شيطان سے‌دشمني

324

شيطان سے‌دشمني ركھو:
هم نے عرض كيا كه جب تك كوئي شخص شيطان سے‌دوري اختيار نهيں كرے گا حقيقت استعاذه اس ميں پيدانهيں هوگي.گناه كا مرتكب انسان كا اطاعتت گذارهےالله تعاليٰ>فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا<اسے اپنا دشمن جانو،وه تمهارا ازلي دشمن هے‌تم بھي اس سے دشمني كرو،اس كے دوست نه بنو .ليكن اگر تم گناه كروگے تو يه اس كي عين اطاعت هوگي اور اطاعت دوستي كالازمه هے هميشه خبردار هوركه يه كينه دشمن تمهاري گھات ميں هے.ايك لحظ بھي انسان سے غافل نهيں اور نه انسان اس كے شرسے كوئي لحظ محفوظ هے .اگر آپ خود كو اس سے امان ميں سمجھتے هيں تو يه آپ كي بے خبري اور بھول هے.
كياشيطان سوتاهے:كسي نے ايك خدارسيده عالم سے دريافت كياكه كيا روايات ميں شيطان كے بارے ميں كهيں آياهے كه وه سوتا اور آرام كرتاهے؛عالم عارف نے مسكرابڑاپرلطف جواب ديا فرمانے لگے:اگراس ملعون پر كبھي نيند طاري هوسكتي تو هميں كچھ آرام مل جاتا.جب آپ محوخواب هوتے هيں تويه ملعون پوري طرح بيداهوتاهے وه كبھي نهيں سوتا.بلكه هميشه آپ كي نگراني كرتا هے اور آپ كي ضرررساني كے لئے آپ كي گھات ميں رهتاهے.> إِنَّهُ يَراكُمْ هُوَ وَ قَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لا تَرَوْنَهُم‏<وه اور اس كے كارندے ايسي جگه سے آپ كو ديكھتے جهاں سے آپ نهيں ديكھ سكتے،وه آخردم تك آپ كا پيچھا نهيں چھوڑتاا.
آپ كو مسلح رهنا چاهيئے:پھر هميں كيا كرنا چاهيئے اور جب دشمن اس قدر قوي و چالاك هے اور هر ظاهر اور مخفي طريقے سے همارے درپے هے تو هم پر كيا فرض عائد هوتاهے يهي تاكه هم پورے طور پر مسلح هوں اور هميشه مسلح رهيں اور جب دشمن هر لحظه آپ كي معمولي سي غفلت كامنتظر هے تو آپ كو بھي چاهيئے كه كسي لحظه اپنا اسلحه نه اتاريں اگر آپ نے ايك لحظه كے لئے بھي اپنا اسلحه اتاريا ايك لمحه كے لئے بھي غافل هوئے تو آپ كي خير نهيں.انسان كا اسلحه تقويٰ هے ابليس كے مقابل آپ كو هميشه خبردار اور مسلح رهنا چاهئيے.
مومن كا اسلحه مستحبات اور ترك مكروهات:اپني قوت و استطاعت كے مطابق مستحبات انجام دينادفع دشمن اور اس كے رفع شركے لئے بهت موثر هے .اسي طرح ترك مكروهات حتيٰ كه ترك غفلت بھي اس مقصد كے لئے بهت مفيد هے.جتنا انسان دشمن سے غافل هوگا اور گناهوں پر عمل پيراهوگا اتناهي خود كو اژدھا كے منه سے قريب لے جائے گا اور اسي اندازے سے شيطان كا تقريب بھي حاصل كريگا ليكن اتني دوستي اور قربت كے باوجود بھي اگر شيطانت بوقت مكافات عمل اس كے سرسے هاتھ اٹھالے اور دوستي كا كوئي پاس نه كرے تواس سے بڑي بدبختي اور كيا هوسكتي هے؟!
