حقوق کیا ہیں؟

202

حقوق سے مراد ا ن قواعد اور اصول کا مجموعہ ہے جن کی رعایت ایک معاشرہ یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے روابط کے دوران کرتے ہیں اور انہیں قواعد کے مطابق ہر ایک کے اختیارات اور آزادی کو متعین کیا جاتاہے۔ 1انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جو ہمیشہ ایک دوسرے کا محتاج ہے،اجتماعی اور خاندانی زندگی اس وقت ممکن ہے کہ معاشرہ یا خاندان پر ایک جامع قانون حا کم ہو ، ورنہ ہر کوئی اپنی مرضی سے چلے گا، جس کا نتیجہ خاندان اورمعاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہوجائےگا۔اس لئے ہر ایک پر لازم ہے کہ ان قوانین کا احترام کریں۔انہی قوانین کو علمی اصطلاح میں حقوق کہتے ہیں۔جس کا مقصد لوگوں کی مکمل آزادی کیلئے حدود کا تعین کرنا ہے۔جن کی رعایت کرنے سے اجتماعی اور خاندانی زندگی محفوظ ہوسکتی ہے۔عورت بھی خاندان کا ایک اہم رکن ہے بلکہ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ وہ خاندان کا محورہے، ان کے حقوق بھی اسلامی معاشرے میں بہت اہم ہے،جس کی رعایت کرنا باپ،شوہر اور اولاد پر فرض ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خاندان کے وجود میں آنے کی بنیاد تولید نسل کا انگیزہ ہے،کہ اس طریقے سے انسان اپنے وجود کی بقا کو محفوظ کرتا ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عورتوں میں طبیعی طور پر ماں بننے کا شوق پایا جاتاہے اور یہی انگیزہ اسے خاندان کی تشکیل پر ابھارتا ہے۔ٹھیک ہے کہ یہ انگیزے اسباب بن توسکتے ہیں لیکن علت تامہ نہیں،کیونکہ بہت سے خاندان ایسے ہیں جن میں اولاد نہیں ہوتی یا زندہ نہیں رہتی،پھر بھی مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کیلئے عشق و محبت پائی جاتی ہے۔ اور کبھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دی جاتی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنے اور خاندان تشکیل دینے کے اور بھی علل و اسباب ہیں۔ چنانچہ پیامبراسلام فرماتے ہیں:جس نے شادی کرلی اس نے آدھا دین بچا لیا۔ 2کیونکہ شادی جوانوںکو لغزش ، انحرافات ،بے عفتی اور برائی سے بچاتی ہے۔پس ان مشکلات کا حل قرآن مجید میں موجود ہے کہ انسان کی فطرت اور طبیعت میں جفت خواہی اور جنسی خواہشات ڈال دی جس کے نتیجے میں خاندان وجود میں آئی۔میاں بیوی ایسے دو عنصر ہیں جو جب تک ایک دوسرے کو نہیں چاہتے یا آمیزش نہیں کرتے اور تعاون نہیں کرتے ،دونوں ناقص ہیں۔ یہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی زندگی کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔یہ نہ صرف دو فزیکل یا جسمانی رابطہ اور تولید فرزند ہے کہ جو خوشیوں کا باعث ہے ۔اورنہ صرف ظاہری اور مادی امور ،جو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے نزدیک کرے بلکہ ایک بہت ظریف نکتہ چھپا ہوا ہے کہ وہ وہی روحی اور جسمی احتیاج ہے کہ خالق کائنات نے تمام جانداروں کوایک دوسرے کا محتاج خلق کیا ہے۔قرآن کی رو سے خلقت انسان ابتدا ہی سے جفت جفت وجود میں آئی ہے۔اورہر ایک اپنی فطرت کے مطابق اپنی جفت اور ہمسر کی تلاش میں رہتاہے ۔ اور دونوں اپنے خاص طور و طریقے سے فطری وظیفہ کو انجام دیتے ہیں نتیجتا ایک دوسرے کو کامل کر تے ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا کہ ہم نے تمہیں جفت جفت پیدا کیا۔ 3وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔۔ 4یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ تمہارے لئے اپنے جنس میں سے ہمسر خلق کیا تاکہ سکون اور آرامش کا سبب بنے اور تمہارے درمیان دوستی اور محبت ایجاد کیاور فرمایا : وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًایعنی خدا نے تمہیں مٹی سے پیدا کیاپھر نطفہ سے اور پھر جفت جفت قرار دیا۔ 5————1 ۔ باقر عاملی ؛حقوق خانوادہ ،ص٢٠١.2 . مجلسی،محمد تقی؛ روضةالمتقین،ج٨،ص٣٨.3. سورہ نبأ٨.4. سورہ روم٢١.5. فاطر١١.
