زہد؛ سيدالزہاد کي نظر ميں

217

بسم اللہ الرحمن الرحيمالحمد للہ والصلاوالسلام علي رسول اللہ و آلہ الطاھرين لا سيما سيدالزہّاد علي بن ابي طالب ”روحي لہ الفدائ‘‘ واللعن الدائم علي اعدائھم اجمعينبہتر يہ ہے کہ اس موضوع کے متعلق سب سے پہلے کلمہ زہد کے لغوي معني کو ذکر کيا جائے پھر حضرت اميرالمومنين علي بن ابي طالب نے نہج البلاغہ ميں جو تعريف بيان فرمائي ہے اسے ذکر کيا جائے
زہد کے لغوي معني:لغت ميں زہد و رغبت ايک دوسرے کے ضد ہيں جيسا کہ ابن منظور افريقي نے ”لسان العرب‘‘ ميں ان لفظوں کے ساتھ تصريح کي ہے :”الزھد : ضد الرغب والحرص علي الدنيا، والزھاد في الاشياءکلھا : ضد الرغب ‘‘ (۱)اور اسي طرح محمد رضا نے ”معجم متن اللغ‘‘ ميں بھي اسي مطلب کي جانب ان الفاظ ميں تصريح کي ہے :”الزھاد في الاشياء کلھا: ضد الرغب‘‘ (۲)شيخ فخر الدين طريحي ”قدس سرہ‘‘ مجمع البحرين ميں زہد کے متعلق فرماتے ہيں :”في الحديث: افضل الزھد اخفاء الزھد‘‘ الزھد في الشي خلاف الرغب فيہ،تقول: زھد في الشي بالکسر زھدا و زھاد بمعني ترکہ و اعرض عنہ، فھو زاھد …و في معاني الاخبار ”الزاھد من يحب ما يحب خالقہ و يبغض ما يبغضہ خالقہ و يتحرّج من حلال الدنيا ولا يلتفت الي حرامھا‘‘و في الحديث ”اعلي درجات الزھد ادني درجات الورع و اعلي درجات الورع ادني درجات اليقين و اعلي درجات اليقين ادني درجات الرضا، الا و ان الزھد في الدنيا في آي…
و عن بعض الاعلام: الزھد يحصل بترک ثلاث اشيائ :ترک الزي، و ترک الھوي، و ترک الدنيا…(۳)
انہوں نے بھي زہد و رغبت کو ايک دوسرے کا ضد جانا ہے زہد، ترک اور اعراض کے معني ميں ہے زاہد، حديث ميں وہ شخص ہے جو اس چيز کو دوست رکھے جسے اس کا خالق دوست رکھتا ہے اور جس چيز کو اس کا خالق ناپسند کرتا ہے اسے ناپسند کرے اور اسے مبغوض جانے…
بہرحال لغت ميں زہد ترک، بے اعتنائي، عدم توجہ، اعراض و… کے معني ميں استعمال ہوتا ہے پس عدم توجہ و ترک دنيا و بے اعتنائي و کف نفس کا نام زہد ہے۔
تعريف زہد:حضرت اميرالمومنين علي بن ابي طالب ”روحي لہ الفداء‘‘زہد کي يوں تعريف فرماتےہيں :”الزھاد،قصر الامل ، والشکر عند النعم، والتورع عند المحارم‘‘ (۴)يہ ميرے مولا کا چار سطر پہ مشتمل خطبہ ہے جو کہ زہد کے متعلق ہے۔ ہم نے صرف زہد کي تعريف ذکر کي ہے۔نسخہ محمد عبدہ، صبحي صالح اور ميثم بحراني ميں ”التورع‘‘ کے بجائے ”الورع‘‘ ہے۔ (۵)زہد اميدوں کے کم کرنے، نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور حرام چيزوں سے دامن بچانے کا نام ہے۔مخفي نہ رہے کہ ورع و تورع معني کے لحاظ سے ايک ہيں اس لئے کہ ”الورع‘‘ کي محمد عبدہ و صبحي صالح وغيرہ نے اس طرح تعريف بيان کي ہے :”الکف عن الشبھات خوف الوقوع في المحرمات‘‘(۶)اور نسخہ معجم ميں ”التورع‘‘ کي بھي تعريف کي گئي ہے۔ پس محرمات کے ارتکاب کے خوف سے اپنے آپ کو شبھات سے بچانے کا نام ورع وتورع ہے۔ايک اور مقام پہ ميرے مولا نے زہد کي ماھوي و حقيقي تعريف بيان فرمائي ہے۔ وہ تعريف حقيقت ميں قرآن کريم کي ايک آيت کي تفسير ہے اور اسے آيت ”زہد؛ قرآني نقطہ نظر سے‘‘ کے عنوان سے پيش کيا جاسکتا ہے۔ ہمارے استاد ”ادام اللہ ايامہ‘‘ کے بقول قرآن کريم کي سب سے بہتر تفسير نہج البلاغہ ہے۔بہرحال زہد کے متعلق ميرے آقا يوں فرماتے ہيں :”الزھد کلمۃ بين کلمتين من القرآن: قال اللہ سبحانہ’لکي تا تآسوا علي ما فاتکم و لا تفرحوا بما آتاکم‘ ومن لم يآس علي الماضي ولم يفرح علي بالآتي فقد اخذ الزھد بطرفيہ‘‘(۷)مکمل زہد قرآن مجيد کے دو جملوں ميں ہے’ ‘جو چيز تمہارے ہاتھ سے جاتي رہے، اس پر رنج و افسوس نہ کرو اور جو چيز اللہ تمہيں دے اس پر اتراؤ نہيں‘‘ لہذا جو شخص جانے والي چيز پر افسوس نہيں کرتا اور آنے والي چيز پر اتراتا نہيں اس نے زہد کو دو سمتوں سے سميٹ ليا ۔نہج البلاغہ ميں زہد کي تعريف مذکورہ دو مقام پہ آپ لوگوں نے ملاحظہ فرمائي جو کہ ايک نہايت ہي دقيق و عميق تعريف تھي.ہم تعريف کے لحاظ سے اتني بحث کو ہي کافي سمجھتے ہيں لہذا ہماري روش يہي رہے گي کہ ہم موضوعات ميں نص کلام اميرکلام (علیہ السلام) پيش کريں گے پھر اس کا ترجمہ اور بقدر ضرورت توضيح ديں گے۔ (ان شاءاللہ تعالي)
بہترين زہد :ميرے مولا ، زوج بتول(س)، ابوالحسين، ابوالائمہ، خليفہ بلافصل رسول (ص) سيد الزہاد ”روحي لہ الفداء‘‘ زہد کي بہترين قسم کے متعلق يوں فرماتے ہيں :”افضل الزھد اخفاءالزھد‘‘(۸)بہترين زہد، زہد کا مخفي رکھنا ہے۔زاہد حقيقي وہ ہے جو اپنے زہد کو پوشيدہ رکھے اور ہر جگہ تظاہر نہ کرتا پھرے۔ پس وہ افراد جو زہد کو مخفي نہيں کرتے، شہرت کے پھندے ميں جکڑ چکے ہيں، زہد کا اعلان کرتے ہوئے پھرتے ہيں، اپنے آپ کو زاہد کہلانے ميں دوسروں کو استعمال کرتے ہيں اور بھاري رقوم خرچ کرتے ہيں وہ زاہد نہيں بلکہ رياکار ہيں۔ جاہ طلبي، حب ذات و شہرت نے انہيں بيمار بنا ديا ہے اور ايسے لوگوں ميں عجب کي بيماري بھي موجود ہوتي ہے ”وکم من عابد فسدہ العجب‘‘يہ لوگ زاہد نما ہيں، انہوں نے زاہدوں کے لباس ميں اپنے آپ کو سج ليا ہے۔زہدِ سيد الزھاد و امام المتقين و قائد الغرالمحجّلين علي بن ابي طالب(علیہ السلام)ايک بے مثال زہد ہے۔ زہد علي جيسا کوئي بھي زہد نہيں ہے اور علي(علیہ السلام)ايسا زاہد ہے جس کے مانند سوائے نبي اکرم ص کوئي زاہد تاريخ انسانيت ميں نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ہم ابتدا ميں ابن ابي الحديد معتزلي کا کلام زہد علي(علیہ السلام)کے بارے ميں نقل کرتے ہيں :
”اما الزھد في الدنيا : فھو سيدالزھاد، بدل الابدال، اليہ تيشد الرحال… ما شبع من طعام قط و کان اخشن الناس مآکلا و لباساً.. و کان لا ياکل من اللحم الا قليلا و يقول :”لا تجعلوا بطونکم مقابر الحيوان‘‘ و کان مع ذالک اشد الناس قوّۃً و اعظمھم يدا و ھو الذي طلّق الدنيا ثلاثاً و کانت الاموال تجيي اليہ من جميع بلاد الاسلام فکان يفرقھا ثم يقولھذا جناي و خيارہ فيہ اذ کل جان يدہ الي فيہ(۹)وہ زہد ميں سيد الزھاد اور بدل الابدال ہيں، انہي کي جانب سفر کيا جاتا تھا… انہوں نے کبھي سير ہوکر طعام تناول نہيں فرمايا۔ وہ لباس و خوراک کے لحاظ سے بہت سخت تھے.. انتہائي تھوڑا سا گوشت تناول فرماتے تھے درحاليکہ فرماتے تھے اپنے بطون کو حيوانات کي قبريں قرار نہ دو۔اس کے باوجود وہ تمام لوگوں سے طاقتور و قدرتمند تھے۔ وہ علي(علیہ السلام)جنہوں نے دنيا کو تين بار طلاق دي، تمام بلاد اسلامي سے انکي سمت مال آتے تھے…
