معاد یا قیامت

268

”معاد” ، دین مقدس اسلام کے تین اصولوں میں سے ایک اصول ہے اور اس مقدس دین کی ضروریات میں سے ہے۔قرآن محید کی سیکڑوں آیات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی ہزاروں روایتیں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ خدائے متعال اپنے تمام بندوں کو موت کے بعد ایک معین دن کو پھرسے زندہ کرے گا اور ان کا اعمال کا حساب لے گا۔ پھر نیک کام انجام دینے والوں کو ابدی نعمت و لذت سے نوازے گا او ربدکرداروں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچاکر ابدی عذاب میں مبتلا کرے گا۔خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ تمام گذ شتہ پیغمبروں نے، معاد اور روز قیامت کے بارے میں لوگوں کو یاد دہانی کرائی ہے۔دوسرے آسمانی ادیان بھی دین اسلام کے مانند، معاد کو ثابت کرتے ہیں، اس کے علاوہ آثار قدیمہ کے توسط سے ہزاروں سال پر انی قبروں کی کھدائی سے ایسے آثار و علائم ہاتھ آرہے ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ پہلا اور ما قبل تاریخ کے بشر بھی انسان کے لئے موت کے بعد ایک قسم کی زندگی کا قائل تھا، اور یہاں سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے انسان اپنی سادہ سوچ سے بھی نیک انسانوں کے لئے جزا اور بد کاروں کے لئے سزا کا قائل ہے اور اس کے لئے ایک معین دن کو جانتے ہیں، چونکہ ایسادن اس دنیا میں موجود نہیں ہے ، اس لئے اس کا دوسری دنیا میں ہونا ضروری ہے ۔
ادیان و ملل کی نظر میں معادتمام وہ مذاہب، جو خد اکی پرستش کی دعوت دیتے ہیںاور انسان کونیک کام انجام دینے کا حکم اور بد کاری سے روکتے ہیں،وہ موت کے بعد معاد اور دوسری زندگی کے قائل ہیں، کیونکہ وہ ہرگز معین نہیں کرتے ہیں کہ نیک کا م کی اس وقت قدر وقیمت ہوگی جب نیکی کی جزا ہوگی اور چونکہ یہ جزا اس دنیا میں دیکھی نہیں جاسکتی ہے، اس لئے مرنے کے بعد دوسری دنیا او رایک دوسری زندگی میں اس کا ہونا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دن کو کہ جسے قیامت کا دن کہا ہے، پوری وضاحت سے ثابت کیا ہے اور اس کی ناقابل انکار حالت میں تعارف کراتاہے۔ اس پر اعتقاد کودین کے تین اصولوں میں سے ایک شمارکرتاہے اور قرآن مجید میں اسی مطلب کو سابقہ پیغمبروں کی دعوت سے نقل کرتاہے۔اس کے علاوہ ، آثار قدیمہ کے کشف ہوئے بہت سے مقبروں سے کچھ ایسے آثار و علامتیں پائی گئی ہیں، جواس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ قدیم انسان موت کے بعد دوسری زندگی پر ایما ن رکھتا تھا او راپنے عقائد کے مطابق کچھ فرائض انجام دیتا تھا تاکہ لوگ اس دنیا میں آرام و آسائش حاصل کریں۔
قرآن مجیدکی نظر میں معادقرآن مجید نے سیکڑوں آیات میں معاد سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور اس کے بارے میں ہر قسم کے شک و شبہہ کی نفی کی ہے بصیرت کی افزائش اور عدم امکان کودور کرنے کے لئے اور اشیاء کی اولین خلقت اور خدا کی قدرت مطلقہ کے بارے میں بہت سے مواقع پر لوگوں کو یادد ہانی کراتے ہوئے فرماتاہے :(اولم یر الانسان انا خلقناہ من نطفة فاذا ہو خصیم مبین٭ و ضرب لنا مثلاونسی خلقہ قال من یحی العظام و ہی رمیم٭ قل یحییہا الذی انشأہا اوّل مرّة و ہو بکل خلقٍ علیم ) (یٰسین٧٧۔