شيطان محرك افعال

234

شيطان محرك افعال:
گفتگو كاموضوع استعاذه تھا كه استعاذه اهل تقويٰ كاخاصه هے ورنه جولوگ پرهيزگار نهيں هيں،شيطان خود ان كے وجود ميں متمكن هے اور ان كي جمله حركات وسكنات اسي كي انگيخت پرهوتي هيں وه كس سے فرار كريں گے اور كس سے الله تعاليٰ كي پناه جائيں گے شيطان سے فرار تو وهي چاهے گا جو اهل تقويٰ هوكر جونهي شيطان اس كےدل سے قريب هوتاهے،وه فوراًذكر خداميں مصروف هوكر اس ملعون كي وسوسه اندازي پر مطلع هوجاتاهے اور استعاذه كي قوت سے اسے فرار پر مجبور كرديتاهے.اهل تقويٰ هميشه محتاط هوتے هيں كه ان سے حرام سزد نه هو او ركوئي واجب ان سے فوت نه هو اگر شيطاني گروه كا كوئي فرد ان كے دل سے نزديك هوتاهے تو انهيں فوراً خبرهوجاتي هے اور وه استعاذه ميں مصروف هوجاتے هيں اور جب شيطان ديكھتاهے كه يهان اس كي خير نهيں تو بھاگ جاتاهے.اهل تقويٰ جب ذكر خدا ميں مشغول هوتے هيں تو اپنے نور بصيرت ومعرفت سے دام ابليس كو ديكھ ليتے هيں.ميري عرض يهاں لفظ “مبصرون” سے هے يعني اهل تقويٰ ذكر خداسے بصيرت حاصل كركے دام ابليس كو اپني آنكھوں سے ديكھ ليتے هيں اور جب اسےاپني شامت نظر آتي هے تووه وهاں سے نودوگياره هوجاتاهے.يه بهت مبارك بات هے كه مومن شيطاني وسوسوں كے بارے ميں صاحب بصيرت هو خواه وه وسوسے عقائد كے ضمن ميں هوں يا اخلاقيات ياعبادات كے ضمن ميں.
انبياءسے بھي باز نهيں آتا:
كچھ وسوسے اس كے اعتقادي نوعيت كے هوتے هيں اور اس باب ميں وه انبياء كے دلوں ميں بھي وسوسه اندازي سے نهيں چوكتا.روايت هے كه شيطان جناب عيسيٰ  پر ظاهر هوا جبكه آنحضرت ايك پهاڑكي چوٹي پر كھڑے تھے اس نے آپ سے مخاطب هوكر كهاائے روح الله اگر آپ اس پهاڑ پرسے نيچے گرجائيں تو كيا آپ كي جان بچاسكتاهے آپ نے فرمايا:هاں ميں اپني بصيرت ومعرفت كي بناء پر پورے يقين سے كهه سكتاهوں كه وه مجھے ضرور بچاسكتاهے. كهنے لگا اگر آپ كا كهنا درست هے تو آپ كو گراديجئے تاكه وه آپ كو بچالے.عيسيٰ سمجھ گئے كه اس ملعون كا كام هي مغالطه كاري اور وسوسه انداز هے لهذا جوا ب ميں‌فرمايا: اسے ملعون تو يه چاهتاهے كه ميں الله تعاليٰ كا امتحان كروں يه تولفظ هي غلط اور شيطاني هے.جب ميراايمان هے كه وه ذات قدير يقيناً مجھے بچاسكتي تو اس آزمائش كي غرض سے كه آيا يه ممكن هے يا نهيں تو چاهتاهے كه ميں اپنے آپ كو گرادوں؟.علاوه از ين ميرے خالق نے مجھے اس كام سے نهي فرمائي هے كيونكه خودكشي فعل حرام هے.هاں اگر توبے اختيار گرجائے اور الله تعاليٰ كي مشيّت يه هو كه توبچ جائے توه تجھے بچانے پر قادر هے.