زہد علي(علیہ السلام)؛ عمربن عبد العزيز کي نظر ميں”ماعلمنا ان احدا کام في ھذہ الامۃ بعد النبي ازھد من علي بن ابي طالب‘‘(۱۰)رسول اللہ کے بعداس امت ميں علي بن ابي طالب(علیہ السلام)سے زيادہ زاہد ہماري نظر ميں کوئي بھي نہيں ہے۔اب يہاں ہم زہد، علي(علیہ السلام) کي نظر ميں بيان کرتے ہيں البتہ چونکہ يہ موضوع بھي ايک طويل موضوع ہے لہذا ہماري کوشش يہ ہے کہ صرف چند نمونوں پر اکتفا کريں?
زہد علي(علیہ السلام)کے کچھ نمونے:۱۔ ”واللہ لدنياکم ھذہ اھون في عيني من عراق خنزير في يد مجزوم‘‘(۱۱)خدا کي قسم! تمہاري يہ دنيا ميري نظروں ميں سور کي ان انتڑيوں سے بھي زيادہ ذليل ہے جو کسي کوڑھي کے ہاتھ ميں ہوں۔۲۔ اميرالمومنين علي بن ابي طالب(علیہ السلام) جب اہل بصرہ سے جنگ کے لئے گئے تو عبداللہ بن عباس کہتے ہيں کہ ميں مقام ذي قار ميں حضرت کي خدمت ميں حاضر ہوا تو ديکھا کہ آپ اپنا جوتا جوڑ رہے ہيں.مجھے ديکھ کر فرمايا کہ اے ابن عباس! اس جوتے کي قيمت کيا ہوگي؟ ”ماقيمۃ ھذہ النعل؟‘‘ ميں نے کہا کہ ”لا قيمۃ لھا‘‘ آپ نے فرمايا کہ اگر ميرے پيش نظر حق کا قيام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے يہ جوتا کہيں زيادہ عزيز ہے ”واللہ لھي احب الي من امرتکم الا ان اقيم حقا او ادفع باطلاً…‘‘ (۱۲)۳۔ ”… و ان دنياکم عندي لاھون من ورقۃ في فم جرادۃ تقضمھا ما لعلي و …‘‘ (۱۳)خدا کي قسم! اگر سات اقليم ان چيزوں سميت جو آسمانوں کے نيچے ہيں مجھے دے دئيے جائيں کہ ميں اللہ کي صرف اتني معصيت کروں کہ چيونٹي سے جو کا چھلکا چھين لوں تو کبھي بھي ايسا نہ کروں گا۔ يہ دنيا ميرے نزديک اس پتي سے بھي زيادہ بے قدر ہے جو ٹڈي کے منہ ميں ہو کہ جسے وہ چبا رہي ہو۔ علي کو فنا ہونے والي نعمتوں اور مٹ جانے والي لذتوں سے کيا واسطہ؟۴۔”ولا لفيتم دنيا کم ھذہ ازھد عندي من عفطۃ عنز‘‘(۱۴)اور تمہاري دنيا ميري نظروں ميں بکري کي چھينک سے بھي زيادہ ناقابل اعتنا ہے۔۵۔ ”لقد علمتم اني احق الناس بھا من غيري؛ واللہ لاسلمنّ ما سلمت…‘‘(۱۵)تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زيادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے۔اللہ کي قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف ميري ہي ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتي رہے گي، ميں خاموشي اختيار کرتا رہوں گا تاکہ (اس صبر پر) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زيب و زينت کو ٹھکرا دوں جس پر تم مر مٹے ہو۔ (يہ مکمل خطبہ ہے)۔
