كرے گا؟ اے نفس اپنے آپ اور ميرے اوپر رحم كر اور ان گھڑيوں كو بے فائدہ ضائع نہ كر سستى نہ كر كہ قيامت كے دن پشيمان ہوگا_
ليكن اس دن پشيمانى اور حسرت كوئي فائدہ نہيں دے گي_ اے نفس تيرى عمر كى ہر گھڑى كے لئے خداوند عالم نے ايك خزانہ برقرار كر ركھا ہے كہ اس ميں تيرے اچھے اور برے عمل محفوظ كئے جاتے ہيں اور تو ان كا نتيجہ اور انجام قيامت كو ديكھے گا اے نفس كوشش كر كہ ان خزانوں كو نيك اعمال سے پر كردے اور متوجہ رہ كر ان خزانوں كو گناہ اور نافرمانى سے پر نہ كرے_ اسى طرح اپنے جسم كے ہر ہر عضو كو مخاطب كر كے ان سے عہد اور پيمان ليں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كريں مثلاً زبان سے كہيںجھوٹ، غيبت، چغلخوري، عيب جوئي، گالياں، بيودہ گفتگو، توہين، ذليل كرنا، اپنى تعريف كرنا، لڑائي، جھگڑا، جھوٹى گواہى يہ سب كے سب برے اخلاق اور اللہ كى طرف سے حرام كئے گئے ہيں اور انسان كى اخروى زندگى كو تباہ كردينے والے ہيں اے زبان ميں تجھے اجازت نہيں ديتا كہ تو ان كو بجالائے_ اے زبان اپنے اور ميرے اوپر رحم كر اور نافرمانى سے ہاتھ اٹھالے كيونكہ تيرے سب كہے ہوئے اعمال كو خزانہ اور دفتر ميں لكھا جاتا ہے اور قيامت كے دن ان كا مجھے جواب دينا ہوگا_ اس ذريعے سے زبان سے وعدہ ليں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كرے_ اس كے بعد اسے وہ نيك اعمال جو زبان بجالاسكتى ہے_ بتلائے جائيں اور اسے مجبور كريں كہ وہ ان كو سارے دن ميں بجالائے مثلاً اس سے كہيں كہ تو فلان ذكر اور كام سے اپنے اعمال كے دفتر اور خزانے كو نور اور سرور سے پر كردے اور آخرت كے جہاں ميں اس كا نتيجہ حاصل كر اور اس سے غفلت نہ كر كہ پيشمان ہوجائيگي_ اسى طرح سے يہ ہر ايك عضو سے گفتگو كرے اور وعدہ لے كہ گناہوں كا ارتكاب نہ كريں اور نيك اعمال انجام ديں_حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے والد بزرگوار سے نقل كيا ہے كہ آپ نے فرمايا كہ ‘ جب رات ہوتى ہے تو رات اس طرح كى آواز ديتى ہے كہ جسے سوائے جن اور انسان كے تمام موجودات اس كى آواز كو سنتے ہيں وہ آواز يوں ديتى ہے_ اے آدم كے فرزند ميں نئي مخلوق ہوں جو كام مجھ ميں انجام ديئے جاتے ہيں_ ميں اس كى گواہى دونگى مجھ سے فائدہ اٹھاؤ ميں سورج نكلنے كے بعد پھر اس دنيا ميں نہيں آؤنگى تو پھر مجھ سے اپنى نيكيوں ميں اضافہ نہيں كرسكے گا اور نہ ہى اپنے گناہوں سے توبہ كرسكے گا اور جب رات چلى جاتى ہے اور دن نكل آتا ہے تو دن بھى اسى طرح كى آواز ديتا ہے_ (298)