٧٩)”تو کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیداکیاہے اور وہ یکبارگی ہمارا کھلا ہوادشمن ہوگیاہے اور ہمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے، کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے؟ آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پید اکیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے ”اور کبھی جاڑے میں مردہ ہوجانے والی زمین کو بہارمیں زندہ کر کے لوگوںکے انکار کو خدا کی قدرت کی طر ف متوجہ کیا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:(ومن آیاتہ انک تری الارض خٰشعة فاذا انزلنا علیہا الماء اہتّزّت وربت انّ الذی احیاہالمح الموتی انہ علی کل شی ء قدیر) (فصلت٣٩)”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم زمین کو صاف اور مردہ دیکھ رہے ہواور پھر جب ہم نے پانی برسادیا توزمین لہلہا نے لگی اور اس میں نشو و نما پیدا ہوگئی، بیشک جس نے زمین کو زندہ کیا ہے وہی مردوں کا زندہ کرنے والا بھی ہے اور یقینا وہ ہر شے پر قادر ہے ”اور کبھی عقلی استدلال سے سامنے آکر انسان کی خدا داد فطرت کو اس حقیقت کے اعتراف پر ابھاراہے، چنانچہ فرماتا ہے:(و ما خلقنا السماء و الارض و ما بینہما باطلاً ذلک ظنّ الذین کفروا فویل للّذین کفروا من النّار٭ ام نجعل الذین آمنوا و عملوا الصٰلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجّار ) (ص٢٧۔٢٨)”اورہم نے آسمان اور زمین او ران کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے (کیونکہ اگر مقصد یہی ہوتا کہ مثلاََ انسان پیدا ہوتا اور چند دن گھومنے کے بعد سوتا اور مرجاتا اور اس طرح دوسرا انسان آتا اور اس سلسلہ کی تکرار ہوتی تو کائنات کی خلقت بیہودہ اورایک کھلونے سے زیادہ نہ ہوتی ، جبکہ بیہودہ کا م خدا سے کبھی انجام نہیں پاتاہے) یہ تو صرف کافروں کا خیال ہے اور کافروں کے لئے جہنم میں ویل کی منزل ہے کیا ہم ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد بر پا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقوی کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں ۔ (کیونکہ اس دنیا میں اچھا اور برا کام انجام دینے والے اپنے اعمال کی مکمل جزا نہیں پاسکتے، اگر دوسری دنیا نہ ہوتی، کہ جہاں ان دونوں گروہوں کو ان کی رفتار و کردار کے مطابق واقعی سزاملتی تووہ دونوں گروہ خدا کے نزدیک یکسان ہوتے اور یہ عدل الہی کے خلاف ہے)۔
موت سے قیامت تک
بدن مرتا ہے نہ کہ روحاسلام کی نظر میں، انسان ،روح وبدن سے تشکیل پائی ہوئی ایک مخلوق ہے۔انسان کاجسم بھی بذات خود مادہ اورمادہ سے مر بوط قوانین کی تر کیبات میں سے ایک ہے ،یعنی اس کے لئے حجم اور وزن ہے۔اس کی زندگی ایک زمان و مکان میں ہے ،سردی ،گرمی وغیرہ سے متا ثر ہوتا ہے اور تدریجاََ بوڑھا او ر کمزور ہو تا ہے اور ایک دن خدائے متعال کے حکم سے پیدا ہوا تھا ،آخرکار ایک دن تجز یہ ہو کر نا بود ہو جا تا ہے۔