زاہدوں کي خصوصياتاميرکلام، اميرالمومنين، يعسوب الدين امام المتقين، سيد الزھاد ”روحي لہ الفدائ‘‘ نے زاہدوں کي خصوصيات کو بيان فرمايا ہے۔ ہم صرف نہج البلاغہ سے بعض خصوصيات کو نقل کرنے کي سعادت حاصل کررہے ہيں۔ميرے مولا فرماتے ہيں :” ان الزاھدين في الدنيا تبکي قلوبھم و ان ضحکوا…‘‘بے شک اس دنيا ميں زاہدوں کے دل روتے ہيں اگر چہ وہ ہنس رہے ہوں اور ان کا غم و اندوہ حد سے بڑھا ہوتا ہے اگر چہ ان سے مسرت ٹپک رہي ہو۔ اور انہيں اپنے نفسوں سے انتہائي بير ہوتا ہے اگر چہ اس رزق کي وجہ سے جو انہيں ميسر ہے ان پر رشک کيا جاتا ہو۔ (۱۶)2۔ميرے مولا نے رات کے وقت اپنے فرش مبارک سے اٹھ کر ستاروں پہ ايک نظر ڈالي اور نوف بن فضالي بکالي سے فرمايا :”اے نوف! سوتے ہو يا جاگ رہے ہو؟‘‘ميرے مولا کو نوف نے جواباً عرض کيا :”اے اميرالمومنين! جاگ رہا ہوں‘‘۔فرمايا:”طوبي للزاھدين في الدنيا الراغبين في الآخرۃ…‘‘ خوشا نصيب ان کے کہ جنہوں نے دنيا ميں زہد اختيار کيا اور ہمہ تن آخرت کي طرف متوجہ رہے۔ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے زمين کو فرش، مٹي کو بستر اور پاني کو شربت خوش گوار قرار ديا۔ قرآن کو سينے سے لگايا اور دعا کو سپر بنايا پھر حضرت مسيح? کي مانند دنيا کو چھوڑ کر دنيا سے الگ تھلگ ہوئے۔اے نوف! داود عليہ السلام رات کے ايسے ہي حصہ ميں اٹھے اور فرمايا :”يہ وہ گھڑي ہے کہ جس ميں بندہ جو بھي دعا مانگے مستجاب ہوگي سوائے اس شخص کے جو سرکاري ٹيکس وصول کرنے والا يا لوگوں کي برائياں کرنے والايا (کسي ظالم حکومت) کي فوج ميں ہويا سارنگي يا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو۔(۱۷)اس پيراگراف کا مقصد يہ ہے کہ زاہد سحر خيز ہوتا ہے ، مستجاب الدعوات ہوتا ہے اور وہ کبھي بھي ظالم کي مدد نہيں کرتا۔ وہ ”تعاونوا علي البر والتقوي ولا تعاونوا علي الاثم والعدوان ‘‘ (۱۸)پر عمل پيرا ہوتا ہے اور اسي فرمان خدا کے پيش نظر وہ ظالم حکومت کے کسي بھي منصب کو قبول نہيں کرتا اور نہ ہي ظالم و طاغي و عاصي کي مدد کرتا ہے? ڈھول تاشہ فقط بعنوان نمونہ ذکر کيا گيا ہے ورنہ مراد يہ ہے کہ زاہد کبھي لھو و عبث کاموں کو انجام نہيں ديتا بلکہ ايسے کاموں سے اسے قلبي نفرت ہوا کرتي ہے? ہر وہ شخص جو ايسے کاموں ميں اپنے قيمتي وقت کو ضايع کرتا ہے، مستجاب الدعا نہيں بن سکتا اور اللہ عز و جل ايسے شخص کو اسکے حال پہ چھوڑ ديتا ہے۔۳۔ايک اور مقام پر سيد الزھاد(علیہ السلام) فرماتے ہيں :
”والناس منہ في راحۃ اتعب نفسہ لآخرتہ و اراح الناس من نفسہ ? بعدہ عمن تباعد عنہ زھد…‘‘