ممكن ہے كہ نفس امارہ اور شيطان ہميں يہ كہے كہ تو اس قسم كے پروگرام پرتو عمل نہيں كرسكتا مگر ان قيود اور حدود كے ہوتے ہوئے زندگى كى جاسكتى ہے؟ كيا ہر روز ايك گھڑى اس طرح كے حساب كے لئے معين كيا جاسكتى ہے؟ نفس امارہ اور شيطناس طرح كے وسوسے سے ہميں فريب دينا چاہتا ہے اور ہميں حتمى ارادہ سے روكنا چاہتاہے_ ضرورى ہے كہ اس كے مقابلے كے لئے ڈٹ جانا چاہئے اور اسے كہيں كہ اس طرح كا پروگرام پورى طرح سے قابل عمل ہے اور يہ روزمرہ كى زندگى سے كوئي منافات نہيں ركھتا اور چونكہ يہ ميرے نفس كے پاك كرنے اور اخروى سعادت كے لئے ضرورى ہے لہذا مجھے يہ انجام دينا ہوگا اور اتنا مشكل بھى نہيں ہے _ تو اے نفس ارادہ كر لے اور عزم كر لے يہ كام آسان ہوجائيگا اور اگر ابتداء ميں كچھ مشكل ہو تو آہستہ آہستہ عمل كرنے سے آسان ہوجائيگا_

2_ مراقبتجب انسان اپنے نفس سے مشارطہ يعنى عہد لے چكے تو پھر اس كے بعد ان عہد پر عمل كرنے كا مرحلہ آتا ہے كہ جسے مراقبت كہا جاتا ہے لہذا تمام دن ميں تمام حالات ميں اپنے نفس كى مراقبت اور محافظت كرتے رہيں كہ وہ وعدہ اور عہد جو كر ركھا ہے اس پر عمل كريں_ انسان كو تمام حالات ميں بيدار اور مواظب رہنا چاہئے اور خدا كو ہميشہ حاضر اور ناظر جانے اور كئے ہوئے وعدے كو ياد ركھے كہ اگر اس نے ايك لحظہ بھى غفلت كى تو ممكن ہے كہ شيطن اور نفس امارہ اس كے ارادے ميں رخنہ اندازى كرے اور كئے وعدہ پر عمل كرنے سے روك دے امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ عاقل وہ ہے جو ہميشہ نفس كے ساتھ جہاد ميں مشغول رہے اور اس كى اصلاح كى كوشش كرتارہے اور اس ذريعے اسے اپنے ملكيت ميں قرار دے عقلمند انسان نفس كو دنيا اور جو كچھ دنيا ميں ہے مشغول ركھنے سے پرہيز كرنے والا ہوتا ہے_(299)حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ نفس پر اعتماد كرنا اور نفس سے خوش بين ہونا شيطن كے لئے بہترين موقع فراہم كرتا ہے_(300) نيز آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص نفس كے اندر سے روكنے والا ركھتا ہو تو خداوند عالم كى طرف سے بھى اسكے لئے محافظت كرنے والا معين كيا جاتا ہے_(301)
جو انسان اپنے نفس كا مراقب ہے وہ ہميشہ بيدار اور خدا كى ياد ميں ہوتا ہے وہاپنے آپ كو ذات الہى كے سامنے حاضر ديكھتا ہے كسى كام كو بغير سوچے سمجھے انجام نہيں ديتا اگر كوئي گناہ يا نافرمانى اس كے سامنے آئے تو فورا اسے اللہ اور قيامت كے حساب و كتاب كى ياد آجاتى ہے اور وہ اسے چھوڑ ديتا ہے اپنے كئے ہوئے عہد اور پيمان كو نہيں بھلاتا اسى ذريعے سے اپنے نفس كو ہميشہ اپنى ملكيت اور كنٹرول ميں ركھتا ہے اور اپنے نفس كو برائيوں اور ناپاكيوں سے روكے ركھتا ہے ايسا كرنا نفس كو پاك كرنے كا ايك بہترين وسيلہ ہے اس كے علاوہ جو انسان مراقبت ركھتا ہے وہ تمام دن واجبات اور مستحبات كى ياد ميں رہتا ہے اور نيك كام اور خيرات كے بجالانے ميں مشغول رہتا ہے اور كوشش كرتا ہے كہ نماز كو فضيلت كے وقت ميں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے اس طرح بجالائے كہ گويا اس كے عمر كى آخرى نماز ہے_ ہر حالت اور ہر كام ميں اللہ كى ياد ميں ہوتا ہے فارغ وقت بيہودہ اور لغويات ميں نہيں