حضرت مسيح كي شيطان لعين سے گفتگو:
روايت هے كه ايك دفعه شيطان نے حضرت عيسيٰ سے كها:اے روح الله آپ هي خدائے محي ومميت هيں.آپ هي خدائے عليم وخيبر هيں…جناب عيسيٰ نے فوراً ڈانٹ ديا كه ملعون كيابكتاهے ميں تو اس كا بندده اور غلام هوں جس كي عاپر وه ذات اقدس مردوں كو زنده كرتي هے.جب جناب مسيح نے اس طرح اس ملعون كے وسوسوں كو ردكيا تووه فرياد كرتاهوا آپ كے پاس سے بھاگ گيا اس قسم كے اعتقادي وسوسے وه اهل تقويٰ كے دل ميں ڈالتاهے ليكن وه ذكر الهي كے نورسے سمجھ جاتے هيں كه يه شيطاني وساوس هيں مثلاًكبھي وه كسي مومن متقي كے دل ميں يه بات ڈالتاهے كه فلان آدمي جوان وتوانا هے،گدا كيسے بن گيا ايسي وسوسه كاري سے اس كامقصد يه هوتاهے كه حكمت وقضائم الهي كے بارے ميں مومن كےدل كو شك ميں مبتلا كردے.ليكن ذكر الهيٰ سے شرفياب مومن اس كے جواب ميں كهے گا:استغفرالله ميري كيا مجال كه حكمت ومشيّت خداوندي ميں داخل انداز هوں.منه چھوٹا اور بڑي بات !ميراايمان هے كه اس كا كوئي فعل حكمت سے خالي نهيں هوتا.
ابراهيماور شيطان كي وسوسه اندازي:
اعمال كے بارے ميں بھي چونكه صاحب تقويٰ كي يه تمناهوتي هے كه كاخير انجام دے شيطان كي انتهائي كوشش هوتي هے كه اس سے كوئي نيك كام سزد نه او راگر هوجائے تو بعد ميں اسے خراب كي كوشش كرتاهے مثلاً يه كه فاعل خير كو تكبر يار يا وغيره ميں مبتلا كرديتاهے قصه مختصر يه كه يه ملعون هرنكي كا دشمن هے.مثال كے طور پر پھر ايك مثال الله تعاليٰ كے ايك برگزيده نبي كي پيش كي جاتي هے.آپ نے حضرت ابراهيم كے بارے ميں سناهوگا كه جب آپ كو الله تعاليٰ كي طرف سے حكم ملاكه اپنے نوجوان تيره ساله جمال ظاهر وباطني وار ايمان ومعرفت كے حاصل نورنظر اسماعيل كو مني پر لے جاكر قربان كرو تو شيطان سراسيمه هوگيا كيونكه اسے خوب معلوم تھا كه اگر ابراهيميه كام كر گذرے تومقام خلّت پر فائز هوجائيں گے ليكن كرے تو كيا كرے!سب سے پهلا كام اس نے يه كيا جناب هاجره كےدل ميں وسوسه ڈالا اور ان سے كها: ميں نے ايك سن رسيده انسان كو ديكھا هے كه ايك لڑكے كو همراه لئے جارهاتھا آپ كاوه كيا لگتاهے؟هاجره نے فرماياوه ميرے شوهر هے كهنے لگا آپ جانتي هيں كه ان كا اراده كيا هے وه آپ كے بچے كاسركاٹيں گے جناب هاجره نے فرمايا:ابراهيم نے كبھي كسي دشمن كوبھي تكليف نهيں پهنچائي ،بھلا اپنے هي بيٹے كاسروه كيوں كاٹنے لگا .ابليس نے كهاان كاخيال هے كه انهيں الله تعاليٰ نے ايسا كرنے كا حكم ديا هے يه عظيم خاتون نے فوراً سمجھ گيئں كه يه شيطان هے اور انهيں وسوسے ميں مبتلا كررهاهے فرمانے لگيں ملعون دور هو اگر الله كا حكم هے تو سب ٹھيك هے.