لیکن روح،مادی نہیں ہے اور مادہ کی مذکورہ خاصیتوں میں سے کوئی ایک اس میں نہیں پائی جاتی ہے،بلکہ علم ،احساس،فکر اور ارادہ کی صفت کے علاوہ دوسری معنوی صفات جیسے: محبت ،کینہ ،خوشی غم ،اور امید وغیرہ اس سے مخصوص ہیں ۔اور چونکہ روح میں مادہ کی مذکورہ خصوصتیں نہیں پائی جاتیں۔ لہذا معنوی خاصیتیں بھی مادی خاصیتوں سے الگ ہیں ،بلکہ دل ودماغ اور بدن کے دوسرے تمام اجزاء اپنی بے شمارسر گرمیوں میں روح اور معنوی صفات کے تابع ہو تے ہیں ،اور بدن کے اجزاء میںسے کسی ایک کوفرمانروا کا مرکز قرارنہیں د یا جاسکتا ۔خدائے متعال فرماتا ہے :(ولقد خلقنا الا نسٰن من سلٰلةٍ من طین٭ ثم جعلناہ نطفة فی قرار مکین ٭ ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظٰما فکسونا العظٰم لحماً ثم انشأنہ خلقا آخر…) (مؤمنون١٤١٢)”اور ہم نے انسا ن کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بنا کر رکھا ہے ٠پھر نطفہ کو علقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے ،پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے …”
اسلام کی نظر میں موت کے معنیمذکورہ اصل کے مطابق اسلام کی نظر میں موت کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان نابود ہوتا ہے ،بلکہ یہ ہے کہ انسان کی روح لافانی ہے ،بدن سے اسکا رابطہ منقطع ہوجا تا ہے ، نتیجہ میں بدن نابود ہو جاتا ہے اور روح بدن کے بغیر اپنی زندگی کو جاری رکھتی ہے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :(وقالوأَ اذ ا ضللنافی الارض أَئِ نّا لفی خلق جدید بل ہم بلقاء ربہم کافرون ٭قل یتوّٰفکم ملک الموت الذی وُکِّل بکم …) (سجدہ١١١٠)”اور کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہو گئے (مر گئے)تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے ۔بات یہ ہے کہ یہ اپنے پرور دگارکی ملا قات کے منکر ہیں ۔آپ کہدیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جوتم پر تعینات کیا گیا ہے۔”
برزخاسلام کا نظریہ ہے کہ انسان،مرنے کے بعد ایک خاص طریقے سے زندہ رہتا ہے۔ اگر اس نے نیکی کی ہو تواسے نعمت وسعادت ملتی ہے اور اگربراتھا تو عذاب میں ہو گا ،اور جب قیامت برپا ہو گی تو اسے عام حساب و کتاب کے لئے حاضر کیا جائے گا۔ جہاں پر انسان مرنے کے بعد قیا مت تک زندگی کرتا ہے اسے”عالم برزخ”کہتے ہیں ۔اس سلسلہ میں خدائے متعال فر ماتا ہے:(…ومن ورآئہم برزخ الی یوم یبعثون) (مؤ منون ١٠٠)”…اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیا مت کے دن تک قائم رہنے والا ہے ”(ولا تحسبنَّ الذین قتلوا فی سبیل اللّہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرز قون ) (آل عمران ١٦٩)”اور خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کومردہ خیال نہ کر نا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں ۔”
