اسلام میں جہاد

213

جہاد کے کلی مسائلہرمخلوق کا اپنی ذات کادفاع کرنا اوراسی طرح اپنے منافع کادفاع کرناایک عام قانون ہے جوعالم خلقت میں بلا چون وچراثابت ہے۔انسان بھی اپنی حیثیت سے اپنی ہستی اور منافع کادفاع کرتا ہے اوردوسروں کے ماننددفاع کی توانائیوں سے مسلح ہے تاکہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرسکے ۔انسان اپنی خدادادجبّلت اورفطرت سے قائل ہے کہ اسے اپنادفاع کرناچاہئے اوراپنے اس دشمن کونابودکرد ینا چاہے جوکسی بھی وسیلہ سے اس کو نابود کرنے سے باز نہیں آرہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اس کے حیاتی منافع پرقبضہ کرنا چاہے تواسے دفاع کی غرض سے اٹھنا چاہئے اور ہر ممکن طریقے سے اس کو روکنا چاہئے ۔یہ فطری موضوع جوایک انسان کی فطرت میں ثابت اورپائدارہے ،اسی طرح انسانی معاشروں میں بھی ثابت ومستحکم ہے۔یعنی جودشمن معاشرے کے افراد یامعاشرے کی آزادی کے لئے خطرہ ہو،وہ اس معاشرے کی نظرمیں سزائے موت کا مستحق ہے اور جب سے انسان اور انسانی معاشرے ہیں یہ فکران میں ثابت اوربرقرار ہے کہ ہرفرداورمعاشرہ اپنے جانی دشمن کے بارے میں ہرقسم کا فیصلہ کرسکتا ہے اورردعمل دکھا سکتا ہے ۔اسلام بھی ۔جوایک اجتماعی دین ہے اور توحید کی بنیاد پر استوار ہے ۔حق اور عدالت کے سامنے تسلیم نہ ہونے والوں کواپنا جانی دشمن جانتا ہے اورانھیں نظام بشریت میں مخل جان کران کے لئے کسی قسم کی قدر وقیمت اوراحترام کا قائل نہیں ہے اور چونکہ خود کو عالمی دین جانتا ہے اس لئے اپنے پیروئوں کے لئے کسی ملک اور سرحدوں کی محدودیت کا قائل نہیںہے اور جو بھی شرک کے عقیدہ میں مبتلا ہو اور واضح منطق اور حکیمانہ پند و نصیحت کو قبول نہ کرتا ہو اور حق اوراحکام الہیٰ کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتا ہو ،تو اسلام اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے تاکہ وہ حق وعدالت کے سامنے ہتھیار ڈال دے ۔مختصر یہ کہ جہاد کے سلسلہ میں اسلام کے قوانین بھی یہی ہیں اور وہ مکمل طور پراس روش کے مطابق ہیں جوہرانسانی معاشرہ کی اپنی فطرت کے مطابق اپنے جانی دشمنوں کے بارے میںہے ۔اسلام ،بدخواہ دشمنوں کے پروپیگنڈوں کے باوجود،تلوار کا دین نہیں ہے،کیونکہ اسلام کی روش سلاطین کی روش نہیں ہے کہ جن کی دلیل ومنطق صرف تلواراورسیاسی حربے ہوتے ہیں ، بلکہ اسلام ایک ایسا دین ہے،جس کابانی خدائے متعال ہے ،جواپنے آسمانی کلام میں لوگوں کے ساتھ منطق وعقل کی بنیاد پر بات کرتا ہے اوراپنی مخلوقات کو اس دین کی طرف دعوت دیتا ہے جوان کی فطرت کے مطابق ہے۔جس دین کی عمومی تحےّت،سلام ہواور اس کا عمومی پروگرام قرآن مجید کے نص کے مطابق’والصلح خیر'(١)ہو،وہ ہرگز تلوارکا دین نہیں ہوسکتا۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں،جب اسلام کی نورانیت نے تمام حجازکو…………..١۔ نسائ١٢٧۔منور کررکھاتھا اور مسلمان اہم جنگوں اورسخت مقابلوں میں مبتلا تھے ، تو اس وقت قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد دوسوسے زیادہ نہ تھی اور قتل ہونے والے کفار کی تعداد ایک ہزارتک نہیں پہنچی تھی ۔کتنی بے انصافی ہے کہ ایسے دین کوتلوارکادین کہا جائے ۔
اسلام میں جنگ کے مواقعاسلام ،جن کے ساتھ جنگ کرتا ہے ،وہ حسب ذیل چند گروہ ہیں :
