بچّوں کو کھلانا اور پلانا

390

بچّوں کو کھلانا اور پلاناپیغمبر اسلام ۖکے بارے منقول ہے :آنحضرت ۖچھو ٹوں اور بڑوں کوسلام کرتے تھے۔
بچو ں کی تربیت اورپرورش کے سلسلہ میںایک اہم اور سنگین ذمہ داری یہ ہے کہ ان کے درمیان عدل وانصاف برقرار رکھا جائے۔اس لئے جن والدین کے یہاں کئی بچے ہیں،انھیں اپنے برتائو اور سلوک میں تمام بچوں کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات کے ساتھ پیش آنا چاہئے اوراپنے عمل میں تمام بچوں کو یکساں سمجھنا چاہئے تاکہ ان میں سے بعض احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے ۔اسی سلسلہ میں اپنے بچوں کو پانی دیتے وقت عدالت کی رعایت فرمانابھی اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:’رسول خدا ۖہمارے گھر تشریف لائے ،میںاورحسن و حسین علیھما السلام ایک لحاف میں سوئے ہوئے تھے۔حسن نے پانی مانگاتورسول خدا ۖگئے اور ایک برتن میں پانی لے کر آئے۔اسی اثنا ء میں حسین علیہ السلام بھی بیدار ہوئے اور پانی مانگا ۔لیکن رسول خدا ۖنے پہلے انھیں پانی نہیں دیا۔فاطمہ٭نے فرمایا :’اے رسول خدا ! ۖکیاآپ حسن کو حسین سے زیادہ دوست رکھتے ہیں؟رسول خدا ۖنے فرمایا:حسن نے حسین سے پہلے پانی مانگا تھا ۔قیامت کے دن میں،تم،حسن وحسین اور یہ جو سوئے ہوئے ہیں(علی علیہ السلام)ایک ہی جگہ ہوں(٩٨)!!’رسول خدا ۖاپنے بچوں کو خود کھانا کھلاتے تھے ۔آپ ۖکا یہ سلوک اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ۖاپنے بچوں کے مزاج سے خوب واقف تھے۔سلمان فارسی کہتے ہیں:’میں رسول خدا ۖکے گھر میں داخل ہوا۔حسن وحسین علیھما السلام آپ ۖکے پاس کھانا کھا رہے تھے۔آنحضرت ۖکبھی ایک لقمہ امام حسن علیہ السلام کے منہ میں اور کبھی امام حسین علیہ السلام کے منہ میں ڈالتے تھے۔جب بچے کھاناکھاچکے توآنحضرتۖنے امام حسن علیہ السلام کواپنے کندھے پراور امام حسین علیہ السلام کوزانو پر بٹھا لیا۔اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا:اے سلمان! کیا تم انھیںدوست رکھتے ہو؟میں نے جواب میں عرض کی :اے رسول خدا ۖ کیسے ممکن ہے کہ میں انھیں دوست نہ رکھوں جبکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں کہ آپ ۖ کے نزدیک ان کی کیا قدر ومنزلت ہے؟!(٩٩)’…………..٩٨۔مجمع الزوائد ج٩،ص١٦٩٩٩۔بحارالانوار ج٣٦ ،ص٣٠٤،ح١٤٣۔کفا یة الاثرص٧بچوّں کو سلام کرنارسول خدا ۖ کے نیک کردار میں سے ایک بچوں کو سلام کرنا بھی ہے ۔کیونکہ بچے باوجود یکہ کہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں اور کھیل کود کو پسند کرتے ہیں اور ذمہ داریوں سے دور بھاگتے ہیں لیکن اچھی طرح سمجھتے ہیں اور محبت کو محسو س کرتے ہیں۔رسول خدا ۖکا یہ سلوک بعض تنگ نظر اور جاہل افراد کے نظریہ کے برعکس ہے،جو بچوں کے احترام کے قائل نہیں ہیں اور اُنہیںحقیر سمجھتے ہیں۔لیکن مکتب اسلام میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ بچے بھی اسی سلوک اور احترام کے حقدار ہیںجس کے بڑے ہیں۔بیشک،پیغمبر اسلام ۖبچوں کا احترام کرتے تھے اور انھیں معاشرے کے ماحول میں داخل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔پیغمبر اسلام ۖکے بچوں کو سلام کرنے کے سلسلہ میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں،ان میں سے چند ایک کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:انس ا بن مالک کہتے ہیں:’حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔راستہ میں چند چھوٹے بچوں سے ملاقات ہوئی،آپ ۖنے انھیں سلام کیا اور کھانا کھلایا۔(١٠٠)’ایک دوسری حدیث میں کہتے ہیں:’پیغمبر اسلام ۖ ہمارے یہاں تشریف لائے،ہم بچے تھے،آپ ۖنے ہم کو سلام کیا(١٠١)۔’امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:’پانچ چیزیں ایسی ہیں،جنہیںمیں مرتے دم تک ترک نہیں کروں گا،ان میں سے ایک بچوں کو سلام کرنا ہے ۔(١٠٢)’ایک اور حدیث میں نقل ہوا ہے:’پیغمبر اکرم ۖچھوٹے اور بڑوں کوسلام کرتے تھے۔(١٠٣)اور سلام کرنے میں دوسروں حتیٰ بچوں پر بھی سبقت حاصل کرتے تھے،(١٠٤)جس کو بھی دیکھتے ،پہلے آپ ۖ سلام کرتے تھے اور ہاتھ ملاتے تھے۔(١٠٥)آپ ۖنے دوسری حدیث میں فرمایا:’میں بچوں کو سلام کرنے کے سلسلہ میں حساس ہوںتاکہ یہ طریقہ میرے بعد مسلمانوں میں سنّت کی صورت میں باقی رہے اور وہ اس پر عمل کریں(١٠٦)۔’…………..١٠٠۔مکارم الاخلاق،ص١٤و٣١۔بحارالانوار ج٦،ص٢٢٩١٠١۔سنن ابن ماجہ ج٢،ص٢٢٢٠١٠٢۔مستدرک الوسائل ج٢،ص٩٦۔امالی صدوق،ص٤٤۔اعیون اخبار الرضا علیہ السلام ص٣٣٥۔الخصال ج ١،ص١٣٠۔علل الشرائع ص٥٤۔بحار الانوار ج١٦ ،ص٦٦٣١٠٣۔مستدرک الوسائل ج٢،ص٦٩١٠٤۔رحمت عالمیان،ص٢١٥،ح٢١٠٥۔عفایةالمسئوول فی روایة الرسول ج١ ،ص٣٤١ ۔مکارم اخلاق ج١ص٢٣۔١٠٦۔وسائل الشیعہ ج٣،ص٢٠٩کیا پیغمبر اسلام ۖبچوں کی سرزنش کرتے تھے؟کیا رسول خدا ۖبچوں کی تربیت کے لئے ان کی سرزنش اور پٹائی کرتے تھے یا نہیں؟آنحضرت ۖکی سیرت کے سلسلہ میں گہری تحقیق کے بعد معلوم ہو تا ہے کہ آپ ۖبچوںکی تر بیت کے لئے کبھی اُنہیںمارتے نہیں تھے۔اگر چہ ڈانٹنا پھٹکار نا ضروری ہے،کیونکہ بہت کم ایسے بچے پائے جاتے ہیں جن کی تربیت کے دوران ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی تنبیہ نہ کی گئی ہو ۔لیکن ہماری بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیا بچے کو مارا پیٹا جاسکتا ہے یا نہیں؟اسلامی روایتوںاور دینی پیشوائوں کی سیرت کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی پٹائی نہیں کر ناچاہئے۔دور حاضر میں،علم سکھانے اورتربیت کر نے کے لئے بھی بچوں کی پٹائی کرنا اور ادب سکھانے کے لئے ان کو جسمانی اذیت یاسزا دینامناسب نہیںسمجھا جاتا ہے اور تقریباً دنیاکے تمام ممالک میں بچوں کی پٹائی کرنااور انھیں جسمانی اذیت پہنچانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔لیکن کچھ جاہل اور بے خبرافراداسلام کے پیشوائوں کی سیرت سے غفلت کی وجہ سے بچوں کی پٹائی سے روکنے والی روایتوں پر توجہ نہیں کرتے ۔حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے ایک شخص سے اپنے بیٹے کے خلاف شکایت کرنے پرواضح طور پر فرمایا:’اپنے بیٹے کی پٹائی نہ کرنااور اسے ادب سکھا نے کے لئے ناراضگی اور غصہ کا اظہار کرنا،لیکن خیال رکھناکہ غصہ زیادہ دیر کے لئے نہ ہو اور حتی الامکان اس کے ساتھ نر می سے پیش آنا۔(١٠٧)’پیغمبر اسلام ۖنہ صرف بچوں کوجسمانی اذیت نہیں دیتے تھے،بلکہ اگر کوئی دوسرا بھی ایسا کر تا تھا تو آپۖ اس کی سخت مخالفت کرتے تھے اورشدید اعتراض کرتے تھے۔ تاریخ میں اس سلسلہ میں چند نمونے درج ہیں:ابو مسعود انصاری کہتے ہیں:’میرا ایک غلام تھا،میں اس کی پٹائی کر رہاتھاکہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی،کوئی کہہ رہا ہے:ابو سعید!خدا وند متعال نے تجھے اس پر قدرت بخشی ہے(اسے تیرا غلام بنایا ہے)میں نے مڑ کرجب دیکھا تو رسول خدا ۖتھے۔میں نے رسول خدا ۖ کی خد مت میں عرض کی ،میں نے اسے خدا کی راہ میںآزاد کیا۔پیغمبر اکرم ۖنے فرمایا:اگر تم یہ کام نہ کرتے تو تجھے آگ کے شعلے اپنی لپیٹ میں لیتے۔(١٠٨)’امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:’رسول خدا ۖکا قبیلہء بنی فہد کے ایک شخص سے سامنا ہوا،جو اپنے غلام کی پٹائی کررہاتھااور وہ غلام فریاد کرتے ہوئے خدا کی پناہ اور مدد چاہتاتھا۔لیکن وہ شخص اس کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں کررہا تھا۔