پیدائش حقوق کی وجوہات:انسان کو چونکہ اپنے آپ سے زیادہ محبت ہے اس لئے چاہتا ہے کہ جتنا ہوسکے زندگی کی نعمات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے اور بہتر زندگی کرنے کیلئے ان وسائل سے فائدہ اٹھائے، لیکن دیکھتا ہے کہ جس طرح بچہ بغیر ماں باپ کے اپنی زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتا اور اکیلا زندگی کے تمام مسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے وہ خاندانی اور اجتماعی طور پر زندگی کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے ،اور اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق مسئولیت اور ذمہ داری کو قبول کر لیتا ہے۔ایک شخص زمینداری کرتا ہے تو دوسرا مستری کا کام، ایک دفتر میں کام کرتا ہے تو دوسرا ہسپتال میں، اور جب اجتماعی زندگی کا دارومدار ایک دوسرے کے تعاون پر ہے تو ذمہ داریاں بھی متعین ہوتی ہیں ۔اس طرح معاشرے میں قوانین نافذ ہوتے ہیں تاکہ معاشرے میں افراط و تفریط پیدا نہ ہو۔
حقوق کے منابعبعض دانشمندوں کا خیال ہے کہ قانون عقل اور وجدان کی وجہ سے قائم ہوا ہے، کہ ہماری عقل لوگوں کے اچھے اور برے اعمال میں تشخیص دے سکتی ہے یہی وجہ ہے عقل کہتی ہے کہ برائیوں سے روکنا اور اچھائیوں کی طرف رغبت پیدا کرناچاہئے۔بعض کہتے ہیں کہ قانون خالق کائنات کی طرف سے عالم بشریت کیلئے بنایاگیا ہے جسے انبیاء کے ذریعے لوگوں پر لاگو کیاگیا ہے۔ان دونوں نظریات کے ماننے والوں نے اپنےاپنے دعوے کوثابت کرنے کیلئے مختلف دلائل پیش کئے ہیں۔ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حقوق کا سرچشمہ وہی قوانین اسلامی ہے جسے خدا تعالی نے نبیوں کے ذریعے خود تعیّن کیا ہے۔کیونکہ خدا کی ذات ہے جو افعال انسانی کے مصالح اور مفاسد سے زیادہ آ گاہ ہے۔اور ان قوانین کو دریافت کرنے کیلئے مکتب تشیع کے مطابق چار منبع اور سرچشمہ ہیں:
١۔ قرآن مجیدقرآن مجید میں حقوق کے بارے میں تقریبا پانچ سو آیات ذکر ہوئی ہیں،جنہیں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔یہ راہ ہدایت تک پہنچنے کیلئے محکم ذریعہ ہے،جو بھی اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجرملے گا،اور جس نے بھی اس کتاب کے مطابق فیصلہ کیااس نے عدل سے کام لیا ۔ اور جس نے بھی اس کتاب کی طرف کسی کی راہنمائی کی تو گویا اس نے صراط مستقیم کی طرف بلایا۔

٢۔ سنتممکن ہے یہ پانچ سو آیات قوانین زندگی کی تمام جزئیات پر تو دلالت نہیں کرتی،کیونکہ احکام جیسے نماز روزہ حج جھاد خمس و ۔۔۔کی بہت سی جزئیات پائی جاتی ہیں اور ان جزئیات کو بیان کرنا سنت کا کام ہے۔ہاں البتہ ان جزئیات کا بیان انہی آیات کی تفسیر ہوسکتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ انبیاء اپنی طرف سے بیان کرتے ہوں،چنانچہ قرآن مجید گواہی د ے رہا ہے: وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى۔ “1 اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے”اس طرح شیعہ عقیدے کے مطابق سنت سے مراد گفتار و رفتار و تقریر معصوم (ع)ہے ۔
