نومولود اور دینى تربيت

199

 بچہ رفتہ رفتہ ان جملوں سے آشنا ہوجاتا ہے اور يہى آشنائي ممكن ہے اس كے آئندہ كے ليے مؤثر ہو _ جس لفظ سے ہم زيادہ متاثر ہوتے ہيں اس كے معنى كو بہتر سمجھتے ہيں _ نا آشنا افراد كى نسبت آشنا افراد كو ہم زيادہ پسند كرتے ہيں ايك بچہ ہے كہ جو دينى ماحول ميں پرورش پاتا ہے ، سينكڑوں مرتبہ اس نے تلاوت قرآن كى دلربا آواز سنى ہے ،اللہ كا خوبصورت لفط اس كے كالوں سے ٹكرايا ہے اور اس نے اپنى آنكھوں سے بارہا ماں باپ كو نماز پڑھتے ہوئے ديكھا ہے _ دوسرى طرف ايك نومولود ہے كہ اس نے برے اور بے دين ، ماحول ميں پرورش پائي ہے ، اس كے كانوں نے غليظ اور گندے سنے ہيں اور اس كى آنكھيں فحش مناظر ديكھنے كى عادى ہوگئي ہيں يہ دونوں بچے ايك جيسے نہيں ہيں _سمجھدار اورذمہ دار ماں با پ اپنے بچوں كو تربيت كے ليے كسى موقع كو ضائع نہيں كرتے يہاں تك كہ اچھى آوازيں اور اچھے مناظر سے انہيں مانوس كرنے سے بھى غفلت
117نہيں كرتے_رسول اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بھى اس حساس تربيتى نقطے كو نظر انداز نہيں كيا اور اپنے پيروكاروں كو حكم ديا ہے كہ ”جو نہى بچہ دنيا ميں آئے اس كے دائيں كان ميں اذان اوربائيں ميں اقامت كہيں”_حضرت على عليہ السلام نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت كى ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا:جس كے ہاں بھى بچہ ہوا سے چاہيے كہ اس كے دائيں كان ميں اذان اوربائيں ميں اقامت كہے تا كہ وہ شر شيطان سے محفوظ رہے _ آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسين(ع) كے بارے ميں بھى اسى حكم پر عمل كرنے كے ليے كہا _ علاوہ ازيں حكم ديا كہ ان كے كانوں ميں سورہ حمد ، آية الكرسى ، سورہ حشر كى آخرى آيات ، سورہ اخلاق ، سورہ والناس اور سورہ و الفلق پڑھى جائيں_ (1)بعض احاديث ميں آيا ہے :خود رسول اللہ نے امام حسن (ع) اورامام حسين (ع) كے كان ميں اذان و اقامت كہى _ہاںرسول اسلام جانتے تھے كہ نو مولود اذان، اقامت اور قرآنى الفاظ كے معانى نہيں سمجھتا ليكن يہى الفاظ بچے كے ظريف اور لطيف اعصاب پر جو اثر مرتب كرتے ہيں آپ (ص) نے اسے نظر انداز نہيں كيا _ رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كى اس نكتے كى طرف توجہ تھى كہ يہ جملے بچے كى روح اور نفسيات پر نقش مرتب كرتے ہيں اور اسے ان سے مانوس كرتے ہيں _ اور الفاظ سے يہ مانوسيت بے اثر نہيں رہے گى _ علاوہ ازيں ممكن ہے كہ اس تاكيدى حكم كے ليے رسول (ع) كے پيش نظر كوئي اور بات ہو _ شايد وہ چاہتے ہوں كہ ماں باپ كو متوجہ كريں كہ بچے كى تعليم و———–1_ مستدرك ج 2 ص 619