١۔مشرکین :مشرکین یعنی وہ لوگ جو توحید،نبوت اورمعاد کے قائل نہیں ہیں ۔ان کو پہلے اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ اور بہانہ باقی نہ رہے،دین کے حقائق کو ان کیلئے واضح کرکے تشریح کرتا ہے ،پس اگرانہوں نے قبول کیا تودوسرے مسلمانوں کے بھائی اور نفع ونقصان میں برا بر ہوںگے ،اور اگر قبول نہ کیا اور حق وحقیقت کے واضح ہونے کے باوجودتسلیم نہ ہوئے تو اسلام ان کے مقابلہ میں اپنادینی فریضہ’جہاد’کو انجام دیتا ہے ۔
٢۔اہل کتاب:اہل کتاب’یہود ،عیسائی اورمجوسی ہیں’اسلام ان کوصاحب دین اورصاحب کتاب آسمانی جانتا ہے۔یہ لوگ توحید ، نبو ت مطلقہ اورمعاد کے قائل ہیں ان لوگوں کے ساتھ بھی مشرکین جیسا سلوک کرنا چاہئے ،لیکن چونکہ اصل توحید پر عقیدہ رکھتے ہیں ،لہذاجز یہ ادا کرکے اسلام کی پناہ میں آسکتے ہیں ،یعنی اسلام کی سرپرستی کو قبول کریں اوراپنی آزادی کی حفاظت کریں اوراپنے دینی احکام پر عمل کر یں ۔تو دوسرے مسلمانوں کی طرح ان کی جان ،مال اورعزت محترم ہوگی اور اسکے عوض میں اسلامی معاشر ہ کوکچھ مال ادا کریں گے ،لیکن ان کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈے،دین کے دشمنوں کی مدد اوردوسرے ایسے کام انجام نہیں دینا چاہئے جو مسلمانوں کے نقصان میں ہو ۔
٣۔بغاوت اورفساد برپا کرنے والے :بغاوت اور فسار برپا کرنے والے یعنی وہ مسلمان جواسلام ومسلمین کے خلاف مسلحانہ بغاوت کرکے خونریزی کریں ،اسلامی معاشرہ ان کے ساتھ جنگ کرتا ہے تاکہ وہ ہتھیارڈال کرفساد اوربغاوت سے ہاتھ کھینچ لیں ۔
٤۔دین کے دشمن:دین کے دشمن جودین کی بنیاد کو ویران کرنے یاحکومت اسلامی کو نابودکرنے کے لئے حملہ کریں ،تو تمام مسلمانوں پرواجب ہے کہ دفاع کریں اوران کے ساتھ کافرحربی کاسلوک کریں ۔اگراسلام ا ورمسلمین کی مصلحت کاتقاضاہو تواسلامی معاشرہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ و قتی طور پر جنگ بندی کا معاہدہ کرسکتا ہے ،لیکن یہ حق نہیں ہے کہ ان کے ساتھ ایسا دوستانہ رابطہ برقرار کرے کہ ان کے گفتاروکردارمسلمانوں کے افکارواعمال پر منفی اثرڈال کرانھیں خراب کر دیں ۔
جہاد کے بارے میں اسلام کا عام طریقہاسلامی معاشرہ پر فرض ہے کہ اگر جہادکے شرائط موجودہوں تو،اُن کفارسے راہ خدا میں جنگ کریں جن کی سرحد ملی ہوئی ہے، اورہرمسلمان بالغ،عاقل،صحت منداورجس کے ہاتھ پائوں اورآنکھ صحیح و سالم نہ ہوں،پرجہادواجب کفائی ہے۔اسلام کے لشکرپر فرض ہے کہ جب دشمن کے ساتھ مقابلہ پر آئے ،تودینی حقائق کو ان کے لئے اس طرح بیان اورواضح کرے کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اوران کو حق کی طرف دعوت دے اورصرف اس صورت میں جنگ کا اقدام کرے کہ حق کے واضح ہونے کے بعدبھی وہ دین کوقبول نہ کریں ۔اسلام کے سپاہی کو دشمنوں پرپانی بندنہیں کرنا چاہئے اوردشمن پر شب خون نہیں مارناچاہئے دشمن کی عورتوں ،بچوں ،ناتواں بوڑھوں اوردفاع کی قدرت نہ رکھنے والوں کو قتل نہیں کرناچاہئے ،دشمن کے برابر یادوگنا ہونے کی صورت میں میدان جنگ سے فرارنہ کرے۔اگرہم اسلام کے جنگی طریقہ کو ترقی یافتہ ملتوںکے جنگی طریقوںسے مواز نہ کریں، جوہرخشک وتر کوجلادیتے ہیں اورکسی کمزوراوربیچارہ کے حال پررحم نہیںکرتے،تو واضح ہو جائے گا کہ اسلام کس قدرانسانیت کے اصول کاپابند ہے ۔