شيطان تدريجااپنے جملوں ميں شدت لاتاهے:اس كي ابتدائي كوشش يه هوتي هےت كه مومن كومكروهات كے ارتكاب پر اكسائے اس كے بعد وه اس كے سامنے گناهاں صغيره كي راه كھولتا هے پھر ان پر اصرار پر اور انهيں معمولي سمجھنے پر جوخود ايك گناه كبيره هے.جناب مصنف كي كتاب “گناهاں كبيره” اور اسي طرح “قلب سليم” ميں يه موضوع پوري شرح وبسط كے ساتھ بيان كيا گيا هے اسے مجبور كرتاهے اس كے بعد اسے گناهاں كبيره پر لگاديتاهے اور آخرميں اس كے قلب وروح پر غلبه وتسلط حاصل كركے اس كے ايمان پر حمله آور هوتاهے اور مومن كو وسوسه اور شك ميں مبتلا كركے اسے اپنا صيد زبوں بناليتاهے كه اس بچارے كويه سمجھنے كے قابل بھي نهيں رهنے ديتا كه وه كس دام ميں پھنس گياهے.صرف اهل تقويٰ هي اپنے كاري اسلحه كي مدد سے خود كو شيطان كے شرسے محفوظ كرسكتے هيں بچارے نهتے لوگوں كي كيا مجال كه ملعون دشمن كے مقابلے ميں‌آئيں.
وضو مومن كا تيز دھار اسلحه هے:بهت سے مستحبات هيں جودفع دشمن كے لئے ضروري اسلحه ميں شمار هوتے هيں ان ميں سے ايك وضوء هے،حضورﷺ كا ارشاد هے”الوضوء سلاح المؤمن”وضوء مومن كا هتھيار هے،مومن كا فرض هے كه شيطان كے سامنے خود كو يوں سمجھے كه دشمن كے مقابلے ميں صف آرا هے لهذا لازمي طورپر وضوء رهے اور جسم كو هميشه پاك وطاهر ركھے.اور سب سے بهتريه هے كه هميشه باوضوء رهے اور جب وضو كئے هوئے كافي وقت گذرجائے هرچند وضو نه ٹوٹا هو تو اس كي تجديد كرے كيونكه”الوضوء نور والوضوء علي الوضوء نور علي نور”وضو نور هے اور وضو پر وضو نور علي نور هے،يهي وضو وه نور هے جوشيطانت كي افريده ظلمت كو دور كركے ضلالت سے بازركھتاهے.سوتے وقت بھي وضو كركے بستر پر جانا مستحب هے آپ كو چاهئے كه مسلح هو كر سوئيں تاكه آپ كے وضو كا نور نيند كے دوران شيطان كي ظلمت كو آپ سے درور كھے.
روزه اور صدقه سے شيطان كي كمر ٹوٹتي هے:اس اسلحه ميں چند هتھيار ايسے هيں جن سے مسلح رهنے كي تاكيد سرور عالم خاتم الانبياءﷺ نے فرمائي هے:” وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِأَصْحَابِهِ أَ لَا أُخْبِرُكُمْ بِشَيْ‏ءٍ إِنْ أَنْتُمْ فَعَلْتُمُوهُ تَبَاعَدَ الشَّيْطَانُ عَنْكُمْ كَمَا تَبَاعَدَ الْمَشْرِقُ مِنَ الْمَغْرِبِ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الصَّوْمُ يُسَوِّدُ وَجْهَهُ وَ الصَّدَقَةُ تَكْسِرُ ظَهْرَهُ وَ الْحُبُّ فِي اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمُؤَازَرَةُ عَلَى الْعَمَلِ الصَّالِحِ يَقْطَعُ دَابِرَه‏” “حضورﷺ نے صحابه سے فرمايا…روزه سے شيطان كامنه كالا هوتاهے صدقه سے اس كي كمر توڑ تاهے استغفار سے اس كي رگ حيات كٹتي هے اور الله تعاليٰ كي محبت اور عمل صالح سے اس كي جڑاكھڑجاتي هے”.روزه سے،اگر آپ اس كي سكت ركھتے هوں،آپ كے دشمن كو روسياهي ملتي هے.اگر غيب كے پردے آپ كي آنكھوں سے اٹھالئے جائيں تو آپ ديكھيں گے كه شيطان ملعون كا مكروه چهره آپ كے روزے كے اثر سے سياه هوگياهے.ليكن شيطان اتنا كمز ورناتوان بھي نهيں هے كه آساني سے ايك روزه ركھت كر آپ اس ك منه كالاكرديں گے اور صدقه كي ايك هي ضرب سے اس كي كمر توڑديں گے انسان كو چاهيئے كه هر عمل پورے اخلاص سے انجام دے اور هفت حجاب سے گذرابليس كي كمر توڑكراسے خاك ملادے.پھر صدقه هے كه حضورﷺ كے ارشاد كے مطابق شيطان كي كمر توڑتاهے ضرور توڑتاهے ليكن اس كے لئے اس كا بارگاه الهيٰ ميں مقبول هونا شرط هے.