————1 ۔ النجم٤،۳.٣۔اجماعاصطلاح میں اجماع سے مراد یہ ہے کہ تمام اسلامی دانشمندوں کا کسی شرعی حکم پر اتفاق نظر اور وحدت عقیدہ ہو۔لیکن اہل سنت کے نزدیک اجماع؛ قرآن و سنت سے ہٹ کر ایک مستقل اصل ہے یعنی امت کا اجماع اور اھل حلّ و عقد بھی اسلامی قانون کا سرچشمہ ہے۔بنا بر ایں اگر کتاب اور سنت سے کسی حکم پر دلیل نہ ملے لیکن علماء کا اتفاق رائے معلوم ہو جائے تو اسی اجماع پر بنا رکھ کر فقیہ فتوی دیتا ہے۔لیکن شیعوں کے نزدیک اجماع، کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی اور مستقل اصل نھیں ، بلکہ معتقد ہیں کہ یہ اجماع نظررأے معصوم کے درکار ہونے پر دلالت کرتا ہو۔قاعدۂ لطف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجتہدین کسی غلط حکم پر متّفق ہو جائے تو امام پرلازم ہے کہ وہ اس میں اختلاف ڈالدے اور اجتماع کرنے سے بچائے۔

٤۔ عقلاہل سنت کہتے ہیں کہ رأے ،اجتہاد اور قیاس وہی عقلی تشخیص ہے جو قوانین اسلامی کا ایک الگ سرچشمہ ہے۔اخبارئین کہتے ہیں چونکہ عقل ناقص اور خطاکار ہے اسلئے لوگوں کیلئے عقل حلال اور حرام کا تعین نہیں کر سکتی۔ ہاں صرف یہ کہ عقل کومددگار کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مجتہدین فرماتے ہیں عقل اور شریعت کے درمیان ایک مستحکم اور نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے ، اور کہا جاتا ہے : کلّما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع و کلّما حکم بہ الشرع حکم بہ العقل۔امام سجاد(ع) منشأحقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بندوں کے تمام حقوق کا سرچشمہ وہی حقو ق اللہ ہے اور باقی حقوق اسی کی شاخیں ہیں ۔اگر سارے حقوق کو ایک درخت شمار کرلے تو اس درخت کی جڑ حق اللہ ہے۔اور باقی لوگوں کے حقوق اس کی شاخیں اور پتے ہیں1۔اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح انسانوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں اسی طرح اللہ تعالی کے حقوق بھی ہیں کیونکہ خداوندانسان کا مالک حقیقی ہے جسے حق تصرف حاصل ہے ۔ جس کی اجازت کے بغیر ہم کسی دوسرے کے حقوق میں تصرف نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حقوق خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی،اخلاقی ہو یا فقہی، حق الہی کے تابع ہے۔پس انسان کبھی بھی اپنے لئے کسی حق کا خدا سے مطالبہ نہیں کرسکتا کیونکہ جب کسی چیز کا مالک ہی نہیں تو کس حق کا مطالبہ کرے گا ؟ یہاں تک کہ ہم اپنے اعضائے بدن پر تصرف نہیں کرسکتے۔مگر یہ کہ خدانے ہمارے لئے جائز قرار دیا ہو۔ کیونکہ یہ سب خدا کی دین اور عطا ہے۔اگر ہم ان حقوق خدا کو درک کرلیں گے تو اپنی ذمہ داریوں کوبھی ہر مرحلے میں پہچان سکیں گے۔ اس بحث سے جو نتیجہ نکلتا ہے و ہ یہ ہے کہ ہر قسم کے حقوق خواہ وہ حقوق والدین ہو یا حقوق اولاد یا بیوی کے حقوق ، سب کچھ خدا کی طرف سے عطا کردہ حقوق ہیں اور خدا ہی کا حکم ہے کہ ان حقوق کی رعایت کریں۔ تاکہ قیامت کے دن ہمیں جزا دی جائے۔
————1 ۔ محمد تقی مصباح یزدی؛نظریہ حقوقی اسلام،ص٢١١.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.