كاٹتا اور آخرت كے لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے وقت كى قدر كو پہچانتا ہے اور ہر فرصت سے اپنے نفس كے كام كرنے ميں سعى اور كوشش كرتا ہے اور جتنى طاقت ركھتا سے مستحبات كے بجا لانے ميں بھى كوشش كرتا ہے كتنا ہى اچھا ہے كہ انسان بعض اہم مستحب كے بجالانے كى عادت ڈالے _ اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى ياد تو انسان كے لئے ہر حالت ميں ممكن ہوا كرتى ہے_ سب سے مہم يہ ہے كہ انسان اپنے روز مرہ كے تمام كاموں كو قصد قربت اور اخلاص سے عبادت اور سير و سلوك الى اللہ كے لئے قرار دے دے يہاں تك كہ خورد و نوش اور كسب كار اور سونا اور جاگنا نكاح اور ازدواج اور باقى تمام مباح كاموں كو نيت اور اخلاص كے ساتھ عبادت كى جزو بنا سكتا ہے_ كار و بار اگر حلال روزى كمانے اور مخلوق خدا كى خدمت كى نيت سے ہو تو پھر يہ بھى عبادت ہے_ اسى طرح كھانا پينا اٹھنا بيٹھنا سونا اور جاگنا اگر زندہ رہنے اور اللہ كى بندگى كے لئے قرا ردے تو يہ بھى عبادت ہيں_ اللہ كے مخصوص بندے اسى طرح تھے اور ہيں_

3_ اعمال كا حساب
تيسرا مرحلہ اپنے ہر روز كے اعمال كا حساب كرنا ہے ضرورى ہے انسان دن ميںايك وقت اپنے سارے دن كے اعمال كے حساب كرنے كے لئے معين كرلے اور كتنا ہى اچھا ہے كہ يہ وقت رات كے سونے كے وقت ہو جب كہ انسان تمام دن كے كاموں سے فارغ ہوجاتا ہے اس وقت تنہائي ميں بيٹھ جائے اور خوب فكر كرے كہ آج سارا دن اس نے كيا كيا ہے ترتيب سے دن كى پہلى گھڑى سے شروع كرے اور آخر غروب تك ايك ايك چيز كا دقيق حساب كرے جس وقت ميں اچھے كاموں اور عبادت ميں مشغول رہا ہے تو خداوند عالم كا اس توفيق دينے پر شكريہ ادا كرے اور ارادہ كر لے كہ اسے بجالاتا رہے گا_ اور جس ميں وقت گناہ اور معصيت كا ارتكاب كيا ہے تو اپنے نفس كو سرزنش كرے اور نفس سے كہے كہ اے بدبخت اور شقى تو نے كيا كيا ہے؟ كيوں تو نے اپنے نامہ اعمال كو گناہ سے سياہ كيا ہے؟ قيامت كے دن خدا كا كيا جواب دے گا؟ خدا كے آخرت ميں دردناك عذاب سے كيا كرے گا؟ خدا نے تجھے عمر اور صحت اور سلامتى اور موقع ديا تھا تا كہ آخرت كے لئے زاد راہ مہيا كرے تو اس نے اس كى عوض اپنے نامہ اعمال كوگناہ سے پر كر ديا ہے_ كيا يہ احتمال نہيں ديتا تھا كہ اس وقت تيرى موت آپہنچے؟ تو اس صورت ميں كيا كرتا؟ اے بے حيا نفس _ كيوں تو نے خدا سے شرم نہيں كي؟اے جھوٹے اور منافق _ تو تو خدا اور قيامت پر ايمان ركھنے كا ادعا كرتا تھا كيوں تو كردار ميں ايسا نہيں ہوتا_ پھر اس وقت توبہ كرے اور ارادہ كر لے كہ پھر اس طرح كے گناہ كا ارتكاب نہيں كرے گا اور كزرے ہوئے گناہوں كا تدارك كرے گا_اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص اپنے نفس كو گناہوں اور عيوب پر سرزنش كرے تو وہ گناہوں كے ارتكاب سے پرہيز كر لے گا_( 302)اگر انسان محسوس كرے كہ نفس سركش اور نافرمانى كر رہا ہے اور گناہ كے ترك كرنے اور توبہ كرنے پر حاضر نہيں ہو رہا تو پھر انسان كو بھى نفس كا مقابلہ كرنا چاہئے اور اس پر سختى سے پيش آنا چاہئے اس صورت ميں ايك مناسب كام كو وسيلہ بنائے مثلا