ميں نے شيطان كي ماں كو ديكھا:انوراجزائري ميں منقول هے ايك دفعه قحط ساي كے دوران ايك واعظ مسجد كے منبر پر بيٹھا كهه رها تھا :اگر كوئي چاهئے كه صدقه دے تو ستر شيطان كے هاتھ سے چمٹ جاتے هيں اور اس سے باز ركھنےم كي كوشش كرتے هيں.ايك مومن جومنبر كے پائے كے ساتھ بيٹھا يه سن كر تعجب سے‌اپنے ساتھيوں سے كهنے لگا:بھلا صدقه سے شيطان كا كي تعلق هے لوميرے پاس گھرميں گندم موجود هے ميں‌ابھي جاتاهوں اور اسے مسجد ميں لاكر فقراء ميں تقسيم كرتاهوں بھلاديكھوں شياطين مجھے كيسے روكتے هيں.پس اٹھا اور گھر چلاگيا.جب گھر پهنچا اور اس كي بيوي اس كے ارادے سے آگاه هوئي تو اسے سرزنش كرنے اور ڈانٹنے لگي كه اس قحط كے زمانے ميں اپني اور اپنے بيوي بچوںت كي پروا نهيں كرتے هو شايد يه قحط طول پكڑجائے تو هم بھوكے مريں گے.وغيره وغيره..بهرحال وسوسه ميں مبتلا هوكر وه مرد مومن خالي هاتھ مسجد ميں اپنے ساتھيوں ميں واپس آگيا.دوستوں نے پوچھا :كياهوا خالي هاتھ لوٹ آئے هو ديكھا !آخر وه شيطان تمهارے هاتھ سے چمٹ هي گئے او رانهوں نے تمهيں صدقه نهيں دينے ديا.اس نے جواب ديا:”شيطان تو مجھے نظر نهيں آئے البته ان كي ماں كو ميں نے ضرور ديكھا جو اس كارخير ميں ركاوٹ بني”.الغرض انسان چاهتاهے كه شيطان كا مقابله كرے ليكن آپ ديكھتے هيں كه بعض اوقات بيوي يا اس كي دوست عورتوں كي مصلحت بيني كي وجه سے وه ايسا نهيں كرسكتا.اور صدقه يه بھي نهيں هے كه جب كوٹٹول كھرچ كر ايك دورروپيه نكاال كردے ديں كيونكه>لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون‏< تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راه خدا میں انفاق نہ کرو.آپ كي مالي قوت كيا هے؟اگر آپ واقعي مال دار هيں تو تاوقتيكه پانچ سو يا هزار روپيه كا چك جيب سے نه نكاليں گے شيطان كي كمز نهيں ٹوٹے گي.اور وه بھي اس شرط پر كه اس عطئے كو جتلا كر يا اس كے بارے ميں دوسرے شخص كو اذيت ديكر باطل نهيں كرديں گے.نمائش اور شهرت كا تو ذكر هي كيا؟!
توبه بھي ايك طاقتور هتھيار هے:شيطان اپني هر ممكن كوشش سے انسان كو گناه كي دلدل ميں ڈالتاهے اس وقت اگر انسان سچے دل سے توبه كرلے تو شيطان كا دل ٹكڑےٹكڑے هوجاتاهے.ليكن دشمن بهت هوشيار هےاور اپني سي انتهائي كوشش كرتاهے كه انسان توبه تك نه پهنچ سكے،وه اس كے دل ميں القاء كرتاهے آخر هواكيا ؟كون اس اتنا بڑا گناه تم نے كرليا هے كه اب نادم هو .نهيں ديكھتے كه دوسرے كيا كچھ كرتے پھر تے هيں ابھي تو تم جوان هو اتني جلدي بھي كيا هے .اگر توبه ضروي هي كرني هے تو بڑھاپے ميں كرلينا.اس وقت تو به ٹھيك رهے گي كيونكه كمزوري اور ناتوان كي وجه سے توبه توڑنهيں سكو گے اور وه قائم رهے گي.اب جواني كے عالم ميں كي هوئي توبه اس توبه شكن دنيا ميں كيسے قائم ره سكتي هے…
دوطاقتور شيطان كش هتھيار:مزيد طاقتور هتھيار جوكه بنيﷺ كے فرمان كے مطابق شيطان كونابود كرسكتے هيں دو هيں : ايك خداكي مخلصانه اطاعت اور دوسرے عمل صالح پر مداومت.