متقي و زاہد کا نفس اس کے ہاتھوں مشقت ميں مبتلا ہے اور دوسرے لوگ اس سے امن و راحت ميں ہيں۔اس نے آخرت کي خاطر اپنے نفس کو زحمت ميں اور خلق خدا کو اپنے نفس (کے شر) سے راحت ميں رکھا ہے۔جن سے دوري اختيار کرتا ہے تو يہ زہد و پاکيزگي کيلئے ہوتي ہے اور جن سے قريب ہوتا ہے تو يہ خوش خلقي و رحم دلي کي بنا پر ہے ۔نہ اس کي دوري غرور و کبر کي وجہ سے ہے اور نہ اس کا ميل جول کسي فريب اور مکر کي بنا پر ہوتا ہے۔ (۱۹)اس پيراگراف ميں زاہد کي کچھ خصوصيتوں کي جانب اشارہ کيا گيا ہے :1۔ اس کا نفس ہميشہ رنج و الم ميں مبتلا رہتا ہے۔2۔ لوگوں کو اذيت نہيں کرتا، تکليف نہيں پہنچاتا اور لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے امن و امان ميں رہتے ہيں۔اسي مطلب کي جانب سيد عرب و عجم رسول ثقلين حضرت محمد مصطفي ۔ نے ان الفاظ ميں اشارہ فرمايا ہے :”المسلم من سلم المسلمون من يدہ و لسانہ ‘‘ پس اگر يوں کہا جائے کہ زاہد مسلمان حقيقي ہوتا ہے يا يوں کہا جائے کہ مسلمان حقيقي زاہد ہي ہوتا ہے تو کوئي مضايقہ نہيں ہے۔3? زاہد کي دوري زہد و پاکيزگي کي وجہ سے ہوتي ہے۔4? زاہد خوش خلق و نرم دل ہوتا ہے اور اسي بنا پہ دوسروں کے قريب ہوتا ہے نہ کہ غرور ، تکبر، فراڈ و مکر کي بنا پر۔5۔ زاہد غرور و تکبر کي بيماري ميں مبتلا نہيں ہوتا۔6۔ زاہد فريب اور مکر ودھوکے جيسے موذي مرض ميں مبتلا نہيں ہوتا۔7۔ چونکہ اس خطبہ ميں امام المتقين علي بن ابي طالب روحي لہ الفدائ نے پرہيزگاروں کي صفات و خصوصيات کو بيان فرمايا ہے لہ?ذا يہ کہنا بھي بے جا نہ ہوگا کہ زاہد و متقي ايک ہي ہيں پس تمام متقي کي صفتيں زاہد کي صفتيں کہي جاسکتي ہيں۔فتآمل جدّاً4۔”کانوا قوما من اھل الدنيا و ليسو من اھلھا فکانوا فيھا کمن ليس منھا عملوا فيھا بما يبصرون…‘‘وہ ايسے لوگ تھے جو اہل دنيا ميں سے تھے مگر (حقيقتہً)دنيا والے نہ تھے۔ وہ لوگ دنيا ميں اس طرح رہے کہ گويا دنيا سے نہ ہوں۔ان کا عمل ان چيزوں پر ہے جنہيں خوب جانتے ہيں اور جن چيزوں سے خوفزدہ ہيں ان سے بچنے کيلئے جلدي کرتے ہيں۔ان کے جسم گويا اہل آخرت کے مجمع ميں گردش کررہے ہيں ۔ وہ اہل دنيا کو ديکھتے ہيں کہ وہ ان کي جسماني موت کو بڑي اہميت ديتے ہيں اور وہ ان اشخاص کے حال کو زيادہ اندوہناک سمجھتے ہيں جو زندہ ہيں مگر ان کے قلوب مردہ ہيں ۔ (۲۰)5۔ ”اصابوا لذۃ زہد الدنيا في دنياھم و تيقنوا انھم جيران اللہ غداً في آخرتھم‘‘انہوں نے دنيا ميں رہتے ہوئے ترک دنيا کي لذت چکھي اور يہ يقين رکھا کہ وہ کل آخرت ميں اللہ کے پڑوس ميں ہوں گے۔ (۲۱)مخفي نہ رہے کہ يہ عہدنامہ ميرے مولا کي جانب سے محمد بن ابي بکر کے نام ہے جبکہ انہيں مولا نے مصر کي حکومت سپرد کي۔ اس عہد نامہ ميں پرہيزگاروں کے صفات بيان کيے گئے ہيں:”و اعلموا عباد اللہ ان المتقين ذھبوا بعاجل الدنيا و آجل الآخرۃ… اصابوا لذۃ زہد الدنيا…‘‘ جن صفات ميں ايک صفت زہد ہے۔ ظاہراً اگر زہد و تقوي ميں تساوي کے قائل نہ ہوں تو حد اقل ان ميں عموم خصوص مطلق کي نسبت ماننا پڑے گي۔زاہدوں کي اور بھي صفات و خصوصيات ہيں جن سے ہم محدوديت کي وجہ سے اعراض کررہے ہيں اور اسي مقدار پہ اکتفا کررہے ہيں۔