قیامت یقینی ہےہر انسان (بلااستشنا) اپنی خداداد فطرت سے، اچھائی اوربرائی کام میں فرق کو محسوس کرتا ہے اور نیک کام کو (اگرچہ اس پر عمل نہ کرتا ہو)اچھا اور لازم العمل جانتا ہے اور برے کام کو(اگر چہ اس میں پھنسا بھی ہو)برااورلازم الاجتناب جانتا ہے ۔اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیںہے کہ اچھائی اور برائی ،نیکی اور بدی ان دو نوں صفتوں میں موجود سزا اور جزاکی جہت سے ہے اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسادن نہیں ہے جس میں اچھے اور برے انسانوں کوان کی اچھائی اور برائی کی سزا اور جزا دی جائے، کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے نیک انسان اپنی زندگی انتہائی تلخی اور سختی میں گزارتے ہیں اور بہت سے برے انسان جو گناہ اورظلم وستم میں آلودہ ہیں لیکن پھر بھی خوشی اورآرام وآسائش میں زندگی گزارتے ہیں ۔اس بناپر ،کہ اگر انسان کے لئے اپنے مستقبل میں اور اس دنیا کے علاو دوسری دنیا میں ایک ایسا دن نہ ہو کہ جس میں اس کے نیک اور برے اعمال کا حسا ب کر کے اسے مناسب سزا و جزا دی جائے ،یہ نظریہ (نیک کام اچھا اور واجب الاطاعت ہے اور برا کام برا اور واجب الاجتناب ہے)انسان کی فطرت میں قرار پایا ہے ۔یہ تصور نہیں کیا جانا چاہئے کہ نیک کام کرنے والوں کی جزاجسے انسان اچھا سمجھتا ہے۔ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ معاشرہ کے انتظامات بر قرار ہوتے ہیں اور نیک لوگ زندگی کی سعادت حا صل کرتے ہیں اور نتیجہ میں اس منافع کا ایک حصہ خودنیکی کرنے والے کو ملتا ہے اوراسی طرح بدکار اپنے نا مناسب کردار سے،معاشرہ کو درہم برہم کردیتا ہے اوراسکا نا مناسب کام آخرکار خود اس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے،کیونکہ یہ تصور اگر چہ سماج کے پسماندہ اور مفلس طبقہ کے لوگو ں میں کسی حدتک پایا جاتاہے .لیکن جو لوگ اپنی قدرت کے عروج پر پہنچے ہیں اور معاشرہ کا انتظام وخلل ان کی خوشبختی اور کامیابی میںموشر نہیں ہے،بلکہ معاشرہ میں جس قدرافراتفری اورفساد ہو اور لوگوں کے حالات بدتر ہوںوہ زیادہ خوشحال اور کامیاب ہوتے ہیں اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ ان افراد کی فطرت نیک کام کو نیک اوربرے کا م کو برا جانے!یہ بھی تصورنہیں کرنا چاہئے کہ یہ لوگ اگر چہ اپنی چند روزہ زندگی میں کامیاب رہے ہوں، لیکن کسی وجہ سے ان کا نام ہمیشہ کے لئے عام طور پر آنے والی نسلوں کی نظروں میں ننگ و عار سمجھاجائے گا، کیونکہ ان کے نام کا ننگ وعار کی صورت میں ظاہر ہو نا اور لوگوں کا ان کے بارے میں خیال رکھنا اس وقت ہوگا، جب وہ مرچکے ہوں گے اور اس ننگ و عار کا ان کی اس دنیا میںگئے خوشحال او رلذت اندوز زندگی پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑے گا۔اس صورت میں کوئی دلیل نہیں ہوگی کہ انسان نیک کام کو اچھا جان کر اسے انجام دے اور برے کام کو براجان کراس سے پرہیز کرے،اور اس طرح مذکورہ نظریہ کا قائل ہو۔ اگر معاد کا وجود نہ ہو تو یہ اعتقاد قطعا ایک خرافائی اعتقاد ہوگا۔لہذا ہمیں خالق کائنات کی طرف سے ہماری فطرت میںودیعت کئے گئے اس مقدس اورمستحکم اعتقاد سے یہ سمجھنا چاہئے کہ معاد کا ہوناضروری ہے اور انسان کے لئے ضرور ایک دن ایسا آئے گا، جس دن اسے خالق کائنات کے حضور اس کی رفتار و کردار کے حساب و کتاب کے لئے پیش کیا جائے گا جہاں پر اسے نیک کاموں کی جزااو ربرے کاموں کی سزادی جائے گی۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.