حکومت،قضاوت اورجہاد کیوں مردوں سے مخصوص ہے ؟معاشرے کے حساس ترین اجتماعی امور کہ ،جن کی باگ ڈورصرف عقل واستدلال کے سپردکی جانی چاہئے اوران میں جذبات واحساسات کی کسی صورت میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے ، وہ حکومت،قضاوت اور جنگ کے شعبے ہیں ۔ کیوںکہ مملکت کے امور کو چلانے اور ،معاشرے میں پیداہونے والی دشمنیوں کو حل کرنے میں ہزاروں ناقابل برداشت واقعات اور طرح طرح کی چہ می گوئیوں اور جان ، مال،عزت و ابرو کی دھمکیوں جیسے گوناگوں مسائل سے دوچار ہوناپڑتا ہے کہ جس کو نہایت قوی اور مستقل مزاج افراد کے علاوہ کوئی طاقت برداشت نہیں کرسکتی کہ اوران تمام مسائل سے چشم پوشی کرکے صبر نہیں کیا جاسکتاہے،اورگوناگوںمخالفتوں کے درمیان اجتماعی عدالت کو نافذنہیں کیا جاسکتا ہے ،جو اس عہدہ کاحامل ہو اسے دوست ودشمن ،برُے اوربھلے،چاپلوس اوربد گو ئی کرنے والے اورعالم وجاہل کوایک نظرسے دیکھناچاہئے اوراپنے خواہشات نفساتی کے برعکس حکومت کرنی چاہئے اور فیصلہ دینا چاہئے ۔بدیہی ہے کہ جس کے وجودمیں جذبات کاغلبہ ہو تا ہے وہ اس کام کو انجام دینے کی توانائیاں نہیں رکھتا ہے ۔جب جذبات حکومت اورقضاوت سے عاجز ہوں گے تو جنگ کے شعبہ میں بدرجہ اولیٰ نامناسب ہوں گے کیونکہ دوسرے اجتماعی امورکے برعکس جنگ میں ہرخشک وتر کو جلا دیتے ہیں جنگی سپاہی اوردشمن کے شیر خوار بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ اسلام کا جنگی طریقہ عدالت کی بنیاد پر استوار ہے، البتہ اس قسم کی کا طریقہ جذبات کے غلبہ سے عمل میں نہیں لایا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر جنگ کے وقت جذبات اور ہمدردی کی بناپر قطب موافق کی طرف مائل ہوا تو ضرورت سے زیادہ نرمی اختیار کرکے شکست کھائے گا اور اگر قطب مخالف کی طرف مائل ہوا، تو حد سے تجاوز کرکے، گنہگاراور بے گناہ کویکسان سمجھ کر انسانی اصول و ضوابط کو پامال کرے گا۔اس سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کی حقانیت کی بہترین دلیل یہ ہے کہ مغربی ممالک نے مدتوں سے عورتوں کو معاشرے میں مردوں کے دوش بدوش قرار دیا ہے اور تعلیم و تربیت سے ان کی نشو نما کرتے ہیں او راب تک حکومت کے عہدوں ، عدلیہ کے عالی مقامات اور جنگی سرداروں کے عہدوں پر مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے کوئی قابل توجہ ترقی نہیں کی ہے۔ البتہ خانہ داری او ربچوں کی تربیت کے کاموں میں، کہ جن کا سرچشمہ جذبات اور ہمدردی سے ہمیشہ پیش قدم رہی ہیں۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک مختصر جملہ میں معاشرے میں عورت کی حیثیت و منزلت کو یوں بیان فرمایا ہے:’فانّ المرة ریحانة و لیست بقہرمانة'(١)’بیشک عورت ایک خوشبودار پھول ہے نہ سورما’اور یہ ایک بہترین جملہ ہے جو اسلامی معاشرے میں عورت کی اجتماعی منزلت کی نشاندہی کرتاہے۔پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ عورتوں کے بارے میں نصیحت فرماتے تھے، یہاں تک کہ آنحضرتۖ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جو آخری کلمہ فرمایا اور اس کے بعد آپۖ خاموش ہوگئے وہ یہ تھا:’اللّہ اللّہ فی النسائ'(٢)…………..١۔ وسائل الشیعہ ، ج ١٤، ص ١٢٠، باب ٨٧۔٢۔ بحار الانوار، ج ٣٢، ص ٥٣٠۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.