اؤٹي يا جھوٹے زاہد:جھوٹے زاہدوں کا تعارف بھي متعدد مقامات پر ميرے مولا نے فرمايا ہے۔ ہم اختصار کے پيش نظر فقط کچھ مقامات کي جانب اشارہ کررہے ہيں:1۔ ميرے مولا نے اپنے ايک نوراني خطبہ ميں لوگوں کو پانچ قسموں ميں تقسيم کيا ہے۔ ان اقسام ميں ايک صنف جھوٹے زاہدوں کي ہے۔”منھم من ابعدہ عن طلب الملک ضؤلۃ نفسہ … و تزين بلباس اھل الزھاد و ليس من ذالک في مراح و لا غديً‘‘ ۔اور بعض وہ لوگ ہيں جنہيں ان کے نفسوں کي کمزوري اور ساز و سامان کي نافراہمي، ملک گيري و حصول اقتدار کے ليئے اٹھنے نہيں ديتي۔ ان حالات نے انہيں ترقي و بلندي حاصل کرنے سے عاجز کرديا ہے۔ اسي وجہ سے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کررکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے آپ کو سج ليا ہے حالانکہ انہيں ان چيزوں سے کسي بھي وقت کوئي لگاؤ نہيں رہا۔ (۲۲)2۔ جب ايک شخص نے آپ سے پند و نصيحت کي درخواست کي تو فرمايا:’
‘ولا تکن ممن يرجوا الآخرہ بغير العمل…يقول في الدنيا بقول الزاھدين و يعمل فيھا بعمل الراغبين… ‘‘تم کو ان لوگوں ميں سے نہيں ہونا چاہئے کہ جو عمل کے بغير حسن انجام کي اميد رکھتے ہيں اور اميديں بڑھا کر توبہ کو تاخير ميں ڈال ديتے ہيں۔ جو دنيا کے بارے ميں زاہدوں کي سي باتيں کرتے ہيں مگر ان کے اعمال دنيا طلبوں سے ہوتے ہيں۔ اگر دنيا انہيں ملے تو سير نہيں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہيں کرتے۔ جو انہيں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہيں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہيں۔ دوسروں کو منع کرتے ہيں اور خود باز نہيں آتے اور دوسروں کو ايسي چيزوں کا حکم ديتے ہيں جنہيں خود بجا نہيں لاتے۔ صالحين کو دوست رکھتے ہيں مگر ان کے سے اعمال نہيں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہيں حالانکہ وہ خود انہي ميں داخل ہيں۔ اپنے گناہوں کي کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہيں مگر جن گناہوں کي وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہيں انہي پر قائم ہيں۔ اگر بيمار پڑتے ہيں تو پشيمان ہوتے ہيں اور تندرست ہوتے ہيں تو مطمئن ہو کر کھيل کود ميں پڑ جاتے ہيں… اگر مالدار ہوجاتے ہيں تو اترانے لگتے ہيں اور فتنہ و گمراہي ميں پڑ جاتے ہيں اور اگر فقير ہوجاتے ہيں تو نااميد ہوجاتے ہيں اور سستي کرنے لگتے ہيں… عبرت کے واقعات بيان کرتے ہيں مگر خود عبرت حاصل نہيں کرتے اور وعظ و نصيحت ميں زور باندھتے ہيں مگر خود اس نصيحت کا اثر نہيں ليتے… وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خيال کرتے ہيں۔ موت سے ڈرتے ہيں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال صالحہ انجام دينے ميں جلدي نہيں کرتے… اوروں کو ہدايت کرتے ہيں اور اپنے کو گمراہي کي راہ پہ لگاتے ہيں۔ وہ اطاعت ليتے ہيں اور خود نافرماني کرتے ہيں اور حق پورا پورا وصول کرليتے ہيں مگر خود ادا نہيں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کرکے مخلوق سے خوف کھاتے ہيں اور مخلوقات کے بارے ميں اپنے پروردگار سے نہيں ڈرتے۔ (۲۳)سيد رضي ”اعلي اللہ مقامہ‘‘ فرماتے ہيں کہ اگر اس کتاب ميں صرف ايک يہي کلام ہوتا تو کامياب موعظہ و موثر حکمت ،چشم بينا رکھنے والے کے لئے بصيرت اور نظر و فکر رکھنے والے کيلئے عبرت کے اعتبار سے بہت کافي تھا۔