ابليس ايمان كي آزمايش:
ابليس كي خلقت كا مقصد اس امر كا امتحان هے كه الله تعاليٰ اور روزجزاء پر ايمان ميں كون ثابت قدم هے اور كون كشمكش اور تذبذب كاشكار.چنانچه واضح طور پر كلام پاك ميں ارشادهے:> وَ ما كانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطانٍ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْها فِي شَك‏ < اور شیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوتا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہے .اگرچه جنبا هاجره عورت هيں ليكن ان كے ايمان كي پختگي اور ضبط نفس كا يه عالم هے كه اپنے اكلوتے بيٹے كو جوجمال ظاهري حسن باطن اور مكارم اخلاق كے اعليٰ مقام پر فائز هے ،الله تعاليٰ كے نام پر قربان كرنے كے لئم بلاتوقف وتذبذب راضي هوجاتي هيں اور امرخدا كے سامنے اپني ماتا كو ايك بے حقيت چيزسمجھ نظرانداز كرديتي هے.
حضرت ابراهيم پر شيطان كي وسوسه اندازي:
اس كے بع ابراهيم كے پاس آيا اور كهنے گلا آپ كيا كرنا چاهتے هيں؟آپ نے فرمايا:اسماعلي كو قربان كرونگا شيطان كهنے لگا اس نے كوئي جرم توكيا نهيں ابراهيم نے جواب ديا : الله كا حكمت هے.شيطان نے كها: اگرآپ اسے قتل كريں گے تو كيا خدا كي خوشنودي كے حصول كي غرض سے آپ كا يه عمل دوسرں كے لئے سنت قرار نهيں پاجائے گا؛ابراهيم نے پھر اپنا جواب دهرايا كه خداكا حكم يهي هے.شيطان بولا گيا يه ممكن نهيں كه يه امر خداوندي نه هو اس پر حضرت ابراهيم نے اس ملعون كو پتھر مارا اور اسي مناسبت پر دوران حج رمي جمرات سنت قرار پائي.يه چند مثاليں هيں شيطان كي وسوسه اندازي كي مومن كو چاهئے كه ذكر خدا ميں مصروف رهے تاكه اس كے وساوس اس پر اثر انداز هوسكيں بالخصوص خداكي راه ميں خرچ كرنے كے بارے ميں تو اس كي انتهائي كوشش يه هوتي هے كه يه فعل محل ميں نه آئے پھر يه ملعون ازلي اسماعيل كي طرف متوجه هوا جو اپنے والد محترم كے پيچھے پيچھے جارهے تھے اور كهنے لگا صاحبزادے!جانتے هو كه تمهارے والد تمهيں كهاں لے جارهے هيں اسماعيل نے فرمايا:نهيں كهنےت لگا ان كا اراده هے تمهيں ذبح كرنے كا هے اسماعيلنے پوچھا وه يه كام كيسے كرسكتے هيں شيطان نے كها ان كا كهناهے كه يه خدا كا حكم هےت حضرت اسماعيل نے جواب ديا اگر خدا كا حكمت هے تو ميري جان اس پر فدا هے ليكن اس كے باجود جب شيطان وسوسه اندازي پر مصر رها تو جناب اسماعيل  نے فرمايا كه باباجان يه ديكھئے كون هے جوميرے پيچھے پڑاهواهے آپ نے فرمايا شيطان هے اسماعيل نے بھي اس ملعون پر سنگ باري كي.