118تربيت كے بارے ميں سہل انگارى درست نہيں ہے اور اس مقصد كے ليے ہر ذريعے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہيے جب ايك با شعور مربى نومولود كے كان ميں اذان اور اقامت كہتا ہے تو گويا اس كے مستقبل كے لئے واضح طور پر اعلان كرتا ہے اور اپنے پيارے بچے كو خداپرستوں كے گروہ سے ملحق كرديتا ہے _بچے پرہونے والے اثر كا تعلق صرف سماعت سے متعلق نہيں ہے بلكہ مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ جو چيز بھى بچے كے حواس، ذہن اور اعصاب پر اثر اندازہوتى ہے اس كى آئندہ كى زندگى سے لاتعلق نہيں ہوتى مثلاً جو نو مولود كوئي بے حيائي كا كام ديكھتا ہے اگر چہ اسے سمجھ نہيں پاتا _ ليكن اس كى روح اور نفسيات پر اس برے كام كا اثر ہوتا ہے اور يہى ايك چھوٹا كام ممكن ہے اس كے انحراف كى بنياد بن جائے _ اسى ليے پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرماياہے:”گہوراہ ميں موجود بچہ اگر ديكھ رہا ہو تو مرد كو نہيں چاہيے كہ اپنى بيوى سے مباشرت كرے ” _ (1)——–1_ مستدرك ج 2 ص 546119احساس وابستگينومولود بہت كمزور سا وجود ہے جو دوسروں كى مدد كے بغير زندہ رہ سكتا ہے نہ پرورش پا سكتا ہے نو مولود ايسا محتاج وجود ہے جس كى ضروريات دوسرے پورى كرتے ہيں _ جب وہ رحم مادر ميں تھا تواسے نرم و گرم جگہ ميسّر تھى _ وہاں اس كى غذا اور حرارت كياحتياج ماں كے ذريعے پورى ہو رہى تھى _ وہ چين سے ايك گوشے ميں پڑاتھا اوراپنى ضروريات كے ليے بالكل بے فكر تھا _ اب جب كہ وہ دنيا ميں آيا ہے تو احساس نياز كرتا ہے _ بچے كا پہلا پہلا احساس شايد سردى كے بارے ميں ہوتا ہے اور اس كے بعد بھوك كے بارے ميں _ اسے پہلى بار احساس ہوتا ہے كہ حرارت اور غذا كے ليے وہ دوسرے كا محتاج ہے _ اس مرحلے ميں وہ كسى كو نہيں پہچانتا _ اپنى ضروريات كو فطرتاً سمجھتا ہے اور ايك انجانى قدرت مطلقہ كى طرف متوجہ ہوتا ہے _ اپنے تئيں اس قدرت مطلقہ سے منسلك سمجھتا ہے _ اسے انتظار ہوتا ہے وہ قدرت اس كى ضروريات پورا كرے گى _ بچہ زندگى كى ابتدا ہى ميں كسى سے وابستگى كا احساس كرتا ہے اور يہ احساس زندگى كے تمام مراحل ميں اس كے ساتھ رہتا ہے _ بھوك يا پياس لگے تو دوسروں كو متوجہ كرنے كے ليے روتا ہے _ ماں كے سينے سے چمٹ جاتا ہے اور اس كى محبتوں اور لوريوں سے سكون محسوس كرتا ہے _ اگر اسے كوئي تكليف ہو يا كسى خطرے كا احساس كرے تو ماں كے دامن ميں پناہ ليتا ہے _يہى وابستگى اور احساس ضرورت ہے جو بعد ميں دوسرے لوگوں كى تقليد كى صورت ميں ظاہر ہوتا ہے_ يہ ايك نفسياتى وابستگى ہے _ بچہ اپنے اخلاق اور طرز عمل كو اپنے
120ارد گردوالوں كے اخلاق اور طرز عمل كے مطابق ڈھالتا ہے _ يہى احساس تعلق ہے جو بعد ازاں كھيلوں اور دوسرے سے مل جل كر كام كرنے اور دوست بنانے ميں ظاہر ہوتا ہے _ بيوى بچوں سے الفت و محبت كا سرچشمہ بھى يہى احساس ہے اجتماعى زندگى كى طرف ميلان ، باہمى تعاون اور مل جل كر كام كرنے كا مزاج بھى اسى احساس سے تشكيل پاتا ہے _ احساس وابستگى كو كوئي معمولى سى چيز نہيں سمجھنا چاہيے بلكہ يہ بچے كى اخلاقى اور سماجى تربيت اور اس كى