فوائد و آثار زہد:سيد الزھاد و العباد و امام الاتقياء ”روحي لہ الفداء‘‘ کے نوراني کلمات ميں زہد کے فوائد و آثار بھي بيان ہوئے ہيں۔ وہ کلمات حقيقت ميں بہت سے سوالوں کا جواب ہيں مثلاً زہد کا فائدہ کيا ہے؟ زہد کا اثر کيا ہے؟ زہد کا خودسازي ميں کون سا کردار ہے؟و….ہم ذيل ميں اپنے آقا و مولا بلکہ مولائے کل کائنات کے کچھ نوراني کلمات کو اس ہدف کے پيش نظر ذکر کرتے ہيں:1? ”من زہد في الدنيا استھان بالمصيبات‘‘جو شخص دنيا ميں زہد اختيار کرے گا وہ مصيبتوں کو آسان و ہلکا سمجھے گا۔ (۲۴)دنيا ميں زاہد پر جو پريشانياں و مصائب و آلام پيش آتے ہيں کبھي بھي زاہد انہيں گراں نہيں سمجھتا بلکہ ابتلائے الہي سمجھ کر ان مصائب و آلام پر اطمينان قلب کے ساتھ صبر کرتا ہے? زاہد کي نظر ميں بڑي بڑي مصيبتيں معمولي سي ہوا کرتي ہيں۔زاہد اپنے مقتدي۔ سے جان چکا ہے کہ ”من عظم صغار المصائب ابتلاہ اللہ بکبارھا‘‘جو شخص ذرا سي مصيبت کو بڑي اہميت ديتا ہے اللہ اسے بڑي مصيبتوں ميں مبتلا کرديتا ہے۔ (۲۵) لہذا زاہد معمولي سي مصيبت کو اصلاً مصيبت ہي تصور نہيں کرتا۔2۔ ”زھدک في راغب فيک نقصان حظً و رغبتک في زاہد فيک ذلّ نفس‘‘جو تمہاري جانب جھکے اس سے بے اعتنائي برتنا اپنے حظ و نصيب ميں خسارہ کرنا ہے اور جو تم سے بے رخي کرے اس کي طر ف جھکنا نفس کي ذلت ہے۔ (۲۶)3۔”ازھد في الدنيا يبصرک اللہ عوراتھا و لا تغفل فلست بمغفول عنک‘‘ دنيا ميں زہد اختيار کرو تاکہ اللہ تمہيں اس کي برائيوں سے آگاہ کردے اور غافل نہ ہو اس لئے کہ تمہاري طرف سے غافل نہيں ہوا جائے گا۔ (۲۷)4۔”و ظلف الزھد شھواتہ‘‘زہد نے اس کي خواہشات کو پيروں تلے روند ديا ہے۔تنبيہ: ۔ نہيں معلوم کيوں مفتي جعفر حسين ”اعلي اللہ مقامہ‘‘ کے ترجمہ ميں الزہد منصوب ہے؟ بندئہ حقير نے غور و خوض کے بعد متعدد نسخوں کي جانب رجوع کيا مثلاً محمد عبدہ، صبحي صالح، نسخہ معجم المفھرس، نسخہ ميثم بحراني و… ليکن کہيں بھي منصوب نظر نہيں آيا؟ اس حقير پر تقصير کي نظر ميں چاپي اشتباہ ہے ورنہ مفتي جعفر حسين ”اعلي اللہ مقامہ‘‘ کا مقام اس سے بالاتر ہے کہ انکي جانب يہ نسبت دي جائے۔خلاصہ کلام:ہم نے عجالۃً فقط انہي چار نصوص پہ اکتفا کي ہے ، وہ بھي محدوديت کي وجہ سے ليکن اگر بحث کا دروازہ کھلا رہتا تو کچھ زيادہ مرقوم کيا جاسکتا تھا۔پہلا فائدہ: زہد انسان کو صبر جزيل کي ہمت ديتا ہے۔دوسرا فائدہ: زہد عزت نفس کا باعث بنتا ہے۔تيسرا فائدہ: زہد انسان ميں عدالت کے ملکہ کو قوي بناتا ہے۔چوتھا فائدہ: اللہ زاہد کو زہد کي وجہ سے بصيرت ديتا ہے۔پانچواں فائدہ: زہد کے سبب انسان نفساني خواہشات کو کچل ديتا ہے۔کلام امير? ميں زہد کے بہ ”ان شاء اللہ‘‘