كياهم نے بھي كبھي شيطانت كو دھتكار اهے:
جناب حاجي صاحب آپ نے جو حضرت ابراهيم كي اقتداء ميں شيطانت پررمي جمرات كيا يه رمي جمرات صرف مناسك حج ميں هي منحصر نهيں هوناچاهئے بلكه آپ كي ساري عمر اسے اپني لعنت كا نشانه بنانا چاهئے.كهااں ميں وه لوگ جوهروسوسه شيطاني كم موقعه پر اس پر لعنت كے پتھر برساتے هيں مردانه وار اس كے مقابلے ميں قائم رهتے هيں غيظ وغضب كے عالم ميں خود كو قابوميں ركھتے هيں اور فعل حرام كي خواهش كے جوش كے وقت اپنے اپ ميں رهتے هيں.كبھي ايساهوتاهے كه انسان كوئي كارخير انجام دينا چاهتاهے تو شيطان دوسرے انداز سے كهتاهے فلان كام اس سےبدر جهابهتر هے وه شخص تردد ميں متبلا هوجاتاهے اور دونوںت ميں سے كوئي كام بھي نهيں كرتا اور فعل خيرسے بھي محروم هوجاتاهے .
عظيم تركون؟:
روايت هے كه جب دونوں باپ بيٹے نے امر الهيٰ كي تعميل كے لئے مستعد هوئے باپ بيٹے كو قربان كرنے كے لئے اوربيٹا خداكي راه ميں قربان هونے كے لئے اور بوڑھے‌باپ نے بيٹے كے جوان چهر كو خاك پر اور تيز چھري كو اس كے گلے پر ركھا تو ملائكهت حيران هوگئے اورآپس ميں ايك دوسرے سے پوچھنے لگے باپ بيٹے سے عظيم ترهے يابيٹا باپ سے؛باپ عظيم ترهے جواپني زندگي كے ثمر كو اس طرح قربان كررهاهے يابيٹا جوعنفوان شباب ميں اپني عزيز جان خدا كے حضور پيش كررهاهے.دونوں اپنے امتحان ميں كامياب هوئے ليكن> وَ فَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيم‏<الله تعاليٰ كي تقدير يه تھي كه اسماعيل ذبح نه هو.اے مومنت !حضرت ابراهيم نے فرزند كي قرباني آماده هوگے،اسماعيل نے راه خدا ميں اپني عزيزجان سے صرف نظر كرديا تو صرف اجنبي عورت كے جسم كو چھونے،نظر حرام اور لقمه حرام هي سے صرف نظر كرلے روحاني مقام اور الهيٰ درجات مفت نهيں ملتے.رنج و محن بغير نه گنج گراں ملےيه ميري اور آپ كي مرضي پر منحصر نهيں هے كه بدكارانسان جزا كا حقدار هوجائے> لَيْسَ بِأَمانِيِّكُمْ وَ لا أَمانِيِّ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِه‏< کوئی کام نہ تمہاری امیدوں سے بنے گا نہ اہلِ کتاب کی امیدوں سے- جو بھی کام کرے گا اس کی سزا بہرحال ملے گی.خداكے نيك بندوں كے مقام اور همنشيني انبياء مقربين كو پانےت كے لئے عمل مجاهده نفس اور نفس اماره پر پورے قابوكي ضرورت هے.
گريه ابراهيم:
روايت هے كه جب حضرت ابراهيم نے ديكھا كه چھري كاٹ نهيں رهي اور پھر جب معلوم هوا كه قرباني كا حكم منسوخ هوگيا هے تو انهيں بهت افسوس هوا اور ان پرگريه طاري هوگيا جبرئيل نازل هوئے اور انهوں نے پوچھا آپ كيوں گريه كررهے هيں؛آپ نے جواب ديا معلوم هوتاهے كه ميں اس قابل نه تھا كي ميري قرباني بارگاه ايزدي ميں قبول هو جبرئيل نے كها :آپ نے امتحان كي ساري شرطين پور ي كرديں اوراس ميں خوب كامياب هوئے پھر اس مقصد كے لئے آپ كے دل پر رقت طاري هو اور بيٹے كے ذبح هونے كا اجر آپ كو ملے ،جبرئيل نے آپ كے سامنے مصائب سيدالشهدا امام حسين بيان كئے.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.