اگر اس نے حرام مال كھايا ہے يا كسى دوسرى نافرمانى كو بجالايا ہے تو اس كے عوض كچھ مال خدا كى راہ ميں دے دے يا ايك دن يا كئي دن روزہ ركھ لے_ تھوڑے دنوں كے لئے لذيز غذا يا ٹھنڈا، پاني، پينا، چھوڑدے، يا دوسرے لذائذ كے جسے نفس چاہتا ہے اس كے بجالانے سے ايك جائے يا تھوڑے سے وقت كے لئے سورج كى گرمى ميں كھڑا ہو جائے بہرحال نفس امارہ كے سامنے سستى اور كمزورى نہ دكھلائے ور نہ وہ مسلط ہوجائيگا اور انسان كو ہلاكت كى وادى ميں جا پھينكے گا اور اگر تم اس كے سامنے سختى اور مقابلہ كے ساتھ پيش آئے تو وہ تيرا مطيع اور فرمانبردار ہوجائيگا اگر كسى وقت ميں نہ كوئي اچھا كام انجام ديا ہو اور نہ كسى گناہ كا ارتكاب كيا ہو تو پھر بھى نفس كو سرزنش اور ملامت كرے اور اسے كہے كہ كس طرح تم نے عمر كے سرمايہ كو ضايع كيا ہے؟ تو اس وقت نيك عمل بجالا سكتا تھا اور آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كر سكتا تھا كيوں نہيں ايسا كيا اے بدبخت نقصان اٹھانے والے كيوں ايسى گران قدر فرصت كو ہاتھ سے جانے ديا ہے_ اس دن جس دن پشيمانى اور حسرت فائدہ مند نہ ہوگى پشيمان ہوگا_ اس طريقے سے پورے وقت جيسے ايك شريك دوسرے شريك سے كرتا ہے اپنے دن رات كے كاموں كو مورد دقت اور مواخذہ قرار دے اگر ہو سكے تو اپنے ان تمام كے نتائج كو كسى كاپى ميں لكھ كے_ بہرحال نفس كے پاك و پاكيزہ بنانے كے لئے مراقبت اور حساب ايك بہت ضرورى اور فائدہ مند كام شمار ہوتا ہے جو شخص بھى سعادت كا طالب ہے اسے اس كو اہميت دينى چاہئے گرچہ يہ كام ابتداء ميں مشكل نظر آتا ہے ليكن اگر ارادہ اور پائيدارى كر لے تو يہ جلدى آسان اور سہل ہوجائيگا اور نفس امارہ كنٹرول اور زير نظر ہوجائيگا_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ميں تمہيں عقلمندوں كا عقلمند اور احمقوں كا حق نہ بتلاؤں؟ عرض كيا گيا يا رسول اللہ(ص) _ فرمايئے آپ نے فرمايا سب سے عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس كا حساب كرے اور مرنے كے بعد كے لئے نيك عمل بجالائے اور سب سے احمق وہ ہے كہ جو خواہشات نفس كى پيروى كرے اور دور دراز خواہشوں ميں سرگرم ہے_ اس آدمى نے عرض كي_ يا رسول اللہ(ص) _ كہانسان كس طرح اپنے نفس كا حساب كرے؟ آپ (ص) نے فرمايا جب دن ختم ہوجائے اور رات ہوجائے تو اپنے نفس كى طرف رجوع كرے اور اسے كہے اے نفس آج كا دن بھى چلا گيا اور يہ پھر لوٹ كے نہيں آئيگا خداوند عالم تجھ سے اس دن كے بارے ميں سوال كرے گا كہ اس دن كو كن چيزوں ميں گذرا ہے اور كونسا عمل انجام ديا ہے؟ كيا اللہ كا ذكر اور اس كى ياد كى ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كا حق ادا كيا ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كا غم دور كيا ہے؟ كيا اس كى غير حاضرى ميں اس كے اہل و عيال كى سرپرستى كى ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كى غيبت سے دفاع كيا ہے؟ كيا كسى مسلمان كى مدد كى ہے؟ آج كے دن كيا كيا ہے_ اس دن جو كچھ انجام ديا ہوا ايك ايك كو ياد كرے اگر وہ ديكھے كہ اس نے نيك كام انجام ديئے ہيں تو خداوند عالم كا اس نعمت اور توفيق پر شكريہ ادا كرے اور اگر ديكھے كہ اس نے گناہ كا ارتكاب كيا ہے اور نافرمانى بجالايا ہے تو توبہ كرے اور ارادہ كرلے كہ اس كے بعد گناہوں كا ارتكاب نہيں كرے گا_ اور پيغمبر اور اس كى آل پر درود بھيج كر اپنے نفس كى كثافتوں كو اس سے دور كرے اور اميرالمومنين عليہ السلام كى ولايت اور بيعت كو اپنے نفس كے سامنے پيش كرے اور آپ كے دشمنوں پر لعنت بھيجے اگر اس نے ايسا كرليا تو خدا اس سے كہے گا كہ ‘ ميں تم سے قيامت كے دن حساب لينے سے سختى نہيں كرونگا كيونكہ تو ميرے اولياء كيساتھ محبت ركھتا تھا اور ان كے د شمنوں سے دشمنى ركھتا تھا_ (303)امام موسى كاظم عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ وہ ہم ميں سے نہيں ہے جو اپنے نفس كا ہر روز حساب نہيں كرتا اگر وہ اچھے كام انجام دے تو خداوند عالم سے زيادہ توفيق دينے كو طلب كرے اور اگر نافرمانى اور معصيت كا ارتكاب كيا ہو تو استعفا اور توبہ كرے_ (304)
پيغمبر عليہ السلام نے ابوذر سے فرمايا كہ ‘ غقلمند انسان كو اپنا وقت تقسيم كرنا چاہيئے ايك وقت خداوند عالم كے ساتھ مناجات كرنے كے لئے مخصوص كرے_ اور ايكوقت اپنے نفس كے حساب لينے كے لئے مختص كرلے اور ايك وقت ان چيزوں ميں غور كرنے ے لئے جو خداوند عالم نے اسے عنايت كى ہيں مخصوص كردے_ (305)اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اپنے نفس سے اس كے كردار اور اعمال كے بارے ميں حساب ليا كرو اس سے واجبات كے ادا كرنے كا مطالبہ كرو اور اس سے چاہو كہ اس دنيا فانى سے استفادہ كرے اور آخرت كے لئے زاد راہ اور توشہ بھيجے اور اس سفر كے لئے قبل اس كے كہ اس كے لئے اٹھائے جاو امادہ ہوجاؤ_ (306)نيز حضرت على عليہ السلام نے فرماياكہ ‘ انسان كے لئے كتنا ضرورى ہے كہ ايك وقت اپنے لئے معين كرلے جب كہ تمام كاموں سے فارغ ہوچكا ہو_ اس ميں اپنے نفس كا حساب كرے اور سوچے كہ گذرے ہوئے دن اور رات ميں كونسے اچھے اور فائدہ مند كام انجام ديئے ہيں اور كونسے برے نقصان دينے والوں كاموں كو بجالايا ہے_ (307)اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اپنے نفس سے جہاد كر اور اس سے ايك شريك كے مانند حساب كتاب لے اور ايك قرض خواہ كى طرح اس سے حقوق الہى كے ادا كرنے كا مطالبہ كرے كيونكہ سب سے زيادہ سعادتمند انسان وہ ہے كہ جو اپنے نفس كے حساب كے لئے آمادہ ہو_ (308)على عليہ السلام نے فرمايا كہ ‘ كہ جو شخص اپنے نفس كا حساب كرے تو وہ اپنے عيبوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں كو جان جاتا ہے اور ان سے توبہ كرتا ہے اور اپنے عيبوں كى اصلاح كرتا ہے_ (309)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اس سے پہلے كہ قيامت كے دن تمہارا حساب ليا جائے تم اس دنيا ميں اپنا حساب خود كرلو كيونكہ قيامت كے دن پچاس مقامات پر بندوں كا حساب ليا جائيگا اور ہر ايك مقام ميں ہزار سال تك اس كا حساب ليا جاتا رہيگا_ آپ نے اس كے بعد يہ آيت پڑھى وہ دن كہ جس كى مقدار پچاس ہزار سال ہوگي_ (310)
اس بات كى ياد دھانى بہت ضرورى ہے كہ انسان نفس كے حساب كے وقت خودنفس پر اعتماد نہ كرے اور اس كى بابت خوش عقيدہ نہ ہو كيونكہ نفس بہت ہى مكار اور امارہ سو ہے_ سينكڑوں حيلے بہانے سے اچھے كام كو برا اور برے كو اچھا ظاہر كرتا ہے_ انسان كو اپنے بارے اپنى ذمہ دارى كو نہيں سوچنے ديتا تا كہ انسان اس پر عمل پيرا ہو سكے_ گناہ كے ارتكاب اور عبادت كے ترك كرنے كى كوئي نہ كوئي توجيہ كرے گا_ گناہوں كو فراموشى ميں ڈال دے گا اور معمولى بتلائے گا_ چھوٹى عبادت كو بہت بڑا ظاہر كرے گا اور انسان كو مغرور كردے گا_ موت اور قيامت كو بھلا دے گا اور دور دراز اميدوں كو قوى قرار دے گا_ حساب كرنے كو سخت اور عمل نہ كئے جانے والى چيز بلكہ غير ضرورى ظاہر كردے گا اسى لئے انسان كو اپنے نفس كى بارے ميں بدگمانى ركھتے ہوئے اس كا حساب كرنا چائے_ حساب كرنے ميں بہت وقت كرنى چاہئے اور نفس اور شيطن كے تاويلات اور ہيرا پھيرى كى طرف كان نہيں دھرنے چائيں_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اللہ تعالى كى ياد كے لئے كچھ لوگ ہيں كہ جنہوں نے اللہ تعالى كے ذكر كو دنيا كے عوض قرار دے ركھا ہے لہذا ان كو كار و بار اللہ تعالى كے ذكر سے نہيں روكتا_ اپنى زندگى كو اللہ تعالى كے ذكر كے ساتھ گزارتے ہيں_ گناہوں كے بارے قرآن كى آيات اور احاديث غافل انسانوں كو سناتے ہيں اور عدل اور انصاف كرنے كا حكم ديتے ہيں اور خود بھى اس پر عمل كرتے ہيں_ منكرات سے روكتے ہيں اور خودبھى ان سے ركتے ہيں گويا كہ انہوں نے دنيا كو طے كرليا ہے اور آخرت ميں پہنچ چكے ہيں_ انہوں نے اس دنيا كے علاوہ اور دنيا كو ديكھ ليا ہے اور گويا برزخ كے لوگوں كے حالات جو غائب ہيں ان سے آگاہ ہوچكے ہيں_ قيامت اور اس كے بارے ميں جو وعدے ديئے گئے ہيں گويا ان كے سامنے صحيح موجود ہوچكے ہيں_ دنيا والوں كے لئے غيبى پردے اس طرح ہٹا ديتے ہيں كہ گويا وہ ايسى چيزوں كو ديكھ رہے ہوں كہ جن كو دنيا والے نہيں ديكھ رہے ہوتے اور ايسى چيزوں كو سن رہے ہيں كہ جنہيں دنيا والے نہيں سن رہے_ اگر تو ان كے مقامات عاليہ اور ان كى مجالس كو اپنى عقل كے سامنے مجسم كرے تو گويا وہ يوں نظر آئيں گے كہ انہوں نے اپنے روزكے اعمال نامہ كو كھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال كے حساب كرلينے سے فارغ ہوچكے ہيں يہاں تك كہ ہر چھوٹے بڑے كاموں سے كہ جن كاانہيں حكم ديا گيا ہے اور ان كے بجالانے ميں انہوں نے كوتاہى برتى ہے يا جن سے انہيں روكا گيا ہے اور انہوں نے اس كا ارتكاب كريا ہے ان تمام كى ذمہ دارى اپنى گردن پر ڈال ديتے ہيں اور اپنے آپ كو ان كے بجالانے اور اطاعت كرنے ميں كمزور ديكھتے ہيں اور زار زار گريہ و بكاء كرتے ہيں اور گريہ اور بكاء سے اللہ كى بارگاہ ميں اپنى پشيمانى كا اظہار كرتے ہيں_ ان كو تم ہدايت كرنے ولا اور اندھيروں كے چراغ پاؤگے كہ جن كے ارد گرد ملا مكہ نے گھيرا ہوا ہے اور اللہ تعالى كى مہربانى ان پر نازل ہوچكى ہے_ آسمان كے دروازے ان كے لئے كھول ديئےئے ہيں اور ان كے لئے محترم اور مكرم جگہ حاضر كى جاچكى ہے_ (311)
294_قال على عليہ السلام:من لم يسس نفسہ اضاعہا_ غرر الحكم/ ص 640_295_ قال على عليہ السلام:من اعترّ بنفسہ سلّمتہ الى المعاطب_ غرر الحكم/ ص 685_296_قال على عليہ السلام:من كان لہ من نفسہ يقظة كان عليہ من اللہ حفظة_ غررالحكم/ ص 679_297_قال على عليہ السلام: املكوا انفسكم بدوام جہادہا_ غرر الحكم/ ص 131_298_عن الصادق عليہ السلام قال: الليل اذا اقبل نادى مناد بصوت يسمعہ الخلائق الّا الثقلين يا ابن آدم انّى خلق جديد، انّى على ما فيّ شہيد فخذ منّى فانى لو طلعت الشمس لم ارجع الى الدنيا و لم تزوّد فيّ من حسنة و لم تستعتب فيّ من سيئة و كذالك يقول النہار اذا ادبر الليل_ وسائل/ ج 11 ص 380_299_قال على عليہ السلام: ان الحازم من شغل نفسہ بجہاد نفسہ فاصلحہا و حبسہا عن اہويتہا و لذاتہا فملكہا و ان العاقل بنفسہ عن الدنيا و ما فيہا و اہلہا شغلاً_ غرر الحكم/ص 237_

325300_قال على عليہ السلام:الثقة بالنفس من اوثق فرص الشيطان_ غرر الحكم/ ص 54_301_ قال على عليہ السلام: من كان لہ من نفسہ زاجر كان عليہ من اللہ حافظ_ غرر الحكم/ ص 698_302_قال على عليہ السلام: من وبّخ نفسہ على العيوب ارتدعت عن كثرة الذنوب_ غرر الحكم/ ص 696_303_قال رسو ل اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: الا انبئكم باكيس الكيّسين و احمق الحمقائ؟ قالوا: بلى يا رسول اللہ قال اكيس اكيّسين من حاسب نفسہ وعمل لما بعدالموت_ و احمق الحمقاء من اتّبع نفسہ ہوا ہ و تمنّى على اللہ الامانّي_ فقال الرجل: يا رسول اللہ و كيف يحاسب الرجل نفسہ؟ قال: اذا اصبح ثم امسى رجع الى نفسہ و قال: يا نفس انّ ہذا يوم مضى عليك لا يعود اليك ابداً واللہ سائلك عنہ فيما افنيتہ، فما الذى عملت فيہ؟ اذكرت اللہ ام حمدتہ؟ اقضيت حق اخ مؤمن؟ انفست عنہ كربتہ؟ احفظتہ بظہر الغيب فى اہلہ و ولدہ؟ احفظتہ بعد الموت فى مخلفيہ؟ اكففت عن غيبہ اخ بفضل جاہك؟ ااعنت مسلماً؟ ماالذى صنعت فيہ؟ فيذكر ما كان منہ فان ذكر انہ جرى منہ خير حمداللہ عزّو جلّ و كبّرہ على توفيقہ_ و ان ذكر معصية او تقصيراً استغفراللہ و عزم على ترك معودتہ و محاذا لك عن نفسہ بتجديد الصلاة على محمد و آلہ الطيّبين و عزض بيعة اميرالمؤمنين على نفسہ و قبولہا و اعاد اللہ لعن شائنيہ و اعدائہ و دافعيہ عن حقوقہ_ فاذا فعل ذالك قال اللہ: لست اناقشك فى شيء من الذنوب مع موالاتك اوليائي و معاداتك اعدائي _بحارالانوار/ ج70 ص 69_304_عن الكاظم عليہ السلام قال: ليس منّا من لم يحاسب نفسہ من كلّ يوم فان عمل حسناً استزاد اللہ و ان عمل سيئاً استغفر اللہ و تاب اليہ_ كافي/ ج 1 ص 453_305_فى وصيّة ابى ذر قال النبى صلى اللہ عليہ و آلہ: على العاقل ان يكون لہ ساعات: ساعة يناجى فيہا ربّہ و ساعة يحاسب فيہا نفسہ و ساعة يتفكر فيما صنع اللہ عزّ و جلّ اليہ_ بحار/ ج 70 ص 64_306_قال على عليہ السلام: حاسبوا انفسكم باعمالہا و طالبوہا باداء المفروض عليہا و الاخذ من فنائہا لبقائہا و تزودوا و تاہبوا قبل ان تبعثوا_ غرر الحكم/ ص 385_307_قال على عليہ السلام: ما احق الانسان ان يكون لہ ساعة لا يشغلة عنہا شاغل يحاسب فيہا نفسہ فينظر فيما اكتسب بہا و عليہا فى ليلہا و نہارہا_ غرر الحكم/ ص 753_308_قال على عليہ السلام:جاہد نفسك و حاسبہا محاسبة الشريك شريكہ و طالبہا بحقوق اللہ مطالبة الخصم خسمہ فان اسعد الناس من انتدب لمحاسبة نفسہ_ غرر الحكم/ ص 371_309_قال على عليہ السلام: من حاسب نفسہ وقف على عيوبہ و احاط بذنوبہ فاستقال الذنوب و اصلح العيوب_ غرر الحكم/ ص 696_310_عن ابيعبداللہ (ص)قال: فحاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا فان فى القيامة خمسين موقفاً كل موقف مقام الف سنة ثم تلا ہذہ الآية فى يوم كل مقدارہ خمسين الف سنة_ بحار/ ج 70 ص 64_

326311_قال على عليہ السلام:و انّ للذكر لا ہلاً اخذوہ من الدنيا بدلا فلم تشغلہم تجارة و لا بيع عنہ يقطعون بہ ا يام الحياة و يہتفون بالزواجر عن محارم اللہ فى اسماع الغافلين، و يامرون بہ، و ينہون عن المنكر و يتناہون عنہ_ فكانّما قطعوا الدنيا الآخرة و ہم فيہا، فشاہدوا ما وراء ذالك فكانفما اطلعوا غيوب اہل البرزخ فى طول الاقامة فيہ و حقّقت القيامة عليہم عداتہا فكشفوا غطاء ذالك لاہل الدنيا حتى كانّہم يرون ما لا يرى الناس و يسمعون ما لا يسمعون فلو مثّلتہم لعقلك فى مقاومہم المحمودة و مجالسہم المشہودة و قد نشروا دو اوين اعمالہم و فرغوا لمحاسبة انفسہم على كل صغيرہ و كبيرہ امروابہا فقصّروا عنہا و نہوا عنہا ففرّطوا فيہا و حملوا ثقل اوزارہم ظہورہم فضعفوا عن الاستقلال بہا فنشجوا نشيجاً و تجاوبوا نحيباً يعجون الى ربّہم من مقام ندم و اعتراف، لرايت اعلام ہدى و مصابيح دجي، قد حفّت بہم الملائكة و تنزلت عليہم السكينة و فتحت لہم ابواب السماء و اعدّت لہم مقاعد الكرامات_ نہج البلاغہ/ كلام 22_

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.