جیسے ہی اس غلام کی نظر رسول خدا ۖپر پڑی تو کہا :ان سے مدد مانگ لونگا،مالک نے پٹائی کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔رسول خدا ۖنے اس کے آقاسے کہا :’خدا سے ڈرواور اسے نہ مارو اور اسے خدا کے لئے بخش دو،لیکن اس شخص نے اسے نہیں بخشا۔پیغمبر ۖنے فرمایا:اسے محمد ۖکے لئے بخش دوجبکہ خدا وند متعال کے لئے بخشنا محمد ۖ کے لئے بخشنے سے بہتر ہے ۔’اس شخص نے کہا:میں نے اس غلام کوخداکی راہ میں آزاد کیا۔پیغمبر اکرم ۖنے فرمایا:اس خداکی قسم جس نے مجھے رسالت پرمبعوث کیا ،اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تجھے اپنے لپیٹ میں لے لیتی۔(١٠٩)’تاریخ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا ۖخلاف ورزی کرنے والے بچوں کو بھی جسمانی اذیت کے ذریعہ سزا نہیںدیتے تھے اور ان کے ساتھ بھی محبت اور حسن اخلاق سے پیش آتے تھے۔تاریخ میں ہے کہ جب جنگ احد کے لئے لشکر اسلام آمادہ ہواتوان کے درمیان چند بچے بھی دکھائی دیئے جو شوق وولولہ کے ساتھ رضاکارانہ طور پرمیدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ تھے۔رسول خدا ۖ کو ان پر رحم آیا اور انھیں لوٹا دیا ۔ان کے درمیان رافع ابن خدیج نام کا ایک بچہ بھی تھا ۔آنحضرت ۖکی خدمت میں عرض کیاگیا کہ وہ ایک زبردست تیر انداز ہے ،اس لئے پیغمبر اکرم ۖنے اسے لشکراسلام کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی ۔ایک اور بچے نے روتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ رافع سے بھی زیادہ قوی ہے اس لئے پیغمبر اکرم ۖنے ان سے کہا:آپس میں کُشتی لڑو ،کُشتی میںرافع نے شکست کھائی اس کے بعد پیغمبر اکرم ۖنے انھیںمیدان جنگ میں جانے کی اجازت دیدی۔(١١٠)لہذا،جسمانی سزا کو تربیت کے لئے موثر عامل قرار دینے کے طور پر اختیار نہیں کرنا چاہئے۔چنانچہ اگر یہ طریقہ لمبی مدت تک جاری رکھا جائے تو بچے کی حیثیت پر کاری ضرب لگنے کا سبب بنتا ہے اور سر زنش کا اثر بھی باقی نہیں رہتا اور بچہ اسے ایک معمولی چیز خیال کر تا ہے، اس سے پرہیز نہیں کرتا اور شرم وحیا کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:’عقلمند انسان ادب و تربیت سے نصیحت قبول کرتا ہے۔صرف مویشی اور حیوانات ہیں جو تازیانوں سے تر بیت پاتے ہیں۔(١١١)’اس لئے جسمانی سر زنش سے پر ہیز کرنا اس قدر اہم ہے ،کہ حکم ہوا ہے کہ نا بالغ اگر جرم کے مرتکب بھی ہو جائیں ان پر حد جاری کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ان کی اصلا ح کے لئے سزا دی جائے۔(١١٢)اس لئے ہم پیغمبر اسلام ۖاور دین کے دوسرے پیشوا ئوں کی تاریخ میں کہیں یہ نہیں پاتے ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کی تر بیت کے مقدس کام میں پٹائی کرنے کی ضرورت پڑی ہو ۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک مہر بان اور ہمدرد دوست،ایک محبوب پیشوا،اورایک غمگساررہنما کی حیثیت سے برتائو کرتے تھے۔اور ان کے بچپن کے دوران ان کے ساتھ کھیلتے تھے اور بڑے ہو کر ان کے دوست اور ہمدم رہتے تھے۔ان کا یہ طریقہ ان کے پیرو ئوں کے لئے مختلف زمانوں اور جگہوں پر راہنما ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام ودین کے دستو رات کسی خاص زمان ومکان یا فرقہ وگروہ سے مخصوص نہیں ہوتے ،بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ اور پوری بشریت کے لئے ہوتے ہیں۔…………..١٠٧۔بحار الانوار ج ١٠٤ ص ٩٩ ،ح٧٤۔عدةالداعی ص ٦١١٠٨۔بحار الانوار ج٧٤ ،ص١٤٢،ح١٢١٠٩۔بحار الانوار،ج ٧٤،ص١٤٣،ح١٥١١٠۔اسلام وتر بیت کود کان ج١،ص٢٢٤١١١۔شرح غررالحکم ج١ ،ص١٠،ح٨١١١٢۔مستدرک الوسائل ج٣،ص٢٢٣

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.