تكميل شخصيت كا ايك اہم ذريعہ ہے _ اگر اس احساس وابستگى و تعلق كى صحيح طور پر راہنمائي كى جائے تو بچہ آرام و سكون محسوس كرتا ہے _ وہ پر اعتماد اور خوش مزاج ہوجاتا ہے _ اچھى اميدوار توكل كى كيفيت اس ميں پيدا ہوجاتى ہے _ دوسروں كے بارے ميں اس ميں حسن ظن پيدا ہوجاتا ہے _ اس طرح معاشرتى زندگى كى طرف قدم بڑھاتا ہے _ دوسروں كو اچھا سمجھتا ہے اور ان سے تعاون كى اميد ركھتا ہے _ جب معاشرے كے بارے ميں اس كے رائے اچھى ہوگى تو اس سے تعاون بھى كرے گا اور اس كے ليے ايثار بھى كرے گا _ معاشرے كے لوگ بھى جب اسے اپنا خير خواہ اور خدمت گزار سمجھيں گے تو وہ بھى اس سے اظہار محبت كريں گے _اس كے برعكس اگر يہ گراں بہا احساس كچلا جائے اور اس سے صحيح طور پر استفادہ نہ كيا جائے تو خدا نے جو صحيح راستہ بچے كے ليے مقرر كيا ہے اس كى اجتماعى زندگى اس سے بھٹك جائے گى _ ماہرين نفسيات كا نظريہ ہے كہ بہت سے مواقع پر خوف ، اضطراب ، بے اعتمادى ، بدگمانى ، شرمندگي، گوشہ نشيني، افسردگى اور پريشانى يہاں تك كہ خودكشى اور جراثيم كى بنياد بچپن ميں پيش آنے والے واقعات ہوتے ہيںاگر آپ چاہتے ہيں كہ بچے كے احساس وابستگى كو صحيح طرح سے مطمئن كريں تو ہميشہ اس كے مددگار ہيں _ جب اسے بھوك لگے تو غذا ديں اور اس كے ليے آرام و راحت كا سامن فراہم كريں _ اگر اسے درد ہو يا كوئي اور تكليف پيش آئے تو فوراً اس كى داد رسى كريں _ اس كى نيند اور خوراك كو منظم ركھيں _ اس طرح سے كہ اسے بالكل پريشانى نہ ہو او ر وہ آرام كا احساس كرے _نو مولود كو مارپيٹ نہ كريں _ نو مولود كچھ نہيں پہچانتا _ اسے صرف اپنى ضرورت كا احساس
121ہوتا ہے اور ايك انجانى قدرت پر بھروسہ كرتا ہے _ وہ رنے كى زبان سے اس كى پناہ حاصل كرتا ہے اور اپنى احتياج كا اظہار كرتا ہے _ مارپيٹ كے ذريعے اسے مايوس اور بدظن نہ كرديں _پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:”بچوں كو رونے پر مارنانہ چاہيئےيونكہ چار ماہ تك اپنے اس رونے كے ذريعے وہ اللہ اور اس كى توحيد كى گواہى ديتے ہيں ” _(1)ہر حال ميں بچے كے مددگار رہيں اگر وہ كوئي انجام دينا چاہتا ہے اور آپ اس كى مدد نہيں كرسكتے تو بھى اس سے نوازش و محبت سے پيش آئيں _ اگر بچہ پريشان ہواور وہ ناراحتى محسوس كرتا ہو تو اس پريشانى كے اسباب ختم كريں اور اس كو مطمئن كريں اسے ہرگز ڈانٹ ڈپٹ نہ كريں اور يہ نہ كہيں كہ ميں تمہيں يہيں چھوڑ كر جارہى ہوں _ كيونكہ يہى ڈانٹ ڈپٹ ممكن ہے اس كى روح پر برا اثر كرے اور اسے پريشان كردے _ بچہ چاہتا ہے كہ وہ ماں باپ اور دوسروں كو محبوب ہو _ اگر ماں باپ اس سے محبت نہ كريں تو وہ اس پر سخت پريشان ہوتا ہے _ وہ ہميشہ كوشش كرتا ہے كہ ان كا پيارااور محبت ہميشہ باقى رہے _ بعض ماں باپ بچے كے اس جذبے سے استفادہ كرتے ہيں اور بچے كو ڈانٹتے ہيں كہ اگر تونسے يہ كام نہ يكا تو ہم تم سے پيار نہيں كريں گے ليكن آپ كو چاہيے كہ اس حربے كو استعمال نہ كريں _ كيونكہ اس طرح كى ڈانٹ ممكن ہے تدريجاً بچے كى روح پر برے اثرات مرتب كرے اور اس سے اس كا عتماد اور رآرام جاتا رہے اور يہ بچے كے ضعيف اعصاب اور داخلى اضطراب كا سبب بن جائے _ اگر وہ رورہا ہو يا شور كررہا ہو تو وہ يہ نہيں چاہ رہا ہوتا كہ آپ كو بے آرام كرے بلكہ وہ آپ كى توجہ مبذول كرنا چاہ رہا ہوتا ہے تا كہ آپ اس كى بات سنيں _ آپ صبر اور سمجھدارى كے ساتھ اس كى بے آرامى كى وجوہ سمجھيں اور اس بے آرامى كو دور كريں _ تا كہ اسے آرام ملے _ اگر آپ اسے رونے پر ڈانٹيں گے يا ماريں _ گے تو ممكن ہے وہ خاموش ہوجائے _ ليكن كيسے خاموش ؟ ايك اضطراب آميز———-1_ بحار الانوار _ جلد 104 ص 103
122مايوسانہ خاموشى كہ جو بہت خطرناك ہے جو ممكن ہے اس كے مستقبل كو دگرگوں كردے _ ماں باپ كى موجودگى سے بچہ ہميشہ خوش رہتا ہے اور ان كى جدائي سے وحشت كھاتا ہے _ آپ كبھى اپنى موت كے بارے ميں سے بات نہ كريں كيونكہ يہ اس كى پريشانى اور وحشت كا سبب ہوگى _ اگر آپ بيمار ہوجائيں تو موت كاذكر نہ كريں _ بلكہ اپنے بچوں كو پر اميد ركھيں اور ان كا حوصلہ بڑھائيں اگر آپ ايك عرصے كے ليے بچوں سے دور ہونے پر مجبور ہوں تو پہلے انہيں اس پر آمادہ كريں _ ان كادل بڑھائيں پھر سفر اختيار كريں اور اس كے بعد ابھى ہميشہ ان سے رابطہ برقرار ركھيں اور نامہ و پيام كے ذريعے سے ان كى دھارس بندھاتے رہيں_اگر آپ كا بچہ بيمار ہوجائے تو دوا كھلانے كے ليے اسے موت سے اور اچھا نہ ہونے سے نہ ڈرائيں _ بلكہ ايسے مواقع پر تشويش كى راہ اختيار كريں اور اسے صحيح ہوجانے كى اميد دلائيں _ يہاں تك كہ اسے اگر كوئي خطرناك بيمارى ہو تو اپنى پريشانى اور اضطراب كو اس سے چھپائے ركھيں _ مختصر يہ كہ پورى عمر اپنے بچوں سے ايسا سلوك ركھيں كہ وہ آپ كو اپنا بہترين غمگسار اور غمخوار سمجھيں _البتہ اس بات كا خيال رہے كہ بچے سے اظہار محبت ضرورى حد تك اور ضرورى مقامات پر ہونا چاہيے _ اس طرح سے كہ وہ لا ڈپيارسے بگڑنہ جائے اور خود اعتمادى سے محروم نہ ہوجائے _ جہاں بچہ واقعى كوئي كام نہ كرسكتا ہو اس كى مدد كرنا چاہيے ليكن اگر وہ ايك كام خود كرسكتا ہے اور اسے مدد كى ضرورت نہيں ہے بلكہ وہ دوسروں پر رعب جمانے كے ليے شور كررہا ہو تو اس كى طرف اعتناء نہيں كرنا چاہيے _رسل لكھتا ہے :اگر بچہ كسى وجہ اور واضح علت كے بغير روئے تو اسے اس كے حال پر چھوڑ دينا چاہيے اور وہ جتنا چلاّ نے ديں _ ايسے مواقع پر اگر كوئي اور روش اپنائي گئي تو وہ جلدى ہى ايك جابر حاكم كى صورت اختيار كرلے گا123ايسے مواقع كہ جہاں ضرورت ہے كہ اس كى طرف توجہ كى جائے وہاں بھى افراط سے كام نہيں لينا چاہيے بلكہ حسب ضرورت طرز عمل اپنا ناچاہيے اور زيادہ ہى اظہار محبت نہيں كرنا چاہيے _(1)———-1_ در تربيت ، ص 79
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.