فلسفہ زہد:حضرت اميرالمومنين علي بن ابي طالب(علیہ السلام)کي نظر ميں زہد کا فلسفہ چار چيزوں ميں خلاصہ ہوتا ہے۔ يہاں ہم صرف اشارہ کريں گے تفصيل ”تصنيف نہج البلاغہ ‘‘ ميں ملاحظہ ہو۔1۔ايثار: ايثار کا مطلب يہ ہے کہ خود پر دوسروں کو ترجيح دينا ، دوسروں کو خود سے مقدم جاننا اور دوسروں کي خاطر خود کو زحمت ميں ڈالنا۔حضرت علي(علیہ السلام) اور ان کے گھرانے کا ايثار تاريخ انسانيت ميں بے مثال ہے جسے اللہ تعالي نے ايک مکمل سورہ کي شکل ميں بيان فرمايا ہے ۔ا س سورہ کو سورہ دہر کے نام سے ياد کيا جاتا ہے۔2۔مواسات اور ہمدردي: يعني محروم لوگوں کے غم ميں برابر سے شريک رہنے کا نام مواسات ہے۔ مواسات کو عيني شکل ميں ديکھنا مطلوب ہو تو خاندان عصمت و طہارت کے در پر جھکنا پڑے گا۔3۔آزادي و آزادگي: انسان کو خواہشات و ماديات سے آزاد ہونا چاہيئے اس ليئے کہ اللہ نے انسان کو آزاد خلق کيا ہے۔ ”لا تکن عبد غيرک و قد جعلک اللہ حرّاً‘‘ لالچ علي کي نظر ميں ہميشہ کي غلامي ہے۔ ”الطمع رق موبد‘‘(۲۸)4۔ رياضۃ النفس علي التقوي: يہ اس وقت ممکن ہے جب نفس کو لذائذ و شہوات سے محروم رکھا جائے۔ايثار و مواسات :”ان اللہ تعالي فرض علي ائمہ العدل…‘‘ (۲۹) اللہ تعالي نے ائمہ حق پر فرض کيا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مفلس و نادار لوگوں کي سطح پر رکھيں تاکہ فقير اپنے فقر کي وجہ سے پيچ و تاب نہ کھائے۔رياضت نفس: مولا پرہيزگاروں کے متعلق يوں فرماتے ہيں :”منطقھم الصواب، و ملبسھم الاقتصاد و مشيتھم التواضع…‘‘(۳۰)انکي گفتگو جچي تلي ہوئي، ميانہ لباس اور ان کا چلنا فروتني و تواضع ہے۔زہد کا مقصد مولا کي نظر ميں يہ ہے کہ انسان مال و دولت کا غلام نہ بن جائے نہ يہ کہ فقير و نادار و مفلس ہوجائے چونکہ ”الفقر موت الاکبر‘‘(۳۱)
حوالہ جات1? لسان العرب 11702 باب الزاي2? معجم متن اللغ? 368 ”الزاي‘‘3? مجمع البحرين 1296-297”ز‘‘4?نہج البلاغہ،خ81 و 795?شرح محمد عبدہ ، خ80صبحي صالح خ81 بحراني خ876? شرح محمد عبدہ خ80صبحي صالح خ81 ?نوٹ: بحراني کا يہاں لطيف کلام ہے محدوديت کي وجہ سے ذکر نہيں کيا جارہا ہے?7?نہج البلاغہ، ق 439حکمت 4398? ==ق28 حکمت 279?شرح نہج البلاغہ،126، ابن ابي الحديد10?تصنيف نہج البلاغہ،ص387 ، عنوان ”زہد الامام و تقواہ‘‘ باب 3 فصل 1511?نہج البلاغہ،ق23612?نہج البلاغہ،خ333313?==خ224خ22114?=خ3خ315?=خ74خ7216?نہج البلاغہ،خ113ترجمہ مفتي جعفر حسين? خ11117? نہج البلاغہ،ق104ترجمہ مفتي جعفر حسين? ، 834، 835، حکمت 10418?مائدہ 219?نہج البلاغہ،خ193خ19120?نہج البلاغہ،خ230 ، عنوان :منھا في صف? الزھاد خ22721?==ک27، ص122عہدنامہ 2722?نہج البلاغہ،خ32آغاز خطبہ:”ايھا الناس انا قد اصبحنا في دھر عنود و زمن کنود يُعدّ فيہ المحسنين مسيئاً…‘‘23?نہج البلاغہ،ق150حکمت 15024?نہج البلاغہ،ق31حکمت3025?نہج البلاغہ،ق451حکمت 45126? نہج البلاغہ ،خ83 ، عنوان: التحذير من ھول الصراط خ81 ? اس خطبہ کو خطبہ غرّا ئ کے نام سے ياد کرتے ہيں?27?نہج البلاغہ، خ20920728?نہج البلاغہ، خ193خ191
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.