هم نفس كے ماروں كو به هنگام قيامتافسوس بهت هوگا كه كيوں نفس نه مارايه جهاد اكبر هے كه الله تعاليٰ سے محض اسي كي ذات كے لئے اپنے منافع و مصالح اور خواهش نفس كو يكسر نظر انداز كركے دوستي كي جائے يه جهاد كفار كے ساتھ جهاد سے افضل هے .كيونكه اپنے حقيقي داخلي دشمن نفس اماره سے هے.اگر جهاد كامياب نه هواتو كفار كے ساتھ جهاد بھي ناكام رهے گا بلكه شيطان هي كي انگيخت پر هوگا جس ميں جان بھي بهر حال جائيگي اور عاقبت بھي برباد هوگي.حضرت امام سجاد اپني دعاميں يوں عرض كرتے هيں:”اے پروردگار ميں اس دشمن سے تيري پناه طلب كرتاهوں.اے گھر كے مالك يه كتامجھ پر حمله آورهوتاهے ميري فرياد كو پهنچ اور مجھے اس سے بچا”.”واغوثاه من عدو استكلب علي”
ابليس پائے امام سجاد كوكاٹتاهے:”مدينة المعاجز” ميں مذكور هے كه جناب سيد ساجدين ايك روز نماز ميں مصروف تھے ابليس نے چاها كه امام كي استغراق كي كيفيت مي كمي هوجائے .انپے ايك چيلے كو اس نے حكم ديا كه امام كو كوئي جسماني اذيت پهنچا كر آپ كي توجه الي الله استغراق في الله ميں خلل ڈالدے.وه راضي هوگيا اور روايت ميں‌آيا هے كه اس نے ايك بڑے سے اژدھاكي شكل اختيار كي”هم اس سے پهلے بيان كرچكے هيں كه شيطاطين كوئي بھي شكل اختيار كرسكتے هيں اور امام كے پاس آيا آپ بدستور بے حس و حركت عبادت ميں مصروف رهے.اس ملعون نے پائے مبارك امام كے انگوٹھے كو كاٹ ليا ليكن آپ كو اس كا هر گز كوئي احساس نه هوا پس آسمان سے قهر الهيٰ كي ايك خوفناك گونج نے اس لعين كے اس فعل كو قطع كيا اور زمين وآسمان كے درميان آواز بلندهوئي”انت زين العابدين” آپ واقعي عبادت گذاروں كي زينت اور ان كے لئے سرمايۀ فخر ونازهيں”.اس وصف عظيم كے مالك يه فخر عبادت گذاران عالم الله كے حضور التجاء فرماتے هيں كه اے پروردگار مجھے ا س كتے سے اپني پناه ميں ركھ اے صاحب آستانه قدس مجھے اس كے حملے سے محفوظ ركھ.
شيطاني هتھكنڈوں سے لوگوں كو آگاه كرو:سيد الساجدين حضرت امام زين العابدينكا حال بيان كيا گيا تو هم ناچيز كس شمار قطار ميں هيں جو جهل ميں اسير اپني ذات سے بھي بے خبر هيں جس كي وجه سے هم شيطان كي ادانيٰ سي انگيخت پرراه راست سے بھٹك جاتے هيں.اے اهل عقل شيطاني هتھكنڈوں سے عوام كو رشناس كراؤ .فسا اخلاق كے ان اسباب نے شيطان كي آنكھيں آگے هي بهت ٹھنڈي كردي هيں تم مزيد اس كے شيطاني كارناموں پر مهر تصديق ثبت نه كر نهي عن المنكر هر انسان پر واجب هے كم از كم ان شيطاني كاموں سے نفرت كا اظهار كرو.اس كے لئے تو كوئي شرط نهيں هم سب كا فرض هے كهاس غلط اور نازيبا صورت احوال سے نجات حاصل كريں.هروه شخص جوكسي كے فعل بد كوديكھے اور اس پر ناراضگي كا اظهار ن كرے بلكه اس سے خوش هو،اس كے گناه ميں شريك سمجھاجائے گا.كبھي ايسا بھي هوتاهے كه ايك شخص صرف معاشره كي نظروں ميں گرجانے كےخوف سے سينماتھيڑيا فسق وفجور كے دوسرے مقامات ميں نهيں جاتا .ليكن ان جگهوں سے دلي طور پر نفرت نهيں كرتا تو اس كا مطلب يه هے كه وه خدا سے زياده بندوں سے ڈرتاهے.وه بھي يقيناً گناهوں ميں برابر كا شريك هے.
بال سے باريك اور تلوار سے تيز:كهيں ايسا نه هو كه هم بھي شيطان ملعون كے هي ساتھي هوں اور وه همارے رگ و پے او رگوشت پوست ميں رچابسا هواهو.ايسا نه هو كه اپنے‌خيال كے مطابق توهم كار خير انجام دےرهے هوں اور بزعم خود حسنات بجالارهے هوں ليكن در اصل يه سب كچھ شيطان هي كي انگيخت پر هورهاهو.يه مقام اتنانازك هے كه بال سے باريك اور تلوار سے تيزهے آپ كو معلوم هي هے كه صرف ايك نقط كے اضافے سے محروم بن جاتاهے.بقول حاجي نوري ،بعضي لوگ اسي غرور ميں هلاك هوجاتے هيں كه وه حضرت علي كے محب هيں وه سمجھتے هيں كه محبت كا صرف زباني دعويٰ انهيں جنت ميں لے جانے كے لئے كافي هے.اگر دل سے حب عليپرقائم هوں تودين كے جمله احكام كي پوري اخلاص سے تعمل كريں اور نه عين ممكن هے كه حب عليكے كھوكھلے دعوے بھي شيطان هي كي انگيخت كے مرهون منت هوں.ايے بچاره وبے بس مسلمان خبردار هو كه تيرے ايمان كي اصل خطرے ميں هے اگر شيطان نے تجھے وقت مرگ وسوسے ميں مبتلا كردياتو كيا كرے گا.اپنے زعم ميں تو تُوعلي كامحب هے.يه زبان كياهے تيرادل كس كے سامنے جھكاهواهے.كهاں جارهارهے ،كس كي اطاعت ميں مبتلا هے بس وهي تيرا محبوب و مطلوب بھي هے خدانے چاها تو حب عليبھي موجود هے ليكن ايسا نه هو كه اس پر كوئي اور محبت غالب آجائے سچ بتاتُواپني نفساني خواهشات كو دوست ركھتاهے يا علي كو اپني دنياسے زياده پيار كرتاهے يا دين سے اگرتيري دنيادرست هوجائے تو كيا تجھے آخرت كي كوئي فكر باقي نهيں رهے گي…..
امور آخرت به نيت دنيوي:دلوں كو شياطين شكار كرچكے هيں.آخرت كي فكر كسے هے جب حضرت ابوالفضل عباس كي مجلس ميں تو سل كے لئے جاتے هيں كه فلان دنيوي حاجت پوري هوجائے پس يه عبادت كار دنيا كے سدھرنے كي عرض سے كرتے هيں اور بهانه اس كا”توسل” كوبناليتے هيں.اگر بلاتوسل آپ كا يه كام هوجاتا تو جناب ابولفضل عباسسے آپ كو كوئي سروكار نه هوتا.كيا كبھي ايسا بھي هواهے كه اس ارادے سے آپ نے توسل كيا هو كه حب علي پرزندگي كاانجام هو ايسا نه هو كه يه مختصرسي دوستي دم نزع شيطاني تصرفات كي وجه سے هو.
تين لاكھ كافاصله:روايات ميں‌آيا هے كه بعضي محبان علي تين لاكھ سال (كےعذاب كے)بعد حضرت امير المؤمنين تك پهنچيں گے.يه بات بالكل صحيح هے كيونكه آپ كا دل كاهزاروان حصه علي كے لئے تھا خدمت امام ميں پهنچنے سے قبل يه حجابات دور هونے ضروري هيں پهلے غير كي بے حقيقت محبت كارنگ دل سے برطرف هوگا تو عليپهنچنا ممكن هوگا اے‌اميرالمؤمنينآپ خودهي نظر كرم فرماديں.هميں اميد كرني چاهئے كه هماري موت حب اهل بيت عليهم السلام پر هو اور حق تعاليٰ كا فضل و كرم همارے شامل حال رهے.
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.